دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج
بندے کو عطا کرتے ہیں چشمِ نگراں اور
احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلاّ کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور
اس نظم میں ملّت مُسلِمَہ کے لیے اقبال کی فکر کا محور یا مرکز، پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہے۔ نظم کا تخیل اپنے عنوان پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
دینِ اسلام اپنی اصل میں دینِ فطرت ہے اور قرآن عالمگیر ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسلام کا تصورِ ہدایت پوری عالمِ انسانیت کے لیے ہے۔ اس کے برعکس، دوسرے مذاہب کی مخاطب پوری انسانیت نہیںتھی بلکہ ایک خاص وقت میں ایک خاص مقام پر بسنے والا ایک مخصوص افرادی گروہ تھا۔ اسلام کے بنیادی اصول آفاقی اور عالمگیر ہیں۔ قرآنی وحی کسی ایک مقام یا کسی مخصوص نسل اور قوم کے لیے محدود نہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں :
’’درحقیقت قرآن میں لفظ وحی جس انداز میں استعمال ہوا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اسے زندگی کی آفاقی ملکیت قرار دیتا ہے۔ اگرچہ زندگی کے مختلف ارتقائی مراحل میں وہ فطرت اور کردار کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔‘‘
علامہ اقبال نے اس سلسلہ میں بان یونیورسٹی کے ہارٹن (Horten of Bon University) کا بھی ایک حوالہ دیا ہے۔ اس مستشرق نے اسلامی فلسفہ اور الہٰیات کا مطالعہ کرتے ہوئے رائے قائم کی ہے کہ …… ’’اسلام کی روح بڑی وسیع ہے ۔ اتنی وسیع کہ اس کی کوئی حدود نہیں۔ لا دینی افکار سے قطع نظر کر لیا جائے تو اس نے گردو پیش کی اقوام کی ہر اُس فکر کو جذب کر لیا جو اس قابل تھی کہ اسے جذب کر لیا جائے اور پھر اس کو اپنے مخصوص انداز میں نشو و نما دیا۔‘‘
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
قرآن مُسلمان سے کہتا ہے کہ تخلیق کو اپنا دستور العمل بنائے ۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ یہ گمراہ کن اور غلط نظریہ ہے کہ اسلامی قانون جامد یا مزید نشوو نما کے قابل نہیں ۔ انہوں نے اپنے ایک انگریزی خطبہ میں ’’الاجہتاد فی اسلام‘‘ کے زیر عنوان بڑے واضح انداز میں اس پر بحث کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائے اسلام سے لے کر عباسی دور کے برسراقتدار آنے تک قرآن کے سوا مسلمانوں کے پاس کوئی تحریری ضابطۂ قانون اور دستور نہیں تھا۔ اس کے بعد دسویں سے گیارھویں صدی عیسوی تک ’’عالم اسلام میں فقہ اور قانون کے کم از کم انیس مذاہب کا ظہور ہو چکا تھا ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ فقہائے متقدین نے ایک بڑھتے ہوئے تمدن کی ضروریات کے پیش نظر، کتنی سعی اور جدوجہد سے کام لیا۔ بات یہ ہے کہ فتوحات میں توسیع اور اضافے کے ساتھ ساتھ جب عالم اسلام کے مطمح نظر میں بھی وسعت پیدا ہوئی تو اس سے فقہائے متقدمین کو بھی ہر معاملے میں وُسعتِ نظر سے کام لینا پڑا۔ وہ مجبور ہوگئے کہ جو قومیں اسلام قبول کر رہی ہیںان کے عادات و خصائل اور مقامی حالات کا مطالعہ کریں۔‘‘
احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالِک کا زماں اور مکاں اور
اقبال ہمارے عُلماء کو بتلا رہے ہیں کہ فُقہائے متقدمین اور بزرگانِ دین کی پیروی کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کے اِجتہاد کو منجمد کرکے رکھ دیں، بلکہ وہ مقدس ہستیاں اپنے عمل سے ہمیں یہ درس دے گئی ہیں کہ کس طرح احوال و مقامات اور اپنے گردو پیش کے تقاضوں کے مطابق قرآنِ پاک کے دیئے ہوئے بنیادی اصولوں کی نفی کئے بغیر اپنا راستہ متعین کرتے رہیں اور فکرِ اسلامی کو منجمد نہ ہونے دیں ۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
