دونوں بھائیوں کے ناموں کے بارے میں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہائی سکول میں وہ میرے ہم جماعت تھے اور جدا ہونے کے بعد ہم ایک دوسرے سے رابطہ نہ رکھ سکے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے پتا چلا کہ اُن میں سے ایک کی طبیعت کافی خراب ہے۔ اتفاق سے میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ میں نے راستے میں رک کر اُن سے ملنے کا فیصلہ کیا لیکن میں ایک بھائی سے مل سکا جس نے بتایا کہ چھوٹے بھائی کی طبیعت خراب رہی تھی۔
’’ایک طویل مسافت طے کر کے تمہارے یہاں آنے کو میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔‘‘ اُس نے کہا ’’لیکن میرا بھائی صحت یاب ہو کر اپنے سرکاری منصب پر کہیں اور جا چکا ہے۔‘‘
وہ ہنستے ہوئے اپنے بھائی کی ڈائری کی دو جلدیں اُٹھا لیا۔ اُس نے بتایا کہ اُس کے بھائی کی بیماری کی تفصیل ڈائری سے معلوم ہو جائے گی۔ اُس نے یہ بھی باور کرایا کہ ایک پرانے دوست کو ڈائری پڑھانے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
میں ڈائری ساتھ لے آیا!
ڈائری تفصیلاً پڑھنے کے بعد میں اِس نتیجہ پر پہنچا کہ کسی حد تک میرا دوست، خود اذیتی کے خبط میں مبتلا تھا۔ اُس کی تحریر بے ترتیب اور بے ربط تھی، اور بعض جگہوں پر مبالغہ آمیزی کا شکار ہو گئی تھی۔ ڈائری میں تاریخوں کے اندراج کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ صرف روشنائی کے رنگ اور لکھائی میں فرق ظاہر کرتا تھا کہ یہ مختلف اوقات کی تحریریں ہیں۔ بعض حصے ایک دوسرے سے مکمل طور پر علیحدہ نہیں تھے اور کچھ میں نے نقل کر لئے ہیں تاکہ ڈاکٹری تحقیق میں کام آ سکیں۔ میں نے ڈائری کی کسی بھی غیر منطقی فکر کو تبدیل نہیں کیا۔ صرف لوگوں کے اصلی نام ظاہر نہیں کئے گو وہ تمام گمنام اور غیر اہم سادہ دیہاتی تھے۔ صحت یاب ہونے کے بعد مصنف نے ڈائری کے عنوان کا خود انتخاب کیا تھا اور میں نے اسے جوں کا توں رہنے دیا۔
(۱)
آج چاندنی جوبن پر ہے۔
تیس برسوں سے میں نے ایسی رات نہیں دیکھی۔ دل افزا چاندنی نے میرے اندر بھی شگفتگی کا نور کر دیا ہے۔ مجھے احساس ہونا شروع ہوتا ہے کہ پچھلے تیس سالوں سے میں اندھیرے میں زندہ رہا ہوں۔ اب مجھے محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ورنہ چاؤ (Chao) کے گھر اُس کا کتا مجھے دو مرتبہ کیوں دیکھتا؟
میرا خوف بے سبب نہیں ہے!
(۲)
آج اندھیری رات ہے۔
میں اِسے بد شگونی سمجھتا ہوں۔ کچھ یوں ہوا کہ میں جب ڈرتے ڈرتے باہر نکلا تو مسٹر چاؤ کو دیکھ کر مجھے قدرے حیرت ہوئی۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ سے خوفزدہ تھے اور مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ وہاں سات یا آٹھ اور لوگ موجود تھے اور وہ سر گو شی میں میرے متعلق بات چیت کر رہے تھے۔ غالباً وہ مجھ سے خائف تھے۔ میں جتنے بھی لوگوں کے پاس سے گزرا، مجھے یہی احساس ہوا۔ سب سے بھیانک شکل والا مجھے دیکھ کر مسکرایا۔ اُس مسکراہٹ نے میرے اندر ایک لرزہ طاری کر دیا۔ مجھے لگا کہ وہ اپنی تیاری مکمل کر چکے ہیں۔
میں اُن کی پرواہ کئے بغیر چلتا رہا۔ بچوں کے ایک ٹولے میں بھی میں موضوع سخن تھا۔ اُن کے چہرے زرد اور آنکھوں میں مسٹر چاؤ والا تاثر تھا۔ میں حیران تھا کہ اُن کے ایسے شکایت آمیز رویے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ میں بے اختیار چیخ اُٹھا، ’’کیا بات ہے!‘‘
وہ تمام بھاگ گئے۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ مسٹر چاؤ اور سڑک پر موجود دوسرے لوگوں کو میرے ساتھ کیا شکایت ہو سکتی ہے؟ میں کوئی خاص وجہ یاد نہیں کر سکتا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ایک دفعہ مسٹر کوچیو (Ku Chiu) کے پرانے کھاتے دیکھ لئے تھے اور وہ خاصے برہم بھی ہوئے۔ گو مسٹر کُو اور مسٹر چاؤ ایک دوسرے کے شناسا نہیں لیکن مسٹر چاؤ نے یہ افواہ سن کر مجھ سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ سڑک پر موجود لوگوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ بچوں کے رویے کو کیا کہا جائے؟ اُس وقت تو وہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اُن کا مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھنا کچھ معیوب لگا۔ مجھے لگا کہ اِس کی وجہ خوف ہے اور کیا وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ وہم مجھے خوفزدہ کر دیتا ہے، یہ واقعی حیران کن اور تشویشناک بات ہے۔
میں حقیقت جانتا ہوں! یہ بات اُنہیں اپنے والدین سے معلوم ہوئی ہو گی۔
(۳)
میں رات کو سو نہیں سکتا۔ ہر بات کو سمجھنے کے لئے اُس پر غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اُن کی عجیب کیفیت تھی۔ اُن میں سے کچھ کو تو مجسٹریٹ نے بلّیوں سے بندھوا دیا۔ بعض کو مقامی شرفا نے منہ نہ لگایا۔ چند ایک کی بیویوں کو بیلف پکڑ کر لے گئے یا والدین نے قرض خواہوں سے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔ وہ اتنے سہمے ہوئے اور خوفناک کبھی بھی نظر نہیں آئے تھے۔
کل سب سے حیران کن بات ہوئی۔ ایک ماں نے سڑک پر اپنے بچے کی پٹائی کرتے ہوئے کہا۔ ’’پاجی! اپنا غصہ کم کرنے کے لئے مجھے کئی بار تمہیں منہ بھر کر کاٹنا ہو گا۔‘‘ لیکن تمام عرصہ وہ میری طرف دیکھتی رہی۔ میں یکدم چونکا تو سبز چہروں اور لمبے دانتوں والے لوگ تحقر آمیز ہنسی ہنسنے لگے۔ بوڑھا چین (Chen) جلدی سے مجھے کھینچ کر گھر لے گیا۔
گھر میں سب لوگوں نے ظاہر کیا کہ وہ مجھے جانتے ہی نہیں۔ اُن کی آنکھوں میں ویسے ہی شکوک تھے۔ میں جب سٹڈی میں گیا تو ڈربے کی طرح دروازے کو باہر سے مقفل کر دیا گیا۔ میں اِس واقعہ سے مزید حیران ہو گیا۔
کچھ دِن ہوئے ہمارے گاؤں وولف کلب (Wolf Club) سے ایک مزارع خراب فصل کی خبر دینے آیا تو اُس نے میرے بڑے بھائی کو بتایا، ایک بدنامِ زمانہ ہستی کو جان سے مار دیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اُس کا دِل اور کلیجی نکال کر گھی میں تلا اور پھر مزے سے کھا گئے۔ اِس کا مقصد اپنے آپ کو زیادہ بہادر بتانا تھا۔ میں نے اُنہیں ٹوکا تو مزارع اور میرے بھائی نے مجھے عجیب نظروں سے گھورا۔ مجھے آج احساس ہوتا ہے کہ اُن کی نظر میں باہر کے لوگوں سا تاثر تھا۔
یہ سوچ کر میرے بدن میں خوف سے کپکی طاری ہو جاتی ہے۔
وہ انسانوں کو کھاتے ہیں اور ممکن ہے مجھے بھی کھا جائیں۔
عورت کا اپنے بچے کو کہ وہ منہ بھر کر اُسے کاٹ کھائے گی، سبز چہروں اور لمبے دانتوں والے لوگوں کا …. اور مزارع کا کل والا واقعہ در اصل خفیہ علامتیں ہیں۔ میں اُن کی باتوں میں زہر کے نشتر محسوس کر سکتا ہوں۔ اُن کے قہقہوں میں پنہاں خنجر میری سوچ میں چبھ رہے ہیں۔ اُن کے دانت سفیدی سے چمک رہے ہیں اور وہ تمام آدم خور ہیں!
