میں دروازے کے باہر نہیں رہا بلکہ گھر کے اندر کی بات بتائی ہے۔ جو کبھی کہا نہیں گیا تھا، وہ کیسے قلندروں کی طرح کہہ دیا ہے!
دعا
یا رب! میرے سینے میں باخبر دل عطا فرمائیے۔ مجھے وہ نظر دیجیے کہ شراب میں نشے کو بھی دیکھ سکوں۔
یہ بندہ جو دوسروں کی سانس پر زندہ نہیں رہا، اِسے صبح کی طرح دل سے نکلی ہوئی آہ عطا فرمائیے۔
میں سیلِ بے پناہ ہوں، مجھے کسی چھوٹی اور حقیر ندی میں گرنے سے بچائیے۔ پہاڑ، بہار کے دامن اور وادی کو میری جولاں گاہ بنائیے!
اگر مجھے بیکراں سمندر کا ہمسر بنایا ہے تو مجھے موجوں کے اضطراب کے ساتھ ساتھ موتی کا سکون بھی عطا فرمائیے۔
آپ نے میرے شہباز کو چیتوں کے شکار کے لیے چھوڑا ہے تو مجھے زیادہ بلند ہمت اورزیادہ تیز چنگل بھی عطا فرمائیے!
میں حرمِ کعبہ کے پرندوں کے شکار پر نکلا ہوں، مجھے ایسا تیر عطا فرمائیے جو بغیر چلائے ہی کارگر ہو۔
میں مٹی ہوں، مجھے داؤد کے نغموں کی روشنی سے منور کر دیجیے۔ میرے ذرے ذرے کو چنگاری جیسی اڑان عطا فرمائیے۔
۱
جنون اور وحشت بڑھانے والے عشق کو ہر راستے نے آپ کی گلی میں پہنچایا۔ اسے اپنی تلاش پر کیسا ناز ہے کہ راستہ آپ ہی کی طرف لے گیا۔
۲
ہمارے سینے میں آرزو کی خلش کہاں سے آئی؟ گھڑا تو میرا ہے لیکن گھڑے میں شراب کہاں سے آ ئی؟
میں نے مانا کہ دنیا خاک ہے اور ہم مٹھی بھر خاک مگر ہمارے ذرے ذرے میں جستجو کا درد کہاں سے آیا؟
ہم میں یہ جنون اور ہائے و ہو کی ولولہ انگیزی کہاں سے آئی کہ اب ہماری نگاہیں کہکشاں سے دست و گریبان ہیں؟
۳
کوئی غزل چھیڑئیے اور گائے ہوئے گیت پھر سے سنائیے۔ اِن افسردہ دلوں کی دلدہی کا سامان کیجیے۔
کنشت، کعبے، کلیسا اور بتخانے کے لیے ان نیم باز آنکھوں سے ہزار فتنے برپا کر دیجیے۔
جس شراب نے میری خاک میں آگ لگا دی، اُس کا کوئی پیالہ ان نئے ارادتمندوں کے لیے بھی لائیے۔
وہ بانسری لائیے جس کی آواز سے دل سینے میں رقص کرتا ہے اور وہ شراب جس سے روح کی صراحی پگھل جاتی ہے!
عجم کے نیستاں میں صبح کی ہوا بہت تیز ہے۔ وہ چنگاری لائیے جو ساز کے تاروں سے اُڑ رہی ہے۔
۴
اے کہ جس نے میرے آہ و نالہ کی گرمی بڑھا دی ہے، میری آواز سے ہزار سالہ وجود کو زندہ کر دیجیے!
آپ جو پیالے کی مٹی اور پانی کو شرابِ زندگی کی بدولت شوق و مستی عطا کرتے ہیں، میرے دل کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر سکتے!
میری سانس سے مرجھائی ہوئی کلی کی گرہ کھول دیجیے اور میری نسیم سے لالہ کے دل کے داغ کو لہکا دیجیے۔
میرا خیال چاند، سورج اور مشتری سے آگے بڑھا جاتا ہے۔ آپ جو تاک میں بیٹھے ہیں، اسے شکار کیوں نہیں کرتے؟
میرے مولا! اپنے اِس فقیر کی لاج رکھیے جس نے دوسروں کی ندی سے پیالہ نہیں بھرا۔
۵
ہمارے جسم کی خاک آپ کی جدائی میں سیکڑوں نالے بلند کرتی ہے کیونکہ آپ میری سانس سے بھی زیادہ قریب ہونے کے باوجود مجھ سے دور ہیں۔
کبھی آپ ہوا کے جھونکے میں چھپ کر باغ میں آجاتے ہیں ،کبھی پھول کی خوشبو میں آپ کا پتہ ملتا ہے اور کبھی کلی کے چٹکنے میں آپ کی آہٹ محسوس ہوتی ہے۔
مغرب آپ سے بیگانہ ہے اور مشرق میں محض افسانے رہ گئے ہیں۔ اب وقت آگیاہے کہ آپ دنیا میں ایک نئے اندازکے ساتھ جلوہ گر ہوں۔
جس پر پوری دنیا کی حکومت کی دھن سوار ہو اُس کے جنون کو چنگیز کی تلوار سے ختم کردیں۔
میں ایک آوارہ گرد اور آزاد بندہ ہوں، کہیں آپ سے بھی بھاگ ہی نہ جائوں۔اپنی زلفوں کی گرہیں میری گردن میں ڈال کر مجھے اپنا پابند بنالیں۔
میں تو محض نالۂ وفریاد کرنا ہی جانتا ہوں اور لوگ کہتے ہیں کہ میں غزل کہتا ہوں۔یہ کیا شے ہے جو شبنم کی طرح آپ میرے دل پر نازل کر رہے ہیں۔
۶
میں اگرچہ تاریک مٹی سے بنا ہوں مگر مجھ میں ایک ننھا سا دل ہے جو میری کل متاع ہے۔ میری آنکھیں ایک حسن کو دیکھنے کے لیے ستاروں کی طرح کھلی رہتی ہیں۔
میں تو محض اس لیے ایک خاموش نالے کی شکل ہوں کہ میں آپ کے مضراب کی خواہش رکھتا ہوں۔ آپ مجھے ایسا ساز سمجھ رہے ہیں جو راگ کے قابل ہی نہیں۔
میرے دل کی دنیا کو ایسا کردیں کہ میں اپنی نوا کے شعلے سے خاکی انسانوں کے دلوں کو گرمادوں اور فرشتوں کے دلوں میں گداز پیدا کردوں۔
ہماری فطرت میں یہ جو تڑپ اور اضطراب ہے، یہ ہماری نیازمندی اور عاجزی کی وجہ سے ہے۔ آپ جو ہر حاجت سے بے نیاز ہیں میرے سوزوساز کو نہیں پاسکتے۔
میں نے اپنا راز نہ عیاں کیا ہے نہ چھپایا ہے۔ ہاں، اس انداز میں غزل کہی ہے کہ میرا سب راز ظاہر ہوگیا۔
۷
پیاس سے دم توڑتی دنیا کے لیے میں نے اپنی دردمند اور دلپذیر صدا سے شرابِ زندگی کو جاری کردیاہے۔
