بزم فکر نونے کوپن ہیگن میں پاکستانیوں کا جمود توڑا اور یومِ آزادی کی ایک محفل برپا کر ڈالی۔ اس خوبصورت محفل میں، راقم الحروف کو بھی مدعو کیا گیا اور یومِ آزاد ی کے حوالے سے اقبال کا کلام سنانے کی فرمائش کی گئی ۔ دراصل جب پاکستان کا ذکر آتا ہے تو علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ و ہ دنیائے ادب میں چوٹی کے شاعر ، مایہ ناز ادیب ایک اور مفکر بلکہ ایک انقلابی مفکر اور ایک عظیم فلسفی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔
مغربی زبانوں میں ان کی متعدد اردو فارسی تصانیف کے ترجمے ہوچکے ہیں ۔ یورپ میں اقبال فائونڈیش Iqbal Foundation Europeعرصہ سے قائم ہو چکی ہے ۔ اس ادارے کے تحت بلجیم اور جرمنی میں اقبال پر ریسرچ سینٹرز این میری شمل Anne Marie Schimelکی سرگردگی میں سر گرمِ عمل ہیں ۔ یہ دنیا کی مشہور و معروف ادبی خاتون جرمنی میں رہتی ہیں ۔ ڈنمارک میں راقم الحروف انپے پاکستانی بھائیوں کو اور خصوصاً نوجوان طبقہ کو اقبال کے کلام کے انقلاب آفریں نظریات سے روشناس کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بزمِ فکر نوکی نشت میں جب اقبال کا ذکر چھڑا تو راقم الحروف نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا اقبالؒ کے حضور خراجِ عقیدت ان کے اپنے الفاظ میں پیش کیا تھا جو قارئین کی دلچسپی کے لیے نقل کرتا ہوں۔ قرار داد پاکستان ۱۹۴۰ء کی منظوری کے بعد ایک دن قائد اعظمؒ نے اپنے سیکرٹری سیّد مطلُوب الحسن سے گفتگو کے دوران فرمایا …
’’اگرچہ اقبالؒ آج ہم میں نہیں ہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے ) تو یہ جان کر کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے بعینہٖ وہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے۔‘‘ ایک اور موقعہ پر قائد اعظم ؒ نے فرمایا ’’کارلائل نے شیکسپئر کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ایک انگریز کا ذکر کیا کہ اسے جب شیکسپئر اور دولت برطانیہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو اس نے کہا کہ میںشیکسپئر کو کسی قیمت پر نہ دوں گا۔‘‘ قائد اعظم نے فرمایا کہ ’’گو میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبالؒ اور سلطنت میں کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو اقبالؒ کو منتخب کروں گا۔‘‘
اقبالؒ کا ایک خواب تو پاکستان بننے کی شکل میں پورا ہوچکا اب دیکھئے کہ اقبالؒ مسلمان قوم کے نوجوان کا کیا معیار دیکھنا چاہتے تھے اور اس معیار پر ہم کہاں تک پورے اترتے ہیں ۔
’’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام ‘‘
(اقبال ؒ)
کبھی اے نوجواں مُسلم! تدّبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاجِ سرِدارا
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ مُنعِم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دارو جہاں بان و جہاں آرا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہونہیں سکتی
کہ تو گُفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا