عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود
عشق ہے ابن السّبیل اس کے ہزاروں مقام
زیرِ عنوان شعر اقبالؒ کی مشہور نظم ’مسجد قُرطبہ‘ کا ہے۔ یہ نظم ہسپانیہ (Spain) کے مقام قُرطبہ میں اقبال نے ۱۹۳۳ء میں لکھی ۔ سپین کی مسجد قُرطبہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا ایک جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ یوں تو اقبال کو یورپ میں ہر جگہ مسلمانوں کی تہذیب و عظمت کے اثرات اور نشانیاں نظر آئیں جن کا انہوں نے کئی جگہ اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے۔ لیکن جس وقت انہوں نے مسجدِ قُرطبہ میں قدم رکھا تو ان پر وجدکی کیفیت طاری ہوگئی۔ سب سے پہلے انہوں نے چاہا کہ بارگاہِ ایزدی میں سر بسجود ہو کر طارق کے سواروں کی یاد تازہ کریں ۔ چنانچہ انہوں نے قرطبہ کے نگہبان سے کہا کہ میں یہاں اذان دینا چاہتا ہوں ۔ اس نے جواب دیا کہ ٹھہر جائیے میں یہاں کے بڑے پادری سے اجازت لے کر آتا ہوں وہ چند لمحے بھی انتظار نہ کرسکے اور جب نگہبان بڑے پادری سے اجازت لے کر آیا اقبال دو رکعت نفل نماز ادا کر چکے تھے۔ ان کے رخسار سجدے کی حالت میں بہتے ہوئے آنسوئوں میں دُھل چکے تھے ۔ اقبال خود اعتراف کرتے ہیں کہ ’’مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت پر پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی بھی نصیب نہیں ہوئی تھی‘‘ انہوں نے ’مسجدِقُرطبہ ‘ تخلیق کی۔ اس نظم کے متعلق بالکل درست کہا گیا ہے کہ اگر اقبال اپنی زندگی میں صرف ’مسجد قُرطبہ‘ ہی لکھتے تب بھی یہ نظم ان کو ’اقبال ‘ کہلانے کے لیے کافی تھی ۔
اقبال کی کتاب بالِ جبریلکی نظم ’مسجدِ قرطبہ‘ کا پہلا بند ان اشعار سے شروع ہوتا ہے ۔
سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات
سلسلۂ روز و شب اصلِ حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب تارِ حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
یہاں اقبال کہتے ہیں کہ ’سلسلۂ روز شب‘ کے تحت عملِ تخلیق جاری و ساری ہے۔ یہیں سے زندگی کے سوتے پھوٹ رہے ہیں اور ہم ذاتِ باری کی صفات کا مشاہدہ اپنی آنکھوں اور اپنے احساسات کے ذریعہ کرسکتے ہیں۔ قرآنِ پاک بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ دن اور رات اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں ۔
مندرجہ بالا اشعار کے پہلے مصرعہ میں ’نقش گرِ حادثات، کی اصطلاح عملِ تخلیق کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ یہی نظریہ فرانس کے مشہور فرانس کے مشہور فلسفی برگساں نے اپنایا ہے۔ دوسرے شعر میں رات اور دن کو دو رنگ کے ریشمی دھاگوں سے تشبیہ دی گئی جو ذاتِ الٰہی کی صفات کے اِظہار کا ایک انوکھا اور بے انتہاخوبصورت انداز ہے، اور ساتھ ہی ریشم کے باریک دھاگے کی کمزوری کا اشارہ ہے، جس سے دنیا کی بے ثباتی ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح پہلے بند میں زندگی ، اس کی گہماگہمی ، اس کے نشیب و فراز ، لوگوں کے کارہائے نمایاں وغیرہ وغیرہ غرضیکہ ہر شے کم معیار اور فنا والی بتائی گئی ہے ۔ اس بند کے آخری دو اشعار میں کہا گیا ہے :۔
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہُنر
کارِ جہاں بے ثبات!کارِ جہاں بے ثبات!
اَوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نَو، منزلِ آخر فنا
حقیقت یہ ہے کہ اس نظم کا پہلا بند اس وقت یعنی ۱۹۳۳ء تک کے مُروّجہ تخلیقی نظریہ کی عکاسی ہے اور ساتھ ہی فلسفۂ زمان و مکان میں عملِ تخلیق کے سلسلہ میں اقبال کے نظریہ کا یہ بند پیش لفظ (IntroductionیاForeword) ہے ۔
اس پیش لفظ کے بعد اقبال نظریۂ تخلیق کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ اقبال سے پہلے گزرے ہوئے ممتاز شُعرا جن میں حافظ شیرازی، شیخ سعدی وغیرہ شامل ہیں بلکہ اکثر صوفیائے کرام بھی اس نظریہ سے متاثر رہے ہیں جو اوپر دیئے ہوئے اشعار میں نمایاں ہے۔ البتہ صوفی شاعر مولانا رومی نے اس نقطۂ نظر سے انحراف کی ابتدا کی اور اقبال نے نہ صرف اس مسلک کو آگے بڑھایا بلکہ انتہائی مدلّل اور بااثر طریقہ سے ’’فنا‘‘ کو زندگی کی ایک منزل ثابت کیا اور دنیا کی ’’بے ثباتی ‘‘ کو حادثاتِ زمانہ قرار دے کر بقائے دوام سے ہمکنار کر دیا۔ اسی نظم کے دوسرے بند میں بے ثبات دنیا کے نقوش میں (خواہ وہ نقشِ کہن ہو کہ نَو) اقبال حیاتِ دوام دیکھ رہے ۔ وہ فکر کی ان بلندیوں پر ہیں کہ جو منزِل عشق ہے اور رہ گزر عام نہیں، فرماتے ہیں :۔
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات ، موت ہے اُس پر حرام
ان دو اشعار میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور جو انداز اختیار کیا گیا ہے اس قدر پرجوش اور معنی خیز ہے کہ بغیر کسی تشریح کے بات دل میں اتر جاتی ہے۔ خاص طور ان اشعار میں ’’مگر ‘‘’’عشق‘‘اور اصطلاح’’مرد خدا‘‘کو استعمال کرکے اقبال نے موت کو زندگی سے بدل دیا ہے،اور ان دو اشعار میں ایسی روح پھونک دی ہے جس نے فضا کو زندگی کے نغموں سے بھر دیا ہے،یہ اقبال کے دو اشعار نہیں بلکہ زندگی کا ایک ساز ہے جسے نغمے بکھیرنے کے لیے صرف ایک مضراب چاہیے،اور وہ ہے اقبال کے ’’مردِ خدا‘‘کا عشق۔
اس بند میں آگے چل کر اقبال کہتے ہیں کہ زمانے کی رَو سیلاب ہے، لیکن عشق خود ایک سیلاب ہے اور ایسا سیلاب دنیا کے مادی سیلابوں کو تھام لیتا ہے۔عشق کی دنیا میں اقبال چلے جار ہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ زمانہ حاضر کے سوا عشق کی دنیا میں اور بھی زمانے ہیں جن کا تقویم (جنتری) میں کوئی نام نہیں، جہاں نہ ماضی جیسی کوئی چیز ہے اور نہ مستقبل کا کوئی تصور ‘ اقبال کے الفاظ میں :
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
یہ نظم لکھتے وقت اقبال جس مقام پر تھے اس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، البتہ آپ کچھ اندازہ ان کے مندرجہ ذیل اشعار سے کرسکتے ہیں جو بالکل واضح اور صاف الفاظ میں ’’عشق‘‘ کی تصویر کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں :
عشق دمِ جبرئیل ، عشق دلِ مصطفیؐ
عشق خدا کا رسولؐ ، عشق خدا کا کلام
عشق فقیہِ حرم ، عشق امیرِ جُنود
عشق ہے ابن السّبیل ، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات ، عشق سے نارِ حیات
ان اشعار میں اقبال عشق و مستی کی سرشاری میں جو بات کہہ گئے ہیں، میں تو یہ کہوں گا کہ وہ شاہراہ عشق پر اپنے مُرشد رومی سے بھی آگے نکل گئے ہیں، جنہوں نے یہ کہا تھا کہ ’’میں عشق کا فلسفہ لوگوں کو سمجھاتا رہتا ہوں لیکن جب میرے اپنے اوپر یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو مجھے اپنے آپ پر ہنسی آتی ہے۔‘‘