آپ نے مجھ جیسے بے نوا پر ایک ایسی دنیا کا دروازہ کھول دیا جس کا تصور بھی کسی انسانی ذہن میں نہیں آسکتا۔
اپنی سرمے جیسی نگاہ سے آپ میرے دل وجگر میں اتر گئے۔ یہ نگاہ بھی کیسی نگاہ ہے جس نے ایک تیر سے دو نشانے کئے ہیں۔
میری نگاہ جو نارِساتھی، اُسے آپ نے یہ کیسی بہار کا جلوہ دکھادیا کہ میں ایک نوآموز پرندے کی مانند باغ اور سبزہ زار اور دامنِ کوہ میں نالہ وفریاد کرتا پھرتا ہوں۔
اگر دوبادشاہ ایک ریاست میں نہیں سما سکتے تو بھلا حیرت کی کیا بات ہے۔حیرت تو اس پر ہے کہ ایک فقیر دو عالم میں نہیں سماتا۔
۸
اپنے پورے چاند پر سے نقاب ہٹا دیجیے۔ اپنی رحمتِ عام کفر اور دین دونوں پر برسا دیجیے۔
پرانا نغمہ پھر سنا کر جام کی گردش کو تیز کر دیجیے۔ پھر سے اپنے آتشیں جام کے ساتھ ہماری محفل کی طرف توجہ کیجیے۔
شانے پر زلفیں پھیلائے باغ میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کی چھت پر یہ پرندہ بیٹھا ہے، اِسے ہی شکار کرلیں۔
عراق کا صحرا منتظر ہے اور حجاز کی مٹی پیاسی ہے۔ اپنے کوفہ اور شام کو پھر سے حسینؑ کے خون سے سیراب کردیں۔
رہبر کو ایک طرف کرکے عشق اپنا راستہ اکیلے ہی طے کرتا ہے۔وہ اپنا اختیار کسی اور کے حوالے نہیں کرتا۔
میں اپنی بے خبری میں دَیر کے آستانے پر کھڑا آہ وزاری کرتا رہا۔ یہاں تک کہ میں نے حرم کو پہچان لیا اور اپنی راہ ومقام جان گیا۔
میں کہ جس نے قید کی تنہائی میں بھی اپنا پیغام سنادیا، گویا بہار کی آمد کا پیام دینے والا پہلا پرندہ ہوں۔
۹
میری نوا اس لیے پرسوز،بیباک اور غم انگیز ہے کہ میرے وجود کے خس وخاشاک میں ایک چنگاری آن گری ہے جبکہ صبح کی ہوا بیحد تیز ہے اور اُسے خوب بھڑکا رہی ہے۔
اگرچہ عشق کے پاس سروسامان نہیں ہوتا مگر وہ تیشہ ضرور رکھتا ہے جو پہاڑ کا سینہ چیر دیتا ہے لیکن پرویز کے خون سے پاک رہتا ہے۔
ایک ادا شناس کا یہ نکتہ میرے دل میں گڑ گیا ہے کہ معشوقوں کی نگاہ اُن کی دلآویز باتوں سے زیادہ کاری ہوتی ہے۔
ایک گھڑی کو ذرا اِس ہجر کے مارے کے سرہانے آکر بیٹھ جا ئیے۔ آپ کی بزم سے خالی پیمانہ لے کر لوٹنے والے کی زندگی کا پیمانہ اب لبریز ہوا چاہتا ہے۔
میں نے داغِ جدائی کی آگ کو باغ میں اِس قدر نمایاں کردیا ہے کہ صبح کی ہوا اُس کو اور بھڑکاتی ہے اور شبنم اس کو ٹھنڈا نہیں کرپاتی۔
گوکہ یہ آپ کے پوشیدہ اشارے بھی گھر برباد کردینے کو کافی ہیں مگر پھر بھی مجھے آپ کے چشم واَبرو کے بیباک اور خونریز اشاروں کی چاہت ہے۔
عقل ودل دونوں کا ٹھکانا یہی آب وگل کی دنیا ہے مگر نہ جانے اِس میں کیا راز ہے کہ عقل کو یہ ٹھکانا زیادہ پسند ہے مگر دل اس سے الگ تھلگ رہتا ہے۔
مجھ کو دیکھ لو کہ میرے علاوہ پورے ہندوستان میں کوئی اور برہمن زادہ ایسا نہ ملے گا جو روم وتبریز کے ایسے صوفیانہ رموز سے واقف ہو۔
۱۰
میرا دل اور آنکھیںآپ کا نظارہ کرنے کے لیے سراپا اشتیاق ہیں تو پھراگر میں ان کی تسکین کے لیے بت تراش لیتا ہوں تو کیا گناہ کرتا ہوں۔
آپ سامنے ہوکر بھی نقاب میں پوشیدہ ہیں اور نگاہ کو روشن نہیں کرتے۔اے میرے چاند!اگر میں فریاد نہ کروں تو کیا کروں۔
میری بے قیمت سی پونجی بس یہ ایک چھوٹا سا دل ہے اور وہ بھی آپ کی جدائی میں ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے۔ اگرآپ میری کارواں سرائے میں آجائیں تو آپ کا کیا جاتا ہے!
میں نے غزل سنائی کہ شاید اسی طرح مجھے قرار آجائے مگر شعلے سے چنگاری کے نکل جانے پر بھی اس کی تپش میں کہاں کمی ہوتی ہے۔
یہ دلِ زندہ جوآپ نے مجھے دیا ہے، حجاب میں نہیں رہ سکتا۔ اِسے ایسی نگاہ عطاکیجئے جو سنگِ خارہ میں چھپے شرارے کو بھی دیکھ سکے۔
آپ نے میرے دل کے ہزار ٹکڑوں میں اپنا غم اِس طرح بسا دیا ہے کہ ہر ٹکڑے کو اُس کا سرور مل رہا ہے۔
ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں بھی ایک کشتی اس خطرہ سے دوچار نہیں ہوتی جس کا کہ عشق ساحل کی سلامتی میں بیٹھے ہوئے بھی سامنا کرتا ہے۔
میں جھوٹے خداؤں اور دنیا وی بادشاہوں سے اس شانِ بے نیازی سے گزر گیاجیسے کہ ماہِ تمام ستاروں کے پاس سے گزرجاتا ہے۔
۱۱
اگرچہ عقل کا شاہین اپنی پرواز میں لگا ہوا ہے مگر اس ریگستان میں ایک ایساتیراندازبھی چھپا بیٹھا ہے جس کا نشانہ کبھی خالی نہیں جاتا۔
ایسی چیز موجود ہے جو رُکے ہوئے کام کی گرہ کھول دے۔ یہ عشق کے نغمے گانے والوں کی ہمت وحوصلے سے باہر بھی نہیں ہے۔
گفتار کی طاقت اگر ہے بھی تو کوئی اسے سمجھنے والا ہی نہیں ہے۔افسوس وہ عاجز کہاں جائے جس کے سینے میں کوئی راز ہو۔
اگرچہ مجھ کو سو طرح کے سوز میں سو طرح سے جلایا گیا ہے مگرکیسی لذت ہے اِس سوز میں جو ساز کے ساتھ ہے!
