پیلے جوڑے میں اس کا حسن سوگوار تھا آج اس کی مہندی تھی اور بیوٹیشن اس کے ہاتھوں پر مہندی لگا رہی تھی
اس کی آنکھوں میں حزن ٹھہرا تھا ہر کوئی اس کی اداسی کی وجہ اس کی شادی کو سمجھ رہا تھا کہ وہ گھر والوں سے دور ہونے کی وجہ سے اداس ہے
پر جو اس کے دل پر بیت رہی تھی صرف وہ جانتی تھی یا اس کا رب
بیوٹیشن مہندی لگا کر کب کی جا چکی تھی پر وہ اپنے ہاتھوں کی مہندی پر نظریں جمائے نہ جانے کہاں گم تھی
اس کے ہاتھ پر مہندی کے ڈیزائن میں چھپا “ز” اس کی توجہ کا مرکز تھا
وہ بے بسی سے مسکرا دی تھی
تو یہ طے پایا زین حمدان شاہ کہ تم حلیمہ شاہ کا نصیب نیہں ہو اور زرا اتفاق تو دیکھو جس کا نصیب بننے جا رہی ہوں اس کے نام کا پہلا حرف بھی تمہارے نام کا پہلا حرف ہے
اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے اس نے تلخی سے سوچا تھا اور آنکھیں موند کر ماضی کی یادوں میں بھٹک گئی تھی
پچھلے سال کی ہی تو بات تھی جب اس نے عید پر مہندی لگوائی تھی
اس نے مہندی سے بھرے ہاتھ زین شاہ کے سامنے پھیلا دیئے تھے اور بچوں کے سے پر جوش انداز میں چہکتے ہوئے کہا تھا دیکھو زین کتنا گہرا رنگ آیا ہے میری مہندی کا_____ پتہ ہے آئمہ اور زینت اور باقی سب لڑکیوں میں سب سے زیادہ مہندی میرے ہاتھوں پہ رچی ہے
زین شاہ نے اس کے ہاتھ تھام کر کہا تھا “ہانی یہ مہندی کا رنگ نہیں بلکہ میری محبت کا رنگ ہے”
اور ہانی ایک شرمیلی سی مسکان اچھالتی اس سے ہاتھ چھڑا کر وہاں سے بھاگ گئی تھی
ماضی کی خوشگوار یادیں بھی کبھی کبھی عذاب بن جایا کرتی ہیں اس کا اندازہ آج حلیمہ شاہ کو ہو گیا تھا
حلیمہ نے کرب سے آنکھیں کھول دی تھیں اور اس کی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر گرنے لگے تھے
جب اپنانا ہی نہیں تھا تو کیوں خواب دکھائے زین شاہ تم نے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی نہیں اس نے زار و قطار روتے ہوئے اس ستمگر کو مخاطب کیا تھا
تیری یادیں مجھے بکھیر دیتی ہیں
پر کمال دیکھ
تیری یادیں مجھے پھر سے سمیٹ دیتی ہیں
تیری یادیں میری آنکھوں کو نم کر دیتی ہیں
پر کمال دیکھ
تیری یادیں مجھے پھر سے ہنسا دیتی ہیں
________________________________________________
زین اٹھو زین اٹھ بھی جاؤ اب ورنہ میں سچ مچ میں تمہارے اوپر پانی کا جگ الٹ دوں گی
ہانی پچھلے دس منٹ سے زین کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی پر وہ زین ہی کیا جو اتنی جلدی ٹس سے مس ہو جائے
یار ہانی کیا مصیبت ہے ایک سنڈے ہی تو ہوتا ہے جب میں تھوڑا لیٹ اٹھاتا ہوں کم سے کم آج تو سکون سے سونے دو زین نے سوتے سوتے ہی جواب دیا تھا
تمہاری نیندیں تو بی جان پوری کرائیں گی تم نے جو کارنامہ کیا ہے نہ اب مشکل ہی زندہ بچو مجھے کیا پڑے سوتے رہو
ہانی بھی غصے سے بڑبڑاتی باہر کی جانب بڑھنے لگی تھی جب زین جھٹکے سے اٹھا تھا اور اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے بیڈ پر اپنے سامنے بٹھایا تھا اور ہانی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی تھی اور اس کا سر زور سے جا کر زین کے سینے پر لگا تھا
اف جنگلی تمہیں زرا تمیز نہیں ہے
ہانی اپنا سر سہلاتے ہوئے چیخی تھی
اف توبہ موٹی کان کے پردے پھاڑنے ہیں کیا
زین نے اس کے اتنی زور سے چیخنے پر کان پہ ہاتھ رکھ لیے تھے
او ہیلو تم نے موٹی کس کو کہا خود کو دیکھا ہے کبھی گینڈے ۔۔۔ ہانی کے گال غصے سے لال ہو گئے تھے
ہاں بہت بار کتنا ہینڈسم ہوں نہ میں
ہاں ہاں بہت زیادہ تمہیں تو بی جان جوتے مار مار کر اور ہینڈسم کریں گی
کیوں اب مجھ معصوم نے کیا کر دیا ہے
زین نے چڑتے ہوئے کہا تھا
وہ جو تم نے پچھلے مہینے ایڈ کیا تھا نہ وہ بی جان نے دیکھ لیا ہے
ہانی فکر مندی سے بولی تھی
کیا؟؟ زین اس کی بات سن کر چیخ پڑا تھا
پر کیسے بی جان تو ٹی وی دیکھتی ہی نہیں ہیں نہ پھر ان کو کیسے پتہ چلا ۔۔۔
زین صدمے سے چیخ اٹھا تھا وہ جانتا تھا کہ اگر بی جان کو اس کے کام کی بھنک بھی پڑ گئی تو اس کے خوابوں کی کبھی تکمیل نہیں ہو پائے گی
ہانی اس کی بات پر چپ ہو کر نظریں جھکا گئی تھی اور اپنی انگلیاں مروڑنے لگی تھی