میں جانتا ہوں کہ میں بُرا آدمی نہیں لیکن مسٹر کو کے کھانے والے قصے کے بعد معاملہ بہت نازک ہو گیا ہے۔ ظاہراً اُن کے اپنے راز ہیں اور یہ راز میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ غصے کی حالت میں وہ ہر کسی کو بدکردار سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصے سے بڑے بھائی نے مجھے مضمون لکھانا شروع کئے۔ میں جب بھی کسی اچھے آدمی کی خامیوں کو اجاگر کرتا تو ایسی تحریر اُسے ہمیشہ بھاتی۔ اگر میں برے آدمی کی برائی کو نظر انداز کر دیتا تو وہ اُس مضمون کی بھی تعریف کرتا۔ میں لوگوں کے راز کیسے جان سکتا ہوں، خصوصاً جب وہ اوروں کو زندہ کھانے پر تلے ہوں۔
ہر بات کو سمجھنے کے لئے اُس پر غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت پہلے لوگ انسانوں کو کھا جاتے تھے۔ مجھے یہ بات کسی دھند میں اٹکی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے تاریخ کی کتابوں میں ڈھونڈھنے کی کوشش کی لیکن اِسے کسی تاریخی ترتیب میں نے لا سکا۔ ہر کتاب کے ہر صفحے پر مجھے ’’پاکیزگی اور اخلاقیات‘‘ لکھے نظر آئے۔ اُس رات میں سو نہ سکا اور آدھی رات تک بہت توجہ سے پڑھتا رہا۔ ایک وقت آیا کہ مجھے تمام کتابوں میں لائنوں کے درمیان کی خالی جگہ میں صرف دو لفظ واپس گھورتے نظر آنے لگے۔ وہ الفاظ تھے، ’’لوگ کھاؤ۔‘‘
کتاب میں لکھے ہوئے اور ہمارے مزارع کے منہ سے نکلے الفاظ میری طرف ایک پر اسرار مسکراہٹ سے دیکھنے لگے۔ میں ایک آدمی ہوں اور وہ مجھے کھانا چاہتے ہیں۔
(IV)
صبح کو میں کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ بوڑھا چین دوپہر کو میرے لئے سبزی کا پیالہ اور ابلی ہوئی مچھلی کھانے کو لایا۔ مچھلی کی آنکھیں سفید اور سخت تھیں اور منہ انسانوں کو کھانے والے لوگوں کی طرح کھلا ہوا تھا۔ تھوڑا کھانے کے بعد میں تذبذب میں پڑ گیا کہ نوالے مچھلی کے تھے یا انسانی گوشت کے۔ یہ خیال آتے میں نے قے کر دی۔
میں نے بوڑھے چین کو بتایا، وہ میرے بھائی کو اطلاع کرے کہ میرا دم گھٹ رہا تھا اور مجھے باغیچے میں ٹہلنا چاہئے۔ چین خاموشی سے باہر چلا گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد اُس نے دروازہ کھول دیا۔
میں نے کوئی حرکت نہ کی۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اُن کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے باہر نہیں جانے دیں گے۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ میرا بڑا بھائی ایک بوڑھے کو ساتھ لایا۔ بوڑھے کی آنکھوں میں قاتلانہ چمک تھی۔ بوڑھے آدمی کو خدشہ تھا کہ میں اس کے تاثرات جان جاؤں گا چنانچہ وہ نظریں جھکا کر اپنے چشمے کے کونوں سے مجھے دیکھنے لگا۔
’’تم آج بالکل ٹھیک لگ رہے ہو‘‘ میرے بھائی نے کہا۔
’’ہاں! میں نے جواب دیا۔
’’میں نے مسڑ ہو (HO) ± کو تمہارے معائنے کے لئے بلایا ہے‘‘ ۔ میرے بھائی نے اطلاع دی۔
’’ہوں‘‘ ۔ در اصل میں جان گیا تھا کہ بوڑھا جلدی میں ہے۔ وہ میری نبض یہ جاننے کے لئے دیکھنا چاہیتا تھا کہ میں کتنا موٹا ہوں اور میرے گوشت سے اسے کتنا حصہ ملے گا۔ میں آدم خور تو نہیں لیکن ان سے بہادر ضرور ہوں۔ میں نے اس کا رد عمل جاننے کے لئے اپنی دونوں کلائیاں اُس کی طرف بڑھا دیں۔ وہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔ پھر اس نے ہاتھوں سے اِدھر اُدھر کچھ محسوس کیا۔ تھوڑی دیر خاموش بیٹھنے کے بعد اس نے اپنی متجس آنکھیں کھولیں۔
’’زیادہ پریشانی مناسب نہیں۔ چند روز آرام کرنا چاہیے! میرا وزن جتنا بڑھا اُنہیں کھانے کو اُتنا ہی زیادہ ملے گا۔ لیکن یہ سب میرے کس کام کا یا ہر چیز کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ انسانی گوشت کھانا چاہتے ہیں مگر ظاہری طور پر وہ خودکو بے اعتنائی کے لبادے میں لپیٹے ہوئے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ اپنے ارادے کسی پر ظاہر نہ کریں۔ یہ سب مجھے سوانگ لگا اور میں ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہونے والا ہو گیا۔ میرے لئے یہ کافی مضحکہ خیز تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس قہقے میں بہادری اور راست بازی تھی۔ میری اس بہادری سے راست بازی سے بو ڑھے اور میرے بھائی کے چہرے زرد ہو گئے۔
وہ جان گئے ہیں کہ میں بہادر ہوں۔ مری بہادری کی وجہ سے وہ مجھے کھانے کے لئے بے چین ہو گئے ہیں تاکہ میرا گوشت بھی اُنہیں کہا بہادر بنا سکے۔ بوڑھا باہر چلا گیا۔ جانے سے پہلے اس نے آہستہ سے میرے بھائی کے مان میں لیا کہ مجھے فوراً کھا لینا چاہیے۔ میرے بھائی نے اثبات میں سر ہلادیا۔ مجھے پتا چل گیا ہے کہ وہ ان سے ملا ہوا ہے۔ یہ حیرت انگیز انکشاف میرے لئے صدمہ سے کم نہیں تھا۔ میرا اپنا بھائی مجھے کھانے کے منصوبے میں شامل تھا۔
انسانی گوشت کھانے والا میرا بھائی ہے!
میں انسانی گوشت کھانے والے کا چھوٹا بھائی ہوں!
مجھے دوسرے کھا جائیں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں انسانی گوشت کھانے والے کا چھوٹا بھائی ہوں۔
(V)
پچھلے چند دنوں سے میں پھر یہی سوچنے لگا ہوں۔ ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ بوڑھا آدمی جلاد ہونے کے بجائے واقعی ڈاکٹر تھا۔ لیکن پھر بھی وہ انسانی گوشت خور تھا۔ اُس پیش رو لی شی چین (Lee She chan) نے جڑی بوٹیوں پر اپنی کتاب ’’میٹیریا میڈیکا‘‘ میں بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ انسانوں کے گوشت کو ابال کر کھایا جا سکتا ہے چنانچہ بوڑھا کیسے کہہ سکتا تھا کہ وہ انسانی گوشت نہیں کھاتا!
میرے بڑے بھائی کے متعلق خدشات حقائق پر مبنی ہیں۔ وہ جب مجھے پڑھایا کرتا تھا تو اس نے بہت واضح طور پر بتایا تھا کہ لوگ کھانے کے لئے اپنے بیٹے ایک دوسرے سے تبدیل کر لیتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک برے آدمی کے متعلق بحث کرتے ہوئے اس نے کہا کہ نہ صرف اسے قتل کر دینا چاہیے بلکہ اس کی کھال کو سونے کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔ اس وقت میں کم عمر تھا اور خوف کے مارے میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس دن ہمارے مزارع نے گاؤں میں آدمی کا دل اور کلیجی کھانے والا سنایا تو وہ اثبات میں سر ہلاتا رہا۔ وہ اسی طرح ظالم تھا۔ کھانے کے لئے بیٹے تبدیل ہو سکتے ہیں تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں، میں اس کی توجیحات بے خیالی سے سنتا رہتا تھا لیکن اب جب وہ اس نوعیت کی بات کرتا تو اس کے منہ کے کونوں پر انسانی چربی نظر آتی۔ وہ انسانی گوشت کھانے پر تُلا ہوا ہوتا تھا۔
(VI)
گھپ اندھیرا! میرے لئے دن اور رات میں تمیز کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ چاؤ خاندان کے کتے نے پھر بھونکنا شروع کر دیا ہے۔
شیر کی ہیبت خرگوش کی کمزوری اور لومڑی کی مکاری….
(VII)
میں ان کا لائحہ عمل جان گیا ہوں۔ منفی نتائج کے پیش نظر وہ کسی کو کھُلے بندوں قتل نہیں کر سکتے۔ اُنہوں نے گٹھ جوڑ کر کے میرے لئے اس طرح جال بچھا دئیے ہیں کہ میں خود کشی کر لوں۔ آدمیوں اور عورتوں کا گلیوں میں طریقہ اور بھائی کا پچھلے چند دنوں سے رویہ، میرے لئے بہت واضح اشارے ہیں۔ وہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ آدمی اپنی بیلٹ کا پھندا بنا کر چھت سے لٹک جائے۔ ایسی حالت میں وہ اسے سیر ہو کر کھائیں اور قتل کا الزام بھی ان کے سر پر نہیں آئے گا۔ ایسی حالت میں وہ دلچسپی اور سکون کے قہقہے لگاتے۔ بعض اوقات کوئی فکر اور پریشانی سے لاغر ہو جائے تو بھی یہ اسے کھانے سے دریغ نہیں کریں گے۔
وہ صرف مردہ گوشت کھاتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ ہائینا (Hyena) کے بارے میں پڑھا تھا۔ یہ کرے ہہ صورت جانور مردہ گوشت کھاتا ہے۔ یہ بڑی سے بڑی ہڈی کو چبا کے ریزہ ریزہ کر کے نگل جاتا ہے۔ یہ خیال مجھے خوفزدہ کر دینے کے لئے کافی ہے۔ ہائینا بھیڑیوں کے رشتہ دار ہیں بھیڑئیے کتوں جیسے۔ کچھ دن اُدھر چاؤ خاندان کے کتے نے متعدد بار مجھے دیکھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بھی منصوبے کا حصہ ہے اور بوڑھے نے اپنی نظریں تو نیچے رکھیں لیکن وہ مجھے دھوکا نہ دے سکا۔
میرے بھائی کا رویہ قابل مذمت ہے۔ آدمی ہوتے ہوئے اس کا خائف نہ ہونا مجھے کا فی کھٹکتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ وہ اوروں کے ساتھ مل کر مجھے کھانے کی منصوبہ بندی کیوں کر رہا ہے؟ کیا جب کوئی اس کا عادی ہو جائے تو وہ اسے جرم نہیں سمجھتا؟ کیا اس کا دل پتھر ہو گیا ہے کہ جو غلط کام کرنے کو بھی معیوب نہیں سمجھتا؟
آدم خوروں پر لعنت بھیجنے کا آغاز میں اپنے بھائی سے کروں گا اور انہیں باز رکھنے کا بھی!
(VIII)
در اصل ان دلائل سے انہیں قائل ہو جانا چاہیے تھا
اچانک کوئی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کی عمر تقریباً بیس برس کی تھی۔ اس کے نقوش صحیح طرح نہ دیکھ سکا۔ اس کا چہرہ مسکراہٹ میں نہایا ہوا تھا۔ جب اس نے سلام کرنے کے لئے سر ہلایا تو مجھے وہ مسکراہٹ مصنوعی لگی۔ میں نے اس سے پوچھا۔
’’کیا انسانوں کو کھانا واجب ہے؟‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’اگر قحط نہ ہو تو انسانوں کو کیسے کھایا جا سکتا ہے‘‘ ۔
میں فوراً سمجھ گیا کہس کا تعلق اسی لوٹے سے ہے لیکن پھر بھی میں نے ہمت کر کے اپنا سوال دہرایا
’’کیا یہ مناسب ہے‘‘ ؟
’’تم ایسی بات کیوں کر تے ہو؟ یقیناً تم مذاق بہت اچھا کر لیتے ہو…. آج بہت اچھا موسم ہے‘‘ ۔
’’موسم اچھا ہے۔ چاند بھی چمک رہا ہے لیکن مجھے بتائیں کہ کیا یہ مناسب ہے‘‘ ۔
وہ ذرا تعلق سا گیا۔
وہ بڑبڑایا۔
’’نہیں‘‘
’’نہیں؟ لیکن پھر بھی وہ ایسا کیوں کر تے ہیں‘‘ ۔
’’تمہاری باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں‘‘ ۔
’’میری باتیں سمجھ سے باہر ہیں؟ وہ وولف کلب میں آدمیوں کو کھا رہے ہیں۔ آپ یہ کسی بھی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں …. تازہ اور سرخ حروف میں لکھا!‘‘
اس کے مصنوعی رویے میں بک لخت تبدیلی آ گئی۔ اس کا رنگ زرد ہو گیا۔
’’شاید ایسا ہی ہو۔‘‘ اس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا ’’ہمیشہ سے ایسے ہی رہا ہے ….‘‘
’’کیا یہ اس لئے درست ہے کہ ہمیشہ ایسے ہی رہا ہے؟‘‘
’’ میں اس سلسلے میں مزید گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ تمہیں ایسی باتیں نہیں کرنا چاہئیں۔ ایسی گفتگو کرنا ہے ہی غلط۔‘‘
میں نے جھٹکے سے اُٹھ کر اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ آدمی غائب ہو چکا تھا۔ میں پسینے میں نہایا ہوا تھا۔ میرے بھائی سے عمر میں چھوٹا ہونے کے باوجود وہ اس سازش میں شامل تھا۔ یہ اس نے اپنے والدین سے سیکھا ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ سکھا دیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اِرد گِرد کے بچے بھی مجھے ایسی شدت سے دیکھتے ہیں۔
(IX)
ان کے شکوک کسی سے چھپے ہوئے نہیں تھے۔ آدمیوں کو کھانے کی خواہش اور ساتھ ہی خود کھائے جانے کا خدشہ……..
اُن کی زندگی پر سکون ہو جائے بشرطیکہ وہ اس جنون سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔ اس قدم کے اُٹھاتے وہ آرام سے گھومنے پھرنے، کھانے پینے اور سونے لگیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ باب بیٹے، خاوند اور بیویاں، بھائی، دوست، اساتذہ، شاگرد، دشمن، اور اجنبی ایک دوسرے کو ایسا قدم اُٹھانے سے منع کر رہے ہیں۔
(X)
آج صبح میں اپنے بھائی سے ملنے گیا۔ وہ ہال کے باہر آسمان کی طرف منہ کئے کھڑا تھا۔ دروازے اور اُس کے درمیان کھڑے ہو کر میں نے اسے سکون اور نرمی سے مخاطب کیا:
’’بھائی! میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں‘‘ ۔
’’ہوں ….کیا ہے؟‘‘ وہ تیزی سے میری طرف مڑا۔
’’بات تو مختصر ہے لیکن میرے لئے کہنا اتنا آسان نہیں۔ آغاز میں کہنا چاہوں گا کہ قدیم لوگ انسان کا تھوڑا تھوڑا گوشت کھا رہے تھے۔ پھر ان کا نظریہ تبدیل ہو گیا۔ کچھ نے کھانا چھوڑ دیا اور اچھائی کو کھوجتے اچھے آدمی بن گئے بعض ابھی تک کھا رہے ہیں …. رینگنے والے جانور کی طرح۔ چند ایک مچھلیوں، پرندوں، بندروں اور آخر کار آدمیوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ لیکن کچھ کو اچھابننے کی خواہش نہیں ہے اور وہ ابھی تک رینگنے والے جانور ہیں۔ آدمی کو کھانے والے، عام آدمیوں سے اپنا مقابلہ کرتے وقت شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہوں گے غالباً رینگنے والے جانوروں کا بندروں کے سامنے شرمسار ہونے سے بھی زیادہ۔
پرانے وقتوں کی کہانی۱ مشہور ہے کہ یی یا (Yi ya) نے اپنے بیٹے کو، چی (Chiech) اور چاؤ (Chou) کے کھانے کے لئے اُبالا اور پان کو (Pan ku) کے زمین اور جنت بنانے کے بعد سے آدمی ایک دوسرے کو کھاتے آئے ہیں۔ پی یا کے بیٹے سے سو سی لِن (Hsu Hsi-lin) تک اور سوسی۲ لن سے ہمارے گاؤں وولف کلب میں پکڑے گئے آدمی تک۔ پچھلے سال شہر میں کسی کو موت کی سزا دی گئی اور ایک ٹی بی کے مریض نے اُس کے خون میں روئی کے ٹکڑے کو بھگو کر کھایا۔
’’ وہ مجھے کھانا چاہتے ہیں اور تم اکیلے انہیں روک نہیں سکتے۔ ٹھیک ہے …. لیکن تمہیں ان کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہئے۔ آدم خور ہونے کی وجہ سے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر وہ مجھے کھا سکتے ہیں تو وہ تمہیں بھی کھا جائیں گے بلکہ وہ ایک دوسرے کو بھی کھا سکتے ہیں۔ تم اپنے آپ کو سدھار لو تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ ہزارہا سال سے ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن اس سلسلے کو ہمیں اب آگے نہیں چلنے دینا چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ تم ایسا کر سکتے ہو۔ اس دن جب مزارع نے حصہ کم کرنے کی بات کی تو تم نے انکار کر دیا تھا۔‘‘
اس کی مسکراہٹ میں حقارت تھی۔ پھر اس کی آنکھوں میں قاتلانہ چمک آ گئی۔ میں نے جونہی ان کے راز کی بات کھولی، اس کا چہرہ فق ہو گیا۔ پھاٹک کے باہر کافی لوگ جمع ہو گئے تھے۔ مسٹر چاؤ اپنے کتے کے ساتھ اُن میں شامل تھے۔ وہ سب اندر جھانکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُنہوں نے اپنے چہرے کپڑے کے نقابوں کے پیچھے چھپائے ہوئے تھے۔ اُن میں سے کچھ تو تھکے ہوئے نظر آ رہے تھے مگر اُن کے لئے قہقہے چھپانا مشکل ہو رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ سب ایک ہی گروہ میں شامل ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اُن کے سوچنے کا انداز مختلف ہے۔ اُن میں سے کچھ کا خیال تھا، چونکہ ایسے ہی ہوتا آیا ہے لہٰذا آدمی کو کھا جانا چاہئے۔
بعض سوچتے کہ آدمی کو کھا جانا نامناسب ہے مگر وہ پھر بھی کھا جاتے تھے۔ انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ اُن کا راز فاش نہ ہو جائے۔ میری گفتگو پر برہمی کے باوجود وہ حقارت سے مسکراتے رہے۔
اچانک میرا بھائی غصے سے چیخا۔
’’تم سب یہاں سے چلے جاؤ۔ ایک پاگل کو دیکھنے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟‘‘
میں اُن کی مکاری سمجھ گیا۔ وہ اپنی منصوبہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہتے تھے۔ اپنے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لئے انہوں نے مجھے پاگل مشہور کر دیا۔ وہ جب مجھے کھائیں گے تو کسی قسم کا رد عمل نہیں ہو گا۔ ہمارے مزارع نے دیہاتیوں کا ایک برے آدمی کو کھانے والا واقعہ سنایا تھا۔ یہ لوگ بھی ایسا ہی کرنا چاہتے تھے۔ یہ ان کا پرانا طریق کار ہے۔
بوڑھا چین غصے میں اندر آیا۔ وہ میری زبان بند نہیں کر سکتے تھے۔ میں نے کہا ’’تم لوگوں کو اپنے آپ کو تبدیل کرنا چاہئے۔ تم لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ آنے والے وقت میں دنیا میں آدم خور نہیں رہ سکیں گے۔ اگر تم نے خود کو تبدیل نہ کیا تو تم ایک دوسرے کو کھا جاؤ گے۔ اگرچہ پیدا ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن طاقتور کمزور کو ختم کر دیں گے۔ جس طرح شکاریوں کے ہاتھوں بھیڑیئے مارے جا رہے ہیں …. رینگنے والے جانوروں کی طرح۔‘‘
بوڑھے چین نے سب کو بھگا دیا۔ میرا بھائی بھی چپکے سے کھسک گیا۔ بوڑھے نے مجھے کمرے میں جانے کا مشورہ دیا۔ کمرے میں گہری تاریکی تھی۔ میرے داخل ہوتے بتیاں اور کڑیاں ہلنے لگیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کے حجم میں اضافہ ہو گیا اور پھر وہ میرے اوپر گر گئیں۔
ان کے وزن کے نیچے میں خود کو بے بس محسوس کیا۔ میں جانتا تھا کہ یہ ان کی چال ہے اور میرے اوپر کا وزن مصنوعی ہے۔ میں ہاتھ پاؤں مار کر نیچے سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ میرا سانس پھولا ہوا تھا مگر میں نے اونچی آواز میں کہا۔
’’تم لوگوں کو اپنے میں تبدیلی لانا چاہئے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مستقبل میں آدم خوروں کے لئے دنیا میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا۔‘‘
(XI)
تاریک کمرے میں سورج کی روشنی نہیں آتی۔ دن میں دو دفعہ میرا کھانا پہنچا دیا جاتا ہے۔ میں نے کھانے کی تیلیاں (Chopsticks) اٹھائیں تو مجھے بڑے بھائی کا خیال آیا۔ میں جانتا ہوں کہ میری چھوٹی بہن اس کی وجہ سے مری۔ اس وقت وہ پانچ برس کی تھی۔ وہ بہت پیاری اور مظلوم لگ رہی تھی۔ ہماری ماں کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بھائی شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا، غالباً وہ خود قاتل تھا۔ اگر اُس میں ذرا بھی غیرت ہوتی….
میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ ماں حقیقت سے واقف تھی!
بعض اوقات مجھے گماں گزرتا ہے، ماں حقیقت سے واقف تھی۔ وہ کسی مصلحت کے تحت خاموش رہی۔ مجھے یاد آیا، اُس وقت میری عمر پانچ برس کے قریب تھی۔ ہم ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے بھائی نے مجھے بتایا، اگر والدین بیمار ہوں تو آدمی کو اپنا تھوڑا سا گوشت اُبال کر اُنہیں کھلانا چاہئے۔ ہماری ماں وہاں موجود تھی اور اُس نے تردید نہ کی۔ بہن کے ماتم کے دن یاد کر کے آج بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
(XII)
میرے اندر اس بات کو سوچنے کا حوصلہ نہیں۔
مجھے ابھی احساس ہوا ہے، جہاں میں رہ رہا ہوں وہاں پچھلے چار ہزار برسوں سے انسانی گوشت کھایا جا رہا ہے۔ جب ہماری بہن کی موت واقع ہوئی تھی اُس وقت بھائی نے گھر کا نظام سنبھالا ہی تھا۔ ممکن ہے اُس نے چاولوں اور دوسرے کھانوں میں بہن کا گوشت ڈالا ہو۔ ہم نے غیرارادی طور پر وہ کھا لیا۔
ممکن ہے میں نے غیر ارادی طور پر اپنی بہن کا گوشت کھایا اور اب میری باری ہے …. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے جیسا آدمی جس کے پیچھے چار ہزار سال آدم خوری کی تاریخ ہو (شروع میں، میں اس بارے لاعلم تھا) ایک صحیح آدمی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے۔
(XIII)
غالباً ابھی کچھ ایسے بچے ہیں جنہوں نے آدمی کو نہیں کھایا۔ ان بچوں کو بچانا چاہئے ….
اپریل ۱۹۱۸ء
——————————————–
-۱ایک ریکارڈ کے مطابق پی یا نے اپنے بیٹے کو ڈیوک ہوآن (Duke Huan) کے سامنے رکھا۔ ڈیوک نے ۶۸۵-۶۳ قبل مسیح تک حکومت کی۔ چی اور چاؤ اس سے پہلے حکمرانی کر چکے تھے۔ پاگل سے یہاں غلطی سر زد ہو گئی۔
-۲چنگ خاندان کے آخری دور کا ایک انقلابی (۱۶۴۴-۱۹۱۱)۔ سوسی لن کو ۱۹۰۷ میں چنگ افسر کے قتل کے جرم میں پھانسی دی گئی اور اس کا دل اور کلیجی کھائے گئے۔
٭٭٭