بیوہ ہو جانے کے بعد بوٹی کے مزاج میں کچھ تلخی آ گئی تھی جب خانہ داری کی پریشانیوں سے بہت جی جلتا تو اپنے جنت نصیب کو صلواتیں سناتی۔ ’’آپ تو سدھار گئے میرے لیے یہ سارا جنجال چھوڑ گئے۔‘‘ جب اتنی جلدی جانا تھا تو شادی نہ جانے کس لیے کی تھی ’’گھر میں بھونی بھنگ نہ تھی چلے تھے شادی کرنے۔‘‘ بوٹی چاہتی تو دوسری سگائی کر لیتی۔ اہیروں میں اس کا رواج ہے۔
اس وقت وہ دیکھنے سننے میں بھی بری نہ تھی دو ایک اس کے خواستگار بھی تھے۔ لیکن بوٹی عفت پروری کے خیال کو نہ روک سکی اور یہ ساراغصّہ اترتا تھا اس کے بڑے لڑکے موہن پر جس کا سولھواں سال تھا۔ سوہن ابھی چھوٹا تھا اور مینا لڑکی تھی۔ یہ دونوں ابھی کس لائق تھے۔ اگر یہ تین بچّے اس کی چھاتی پر سوار نہ ہوتے تو کیوں اتنی تکلیف ہوتی۔ جس کے گھر میں تھوڑا سا کام کر دیتی وہ روٹی کپڑا دے دیتا۔ جب چاہتی کسی کے گھر بیٹھ جاتی اب اگر کہیں بیٹھ جائے تو لوگ یہی کہیں گے کہ تین تین بچّوں کے ہوتے ہوئے یہ اسے کیا سوجھی موہن اپنی بساط کے مطابق اس کا بار ہلکا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ جانوروں کو سانی پانی ڈھونا، متھنا یہ سب وہ کر لیتا لیکن بوٹی کا منہ سیدھا نہ ہوتا تھا روزانہ ایک نہ ایک بات نکالتی رہتی۔ اور موہن نے بھی عاجز ہو کر اس کی تلخ نوائیوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ بوٹی کو شوہر سے یہی گلہ تھا کہ وہ اس کے گلے پر گرہستی کا جنجال چھوڑ کر چلا گیا اس غریب کی زندگی ہی تباہ کر دی۔ نہ کھانے کا سکھ میسر ہوا نہ پہننے کا۔ نہ اور کسی بات کا وہ اس گھر میں آئی گویا بھٹّی میں پڑ گئی اس کے ارمانوں کی تشنہ کا می اور بیوگی کے قیود میں ہمیشہ ایک جنگ سی چھڑی رہتی تھی۔ اور جلن میں ساری مٹھاس جل کر خاک ہو گئی تھی۔ اور شوہر کی وفات کے بعد بوٹی کے پاس اور کچھ نہیں تو چار پانچ سو کے زیور تھے۔ لیکن ایک ایک کر کے وہ سب اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اس کے محلے اس کی برادری میں کتنی عورتیں ہیں جو عمر میں اس سے بڑی ہونے کے باوجود گہنے جھمکا کر، آنکھوں میں کاجل لگا کر، مانگ میں سندور کی موٹی سی لکیر ڈال کر گویا اسے جلاتی رہتی ہیں اس لیے جب اس میں سے کوئی بیوہ ہو جاتی ہے تو بوٹی کو ایک حاسدانہ مسّرت ہوتی۔ وہ شاید ساری دنیا کی عورتوں کو اپنی ہی جیسی دیکھنا چاہتی تھی اور اس کی محروم آرزوؤں کو اپنی پاکدامنی کی تعریف اور دوسروں کی پردہ داری اور حرف گیری کے سوا سکون قلب کا اور کیا ذریعہ تھا کیسے اپنے آنسو پونچھتی۔ وہ چاہتی تھی اس کا خاندان حسن سیرت کا نمونہ ہو۔ اس کے لڑکے ترغیبات سے بے اثر رہیں۔ یہ نیک نامی بھی اس کی پاکدامنی کے غرور کو مشتعل کرتی رہتی تھی۔
اس لیے یہ کیوں کر ممکن تھا کہ وہ موہن کے متعلق کوئی شکایت سنے اور ضبط کر جائے تردید کی گنجائش نہ تھی۔ غیبت کی اس دینا میں رہتے رہتے وہ ایک خاص قسم کی باتوں میں بے انتہا سہل اعتقاد ہو گئی گویا وہ کوئی ایسا سہارا ڈھونڈتی رہتی تھی جس پر چڑھ کر وہ اپنے کو دوسروں سے اونچی دکھا سکے۔ آج اس کے غرور کو ٹھیس لگی۔ موہن جونہی دودھ بیچ کر گھر آیا۔ بوٹی نے اسے قہر کی نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔ ’’دیکھتی ہوں اب تجھے ہوا لگ رہی ہے۔‘‘