ہم مردہ خاک سے پیدا ہونے والے دلِ زندہ بھی رکھتے ہیں۔ کہاں یہ دلِ زندہ اور کہاں ہم!یہ خدا ہی کا کام ہے۔
میرے سینے میں بھڑکتا شعلہ گھر کو روشن کردینے والا ہے مگر یہی گھرکوپھونک ڈالنے والا بھی ہے۔
میں افلاطون کی جہاںبین عقل پر تکیہ نہیں کرتا کہ میں پہلو میں ایک چھوٹا سا دل رکھتا ہوں جو بیباک اور گہری نظر رکھنے والاہے۔
۱۲
یہ دنیا کیا ہے؟میرے پندار کا صنم خانہ!اس کا جلوہ میری بیدار نظر کا مرہونِ منت ہے۔
یہ تمام عالم جس کا احاطہ میری ایک نگاہ کرلیتی ہے ،گویا میری پرکار کی گردش کا ایک دائرہ ہے۔
چیزوں کا ہونا نہ ہونا میری دید اور نادید سے ہے۔ کیا زماں اور کیا مکاں، سب میری شوخیٔ افکار سے ہے۔
چلنا اور ٹھہر جانا،ہونا نہ ہونا سب میرے دل کی جادوگری ہے۔یہی ہے جو میرے اَسرار کی طرف اشارہ کرنے والا اور انہیں کھولنے والا ہے۔
وہ جہاں کہ جس میں بویا ہوا کاٹتے ہیں، اُس کا نورونار سب میری ہی تسبیح وزنّار سے ہے۔
میں تقدیر کا راز ہوں اور جہاں فکر کی ایک بھی مضراب پہنچ سکتی ہے وہاں میرے تار موجود ہوتے ہیں۔
اے ذاتِ پاک کہ جس کے فیض سے میں قائم ہوں،آپ کہاںہیں؟یہ دونوں جہاں تو میرے اثر سے ہیں، آپ کا جہاں کدھر ہے؟
۱۳
ایسی فصلِ بہار اور ایسی خوش الحان بلبل کی آواز!اے میرے محبوب آپ بھی ایسے میں چہرے سے نقاب الٹ دیں،غزل سنائیں اور شراب لائیں۔
میرے ٹپکتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھیں اور اپنی طرف بھی نگاہ کریں۔میرے نیستاں پر ایسے ہی برق وشرار گراتے رہیں۔
بادِ بہار سے کہیے میرے خیال میں اُترے اور وادی ودشت میں ایسے ہی نقش ونگار بنائے۔
میںنے آپ کے چمن میں پھولوں اور کانٹوں کے درمیان اس طرح زندگی گزاری ہے کہ باغ وسبزہ زاروں کے سب پھولوں اور بوٹوں کو میری سانس نے طراوٹ بخشی ہے۔
اِس دنیائے آب وخاک کو میرے دل کی کسوٹی پر پرکھیے۔ اس کے روشن وتاریک ہونے کا اندازہ اس سے لگوائیے۔
میں روزِ حساب آپ کے حضور اس طرح پہنچوں گا کہ نہ تو میں نے کسی کو دل دیا ہوگا نہ دوجہاں میں دل لگایا ہوگا۔
پرانی گانے والی فاختہ نے میرا نالہ سنا تو کہا کہ چمن میں کسی نے پچھلے سال کا نغمہ اس طرح نہیں گایا۔
۱۴
مقامِ رضا نے بھی میرے کیاکیامسائل حل کیے! مجھے ہونے اور نہ ہونے کے پھندے ہی سے باہر نکال لایا۔
عشق کے جوش نے اس بنجر کھیت میں خوب زور لگایا۔ ہزاروں بیج بوئے تب میرا ورود ہوا۔
نہ جانے ان کی نگاہ نے میری خاک میں کیا دیکھا کہ لمحہ لمحہ مجھے زمانے کی کسوٹی پرپرکھا۔
اس خس وخاشاک کی دنیا کودرمیان میں ڈال کر میرے دل کو عطا کیے گئے ننھے سے شرارے کو آزمایا کہ وہ اس کو پھونک ڈالے۔
میرے ہاتھ سے پیالہ لینا کہ اب معاملہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ساقی کی کرشمہ سازی نے مجھے لوٹ لیا ہے۔
۱۵
اُٹھیے، پیاسی خاک پر زندگی کی شراب چھڑک دیجیے۔ اپنی آگ بھڑکا کر میری آگ ٹھنڈی کر دیجیے۔
درویشوں کی محفل، ایسے خودفراموشوں جیسی ہے جن کے میخانے کی صراحیاں خالی ہوں۔ بلند دعوے کرنے والے مدرسوں میں جوش کی آگ ٹھنڈی پڑچکی ہے۔
فکر ،جو گھتیاں سلجھاتی ہے، تقلید کی غلام ہے۔ دین محض روایتوں کا مجموعہ ہے۔اس لیے کہ سینے کے اندر جو دل ہیں، اُن کا کوئی ہدف ہی نہیں رہا۔
دونوں اپنی منزل کی طرف رواں ہیں اور دونوں ہی رہنمائی کررہے ہیں مگر عقل حیلے کے ساتھ لے جاتی ہے اور عشق اپنے زور سے کھینچ لے جاتا ہے۔
عشق اِس خیمۂ شش جہات یعنی کائنات کو اُکھاڑ پھینکتا ہے۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر کہکشاں کی طناب بھی کاٹ ڈالتا ہے۔
۱۶
آپ شاید سمجھیں کہ گھر کا طواف کرنے سے میرا مقصد محض گھر ہے۔ نہیں بلکہ میرا مقصود خود صاحبِ خانہ ہے۔
میں ایک ایسا شرار ہوں جس کا رنگ اڑچکا ہے۔ آپ میرے جلوے کو نظرانداز کیجیے کہ ایک دولحظہ کی چمک کے بجائے مجھ میں ہمیشہ کی گرمی اور روشنی ہے۔
میں جو راہ میں طے کرلیتا ہوں اس کی طرف دوبارہ نہیں دیکھتا۔زمانے کی طرح روز ایک نئی صبح کی تلاش کرتا ہوں۔
عشق کا سمندر ہی میری کشتی ہے،عشق کا سمندر ہی میرا ساحل ہے۔ نہ مجھے سفینے کی فکر ہے نہ کنارے کی خواہش۔
مجھ پر اپنی چنگاری ڈال دیجیے مگر ایسی جو مجھے بالکل ہی جلا ڈالے۔میں ابھی نیا نیا عقیدتمند ہوں، ابھی آشیانے کی فکر رکھتا ہوں۔
میں اس امید پر بادشاہوں کی کمندوں کا شکار ہونے سے ہرنوں کی طرح بھاگتا ہوں کہ کسی روز آپ میرا شکار کرنے آئیں گے۔
اگرآپ کرم فرمائیں تو میں اپنے پاس موجود اس دل افروزمئے شبانہ کے دوتین جام اس معاشرے کو بھی دے دوں۔
۱۷
میرا محبوب سواری پر بیٹھے بیٹھے راہ نشینوں پر ایک نظر ڈال کر گزر جاتا ہے۔کوئی مجھے تھامے کہ میرا معاملہ ہاتھوں سے نکلا جاتا ہے۔
میں اپنے دوست کے جلوے کی بات دوسروں سے بھلا کیسے کروں کہ وہ تو شرارے کی طرح چشمِ زدن میں نظر کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔
اس چاند کی منزل کی راہ سخت دشوار ہے جیسے عشق ستاروں کے دوش پر گزر جاتا ہے۔
آسمان کا پردہ تن جانے سے ناامید ہونے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ ہماری نظر کے تیر تو پتھر کے بھی پار ہوجاتے ہیں۔
ہماری شبنم ایک وسیع سمندر ہے جس کا کنارہ کہکشاں ہے۔اس سمندرکی ایک موج بھی اٹھتی ہے تو کنارے کو توڑتی ہوئی نکل جاتی ہے۔
جب تم اس کی خلوت میں پہنچو تو اسے نظربھر کر نہ دیکھنا کہ یہی وہ لمحہ ہے جب معاملہ نگاہ کی حد سے آگے کا ہوجاتا ہے۔
میں فراق میں کیا روؤں کہ آنسوؤں کے ہجوم میں دل ٹکڑے ٹکڑے ہوکر آنکھوں کے راستے بہاجارہا ہے۔
۱۸
آسمانوں تک پہنچ جانے والی عقل پر بہادری کے ساتھ شب خوں مارنا چاہیے۔ دردِ دل کا ایک ذرّہ افلاطون کے علم پر بھاری ہے۔
کل مغبچے نے مجھے اسررِ محبت بتائے کہ آنسو کا وہ قطرہ جو تم پی جاتے ہو، سرخ شراب سے بہتر ہے۔
ایسافقر جو بغیر تلوار کے ہی سیکڑوں دل فتح کر لے، دارا کی شان وشوکت اور فریدوں کے کرّوفر سے بہتر ہے۔
دیرِ مغاں میں آئے ہو تو بلند مضمون کی بات لے کر آنا۔ قصّے کہانیوں کی باتیں تو صوفی کی خانقاہوں میں ہی بہتر ہیں۔
اگر ہماری بہتی ہوئی ندی میں کسی طوفان کے منّتِ احساں ہوئے بغیر ایک موج بھی پیدا ہوجائے تو وہ دریائے جیجوں کی موج سے بہتر ہے۔
جو طوفان تم لائے ہو وہ شہر میں نہیں سماتا۔ یہ خانہ برباد تو بیاباں کی خلوت کے لیے ہی بہتر ہے۔
غزل خواں اقبال کو کافر تو نہیں کہہ سکتے مگر اس کے دماغ میں جو سودا ہے اُس کی وجہ سے اسے مدرسے سے باہر ہی رکھنا بہتر ہے۔
۱۹
یا مسلمان کو یہ حکم نہ دیجیے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر باہر نکل آئے، یا اس کے فرسودہ جسم میں نئی جان پیداکردیجئے:
یا یہ کریں یا وہ!
یا برہمن کو حکم دیجیے کہ نیا خدا تراشے یا زناّریوں کے سینے میں خود آکر خلوت گزیں ہوجائیں،
یا یہ کریں یاوہ!
یا ایک اور آدم لا ئیںجو ابلیس سے کم تر ہو،یا ہمارے عقل ودیں کے امتحان کے لیے ایک اور ابلیس لائیں،
یا یہ کریںیاوہ!
