شاہی زمانہ کچھ اسی لحاظ سے قابل قدر نہ تھا کہ اس کے دور میں غلہ کی ارزانی، بارش کی فراوانی، پیداوار کی کثرت اور شاہی فیاضیوں سے لوگ خوشحال اور فارغ بال تھے۔ کیونکہ ایک لحاظ سے اگر خیال کیجیے تو روز مرہ کی فوجداریاں اور بانکوں کی تیغ زنی، شہزوروں کی ڈاکہ زنی، مارپیٹ، دھینگا مُشتی، نوچ کھسوٹ، ذرا ذرا سی بات پر خون کی ندیاں بہانا، چوریاں، ڈاکہ زنی، چھاپے مارنا، گِرہ کاٹ لینا، گھر لوٹ لینا، دن دہاڑے لپّاڈُگی، یہ سب خرابیاں ایسی تھیں جن کا ذکر سن کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔
پھر محکمۂ عدالت کی بدعنوانیاں، مقدّمے کی سماعت نہ ہونا، سفارشوں کا لحاظ کرنا، پولیس کی بے وقعتی اور سونے میں سُہاگہ تھی۔
گُلباز خاں شاہی چور جو ہمیشہ اپنی بدکرداریوں سے جیل خانے میں رہا کرتا تھا اور آخر کو اس کی شناخت کے لیے شاہی حکم سے اس کے دونوں گال پیسہ لال کرکے داغ دیے گئے تھے، مگر اﷲ رے چوری اور سینہ زوری، ایسی دھاک بندھی ہوئی تھی کہ جس مہاجَن سے کہلا بھیجا کہ ہم کو دس ہزار روپیہ کی ضرورت ہے، اس نے ہاتھ باندھ کر روپیہ حاضر کردیا اور جو کچھ چین چپڑکی، پہلو بدلے، ناک بھُوں چڑھائی، دون کی لی، روپیہ تو اس وقت تیار نہیں ہے، کل مُنیب جی آلیں تو لے لینا، آج جنم اشٹمی ہے، دوچار ہُنڈیاں سکارنا ہیں، ابھی اننت چودس تک تو ہم روپیہ نہیں دے سکتے، بڑے لالہ تیرتھ گئے ہیں، تو سمجھ لیجیے کہ شاہ جی کی شامت آگئی، بیٹھے بٹھائے عذاب مول لیا۔ رات کو دندناتے ہوئے آ دھمکے۔ نہ کہیں پولیس ہے نہ روند ہے۔ شاہ جی کے ہاتھ پاؤں کھٹیا سے باندھ دیے اور قرولی چھاتی پر رکھ دیا اور گڑی ہوئی دھن دولت پوچھ پوچھ کر کھود کھاد کر باندھ لی اور چمپت ہوئے۔ مزے ہونے لگے۔ کچھ یار دوستوں میں بانٹی، کچھ محلے کے غریب غربا کو دی، کنّیا کی شادی کرادی۔ اگرچہ حرام کی کمائی تھی لیکن اس کا مصرف نیک کاموں میں ہوا۔
گلباز کو لوگ میر صاحب میر صاحب کہتے تھے۔ محلے بھر کے لوگ ان سے خوش۔ جس محلے میں یہ رہے، کبھی کسی پسنہاری کے یہاں بھی ایک جھاڑو کی چوری نہ ہوئی تھی۔ اپنے کمال میں ایسے فرد تھے کہ چومنزلے پر چشم زدن میں چڑھ جانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ میر صاحب سے ان کے دوست نے پوچھا کہ آج تک تمہارا کسی بہادر سے بھی سامنا ہوا ہے؟ کہنے لگے جان ایسی بری ہے کہ تلوار کی آنچ کے سامنے لوگ آتے ہوئے ڈرتے ہیں، بڑے بڑے سورما وقت آنے پر دبک جاتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں ہم ایک عورت ذات کی بہادری کا ذکر نہ کرنا حق پوشی سمجھتے ہیں جس نے ہم ایسے دس بہادروں کو زیر کرلیا تھا۔
محمد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ ہمارا آغازِ شباب اور ہمارے ساتھ دس شاگرد پیشہ جُسیدار سورما سپہ گری کے فن میں ہوشیار، اس وقت ہماری نگہ میں آدمی کی وقعت ایک مچھر سے زیادہ نہ تھی۔
ایک روز خبر ملی کہ درگاہ کے قریب حکیم سید علی کے مکان میں دہلی کی ایک بیگم بہت مالدار آئی ہوئی ہیں۔ ہم نے اپنے دستور کے موافق اپنے ایک شاگرد سے کہلا بھیجا؛ اگر لکھنؤ میں رہنا ہے تو ہمارا حق پہلے دے دو۔ بیگم صاحب نے کہا کہ میر صاحب کی شہرت میں سن چکی ہوں اور دو ہزار روپیہ ان کی نذر کرنے کو رکھا ہے۔ مگر تم کو نہ دوں گی، تم انہیں کو بھیج دو۔