موہن اشارہ نہ سمجھ نہ سکا۔ پُر سوال نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
’’میں کچھ سمجھانہیں، کیا بات ہے‘‘؟
’’شرمائے گا تو نہیں۔ الٹا مجھی سے پوچھتا ہے۔ تو روپا سے چھپ چھپ کر نہیں ہنستا بولتا۔ تجھے شرم نہیں آتی۔ کہ گھر میں پیسے کی تنگی ہے اور ان کے لیے پان لائے جاتے ہیں۔ کپڑے رنگائے جاتے ہیں۔‘‘
موہن نے عذر گناہ کیا جو گناہ سے بھی بدتر تھا۔
’’تو میں نے کون سا گناہ کر ڈالا۔ اگر اس نے مجھ سے چار پیسے کے پان مانگے تو کیا کرتا۔ کہتا کہ پیسے دے تو پان لاؤں گا۔ اپنی ساڑھی رنگانے کو دے دی۔ تو اس سے رنگائی مانگتا۔‘‘
’’محلے میں ایک تو ہی بڑا دھنّا سیٹھ ہے۔ اس نے اور کسی سے کیوں نہ کہا؟‘‘
’’یہ وہ جانے میں کیا بتاؤں؟‘‘
’’کبھی گھر میں بھی دھیلے کے پان لایا۔ یا ساری خاطر داری دوسروں کے لیے ہی رکھ چھوڑی ہے؟‘‘
’’یہاں کس کے لیے پان لاتا؟‘‘
’’تیرے لیے کیا گھر کے سارے آدمی مر گئے؟‘‘
’’میں نہ جانتا تھا تم بھی پان کھانا چاہتی ہو؟‘‘
’’سنسار میں ایک روپا ہی کھانے کے لائق ہے۔‘‘
’’شوق سنگار کی بھی تو ایک عمر ہوتی ہے۔‘‘
بوٹی جل اٹھی۔ اسے بڑھیا کہہ دینا اس کے تقوے و طہارت کو خاک میں ملا دینا تھا۔ بڑھاپے میں ان پابندیوں کی وقعت ہی کیا۔ جب نفس کشی کے بل پر وہ سب عورتوں کے سامنے سر اٹھا کر چلتی تھی۔ اس کی یہ ناقدری۔ انھیں لڑکوں کے پیچھے اس نے اپنی ساری جوانی خاک میں ملا دی۔ اس کے شوہر کو گذرے آج پانچ سال ہوئے تب اس کی چڑھتی جوانی تھی۔ یہ تین چینٹے یوت اس کے گلے منڈھ دیے ہیں۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے چاہتی تو آج وہ بھی ہونٹ سرخ کیے پاؤں میں مہندی رچائے۔ الوٹ، بچھوے پہنے مٹکتی پھرتی۔ یہ سب کچھ اس نے لڑکوں کے کارن تیاگ دیا اور بوٹی بڑھیا ہے۔’’ بولی ’’ہاں اور کیا۔ میرے لیے تو اب چیتھڑے پہننے کے دن ہیں۔ جب تیرا باپ مرا تو میں روپا سے دو ہی چار سال بڑی تھی۔ اس وقت کوئی گھر کر لیتی تو تم لوگوں کا کہیں پتہ نہ لگتا۔ گلی گلی بھیک مانگتے پھرتے لیکن میں کہے دی دیتی ہوں۔ اگر تو پھر اس سے بولا تو یا تو ہی اس گھر میں رہے گا۔ یا میں ہی رہوں گی۔‘‘
موہن نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’میں اسے بات دے چکا ہوں امّاں۔‘‘
’’کیسی بات؟‘‘
’’سگائی۔‘‘
’’اگر روپا میرے گھر میں آئی تو جھاڑو مار کر نکال دوں گی۔ یہ سب اس کی ماں کی مایا ہے۔ وہی کٹنی میرے لڑکے کو مجھ سے چھینے لیتی ہے۔ رانڈ سے اتنا بھی نہیں دیکھا جاتا۔ چاہتی ہے کہ اسے سوت بنا کر میری چھاتی پر مونگ دلے۔‘‘
موہن نے دردناک لہجہ میں کہا۔ ’’امّاں ایشور کے لیے کیوں اپنا مان کھو رہی ہو۔ میں نے تو سمجھا تھا۔ چار دن میں مینا اپنے گھر چلی جائے گی۔ تم اکیلی رہ جاؤ گی اسی لیے اسے لانے کا خیال ہوا اگر تمھیں برا لگتا ہے تو جانے دو۔‘‘