یا نیا جہاں ہو یا نیا امتحان۔آخرآپ کب تک ہمارے ساتھ وہی کرتے رہیں گے جو اَب تک کیا ہے،
یا یہ کریں یا وہ!
فقر بخشا ہے تو خسرو پرویز کا سا شکوہ بھی بخش دیجیے۔ یا ایسی عقل عطافرما ئیے جو جبرئیل کی سی فطرت رکھتی ہو،
یا یہ کریں یاوہ!
یا میرے سینے میں موجود انقلاب کی آرزو ہی ختم کردیں یا اس زمین وآسماں کی سرشت ہی کو بدل دیں،
یا یہ کریںیاوہ!
۲۰
عقل بھی عشق سے اور ذوق ِنظر سے بیگانہ نہیں مگر اس بیچاری میں وہ جرأتِ رندانہ نہیں۔
اگرچہ میں جانتا ہوں کہ منزل کا خیال میری اپنی ہی ایجاد ہے مگر سفر کے دوران تھک کر بیٹھ جانا ہمّتِ مردانہ کے خلاف ہے۔
میں اُس سے ہر گھڑی ایک نیا میدانِ عمل چاہتا ہوں یہاں تک کہ مجھے جنون عطاکرنے والا خود ہی یہ کہہ دے کہ اب کوئی اور ویرانہ نہیں بچا۔
اس قدر شدّتِ جنوں میں بھی مجھے اپنے گریباں کا خیال رہا۔جنوں میں ہوش وحواس نہ کھونا ہر دیوانے کا کام نہیں۔
۲۱
آپ کی جستجو میں جو لذت ہے وہی میری زندگی کا سوزوگداز ہے۔راستہ مجھے سانپ کی طرح کاٹتا ہے اگر میںآپ کی طرف نہ چلوں۔
جبرئیل ؑ اپنا سینہ کھولے ہوئے عاشقوں کے پاس سے گزرتے ہیں تاکہ ان پر آرزو کی کوئی چنگاری جا پڑے۔
کبھی میں آپ کے جلوے کے شوق میں سارے حجاب ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہوں اور کبھی اپنی ہی نگا ہِ نارسا سے آپ کے رخ پر حجاب ڈال دیتا ہوں۔
میں آپ کی تلاش میں نکلوں یا اپنی تلاش میں،میری عقل، دل اور نظر سب آپ کی راہ میں گم ہوچکے ہیں۔
میںآپ کے ہی چمن سے پھوٹا ہوا پودا ہوں۔ مجھے شبنم کے قطرے عطافرمادیں۔ میرے دل کی کلی کھِل جائے گی اور آپ کی ندی کے پانیوں میں کچھ کمی واقع نہیں ہوگی۔
۲۲
اس محفل میں جہاں معاملہ شراب وساقی سے گزرچکا ہے، میں ایسا دوست کہاں سے تلاش کروں جس کے جام میں میں اپنی بچی ہوئی مے ڈال دوں۔
جو شخص سونے کے جامِ میں زہرِشیریں پینے کاعادی ہوچکا ہو وہ میرے مٹی کے پیالے سے یہ تلخ شراب کیسے پئے گا جو اس زہر کا تریاق ہے۔
میری خاک سے شرارے اٹھ رہے ہیں، انہیں کہاں گراؤں اور کہا ں جلاؤں۔آپ نے یہ کیا غضب کیا کہ میری جان میں اپنا سوز بھر دیا۔
مغرب نے علم وعرفان کے چشموں کو گدلا کردیا ہے۔ ارسطو کے پیرو ہوں یا افلاطوں کے، دونوں ہی نے اس جہاں کو تاریک تر کردیا ہے۔
دنیا کے دل سے فریاد اٹھ رہی ہے کہ میں زہر آلود ہوگئی، میں زہر آلود ہوگئی! عقل فریادی ہے کہ اُس کے پاس اِس زہر کا تریاق نہیں۔
کیا ملاّ اور کیا درویش! کیا سلطان اور کیا دربان! سب منافقت اور فریب سے اپنا کام نکال رہے ہیں۔
جس بازار میں جوہر شناس کی آنکھ بدنظر اور کم نظر ہے، وہاں میرا نگینہ جب چمک میں بڑھتا ہے تو اور بھی کم قیمت ہوجاتا ہے۔
۲۳
اے ساقی میرے جگر میں بھیگا ہوا شعلہ ڈال دیجیے۔ ایک بار پھر میری خاک میں ایک نئی قیامت برپا کردیجیے۔
اس نے مجھے گندم کے ایک دانے کے عوض زمین پر پھینک دیا تھا۔آپ مجھے پانی کے ایک گھونٹ کے ذریعے آسمانوں کے پار پہنچا دیں۔
عشق کو ایسی پر زور وطاقتور شراب عطاکردیجیے کہ جوانوں کو پچھاڑ دے۔ اُس کی تلچھٹ میرے ادراک کے پیمانے میں ڈال دیجیے۔
حکمت وفلسفہ نے مجھے بوجھل و مست کردیا ہے۔اے میرے رہنما، میرے سر کو اس بوجھ سے آزاد کردیجیے!
عشق کی شراب کی گرمی عقل میں سوزوگداز پیدا نہیں کرسکی۔ اب اس کا علاج اپنے غمزہ واَدا سے کردیجیے۔
یہ محفل ابھی تک امید وبیم کی کشمکش میں گرفتار ہے۔اس پوری محفل کوآپ افلاک کی گردش سے بے نیاز کردیجیے۔
عین خزاں کے عالم میں بھی گل ولالہ اُگائے جاسکتے ہیں۔بس آپ پرانی شاخ پر انگور کا لہو ڈال دیجیے۔
۲۴
اے ساقی، آپ مجھے اس شراب کا ایک بڑا پیالہ عطا کردیجیے جو مجھ میں لالے کے پھول کھلا دے اور میری خاک کی مٹھی کو بہار کی ہوا کے کندھوں پر اُڑا دے۔
میں نے یورپ میں جس مینا سے علم کی شراب پی، اُس نے میری فکر کو تاریک کردیا ہے۔اپنی منزل کے اس مسافر کو نگاہ شناس اور راہ شناس نگاہ عطا کردیجیے۔
میں تنکے کی طرح ہوا کے ہر جھونکے سے اُڑ کر اِدھر اُدھر جاپڑتا ہوں۔میرا دل شکوک اور بے یقینی کی کیفیت پر چیخ کر فریاد کرتا ہے، اسے یقین کی دولت عطاکردیجیے۔
میری روح میں آرزوئیںایک چنگاری کی مانند بھڑکتی اور بجھتی رہتی ہیں۔میری رات کو دلنشین آرزو کا ایک عظیم ستارہ عطاکردیجیے۔
آپ نے میرے ہاتھ میں ایسا قلم تھمایاہے جو اعلیٰ ترین نقش تحریر کرسکتا ہے۔مجھے ایسا نقاش بنایا ہے تو اب ایک پیشانی کی لوح بھی عطا کردیجیے جس پر میں اپنے نقش کا کمال دکھاسکوں۔
۲۵
ہر وہ نقش جو دل آنکھوں سے حاصل کرتا ہے، میں اُس سے پاک ہوکر آیا ہوں۔میں پاک معنی کا گدا ہوں اسی لیے ذہن کو ہر خیال سے خالی کرکے آیا ہوں۔
کبھی کبھی ذوقِ جنوں مجھے دانائی کے طورطریقے بخشتا ہے اورکبھی میں عقلمندوں کے حلقۂ درس سے گریباں چاک کرکے لوٹتا ہوں۔
کبھی دنیا مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، کبھی میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہوں اور اُس پر حاوی آجاتا ہوں۔اے ساقی، اپنی شراب کو گردش میں لا ئیے تاکہ میں اس مشکل اور الجھن سے باہر نکل سکوں۔
نہ یہاں ساقی کے چشم واَبرو کے اِشارے ہیں نہ وہاں کوئی حرفِ عاشقی ہے۔میں صوفی اور ملاّ دونوں کی محفل سے افسردہ لو ٹ آتا ہوں۔
وہ وقت بھی آئے گا کہ آپ کے خاص لوگوں کو مجھ سے کام پڑے گا۔ میری فطرت صحرائی ہے اور بادشاہوں کے حضور بیباکانہ چلا جاتا ہوں۔
۲۶
میرا آزاد منش دل نورِ ایمان کے ساتھ کافری بھی کرتا رہا ہے۔حرم کو سجدہ کرتا رہا اور بتوں کی خدمت کرتا رہا۔
میں اپنی اطاعت اور بندگی کے لیے ایک بڑی ترازو لاکررکھوں گا۔ بازارِ قیامت میں خدا سے سودے بازی کروں گا۔
میرا دل زمین وآسمان کی گردش اپنی خواہش کے مطابق چاہتا ہے۔ہے تو ذرا سی غبارِ راہ مگر تقدیر ِ الہٰی کے مقابل اپنا فیصلہ صادر کرنا چاہتا ہے۔
