(۱)
بظاہر کوئی سبب تو نظر نہ آتا تھا، مگر کوئی چھ مہینے سے بوڑھوں کا آرام گھر تک اپنا امن و سکون کھو چکا تھا۔ کچھ بوڑھے سرگوشیوں میں باتیں کرتے، جلدی جلدی اندر باہر آتے جاتے رہتے تھے۔ صرف پو ای۱ ان دنیاوی جھمیلوں سے الگ تھلگ رہتا تھا۔ خزاں کا موسم تھا اور ٹھنڈ بڑھتی جا رہی تھی۔ یہ عمر کا تقاضا تھا کہ اسے سردی زیادہ لگتی تھی، لہذا وہ سارا دن دھوپ میں لیٹا رہتا اور کوئی عجلت میں قدم اٹھاتا ہوا بھی آتا تو وہ پلکیں اٹھا کر دیکھنے تک کی زحمت نہ کرتا۔
’’بڑے بھیا!‘‘
یہ شوچھی کی آواز تھی۔ پو ای جو ہمیشہ آداب مجلس کا پابند رہا تھا، فوراً اُٹھ کھڑا ہوا اور پھر سر اٹھا کر بھائی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’بڑے بھیا، یوں لگتا ہے سیاسی صورت حال اچھی نہیں۔‘‘ شوچھی نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بھائی کے پہلو میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز میں لرزش پنہاں تھی۔
’’بات کیا ہے؟‘‘ پو ای نے دیکھا کہ اس کے بھائی کا چہرہ پہلے سے کہیں زیادہ زرد ہو رہا تھا۔
’’آپ نے دو نا بینا موسیقاروں کے بارے میں تو سنا ہو گا جو شانگ کے بادشاہ کے ہاں سے فرار ہو کر آئے ہیں۔‘‘
’’ہاں‘‘ شاید سان ای شنگ نے چند دن پہلے ان کا ذکر کیا تھا۔ مگر میں نے زیادہ دھیان نہ دیا تھا۔‘‘
’’میں نے آج ان سے ملاقات کی۔ ایک گرینڈ ماسڑ چھی اور دوسرا جونیئر ماسڑ چھیانگ ہے۔ وہ اپنے ساتھ موسیقی کے کئی آلات لائے ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے نمائش بھی لگائی اور جس کسی نے یہ آلات دیکھے عش عش کر اٹھا۔ مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ یہاں لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘
’’آلات موسیقی پر لڑائی؟ یہ بات ماضی کے شاہانہ اطوار سے ہم آہنگ نہیں۔‘‘ پو ای نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’’معاملہ صرف آلات موسیقی کا نہیں۔ آپ شانگ کے بادشاہ کے ظلم و ستم سے واقف ہی ہوں گے۔ ایک آدمی نے ٹھنڈے یخ پانی کی پروا نہ کرتے ہوئے صبح سویرے ننگے پاؤں دریا پار کیا تو بادشاہ نے پاؤں کی ہڈیوں کا گودا دیکھنے کے لئے اس کے پاؤں کٹوا دئے تھے۔ اس نے یہ دیکھنے کے لئے شہزادہ پیکان کا دل بھی نکال لیا کہ اس میں سات سوراخ تھے یا نہیں۔ پہلے یہ سب سنی سنائی باتیں تھیں، مگرموسیقاروں نے اب ان باتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ شانگ کے بادشاہ نے بہت سے قدیم قوانین کی بے حرمتی کی ہے۔ جو کوئی بھی قدیم قوانین کی بے حرمتی کرتا ہے اس پر حملہ واجب ہے۔ لیکن میری رائے میں رعیت کا راعی پر حملہ کرنا بھی ماضی کے شاہانہ اطوار کے منافی ہے‘‘
’’روٹیاں دن بدن چھوٹی ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ ایک بری علامت ہے۔‘‘ پو ای نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا، ’’مگر میں تمہیں یہی مشورہ دوں گا کہ باہر کم جایا کرو۔ اور زبان کو لگام دو۔ بس صبح سویرے مکے بازی کی مشق جاری رکھو۔‘‘
’’جی‘‘ فرمانبردار چھوٹے بھائی شوچھی نے خاموشی سے سر تسلیم خم کر دیا۔
’’ذرا اپنی حیثیت کا بھی خیال کرو۔‘‘ پو ای جانتا تھا کہ وہ قائل نہیں ہوا، ’’ہم یہاں مہمان ہیں، کیونکہ مغرب کا بواب ۲ بوڑھوں کی عزت کرتا ہے۔ اگر روٹیاں چھوٹی بھی ہوتی جا رہی ہیں تو ہمیں شکایت کا حق نہیں پہنچتا ۔ بلکہ اس سے بدتر بھی کوئی بات ہو جائے توبھی ہمیں شکایت نہیں کرنی چاہیئے۔‘‘
’’بوڑھوں کے اس آرام گھر میں پناہ کی خاطر، کیا آپ یہیں پڑے رہیں گے؟‘‘
’’زیادہ باتیں مت کرو۔ مجھ میں سننے کی سکت نہیں۔‘‘
پو ای نے کھانسنا شروع کر دیا اور شوچھی نے چپ سادھ لی۔
کھانسی کا دورہ رکا تو مکمل سکوت چھا گیا۔ اواخر خزاں کے ڈوبتے سورج کی کرنوں میں ان کی داڑھیاں برف کی مانند چمک رہی تھیں۔
(۲)
ادھر بے چینی دن بدن بڑھتی گئی۔ روٹیاں تو چھوٹی ہوہی رہی تھیں، آٹا بھی موٹا آنے لگا تھا۔ بوڑھوں کے آرام گھر میں سرگوشیاں زور پکڑ گئیں۔ باہر چھکڑوں اور گھوڑوں کی آمد و رفت کا شور سنائی دیتا رہتا تھا۔ شوچھی پر اب باہر جانے کی دہن کچھ زیادہ ہی سوار رہتی تھی۔ اور اگرچہ وہ واپس آ کر کچھ کہتاسنتا نہ تھا، مگر اس کا اضطراب دیکھ کر پو ای کے لئے چپ رہنا دشوار ہو جاتا۔ اسے یہ فکر لاحق ہو گئی تھی کہ جلد ہی وہ پیالہ بھر چاول سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
گیارہویں مہینے کے اواخر کی ایک صبح شوچھی حسب معمول اندھیرے منہ کسرت کے لئے اٹھا مگر صحن میں آتے ہی اس کے کان کھڑے ہو گئے اور پھاٹک کھول کر بعجلت باہر نکل گیا۔ کچھ اتنا ہی وقت بیتا ہو گا جتنا دس روٹیاں پکانے میں لگتا ہے کہ وہ ہانپتا کانپتا لوٹ آیا۔ ٹھنڈ سے اس کی ناک سرخ ہو رہی تھی اور سانس بھاپ بن کر نکل رہی تھی۔
’’بڑے بھیا، اٹھو!‘‘ وہ چلایا، ’’لڑائی شروع ہو چکی ہے!‘‘ اس کا لہجہ پہلے سے زیادہ ترش تھا۔ اندر آ کروہ احتراماً بازو لٹکا کر پو ای کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔
پو ای کو سردی لگ رہی تھی، لہذا وہ اتنے سویرے بستر چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ مگر اپنی نرم دلی سے مجبور ہو کر اور بھائی کی پریشان حالی دیکھتے ہوئے دانت کٹکٹاتا اٹھ بیٹھا۔ اس نے کندھوں پر بھیڑ کی کھال کے استر والا چوغہ ڈالا اور رضائی کے اندر ہی آہستہ آہستہ کپڑے پہننے لگا۔
’’میں کسرت کے لئے نکلا تھا کہ باہر گھوڑوں اور آدمیوں کا ملا جلا شور سنائی دیا۔‘‘ شوچھی بتانے لگا، ’’میں بھاگتا ہواسڑک پر پہنچا تو وہاں وہ موجود تھے! پہلے ایک بڑی سی سفید پالکی آئی جس کے ساتھ کچھ نہیں تو اکتا سی کہار تھے۔ پالکی میں ایک لوح تھی جس پر ’عظیم چو خاندان کے بادشاہ ون کے سائے کی سند‘ لکھا تھا۔ اس کے پیچھے سپاہیوں کادستہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ شانگ پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔ چو کا موجودہ بادشاہ ایک سعادت مند بیٹا ہے۔ جنگ میں وہ بادشاہ ون کی لوح ساتھ لے کر جاتا ہے۔ میں زیادہ دیر تو وہاں نہیں رکا، لیکن جب لوٹ کر آیا تو ٹھیک ہماری دیوار پر ایک نوٹس چسپاں تھا‘‘
تب تک پو ای کپڑے پہن چکا تھا۔ دونوں بھائی باہر نکلے تو سردی سے کپکپا اٹھے۔ پو ای جو ہنگامہ پسند نہ تھا، باہر کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ چند قدم چلنے کے بعد شوچھی نے انگلی سے دیوار کی طرف اشارہ کیا جہاں ایک بڑا سا نوٹس چسپاں تھا:
سرکاری فرمان
ہر گاہ کہ شانگ کے بادشاہ چاؤ نے اپنیبیوی کے کہنے میں آ کر آسمان سے ناتا توڑ لیا ہے، تین قسم کی عبادتیں ترک کر دی ہیں اور اپنے رشتہ داروں سے الگ تھلگ ہو گیا ہے۔
ہر گاہ کہ اس نے اپنی بیوی کی خوشنودی کے لئے اسلاف کی موسیقی متروک قرار دے دی ہے اور قدیم دہنوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے بے ہودہ موسیقی تیار کروائی ہے۔
مابدولت، آسمان کی طرف سے ملنے والے اختیار کی روسے، ہم اسے بجا طور پر سزا دینے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔
سپاہیو، میدان میں کود پڑو! فرمان ہذا کی دو تین بار اجرائی کا انتظار نہ کرو!
دونوں بھائی فرمان پڑھنے کے بعد خاموشی سے بڑی سڑک کی سمت چل دئے۔ سڑک کے دونوں طرف تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ مگر وہ جونہی راستہ مانگتے، لوگ سفید ریش بوڑھوں کو دیکھ کر فوراً راستہ چھوڑ دیتے، کیونکہ بادشاہ ون نے ہدایت کر رکھی تھی کہ بوڑھوں کا احترام کیا جائے۔ چوبی لوح جو جلوس کے آگے آگے تھی، نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ اب مسلح فوجی دستے گزر رہے تھے۔ اتنا وقت بیتا ہو گا۔ جتنا کہ تین سو باون روٹیاں پکانے میں لگتا ہے کہ مزید فوجی نمودار ہو گئے جن کے کند ہوں پر نو کونوں والے جھنڈے رنگین بادلوں کی مانند لہرا رہے تھے۔ ان کے بعد اور مسلح دستے آئے۔ اور پھر عمدہ گھوڑوں پر سوار فوجی اور غیر فوجی افسروں کا انبوہ نمودار ہوا جو ایک شہزادے کی معیت میں چل رہے تھے۔ شہزادے کا رنگ گندمی اور چہرے پر مونچھیں تھیں۔ اس کے بائیں ہاتھ میں کانسی کا کلہاڑا تھا اور دائیں ہاتھ میں سفید گاؤ دم جو جھنڈے کا کام دیتی تھی۔ اس کا پیکر دیکھنے والوں کو دم بخود کر کے رکھ دیتا تھا! وہ چو کا بادشاہ وو ۳ تھا جو ’’آسمان سے ملنے والے اختیار پر عمل کرنے‘‘ جا رہا تھا۔
راستے کے دونوں اطراف کھڑے لوگ اس کے رعب و دبدبے سے گویا سکتے میں آ گئے تھے۔ ہر سو خاموشی کا راج تھا۔ اور اسی سکوت میں شوچھی اچانک پو ای کوساتھ کھینچتا ہوا تیزی سے آگے بڑھا۔ کئی گھڑ سواروں کو جھکائی دے کر بادشاہ کے گھوڑے کی لگام تھامی اور گردن نکال کر چلا اٹھا:
’’تمہارا باپ ابھی ابھی مرا ہے۔ اس کا کفن دفن کرنے کی بجائے تم جنگ لڑنے چلے آئے ہو۔ کیا اسی کو سعادت مندی کہتے ہیں؟ رعایا ہو کر تم اپنے راعی کو قتل کرنے نکلے ہو۔ کیا اخلاق اسی کو کہتے ہیں؟‘‘
سڑک کے دونوں کناروں پر کھڑے ہجوم اور مسلح محافظ کی رگوں میں دشت کے مارے لمحہ بھر کے لئے تو خون جم رہ گیا۔ چو کے بادشاہ کے ہاتھ میں گاؤ دم جھنڈا ذرا سا جھک گیا، اور پھر ایک ہل چل مچ گئی۔ دونوں بھائیوں کے سروں پر لمبی تلواریں لہرانے لگیں۔
’’ٹھہرو!‘‘
کسی کو حکم عدولی کی جرا ¿ت نہ ہوئی کہ یہ سردار چیانگ شانگ ۴ کا حکم تھا۔ ہاتھ جہاں تھے وہیں ساکت ہو گئے اور نظریں اس کے بھرے بھرے گول چہرے پر جم گئیں۔ اس کی داڑہی اورسر کے بال بھی سفید تھے۔
’’یہ ایماندار آدمی ہیں۔ انہیں جانے دو!‘‘
افسروں نے فوراً اپنی تلواریں نیام میں ڈال لیں۔ چار مسلح سپاہی آگے بڑھے، تن کر بڑے احترام سے پو ای اور شوچھی کو سلام کیا۔ اور پھر دو دو سپاہی انہیں بازوؤں سے پکڑ کر سڑک کے کنارے لے گئے۔ ہجوم نے فوراً ان کے لئے راستہ چھوڑ دیا۔
ہجوم کے عقب میں پہنچنے کے بعد سپاہی پھر احتراماً تن کر کھڑے ہو گئے اور دونوں بوڑھوں کے بازو چھوڑ کر زور سے دھکا دے دیا۔ دونوں کی چیخیں نکل گئیں اور لڑکھڑاتے ہوئے زمین پر جا گرے۔ شوچھی نے خوش قسمتی سے ہاتھ زمین پر ٹکا دئے تھے، اس لئے اس کا صرف چہرہ ہی کیچڑ میں لت پت ہوا۔ مگر پو ای کا سر ایک پتھر سے ٹکرایا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ آخر وہ تھا بھی تو زیادہ بوڑھا!