بوٹی نے شبہ آمیز نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ’’تم آج سے یہیں آنگن میں سویا کرو۔‘‘
’’اور گائے بھینس باہر ہی پڑی رہیں؟‘‘
’’پڑی رہنے دو کوئی ڈاکہ نہیں پڑا جاتا۔‘‘
’’مجھ پر تجھے اتنا شبہ ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
موہن نے خود داری کی شان سے کہا۔ ’’میں یہاں نہ سوؤں گا۔‘‘
’’تو نکل جا میرے گھر سے۔‘‘
’’ہاں تیری یہی مرضی ہے تو نکل جاؤں گا۔‘‘
مینا نے کھانا پکایا۔ موہن نے کہا۔ ’’مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
بوٹی اسے منانے نہیں گئی۔ موہن کا سرکش دل ماں کے اس جابرانہ حکم کو کسی طرح قبول نہیں کر سکتا۔ ماں کا گھر ہے لے لے۔ اپنے لیے وہ کوئی دوسرا ڈھونڈ لے گا۔ روپا نے اس کی بے لطف، بے کیف زندگی میں ایک مسرت پیدا کر دی تھی۔ جب وہ اپنے دل میں ایک ناقابل بیان شورش کا احساس کر رہا تھا۔ جب وہ اپنی زندگی کی معمولی پر مشقت، رفتار سے بیزار ہو رہا تھا۔ جب دنیا اسے سونی سونی دلچسپیوں سے خالی نظر آ رہی تھی۔ اس وقت روپا نے اس کی زندگی میں بہار کی طرح رونما ہو کر اسے سرخ کونپلوں اور طیور کے نغموں سے حلاوت پیدا کر دی۔ اب اس کی یہ کیفیت تھی کہ کوئی کام کرنا ہوتا تو دل روپا کی طرف لگا ہوتا۔ یہی ارمان تھا کہ اسے کیا چیز دے کہ وہ خوش ہو جائے۔ بڑی ہمت کر کے اس نے اسے اپنا دردِ دل کہا۔ اب آج وہ کس منہ سے اس کے پاس جائے کیا اس سے کہے کہ امّاں نے تم سے ملنے کی ممانعت کی ہے۔ ابھی تو کل چراگاہ میں برگد کے سایہ دار درخت کے نیچے دونوں میں کیسے اخلاص کی باتیں ہو رہی تھیں۔ موہن نے کہا تھا ’’روپا تم اتنی سندر ہو کہ تمھارے سوگاہک نکل آئیں گے۔ تم جس گھر میں جاؤ گی وہ روشن ہو جائے گا۔ میرے گھر میں تمھارے لیے کیا رکھا ہے۔ ’’اس پر روپا نے جواب دیا تھا۔ ’’وہ ایک نغمۂ لطیف کی طرح اس کے جسم کی ایک ایک رگ میں، اس کی روح کے ایک ایک ذرہ میں بسا ہوا تھا۔ اس نے کہا تھا میں تو تم کو چاہتی ہوں۔ موہن تم پرگنے کے چودھری ہو جاؤ تب بھی موہن ہو۔ مزدوری کرنے لگو تب بھی موہن ہو۔‘‘ وہ اپنے موہن کے افلاس، رسوائی اور فاقہ کشی سب کچھ جھیل لے گی۔ اسی روپا سے اب وہ جا کر کہے ’’مجھے اب تم سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘
نہیں یہ غیر ممکن ہے۔ اسے گھر کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ روپا کے ساتھ ماں سے الگ رہے گا۔ یہاں نہ سہی۔ کسی دوسرے محلے میں سہی۔ اس وقت بھی روپا اس کا انتظار کر رہی ہو گی۔ کیسے اچھے بیڑے لگاتی ہے کہ جی خوش ہو جاتا۔ جیسے بیڑوں میں پریم گھول دیتی ہے۔ لیکن جاؤ گے کیسے؟ امّاں سے وعدہ نہیں کیا ہے کہیں امّاں سن لیں کہ یہ رات کو روپا کے پاس گیا تھا تو جان ہی دے دے۔ تو میرا کیا نقصان؟ دے دیں جان اپنی۔ تقدیر کو تو نہیں بکھانتیں کہ ایسی دیوی جو انھیں پان کی طرح پھیرے گی۔ الٹے اور اس سے جلتی ہیں۔ نہ جانے کیوں روپا سے اسے اتنی چڑھ ہے۔ وہ ذرا پان کھا لیتی ہے۔ ذرا رنگین ساڑھی پہن لیتی ہے۔ بس یہی تو اس کی عمر کھانے پہننے کی ہے کیا برا کرتی ہے۔‘‘
