بی جان زین کو دھمکی دینے کے بعد پر سکون تھیں انہیں لگا تھا کہ زین اب کبھی بھی میڈیا کی طرف نہیں جائے گا زین مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے تھا بی جان بھی پر سکون تھی پر گھر نے بھی زین کہ خاموشی پر سکون کا سانس لیا تھا انہیں لگا تھا کہ زین اپنی بے جا زد بی جان کی دھمکی کی وجہ سے چھوڑ چکا ہے پر کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ خاموشی تو طوفان کے آنے سے پہلے کی خاموشی ہے
بی جان کو ٹی وی سے چڑ تھی اس لیے گھر کے افراد ٹی وی بی جان کے سامنے کم ہی چلاتے تھے اور ٹی وی صرف رئیسہ بیگم اور حمدان صاحب کے کمرے میں تھا بی جان تو ٹی وی گھر میں رکھنا ہی نہیں چاہتی تھیں پر حمدان صاحب نے ان کو سمجھایا تھا کہ آج کل کے دور میں ٹی وی ضروری ہے ملک کے حالات کے بارے میں جاننے کیلے کب کہاں کیا ہو جائے ہم اب اتنے بے خبر بھی نہیں رہ سکتے دنیا سے کٹ کے ۔۔۔۔۔
ان کی نات پر بی جان نے کہا تھا تو اخبار ہے نہ اس لیے
بی جان اخبار میں آج کی خبر کل چھپتی ہے ۔۔۔۔اور ایسے کتنے ہی دلائل دیے تھےاورانہوں نے کسی طرح قائل کر کے بی جان کو منا ہی لیا تھا وہاں پر بھی صرف خبریں دیکھنے کی اجازت تھی بچے بھی کبھی کبھار بی جان سے چھپ کے ٹی وی دیکھ لیتے اور اگر بی جان کو خبر ہو جاتی تو ان کو سخت سزا ملا کرتی تھی
آج بھی معمول کے مطابق صبح کو ناشتہ کرتے وقت حمدان صاحب ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے دیکھ رہے تھے تبھی بی جان ان کے کمرے میں آئی تھیں
بی جان کو دیکھ کر حمدان صاحب کھڑے ہوئے تھے اور بی جان کو سلام کیا تھا بی جان نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا تھا اور ان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تھیں حمدان ذاحب نے جلدی سے ٹی وی کا ریموٹ ڈھونڈتے ہوئے ادھر اُدھر نظریں گھمائی تھیں اور ریموٹ ڈھونڈ کر ابھی وہ آف کا بٹن ہی دبانے لگے تھے جب سامنے ٹی وی سکرین پر زین شاہ کا چہرہ نظر آیا تھاانہوں نے جلدی سے ٹی وی بند کرنا چاہا تھا پر کو ئی فائدہ نہیں تھا بی جان دیکھ چکی تھیں اور ان کے جسم میں ایک سرد لہر دوڑی تھی
زین سامنے ٹی وی سکرین پر پُر اعتماد انداز میں اپنے نئے شروع ہونے والے پروگرام کو پروموٹ کر رہا تھا
السلام وعلیکم میں ہوں آپ کا ہوسٹ زین شاہ اور بہت جلد آرہا ہوں ایک نئے مقصد کے ساتھ ایک نئے پروگرام سچ کی کھوج جہاں ہو گا بہت سے سفاک اور ظالم لیڈروں کا پردہ فاش بہت جلد صرف۔۔۔۔ نیوز چینل پر
اسی کے ساتھ وہ ایڈ ختم ہوا تھا اور نیا شروع ہوا تھا بی جان کی آنکھوں سے انگاعے نکلنے لگے تھے اور وہ چپ چاپ اپنی کرسے سے اٹھ کر باہر کی طرف چل دی تھیں حمدان صاحب سلب ہوئے حواس کے ساتھ وہیں کھڑے رہے تھے کیونکہ اب بی جان اپنے فیصلے سے ایک انچ نھی پیچھے ہٹنے والی نہیں تھیں یہ وہ جانتے تھے
________________________________________
زین شایان کے پاس گیا تھا سارے ثبوت اکھٹے کرنے اور اب سمرین کے گھر آیا تھا وہ کسی بھی طرح سمرین کے والدین کو میڈیا کے سامنے آکر سچ بتانے پر قائل کرنا چاہتا تھا
اس وقت بھی وہ اس کے ابو کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا
انکل اگر آپ آج پیچھے ہٹ جائیں گے تو ناجانے اور کتنے لوگوں کی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ہوگا آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں
کیا کوشش کروں سمجھنے کی جب پولیس تک نے اس کے خلاف کوئی رپورٹ تک نہیں لکھی کوئی ایکشن نہیں لیا صرف اس لیے کہ وہ ایم این اے کا بیٹا ہے تو تمہارا میڈیا کیا کر لے گا میں اپنی بیٹی پر اور انگلیاں نہیں اٹھانا چاہتا ۔۔۔۔۔
انکل بس یہ آخری بار آپ میری بات مان لیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سمرین کو انصاف دلوا کر رہوں گا
تبھی پاس بیٹھی سمرین بولی تھی
زین بھائی میں تیار ہوں میں خود کو اور ان لڑکیوں کو جو آج تک ایسے درندوں کا نشانہ بنتی آئی ہیں سب کو انصاف دلوا کر رہوں گی بابا کیا آپ میرا ساتھ نہیں دیں گے
اپنی بات ختم کر کے اس نے پُر امید نظروں سے باپ کو دیکھا تھا اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور سرخ ہورہی تھیں
اس کے والد ساجد صاحب نے اس کی پُر امید آنکھوں میں دیکھا تھا اور اس کا ساتھ دینے کے لیے ہاں میں سر ہلا دیا تھا
ان چند مہینوں میں ان کی بیٹی بہت بدل گئی تھی کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور سرخ ہورہی تھیں اور ان میں حزن ٹھہرا تھا
وہ اپنی بیٹی کو انصاف دلانے کا خود سے عزم کرتے اب زین سے مکمل تفصیلات معلوم کر رہے تھے
________________________________________
زین کوسمرین کے گھر کافی وقت لگ گیا تھا زین جس وقت گھر پہنچا تو دوپہر کے دو بج رہے تھے ابھی اس نے لاؤنج میں قدم رکھا تھا
وہیں رک جاؤ زین ۔۔۔۔بی جان کی گرجتی ہوئی آواز نے اس کے قدم روکے تھے زین نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تھا وہ سرخ چہرہ لیے وہاں شاید اسی کے انتظار میں کھڑی تھیں ان سے کچھ فاصلے پر رئیسہ بیگم آئمہ اور حلیمہ پریشان سی کھڑی تھیں
اب تمہاری اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے ہمیں اس بات کا اتنا دکھ نہیں ہے کہ تم ٹی وی میں کام کر رہے ہو بلکہ ہمیں اس بات کا زیادہ دکھ ہے کہ تمہارے لیے ہمارے اصول کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ہم ایسے فرد کو ان مزید برداشت نہیں کریں گے
زین نے پریشانی سے اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا جن کی آنکھیں آنسو سے بھر گئی تھیں
بی جان آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں میں کوئی۔۔۔۔۔
زین بس اب ہم مزید کچھ نہیں سننا چاہتے نکل جاؤ ہمارے گھر سے ہمارے گھر میں ایک ایسے فرد کی جگہ نہیں جو خاندان کی عزت مٹی میں ملائے
بی جان غضبناک آواز میں بولی تھیں
پر بی جان میں نے ایسا کیا کر دیا ہے میں نے کچھ غلط نہیں کیا میں تو ایک مظلوم لڑکی کو۔ ۔۔۔۔۔۔
زین نے ان کو سمجھانا چاہا تھا
اب اس گھر میں تمہاری کوئی جگہ نہیں
بس زین ہم کچھ نہیں سننا چاہتے چلے جاؤ اس گھر سے
بی جان یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔۔۔رئیسہ بیگم صدمے سے بولی تھیں
جس کو ہمارا فیصلہ منظور نہیں وہ اس باغی لڑکے کے ساتھ ہمارے گھر سے ہمیشہ کے لیے ہر رشتہ توڑ کر جا سکتا ہے ۔۔۔
بی جان سپاٹ لہجے میں بولی تھیں اور وہاں موجود تمام نفوس کو سانپ سونگھ گیا تھا
اور زین شاہ کو صرف ایک لمحہ لگا تھا فیصلہ کرنے میں اس نے ایک مظلوم لڑکی اور اس کے بے بس باپ کو امید دلائی تھی انصاف کی اب وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا
زین نے رخ موڑا تھا اور تیز تیز قدم چلتا داخلی دروازہ عبور کر گیا تھا گھر کے سب نفوس خاموش تماشائی بنے سب کچھ دیکھتے رہء پر وہ آج بھی فضول قسم کے اصولوں اور روایات سے بندھے تھے آج بھی ایک بیٹے کے والدین کو بیٹے کی جدائی اٹھانی تھی کیونکہ وہ آج تک بی جان کے اصولوں کے خلاف نہیں گئے تھے نہ ہی ان میں ہمت تھی
بی جان سرد تاثر لیے اندر کی جامب بڑھی تھیں پھر پیچھے مڑے بغیر انتہائی سرد لہجے میں سب سے مخاطب ہوئی تھیں
اگر کسی نے اس سے رابطہ رلھنے یا ملنے کی کوشش کی تو اس کا بھی یہی انجام ہو گا
اپنی بات مکمل کرتیں وہ چلی گئی تھیں
________________________________________
زین کے جانے کے ایک مہینے بعد بی جان نے حلیمہ کا رشتہ بغیر پوچھے زمان شاہ جو کہ حلیمہ کی پھوپھو کا بیٹا تھا اس سے جوڑ دیا تھا جس پر حلیمہ تو سکتے میں ہی آگئی تھی ابھی ایک غم سے نکلی نہیں تھی کہ دوسرا غم اس کے لیے تیار تھا
حلیمہ کے رونے پر حلیمہ کی والدہ نے امجد صاحب سے بات کی تھی
کیا آپ اب بھی خاموش رہیں گے اپنی بیٹی کیلیے تو کم سے کم لڑیں میں اپنی بیٹی کو اس طرح سسکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔انہوں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تھا
اور امجد صاحب جو بی جان سے پہلے ہی اس معاملے پر بات کر چکے تھے اور مایوس لوٹے تھے چپ چاپ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئے تھے
________________________________________
زین شایان کے ساتھ اس کے فلیٹ پر رہنے لگا تھا اب دونوں مل کر سمرین والے کیس میں ساتھ کام کرتے اس کے علاوہ وہ نیوز چینل پر بھی اینکر کے فرائض سر انجام دے رہا تھا
دلاور سیٹھ کو انجام تک پہنچانا اتنا آسان نہیں تھا اس کا بڑی بڑی سیاسی شخصیات سے ملنا جلنا تھا اس کے خلاف آدھے سے زیادہ ثبوت اکھٹے ہو گئے تھے پر زین مکمل تیاری کے ساتھ اس کا گھیرآؤ کرنا چاہتا تھا
زین مکمل طور پر گھر کے حالات سے واقف تھا جب اسے زمان شاہ اور حلیمہ شاہ کے رشتے کا پتہ چلا تو وہ آگ بگولا ہو گیا تھا پر اپنے آپ پر قابو پایا تھا اسے بس سہی وقت کا انتظار تھا اور اپنے کام کو اور زیادہ تیزی سے سرانجام دینے لگا تھا
_______________________________________
السلام عليكم ناظرین میں ہوں آپ کا ہوسٹ زین شاہ اور اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں پروگرام سچ کی کھوج اور اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں ایسے ماں باپ جن کی بیٹی کو دو درندوں نے اپنا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا وہ لڑکی جس کی ایک ہفتے بعد شادی تھی اس کی دنیا اجڑ گئی اس کے سسرال والوں نے یہ کہہ کر رشتے سے انکار کر دیا کہ ایسے کیسے کوئی کر سکتا ہے اس لڑکی کی اپنی مرضی ہو گی ہمیں تمہاری آوارہ بیٹی سے شادی ہی نہیں کرنی ۔۔۔۔۔
اس سب میں اس معصوم اور مظلوم لڑکی کا قصور کیا ہے اور جب انصاف مانگنے کیلیے اس لڑکی کے والد نے تھانے میں رپوڑٹ درج کرانا چاہی تو پولیس والوں نے ان کو دھکے دے کر نکال دیا صرف اس لیے کہ وہ ایم اہن اے کا بیٹا ہے کیا یہی ہے ہمارے معاشرے کا انصاف کیا یہی ہے ہماری پولیس کی کارکردگی کیا ساری عمر مائیں بہنیں بیٹیاں اس معاشرے میں غیر محفوظ رہیں گی کیا ہماری ان بہنوں کو کبھی انصاف نہیں ملے گا
زین اس وقت اپنا پروگرام پورے اعتماد کے ساتھ کر رہا تھا اس کیلیے تو وہ اپنے سارے رشتوں سے ناطوں سے اتنی دور ہوا تھا
کیا زین سمرین کو انصاف دلوا پائے گا ؟
_________________________________________