کاکول اکیڈیمی میں ہر چھ ماہ کے بعد ٹرم کے اختتام پر ایک ماہ کی چھٹیاں ہوتیں تو ایبٹ آباد میں اترتی شام کے دھندلکے میں بیرونی گیٹ پر نصرتِ خداوندی سے دی جانے والی فتح کی بشارت کے جلو میں ایک میلہ سجتا۔ اس دن اکیڈیمی کا پارکنگ لاٹ ایک چھوٹے موٹے لاری اڈے کا منظر پیش کرتا۔ پنڈی وال کیڈٹ تو کوسٹرز اور ویگنوں میں بیٹھ مریڑ چوک یا پھر سیروز سینما کی راہ لیتے۔ لاہوریوں کو لے جانے والی بڑی فلائنگ کوچ بسیں ہوتیں جو کاکول سے بادامی باغ کی شست باندھے جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرتی چلتی چلی جاتیں۔
ہم گنتی کے مسکین کراچیائٹ ایک لمبے سفر کو دو حصوں میں بانٹ پہلی تقسیم میں انہی فلائنگ کوچوں میں لاہوریوں کے ہم سفر بنتے۔ رات بھر کے سفر کے بعد یہ کوچیں لاری اڈے پہنچتیں تو ہم کراچی والے لاہور ریلوے سٹیشن کے بکنگ کلرک کی بند کھڑکی کے باہر لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے کہ بعد از فجر دفتر کھلے تو شالیمار ایکسپریس کا ٹکٹ کٹا کم از کم ٹرین پر سوار ہونے والے تو بنیں۔ اللہ نے چاہا تو کسی خدا ترس فیملی سے بیٹھنے کو تھوڑی بہت جگہ تو مل ہی جائے گی۔
کاکول سے براستہ جی ٹی روڈ رات کی رات لاہور کا سفر بھگتا دینے والی یہ فلائنگ کوچز آدھا راستہ ادھر آدھا ادھر لالہ موسیٰ شہر سے کچھ پہلے میاں جی کے ہوٹل پر بفرمائش رکوائی جاتیں کہ کون تھا جو میاں جی کی دیسی گھی کے تڑکے میں ترتراتی دال کا اسیر نہیں تھا۔ کاکول سے کراچی کے سفر کی پہلی قسط لاہوری فلائنگ کوچز میں بسر کرنے کی برکت سے ہمیں لالہ موسیٰ کے میاں جی کی دال کی چاٹ لگی اور ایسی لگی کہ چھٹائے نہ چھٹی۔
لالہ موسیٰ کے سٹاپ سے ذرا پہلے جی ٹی روڈ کے پہلو سے لگی ایک خمار آلود رات کے نشے کو دو آتشہ کرتی میاں جی کی دال سے سیر شکم کیڈٹس واپس بس کی نشتوں پر پسر رہے ہوتے جب کوچ لالہ موسیٰ کے خوابیدہ دروبام سے دبے پاؤں گزر جاتی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ یہیں پہلے پہل میاں جی کی دال سے پرباش سکائی ویز کوچ کی داہنے ہاتھ والی کھڑکی سے لگی نشستوں میں سے ایک پر نیم دراز ان نیم خوابیدہ آنکھوں نے سڑک کنارے وہ بورڈ پڑھا تھا۔ آخری آرام گاہ حاجی محمد عالم لوہار۔
بہت بعد کی رتوں میں ہمارا جب جب لالہ موسیٰ سے کچھ اس صورت گزر ہوا کہ یا تو ہم خود ڈرائیونگ سیٹ پرتھے یاپھر گاڑی رکوانےکی پوزیشن میں، ہم نے برلبِ جی ٹی روڈواقع قبرستان کےپاس عین حاجی محمدعالم لوہارکے بورڈ کی چھاؤں میں گاڑی روکی اور اپنے محبوب گلوکار کی تربت پر دست بستہ دعا کی نیت سے پیش ہوئے۔ پہلے پہل کے چکر کے بعد ایک دفعہ پھر راشد منہاس کے ہمراہ بھی گئے۔