چوڑیوں کی جھنکار سنائی دی۔ روپا آ رہی ہے۔ شاید۔ ہاں وہی ہے۔ موہن کے ساز جسم کے سارے تار جھنکار اٹھے۔ اس کے وجود کا ایک ایک ذرّہ ناچنے لگا۔ روپا اس کے دروازے پر آئے۔ شیریں ادا روپا کیسے اس کا خیر مقدم کرے۔ کیا کرے؟ جا کر اس کے قدموں پر سر رکھ دے۔
روپا اس کے سرہانے آ کر بولی ’’ کیا سو گئے موہن؟ اتنی جلدی گھڑی بھر سے تمھاری راہ دیکھ رہی ہوں۔ آئے کیوں نہیں؟‘‘
موہن نیند کا بہانہ کیے پڑا رہا۔
روپا نے اس کا سر ہلا کر کہا ’’کیا سوگئے موہن ابھی سے، اپنا پان کھا لو۔‘‘
اس کی انگلیوں میں کیا اعجاز تھا۔ کون جانے، موہن کی روح میں شادیانے بجنے لگے اس کی جان روپا کے قدموں پر سر رکھنے کے لیے گویا اچھل پڑی۔ دیوی برکتوں کا تھال لیے اس کے سامنے کھڑی ہے۔ ساری کائنات مسّرت سے رقص کر رہی ہے۔ اسے معلوم ہوا جیسے اس کا جسم لطیف ہو گیا۔ اور وہ کسی صدائے مضطرب کی طرح فضا کی گود سے چمٹا ہوا اس کے ساتھ رقص کر رہا ہے۔ ’’میں جاتی ہوں نہیں جاگتے نہ جاگو ہاں نہیں تو۔‘‘
موہن اب ضبط نہ کر سکا۔ ’’ہاں ذرا نیند آ گئی تھی۔ تم اس وقت کیا کرنے آئیں۔ امّاں دیکھ لیں تو مجھے مار ہی ڈالیں۔‘‘
روپا نے اس کے منہ میں پان کا بیڑا رکھ کر کہا۔ ’’تم آئے کیوں نہیں؟‘‘
’’آج امّاں سے لڑائی ہو گئی۔‘‘
’’کیا کہتی تھیں؟‘‘
’’کہتی تھیں روپا سے بولو گے تو جان دے دوں گی۔‘‘
’’تم نے پوچھا نہیں روپا سے کیوں اتنی چڑھتی ہو؟‘‘
’’اب ان کی بات کیا کہوں روپا۔ وہ کسی کا کھانا پینا نہیں دیکھ سکتیں۔‘‘
’’یہ بات نہیں ہے موہن۔ انھیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے۔ میں چنچل تھی نہ لیکن اب تو میں کسی سے نہیں ہنستی۔‘‘
’’امّاں کو کیسے سمجھاؤں؟‘‘
’’تم میرے پاس ایک بار روز آ جایا کرو بس اور میں کچھ نہیں چاہتی۔‘‘
دفعتاً موہن کے گھر کا دروازہ کھلا۔ شاید بوٹی آ رہی ہے۔ روپا سرک گئی۔ موہن بھیگی بلّی بن گیا۔
موہن دوسرے دن سو کر اٹھا تو اس کے دل میں مسرّت کا دریا موجزن تھا۔ اس کی خلقی خشونت اور تندی غائب ہو گئی تھی۔ گویا بچّے کو مٹھائی مل گئی ہو۔ وہ سوہن کو ہمیشہ ڈانٹتا تھا۔ سوہن آرام طلب اور کاہل تھا۔ گھر کے کام دھندے سے جی چراتا تھا۔ آج بھی وہ آنگن میں بیٹھا اپی دھوتی میں صابن لگا رہا تھا۔ غازی میاں کے میلے کی تیاری کر رہا تھا۔ موہن کو دیکھتے ہی اس نے صابن چھپا دیا اور بھاگ جانے کے لیے موقع ڈھونڈنے لگا۔
موہن نے مخلصانہ تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’کیا دھوتی بہت میلی ہو گئی ہے دھوبن کو کیوں نہیں دے دیتے؟‘‘
’’دھوبن پیسے نہ مانگے گی؟‘‘
’’تم پیسے امّاں سے کیوں نہیں مانگ لیتے؟‘‘
’’امّاں پیسے دے چکیں۔ الٹی گھڑکیاں دیں گی۔‘‘
