قارئین منزل سویڈن کے لیے تحفۂ اقبال کی تلاش میں آج جو کتاب ہاتھ میں آئی وہ اقبال کی کتاب زبورِ عجمہے۔ اس نظم کے حصہ اوّل کا عنوان ہے ’’بحضور حق تعالیٰ ‘‘ اور ابتدا ایک اتنہائی خوبصورت ’’دعا‘‘ سے ہوتی ہے۔ اس ’’دعا‘‘ کے چند اشعار اور ان کا اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں : اقبال بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوتے ہیں :۔
یارب درونِ سینہ دل باخبر بدہ
در بادہ نشۂ را نگرم، آں نظر بدہ
(ترجمہ) : اے میرے مالک! مجھے دلِ آگاہ دے (اور) مجھے ایسی (تیز) نظر عطا فرما کہ میں شراب کے اندر (چھپا ہوا) نشہ دیکھ سکوں ۔
اقبال کہہ رہے ہیں کہ مجھے شرابِ عشق سے فیضیاب کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں سرور و مستی مجھے نصیب ہوئی، لیکن اے اللہ میری تجھ سے التجا ہے کہ تو مجھے وہ نظر بھی عطا کر جس کے ذریعے میں اس شراب کے اندر چھپے ہوئے نشہ کا دیدار کرسکوں (مراد معرفت الٰہی سے ہے) اقبال اپنے مالک کے حضور دستِ سوال دراز کئے ہوئے مزید دعا گو ہیں :
سلیم، مرا بجوئے تنک مایۂ مپیچ
جولا نگہے بوا دی و کوہ و کمر بدہ
(ترجمہ ) : میں سیلاب ہوں مجھے ایک معمولی ندی سے منسلک نہ کر۔ (بلکہ) مجھے پہاڑوں ، وادیوں اور میدانوں کو اپنی لپیٹ میں لینے دے ۔
اقبال نے اس شعر میں اپنے لیے ایک ہمہ گیر دعا کی ہے۔ وہ اپنے لیے وُسعتوں اور ہمہ گیری کے تمنائی ہیں۔ اقبال کی یہ دعا بھی مستجاب بارگاہِ ایزدی ہوئی ہے۔ آج نہ صرف دنیائے اسلام میں،بلکہ دیگر اقوامِ مغرب و مشرق کی درسگاہوں میں فلسفۂ اقبال پر ریسرچ کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ وہاں کی لائبریریوں میں اقبال کی تصانیف اور ان پر دنیا کے نامور مفکروں کی تحریر کر دہ کتب موجود ہیں ۔
اس نظم کے اگلے شعر میں اقبال فرماتے ہیں :
سازی اگر حریف یمِ بیکراں مرا
بااِضطراب موج، سکونِ گُہر بدئہ
(ترجمہ) : اگر تو نے مجھے ایک بیکراں سمندر کا حریف بنا ہی دیا ہے
(تو) مجھے میری موجوں کے اضطراب کے ساتھ ساتھ سکون گہر بھی نصیب فرما۔
اقبال اپنے اللہ سے کہہ رہے ہیں کہ تونے اپنے کرم سے مجھے سمندر جیسی وسعتیں عطا کی ہیں، میرا اضطراب بھی کسی طرح سمندر کی موجوں سے کم بیتاب نہیں۔ باوجود یکہ سمندری سطح پر موجوں کا اضطراب ہے، لیکن اس کے اندر ایک قطرئہ آب (شکمِ صدف میں ) پُرسکون ہے۔ اے میرے پروردگار اگر تو نے مجھے سمندر کی موجوں جیسا اضطراب عطا فرمایا ہے تو ساتھ ہی ساتھ میرے دل کو صدف میں ایک موتی کی طرح (جو کہ حقیقت میں ایک قطرئہ آب ہے) سکون سے بھی فیضیاب فرما دے، تاکہ میرے دل کو بھی آوارگی اور کشمکش دریا سے نجات ملے۔ کیونکہ……
کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی مِلی
آوارگی فطرت بھی گئی اور کشمکش دریا بھی گئی
اقبال کی دعا کا رخ اب قوم کے نوجوان کی طرف ہوتا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں :
شاہینِ من بہ صید پلنگاں گذاشتی
ہمت بلند و چنگل ازیں تیز تر بدہ
ترجمہ : تونے میرے شاہینوں کو چیتوں کا شکار کرنے کے لیے چھوڑا ہے۔ اے میرے مالک ، ان کی ہمتیں بلند کر اور ان کے پنجے اور تیز کر دے ۔
اقبال کے اس شعر کو بھی شرفِ قبولیت عطا ہوا ہے۔ افغانستان میں شاہینوں نے روسی چیتوں کو مار بھگایا ہے، اور ہمیں ذات باری سے امید واثق ہے کہ افغانستان کی طرح بوسنیا، چیچنیا اور کشمیر میں بھی انشاء اللہ اقبال کے شاہینوں کو فتح نصیب ہوگی ۔ اقبال کے ساتھ ساتھ ہم بھی دعا گو ہیں کہ اے باری تعالیٰ تو نے جب اپنے نہتے نام لیوائوں کو ظالم چیتوں سے لڑوا ہی دیا ہے، تو اے قادر مطلق ، ہمارے شاہینوں کے پنجوں کو تیز تر کر دے ، ان کو طاقت اور ہمّت عطا فرما کہ وہ ظالموں کو عبرتناک شکست دے سکیں۔
اپنی نظم کے آخری شعر میں اقبال دعا کرتے ہیں :
خاکم بہ نورِ نغمۂ دائود ؑ بر فروز
ہر ذرّئہ مرا پر و بالِ شرر بدئہ