میرا دل کبھی حق کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور کبھی حق سے الجھ پڑتا ہے۔کبھی حیدر کا سا کردار اداکرتا ہے اور کبھی یہودِ خیبر کی طرح حق سے دست وگریباں ہوجاتا ہے۔
اپنے جوہر کی بے رنگی کے باوجود اس سے شعبدے اور جادو صادر ہوتے رہتے ہیں۔ذراایسا کلیم تو دیکھو جو پیغمبری بھی کرتا ہے اور ساحری بھی۔
کہاں تو میری نگاہ، دوراندیش عقل کو شوق کی لذت عطا کرتی ہے اور کہاں یہ فتنے برپا کرنے والے جنون کو نشتر بھی لگاتی ہے۔
یہ تن آساں دل اپنے آپ کو بھلا کب پاسکتا ہے۔ اس نے ہزاروں سال تو مقامِ آزری میں گزارے ہیں۔
۲۷
روزِ محشرآپ بھلا شاعر سے نعرۂ مستانہ کیوں چاہتے ہیں؟آپ تو خود ہنگامہ ہیں، ایک اور ہنگامہ کیوں چاہتے ہیں؟
آپ نے میری طبعِ رواں کو بحرِ نغمہ سے آشنا کردیا۔ اب محض گوہر کیا چاہتے ہیں، میرے چاک سینے سے دریا طلب کیجیے۔
ایسی نماز جس میں دل آپ کی طرف متوجہ نہ ہو مجھ سے نہیں پڑھی جائے گی، ہاں بالکل نہیں پڑھی جائے گی۔میں تو ایک خالص دل لے کر آپ کے حضور میں آیا ہوں، آپ اس کافر سے اور کیا چاہتے ہیں؟
۲۸
نہ تو میرا ذہن کفروایمان کا کارزار ہے اور نہ ہی غموں کو گلے لگانے والی میری جان کو باغِ رضوان کی خواہش ہے۔
اگرآپ میرے دل میں اُتریں تو اُس میں اپنا ہی خیال جاگزیں پائیں گے، جیسے کسی بیابان میں چاندنی بکھری ہوتی ہے۔
۲۹
خوش الحان پرندہ ہو یا شکاری شاہین، سب آپ ہی کے پیدا کردہ ہیں۔اب زندگی کسی کو نور کی جانب لے جائے یا نار کی جانب، سب آپ ہی کی طرف سے ہے۔
یہ مٹھی بھر خاک،بیدار دل اور کہاں دنیا کا نظارہ! اِس چاند کا رات بھر ہاتھی کے ہودج کی طرح سواری کرنا آپ ہی کی طرف سے ہے۔
میرے سب افکارآپ کی ہی طرف سے ہیں چاہے دل میں ہوں یا زبان پر۔ اس بحر سے گوہر نکالنا یا نہ نکالناآپ ہی کا کام ہے۔
میں تو وہی مٹھی بھر خاک ہوں جس میں کچھ پیدا نہیں ہوسکتا۔اب اِس خاک میں گل ولالہ کا کھلنا اور ابرِ بہار کی طراوت کا برسنا سب آپ کی طرف سے ہے۔
ہم تو چلم چھڑک دینے والے ہیں، اس سے نقش بنانے والے آپ ہیں۔ہمارے حال کی صورت گری اور آیندہ کی نقاشی سب آپ ہی کی طرف سے ہے۔
مجھے بہت سے گلے ہیں مگر وہ زبان تک نہیں آتے۔محبت وبے مہری اور فریب ودوستی سب آپ ہی کی طرف سے ہے۔
۳۰
عشق کی راہ پر اُٹھا ہوا ایک قدم ہزار پارسائی سے بہتر ہے۔
خدائی کی محنت او رکلفت سے نکل کر ایک لحظہ کے لیے میرے سینے میں آکر آرام تو کیجیے۔
ہم کو ہمارے مقام سے باخبر کیجیے۔ہم کہاں ہیں اورآپ کہاں ہیں؟
وہ پرانے دوستانہ غمزے تو ذرا یاد کریں۔ آخر کب تک تغافل سے ہمیں آزماتے رہیں گے؟
کل رات پورے چاند نے مجھ سے کہا کہ نارسائی کے زخم کو گوارا کرلو۔
اس نے خوب کہا مگر عاشقوں کے مذہب میں جدائی حرام کردی گئی ہے۔
میں نے آپ کے حضور اپنے دل کی بات رکھ دی ہے کہ شایدآپ عقدہ کشائی کریں۔
۳۱
ذرا میرے دل کی دنیا پر اُن کا حملہ ملاحظہ کرو۔ پھر اُن کا قتل کرنا،جلا ڈالنا اور پھر نئے سرے سے درست کرنا تو ذرا دیکھو۔
کون سا دل ہے جو اِس چاند کی روشنی سے روشن نہیں ہے۔ہزاروں آئینوں کے سامنے ان کا خودکوبنانا سنوارنا تو ذرا دیکھو۔
جو ایک ہی ہاتھ سے ملکِ سلیمانؑ جیسے کئی ملک چھین لیتے ہیں اُن کا اپنے فقیروں کو دوجہاں بخش دینے کا کھیل تو ذرا دیکھو۔
وہ جو عقل مندوں کے دل ونظر پر شبخوں مارتے ہیں، ان کا اپنے ان نادانوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا تو ذرا دیکھو۔
۳۲
راہِ طلب میں میں ابھی تک دنیا کی دلدل میں پھنسا ہوا ہوں۔ میرا دل ابھی تک قافلہ،رختِ سفر اور منزل کے خیال میں گرفتار ہے۔
نگاہ کی بہ بجلی کہاں ہے جو میرے گھر کو پھونک ڈالے،کہ میں ابھی تک کھیتی اور اس کے حاصل کی فکر میں پھنسا ہوا ہوں۔
مجھ جیسے ناپختہ کی کشتی کو ذرا طوفان کی نظر کردیجیے۔ موج کے ڈر سے ابھی تک میری نگاہ ساحل پر ٹکی ہوئی ہے۔
تڑپتے رہنا اور کہیں پہنچ نہ پانا بھی کیسی لذت آمیز کیفیت رکھتا ہے۔کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جو ابھی تک محمل کے پیچھے ہے۔
جس نے ابھی دوجہاں سے الگ اپنی شناخت نہیں پہچانی وہ ابھی تک اس نقشِ باطل ہی کا فریب خوردہ ہے۔
نگاہِ شوق محض ایک جلوے سے سیر نہیں ہوتی۔میں اِس خلش کو کہاں لے جاؤں جو اَبھی تک میرے دل میں ہے۔
اگرچہ میں نے محبوب کے حضور میں گفتگو کو بہت طول دے کر بیان کیا مگرپھر بھی بہت سی باتیں ابھی تک دل ہی میں رہ گئیں۔
۳۳
سردی کا طویل موسم ختم ہوا۔ شاخوں پر نغمے پھر زندہ ہوگئے۔
چشموں کی طرف سے جو ہوائیں آرہی ہیں وہ گلوں کو رنگ اور ہواکوطراوت بخش رہی ہیں۔
بہار کی ہوا نے لالے کے چراغ کو جنگل اور صحرا میں کچھ اور روشن کردیا ہے۔
ایک میرا دل ہے کہ پھولوں کی صحبت میں بھی افسردہ ہے، ہرنوں اور مرغزاروں سے گریزاں ہے۔
کبھی یہ اپنے ہی دردوغم میں لذت محسوس کرتا ہے اور کبھی جوئے کہستاں کی طرح نالہ وفریاد سے رواں ہوجاتا ہے۔
میں تو اپنے رازداروں تک سے اپنا دردوغم بیان نہیں کرتا کہ کہیں اس کی لذت کم نہ ہوجائے۔
۳۴
مجھے گھر اور منزل کی خواہش نہیں۔ میں تو ہمیشہ ہی راستے کا مسافر رہا ہوںاور ہر دیار میں اجنبی ہوں۔
صبح دم راکھ نے صبا سے کہا ، ’’ صحرا کی اس ہوا نے میرے شرارے کو بجھا دیا،
اے صحرا کی ہوا ذرا آہستہ سے گزر! مجھے بکھیر نہ دے کہ میں تو سوزِ کارواں کی یادگارہوں۔‘‘
میری آنکھوں سے شبنم کی طرح آنسو گرنے لگے۔ میں بھی تو خاک ہوں اور راہگزر میں پڑا ہواہوں۔
میرے کان میں دل کی طرف سے یہ خوشخبری سنائی دی کہ زمانے کی ندی میرے چشمے سے رواں ہے۔
ازل میرے ماضی کی تابانی کا مظہر ہے۔ ابد میرے انتظار کے ذوق وشوق سے ہے۔
تو اپنی مٹھی بھر خاک کی فکر نہ کر بالکل فکر نہ کر۔تیری جان کی قسم!میری کوئی انتہا نہیں ہے۔
۳۵
میں چشمِ ساقی کی شراب میں مست ہوں۔بن پئے ہی بدمست ہوں، بن پئے ہی بدمست ہوں!