’’تو مجھ سے لے لو۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک اکنّی اس کی طرف پھینک دی۔ سوہن باغ باغ ہو گیا۔ بھائی اور ماں دونوں اس کی ملامت کرتے رہتے تھے۔ بہت دنوں کے بعد اسے محبت کی شیرینی کا مزہ ملا۔ اکنّی اٹھائی اور دھوتی وہیں چھوڑ گائے کو کھولنے چلا۔
موہن نے کہا ’’تم رہنے دو میں اسے لیے جاتا ہوں۔‘‘
سوہن نے گائے کو کھونٹے سے کھول کر ناند پر باندھ آیا اور اندر آ کر بھائی سے بولا ’’تمھارے لیے چلم رکھ لاؤں؟‘‘
آج پہلی بار سوہن نے بڑے بھائی کی جانب ایسے حسن عقیدت کا اظہار کیا اس میں کیا راز ہے۔ یہ موہن کی سمجھ میں نہ آیا۔ برادرانہ خلوص سے اس کا چہرہ شگفتہ ہو گیا۔
بولا آگ ہو تو رکھ لاؤ۔‘‘
مینا سر کے بال کھولے آنگن میں گھروندا بنا رہی تھی۔ موہن کو دیکھتے ہی اس نے گھروندا بگاڑ دیا۔ اور آنچل سے سر ڈھانپنے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی رسوئی گھر کی طرف برتن اٹھانے چلی۔ موہن کے غصّے سے سب ہی ڈرتے تھے۔
موہن نے پیار سے پوچھا ’’کیا کھیل رہی تھی مینا؟‘‘
مینا تھر تھر کانپتی ہوئی بولی ’’کچھ نہیں۔‘‘
’’تو تو بہت اچھے گھروندے بنا لیتی ہے ذرا بنا تو دیکھوں۔‘‘
موہن کے مزاج میں آج یہ پر لطف انقلاب دیکھ کر مینا کو یکایک یقین نہ آیا لیکن پھر بھی اس کا چہرہ شگفتہ ہو گیا۔ پیار کے ایک لفظ میں کتنا جادو ہے۔ منہ سے نکلتے ہی جیسے ایک دلکشی سی پھیل گئی۔ جس نے سنا اس کا دل کھل اٹھا۔ جہاں خوف اور بدگمانی تھی وہاں اعتبار اور خلوص چمک اٹھا۔ جہاں بیگانگی تھی وہاں اپنا پن چھلک پڑا۔ چاروں طرف انہماک چھا گیا۔ کہیں بے دلی نہیں کہیں بے نیازی نہیں لوگوں کی ترقیاں ہوتی ہیں۔ خطاب ملتے ہیں مقدمات میں فتح ہوتی ہے لیکن ان چھوٹے چھوٹے روزمرہ کے واقعات میں جو شیرینی ہے وہ ان اوکھ اور گنے کے کھیتوں میں کہاں۔ موہن کے سینے میں آج محبت کا سوتا سا کھل گیا تھا۔ اس میں مسرت، ہمدردی اور خلوص کی دھاریں نکل رہی تھیں۔
مینا گھروندا بنانے بیٹھ گئی۔
موہن نے اس کے الجھے ہوئے بالوں کو سلجھا کر کہا ’’تیری گڑیا کا بیاہ کب ہو گا؟ جلد نیوتا دے کچھ مٹھائی کھانے کو ملے۔‘‘
مینا آسمان میں اڑ رہی تھی۔ بھیا کتنے اچھے ہیں اب بھیا پانی مانگیں گے تو وہ لوٹے کو راکھ سے خوب چما چم کر کے پانی لے جائے گی۔
’’اماں پیسے نہیں دیتیں۔ گڈا تو ٹھیک ہو گیا ہے۔ لیکن ٹیکا کیسے بھیجوں؟‘‘
’’کتنے پیسے لگیں گے؟‘‘
’’ایک پیسے کے بتاشے لوں گی اور ایک پیسہ کا گلابی رنگ، جوڑے تو رنگے جائیں گے کہ نہیں۔‘‘
’’تو دو پیسے میں تمھاری گڑیا کا بیاہ ہو جائے گا کیوں؟‘‘
’’ہاں تم دو پیسے دے دو تو میری گڑیا کا دھوم دھام سے بیاہ ہو جائے گا۔‘‘
موہن نے دو پیسے ہاتھ میں لے کر مینا کو دکھائے، مینا لپکی۔ موہن نے ہاتھ اوپر اٹھایا مینا نے ہاتھ پکڑ کر نیچے کھینچنا شروع کیا۔ جب یوں نہ پا سکی تو موہن کی گود میں چڑھ گئی اور پیسے لے لیے۔ پھر نیچے آ کر ناچنے لگی۔ تب اپنی سہیلیوں کو شادی کا نوید سنانے دوڑی۔
اس وقت بوٹی گوبر کا جھوا لیے سار کے گھر سے نکلی۔ موہن کو کھڑے دیکھ کر تند لہجے میں بولی ’’ابھی تک مٹر گشت ہی ہو رہی ہے۔ بھینس کب دوہی جائیں گی؟‘‘