ابھی چند دن پہلے جون کے مہینے میں جب ہم پاکستان میں تھے تو جہلم سے لالہ موسیٰ کے سفری ٹکڑے میں عین شہر کے مرکز میں ہم نے خواص پور کی سڑک پکڑی تب بھی ہم نے حاجی محمد عالم لوہار کی آخری آرامگاہ کے اعلانیہ بورڈ کو دور سے سلام کیا تھا۔
لالہ موسیٰ سے نکلنے والی خواص پور روڈ کچھ آگے جاکر دولت نگر کے پاس کوٹلہ ارب علی خان جانے والی سڑک کو مل جاتی ہے۔ کوٹلہ سے داہنے ہاتھ چند کلومیٹر کی دوری پر آچھ اور گوچھ کے جڑواں گاؤں آتے ہیں۔ یہیں آچھ میں ایک آبائی گھر اپنے دامن میں کچھ کہانیاں سمیٹے کھڑا ہےکہ لوہاروں کے لڑکے محمد عالم نے جب ایک رس بھری آواز کو چمٹے کی تال سے ہم آہنگ کر لیا تو ارضِ وطن کی لوک گائیکی کی قسمت بدل گئی۔ ہم بھاگیہ وان ٹھہرے کہ اس زرخیز دھرتی کو عالم لوہار نصیب ہوا۔
عالم لوہار کے ہماری زندگی پر بہت سے احسان ہیں۔ اسی دل نے پہلے پہل جب مرزے کی بکی کی ڈھائی چال سے مشابہ ایک بہت قدیمی بہت محبوب دھُن میں عالم لوہار کو سنُا تو مرزا صاحباں کی کھوج میں دانہ آباد کا مسافر ہوا۔
لنک
تیرے پچھے تجیا مرزے دانا آباد
وچ وناں دے آ کے جان کیتی برباد
اگر عالم لوہار نے مرزا نہ گایا ہوتا تو شاید میں کبھی دانا آباد نہ پہنچتا۔
سکردو سے پرے گمبہ کی گمشد وادی میں اترتی سردیوں کی منجمد شام کے سائے مزید گہرے ہوتے جاتے تو سکردو کا خوش خصال و شیریں مقال بینک مینیجر آن پہنچتا اور لوہار کے سروں پر مٹھڑے بولوں کی گردان ہوتی
اک پل بہہ جانا میرے کول
تیرے مٹھڑے نی لگدے بول
ویڈیو لنک
اور جن اداس شاموں میں اللہ رکھی والے خالد کا ساتھ میسر نہ ہوتا اور دل اندر کے ویرانے سے گھبرا کر ہمالہ کے برفاب پہاڑوں کو چیرتی دل سے کہیں زیادہ ویران سڑک کو گاڑی کے پہیوں سے ماپنے نکلتا تو کانوں میں عالم لوہار کے باراں ماہ کے بولوں کی بازگشت گونجا کرتی عالم لوہار نے جگنی گائی اور امر کردی
عشق لوہارا تازہ رہندا، داڑھی ہو جائے چٹی
ویڈیو لنک
نذیر بیگم اور بالی جٹی کے ساتھ ٹپے اور ماہیے گائے، اور ایک سادگی کے عالم میں روڈ ایکسیڈنٹ سے گھائل ٹُٹی لت کا دکھڑا سنایا تو اپنے لوک گلوکار پر ہمیں بے ساختہ پیار آگیا۔
ویڈیو لنک
مگر جب ایک فوجی مشق سے گھائل متاثرہ گھٹنے سےکچھ کچھ مفلوج ایک کپتان سی ایم ایچ راولپنڈی میں زیرِعلاج تھاتو تیمار داری پر آئےمسز اورکرنل بھٹی ساتھ لائےٹیپ ریکارڈر پراونچےسروں میں ’ٹٹی لت نوں وکھایا کئی وار میں، کسےنے میری گل نہ سنی‘ سنتےتھےاورفوجی اسپتال کی نرسیں کپتان صاحب کوکاٹ کھانےوالی نظروں سےگھورتی تھیں
ویڈیو لنک
