بڑھاپا اکثر بچپن کا دورِ ثانی ہوا کرتا ہے۔ بوڑھی کاکی میں ذائقہ کے سوا کوئی حس باقی نہ تھی اور نہ اپنی شکایتوں کی طرف مخاطب کرنے کا، رونے کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ آنکھیں ہاتھ، پیر سب جواب دے چکے تھے۔ زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف کرتے۔ کھانے کا وقت ٹل جاتا یا مقدار کافی نہ ہوتی یا بازار سے کوئی چیز آتی اور انھیں نہ ملتی تو رونے لگتی تھیں اور ان کا رونا محض بسورنانہ تھا۔ وہ بہ آواز بلند روتی تھیں۔ ان کے شوہر کو مرے ہوئے ایک زمانہ گذر گیا۔ سات بیٹے جوان ہو ہو کر داغ دے گئے اور اب ایک بھتیجے کے سوا دنیا میں ان کا اور کوئی نہ تھا۔ اسی بھتیجے کے نام انھوں نے ساری جائداد لکھ دی تھی۔ ان حضرات نے لکھاتے وقت تو خوب لمبے چوڑے وعدے کیے لیکن وہ وعدے صرف قلبی ڈپو کے دلالوں کے سبز باغ تھے۔ اگر چہ اس جائداد کی سالانہ آمدنی ڈیڑھ دو سو روپے سے کم نہ تھی لیکن بوڑھی کاکی کو اب پیٹ بھر روکھا دانہ بھی مشکل سے ملتا تھا۔ بدھ رام طبیعت کے نیک آدمی تھے لیکن اسی وقت تک کہ ان کی جیب پر کوئی آنچ نہ آئے۔ روپا طبیعت کی تیز تھی لیکن ایشور سے ڈرتی تھی، اس لیے بوڑھی کاکی پر اس کی تیزی اتنی نہ کھلتی تھی جتنی بدھ رام کی نیکی۔
بدھ رام کو کبھی کبھی اپنی بے انصافی کا احساس ہوتا۔ وہ سوچتے کہ اس جائداد کی بدولت میں اس وقت بھلا آدمی بنا بیٹھا ہوں اور اگر زبان تسکین یا تشفّی سے صورت حال میں کچھ اصلاح ہو سکتی تو انھیں مطلق دریغ نہ ہوتا لیکن مزید خرچ کا خوف ان کی نیکی کو دبائے رکھتا تھا۔ اس کے برعکس اگر دروازہ پر کوئی بھلا مانس بیٹھا ہوتا اور بوڑھی کاکی اپنا نغمہ بے ہنگام شروع کر دیتیں تو وہ آگ ہو جاتے تھے اور گھر میں آ کر انھیں زورسے ڈانٹتے تھے۔ لڑکے جنھیں بڈّھوں سے ایک بغض اللہ ہوتا ہے، والدین کا یہ رنگ دیکھ کر بوڑھی کاکی کو اور بھی دق کرتے۔ کوئی چٹکی لے کر بھاگتا، کوئی ان پر پانی کی کلّی کر دیتا۔ کاکی چیخ ما کر روتیں۔ لیکن یہ تو مشہور ہی تھا کہ وہ صرف کھانے کے لیے روتی ہیں۔ اس لیے کوئی ان کے نالہ و فریاد پر دھیان نہ دیتا تھا۔ وہاں اگر کاکی کبھی غصّہ میں آ کر لڑکوں کو گالیاں دینے لگتیں تو روپا موقع واردات پر ضرور جاتی۔ اس خوف سے کاکی اپنی شمشیر زبانی کا شاذ ہی کبھی استعمال کرتی تھیں۔ حالانکہ رفع شر کی یہ تدبیر رونے سے زیادہ کارگر تھی۔
سارے گھر میں اگر کسی کو کاکی سے محّبت تھی تو وہ بدھ رام کی چھوٹی لڑکی لاڈلی تھی۔ لاڈلی اپنے دونوں بھائیوں کے خوف سے اپنے حصّے کی مٹھائی یا چبینا بوڑھی کاکی کے پاس بیٹھ کر کھایا کرتی تھی یہی اس کا ملجا تھا اور اگر چہ کاکی کی پناہ ان کی معاندانہ سرگرمی کے باعث بہت گراں پڑتی تھی لیکن بھائیوں کے دست تطاول سے بدر جہا قابلِ ترجیح تھی۔ اس مناسب اغراض نے ان دونوں میں محبّت اور ہمدردی پیدا کر دی تھی۔