آج موہن نے بوٹی کو سخت جواب نہ دیا۔ ماں کو بوجھ سے دبے ہوئے دیکھ کر اس نے اضطراری طور پر اس کے سر سے جھوا لے کر اپنے سر پر رکھ لیا۔
بوٹی نے کہا ’’رہنے دے جا کر بھینس دوہ لے۔ گوبر تو میں لیے جاتی ہوں۔‘‘
’’تم اتنا بھاری بوجھ کیوں اٹھا لیتی ہو ماں مجھے کیوں نہیں بلا لیتی؟‘‘
ماں کا دل مامتا سے رقیق ہو گیا۔
’’تو جا اپنا کام دیکھ میرے پیچھے کیوں پڑتا ہے؟‘‘
’’گوبر نکالنے کا کام میرا ہے۔‘‘
’’دودھ کون دوہے گا؟‘‘
’’وہ بھی میں کر لوں گا۔‘‘
’’تو اتنا کہاں کا جودھا ہے کہ سارے کام کر لے گا۔‘‘
’’جتنا کہتا ہوں اتنا کر لوں گا۔‘‘
’’تو میں کیا کرو گی؟‘‘
’’تم لڑکوں سے کام لو جو بے راہ چلے اسے سمجھاؤ۔ جو غلطی دیکھو اسے ٹھیک کرو بس یہی تمھارا کام ہے۔‘‘
’’میری سنتا کون ہے؟‘‘
آج موہن بازار سے دودھ پہنچا کر لوٹا تو ایک چھوٹا سا پاندان، پان کتھا، چھالیہ اور تھوڑی سی مٹھائی لایا۔ بوٹی بگڑ کر بولی ’’آج روپے کہیں فالتو مل گئے تھے کیا۔ اس طرح تو پیسے اڑائے گا تو کیے دن نباہ ہو گا؟‘‘
’’میں نے تو ایک پیسہ بھی فضول خرچ نہیں کیا۔ اماں میں سمجھتا تھا تم پان کھاتی ہی نہیں۔ اسی لیے نہ لاتا تھا۔‘‘
’’تواب میں پان کھانے بیٹھوں گی؟‘‘
’’کیوں اس میں ہرج کیا ہے؟ جس کے دو دو جوان بیٹے ہوں کیا وہ اتنا شوق بھی نہ کرے۔‘‘
بوٹی کے خزاں رسیدہ دل میں کہیں سے ہریالی نکلی آئی۔ ایک ننھی سی کوئل تھی۔ لیکن اس کے اندر کتنی طراوت، کتنی رطوبت، کتنی جاں بخشی بھری ہوئی تھی جیسے اس کے چہرے کی جھریاں چکنی ہو گئیں۔ آنکھوں میں نور آ گیا۔ دل مایوس میں ایک ترنم ساہونے لگا۔ اس نے ایک مٹھائی سوہن کو دی ایک مینا کو اور ایک موہن کو دینے لگی۔
موہن نے کہا۔
’’مٹھائی تو میں لڑکوں کے لیے لایا تھا، امّاں۔‘‘
’’اور تو۔ بوڑھا ہو گیا۔ کیوں؟‘‘
’’ان لڑکوں کے سامنے تو بوڑھا ہی ہوں۔‘‘
موہن نے مٹھائی لے لی۔ مینا نے مٹھائی کے پاتے ہی گپ منہ میں ڈال لی تھی اور وہ زبان پر مٹھائی کی لذّت کب کی معدہ میں جا چکی تھی۔ موہن کی مٹھائی کو للچائی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ موہن نے وہ مٹھائی مینا کو دے دی۔ ایک مٹھائی اور بچ رہی تھی بوٹی نے اسے موہن کی طرف بڑھا کر کہا۔
’’لایا بھی تو ذرا سی مٹھائی۔‘‘
موہن نے کہا ’’وہ تم کھا جانا امّاں۔‘‘
’’تمھیں کھاتے دیکھ کر مجھے خوشی ہو گی۔ اس میں مٹھاس سے زیادہ مزہ ہے۔‘‘
موہن نے مٹھائی کھا لی اور باہر چلا گیا۔ بوٹی پاندان کھول کر دیکھنے لگی آج زندگی میں پہلی بار اسے یہ خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے۔ زہے نصیب کہ شوہر کے راج میں جو نعمت نہ میّسر ہوئی وہ بیٹے کے راج میں ملی۔ پاندان میں کئی کلیاں ہیں۔ اس میں چونا رہے گا۔ اس میں کتھا اس میں چھالیہ اس میں تمباکو واہ یہاں تو دو چھوٹی چھوٹی چمچیاں بھی ہیں مزے سے چونا کتھا لگا لو۔ انگلی میں داغ تک نہ لگے۔ ڈھکنے میں کڑا لگا ہوا ہے۔ جہاں چاہو لٹکا کر لیے چلے جاؤ۔ اوپر کی طشتری میں پان رکھے جائیں گے مگر سروتے کے لیے جگہ نہیں ہے نہ سہی۔ اس نے پاندان کو مانجھ دھوکر اس میں چونا کتّھا رکھا چھالیہ کاٹ کر رکھی پان بھگو کر طشتری میں رکھے۔ تب ایک بیڑا لگا کر کھایا۔ اس کے عرق نے جیسے اس کی بیوگی کی کرخگیس کو ملائم کر دیا۔ دل کی مسرت عنایت و کرم کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اب بوٹی کیسے بیٹھی رہے۔ اس کا دل اتنا گہرا نہیں ہے۔ کہ یہ خوبی قسمت اس میں گم ہو جائے۔ گھر میں ایک پرانا آئینہ پڑا تھا۔ بوٹی نے اس میں اپنا منہ دیکھا ہونٹوں پر سرخی نہیں ہے۔ منہ لال کرنے کے لیے اس نے تھوڑا ہی پان کھایا ہے۔ سرخی ہوتی تووہ کلّی کر لیتی۔ گاؤں کی ایک عورت دھنیا نے آ کر کہا ’’کاکی جوا، رسّی دے دو۔ رسی ٹوٹ گئی ہے۔
کل بوٹی نے صاف کہہ دیا تھا میری رسی گاؤں کے لیے ہی نہیں میری رسی ٹوٹ گئی ہے تو بنوا کیوں نہیں لیتی۔ ’’لیکن آج اس نے اس کی رسی سے کام نہیں لیا۔ اس نے خندہ پیشانی سے رسی نکال کر دھنیا کو دے دی۔ اور ہمدردانہ انداز سے پوچھا۔ لڑکے کے دست بند ہو گئے یا نہیں دھنیا؟‘‘
دھنیا نے کہا ’’نہیں۔ آج تو دن بھر دست آئے، ہر وقت آ رہے ہیں۔‘‘
’’پانی بھر لے تو چل ذرا دیکھوں دانت ہی ہے کہ کوئی اور فساد ہے۔ کسی کی نجر وجر تو نہیں لگی؟‘‘
’’کیا جانوں کاکی کون جانے کسی کی آنکھیں پھوٹی ہوں۔‘‘
’’چونچال لڑکوں کو نجر کا بڑا ڈر رہتا ہے جس نے چمکا کر بلایا اسی کی گود میں چلا جاتا ہے۔‘‘
’’کاکی ایسا سہدوں کی طرح ہنستا تھا کہ تم سے کیا کہوں۔‘‘
’’کبھی کبھی ماں کی نجر لگ جاتی ہے بچّے کو۔‘‘
’’اے نوج، کاکی بھلا کوئی اپنے بچّے کو نجر لگائے گا؟‘‘
’’یہی تو تو سمجھتی نہیں۔ نجر کوئی لگاتا نہیں۔ آپ ہی آپ لگ جاتی ہے۔‘‘
دھنیا پانی لے کر آئی تو بوٹی اس کے ساتھ بچّے کو دیکھنے چلی۔
’’تو اکیلی ہے آج کل تو گھر کے کام دھندے میں بڑا پھجیتا ہو گا؟‘‘
’’نہیں کاکی روپا آ جاتی ہے اس سے بڑی مدد ملتی ہے نہیں تو میں اکیلی کیا کرتی؟‘‘
بوٹی کو تعجب ہوا۔ روپا کو اس نے محض تتلی سمجھ رکھا تھا۔ جس کا کام پھولوں پر بیٹھنا اور پھر اڑ جانا تھا۔ حیرت انگیز لہجہ میں بولی۔ ’’روپا‘‘
’’ہاں کاکی بے چاری بڑی بھلی ہے۔ جھاڑو لگا دیتی ہے چوکا برتن کر دیتی ہے لڑکے کو سنبھالتی ہے۔ گاڑھے سے کون کسی کی بات پوچھتا ہے کاکی؟‘‘
’’اسے تو اپنے مسی کاجل سے ہی چھٹی نہ ملتی ہو گی۔‘‘
’’یہ تو اپنی اپنی رُج ہے کاکی مجھے تو مسی کاجل والی نے جتنا سہارا دیا۔ اتنا کسی پوجا پاٹ کرنے والی نے نہ دیا۔ کل بے چاری رات بھر جاگتی رہی۔ میں نے اسے کچھ دے تو نہیں دیا۔ ہاں جب تک جیوؤں گی اس کا گن گاؤں گی۔‘‘
’’تو اس کے گن ابھی تک نہیں جانتی۔ دھنیا پان کے پیسے کہاں سے آتے ہیں۔ رنگین ساڑھیاں کون لاتا ہے کچھ سمجھتی ہے؟‘‘
’’میں تو ان باتوں میں نہیں پڑتی کاکی۔ پھر شوق سنگار کرنے کو کس کا جی نہیں چاہتا۔ کھاؤ پہننے کی یہی عمر ہے۔‘‘