آپ کی بے حجابی نے میرے شوق کو ہوا دی ہے۔اِس پیچ وتاب میں ہوں کہ دیکھوں یا نہ دیکھوں۔
جس طرح شمع کا دھاگاآگ پکڑ لیتا ہے، اُسی طرح میرے مضراب سے رباب کے تار لو دینے لگتے ہیں۔
میرے دل کی منزل گاہ میرے دل سے باہر نہیں، اُس کے اندر ہی ہے۔ میں ہی بدنصیب ہوں کہ اُس کی راہ نہیں پارہا۔
جب تک مشرق سے سورج نہیں نکل آتا، ستاروں کی طرح میری آنکھوں سے نیند دوُر کردی گئی ہے۔
۳۶
آپ نے سورج کی طرح روشن ہوکر میری شب کی سحر کردی ہے۔آپ سورج کی طرح روشن ہیں تو مناسب ہے کہ بے حجاب ہوجائیں۔
آپ نے میرے درد کو جان لیا ہے اور میرے ضمیر میں آرام فرما ہیں۔آپ میری نگاہ سے گریز کرتے رہے ہیں حالانکہ آہستہ آہستہ سامنے آئے ہیں۔
آپ کم قیمت لوگوں کو گراں قدر بنادیتے ہیں اور بے قراروں کا قرار ہیں۔آپ ٹوٹے ہوئے دلوں کی دوا ہیں مگر حاصل دیر سے ہوتے ہیں۔
غمِ عشق اور اُس کی لذت کا اثر دوگونہ ہوتا ہے۔کبھی سوزودردمندی کی شکل میں اور کبھی مستی وخرابی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
میرے دل کا قصہ آپ ہی سنا ئیے کہ آپ اِسے خوب جانتے ہیں۔مجھے بتا ئیے کہ میرا دل کہاں ہے کہ میں اپنے پہلو میں تو اِسے نہیں پاتا۔
آپ کے جلال کی قسم! میرے دل میں کوئی اور آرزو نہیں، سوائے اس کے کہ کبوتروں کو عقابی شان عطاکردوں۔
۳۷
اے ساقی! اِس میخانے میں مجھے کوئی محرمِ رازنہیںملتا۔ شایدمیں کسی نئی دنیا کا پہلا آدمی ہوں۔
کبھی آپ میرے اِس فرسودہ پیکر کو مٹھی بھر خاک بنادیتے ہیں۔ کبھی اس خاک پر آبِ عشق چھڑک کر اس میں آگ بھڑکادیتے ہیں۔
جب آپ نے عجم میں ایک نئی بزمِ جم بپا کرہی دی ہے تو اب اسے دولتِ بیداراور جامِ جہاں نما بھی عطافرمادیں۔
۳۸
آپ بتایے کہ دردمندوں کے جہاں سے بھلا آپ کا کیا واسطہ ہے؟ کیا آپ میری تب و تاب پہچانتے ہیں یا مجھ سا بیقرار دل رکھتے ہیں؟
آپ کو ان آنسوؤں کی کیا خبر جو کسی کی آنکھ سے ٹپکتے ہیں۔ کیا آپ کے یہاں بھی برگِ گل پر پڑی شبنم موتی کی طرح چمکتی ہے؟
آپ کو اِس جان کا حال کیا بتاؤں جسے ایک ایک سانس گن کر گزارنا پڑتی ہے۔کیا آپ کے پاس بھی مستعار لی ہوئی جان ہے یا آپ بھی غمِ روزگار رکھتے ہیں؟
۳۹
اگر نظارہ بیخودکردیتاہے تو حجاب ہی بہتر ہے۔ مجھے یہ سوداقبول نہیں کہ یہ بہت مہنگا ہے۔
اب آپ ہم سے بے پردہ ہوکر سامنے آکر گفتگو کریں۔ کم آمیزی کے دن بیت گئے جب دوسرے بتایا کرتے تھے کہ آپ ہم سے یہ چاہتے ہیں،آپ ہم سے وہ چاہتے ہیں۔
میری بے ادب نگاہ نے آسمان میں رخنے ڈال دیے ہیں۔ اب بھی اگرآپ درمیان میں حجاب چاہتے ہیں تو ایک نیا عالم بنالیجیے۔
آپ کو تو اپنا اِتنا خیال ہے کہ اپنی بے نیازی کے باوجودآپ اپنے وجود پر گواہی اپنے دوستوں کے خون سے چاہتے ہیں۔
مقامِ بندگی اور ہے، مقامِ عاشقی اور ہے ۔آپ فرشتوں سے تو صرف ایک سجدہ چاہتے ہیں، خاکیوں سے اِس سے زیادہ کے طلبگار ہیں۔
میرے پاس جو خام تانبا ہے میں اُسے آپ کی محبت سے کیمیا بنارہا ہوں کہ کل جب میں آپ کے حضور پیش ہوں گا توآپ پوچھیں گے میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو!
۴۰
آپ کے نور نے سفید وسیاہ کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔دریا، پہاڑ، صحرا، جنگل، سورج اور چاند وجود میں آئے۔
آپ اُس کی خواہش رکھتے ہیں جسے نگاہ دیکھ سکتی ہے۔ مجھے اُس کی تلاش ہے جسے نگا ہ نہیں پا سکتی۔
۴۱
مجھے ایسا دل عطا کردیجیے جس کی مستی اُس کی اپنی شراب سے ہو۔یہ دل مجھ سے واپس لے لیجیے جو خود سے بیگانہ ہے اور دوسروں کے افکار رکھتا ہے۔
مجھے ایسا دل عطاکیجیے جو پوری دنیا کو اپنے اندر سمولے۔ یہ دل مجھ سے لے لیجیے جو کم اور زیادہ کے چکر میں پھنسا رہتا ہے۔
مجھے تقدیر کے ترکش سے باہر نکال لیجیے۔ جو تیر ترکش کے اندر ہو وہ جگر کے پار کیسے ہوسکتا ہے؟
جہانگیری سے زندگی کمزور نہیں ہوجاتی۔میں نے تو ایک جہاں اپنی گرہ میں باندھ رکھا ہے اور دوسرا میری نظر کے سامنے ہے۔
۴۲
یہ مٹھی بھرخاک ہی میرا سب کچھ ہے۔ میں اِسے اِس امید پر راہ میں بکھیر رہا ہوں کہ ایک روز میں اِسے فلک تک پہنچا دوں گا۔
کیا کروں، بھلا اِس کا کیا علاج کہ علم ودانش کی شاخ پرذرا سا بھی کوئی ایسا کانٹا پیدا نہیں ہوتا جس کا نشانہ میں اپنے دل کو بنا سکوں۔
جدائی کی آگ سے ہی میرے شرر کی نمود ہے۔ اگر میں اسے ہی بجھا دوں تو میرا نشان تک مٹ جائے گا۔
عشق ومستی کی مے میرے خون میں رچی ہوئی ہے۔میں نے دل ایسے نہیں دیا کہ پھر اسے واپس لے لوں ۔
آپ نے میرے دل کی سادہ تختی پر سارا مدّعا اور مقصد لکھ دیا ہے۔ اب مجھے اتنی سمجھ بھی عطا کیجیے کہ اسے غلط نہ پڑھ لوں۔
اگر آپ کے حضور کوئی میری غزل پیش کرے تو کیا ہی خوب ہو کہ آپ کہیں، ’’میں اُسے جانتا ہوں۔‘‘
۴۳
یہ دل جوآپ نے مجھے عطا کیا ہے، یقیں سے لبریز ہوجائے تاکہ یہ جامِ جہاں بیں اور بھی زیدہ روشن ہوجائے۔
اگرچہ گَردُوں نے میرے جام میں تلخ شراب ڈالی ہے، میرے جیسے پرانے رِند کے لیے وہ بھی شیریں ہوجاتی ہے۔
۴۴
ہوس والوں سے عشق کی رمز بیان نہیں کی جاسکتی۔جس طرح شعلے کی تب و تاب کی بات گھاس کی پتی سے نہیں کی جاسکتی۔
آپ نے مجھے ذوقِ بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ میں شعر کہوں لیکن جو کچھ میرے سینے میں ہے وہ میں کس طرح کسی سے کہوں۔
میرے دل کے نہاں خانے سے خوبصورت غزل نکلتی ہے مگر وہ شاخ پر بیٹھ کر ہی سنائی جاسکتی ہے۔ قفس میں کیسے سناؤں!
