(Last Updated On: )
پینٹا گون اور جڑواں میناروں پر حملے کی پہلی برسی کے موقع پر ہی یہ بات عیاں ہو چکی تھی کہ بُش انتظامیہ عراق پر حملے اور قبضے کی تیاری کر رہی ہے۔ میں نے پہلی جنگِ خلیج کا بغور جائزہ لیا تھا اور اس پر تفصیل سے ’’نیولیفٹ ریویو‘‘ میں بھی لکھا تھا اور اپنی کتاب ’’بنیاد پرستیوں کا تصادم‘‘ میں بھی۔ میں نے اِس ملک کی خوں آشام تاریخ بارے سوچ بچار کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ تفصیل سے اس تاریخ کا کھوج لگایا جائے۔ میرے لبنانی دوست اور کامریڈ گلبرٹ اشکار نے جن سے دوستی کا سلسلہ تیس سال پر محیط ہے، مجھے مشورہ دیا کہ میں وقت نکال کر حاناباطاتو کا مطالعہ کروں۔ یہ بہترین مشورہ تھا۔ باطاتو کا مطالعہ نعمتِ مترکبہ ثابت ہوا۔ باطاتو منفرد سیاسی فراست رکھنے والے تاریخ دان تھے اور ان کی تحریریں طویل ہوائی سفروں پر میرے ساتھ دنیا کا قریہ قریہ گھومیں۔
دیگر بہت سی کتابیں بھی میری نظر سے گزریں اور میں نے ان سے خوب استفادہ کیا (مثلاً ابتدائی برطانوی سفیروں کی یاداشتیں، جرٹروڈ بیل کی ڈائریاں وغیرہ)، جلا وطن سیاسی قیدیوں سے تفصیلی بات چیت بھی کی لیکن حقائق کی صحت پرکھنے کے لیے میں آخر میں ہر بار باطاتو سے ہی رجوع کرتا اور ان کی تشریح پر انحصار کرتا۔ باطاتو عراق پر از سرِنو نوآبادیاتی قبضہ ہوتے وقت بقیدِ حیات نہ تھے ورنہ وہ اس قبضے کی تمام جزئیات سے نفرت کا اظہار کرتے، بالخصوص ایسے من گھڑت مناظر پر ان کا خون جلتا کہ امریکی مشینیں اور دو سو لوگ صدام کا مجسمہ گراتے ہیں، گو بغداد میں دس لاکھ کُرد بستے ہیں، مگر استبداد کی پراپیگنڈہ مشین اسے ’تجربۂ آزادی‘ بنا کر پیش کرتی ہے۔
پرائیوٹ جیسیکا لنچ٭کی بہادری کا جھوٹا قصہ بھی اسی کی ایک مثال ہے اور اپنے شہریوں کو مطمئن کرنے کے لیے بش اور بلیئر نے جو سفید جھوٹ بولا وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حانا باطاتو 2000ء میں وفات پا گئے اور یوں وہ لوگ جنہوں نے ان سے سیکھا ان کے ممنونِ احسان ہیں۔
ایسے عراقیوں کی فہرست خاصی طویل ہے جن کے ساتھ میری بات چیت ہوئی یا جنہوں نے میری مدد کی اور ان میں سے شائد کچھ چاہئیں گے کہ میں ان کا نام نہ ہی پیش کروں مبادا عراق پر قابض قوتیں انہیں ممنوعہ افراد کی فہرست میں شامل کر دیں۔ ہاں مگر کچھ نام ایسے ہیں جن کا تذکرہ ضروری ہے:
سعدی یوسف، حیفہ زنگانہ، کامل مہدی، امیر الرکابی، ودود حماد، نجم عمود اور فارس وہاب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا قیمتی وقت ماضی کو کھنگالنے میں صرف کیا۔ فارس وہاب نے تو اس کتاب کے لئے بعض اہم عربی اقتباسات کا ترجمہ بھی کیا۔ کیلگری میں مقیم طارق اسمعیٰل نے تو اپنی آنے والی کتاب ’عراقی اشتراکیت کی تاریخ‘٭ کے متعلقہ ابواب بھی ارسال کر دیئے۔سارہ مغیر اور حافظ خیری کا بہت بہت شکریہ کہ جنہوں نے اس کتاب کیلئے سعدی یوسف اور مظفر النواب کی تازہ نظموں کا بروقت ترجمہ کر دیا۔
ورسو کے لندن ہیڈ کوارٹر میں جین ہنڈل، ٹم کلارک، گیون ایورال، فیونا پرائس اور پیٹرہنٹن نے بروقت اشاعت کو یقینی بنایا۔ اینڈریا ووڈمین اور ایلس میک نیل نے پرانی تصاویر کی فراہمی کو یقینی بنایا جبکہ اینڈریاسٹمپسن کے ذمہ ٹائپ سیٹنگ کا کام تھا۔ ورسو کے نیویارک آفس میں نیلز ہو پر اور راچیل گیڈرا نے اس تصویر کا پیچھا کیا جو اس کتاب کے سرورق پر موجود ہے۔ ورسو اس امر کو دھیان میں رکھتا ہے کہ اس کے سرورق روایت شِکن بھی ہوں اور دیدہ زیب بھی۔ یہ اسی صورت ممکن ہوتا ہے اگر بطور پبلشر آپ آزاد بھی ہوں اور منڈی کے غالب رحجانات کو غلط بھی ثابت کرنا چاہتے ہوں۔
طارق علی
15 جولائی 2003 ء