اجتہاد کے بارے میں اقبال کا پورا ایک باب ہے، جس کا سرسری انداز میں اوپر تذکرہ ہوچکا ہے۔ اس شعر میںاقبال بتلا رہے ہیں کہ آپ صرف اذان ہی کو لے لیں۔ کسی مسجد سے اگر آپ کے کان میں اذان کی آواز آئے گی تو اس کے الفاظ تو اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوں گے اور مُؤذن آپ کو نماز کے لیے اور فلاح کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دے رہا ہوگا لیکن فی زمانہ اکثر جب مسجد میں قدم رکھیں گے تو ایک خاص مسلک کے لوگ وہاں پائیں گے اور ممبر پر خطیب ایک مخصوص گروہ اور فرقہ کی نمائندگی کرتا دکھائی دے گا۔ اس کے برعکس ایک مردِ مجاہد جس کو اقبال کی زبان میںمردِ مسلمان اور شاہین کہا گیا ہے جب وہ اذان کی آوازبلند کر تا ہے تو مومن کے رگ و ریشے میں خون آگ بن کر دوڑنے لگتا ہے۔ مجاہد کی آواز سراسر اللہ کی وحدانیّت اور اتحاد مِلّت کا پیغام دیتی ہے گو کہ وہی الفاظ ہیں اور معنی بھی وہی ہیں لیکن دونوں کا اثر جدا جدا۔ آگے چل کر اقبال فرماتے ہیں :
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور
اقبال خود کہتے ہیں کہ دیکھئے! اوپر فضائوں میں ایک مُردار خور گِدھ (کرگس ) بھی پرواز کر رہا ہے اور وہیں ایک شاہین بھی محو پرواز ہے ۔ دونوں کی فضائیں ایک ہیں اور آسمان بھی ایک، لیکن کرگس کی دنیا اور ہے اور شاہین کی دنیا کچھ اور ۔ کرگس کی نگاہیں کسی مرے ہوئے یا کسی دوسرے کے مارے ہوئے مردار کو اور بدبودار جانور کا گوشت زمین میں تلاش کر رہی ہیں، لیکن شاہین کی نظر جہانِ زندہ میں اپنا شکار ڈھونڈ رہی ہے۔
افسوس ، صد افسوس ، کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
اقبال نے اس امر پر بہت زور دیا ہے کہ قرآن ہمیں اشارات اور بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہی بنیادی تصورِ وحی اقبال ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں کہ وحی ہمیں اصول اور بنیاد فراہم کرتی ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے گردو پیش اور زمانے کے حالات کے پیشِ نظر زندگی کے قوانین مرّتب کرسکتے ہیں۔ وحی الٰہی (قرآنِ پاک ) کا ارشاد ہے :
اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرُٗ لِّلعٰلَمِیْن (سورۃ یوسف آیت ۱۰۴)
ترجمہ: ’’یہ قرآن تو تمام عالم کے لیے نصیحت ہے ۔‘‘
اسی طرح باری تعالیٰ سورۃ القلم کی آیت ۵۲ میں قرآن کو تمام عالم کے لیے ’’نصیحت ‘‘ فرماتے ہیں ۔ ساتھ ہی قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیت دیکھئے کہ ہمیں کیا سبق دے رہی ہے :
’’(اے نبی )ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے ۔‘‘ (سورۃ الزمر آیت ۴۱)
جب قرآن تمام عالم انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ٹھہرا، تو پھر دین اسلام پر کسی فرقہ کی اجارہ داری کا جواز باقی نہیں رہتا ۔ اُمّتِ مُسلِمَہ پر فُقہاء متقدین کا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اپنے عمل سے ہمیں اجتہاد کا راستہ بتلا دیا ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ جب ہم اسلامی قوانین کے چار مُسلِّمَہ مآخذوں اور ان سے پیدا شدہ اختلافات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تسلیم شدہ مذاہب فِقہ میں سختی اور تشدد کا کہیں نشان نہیں ملتا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ مزید ارتقا کا امکان صاف صاف نظروں کے سامنے آجاتا ہے ۔ اجتہاد کا دروازہ کسی امام نے بند نہیں کیا ۔ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اپنے متذکرہ انگریزی خطبہ میں فرماتے ہیں :
’’جب ہم قرآن میں فقہی اصولوں کی بنیاد پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانی فکر و عمل کی راہیں بند کرنا تو درکنار خود ان اصولوں کی بے پایانی فکرِ انسانی کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔‘‘
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیث پاک ہماری رہنمائی کرتی ہے :
’’حضرت معاذ ؓ کو جب یمن کا حاکم مقرر کیا گیا تو ان کی روانگی کے وقت رسولِ پاک ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ ’’اے معاذ معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے ؟‘‘ حضرت معاذ ؓ نے کہا ’’یا رسول اللہ !اللہ کی کتاب کے مطابق۔‘‘ آپ ؐ نے فرمایا ’’اگر کتاب اللہ سے تمہاری رہنمائی نہ ہو ، تو ؟‘‘ حضرت معاذ ؓ نے جوا ب دیا ’’تو رسول اللہ کی سنّت کے مطابق ۔‘‘ آپ ؐ نے پھر فرمایا ’’اور اگر سُنّتِ رسولؐ سے بھی رہنمائی میّسر نہ آئے تو ؟‘‘ حضرت معاذ ؓ نے جواب دیا ۔’’پھر میں خود ہی کوئی رائے دینے کی کوشش کروں گا۔‘‘
