آج پھر سے زین نے اپنا سارا غصہ میرے اوپر اتارا اس بار میں اسے بلکل بھی معاف نہیں کرو گی وہ ہمیشہ اسی طرح کرتا ہے اس بار وہ جتنا مرضی منا لے مجھے میں اس سے بلکل بات نہیں کروں گی
حلیمہ دن بھر کی باتیں ڈائری میں لکھ رہی تھی جو کہ اس کی عادت تھی اس کہ شروع سے عادت تھی ہر روز رات کو ڈائری لکھتی اور دن بھر کہ ساری باتیں اس میں لکھتی تھی
اس وقت بھی وہ زین کا شکایت نامہ لکھنے میں مصروف تھیاس کا چہرہ ناراضگی سے پھولا ہوا تھا تبھی کسی نے پیچھے سے آکر ڈرایا تھا بھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلیمہ ڈر کے مارے اچھلی تھی اس کی ڈائری اس کی گود سے نیچے گری تھی اور اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنی دل کی تیز ہوتی دھڑکن کو قابو کرتے پیچھے سے آتے قہقہہ کی آواز کے تعاقب میں دیکھا تھا زین پیچھے کھڑا دانت پھاڑ ریا تھا
اس کی آنکھوں میں خفگی کے ساتھ غصے کا تاثر بھی ابھرا تھا
زین کے بچے آج تم میرے ہاتھوں سے قتل ہو گے
حلیمہ نے نیچے گری ڈائری کو اٹھاتے ہوئے اس اسے زین کے سر کا نشانہ لیا تھا اور زین نے اپنے بچاؤ کرتے ہوئے ڈائری کو کیچ کر لیا تھا
میری ڈائری واپس دو
حلیمہ نے غصے میں کہا تھا
یہ تو تبھی واپس ملے گی جب تم میرا سوری قبول کرو گی
زین نے شرارت سے کہا تھا اور ڈائری والا ہاتھ اوپر کر لیا تھا
حلیمہ نے اس کے پاس آکر اس سے ڈائری چھیننے کی کوشش کی تھی پر زین کا قد لمبا ہونے کی وجی سے اس کا ہاتھ زین کے ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا
زین کیا مسئلہ ہے لمبو نہ ہو تو میری ڈائری واپس دو اور تم نے مجھ سے سوری کیا ہی کب ہے جو تمہارا سوری قبول کروں
ہانی نے مزید منہ پھلاتے ہوئے ناراضگی سے کہا تھا
اوکے تو اب کر ہا ہوں سوری
زین نے اپنے ہاتھ سے حلیمہ کا کان کھینچتے ہوئے تھا
اف اللّه اتنی زور سے کھینچا ہے تم نے میرا کان جاؤ یہاں سے میں نے تم سے بات ہی نہیں کرنی کل بھی تم نے مجھے اتنی زور سے ڈانٹا تھا
حلیمہ منہ موڑ کر کھڑی ہو گئی تھی
اوکے پھر میں تمہاری ڈائری لے کر جا رہا ہوں پڑھ کر واپس کر دوں گا نہیں کرنا معاف تو کوئی بات نہیں۔۔۔
زین آنکھوں میں شرارت لیے جانے کیلئے مڑا تھا اور حلیمہ جھٹکے سے مڑتی فوراً اس کے سامنے آئی تھی دیکھو میری ڈائری دو کسی کی ڈائری پڑھنا انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے
حلیمہ نے زین سے ڈائری چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا
نہیں تو اب تو میں اس ڈائری کو پڑھ کر ہی دوں گا۔۔۔
اور زین نے پھر سے ہاتھ اوپر کر لیا تھا اس بار حلیمہ کی آنکھوں میں نمی تیرنے تھی کیونکہ اس ڈائری میں اس نے اپنے زین کے باری میں سارے جذبات تحریر کیے تھے لیکن اگر وہ ان کو پڑھ لیتا تو وہ ندامت سے نظریں نہ ملا پاتی عورت محبت میں ہر چیز پر سمجھوتا کر لیتی ہے لیکن کبھی اپنے منہ سے مرد سے پہلے اپنے منہ سےمحبت کا اظہار نہیں کرتی بے۔۔۔۔۔۔۔
شک وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے پر یہ خاموش محبت تھی نہ تو کبھی زین نے اظہار کیا تھا اور نہ ہی کبھی حلیمہ نے کچھ رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں جہاں اظہار کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی تھا
زین جو صرف اس سے مذاق کر رہا تھا اس کی آنکھوں کو نم ہوتا دیکھ کر اس کی ساری شرارت ہوا ہو گئی تھی اس نے فوراً وہ ڈائری پاس پڑی سائیڈ ٹیبل کے اوپر رکھی تھی
ہانی ایم سو سوری یار میں تو تمہیں منانے آیا تھا صرف مذاق ہی تو کر رہا تھا اور تم سیریس ہو گئ ہانی اب معاف کر بھی دو یہ لو میں اب اپنے دونوں کان پکڑ لیتا ہوں ۔۔۔کہتے ساتھ زین نے اپنے دونوں کان پکڑ لئے تھے
اگر کہو تو اٹھک بیٹھک بھی کر سکتا ہوں بس تم مان جاؤ
زین نے چہرے پر بیچارگی سجاتے ہوئے کہا تھا
حلیمہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی تھی اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے جنہیں زین نے نرمی سے اپنے ہاتھوں سے چن لیا تھا