(۳)
فوج نظروں سے اوجھل ہو گئی تو ہجوم نے مڑ کر پو ای اور شوچھی کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ ان میں سے ایک زمین پر چت پڑا تھا اور دوسرا بیٹھا ہوا تھا۔ چند ایک لوگ جو انہیں جانتے تھے، دوسروں کو بتانے لگے کہ وہ لیاؤشی میں کوچو کے بادشاہ کے بیٹے ہیں، اور تختوتا جسے دستبرداری کا اعلان کر کے اب بوڑھوں کے آرام گھر میں رہتے ہیں جو آنجہانی بادشاہ نے قائم کیا تھا۔ یہ سن کر لوگ زیر لب ان کی تعریفیں کرنے لگے۔ کچھ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور شوچھی کا منہ دیکھنے لگے۔ کچھ ادرک کا شوربا بنانے گھر چلے گئے اور کچھ لوگوں نے جا کر بوڑھوں کے آرام گھر والوں کو مطلع کر دیا اور کہا کہ وہ فوراً دروازے کا تختہ بھیج دیں تاکہ اس سے اسٹریچر بنا لیا جائے۔
اتنا وقت بیت گیا جس میں کہ ایک سو تین یا ایک سو چار بڑی روٹیاں پک سکتی تھیں۔ اس دوران چونکہ کوئی نئی بات دیکھنے میں نہ آئی، لہذا لوگ ایک ایک کر کے کھسک گئے۔ آخر کار دو بوڑھے دروازے کا تختہ جس پر پیال بچھی ہوئی تھی، لے کر لڑکھڑاتے ڈگمگاتے آ پہنچے۔ یہ روایت بادشاہ ون نے بوڑھوں کے احترام کے لئے قائم کی تھی۔ انہوں نے دروازے کا پٹ اتنے زورسے زمین پر پٹخا کہ پو ای نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھوں میں ہنوز زندگی کی رمق تھی! شوچھی حیرت اور خوشی سے چیخ اٹھا، اور بوڑھوں کی مدد سے بھائی کو آرام سے اس اسڑیچر پر لٹا دیا۔ اور پھر دروازے کے تختے کو جوڑنے والی سن کی رسی تھامے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
وہ کوئی ساٹھ ستر قدم چلے ہوں گے کہ پیچھے سے کسی نے پکار کر کہا:
’’ٹھہر جاؤ! میں ادرک کا شوربا لاتی ہوں!‘‘ ایک نوجوان میڑن ہاتھوں میں مٹی کا پیالہ اٹھائے تیز تیز قدم اٹھاتی چلی آ رہی تھی۔ وہ اس خدشے سے دوڑ نہیں رہی تھی کہ مبادا شوربا چھلک جائے۔
وہ اس کے انتظار میں رک گئے اور شوچھی نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ میڑن پو ای کو ہوش میں دیکھ کر کچھ بجھ سی گئی تھی، تاہم اس کے پیٹ پر مالش کرتے ہوئے اصرار کرنے لگی کہ وہ ادرک کا شوربا پی لے۔ مگر پو ای نے جو گرم چیزوں سے پرہیز کرتا تھا، انکار کر دیا۔
’’کیا کروں؟ یہ ادرک میں نے آٹھ سال سے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔ کوئی تمہیں اس سے بہتر چیز نہیں دے سکتا۔ اور میرے گھر میں بھی کوئی ادرک پسند نہیں کرتا‘‘ وہ بالکل گڑبڑا گئی تھی۔
شوچھی نے پیالہ لے لیا اور پو ای کو ایک دو گھونٹ لینے پر مجبور کر دیا۔ پھر بھی کافی شوربا بچ رہا تھا، چنانچہ پیٹ میں درد کے بہانے وہ خود سارا شوربا پی گیا۔ اس کی پلکیں لال انگارہ ہو گئیں۔ تاہم اس نے ادرک کی تاثیر کی خوب خوب تعریفیں کیں اور ایک بار پھر عورت کا شکریہ ادا کیا۔ یوں پو ای کو اس آفت سے نجات دلا دی۔
بوڑھوں کے آرام گھر میں واپسی کے بعد ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی۔ تیسرے روز پو ای چلنے پھر نے لگا۔ گو اس کی پیشانی پر ابھی تک ایک بڑا سا گومڑا ابھر ہوا تھا اور بھوک مر چکی تھی۔
حکام اور عام لوگ انہیں تنہا نہیں چھوٹے تھے۔ مزید برآں، سرکاری اعلانات اور افواہیں مسلسل آ رہی تھیں جنہیں سن کر ان کی طبیعت اچاٹ ہو جاتی تھی۔ بارہویں مہینے کے اواخر میں خبر آئی کہ فوج نے منگ کے مقام پر دریا پار کیا اور تمام جاگیر دار شہزادے اس سے مل گئے۔ زیادہ دن نہ بیتے تھے کہ بادشاہ وو کے ’’عظیم اعلان‘‘ کی ایک نقل آ گئی۔ یہ بوڑھوں کت ضعف نظر کے خیال سے خاص طور پر اخروٹ ایسے بڑے بڑے حروف میں لکھی گئی تھی۔ پو ای نے اعلان خود پڑھنے کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ جو کچھ بھائی نے سنایا، سن لیا۔ اسے اس میں کوئی بڑی قابل اعتراض بات نظر نہ آئی، تاہم بعض بے موقع اصطلاحات، مثلاً اس نے مناسب رسوم ادا نہ کیں اور اسلاف سے قطع تعلق کر لیا، اپنے وطن کو شیطانی انداز میں فراموش کر دیا‘‘ سن کر اس کا دل خون کے آنسو رو دیا۔
اور پھر افواہیں بڑھنے لگیں۔ کسی نے کہا کہ جب چو کی فوج مویہہ پہنچی تو شانگ کی فوج سے گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ میدان جنگ میں کشتوں کے پشتے لگ گئے اور لاٹھیاں خون کے دریا میں گھاس کے تنکوں کی مانند بہنے لگیں۔ کسی نے یہ اڑائی کہ شانگ کے بادشاہ کے پاس سات لاکھ سپاہی تھی، مگر انہوں نے لڑنے سے انکار کر دیا۔ جب سردار چیانگ شانگ کی قیادت میں چوکیف وج پہنچی تو وہ دم دبا کر بھاگ نکلے اور بادشاہ وو کے لئے راستہ صاف ہو گیا۔
ان داستانوں میں اختلافات کے باوجود ایک بات صاف تھی کہ فتح حاصل کی جا چکی تھی۔ اس صداقت کی تصدیق بعد ازان اس خبر سے ہو گئی کہ بارہ سنگھا لاٹ کے خزانے اور عظیم پل ۵ کے سفید چاول ریاست چو میں لائے جا رہے تھے۔ زخمی سپاہی بھی واپس آ رہے تھے جواس بات کا ثبوت تھا کہ گھمسان کارن پڑا ہو گا۔ وہ تمام سپاہی جو چلنے پھرنے کے قابل تھے، چائے خانوں، سراؤں اور حجاموں کی دکانوں یا پھر مکانوں کے بیرونی چھجوں تلے یا کسی مکان کے پھاٹک کے سامنے بیٹھ کر لڑائی کی کہانیاں سناتے رہتے تھے۔ اور ان کے گرد مشتاق سامعین کا ہجوم رہتا تھا۔ بہار کا موسم شروع ہو چکا تھا اور کھلے میں زیادہ خنکی نہ تھی، چنانچہ بسا اوقات یہ داستان گوئی رات گئے تک جاری رہتی تھی۔
پو ای اور شوچھی دونوں بد ہضمی کا شکار تھے، اور اپنے حصے کی روٹیاں ختم نہیں کر پاتے تھے۔ ان کی سونے کی عادت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا، اور رات ہوتے ہی باقاعدگی کے ساتھ بستر پر دراز ہو جاتے تھے، مگر اب واہ بے خوابی کے مرض میں بھی مبتلا ہو چکے تھے۔ پو ای بستر میں کروٹیں بدلتا رہتا، تا آنکہ شوچھی بے چین اور ملول سا ہو کر اٹھ بیٹھتا اور کپڑے بدل کر صحن میں ٹہلنے نکل جاتا یا کسرت شروع کر دیتا۔
ایک بے چاند رات آسمان پر تارے ٹمٹما رہے تھے۔ دوسرے بوڑھے چین کی نیند سو رہے تھے، مگر پھاٹک پر ہنوز باتوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ شوچھی نے زندگی میں کبھی چھپ کر کسی کی بات سننے کی کوشش نہ کی تھی، مگر اس رات وہ بھی ٹہلتے ٹہلتے رک کر سننے لگا۔
’’شانگ کا وہ لعنتی بادشاہ! شکست کھاتے ہی بارہ سنگھا لاٹ میں جا گھسا۔‘‘ بولنے والا یقیناً کوئی زخمی سپاہی تھا جو محاذ سے لوٹا تھا۔ ’’اس کا خانہ خراب! اس نے بیش نہا نوادر کا ڈھیر لگا، خود بیچوں بیچ بیٹھا اور ڈھیر کو آگ لگا دی۔‘‘
’’نہیں تو! یہ تو بہت بڑا ہوا!‘‘ چوکیدار نے تبصرہ کیا۔