بیگم صاحب نے تو درحقیقت یہ بات سچے دل سے کہی تھی مگر چور کا دل کتنا ہوتا ہے، ہمارے شاگرد کو اس دال میں کچھ کالا معلوم ہوا۔
آٹھ روز ٹال کر ہم دسوں آدمی مسلح ہوکر بیگم صاحب کے مکان پر پہنچے۔ ایک شاگرد نے کہا آپ لوگوں کو اندر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جاکر جو کچھ پونجی ہے سمیٹ لاتا ہوں۔ رات کے دو بجے ہوں گے کہ یہ مکان کی دیوار پر چڑھ کر درانہ کود پڑا۔
اتفاق سے بیگم صاحب اس وقت پیشاب کی ضرورت سے اٹھی تھیں، دردانہ لونڈی ایک ہاتھ میں شمع اور دوسرے ہاتھ میں لوٹا لیے ہوئے ساتھ تھی۔ دھماکے کی آواز سن کر جو لونڈی نے آدمی کو دیکھا تو وہ “ووئی” کہہ کر بیہوش ہوگئی۔ بیگم صاحب نے لوٹا پکڑ لیا۔ بیگم صاحب کے گھر بھر میں مرد کا نام نہ تھا۔ مامائیں اصیلیں اپنے اپنے کونے میں دبک رہیں لیکن بیگم صاحب نے نہایت استقلال سے کہا کون؟ ہمارے شاگرد نے جواب دیا ہم ہیں۔ کہا کیوں قضا نے گھیرا ہے، جا سیدھا پلٹ جا۔ اس نے کہا سیدھی طرح سے اپنا زیور اتار کر رکھ دو اور روپیہ کا صندوقچہ حوالے کردو، نہیں تو تمہاری قضا پھڑپھڑا رہی ہے۔ بیگم صاحب نے کہا اچھا تو اپنا وار کر۔ ہمارے دم میں جب تک دم ہے ایک پیسہ نہ دیں گے۔ شاگرد نے پہلے تو دھمکایا، تلوار میان سے کھینچ کر اٹھائی، مگر یہ بھی پھکیت نکلی اور پیترا بدل کر ڈٹ گئی، اور کہا ہاں دیکھوں تو سہی تُو کیسا تلوریا ہے۔ اس نے ایک ہاتھ بھرپور مارا، بیگم نے لوٹے پر روک لیا۔ اسی طرح اس نے کئی ہاتھ مارے بیگم سب خالی دے گئی۔ اِتنی دیر میں پھرتی سے بیگم نے اپنا ریشمی رومال جو گلے میں بندھا تھا کھولا، ایک موٹا پیسا ازار بند سے کھول کر اس کے کونے میں باندھ خوب بل دیے اور ہتکٹی بچاکر وہی رومال گردن پر کھینچ مارا، جس کی چوٹ سے یہ غش کھاکر گر پڑا۔ جب اس کو بہت دیر ہوگئی تو ہم میں سے دوسرا آدمی کود گیا اور اس نے جو اپنے ساتھی کو مرا ہوا پایا تو نہایت غصے میں بیگم پر تلوار کے کئی ہاتھ لگائے، مگر وہ بھی ایسی ماہر فن تھی کہ سب ہاتھ لوٹے پر روکے اور جب اپنی باری آئی تو گھماکر وہی رومال مارا کہ وہ بھی غش کھاکر گر پڑا۔ یکے بعد دیگرے ہمارے سب آدمی کام آگئے تو گھبرا کر ہم خود کودے۔ مکان کو گنج شہیداں دیکھ کر ہماری آنکھوں میں خون اتر آیا اور بیگم پر بہت خشمناک حالت میں ہم نے حملہ کرنا چاہا۔ اس نے کہا میر صاحب! تم ایک نامی استاد ہو، میں تم سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتی اور نہ اس میں میرا رتّی بھر قصور تھا۔ میں نے تمہارے لیے دو ہزار روپیہ الگ رکھا تھا لیکن تمہارے شاگرد کی حماقت سے یہ نوبت پہنچی۔ ہم نے کہا اب تو جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا۔ میرے قوت بازو نو بہادر سپاہی تونے مار ڈالے، اب اس کے بعد زندگی کا کچھ مزا نہیں اور بہادر کے ہاتھ سے مرنا میں اپنے لیے بہتر سمجھتا ہوں۔ میں عورت پر کیا ہاتھ اٹھاؤں تو ہی پہل کر۔ بیگم نے کہا میر صاحب! تم خاطر جمع رکھو، یہ سب زندہ ہیں مرے نہیں ہیں۔ ان کو ابھی اچھا کیے دیتی ہوں، لیکن اس شرط سے کہ یہ سب ننگے سر اور ننگے پاؤں میرے گھر سے جائیں اور صبح کو اپنا جوتا اور ٹوپی لینے آئیں۔ میں نے طوعاً وکرہاً اس شرط کو منظور کرلیا۔ اس نے ہر ایک کی گردن آہستہ سے ہلائی وہ ہوشیار ہوکر اٹھ بیٹھا۔ جب اس طریق عمل سے سب اچھے ہوگئے تو میں نے کہا جس طرح تم نے ان سب کو بے ہوش کیا، ایسا ہی ایک ہاتھ مجھ پر بھی مارو۔ اس نے میرے لحاظ کی وجہ سے بہت پس وپیش کیا۔ جب میرا اصرار بڑھ گیا تو وہ رومال مجھ کو بھی رسید کیا۔ میں بھی بیہوش ہوکر گر پڑا۔ اُسی وقت میری گردن بیگم نے ہلائی، میں اچھا ہوگیا۔ جب ہم سب جانے لگے تو اس نے دو ہزار روپیہ ہماری نذر کیا۔ ہم نے کہا اب ہم روپیہ نہیں لے سکتے اور نہ تمہارے یہاں آج سے کوئی آئے گا۔ تم چَین سے پاؤں پھیلا کر سویا کرو۔ جہاں پر اس نے پیسہ مارا تھا اس دن سے آج تک وہاں درد ہوتا ہے۔ ہم نے تو اس عورت کے مقابلے میں کسی مرد کو بھی نہیں پایا۔
یہ حال تو چوری اور سینہ زوری کا تھا۔ چوک میں روز دو ایک سے بات بات پر تلوار چل جاتی تھی۔ ہر ایک بانکے کے پاس دو تلواریں ہوتی تھیں۔ ایک ہاتھ میں، ایک پرتلے میں؛ ذرا سی چشمک پر خچاخچ اور شپاشپ چلنے لگی۔
اِن سب باتوں پر بھی لوگ شاہی زمانہ کے معترف نظر آتے ہیں تو آخر وہ کونسی بات تھی جس سے اس زمانے کی اِس قدر عزت ہے۔ بات یہ ہے کہ شاذ ونادر واقعے تو ہر زمانے میں ہوا کرتے ہیں، لیکن عام طور پر شاہی زمانے کی سوسائٹی پر نظر دوڑائی جائے اور اگلے لوگوں کے طرز معاشرت پر غور کیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ اُس زمانے اور اِس زمانے کے لوگوں میں زمین وآسمان کا فرق تھا۔ اِس وقت کے لوگ اپنی تن پروری اور عمدہ اچھی پوشاک اور دولتمندی کو انتہائی امارت سمجھتے ہیں، اور اُس زمانے کے لوگ اپنی دولت کو کُنبہ پروری اور نیک نامی کی غرض سے صرف کرنے کو ریاست سمجھتے تھے۔ وضعداری کو اپنا جوہر سمجھتے تھے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ سلطنت کیسی ہی عادل اور منصف مزاج، نیک دل اور رحیم کیوں نہ ہو، لیکن اگر رعیّت کا طرز معاشرت خراب ہے تو سلطنت کو قانون کی کَل اُسی رخ پر پھیرنا پڑتی ہے۔ اور اگر سلطنت کے افعال ناشائستہ، قانون ناقابل عمل ہیں مگر رعیت کا طرز معاشرت عمدہ اور شریفانہ ہے تو سلطنت کو وہی رنگ اختیار کرنا ہوگا۔ یہ قانون قدرت ہے کہ جیسا طرز معاشرت مجموعۃً لوگوں کا ہوتا ہے اُسی کے مناسب حال گورنمنٹ کو قانون بنانا پڑتا ہے۔ تمام دنیا کی مخلوقات پر ایک قانون نافذ نہیں ہوسکتا۔
شاہی قانون کا سبک اور برائے نام نفاذ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ عام طریق پر شریف، نیک چلن، ایماندار اور خوش اخلاق تھے۔ غلہ ارزاں تھا۔ شہر میں ہُن برستا تھا۔ روپے پیسے کی طرف سے لوگوں کو بے فکری تھی۔ لباس، پوشاک اور کھانے پینے میں بہت تکلفات نہ تھے۔ چور، اچکّے، بدمعاش بھی اپنی کمائی نیک کام میں صرف کرتے تھے۔ بنی جان طوائف نے پچاس ہزار روپیہ خرچ کرکے چوک میں امام باڑہ بنوادیا جو آج تک موجود ہے۔ عباسی جان، گوہر جان کے امام باڑے دیکھ کرلوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کی ساری کمائیاں شہر کی آبادی برقرار رکھنے کے لیے صرف ہوتی تھیں۔