قرآنکا یہ تقاضا ہے کہ ہم عمل اختیار اور فکر دینی کو متحرک رکھیں اور اسے جامد نہ ہونے دیں۔ اقبال نے کیا خُوب کہا ہے :
اے کہ می نازی بہ قرآنِ عظیم
تاکُجا در حجرہ مے باشی مقیم
درجہاں اسرارِ دیں را فاش کُن
نکتۂ شرعِ مبیں را فاش کُن
ترجمہ : تم کو ناز ہے کہ تمہارے پاس قرآنِ عظیم ( کی دولت ہے ) (میں تم سے پوچھتا ہوں ) آخر کب تک تم اپنے اپنے حجروں میںبند پڑے رہو گے۔ (تم اپنے اپنے حصار سے باہر نکلو اور ) اس دنیا میں دینِ حق کے پوشیدہ رازوں کو عام کر دو، اور شریعتِ اسلامی کے نکات کھول کھول کر (دنیا کے سامنے ) بیان کرو ۔
قرآن دنیائے انسانیت کے لیے آخری وحی ہے۔ قبل ازیں متذکرہ آیات قرآنی سے واضح ہے کہ وحی ساری دنیا کے انسانوں کو تمام دینوی معاملات میں ہدایت کی بنیاد فراہم کرتی ہے، اور بنیادی اصول ہمیشہ چند اور مختصر طور پر بیان ہوتے ہیں، تاکہ کثرت الفاظ کی وجہ سے بنیادی اصولوں میں کوئی ابہام نہ ہو پائے ۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم نے فروعی اور جزوی معاملات کو بنیادی اصولوں کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا ورنہ قرآن ایک صاف شفاف چشمۂ حیات ہے کہ جو ہمارے لیے فکر کی بنیاد فراہم کرتا ہے، افسوس کہ…
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
یہ ضروری ہے کہ جُزوی اور فروعی معاملات زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور مقامات کے ساتھ بدلتے رہیں، ورنہ حیاتِ مسلم اور ارتقاء انسانیت منجمد ہو کر رہ جائیں گے۔ اقبال نے اپنی زندگی میںاُمّت مسلمہ پر آنے والے دور کا اندازہ کر لیا تھا ۔ انہوں نے مسلمانوں کی انتہائی پستی کا دور اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اسی لیے انہوں نے علماء دین اور اہلِ دانش کو یہ پیغام دیا کہ آپ لوگ دین کو متحرک رکھئے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس چشمۂ حیات کو رواں دواں رہنے دیں اور اس کے آبِ حیات میں آمیزش نہ ہونے دیں۔
فقہائے متقدمین کو اقبالؒ اس طرح خراجِ تحسین دیتے ہیں :
فقہائے متقد مین نے اسی اصل سے سراغ پا کر متعدد فقہی نظام کھڑے کر دیئے اور تاریخ اسلام کا طالب علم خوب جانتا ہے کہ معاشرتی اور سیاسی قوت کے اعتبار سے اسلام کی نصف کامیابی اور غلبہ انہی فقہاء کی قائدانہ ذہانت پر منحصر تھا۔‘‘
اکثر علماء اپنے اپنے فقہی مذہب کی قطعیّت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اقبالؒیہ بھی اچھی طرح جانتے تھے اس لیے انہوں نے کہا :
’’اپنی تمام جامعیّت کے باوجود فقہی نظام آخر کار انفرادی تشریحات ہیں اور اس لحاظ سے حرفِ آخر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے ۔‘‘
اقبال ؒ نے اپنا زاویہ نگاہ بڑے مُدّبرانہ، فلسفیانہ اور کمالِ فن کے ساتھ ذہن مسلم کے سامنے پیش کیا اور ان کے ہم عصر بڑے بڑے جیَّد علماء نے ان کی رائے سے اتفاق کیا تھا۔ اقبالؒ نے ثابت کر دیا ہے کہ ہر زمانے میں اور ہر مقام پر مسلمان قرآن کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے گردو پیش کے احوال کی روشنی میں اپنے واسطے قوانین مرتب کرسکتے ہیں ۔ اقبال فیصلہ کن بیان دیتے ہیں :
’’میرے خیال میں موجودہ نسل کے آزاد خیال مسلمانوں کا یہ دعویٰ بالکل جائز اور درست ہے کہ انہیں اپنے تجربات اور زندگی کے بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں، فقہ کے بنیادی اصولوں کی تشریح جدید کا حق حاصل ہے۔ قرآن کی یہ تعلیم، کہ زندگی ارتقاء پذیر تخلیق ِ مسلسل کا نام ہے، اس بات کو ضروری قرار دیتی ہے کہ ہر نسل کو اپنے مسائل خود ہی سلجھانے کی اجازت ہونی چاہیے ۔ متقدمین کا کام نئی نسلوں کی رہبری تو ہوسکتا ہے ، لیکن اس کام کو ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘‘
ہمارے دین کی عمارت بڑی پختہ ہے ۔ یہ انتہا مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔ اس عمارت کی تزئین ، رنگ و روغن اور گُل کاری ہمارے اَسلاف نے اپنے خُونِ جگر سے کی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی شان اور دلفریبی کو قائم رکھیں ۔
اٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفسِ سوختۂ شام و سحر تازہ کریں