’’گھبراؤ نہیں! وہ تو بھسم ہو گیا مگر خزانہ بچ گیا۔ ہمارا بادشاہ تمام شہزادوں کے جلو میں شانگ کے دار الحکومت میں داخل ہوا تو شہریوں نے مضافات میں آ کر اس کا خیر مقدم کیا۔ ہمارے بادشاہ نے اہلکاروں کو اس منادی کا حکم دیا: ’ہمیں تو لوگوں سے کوئی پر خاش نہیں!‘ اور شانگ کے شہری سجدے میں گر گئے۔ شہر میں ہر دروازے پر بڑے بڑے الفاظ میں ’مطیع عوام ‘ لکھا تھا۔ ہمارا بادشاہ اپنا رتھ دوڑاتا ہوا سیدھا بارہ سنگھا لاٹ میں پہنچا، اور جب اس نے وہ جگہ دیکھی جہاں شانگ کے بادشاہ نے خود کشی کی تھی، تو اس پر تین تیر چلا دئے‘‘
’’کیوں؟ اس خیال سے کہ ابھی وہ مرا نہیں تھا؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’کون جانے؟ بہر حال اس نے تین تیر چلائے، اس کے جسم میں تلوار گھونپی کانسی کے کلہاڑے سے بھٹا سی گردن اڑائی اور پھر کٹی ہوئی وہ گردن ایک بہت بڑے سفید جھنڈے سے لٹکا دی۔‘‘
شوچھی کی رگوں میں سرد لہر دوڑ گئی۔
’’اس کے بعد وہ شانگ کے بادشاہ کی دو داشتاؤں کی تلاش میں نکلا۔ مگر وہ پہلے ہی خود کشی کر چکی تھیں۔ ہمارے بادشاہ نے تین تیر اور چلائے، ان کے جسموں میں تلوار گھونپی اور کالے کلہاڑے سے ان کے سر کاٹ کر چھوٹے سفید جھنڈے سے لٹکا دئے۔ پس‘‘
’’کیا وہ دونوں داشتائیں واقعی حسین تھیں؟‘‘ چوکیدار نے قطع کلامی کرتے ہوئے پوچھ لیا۔
’’پتہ نہیں! جھنڈے کا بانس بہت لمبا تھا اور ہجوم بھی اتنا کہ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ میرا زخم تکلیف دے رہا تھا اس لئے میں قریب نہ جا سکا۔‘‘
’’لوگ کہتے ہیں کہ ایک داشتہ جس کا نام تاچھی تھا، در اصل لومڑی تھی۔ وہ سارا جسم تبدیل کر لیتی تھی، سوائے پچھلے پنجوں کے جنہیں وہ پٹیوں میں چھپا کر رکھتی تھی۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘
’’پتہ نہیں! میں نے اس کے پاؤں نہیں دیکھے۔ مگر ان علاقوں میں بہت سی عورتیں پاؤں باندھ کر رکھتی ہیں۔‘‘
شوچھی اخلاقی اصولوں کا پابند تھا۔ جب بات بادشاہ کے سر سے ہوتے ہوتے عورتوں کے پاؤں تک پہنچ گئی تو اسنے تیوری چڑھا کر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور لپک کر کمرے میں آ گیا۔ پو ای نے جو ابھی تک جاگ رہا تھا، دھیمے لہجے میں پوچھا:
’’کسرت کر رہے تھے کیا؟‘‘
شوچھی کوئی جواب دینے کی بجائے ہولے ہولے قدم اٹھاتا بھائی کے پلنگ کی پٹی پر جا بیٹھا اور جھک کر سب کچھ بتا دیا جو ابھی ابھی سن کر آیا تھا۔ دونوں کچھ دیر خاموش رہے اور پھر شوچھی نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے سر گوشی کی:
’’ذرا سوچو تو وہ بادشاہ ون کے اصولوں کی کیا گت بنا رہا ہے! وہ پسرانہ سعادت مندی ہی سے نہیں انسانیت سے بھی عاری ہے! یہ سب کچھ دیکھنے سننے کے بعد تو اس کی دی ہوئی روٹی حلق سے اتارے نہ اترے گی۔‘‘
’’تو پھر کیا کریں؟‘‘
’’میرا خیال تو یہ ہے کہ ہمیں یہاں سے چل دینا چاہیئے‘‘
کچھ دیر سوچ بچار کے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ چو خاندان کی روٹی اب نہیں کھائیں گے اور صبح ہوتے ہی بوڑھوں کے آرام گھرسے نکل جائیں گے۔ کوئی زاد راہ ساتھ نہیں لیں گے اور زندگی کے باقی ماندہ دن کوہ ہوا شان پر بیر اور پتے کھا کر بتا دیں گے۔ مزید برآں، ’’آسمان غیر جانبدار تو ہے، مگر اکثر بھلائی کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ ممکن ہے وہاں انہیں کچھ برتھ وورٹ یا ٹرفلز ۶ نام کی جڑی بوٹیاں بھی مل جائیں۔
اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد ان کے ذہنوں سے گویا بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا۔ شوچھی کپڑے بدل کر پھر بستر پر دراز ہو گیا۔ اسے ابھی زیا دہ دیر نہ گز ری تھی کہ سوتے میں پو ای کی باتیں سنائی دینے لگیں۔ اس کے دل میں خوشیاں ناچ اٹھی تھیں۔ نادیدہ جڑی بوٹیوں کی خوشبو اس کے نتھنوں میں سمائی جا رہی تھی۔ اور اسی خوشبو میں ڈوبا وہ نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔
(۴)
صبح دونوں بھائی معمول سے پہلے ہی بیدار ہو گئے۔ انہوں نے بال دھو کر کنگھی کی اور کوئی چیز ساتھ لئے بغیر ۔ ان کے پاس بھیڑ کی کھال کے استر والے چوغوں، چھڑیوں اور بچی کھچی روٹیوں کے سوا ساتھ لے جانے کو کچھ تھاہی نہیں ۔ بوڑھوں کے آرام گھرسے یوں نکل گئے گویا ٹہلنے جا رہے ہوں۔ تاہم اس خیال سے کہ وہ ہمیشہ کے لئے وہاں سے رخصت ہو رہے تھے، ان کے رگ وپے میں ایک حفیف سی سر سراہٹ ہو رہی تھی۔ چلتے چلتے کئی بار انہوں نے مڑ کر دیکھا۔
راہ گیر اکا دکا ہی تھے۔ وہ چند عورتوں کے قریب سے گزرے جن کے پپوٹے ہنوز سے بوجھل تھے، اور وہ کنویں سے پانی کھینچ رہی تھیں۔ مضافات میں پہنچتے پہنچتے سورج خاصا بلند ہو چکا تھا اور سڑکوں پر آمد و رفت بھی بڑھ گئی تھی۔ بیشتر راہ گیر بڑے فخر سے سر اٹھائے چل رہے تھے، تاہم رواج کے مطابق ان بوڑھوں کو دیکھتے ہی راستہ چھوڑ دیتے تھے۔ وہ دیہی علاقے میں آ پہنچے جہاں سے جنگل شروع ہوتے تھے۔ بہت سے درختوں پر جن کے نام بھی انہیں معلوم نہ تھے، پتے پھوٹنے لگے تھے۔ ایک زمردیں غبار نے سرو و صنوبر کے درختوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
اس آزاد اور پر فضا کے خطے میں سانس لیتے ہوئے پو ای اور شوچھی کو یوں محسوس ہوا جیسے ان کی جوانی عود کر آئی ہو۔ چلتے چلتے راہ میں ایک چشمہ آ گیا اور ان کے دل خوشی سے اچ اٹھے۔
اگلے روز سہ پہر میں وہ ایک دوراہے پر پہنچے تو مخمصے میں پڑ گئے۔ انہوں نے بڑی خوش خلقی کے ساتھ سامنے سے آتے ہوئے ایک بوڑھے سے راستہ پوچھا تو وہ کہنے لگا:
’’افسوس، آپ لوگ ذرا پہلے آتے تو گھوڑوں کے ایک گلے کے پیچھے پیچھے چلے جاتے جو ابھی ابھی ادھر سے گزرا ہے۔ خیر، یہ ہے راستہ۔ آگے اور بھی دوراہے آئیں گے اور آپ کو پھر پوچھنا پڑے گا۔‘‘
شوچھی کو یاد آیا کہ دوپہر میں کچھ زخمی سپاہی ان کے قریب سے گزرے تھے جو متعدد بوڑھے، کمزور، لنگڑے اور خارش زدہ گھوڑوں کو ہانک رہے تھے۔ اور ان گھوڑوں نے تو دونوں کو قریب قریب کچل ہی دیا تھا۔ انہوں نے بوڑھے سے پوچھا کہ گھوڑے کہاں لے جائے جا رہے تھے تو اس نے جواب دیا:
’’آپ لوگوں کو نہیں معلوم؟ اب جب کہ ہمارے بادشاہ نے آسمانی فرض پورا کر دیا ہے تو اسے مزید فوجوں کی ضرورت نہیں رہی۔ چنانچہ وہ گھوڑوں کو کوہ ہوا شان کی جنوبی ڈھلانوں پر بھیج رہا ہے، جب کہ ہم اپنی بھیڑ بکریاں ’آڑو کا باغ، میدان میں چرائیں گے۔ اب ساری دنیا امن چین سے روٹی کھائے گی!‘‘
یہ خبر دونوں بھائیوں پر بجلی بن کر گری۔ ان کے قدم ڈگمگا گئے، تاہم انہوں نے چہروں سے کوئی تاثر عیاں نہ ہونے دیا۔ بوڑھے کا شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگے۔ کوہ ہوا شان پر گھوڑوں کے چرنے کی خبر نے ان کے خواب پریشان کر دئے تھے اور ان کے دلوں میں وسوسے سر اٹھانے لگے تھے۔
گو ان کے دلوں میں وسوسے پیدا ہو چکے تھے مگر وہ خاموشی سے آگے بڑھتے رہے۔ شام ہوتے ہوتے وہ درختوں سے ڈھکی ایک زرد مٹی کی پہاڑی کے قریب جا پہنچے جہاں چند کچے گھروندے دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے رات وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا۔
وہ پہاڑی سے ابھی کوئی دس قدم دور تھے کہ پانچ تنو مند شخص درختوں سے نکل آئے۔ ان کے سروں پر سفید پگڑیاں اور جسم پر چیتھڑے لٹک رہے تھے۔ سب سے آگے والے شخص کے ہاتھ میں تلوار اور دوسروں کے پاس لاٹھیاں تھیں۔ انہوں نے دونوں بوڑھوں کا راستہ روکتے ہوئے احتراماً جھک کر چیختے ہوئے کہا:
’’معزز حضرات، کہئے مزاج کیسے ہیں؟‘‘
دونوں بھائی خوف کے مارے سمٹ سے گئے۔ پو ای تھر تھر کانپنے لگا۔ تاہم شوچھی نے جو زیادہ سوجھ بوجھ رکھتا تھا، آگے بڑھ کر پوچھا کہ وہ کون تھے اور کیا چاہتے تھے۔
’’میں چھوٹا چھیونگ چھی ہوں، کوہ ہوا شان کا سردار۔‘‘ تلوار والے نے جواب دیا، ’’آپ سے معمولی راہداری وصول کرنے کے لئے نیں اپنے آدمیوں کو ساتھ لایا ہوں۔‘‘
’’ہمارے پاس کوئی پیسہ ویسہ نہیں ہے، سردار۔‘‘ شوچھی نے شائستگی سے جواب دیا، ’’ہم بوڑھوں کے آرام گھر سے آ رہے ہیں۔‘‘
’’آہا!‘‘ چھیونگ چھی نے فوراً مودب لہجے میں چیخ کر کہا، ’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ یقیناً سلطنت کے دو قابل احترام بزرگ ہیں۔ ہم ابھی آنجہانی بادشاہ کی تعلیمات کا پاس کرتے ہوئے بوڑھوں کے ساتھ بے حد احترام سے پیش آتے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ آپ اپنی کوئی نشانی ہمارے پاس چھوڑ جائیں۔‘‘ شوچھی نے کوئی جواب نہ دیا تو اسے تلوار لہراتے ہوئے پھر چلا کر کہا، ’’اگر آپ انکار کرتے رہے تو ہم رضائے آسمانی کے مطابق آپ کی با ادب تلاشی لینے اور آپ کی قابل احترام عریانی پر مودب نگاہیں ڈالنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘‘
پو ای اور شوچھی نے فوراً ہاتھ اٹھا لئے۔ ایک لاٹھی بردار نے اچھی طرح تلاشی لینے کے لئے ان کے چوغے، روئی دار مرزئیاں اور قمیصیں اتار دیں۔
’’یہ سچ کہہ رہے ہیں۔ ان دونوں کنگالوں کے پاس کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس نے مڑ کر مایوس لہجے میں چھیونگ چھی کو مطلع کیا۔
چھیونگ چھی یہ دیکھتے ہوئے کہ پو ای کانپ رہا تھا، آگے بڑھ کر بڑی شائستگی کے ساتھ اس کا کندھا تھپتھپانے لگا۔
’’ڈرنے کی ضرورت نہیں جناب۔‘‘ اس نے چیخ کر کہا، ’’شنگھائی والے ہوتے تو آپ کو ننگا کر کے بھیجتے۔ لیکن ہم اتنے مہذب ہیں کہ اس قسم کی حرکت نہیں کرتے۔ آپ کے پاس دینے کو کوئی نشانی نہیں تو یہ ہماری بد قسمتی ہے۔ جناب، اب آپ یہاں سے جا سکتے ہیں!‘‘
دم بخود پو ای کو، پورے کپڑے پہننے کا بھی یارا نہ ہوا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ شوچھی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ ان کی نظریں زمین پر گڑی ہوئی تھیں۔ پانچوں راہزن ادب سے بازو لٹکائے کھڑے رہے۔
’’آپ لوگ واقعی جا رہے ہیں؟ چائے تو پیتے جائیں؟‘‘ انہوں نے پکار کر کہا۔
’’نہیں، شکریہ۔ پھر کبھی سہی‘‘ پو ای اور شوچھی نے بھاگتے بھاگتے نفی میں سر ہلا کر جواب دیا۔
(۵)
کوہ ہواشان کی جنوبی ڈھلانوں پر گھوڑے بھیجنے کی خبر اورپہاڑ کے سردار چھیونگ چھی کی موجود گی نے ان دونوں ایماندار بوڑھوں کو سہما دیا اور انہوں نے کچھ مزید سوچ بچار کے بعد اس خطے میں داخل ہونے کی بجائے شمال کا رخ کر لیا۔ وہ پو پھٹے چلنا شروع کرتے ڈھلے آرام کے لئے رکتے۔ اور یوں مسافتیں طے کرتے ہوئے وہ کوہ شوی انگ پر پہنچ گئے۔
یہ جگہ ان کے لئے بڑی موزوں ثابت ہوئی۔ پہاڑ نہ تو زیادہ اونچا تھا اور نہ ہی بہت وسیع۔ یہاں گھنے جنگل بھی کم تھے جن میں شیروں، بھیڑیوں یا ڈاکوؤں کا خطرہ ہو سکتا تھا۔ گو شہ نشینی کے لئے اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہ ہو سکتی تھی۔ انہوں نے آس پاس کے منظر کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ پہاڑ کے دامن میں نرم نرم دوب اور مٹی سنہری تھی۔ اور گھاس میں یہاں وہاں سرخ و سفید پھول جھوم رہے تھے۔ یہ نظارہ ہی قلب و نظر کی سر مستی کے لئے کافی تھا۔ دونوں خوشی سے سرشار، چھڑیاں ٹیکتے بالآخر چوٹی پر ایک آگے کو نکلی ہوئی چٹان تلے پہنچ گئے۔ یہ ان کی پناہ گاہ تھی۔ وہ پیشانیوں سے پسینہ پونچھتے ہوئے بیٹھ کر سستانے لگے۔
سورج ڈوب رہا تھا اور پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے گھونسلوں کو لوٹ رہے تھے۔ پہاڑ پر چڑھتے وقت جو سکوت طاری تھا، اس میں اب قدرے کمی آ چکی تھی، تاہم گرد و پیش کے حسن نے ان کے دل موہ لئے تھے۔ سونے کے لئے بھیڑ کی کھال کے استرا والے چوغے بچھانے سے قبل شوچھی نے چاولوں کے دو بڑے مرنڈے نکالے جن سے انہوں نے پیٹ کی آگ بجھائی۔ راستے میں انہوں نے جو بھیک مانگی تھی، اس میں سے صرف یہ دو مرنڈے باقی بچے تھے۔ راہ میں دونوں بھائیوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ کوہ شوہ یانگ پر پہنچے کے لئے اگر انہوں نے بھیک نہ مانگی تو ’’چوکا اناج نہ کھانے‘‘ کا عہد پورا نہ کر سکیں گے۔ انہوں نے یہ مرنڈے کھا لئے تھے۔ اور ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍیہ طے تھا کہ اگلے دن سے وہ اپنے اصولوں کے پابند رہیں گے اور کوئی سودے بازی نہ کریں گے۔
علی الصباح کوؤں کی کائیں کائیں سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ تھوڑی دیر میں وہ پھر سو گئے اور جب جاگے تو دو پہر ہو رہی تھی۔ پو ای کی ٹانگیں اور کمر اس قدر دکھ رہے تھے کہ اس سے اٹھا نہ گیا، چنانچہ شوچھی تنہا ہی خوراک کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ مگر کچھ دیر ٹامک ٹوٹیاں مارنے کے بعد اسے احساس ہو گیا کہ اس نہ زیادہ اونچے نہ زیادہ وسیع اور شیروں، بھیڑیوں اور راہ زنوں سے پاک پہاڑ پر رہنے کے فوائد ہی نہیں، کچھ گھاٹے بھی تھے۔ اس پہاڑ کے دامن میں آباد گاؤں کے لوگ ایندھن کاٹنے آتے رہتے تھے، اور ان کے ہمراہ چونکہ بچے بھی ہوتے تھے، لہذا کہیں بیروں کا نشان تک نہ تھا۔ وہ سب توڑ لئے گئے تھے۔
اسے ٹرفلز کا خیال آیا، اور گو پہاڑ پر سرو کے درخت تھے، مگر اتنے بوڑھے نہ تھے کہ ان کی جڑوں میں یہ بوٹی ہوتی۔ اور ہوتی بھی تو کدال کے بغیر نکالنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ پھر اس نے برتھ وورٹ کے بارے میں سوچا۔ لیکن اس کی صرف جڑیں ہی اس نے دیکھ رکھی تھیں۔ پتے کیسے ہوتے تھے یہ وہ نہ جانتا تھا۔ اور سارے پہاڑ پر ایک ایک پودے کو اکھاڑ کر جڑوں کا معائنہ کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ اگر وہ اس کی آنکھوں کے عین سامنے بھی اگی ہوتی تو بھی اسے پہچان نہ سکتا تھا۔ اسے غصہ آ گیا، رخسار تپنے لگے اور وہ مایوسی کے عالم میں کھڑا سر کھجاتا رہا۔
دفعتاً ایک ترکیب اس کے ذہن میں ابھری اور وہ پرسکون ہو گیا۔ اس نے صنوبر کے درخت سے سخت نوکیلے پتے توڑے، ندی پر جا کر دو پتھر لئے اور ان سے کچل کر چھال الگ کی، دھو کر لپٹا سا بنایا اور سلیٹ پر رکھ کر اپنی پناہ گاہ میں لے آیا۔
پو ای نے اسے دیکھتے ہی پوچھا:
’’بھائی کھانے کو کچھ ملا؟ میرے پیٹ میں تو چوہے کود رہے ہیں۔‘‘
’’بڑے بھائی اور تو کچھ نہیں ملا۔ یہ آزما کر دیکھتے ہیں۔‘‘
اس نے سلیٹ دو پتھروں پر رکھی اور خشک شاخیں نیچے رکھ کر آگے جلا دی۔ ایک طویل انتظار کے بعد اس لپٹے میں بلبلے اٹھنے لگے اور خوشبو سے ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔ شوچھی کے چہرے پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ اس نے یہ ترکیب اس ضیافت میں سیکھی تھی جو بزرگ چیانگ شانگ کی پچاس ویں سالگرہ پر دی گئی تھی۔
مہک چھوڑنے کے بعد لپٹے میں ابال آیا اور جوں جوں پانی خشک ہوتا گیا، مقدار گھٹتی گئی اور آخر وہ کیک جیسی شکل اختیار کر گیا۔ شوچھی نے چوغے کی آستین ہاتھوں میں دبا کر سلیٹ اٹھائی اور بھائی کے پاس لے گیا۔ پو ای نے پھونکیں مارتے ہوئے ایک ٹکڑا توڑا اور منہ میں رکھ لیا۔
مگر جیسے جیسے وہ چباتا گیا، پیشانی کی شکنیں دونی ہوتی گئیں۔ اس نے کئی بار زور لگا کر اسے نگلنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا اور آخر برا سا منہ کر بنا کر لقمہ تھوکتے ہوئے ملامت آمیز نظروں سے بھائی دیکھتے ہوئے بولا:
’’کڑوا ہے بہت سخت ہے‘‘
شوچھی شرم سے پانی ہو گیا۔ اس کی ساری امیدیں جاتی رہیں۔ کانپتی انگلیوں سے اس نے بھی ایک ٹکڑا توڑ کر منہ میں رکھا اور چبانے لگا۔ وہ واقعی کھانے کے لائق نہ تھا۔ کڑوا بہت سخت ہے‘‘
شوچھی نے نیم دلی کے ساتھ سر جھکا لیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کرے؟ خیالوں میں گم وہ اپنے بچپن کی وادیوں میں جا نکلا، کوچو کے بادشاہ کا بیٹا۔ ایک دیہاتی آیا اسے گود میں لئے پھرتی اور طرح طرح کی کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ چھی یو پر زرد شہنشاہ کی فتح کی کہانی، وو چی چھی پر عظیم یوی کی فتح کی کہانی، قحط کی کہانی جس میں کسان چارہ کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔
اس نے آیا سے پوچھا تھا کہ چارہ کیسا ہوتا ہے اور اب اسے یاد آیا پہاڑ پر وہ ویسے ہی پودے دیکھ چکا تھا۔ اس کے حوصلے پلٹ آئے۔ وہ اٹھا اور باہر جا کر پودوں میں اس نے خود چارہ ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اور واقعی پہاڑ پر اس چارے کی کمی نہ تھی۔ کوئی آدھے میل کے چکر میں اس کے دامن چارے سے پھر چکا تھا۔
اس نے ندی پر جا کر پتے دھوئے اور پھر پناہ گاہ میں لا کر اسی سلیٹ پر بھوننے لگا جس پر اس نے صنوبر کے پتوں کا لپٹا پکایا تھا۔ پتوں کا رنگ گہرا سبز ہونے پر اسے اندازہ ہو گیا کہ اب وہ پک چکے ہوں گے۔ بہر حال اس بار اس نے یہ کھانا پہلے بھائی کو پیش کرنے کی جرات نہ کی۔ اس نے ایک لقمہ لیا اور پلکیں موند کر چبانے لگا۔
’’کیسا ہے ذائقہ؟‘‘ پو ای نے بے تابی سے پوچھا۔
’’بہت مزیدار!‘‘
دونوں ہنستے ہوئے چارہ کھانے لگے۔ پو ای نے بڑے بھائی ہونے کے ناتے دو لقمے زیادہ لئے۔
اب یہ ان کا روز کا معمول بن گیا۔ ابتدا میں شوچھی اکیلا ہی چارہ چننے جاتا تھا جب کہ پو ای نے پکانے کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی۔ اور پھر جب اس کی قوت بحال ہو گئی۔ تو وہ بھی چارے کی تلاش میں شامل ہو گیا۔ اب وہ چارے سے طرح طرح کے پکوان تیار کرنے لگے:
چارے کا شوربا، چارے کی یخنی، چارے کی پوریاں، ابلا ہوا چارہ دم پخت چارہ، خشک چارہ۔
دھیرے دھیرے آس پاس سارا چارہ ختم ہو گیا۔ انہوں نے گو جڑیں چھوڑ دی تھیں، لیکن نئے پتے پھوٹنے میں بھی وقت لگتا تھا۔ وہ چارے کی تلاش میں دور نکلتے چلے گئے اور اسی وجہ سے انہیں کئی بار رہائش بدلنی پڑی۔ ہوتے ہوتے رہائش کے لئے مناسب جگہیں عنقا ہو گئیں، کیونکہ رہائش کے لئے پہلی شرط یہی تھی کہ قرب و جوار میں وافر چارہ اور پانی موجود ہو۔ اور کوہ شو یانگ پر ایسی جگہیں زیادہ نہ تھیں جہاں یہ دونوں سہولتیں بیک وقت موجود ہوں۔ شوچھی اس ڈر سے کہ پو ای بڑھاپے کی وجہ سے کہیں بیمار نہ پڑ جائے، اصرار کرنے لگا کہ وہ آرام سے گھر میں رہ کر پکانے کا کام کرے اور چارہ ڈھونڈنے کی ذمہ داری اس پر چھوڑ دے۔
پو ای کچھ رد و کد کے بعد مان گیا اور آرام سے گھر میں وقت بتانے لگا۔ لیکن کوہ شو یانگ چونکہ باکل بے آباد پہاڑ نہ تھا، اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ اس کا مزاج بھی بدلتا گیا۔ وہ اپنی طبعی کم گوئی چھوڑ کر باتونی بن گیا اور پہاڑ پر آنے والے بچوں یا لکڑہاروں سے ہر وقت باتیں کرتا رہتا۔ ایک دن شاید وہ بہت چہک رہا تھا یا پھر کسی نے اسے بڈھا بھکاری کہہ دیا تھا کہ اس نے باتوں باتوں میں اپنی اصلیت ظاہر کر دی۔ کچھ لوگوں کو اس نے بتادیا کہ وہ اس کا بھائی لیاؤشی میں چو کے بادشاہ کے بیٹے تھے۔ وہ سب سے بڑا اور شوچھی تیسرا بھائی تھا۔ باپ نے تیسرے بھائی کو ولیعہد چنا تھا مگر جب باپ بستر مرگ پر تھا تو تیسرے بھائی نے اس کے حق میں دستبرداری پر اصرار کیا۔ باپ کی وصیت پوری کرنے اور ہنگامے سے بچنے کی خاطر وہ بھاگ نکلا اور تیسرے بھائی نے بھی یہی راستہ اپنایا۔ ایک دن دونوں بھائیوں کی سڑک پر ملاقات ہو گئی۔ دونوں مغرب کے نواب بادشاہ ون کے پاس گئے اور پھر بوڑھوں کے آرام گھر میں رہنے لگے۔ اس کے بعد چو کے موجودہ بادشاہ نے اپنے والی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تو ان دونوں بھائیوں پر چو کا اناج گویا حرام ہو گیا اور وہ بھاگ کر کوہ شو یانگ پر آ گئے۔ اور جڑی بوٹیاں کھا کر گزارہ کرنے لگے
شوچھی نے جب یہ واردات سنی تو وقت نکل چکا تھا۔ بات پھیل چکی تھی۔ اس نے بڑے بھائی سے تو کچھ نہ کہا، مگر دل میں سوچنے لگا، ’’ابا نے اسے ولی عہد نہ بنا کر بڑی دور اندیشی کا ثبوت دیا تھا۔‘‘
شوچھی کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ بھید کھلنے کا نتیجہ اچھا نہ رہا۔ گاؤں میں ان کے متعلق نتن ئی افواہیں چل نکلیں اور لوگ صرف انہیں دیکھنے کے لئے پہاڑ پر آنے جانے لگے۔ کوئی انہیں بہت بڑا آدمی قرار دیتا، کوئی شیطان کہتا اور کوئی عجوبہ سمجھتا۔ وہ چارہ چننے نکلتے تو لوگ پیچھے پیچھے چلے آتے، محض یہ دیکھنے کو کہ وہ چارہ کیسے چنتے تھے۔ کھانا کھانے بیٹھتے تو لوگ ہونقوں کی مانند ان کا دیکھتے رہتے کہ وہ کھاتے کیسے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ آپس میں طرح طرح کے اشارے بھی کرتے اور ایسے ایسے سوال پوچھتے کہ ان کا سر چکرا جاتا۔ بہر طور، وہ شائستگی کا دامن نہ چھوڑ سکتے تھے، کیونکہ ذرا سی برہمی یا تیوری کا بل انہیں ’’بد مزاج‘‘ مشہور کر سکتا تھا۔
ان کے بارے میں لوگوں کی رائے بالعموم اچھی تھی۔ بعد میں تو کچھ نوجوان عورتیں بھی انہیں دیکھنے چلی آئیں۔ مگر واپسی پر سر ہلا کر اعلان کر دیا کہ نظارہ دیکھ کر ’’کچھ لطف نہیں آیا‘‘ ۔ انہیں سخت فریب دیا گیا تھا۔
ہوتے ہوتے شو یانگ گاؤں کا سب سے بڑا کھڑپی نچنوا بشیاؤ پینگ بھی ان میں دلچسپی لینے لگا۔ یہ نواب تاچی کے ماموں کی منہ بولی بیٹی کا داماد تھا اور آقائے نذر گزار ۷ کے عہدے پر فائز تھا۔ اس نے جب رضائے فلک میں تغیر رو نما ہوتے دیکھا تو مال اسباب سے لدے پچاس چھکڑے اور آٹھ سو غلام اور باندیاں لے کر نئے چند دن پہلے ہی فوج منگ ندی پر صف بندی کر چکی تھی، اور چو کا بادشاہ عدیم الفرصتی کے سبب اس کی مناسب آؤ بھگت نہ کر سکا۔ بادشاہ نے مال اسباب کے چالیس چھکڑے اور ساڑھے سات سو غلام اور کنیزیں قبول کر لیں، اور اسے کوہ شو یانگ کے دامن میں دو ہیکڑز زر خیز اراضی عطا کر کے علمی کام کرنے کا حکم دے دیا۔ نواب شیاؤ پینگ کو ادب سے بھی شغف تھا، مگر گاؤں کے لوگ ٹھہرے بالکل ان پڑھ، علم و ادب کی باتیں کیا جانتے! وہ سخت بیزار رہتا تھا اور اب جو اس نے ان دو بھائیوں کی خبر سنی تو خادموں کو پالکی تیار کرنے کا حکم دیا۔ اس نے سوچا کہ ممکن ہے ان سے ادب خصوصاً شاعری پر گفتگو رہے۔ وہ خود شاعر تھا اور پوری بیاض تیار کر رکھی تھی۔
لیکن ان سے گفتگو کے بعد وہ جب واپسی کے لئے پالکی میں سوار ہوا تو وہ بڑا مایوس تھا، اور گھر پہنچ کر وہ اپنا غصہ نکالنے لگا۔ اس کے خیال میں پرانی وضع کے یہ دونوں بڈھے شاعری پر گفتگو کی صلاحیت سے عاری تھے۔ اول تو وہ غریب تھے۔ سارا دن اس چکر میں گزار دیتے تھے کہ پیٹ کی آگ بجھانے کا کوئی راستہ نکل آئے۔ ایسے میں وہ اچھے شعر کیونکہ کہہ سکتے تھے؟ دوسرے، ’’ذاتی اغراض‘‘ کی پٹی ان کی آنکھوں پر بند ہی ہوئی تھی، اس لئے وہ شاعری میں حس ’’اعتدال‘‘ سے عاری تھے۔ تیسرے، اپنے عیاں نقطہ نظر کے سبب وہ شاعری میں حس ’’روا داری‘‘ ۷ سے بھی عاری تھے۔ اور بد ترین بات یہ کہ وہ تضادات کا مجموعہ تھے۔ لہذا اس نے مغلوب الغضب ہو کر دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا:
’’چونکہ ’آسمانوں تلے ساری دھرتی ہمارے حکمران کی ملکیت ہے، اس لئے کیا چارہ بھی ہمارے بادشاہ کی ملکیت میں نہیں آتا؟‘‘
ادھر، پو ای اور شوچھی دن بدن لاغر ہوتے جا رہے تھے۔ اس کا سبب ان کی روز مرہ سماجی مصروفیات نہ تھیں، کیونکہ ملاقاتیوں کا سلسلہ کم ہونے لگا تھا، بلکہ سبب یہ کہ چارہ عنقا ہوتا جا رہا تھا۔ مٹھی بھر چارہ جمع کرنے کے لئے انہیں میلوں چلنا پڑتا تھا اور قواء جواب دے جاتے تھے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ مصیبت تنہا نہیں آتی۔ آدمی کنویں میں گرے تو منڈیر کا پتھر بھی ساتھ ہی سر پر آ گرتا ہے۔
ایک دن وہ بیٹھے دم پخت چارہ کھا رہے تھے۔ چارے کی کمیابی کے سبب کے اب وہ سہ پہر کو دوپہر کا کھانا کھاتے تھے۔ دفعتاً کوئی بیس سال کی ایک اجنبی عورت آ گئی۔ وہ دیکھنے میں کسی کھاتے پیتے گھرانے کی نوکرانی لگتی تھی۔
’’شام کا کھانا کھا رہے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
شوچھی نے نظریں اٹھائیں اور مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’کیا پکایا ہے؟‘‘ اس نے دوسرا سوال کر دیا۔
’’چارہ۔‘‘ پو ای نے جواب دیا۔
’’یہ کیوں کھا رہے ہو؟‘‘
’’اس لئے کہ ہم چو کا اناج نہیں کھاتے‘‘
پو ای کی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ شوچھی اسے تنبیہی نظروں سے دیکھنے لگا۔ مگر عورت خاصی تیز طرار تھی، بات کا مفہوم پا گئی۔ اس نے تحقیر آمیز قہقہہ لگایا اور مغلوب الغضب ہو کر دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا:
’’’آسمانوں تلے ساری دھرتی ہمارے حکمران کی ملکیت ہے، تم لوگ جو چارہ کھا رہے ہو، کیا وہ ہمارے بادشاہ کی ملکیت نہیں؟‘‘
ایک ایک لفظ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح پو ای اور شوچھی کے کانوں میں اترتا چلا گیا اور دونوں بے ہوش ہو گئے۔ جب وہ ہوش میں آئے تو عورت جا چکی تھی۔ وہ باقی ماندہ چارہ حلق سے نہ اتار سکے۔ اسے دیکھ کر ہی وہ احساس شرم سے پانی پانی ہوئے جا رہے تھے۔ وہ ہاتھ بڑھا کر اسے پرے بھی نہ ہٹا سکے۔ ان کے بازو گویا شل ہو چکے تھے۔
(۶)
کوئی بیس دن بعد اتفاق سے ایک لکڑہارے کی نظر پو ای شوچھی کے مردہ جسموں پر پڑ گئی۔ وہ پہاڑ کے پیچھے ایک کھوہ میں اکڑے ہوئے پڑے تھے۔ نعشیں ابھی سڑنی شروع نہیں ہوئی تھیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ بے حد لاغر تھے، اور دوسری وجہ یہ کہ بظاہر انہیں مرے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ ان کے بھیڑ کی کھال کے استر والے چوغے البتہ غائب تھے۔ جانے کون اٹھا لے گیا تھا۔ اس خبر نے گاؤں میں خاصی ہلچل پیدا کر دی اور رات گئے تک متجسس دیہاتیوں کا ہجوم لگا رہا۔ کچھ سر گرم لوگوں نے نعشوں کو مٹی تلے دبا دیا اور وہاں ایک کتبہ نصب کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے ان کی یاد گار باقی رہ سکے۔
چونکہ کوئی دیہاتی لکھنا پڑھنا نہ جانتا تھا، اس لئے انہوں نے نواب شیاؤ پینگ سے رجوع کیا۔
لیکن نواب شیاؤ پینگ نے کتبہ لکھنے سے انکار کر دیا۔
’’ان احمقوں کے لئے؟ وہ کتبے کے مستحق ہی نہیں وہ بوڑھوں کے آرام گھر میں رہتے تھے، مگر سیاست سے دامن نہ بچا سکے۔ وہ کوہ شو یانگ پر چلے آئے، لیکن نظمیں کہنے پر مصر رہے۔ انہوں نے نظمیں کہیں، مگر اپنی اوقات پہچاننے اور ’فن برائے فن‘ کی روایت پر عمل کرنے کی بجائے خفگی کا اظہار کرتے رہے۔ تم ہی کہو، کیا اس قسم کی نظمیں کوئی دیر پا اثر رکھتی ہیں؟
ہم مغربی پہاڑ پر چڑھتے اور چارہ چنتے ہیں،
ایک ڈاکو کی جگہ دوسرا آ جاتا ہے اور اپنی غلطی نہیں پہچانتا۔
شہنشاہ شن نونگ اور شون اور شیا خانوادہ تمام ہوئے،
ہم کس کی پیروی کریں؟
چلو جدا ہو جائیں! ہماری قسمت ہی کھوٹی ہے!