مندرجہ بالا اشعار میں اقبال نے ’’عشق‘‘ کو دمِ جبرئیل اور دلِ مصطفیؐ کہا ہے اور ساتھ ہی اس کو خدا کا رسولؐ اور خدا کا کلام بتایا ہے۔ دیکھئے کس انداز سے ایک شعر میں اقبال کیسی گہری بات کہہ گئے ہیں ۔ انہوں نے خدا، جبرئیل اور مصطفیؐ کو عشق کے رشتہ سے منسلک کرکے ہمیں مقامِ عشق سے آگاہ کیا ہے۔ حقیقت میں ہم وہ نہیں دیکھ سکتے جو اقبال کی چشمِ بصیرت دیکھ سکتی ہے۔ اسی لیے وضاحت کے لیے وہ ہمیں مزید بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں عشق ہی ہمیں فقیہ دین کی شکل میں نظر آتا ہے اور عشق ہی میدان ِ کار زار میں امیرِ سپاہ ہوتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ صرف یہی نہیں بلکہ عشق کے ہزاروں مقام ہیں اور ہر مقام کے لیے ہزارہا راہیں موجود ہیں، ان میں ہر راہ ایک شاہراہ عشق ہے ، وہ یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ نورِ حیات بھی عشق کا طفیل ہے اور گر مئی حیات بھی عشق ہی کا ایک عطیہ ہے۔
اقبال زیر عنوان نظم کے تیسرے بند میں بھی وجدانی کیفیت میں ڈوبے ہوئے، عشق و مستی سے سرشار، شاہراہِ عشق پر افکار کے موتی بکھیرتے چلے جارہے ہیں ۔ وہ مسجد قُرطبہ کو کیف و سرور کے عالم میں حرمِ قُرطبہ کہہ کر خطاب کرتے ہیں۔
اے حرمِ قُرطبہ!عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بُود
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چنگ ہو یا حَرف و صّوت
معجزئہ فن کی ہے خُونِ جگر سے نَمود
قطرئہ خونِ جِگر سل کو بناتا ہے دِل
خونِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
فرماتے ہیں کہ اے مسجدِ قُرطبہ تو مقّد س ہے ، تیرے تقّدُس اور وجود کو زمانہ نہ مٹا سکا۔ تو قائم و دائم ہے۔ تجھے عشق نے دوام بخشا ہے، کہ عشق بذاتِ خود سراپا دوام ہے۔ فنِ تعمیر ہو مصّوری ہو یا رنگوں کی خوشنما آویزش ہو۔ شاعری ہو یا موسیقی، بہرحال اس کا کمال خونِ جگر کی بدولت ہے، یہ خونِ جگر کا قطرہ ہی ہوتا ہے جو پتھر کو پگھلا دیتا ہے، خونِ جگر ہی کی بدولت کائنات میں نغمگی ہے اور سوز مستی کی آبیاری بھی خونِ جگر ہی کرتا ہے ۔
اقبال مسجد قُرطبہ کی فضائوں سے مسحوُر ہو کر پھر نغمہ سرا ہوتے ہیں۔
تیری فضا دل فروز میری نوا سینہ سُوز
تُجھ سے دلوں کا حضور مجھ سے دلوں کی کَشود
اے مسجد قرطبہ تیرے دیدار سے دل منور ہو جاتے ہیں اور میری شاعری دلوں میں سوزِ عشق پیدا کرتی ہے، اور اے مسجد قرطبہ تیرا وجود اہلِ طلب کوحضوریٔ قلب بخشتا ہے، جبکہ میری گفتار ذہنوں کو اجاگر کرتی ہے اور دلوں میں کشادگی و وسعتِ نظر کا باعث ہوتی ہے۔
دیکھئے اب مردِ خدا اور مسلمان کا ناطہ مسجد قُرطبہ کے توسُّط سے اقبال تک قائم ہوگیا تو بات آگے بڑھتی ہے، اور پھر انسان، مردِ مومن اور فرشتے کلام کی زد میں آجاتے ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
عرش معلّٰی سے کم سینہ آدم نہیں
گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہر کَبُود
پیکرِ نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
اس کو میسر نہیں سوز و گدازِ سَجُود