(ترجمہ) : میری خاک کو دائو دی نغموں سے چمکا دے … اور (اس خاک کے ) ہر ذرہ کو چنگاری بنا کر ہر طرف اڑا دے ۔
اقبال فرماتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ میری نغموں میںد ائود علیہ السلام کی آواز جیسا سوز اور اثر پیدا کر دے جو مجھ سُوختہ جاں کی خاک کے ذرات کو چمکتی ہوئی چنگاریاں بنا دے، اے اللہ! ان چنگاریوں کو دنیا میں ہر طرف بکھیر دے تاکہ یہ میری قوم کے لوگوں کے دلوں میں آتشِ عشق فروزاں کر دیں۔ حقیقتاً خاکِ اقبال کی یہ چنگاریاں ان کے اشعار کے روپ میں ہر طرف دلوں میں آگ لگا رہی ہیں۔
مندرجہ بالا عنوان کی دوسری نظموں سے چند اشعار منتخب کئے ہیں۔ دیکھئے تخیل اقبال کی پرواز آپ کو کہاں کہاں لے جاتی ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں :
عشقِ شور انگیز راہر جادہ در کوئے تو بُرد
بر تلاشِ خود چہ می نازد کہ رہ سوئے تو بُرد
عشق کا جنون جس راہ پر بھی چلا اسے (وہ راستہ) تیرے درتک لے گیا (یہی وجہ ہے کہ) عشق کو اپنی تلاش پر ایسا ناز ہے کہ اس کا اختیار کردہ راستہ تجھ تک اسے لے گیا۔
اقبال کہتے ہیں کہ عشق کی شوریدہ سری اور اس کا جنون اپنے محبوب کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں کبھی غلط راستہ کا انتخاب نہیں کرتا۔ اگر جذبہ صادق ہو تو عشق راہ راست سے بھٹکنے نہیں دیتا اور بالآخر عاشق اپنی منزل پالیتا ہے۔ یہ تجربہ اقبال نے اپنی ذات پر کیا اور اسے من و عن درست پایا ۔ اقبال چاہتے تھے کہ جو چشم بصیرت اللہ نے انہیں بخشی تھی وہ ان کی قوم کے نوجوان کو بھی میسر آجائے ۔ اسی لیے وہ اللہ کے حضور اپنی قوم کے نوجوانوں کے لیے دعا کرتے ہیں :
زبادئہ کہ بخاکِ من آتشے آمیخت
پیالۂ بہ جوانانِ نونیاز آور
ترجمہ : وہ بادہ( شرابِ عشق )جس نے میری خاک میں آگ بھر دی ہے (اے خدا)اس شراب کا پیالہ( میری قوم کے) نئے نیاز مند نوجوانوں کو بھی عطا کر دے۔
اقبال نے دوسرے مصرع میں جوانوں کے لیے جو صفت استعمال کی ہے یعنی ’’نونیاز‘‘ فقط یہ ایک لفظ ہی اپنے اندر ایک مضمون سموئے ہوئے ہے۔ نیاز کے معنی خواہش کے بھی ہوتے ہیں، اور نوجوانوں میں نئی نئی خواہشات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے ۔ یہ امنگیں یا خواہشات اگر مثبت راہ اختیار کرلیں اور پھر انہیں تائید ایزدی بھی حاصل ہو تو یہ انسان کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تعمیرِ ملّت کے واسطے اقبال کی ہمیشہ دلی خواہش رہی کہ نوجوانانِ قوم اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کریں اور وہ علم و عرفان کی شمعیں روشن کرکے دنیا میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں ۔ البتہ یہ اس وقت ممکن ہے جب دل میں عشق کی حرارت موجود ہو، بقول اقبال ’’کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی‘‘ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کے لیے اللہ سے اپنے شعر میں جذبہ عشق عطا کرنے کی دعا کر رہے ہیں ۔ ایسے ہی وہ کبھی اپنے ر ب سے کہتے ہیں کہ اے خدا ’’ان شاہین بچوں کو بال و پر دے ‘‘ اور کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی پُرنم آنکھوں کے ساتھ ہاتھ پھیلائے ہوئے اپنی قوم کے نوجوان کے لیے التجا کر رہے ہیں کہ یار ب ان سیدھے سادھے نازک جسم کبوتروں میں شاہین کا جگر پیدا کر دے اور کہیں کہہ رہے ہیں :
اے کہ زمن فزودئہ گرمئی آہ و نالہ را
زندہ کُن از صدائے منِ خاکِ ہزار سالہ را
ترجمہ : ( اے خدا) تو نے میری گریہ و زاری میں (بے پناہ) اضافہ کر دیا ہے۔
(اب) مری صدا سے ملّت اسلامیہ میں، جو ایک ہزار سال سے خاک کا ایک ڈھیر بن چکی ہے، نئی زندگی پیدا کر دے ۔
فرماتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ تو نے مجھے عشق کی دولت سے نوازا ہے۔ جس کی گرمی مجھے رات دن تڑپاتی رہتی ہے۔ اے خدا میری آہ زاری میں ایسا اثر پیدا کر جو میری ہزار سال سے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کر دے۔ میرے مالک !