اب اپنے اس منہ سے پھوٹ بھی دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زین اس کی خاموشی پر پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولا تھا
وہ ۔۔وہ نہ وہ زمان نے بی جان کو وہ ایڈ دکھایا ہےہانی نے نظریں جھکا کر ڈرتے ڈرتے کہا تھا کیونکہ وہ اس کے غصے کو جانتی تھی جو زمان کا نام سنتے ہی عود آتا تھا
اور غصے سے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں اور اس نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں تھیں
زمان شاہ اب تم میرے ہاتھوں سے زندہ بچ کر نہیں جانے والے ۔۔۔۔۔۔۔زین شاہ غضبناک آواز میں بولا تھا
دیکھو زین تم کچھ نہیں کرو گے وہ جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کر کے تمہیں غصہ دلاتا ہے اور تم غصے میں آجاتے ہو
تم اس معاملے میں چپ ہی رہو اس زمان کو تو اب میں اپنے طریقے سے ہینڈل کروں گا
زین نے غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا تھا اور کمرے سے واک آوٹ کر گیا تھا اور ہانی پیچھے تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی تھی
________________________________________________
رخسانہ بیگم کے تین بچے تھے حمدان شاہ فوزیہ شاہ اور امجد شاہ رخسانہ بیگم نے اپنے تینوں بچوں کی پرورش انتہائی سخت اصولوں پر کی تھیں وہ اپنے فیصلے کے خلاف کسی کی بات سننا پسند نہیں کرتی تھیں وہ پرانے رسمورواج کو آج تک قائم رکھے ہوئی تھیں حمدان شاہ کی شادی ان کی چچا زاد کزن رئیسہ سے ہوئی تھی اور امجد شاہ کی شادی بھی رئیسہ کی چھوٹی بہن نعیمہ سے ہوئی تھی اور فوزیہ شاہ اپنے ماموں کے گھر بیاہی گئ تھیں
حمدان شاہ کے دو بچے تھے زین شاہ اور آئمہ شاہ جب کے امجد شاہ کو اللّه نے ایک بیٹی سے نوازا تھا جس کا نام حلیمہ شاہ رکھا گیا تھا اور فوزیہ کے بھی ایک بیٹا سمان اور بیٹی زینت تھی
نعیمہ بیگم کو بیٹے کا بہت شوق تھا پر اللّه کو منظور نہ تھا اس لیئے وہ اپنے سارے ارمان زین پر پورے کرتی تھیں زین انہیں بہت عزیز تھا
زین اور حلیمہ کی بات بچپن سے ہی طے تھی جو کہ بی جان کی رضا مندی سے طے پائی تھی
بی جان کے بچے آج بھی بی جان کے اصولوں پر چلتے تھے اور ان کی ہاں سے ہاں ملاتے تھے کسی میں اب تک جرات نہیں تھی کہ کوئی ان کے فیصلے کے خلاف جاتا
________________________________________________
زین کم سے کم ہمیں تم سے یہ امید نہیں تھی مانا کے تم زدی ہو پر تم ہمارے اصولوں کو توڑ دو گے ہم نے تم سے کبھی ایسی توقع نہیں کی تھی
اس وقت گھر کے سب بڑے بی جان کے کمرے میں موجود تھے بی جان ک غصہ اس وقت عروج پر تھا اور اس وقت زین ان کے نشانے پر تھا
زین سر جھکائے خاموشی ست اب کی ڈانٹ سن ریا تھا کیونکہ اس کے ماما اور بابا کی نظریں بھی اسی پر جمی تھیں
تم جانتے ہو ہمارے اصولوں کے خلاف ہے یہ
بی جان غضبناک لہجے میں دھاڑی تھیں
پر بی جان میں صرف اور صرف اینکر ہی تو بننا چاہتا ہوں اس میں کیا برائی ہے مجھے تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی
زین نے اپنے لہجے کو مضبوط بناتے ہوئے کہا تھا
آج تمہیں اینکر بننا ہے کل کو تم ناچ گانا بھی شروع کر دو گے ہمارے خاندان میں آج تک کسی نے ٹی وی پر کام نہیں کیا اور ہم بھی تمہیں یہ اصول توڑنے نہیں دیں گے جو ایک بار اس جہنم میں چلا گیا وہ واپس نہیں آتا
بی جان اس بار دھاڑی تھیں
پر بی جان آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں میں صرف کرپٹ لوگوں سیاست دانوں کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے لانا چاہتا ہوں میں مظلوموں کی آواز بن کر ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں ٹی وی پر صرف ناچ گانا نہیں ہوتا اور لازمی تو نہیں کہ ہر کوئی برائی کی طرف راغب ہو
زین نے مضبوط لہجے میں اپنی وکالت کی کوشش کی تھی
زین تمہارے پاس دو آپشن ہیں اس میں سے ایک چن لو یا تو ہمیں یا اپنے اس گھٹیا خواب کو
بی جان نے سرد لہجے میں کہا تھا
ان کی اس بات پر زین سمیت کمرے میں موجود سب نفوس کو سانپ سونگھ گیا تھا
________________________________________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...