یہاں ایک نکتہ غور طلب ہے کہ اقبال نے لفظ ’’آدم ‘‘ استعمال کیا ہے یعنی سینۂ آدم ، سینۂ مسلم نہیں، یہ ان کی وسعتِ نظر کا کھلا ثبوت ہے۔ مندرجہ بالا پہلے شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ کفِ خاکی (انسان) کے تخیل کی پرواز محدود ہے اور اس کی نظر نیلے آسمان سے آگے نہیں جاسکتی لیکن جو دل عشق کے نور سے منور ہوسکا اس کا مرتبہ عرشِ معلّٰی سے کم نہیں۔ ایسا دل خدا کا گھر ہوتا ہے، دوسرے شعر میں ارشاد ہوتا ہے کہ یوں تو فرشتے بھی بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں لیکن وہ سجدے کی حقیقی لذَّت سے ناآشنا ہیں ۔ جو لذَّت اور سرور مردِ مُومن کو سجدے میں نصیب ہوتا ہے وہ عشق کی تڑپ اور رِفعت قلبی کی بدولت ہے اور فرشتہ اس سوزِ جگر کی لذّت سے محروم ہے۔
لذّتِ سوز جگر پوچھئے پروانے سے
تیسرے بند کا اختتام اس شعر پر ہوتا ہے
شوق مری لَے میں ہے ، شوق مری نَے میں ہے
نغمۂ اللہ ہُو ، میرے رَگ و پے میں ہے
اقبال اپنے اشعار میں عشق کی جگہ اکثر ’’شوق‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس لفظ کی روح میں عشق کی لگن کے ساتھ ساتھ دُھن، جوش ، امنگ ، محبت کی فراوانی ، شدّتِ اشتیاق اور وہ ترنّم پایا جاتا ہے جو سازِ دل کے لیے مِضراب کا کام کر جاتا ہے ۔
اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ عشق میرے رگ و ریشہ میں بسا ہوا ہے، عشق ہی میری شاعری ہے اور نغمۂ اللہ ہو میری ذات کا ایک حصہ ہے ۔
اپنی نظم کے چوتھے بند میں اقبال پھر مسجد قرطبہ کو ایک نئے انداز سے مخاطب کرتے ہیں فرماتے ہیں:
تیرا جلال و جمال ، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائیدار ، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہُجومِ نخیل
پہلے شعر میں مسجدِ قُرطبہ کو اس مردِ خدا کی پہچان بتایا ہے جس کے قوی اور پُر جلال ہاتھوں نے اس کی تعمیر کی اور جس کے حسین تخیل کی مسجد قُرطبہ ایک حَسین تصویر ہے اور اس مردِ خدا کی ایک زندئہ جاوید ترجمان ہے۔
دوسرے شعر میںارشاد ہوتا ہے کہ اے مسجد قُرطبہ! تیری بنیادیں مضبوط ہیں، کیونکہ ان کو نسبت ہے ایک مردِ آہن کے مضبوط اور پُرعزم ہاتھ سے، اور اے مسجد قُرطبہ! تیرے ستونوں کا ہجوم اتنا حَسین اور دِلکش ہے جیسے صحرا میں لہلہاتے قطار در قطار بیشمار کھجور کے درخت ہوں۔
اے مسجد قرطبہ!
تیرے در و بام پر وادیٔ اَیمن کا نُور
تیرا مِنارِ بُلند جلوئہ گہِ جبرئیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیم ؑ و خلیل ؑ
اس کی زمیں بے حدود ، اس کا افق بے ثُغور
اس کے سمندر کی موج ، دجلہ و دنیوب و نیل
اقبال نغمہ سراہیں اور جذب و مستی کے عالم میں اس مردِ خدا کو جس نے مسجدِ قُرطبہ تخلیق کی مرد مسلمان کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ مردِ مسلمان کبھی مٹ نہیں سکتا اس کی اذان رہتی دنیا تک موسیٰ کلیم ؑ اللہ اور ابراہیم خلیل ؑ اللہ کی زندگیوں کے رموز آشکار کرتی رہے گی مرد مسلمان کے لیے نہ کوئی زمین مخصوص ہے نہ کوئی آسمان ، سارے دریا، سمندر اور فضائیں اس کے احاطہ تسخیر میں ہیں۔
اقبال مردِ مسلمان کے اوصاف بیان کرتے چلے جار ہے ہیں :
اس کے زمانے عجیب ، اُس کے فسانے غریب
عہدِ کُہن کو دیا اس نے پیامِ رحیل
ساقیٔ اربابِ ذوق، فارسِ میدانِ شوق
بادہ ہے اس کا رحیق، تیغ ہے اس کی اصیل
فرماتے ہیں کہ اس کی، یعنی مردِ مسلمان کی داستانیں عجیب و غریب ہیں، اور اس کے زمانے بھی نرالے ہیں، وہ جب چاہے پرانے اور فرسُودہ زمانے کو رُخصت کرکے نئے دور کا آغاز کر سکتا ہے۔ یہ اسی کا طفیل تھا کہ جس نے عہد کہن کو جو کہ ایک تاریک زمانہ تھا موجودہ روشن اور ترقی یافتہ دور میں بدل دیا۔ وہ اہلِ دل اور اہلِ ذوق لوگوں کے مشرب کا ساقی ہے، اور میدانِ عشق کا شہ سوار ہے۔ اس کی شرابِ عشق آلودگی سے پاک صاف و شفّاف اور خالص ہے، اس مردِ مسلمان کی تلوار اس کی شرافتِ نفس ہے، یہ مردِ مسلمان ، مردِ خدا ، مردِ مومن درحقیقت کیا ہے :