میں تم ہی لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ آخر یہ کس قسم کی یادہ گوئی ہے؟ شاعری میں اعتدال اور روا داری لازم ہے۔ ان کے یہ اشعار محض ’نوحے‘ ہی نہیں، سیدھی سادی گالیاں ہیں۔ پھولوں کے بغیر تو کوئی کانٹوں کو بھی برداشت نہیں کرتا، چہ جائیکہ گالیاں سہہ سکے۔ خیر ادب کو چھوڑو، انہوں نے اسلاف کی سر زمین چھوڑ کر اپنی غداری کا ثبوت دیا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کی ہدف ملامت بنانا اچھے شہریوں کا وطیرہ نہیں ہوتا میں کتبہ نہیں لکھوں گا!‘‘
اس کی باتیں ان پڑھ گاؤں والوں کے سروں پر سے گزر گئیں، تاہم اس کا غصہ دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ وہ کتبہ لگانے کے خلاف تھا۔ لہذا انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا اور یوں پو ای اور شوچھی کی تجہیز و تکفین کی رسوم ختم ہو گئیں۔
بہرحال، گرمیوں کی راتوں میں گاؤں والے باہر خنکی میں بیٹھ کر اکثر دونوں بھائیوں کا ذکر چھیڑ دیتے۔ کوئی کہتا کہ ان کی موت بڑھاپے کے سبب ہوئی، کوئی یہ خیال ظاہر کرتا کہ وہ بیمار تھے اور کچھ یہ دور کی کوڑی لاتے کہ چوغوں کی خاطر ڈاکوؤں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اور آخر میں یہ بات آشکار ہو گئی کہ انہوں نے فاقوں سے جان دے دی تھی، کیونکہ نواب شیاؤ پینگ کی نوکرانی آہ چن نے بھید کھول دیا کہ وہ ان کی موت سے کوئی پندرہ دن پہلے یون ہی ان کا مذاق اڑانے پہاڑ پر گئی تھی۔ دونوں احمق غصے میں آ گئے ہوں گے اور اسی عالم میں بھوک سے دم توڑ دیا ہو گا۔
یہ کہانی سن کر بہت سے لوگ آہ چن کی ذہانت کے معترف ہو گئے، لیکن ایسے بھی تھے جنہوں نے اس ظلم پر اسے ملامت کی۔
جہاں تک آہ چن کا تعلق تھا، وہ پو ای اور شوچھی کی موت کی ذمہ داری اپنے سر لینے سے انکار کرتی رہی۔ مانا کہ وہ ان کا مذاق اڑانے پہاڑ پر گئی تھی، لیکن اس کی نظر میں یہ محض ایک مذاق تھا۔ یہ بھی مانا کہ ان احمقوں نے غصے میں آ کر کھانا پینا چھوڑ دیا ہو گا، لیکن یہ بھوک ہڑتال ان کے لئے موت کی بجائے ایک غیر متوقع نعمت لے کر آئی تھی۔
’’آسمان بڑا مہربان ہے۔‘‘ وہ کہنے لگی، ’’جب اس نے انہیں بھوک سے بلکتے دیکھے تو ایک ہرنی کو حکم دیا کہ انہیں دودھ پلائے۔ میں تم لوگوں سے پوچھتی ہوں کہ اس سے عمدہ بات اور کیا ہو سکتی تھی؟ نہ ہل جوتنے کا تردد، نہ ایندھن کاٹنے کی مشقت۔ بس دن بھر بیٹھے رہو۔ بھوک لگے تو ہرنی آ کر دودھ پلائے جائے۔ وہ تیسرا بھائی، جانے کیا نام تھا اس کا، یہی چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ دودھ مل جائے۔ ہرنی کا دودھ اس کے لئے کافی نہ ہوتا تھا۔ دودھ پیتے پیتے اس نے سوچا، ’یہ ہرنی خوب موٹی تازی ہے! اس کا گوشت بڑا لذیذ ہو گا!‘ اس نے آنکھ بچا کر پتھر اٹھا کر اسے مارنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ تو آسمانی ہرنی تھی انسانی ارادوں کو فوراً بھانپ جاتی تھی۔ لہذا چھلاوے کی طرح غائب ہو گئی۔ ادھر، آسمانی دیوتا ان کی حرص دیکھ کر بیزار ہو گیا اور ہرنی کو حکم دیا کہ آئندہ انہیں دودھ پلانے نہ جائے۔ اب تم لوگ خود ہی جان لو کہ وہ صرف اور صرف اپنی حرص اور طمع کے ہاتھوں انجام کو پہنچے‘‘
سننے والوں نے کہانی ختم ہونے پر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور یوں محسوس کیا گو یا ان کے کندھوں سے کوئی بھاری بوجھ اتر گیا ہو۔ اس کے بعد جب کبھی انہیں پو ای اور شوچھی کا خیال آتا، ان کی نظروں کے سامنے دو ایسے آدمیوں کے ہیولے ناچنے لگتے جو چوٹی آلتی پالتی مارے بیٹھے ہوتے تھے اور ہرنی کو پھاڑ کھانے کے لئے ان کے سفید داڑھیوں والے منہ کھلے ہوتے تھے۔
٭٭
حوالہ جات:
۱ پو ای اور شوچھی کو چو کے بادشاہ کے بیٹے تھے۔ چو نے جب شانگ کو فتح کر لیا تو انہوں نے چو کا اناج کھانے سے انکار کر دیا اور کوہ شو یانگ پر فاقوں سے جان دے دی۔
۲ چی چھانگ، چو خاندان کا بادشاہ ون جو اس وقت تک شانگ کا حلقہ بگوش تھا۔
۳ بادشاہ ون کا بیٹا چی فا۔
۴ چو کے بادشاہ وو کا مشیر۔
۵ بارہ سنگھا لاٹ اور عظیم پل شانگ کے بادشاہ چاؤ کے دو گودام تھے۔ اول الذکر میں جواہرات اور موخر الذکر میں اناج کا ذخیرہ ہوتا تھا۔
۶ دو چینی جڑی بوٹیاں۔ خیال ہے کہ ان کے استعمال سے عمر بڑھتی ہے
۷ پرانے زمانے میں جب ضیافت ہوتی تھی تو کوئی معمر شخص دیوتاؤں کے حضور شراب نذر گزارتا تھا۔ اس سے یہ نام پڑا اور ہان اور ویا دوار سے ایک سرکاری عہدہ بن گیا۔ مثلاً اک آدمی کا نذر گزار، شاہی کالج کا نذر گزار وغیرہ
۸ ’’کتاب رسوم‘‘ میں کنفیوشس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اعتدال اور روا داری کی تعلیم دی جانی چاہیئے۔ اور یہ بات جاگیردارانہ دور کے چین میں ادب اور تنقید نگاری کی کسوٹی بن گئی تھی۔
٭٭٭