شوق اگر زندۂ جاوید نہ ہوسکے تو تعجب کی بات ہے۔ آپ کی باتیں اِس دو پَل کی زندگی میں توبیان نہیں ہوسکتیں۔
۴۵
وہ بھی کیا دن تھے جب میں رُباب اور بنسی کے ساتھ شراب نوش کرتا تھا! مے کاجام میرے ہاتھ میں ہوتا تھا اور مینا محبوب کے ہاتھ میں۔
اگرآپ میرے ساتھ ہوں تو خزاں میں رنگِ بہار پیدا ہوجاتا ہے۔ آپ نہ ہوں تو بہار کا موسم خزاں سے بھی زیادہ افسردہ ہوجاتا ہے۔
آپ کے بغیر میری جان ایسے ہے جیسے کوئی ساز جس کے تار ٹوٹ چکے ہوں۔ آپ کے حضور میں میرے سینے میں ہر لمحہ نئے نئے نغمے پھوٹتے رہتے ہیں۔
کیا آپ کو خبر ہے کہ میں بزمِ شوق میں کیا چیز لے کر آیا ہوں؟ ایک پھولوں کا چمن، ایک نالہ بھرا نیستاں اور ایک بھرا ہوا میخانہ۔
مجھ میں وہ محبت ایک بار پھر زندہ کردیجیے جس کی قوت سے بے گھر بوریا نشیں، کیکاؤس کے تاج و تخت کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔
دوست خوش ہیں کہ یہ آوارہ گرد اپنی منزل پر پہنچا۔ میں پریشان ہوں کہ ابھی تو علم ودانش کے مرحلے ہی طے کررہا ہوں۔
۴۶
ہماری روتی ہوئی آنکھ نے ہمارے گریبان پر ستارے برسائے ہیں۔ ہمارا یہ ذوقِ نظر ہمیں آسمانوں سے پرے لے گیا ہے۔
ہرچندکہ ہم زمین والے ہیں، ہم ثریا سے بلند تر ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ چنگاری جیسی مختصر زندگی ہمارے شایان ِ شان نہیں ہے۔
دنیا کے شام و سحر ہماری ہی گردش سے جنم لیتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ شام وسحر ہمیں راس نہیں آسکتے۔
گردوں کا یہ جام تو ہم خالی کرچکے۔ اس لیے اے ساقی! تکلف سے کام نہ لیجیے۔ مجھے ایک اور مینا عطافرما دیجیے۔
دوجہانوں کی وسعت بھی ہمارے جنون کے شایاں نہیں۔ یہ جہاں بھی ہمارے لیے محض راہگذر ہے، اور وہ جہاں بھی رہگذر ہے۔
۴۷
مشرق کہ جس کی کمندِ خیال میں آسمان بھی گرفتار ہے،افسوس کہ اب وہ خود اپنے آپ سے دور اور سوزِ آرزو سے خالی ہوچکا ہے۔
اس کی تیرہ وتاریک خاک میں زندگی کی تب وتاب نہیں ہے۔وہ محض ساحل پر کھڑا لہروں کی جولانیاںہی دیکھ رہا ہے۔
بت خانے اور حرم دونوں کی آگ سرد ہوچکی ہے۔ اب پیرِ مغاں تک کے پاس محض ہواکھائی ہوئی بے اثر شراب ہے۔
مغرب کی فکر مادّیت کے سامنے سربسجود ہوچکی ہے۔ وہ آنکھوں سے اندھی ہے۔ پھر بھی دنیائے رنگ وبو کے نظارے میں مست ہے۔
یہ آسمان سے بھی زیادہ تیزی سے رنگ بدلنے والی ہے۔ موت سے زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ اس کے ہاتھوں ہمارا دامن کچھ ایسے چاک ہوا ہے کہ اب رفو نہیں ہوسکتا۔
ہے تو یہ خاکی نہاد مگر خو تمام آسمان ِ کہن جیسی ہے۔ ویسی ہی عیار،مکاّر،ناقابلِ اعتبار اور فتنے برپا کرنے والی منافق ہے۔
مشرق تباہ حال ہے اور مغرب اُس سے کہیں زیادہ تباہ ہے۔سارا عالم مردہ اور میری جستجو کے ذوق سے بے بہرہ ہے۔
اے ساقی اپنی محبت کی شراب پلا یے کہ ایک بار پھر سے وہ بزمِ شبانہ آباد کریں۔ ہمیں اپنی ایک نگاہِ محرمانہ سے مست کردیجیے۔
۴۸
اپنے گیسوئے تابدار کے پیچوں میں ایک دو بل اور بڑھا دیجیے۔ اِس دلِ بے قرار کو تڑپنے کی مہلت بھی نہ دیجیے۔
آپ ہی سے میرے سینے میں وہ برقِ تجلّی ہے جس کی وجہ سے مہروماہ میرے انتظار کی تلخی اُٹھارہے ہیں۔
محبوب کو اپنے سامنے دیکھنے کی خواہش نے دنیا میں بت تراشی کی رسم ڈالی۔ عشق اِسی طرح اُمید رکھنے والے کو فریب میں ڈالتا ہے۔
مرغزار سے محبت کرنے والے پرندے کو ایک بار پھر مرغزار عطاکردیجیے تاکہ وہ سکون ِ قلب کے لیے نئے نغمے چھیڑ سکے۔
آپ نے مجھے طبعِ بلند عطافرمائی ہے تو میرے پاؤں بھی ہر بند سے آزاد کردیجیے تاکہ میں آپ کے دیے ہوئے بوریے کو بادشاہوں کی خلعت پر قربان کرسکوں۔
فرہاد کے تیشے نے اگر پتھرپھاڑ دیا تو اِس میں حیرت کی بات کیاہے؟ عشق تو اپنے شانوں پر پوراکوہسار اُٹھاسکتاہے۔
۴۹
میری روح زمانے کے دوش پر بہتی ہے۔ ندی کی طرح کوہساروں کے درمیان فریاد کرتی جا رہی ہے۔
ہم ناپائیدار اِس پائیدار کائنات سے نبردآزما ہیں، پیدا ہوکر بھی اور پنہاں ہوکر بھی!
یہ کوہ وصحراایہ دشت ودریا نہ ہمارے رازدار ہیں اور نہ غمگسار!
یہ ندیاں یہ آبشاریں سب شوق سے خالی ہیں۔
شاخوں پر بیٹھے بلبل کے ہزاروں گیت بھی سب کے سب بے سوز نالے ہیں۔
وہ داغ جو میرے سینے میں سلگ رہا ہے، آہ ایسا داغ لالہ زاروں میں کہاں!