مرد سپاہی ہے وہ ، اس کی زِرہ لا اِلہٰ
سایہ شمشیر میں اس کی پنہ لا اِلہٰ
مسجد قُرطبہ کے پانچویں بند میںاقبال کے تصوّر میں طارق کے بہادر سپاہی ہیں۔ ان کے جذبہ عمل اور عشق کی تخلیق کا شاہکار مسجد قُرطبہ نظروں کے سامنے ہے ۔ اقبال اسی مرد سپاہی سے مُخاطِب ہیں، اور اب اس کو بندئہ مومن ، رموزِ باطن کا مظہر قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں :
تجھ سے ہوا آشکار بندئہ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپِش اس کی شبوں کا گداز
اُس کا مقامِ بلند ، اُس کا خیالِ عظیم
اس کا سُرور اُس کا شوق ، اس کا نیاز اس کا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا ، بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کُشا ، کار ساز
مندرجہ بالا اشعار میں بندئہ مومن، جس کو اس نظم میں اب تک مردِ مُسلمان مردِ خدا اور مردِ سپاہی کہا گیا ہے، کی صفات بیان کرتے کرتے اقبال اس کو انتہائی بلندیوں پر لے گئے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ بندئہ مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے، جو کہ ہر مقام پر کارساز اور غالب ہے، وہ عُقد ہ کُشا ہے اور ہر گام پر کامیابی اس کا مُقَدّر ہے۔ یہاں اللہ کا ہاتھ (یدُ اللہ) سے ایک حدیث شریف کی طرف اشارہ ہے۔ (جس کا اقتباس درج ذیل ہے) یہ حدیث قدسی ہے ۔
اس حدیثِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’میرا بندہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعے) میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ مجھے محبوب ہو جاتا ہے اور وہ جب میرا محبوب بن جاتا ہے تومیں اس کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور ( اس کی محبوبیت اور نزدیکی اس کو اس قدر بلند کر دیتی ہے کہ ) کہ وہ مجھ سے سوال کرے تو اس کا سوال پورا کردوں اور جو مانگے اسے دے دوں اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے (آفات اور مہلکات سے ) پناہ دے دوں۔‘‘اس کے بعد اقبال فرماتے ہیں ۔
خاکی و نُوری نہاد ، بندئہ مولاصفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل ، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب ، اس کی نِگہ دلنواز
اس خاک کے پتلے (انسان) کی سرِشت نوری ہے، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی صفات سے نوازا ہے۔ بندے کو جب مقامِ محبوبیت عطا ہوتا ہے تو وہ شان و شوکت دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے وہ حقیقی معنوں میں غنی ہوتا ہے اور دنیا کی ہر شے اس کے لیے کم مایہ ہوتی ہے البتہ اس کی اپنی ذات لوگوں کے لیے بے بہا نعمت ہوتی ہے ایسا انسان ہر دلعزیز ہوتا ہے اس کی ذات سے بندگانِ خدا کو فیض حاصل ہوتا ہے اس کی نگاہِ پاکباز دلوں کو منور کرتی ہے اس کی ہر ادا دلفریب ہوتی ہے ، وہ گرمیٔ محفل ہوتا ہے اور اگر میدان کار زار میں ہو تو ایک باتدبیر اور بہادر سپاہی کے جوہر دکھاتا ہے ۔ قبل ازیں ایک اور مقام پر ایسے اِنسان کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں :
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طُوفان
زیر نظر نظم میں اقبال ایسے مرد مومن کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔
کعبۂ اربابِ فن ! سطوَتِ دینِ مُبیں
تُجھ سے حَرم مَرتَبَت اُندلسیوں کی زمیں
ہے تہہ گردوں اگر حُسن میں تیری نظیر
قلب ِ مسلماں میں ہے ، اور نہیں ہے کہیں
اقبال یہاں مسجد قُرطبہ کو کعبۂ ارباب فن کہہ کر خطاب کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تُو اِسلام کی شان اور دَبدَبہ کا نشان ہے تیرے وجود سے اسپین کی سر زمین متبرک اور لائق احترام ہے، اگر حُسن میں تیرا کوئی ثانی ہے تو صرف قلب مومن ہے۔
قلبِ مسلمان کا تصور ذہن میں آتے ہی اقبال کی نظر کے سامنے ایک مرتبہ پھر عربی شہسوار گھوم جاتے ہیں وہ وارفتگی کے عالم میں یوں گویا ہوتے ہیں :
آہ وہ مردانِ حق!وہ عَربی شہسوار
حاملِ خُلقِ عظیم ، صاحبِ صِدق و یقیں
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب
سلطنتِ اہلِ دِل فقر ہے ، شاہی نہیں
ان اشعار میں اقبال قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کر گئے ہیں کہ وہ سرزمین عرب کے جانباز متوالے مردانِ حق و صداقت تھے، وہ بلند حوصلہ اور اعلیٰ ترین اِخلاق کے حامل تھے، ان کے دورِ حکومت نے یہ ثابت کر دیا کہ راست باز اور قلبِ صادق رکھنے والے حکمرانوں کی کامیابی کا راز دنیاوی دولت و ثروت نہیں ہوتی، وہ تو فقر کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں جو کہ ایسی بے بہانعمت ہے، جس کے سامنے دنیا کے تمام خزانے ریت کا ڈھیر ہیں، وہ لوگ انسانیت کے ایسے پیکر تھے۔
جن کی نگاہوں نے کی تَربیّتِ شرق و غرب
ظُلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اِختلاط ، سادہ و روشن جبیں
ان کے علم و حکمت سے مشرق سے لے کر مغرب تک کے ممالک فیض یاب ہوئے۔خصوصاً مغربی ممالک جو تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، علم کی روشنی سے منور ہوگئے، اخلاقیات اور انسانیت کے دورِ حاضر کے خود ساختہ علمبردار ان ہی درویش طِینَت انسانوں کے قدموں کے طفیل آج مُعلّم اخلاقیات بنے، انسانیت کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ نور عرفان سے عاری ہیں ۔ مُسلمان اگرچہ اب اسپین سے رخصت ہوچکا ہے، لیکن اہلِ سپین میں خوش اخلاقی ، دلنوازی اور ان کا حُسن ان ہی لوگوں کے خُون کے طفیل ہے، سر زمینِ اسپین کی شیریں زبانی، ادب، شعر، مصوری اُن ہی زِیرک اور خود شناس انسانوں کی مرہونِ منّت ہے اور:
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دِل نَشیں
اقبال کی حُسن شناس نگاہیں اسپین کی غزالہ چشم ماہ سیمائوں کے تیرِ نگاہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور وہ پکار اٹھے ’’اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں۔ ‘‘ وہ سر زمین سپین کی رنگا رنگ فضائوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ نسیمِ حجاز کا ایک ہلکا سا جھونکا ان کے مشّامِ جان کو مُعَطّر کر جاتا ہے اور اقبال گنگنانے لگتے ہیں ۔
بوئے یمن آج بھی اس کی ہوائوں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے
اقبال سرشاری کے عالم میں ہیں، ان کے قدموں تلے سر زمینِ اُندلس (اسپین ) ہے۔ ایسے میں اقبال اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سسکیاں بھرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
دیدئہ انجم میں ہے تیری زمیں ، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے ،کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں!