صاحبو جگنی کا مقام اور اہمیت مسلّم مگر میرا اور عالم لوہار کا ایک بہت پائیدار ساتھ سیف الملوک کا ساتھ ہے۔ جہلم کے گھاٹ سے پربت پاسے، میر پور سے دکھن، کھڑی شریف والے میاں محمد بخش کی سیف الملوک کا ساتھ۔ گجرات کی قربت میں مہسم کے بس اڈے کے پاس دو گاؤں تھے۔
سڑک کے اِس طرف بامتہ اور اُس طرف بانٹھ۔ شروع شروع میں ہندوستان سے جنگ لڑنے کو آئی سپاہ کوجب ناپائیدارجنگ کاخطرہ ٹل جانےپر ایک پائیدار ٹریننگ کی بددعالگ گئی تو زندگی کوٹلہ بھمبھر روڈ کےاِس طرف بامتہ کےخیموں سےسڑک کےاُس پار بانٹھ کےکھیتوں میں ٹریننگ ایریا کی چہل پہل تک محدود ہوگئی۔
پھرکچھ یوں ہواکہ بامتہ۔بانٹھ کےراستےپرآتےجاتے، پیرگوگڑشاہ کے معصومین کی درگاہ سےگزرتے،اپنےجوانوں کےساتھ اُٹھتےبیٹھتے، کھاتےپیتے،عالم لوہارکی آواز میں سیف الملوک کےکچھ بیت کان پڑےتو دل کوکھینچ لےگئے
سدا نہ ہتھ مہندی رتے
سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغیں بلبل بولے
سدا نہ موج بہاراں
ویڈیو لنک
ایک اہتمام سے میاں صاحب کے اس کلام کے عالم لوہار کے گائے تمام اقتباسات کو اکٹھا کرنے کا اہتمام ہوا۔ گجرات کے نواح دولت نگر کے پاس کوٹلہ بھمبھر روڈ کی قربت میں معصومین کے مزار کی کتنی ہی شامیں عالم لوہار کی آواز میں میاں محمد بخش کی سیف الملوک سے شاد کام ہوئیں
اُچے ٹبے شیراں نے ملّے جل ملّے مُرغائیاں
چارے کوٹاں موت نے ملّیاں فضل کریں رب سائیاں
کئی قرنوں کے بعد وطن کو لوٹا مانی لالہ موسیٰ کے جی ٹی روڈ کے پہلو سے لگتے قبرستان میں ایک آخری آرامگاہ کے موڑ کو سلام کرتا دولت نگر کی زمینوں کو بھی پلٹا۔
وہیں بامتہ بانٹھی کی مشترکہ زمینوں میں جہاں کبھی ٹل کی میڈیم رجمنٹ کی ٹریننگ کی محفلیں سجا کرتی تھیں، پیر گوگڑ شاہ کے معصومین کے مزار کی قربت میں اس دل نے سیف الملوک اور عالم لوہار کو بہت یاد کیا۔ دن ڈھل چکا تھا اور مغرب کی نماز کچھ دیر پہلے ہو چکی تھی۔
وہاں گاؤں کے دربار پر دو پردیسیوں کو دیکھ بانٹھ والوں نے مسجد کھلوائی، روشنی کروا اور ایئر کولر چلا کر دو مسافروں کے ہاتھ، منہ اور پاؤں دُھلائے۔ ایک گرم دن سے طلوع ہوئی نسبتاً ٹھنڈی شام پیر گوگڑ شاہ کے دربار پر ادا کی گئی مغرب کی نماز مجھے اور پرویز دونوں کو یاد ہے۔
کچھ اس سبب سے بھی کہ وہاں ہم نے اپنے محبوب عالم لوہار کو یاد کیا اور کچھ اس سبب سے بھی کہ اوائلِ جون کے اس گرم دن دولت نگر کی زمینوں کو پلٹتا مانی پیر گوگڑ شاہ کی درگاہ سے پہلے بامتہ ۔ بانٹھی کے قبرستان میں رکا تھا۔
وہیں کہیں ٹل کے کپتان اور بانٹھی کی نوراں کی باقیات بکھری پڑی تھیں، جنہیں وہ دو دہائیوں کے بعد سمیٹنے آیا تھا، مگر یہ کہانی پھر کہیں گے۔
۔۔۔