دہلی کے ایک بزرگ عمدۃ الملک اسلام خاں مشہدی وزیر شاہجہاں کے پڑوتےسید حیدر حسین صاحب سہیل اس وقت لکھنؤ میں موجود ہیں۔ تخمیناً اسی برس کا سِن شریف ہے، آپ برہان علی خاں جلادت جنگ کے نواسے ہیں۔ قدیم مکان نیل کے کٹرے میں تھا۔ واجد علی شاہ آخری شاہ اودھ کے آغاز حکومت میں بیس روپیہ کی کرائے کی بہل کرکے پندرہ روز میں لکھنؤ آئے۔ فرماتے ہیں کہ اس وقت کے لکھنؤ کا کیا پوچھنا، شہر رشک جنت بنا ہوا تھا۔ لکھنؤ بھر میں کہیں سڑک کا نام نہیں، دو طرفہ سر بفلک عمارتیں، عالی شان مکانات، پتلی پتلی گلیوں میں دو طرفہ دکانیں، مینا بازار سے چینی بازار تک دوکانوں میں ہر طرح کے تاجر پیشہ۔ جابجا ناچ رنگ کے جلسے ہورہے تھے۔ قیصر باغ کی بُرجیوں پر سنہری کلس چڑھائے جاتے۔ لوگ عموماً متواضع با اخلاق تھے۔ اسی طرح اور لکھنؤ کے شاہی زمانہ دیکھنے والے بڈّھے قدیم طرز معاشرت کا ذکر کر کے آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاہی زمانہ ایک خواب تھا جس کا سماں آنکھوں میں اب تک بندھا ہوا ہے۔ آہ کیا کیا لوگ تھے۔ شاہی عملے میں شرفا اہلکار تھے۔ کسی نیچ قوم کو سرکاری ملازمت کا عہدہ نہیں ملتا تھا۔ ایک کماتا تھا، دس کھاتے تھے۔ اناج سستا تھا۔ غریب سے غریب آدمی کے یہاں دوچار مہمان بنے رہتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر نالشا نالشی نہ ہوتی۔ سرکار دربار میں لوگ جاتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ بڑے بڑے معاملے آپس میں فیصلہ ہوجاتے تھے۔ اس قدر خود غرضی کا بازار گرم نہ تھا۔ اگلے وضعداروں میں پنڈت دلارام کشمیری شاہی میں بانگرمو کے چکلہ دار تھے۔ مزاج میں خیر تھی۔ ایک بارہ دری اپنے نام سے بنوائی، وسعت اور خوبصورتی میں اس کے ساتھ کی ایک نہ تھی، اس کو تمام شہر کی حاجت روائی کے واسطے وقف کردیا تھا۔ بیاہ شادی یا اور کسی تقریب یا غمی کی مجلس کے لیے جس کو ضرورت ہوئی اطلاع کردی اور صاحب خانہ نے دری، چاندنی، نمگیری، قنات، جھاڑ کنول، مردنگیں، دیوار گیریاں، دنگل قالین سے آراستہ کردیا۔ زیادہ ضرورت ہوئی، دیگیں اور خوان پوش وغیرہ بھی موجود۔ یہ سب سامان بارہ دری کے کوٹھے پر مستعد رہتا تھا۔
اِسی طرح تمام عمال سرکاری کی فیاضی اور سخاوت کا حال تھا۔ بادشاہ سے لے کر فقیر تک خوش نیت، مخیّر اور نیکی کی طرف راغب تھا۔ شُہدے سال بھر بھیک مانگ کر جو روپیہ جمع کرتے وہ یوم عاشورہ سید الشہدا کی مجلس میں لٹا دیتے۔
مہاراجا ٹکیت رائے نے جس قدر دولت کمائی مع تنخواہ کے سب تالاب، کنویں اور مسجدیں اور مندروں کی تعمیر میں صرف کردی، آپ ہمیشہ سادہ لباس اور سادہ وضع سے بسر کی۔
شاہی زمانے کو جو لوگ اب تک یاد کررہے ہیں وہ محض اگلے لوگوں کے اخلاق، تواضع، بردباری، نیک چلنی، وضعداری اور ملک کی مجموعی حالت اور شریفانہ برتاؤ کا ماتم کرتے ہیں اور یہ تو اس وقت تک رونا رہے گا جب تک ہم اپنی حالت کو نہ بدلیں گے۔ در حقیقت یہ ہماری بد اخلاقیوں کا رونا ہے۔