ہانی آئی پرامس اب میں تم پر غصہ نہیں کروں گا پلیز اس بار معاف کر دو ۔۔۔۔
زین نے صلح کرنے والے انداز میں کہا تھا
اور ہانی نے اس کی سوری قبول کر لی تھی کیونکہ جب بھی زین اسے پیار سے حلیمہ کے بجائے ہانی کہہ کر بلاتا تھا وہ کھل اٹھتی تھی
اور زین کے اس قدر محبت اور عزت سے پیار حلیمہ کو ہانی کہنے پر وہ وہ اس کی ہر خطا معاف کرنے کو تیار ہو جاتی تھی اور اس بار بھی ایسا ہوا تھا بے شک زین شاہ کو حلیمہ شاہ کو منانے کے سارے گر آتے تھے
________________________________________
زین ابھی سونے کیلئے ہی لیٹا تھا جب شایان کی کال آئی تھی
ہیلو شایان کیسے ہو سب خیریت تو ہے؟
مین ٹھیک ہوں بس تمہیں ایک ضروری بات کرنے کیلئے اس وقت کال کرنا پڑی
شایان نے جواب دیا تھا
ہاں بولو میں سن رہا ہوں ۔۔۔۔زین بیڈ سے کھڑے ہوتے ہوئے بولا تھا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے ٹیرس کی طرف بڑھا تھا
زین دلاور سیٹھ ہماری سوچ سے بھی زیادہ چالاک ہے ہم اسے ہر جگہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور وہ تمہاری شاہ ملز کے سرونٹ کوارٹرمیں چھپا بیٹھا ہے اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ اسے اس جگہ زمان شاہ نے چھپایا ہے
شایان نے انتہائی سنجیدگی سے زین کو ساری بات بتائی تھی
اوہ تو یہ بات ہے تمہارا بہت شکریہ شایان تم نے میرا بہت ساتھ دیا ہے
میں تمہارا سر پھاڑ دوں گا آئے بڑے شکریہ ادا کرنے والے ہماری دوستی میں کب سے یہ فارمیلیٹی آگئی ہے
شایان کی تیز آواز موبائل کے اس پار سے گونجی تھی اور زین کا قہقہہ بلند ہوا تھا
اوہ یار تم ناراض نہ ہو
زین نے کہا تھا
ہاں ہاں ٹھیک ہے اب یہ بتاؤ آگئے کا کیا پلین ہے کیا تم سمرین کے گھر والوں کو رازی کر لو گے کہ وہ لوگ دلاور سیٹھ کے خلاف بیان دیں
شایان پھر سے سنجیدہ ہوا تھا
وہ میرا کام ہے تم فکر نہ کو بس دلاور سیٹھ کی سرگرمیوں پر نظر رکھو باقی میں سنبھال لوں گا زین نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا
اوکے ٹھیک ہے پھر بات ہو گی اللّه حافظ
اوکے اللّه حافظ زین نے کہتے ساتھ کال کاٹی تھی اور ایک پر اسرار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رینگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
________________________________________
رات کا نا جانے کونسا پہر تھا حلیمہ کا رو رو کر برا حال تھا اس کی آنکھیں مکمل طور پر سوج چکی تھیں سر درد سے پھٹنے کو تھا پر نیند اب بھی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ڈہن بلکل خالی تھا جب سے آئمہ اس کے کمرے سے گئی تھی وہ ایک ہی پوزیشن میں لیٹی تھی اس کے وجود بلکل ساکت تھا تبضی اس کے موبائل بجا تھا اس کے ساکت وجود میں ہلکی سے جنبش ہوئی تھی وہ اپنا سر تھام کر بیٹھی تھی اور موبائل ڈھونڈنے کیلئے نظر ادھر ادھر دوڑائی تھی سامنے سائیڈ ٹیبل پر اسکا موبائل پڑا تھا جو ایک بار بند ہونے کے بعد دوبارہ سے بجنے لگا تھا
اس نے ایک ہاتھ سے سر کو دباتے ہوئے ایک ہاتھ سے موبائل اٹھایا سامنے سکرین پر زمان شاہ کا نمبر جگمگا رہا تھا اس نام کو دیکھتے ہی حلیمہ کی آنکھوں میں حقارت ابھری تھی اوراپنے آپ پر انتہائی ضبط کرتے ہوئے کال اٹینٹڈ کی تھی
ہیلو ڈارلنگ کیسی ہو
زمان اٹینڈ کرتے ہی زمان شاہ کی انتہائی لوفرانہ آواز گونجی تھی اور پھر خباثت سے بھرا قہقہہ ابھرا تھا
یقیناً اپنے محبوب کی جدائی کا غم منا رہی ہو گی تت۔ ۔۔تت پر اب کیا کیا جا سکتا ہے جتنے روگ اور غم منانا ہے آج ہی منا لو کیونکہ کل تو ہمارا نکاح ہے جان اور کل ہی تمہارے اس محبوب کا کام بھی ختم کرنے والا ہوں میں کل ہی اس کی لاش بھی تم تک آئے گی اور وہ تحفہ ہے اس بات کا کہ تم نے زمان شاہ کو زین شاہ کے مقابلے میں دھتکار دیا اور میں تمہیں اپنے نام بھی کر لوں گا اس لیے جتنا رونا دھونا ہے آج ہی کر لو اور مجھے دھتکارنے کا جواب بھی کل اچھے سے مل جائے گا کہتے ساتھ ہی زمان نے کال کاٹ دی تھی اور حلیمہ شل دماغ کے ساتھ ساکت بیٹھی رہ گئی تھی
________________________________________________