اے سر زمین اندلس! تیری عظمت کی تو ستارے بھی گواہی دے رہے ہیں، پھر کیوں صدیوں سے تیری فضائیں مسلمان کی اذان سے محروم ہیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ سخت جان (جفاکش مرد مومن) کہیں موجود نہ ہو ۔ یقینا وہ اپنے قافلہ کے ساتھ عشق کے بھڑکتے شعلوں کی لپیٹ میں باطل کو جھلساتا ہوا کسی نہ کسی وادی سے گزر رہا ہوگا۔ اس کا رواں کا ظہور تقدیر الٰہی ہے، جسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ جب سے مسلمان یورپ سے رخصت ہوا ہے اس وقت سے اب تک زمانہ بہت رنگ بدل چکا ہے، اور دنیا بڑے بڑے انقلابات دیکھ چکی ہے، جس کا نقشہ اقبال اس طرح کھینچتے ہیں:
دیکھ چکا المنی ، شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کُہن کے نشاں
حرفِ غلط بن گئی عصمتِ پیرِ کُنِشت
اور ہوئی فکر کی کشتیٔ نازک رواں
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی اِنقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں
مِلّتِ رومی نژاد کہنہ پرستی سے پِیر
لَذّتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
دنیا کے مختلف ممالک اور خصوصاً مغربی ملکوں میں اسلام کے زرّیں اصولوں کی نقالی کر کے جو انقلابات برپا کے گئے، ان میں ظاہری چمک دمک وقتی تھی، جو مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جس طرح پیتل کے زیور پر سونے کی ملمع کاری (پالش) جو وقت کے دھارے کے آگے ماند پڑتے پڑتے غائب ہوا چاہتی ہے، اور ظُلمَت کی تِیرگی ان کا مقدر ہے ۔
مندرجہ بالا اشعار میں اقبال انتہائی خوبصورتی کے ساتھ یورپ کی ہزار سالہ تاریخ بیان کر گئے ہیں۔ اسلام کے بَلاخیز ترقیاتی سیلاب کو رُوکنے کے لیے یُورپ کی مختلف اقوام نے مذہب اور قومیّت کے تصوّر کو نئے رنگوں میں پیش کیا، انہوں نے اپنی اپنی قوم کو نئے اصلاحی قوانین دے کر اُبھار ا اور انقلابات برپا کئے ۔ لوتھر کی مذہبی اصلاحات نے (Catholic Church) جرمنی میں پرانی عیسائیت کو جدید خطوط پر اُستوار کیا جس کی وجہ سے فرسُودہ عقائد کو نئی جَہت ملی اور عیسائیت میں اِجتہاد کی بنا پڑی ۔ اس طرح فرانس میں انقلاب (Revolution) برپا ہوا ۔ فرانسیسی قوم نے اسلام سے مساوات کا سبق لیا، جس کو دوسرے مغربی ممالک نے بھی اپنایا ۔ اس طرح مذہبی عقائد اور سیاسیات میں ہمہ گیر انقلاب آیا۔ صدیوں پرانا تاریکیوں میں ڈوبا ہوا یورپ، تہذیبِ جدید کی روشنی سے چمکنے لگا اور مسلمانوں کے قدموں کے طفیل ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ بدقسمتی سے یورپی اقوام، تمدنی ترقی کی چمک دمک میں کھو گئیں اور وہ انسانی اقدار سے اتنی دور نکل گئے کہ اب بھٹکے ہوئے راہی کی طرح خیالی صحرائوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ان کی نائو کھلے سمندروں میں منڈلا رہی ہے اور کنارے کا دور تک سُراغ نہیں ملتا ان کی تمام تر ترقی اور تہذیبِ جدید اقبال کے الفاظ میں ’’زرِ کم عیار‘‘ ہے ۔ دوسری طرف ملّتِ اسلامیہ ایک اضطراب سے دو چار ہے یہ وہی قلبِ مضطرب ہے … ’’نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا ‘‘ اقبال مسلمان کی نشاۃِ ثانیہ کو اپنے باطن کی نظروں کے سامنے دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں:
رُوحِ مسلماں میں ہے آج وہی اِضطراب
رازِ خدائی ہے یہ ، کہہ نہیں سکتی زباں
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا
گُنبدِ نِیلو فَری رنگ بدلتا ہے کیا!
اقبال نہ کہتے ہوئے بھی راز کی بات کہہ گئے ہیں۔ باوجود ان الفاظ کے کہ ’’راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں ‘‘ اقبال کہتے جارہے ہیں کہ میں آسمانوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہا ہوں، جدھر سے عشاق کا کاروانِ سخت جان آرہا ہے، وہ عشق کے سمندر میں غُوطہ زن ہیں، طُوفان کی لہریں ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی ۔ اقبال اس بحر کے غواص ہیں، وہ سمندر کی تہ میں موجود موتیو ں کی نشاندہی کر رہے ہیں جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ ہماری مادی نظریں تو صر ف سمندر کی سطح سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں۔ اس وَجدانی کیفیت میں اقبال یورپ کی تاریخ کی ورق گردانی کرنے کے بعد آنے والے انقلاب کی پیش گوئی کر گئے ہیں۔