دھنیا کا گھر آیا آنگن میں روپا بچّے کو گود میں لیے تھپکیاں دے رہی تھی۔ بچّہ سو گیا تھا۔ دھنیا نے بچّہ کو اس سے لے کر کھٹولے پر سلا دیا۔ بوٹی نے بچّے کے سرپر ہاتھ رکھا پیٹ میں آہستہ آہستہ انگلی گڑو کر دیکھا، ناف پر ہینگ کا لیپ کرنے کی تاکید کی۔ روپا پنکھا لا کر اسے جھلنے لگی۔
بوٹی نے کہا ’’لا پنکھا مجھے دے دے۔‘‘
’’میں جھلوں گی تو کیا چھوٹی ہو جاؤں گی؟‘‘
’’تو دن بھر یہاں کام دھندا کرتی رہتی ہے تھک گئی ہو گی؟‘‘
’’تم اتنی بھلی مانس ہو۔ اور یہاں لوگ کہتے ہیں بغیر گالی کے کسی سے بات نہیں کرتی۔‘‘
’’اس لیے تمھارے پاس آنے کی ہمّت نہ پڑتی تھی۔‘‘
بوٹی مسکرائی ’’لوگ جھوٹ تو نہیں کہتے۔‘‘
’’اپنی آنکھوں کی دیکھی مانوں یا کانوں کی سنی۔ آج بھی روپا آنکھوں میں کاجل لگائے پان کھائے رنگین ساڑھی پہنے ہوئے تھی۔ مگر آج بوٹی کو معلوم ہوا کہ پھول میں محض رنگ نہیں بو بھی ہے۔ اسے روپا سے جو ایک طرح کا للّٰہی بغض تھا۔ وہ آئینہ پر جمے ہوئے گرد کی طرح صاف ہو گیا تھا۔ کتنی نیک سیرت، کتنی سگھڑ، اور شرمیلی لڑکی ہے۔ آواز کتنی پیاری ہے آج کل کی لڑکیاں اپنے بچّوں کی تو پرواہ نہیں کرتیں۔ دوسروں کے لیے کون مرتا ہے ساری رات دھنیا کے بچّے کو لیے جاگتی رہی۔ موہن نے کل کی باتیں اس سے کہہ تو دی ہوں گی۔ دوسری لڑکی ہوتی تو مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیتی۔ اسے تو جیسے کچھ معلوم ہی نہیں۔ ممکن ہے موہن نے اس سے کچھ کہا ہی نہ ہو۔ ضرور یہی بات ہے۔
آج روپا اسے بہت حسین معلوم ہوئی۔ ٹھیک تو ہے ابھی شوق سنگارنہ کرے گی تو کب کرے گی۔ شوق سنگار اس لیے برا لگتا ہے کہ ایسے آدمی اپنے ہی عیش و آرام میں مست رہتے ہیں۔ کسی کے گھر میں آگ لگ جائے۔ ان سے مطلب نہیں۔ ان کا کام تو صرف دوسروں کو رجھانا ہے۔ جیسے اپنے روپ کو سجائے راہ چلتوں کو بلاتے ہوئے کہ ذرا اس دکان کی سیر بھی کرتے جائیے۔ ایسے نیک دل آدمیوں کا سنگار برا نہیں لگتا۔ بلکہ اور اچھا لگتا ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ لوگ اس کے رنگ روپ کی تعریف کریں۔ کون دوسروں کی نظر میں کھپ جانا نہیں چاہتا۔ بوٹی کا شباب کب کا رخصت ہو چکا تھا پھر بھی یہ تمنّا اس کے دل میں موجود تھی زمین پر پاؤں نہیں پڑتے۔ پھر روپا تو ابھی جوان ہے۔
روپا اب قریب قریب روز دو ایک بار بوٹی کے گھر آتی۔ بوٹی نے موہن سے تقاضا کر کے اس کے لیے اچھی ساڑھی منگوا دی۔ اگر روپا بغیر کاجل لگائے یا محض سفید ساڑھی میں آ جاتی تو بوٹی کہتی ’’بہو بیٹیوں کو یہ جو گیا بھیس اچھا نہیں لگتا۔ یہ بھیس تو ہم بوڑھیوں کے لیے ہے۔‘‘
روپا کہتی ’’تم بوڑھی کس طرح ہو گئیں امّاں مردوں کو اشارہ مل جائے تو بھوروں کی طرح منڈلانے لگیں۔ میرے دادا تو تمھارے دروازے پر دھرنا دینے لگیں۔‘‘
بوٹی لطف آمیز ملالت کے ساتھ کہتی۔ ’’چل میں تیری ماں کی سوت بن کر جاؤں گی۔‘‘
’’امّاں تو بوڑھی ہو گئیں۔‘‘
’’تو کیا تیرے دادا جوان بیٹھے ہیں؟‘‘
’’ہاں امّاں بڑی اچھی کاٹھی ہے ان کی۔‘‘
آج موہن بازار سے دودھ بیچ کر لوٹا تو بوٹی نے کہا ’’کچھ روپے پیسے کی فکر کر بھائی۔ میں روپا کی ماں سے روپا کے لیے تیری بات چیت پکّی کر رہی ہوں۔‘‘
٭٭٭