غنچۂ دل گرفتہ را از نفسم گرہ کُشای
تازہ کن از نسیمِ من داغِ درونِ لالہ را
ترجمہ : میرے سانسوں کے ذریعے اس غمگین کلی کے دل کی گرہ کھول دے اور میرے (سانس کی) نسیم سے (باغ ملت کے ) گلِ لالہ کے دل کا داغ پھر تازہ کر دے ۔
فرماتے ہیں کہ تیرے چمن کی کلیاں کملا گئی ہیں، انہیں کوئی غم کھائے جا رہا ہے۔ میرے رب! تو میری آواز میں وہ اثر پیدا کر کہ یہ کلیاں کھِل جائیں اور پُھول بن جائیں، ان گُلِ لالہ کے داغوں کو میرے نغمے سیراب کرتے رہیں، اور اس چمن میں پھر سے بہار آجائے ۔ تو اپنے در سے اس فقیر کو مایوس نہ کر ……
خواجۂ من نگاہ دار آبروئے گدائے خِویش
آنکہ زجوئے دیگراں پُر نکُنَد پیالہ را
ترجمہ : اے میرے آقا! تو اپنے فقیر کی آبرو کی حفاظت فرما۔
(تیرے در کا یہ فقیر ) اپنا کاسہ کسی غیر کی ندی سے نہیں بھرنا چاہتا۔
اقبال وہ مرد درویش ہے جو ایسی یکتائے روز گار ہستی کا غلام ہے جس کی ٹھوکر میں اپنے وقت کی پرشکوہ اور پر جلال سلطنتوں کی بے پایاں دولت تھی، جو اگر چاہتا تو اپنے واسطے سونے ۱ور چاندی کے محل بنوا سکتا تھا، لیکن دنیا سے رخصت ہوتے وقت اُن(ﷺ) کا کل سرمایہ سات دینار تھے اور وہ سات دینار بھی رسول ﷺ نے اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے غریبوں میںتقسیم کروا دئیے ، وہ جب اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو ان کے پاس اللہ کے نام کے سوا کچھ نہ تھا۔ زندگی میں انھوں نے جب بھی کچھ طلب کیا تو اپنے اللہ سے ۔ یہ ان کا فیض ہے اور انھی کی قدموں کی خاک کا طفیل ہے کہ دنیا میں جس کو بھی نظر بینا عطا ہوئی، اس کا ہاتھ اگر پھیلا تو صرف اپنے رب کے آگے ۔ اقبال کا شمار ایسے ہی نابغہ روزگار لوگوں میں ہوتا ہے ۔
اقبال اپنی قوم کی حالتِ زار پر ہمہ وقت بے قرار رہتے تھے، لیکن امداد کے لیے ان کی نظریں صرف اللہ کی طرف اُٹھتی تھیں۔ زندگی میں کبھی نہ ان کی زبان سے سنا گیا اور نہ کہیں ان کے کلام میں اس بات کا شائبہ ملتا ہے کہ ان کی مفلوک الحال قوم کو سنبھالنے کے لیے کسی بڑی طاقت کی امدا د یا سرپرستی کی ضرورت ہے، انھوں نے ہمیشہ اپنے قُوّتِ بازو اور اپنے اللہ پر بھروسا کرنے کی تلقین کی۔ کاش یہ بات ہمارے رہنمایانِ قوم کے دلوں میں جگہ پاسکے کہ ہماری نجات اور ہمارے دکھوں کا مداوا اسی نکتے میں پوشیدہ ہے۔