نظموں میں اقبال کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ ایک مخصوص ماحول پیدا کرتے ہیں، پھر کوئی منظر پیش کرتے ہیں تاکہ سامِع کے منتشر ذہن کو یکجا کرکے سمت کا تعین کریں، پھر اپنے زُورِ بیاں اور دِلنشین اندازِ خطابت سے، قلب میں حرارت اور توانائی پیدا کرتے ہیں، تاکہ بات سمجھنے کی اور اس کو قبول کرنے کی خواہش پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی بات دل میں اتر جاتی ہے۔ چنانچہ اپنی نظم مسجد قُرطبہ میں ’’روز و شب‘‘ اور قانون ِ قدرت کے تحت رونما ہونے والے تغیّرات سے کلام شروع کرکے مسلمانوں کی یورپ میں آمد اور مغربی اقوام کی بیداری میں اَمّتِ مُسلِمَہ کے کردارِ جلیلہ کو بیان کیا گیا اور اب ایک رُومان انگیز منظر اس طرح پیش کرتے ہیں:
وادیٔ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب
لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چُھوڑ گیا آفتاب
سادہ و پُرسوز ہے دُخترِ دَہقاں کا گیت
کشتیٔ دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب
ایک پہاڑ کی وادی ہے جہاں بادل شفق میں ڈوبے ہوئے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ جاتے وقت آفتاب یا قُوت اورزمّرد کے ڈھیر پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ایک پُرسوز گیت کی آواز فضائوں کو مسحور کر رہی ہے، ایک دوشیزہ اپنی سادہ اور پُر درد آواز میں کھیت کے کنارے گارہی ہے ، اس کسان کی لڑکی کی آواز میں جو درد پِنہاں ہے وہ عَہدِ رفتہ کی یاد دلا رہا ہے ، اقبال کسی اور عالم میں محو ہیں اور بیان کرتے جارہے ہیں۔
آبِ روانِ کبیر!تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردئہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
مسجد قُرطبہ دریائے داد الکبیر کے کنارے واقع ہے ۔ اقبال مخاطب ہیں دریا کے پانیوں سے، لیکن ان کی باطنی نگاہیں اُمّتِ مُسلِمَہ کی حیاتِ نو کا جائزہ لے رہی ہیں، وہ خود عشق کی اس منزل میں ہیں جس کی بقول ان کے ’’تقویم‘‘ میں ’’اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام‘‘۔ اقبال دیکھ رہے ہیں کہ جو نیا دور آنے والا ہے اس کی صُبح نمودار ہو چکی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر میں کُھل کر اس دور کا حال بیان کر دوں تو مغربی ایوانوں میں زلزلہ آجائے گا۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ، انقلاب پھر آئے گا، چونکہ انقلاب قوموں کی زندگی کا ایک حصّہ ہوتا ہے، اقبال کہتے ہیں ۔
جس میں نہ ہو اِنقلاب، موت ہے وہ زندگی
رُوحِ اُمَم کی حیات، کشمکشِ اِنقلاب
اُمتوں کی زندگی کا راز جذبۂ انقلاب میں پنہاں ہے۔ جن قوموں میں کشمکشِ انقلاب کا جذبہ ختم ہوگیا وہ دنیا سے ہمیشہ کے لیے مِٹ گئیں، اس ضمن میں ایک اہم نکتہ اگلے شعر میں بیان کیا جاتا ہے:
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
قانُونِ قُدرت کے تحت قضا ء و قدر مصروفِ کار ہیں، لیکن مملکت میں احکامِ الٰہی کا نفوذ انسان کے ہاتھ سے ہوتا ہے۔ البتہ وہی انسان اور وہی قوم اس عمل کو سر انجام دینے کی اہل ہوتی ہے جو اپنا احتساب خود کرے۔ جو قومیں اپنے ہر عمل پر کڑی نظر رکھتی ہیں، وہ جَچے تُلے اور صحیح قدم اٹھاتی ہیں اور ہمیشہ اقوامِ عالم میں نمایاں رہتی ہیں ۔ اقبال اس شعر میں نظم و ضبط ، دیانت، صداقت اور جفاکشی کا زبردست درس دے گئے ہیں، جو کامیاب قوموں کا طُرّئہ اِمتیاز ہے، اس نظم کے آخری شعر میں ارشاد ہوتا ہے:
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
انسان کا کوئی آرٹ ، کوئی ہنر، کوئی کارنامہ درجہ کمال کو نہیں پہنچ سکتا، جب تک اس عمل میں خون جگر کی آمیزش نہ ہو ۔ یہ شعر حاصلِ نظم ہے اس میں سخت کوشی، جہدِ مسلسل ، مقصد کی لگن اور عشق کی اہمیت پر زور دے کر قوم کو آنے والے دور کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اقبال اس سے قبل اشعار میں نشانِ راہ متعین کر چکے ہیں اور منزل کی نشان دہی کر چکے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہی قومیں دنیا میں سر بلند ہوتی ہیں جو اپنے گلشنِ اقدار کی آبیاری خود اپنے خونِ جگر سے کرتی ہیں ۔