۵۰
آپ نے میرے دل کو جو تسلی دی تھی اُس سے اِس کی تڑپ ختم نہیں ہوئی۔ اب میں اِسے ایک بار پھر آپ ہی کے حوالے کرتا ہوں۔
یہ بھی کیسا دل ہے کہ ایک ایک سانس محنت سے کھینچتا ہے اس لیے کہ اِسے خود اپنے حالات پر اختیار نہیں ہے۔
میں توآپ کے ضمیر میں آرام کررہا تھا ۔ آپ نے اپنے جوش ِ خودنمائی میں اپنے اِس آبدار موتی کو کنارے پر پھینک دیا۔
چاند ستاروں کوآپ سے شکایت ہے، جو آپ نے بھی سنی ہوگی، کہ میری اس تاریک خاک میںآپ نے اپنا شرارہ پھونک دیا ہے۔
اُن کے تیر کی خلش ہی ہمیں غنیمت ہے ۔ اگر شکار مردہ ہوکر اُن کے قدموں میں گر جاتا تو اُنہوں نے اپنے شکار کواُٹھانا بھی نہیں تھا۔
۵۱
سارے جہاں کی خواہشات کو محض ایک حرف میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ میں نے اپنی داستان کو طول اس لیے دیا ہے کہ آپ کے حضور زیادہ دیر تک رہ سکوں۔
آپ نے اپنے عشاق کی گویائی سلب کرلی مگرآپ نہیں جانتے کہ محبت بے زباں نگاہوں کو بھی گویائی عطاکردیتی ہے۔
کہاں وہ نوری مخلوق جو پیغام رسانی کے سوا کچھ نہیں جانتے اور کہاں یہ خاکی جو آسمان کو بھی اپنی آغوش میں لے سکتے ہیں!
اگر میرے وجود کے اجزائے ترکیبی میں سے ایک ذرّہ بھی کم ہوجائے تو میں اِس قیمت پر ہمیشگی کی زندگی بھی لینا پسند نہیں کرتا۔
اے بے پایاں سمندر! میںآپ کی موجوں کی کشمکش کا خواہشمند ہوں نہ مجھے موتی کی آرزو ہے اور نہ ہی ساحل کی تلاش!
وہ معانی جوآپ نے میری جان پر شبنم کی طرح برسائے ہیں میں نے اُن سے اظہارِ فریاد کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کرلی ہے۔
۵۲
آپ کب تک اپنے چہرے پر صبح وشام کا پردہ ڈالے رکھیں گے؟اپنا چہرہ دکھا ئیے تاکہ آپ کا جلوۂ ناتمام مکمل ہوسکے۔
سوزوگداز ایسی حالت ہے کہ آپ بھی مجھ سے یہ بادہ طلب کریں اگر میں اس مقام کی مستی کی کیفیت آپ کے حضور بیان کروں۔
میں نے زندگی کا نغمہ گاکر لالۂ تشنہ کام میں آتشِ شوق تو بھڑکادی ہے آپ شبنم کی نمی بھی عطافرمادیجئے۔
عقل ورق ورق ہوکر رہ گئی اورعشق اصل نکتہ پاگیا۔اس زیرک پرندے نے اپنے لئے بچھے جال کے نیچے سے دانہ اٹھالیا۔
نغمہ کہاں اور میں کہاں سازوسخن تو محض بہانہ ہے اصل میں تو میں بھٹکے ہوئے اونٹوں کو دوبارہ قطار کی جانب کھینچ رہا ہوں۔
وقت تو کھلی ہوئی بات کہنے کا ہے مگر میں اشاروں میں بات کرتا ہوںآپ ہی بتائیے کہ ان ناپختہ ساتھیوں کا میں کیا کروں؟
۵۳
ہم اپنے زمانے کے پیچاک میں پھنسے اپنی سانس گِن رہے ہیں۔سمندر کی طرح جوش وخروش دکھاتے ہیں مگر کنارے پر گرفتار ہیں۔
اگرچہ سطوتِ دریا سے کوئی محفوظ نہیں ہے مگر ہم اس کے صدف کے اندر موجود موتی کی طرح اپنی حفاظت کرتے ہیں۔
ہماری فطرت کے اندر جو جوہر پنہاں ہے اس کی قیمت صرّافوں سے نہ پوچھوہم خود ہی اس کی قیمت جانتے ہیں۔
ہمارے اس کھنڈر سے اب کوئی خراج کا طالب بھی نہیں ہے۔ہم فقیر ِ راہ نشیں ہیں اور آپ اپنے بادشاہ ہیں۔
ہمارے سینے میں کوئی اور بھی ہے کیا؟تعجب ہے کیا خبر یہ آپ ہیں یا ہم خودہی اپنے آپ سے دوچار ہیں۔
آدمِ خاکی کی تقدیر سے ذرا پردہ تو اٹھائیے کہ ہم آپ کی رہگذر میں بیٹھے آپ کا انتظار کررہے ہیں۔
۵۴
میں نے فغاں کے لیے لب نہیں کھولے کہ نالہ بے اثر ہے۔بہتر ہے کہ اپنا غمِ دل کسی سے نہ کہیں کہ ہر کسی کے پاس اتنا جگر نہیں کہ اسے برداشت کرسکے۔
کیا حرم کیا دیر ہر جگہ آپ سے محبت کے چرچے ہیں مگر بات یہ ہے کہ ہمارے آپس کے راز وں سے سب بے خبر ہیں۔
یہ بات دیکھی نہیں جاتی کہ شرر ہمارے جہان کی طرف ایک لمحے میں نگہ کرتا ہے اور دوسرے لمحے نہیں دیکھ پاتا۔
آپ میری آنکھوں کے راستے میرے ضمیر میں بس گئے ہیں مگر اس طرح گزرے کہ نگہ کو خبر تک نہ ہوسکی۔
ان جوہر شناسوں میں سے کوئی بھی میرے نگینے کی قیمت کو نہیں پاسکا۔میں اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں کہ دنیا والے تو نظرہی نہیں رکھتے۔
عقل کو خیرہ کردینے والی جس شراب کا پیالہ فرنگ نے ہمیں تھمایا ہے وہ آفتاب تو ہے مگر روشن کرنے کی تاثیر سے محروم ہے۔
۵۵
ہم کہ چاندنی سے زیادہ درماندہ واقع ہوئے ہیں کسی کو کیا پتا ہم نے یہ راہ کیسے طے کی ہے۔
آپ نے رقیبوں سے ہمارے دردِ دل کی بات کہہ دی ہے اور ہم اپنے آہ ونالہ کے اثر سے شرمسار ہوگئے ہیں۔
اپنے چہرہ سے پردہ اُٹھائیے کہ ہم خورشیدِ سحر کی طرح آپ کے دیدار کے لئے سراپا نگاہ بن کر آئے ہیں۔
ہمارے عزم کو یقین کی دولت سے اور پختہ کردیجئے کہ ہم اس معرکے میں بغیر کسی لشکر اور سپاہ کے آئے ہیں۔
آپ نہیں جانتے کہ ایک نگاہ سرِ راہ کیا کرسکتی ہے آپ یہ دیکھئے کہ ہم آپ کے حضٰور میں استدعا کرکے اب راہ میں کھڑے ہیں۔
۵۶
ذرا ہماری خاکِ پریشاں پر بھی نظرڈالیے۔ دیکھیے کہ کیسے یہاں کا ذرّہ ذرّہ بیاباں کو اپنے آپ میں سمیٹ لیتا ہے۔
حسنِ بے پایاں ایک سینے کی خلوت میں سمایا ہوا ہے۔ذرا اپنے آفتاب کو اس گریبان کے اندر ملاحظہ فرمائیے۔
آپ نے خود آدم کے دل کو عشقِ بلاانگیزعطاکیا اب اپنی بھڑکائی ہوئی آگ کو نیستاں کی آغوش میں دیکھئے۔
یہ اپنے دامن سے پرانے داغ دھورہا ہے ذرا اس آلودہ دامن کی سخت کوش محنت پر تو نظر کریں۔
ہماری خاک ایک دوسرا آسمان تعمیر کرنے کے لئے اٹھتی ہے ذرا اس ناچیز ذرہ کا حوصلہ تو دیکھیے کہ بیاباں کی تعمیر کا ارادہ رکھتا ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...