رات کا وقت تھا۔ بدھ رام کے دروازے پر شہنائی بج رہی تھی اور گاؤں کے بچّوں کا جم غفیر نگاہ حیرت سے گانے کی داد دے رہا تھا۔ چارپائیوں پر مہمان لیٹے ہوئے نائیوں سے ٹکیاں لگوا رہے تھے قریب ہی ایک بھاٹ کھڑا کبت سنا رہا تھا اور بعض سخن فہم مہمان کی واہ واہ سے ایسا خوش ہوتا تھا گویا وہی اس داد کا مستحق ہے۔ دو ایک انگریزی پڑھے ہوئے نوجوان ان بیہودگیوں سے بیزار تھے۔ وہ اس دہقانی مجلس میں بولنا یا شریک ہونا اپنی شان کے خلاف سمجھتے۔ آج بدھ رام کے بڑے لڑکے سکھ رام کا تلک آیا ہے۔ یہ اسی کا جشن ہے گھر میں مستورات گا رہی تھیں اور روپا مہمانوں کی دعوت کا سامان کرنے میں مصروف تھی بھٹیوں پر کڑاہ چڑھے ہوئے تھے۔ ایک میں پوریاں کچوریاں نکل رہی تھیں دوسرے میں سموسے اور پیڑا کین بنتی تھیں۔ ایک بڑے ہنڈے میں مصالحے دار ترکاری پک رہی تھی۔ گھی اور مصالحے کی اشتہار انگیز خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔
بوڑھی کاکی اپنی اندھیری کوٹھری میں خیال غم کی طرح بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ لذّت آمیز خوشبو انھیں بے تاب کر رہی تھی۔ وہ دل میں سوچتی تھیں۔ شاید مجھے پوریاں نہ ملیں گی۔ اتنی دیر ہو گئی کوئی کھانا لے کر نہیں آیا معلوم ہوتا ہے لوگ سب کھا گئے ہیں۔ میرے لیے کچھ نہ بچا۔ یہ سوچ کر انھیں بے اختیار رونا آیا۔ لیکن شگون کے خوف سے رو نہ سکیں۔
آہا۔ کیسی خوشبو ہے۔ اب مجھے کون پوچھتا ہے۔ جب روٹیوں ہی کے لالے ہیں تو ایسے نصیب کہاں کہ پوریاں پیٹ بھر ملیں۔ یہ سوچ کر انھیں پھر بے اختیار رونا آیا کلیجہ میں ایک ہوک سی اٹھنے لگی لیکن روپا کے خوف سے انھوں نے پھر ضبط کیا۔
بوڑھی کاکی دیر تک انہی افسوس ناک خیالوں میں ڈوبی رہیں۔ گھی اور مصالحے کی خوشبو رہ رہ کر دل کو آپے سے باہر کیے دیتی تھی۔ منہ میں پانی بھر بھر آتا تھا۔ پوریوں کا ذائقہ یاد کر کے دل میں گدگدی ہونے لگتی تھی۔ ’’کسے پکاروں۔ آج لاڈلی بھی نہیں آئی دونوں لونڈے روز دق کیا کرتے ہیں۔ آج ان کا بھی کہیں پتہ نہیں۔ کچھ معلوم ہوتا کہ کیا بن رہا ہے۔‘‘
بوڑھی کاکی کی چشم خیال میں پوریوں کی تصویر ناچنے لگی۔ خوب لال لال پھولی پھولی نرم نرم ہوں گی۔ ایک پوری ملتی تو ذرا ہاتھ میں لے کر دیکھتی کیوں نہ چل کر کڑاہ کے سامنے ہی بیٹھوں۔
پوریاں چھَن چھَن کر کے کڑاہ میں تیرتی ہوں گی۔ کڑاہ سے گرما گرم نکل کر کٹھوتے میں رکھی جاتی ہوں گی۔ پھول ہم گھر میں بھی سونگھ سکتے ہیں لیکن سیر باغ کا کچھ اور ہی لطف ہے۔
اس طرح فیصلہ کر کے بوڑھی کا کی اکڑوں بیٹھ کر ہاتھوں کے بل کھسکتی ہوئی بمشکل تمام چوکھٹ سے اتریں اور دھیرے دھیرے رینگتی ہوئی کڑھاؤ کے پاس جا بیٹھی۔ روپا اس وقت ایک سراسیمگی کی حالت میں کبھی اس کمرے میں جاتی۔ کبھی اس کمرے میں۔ کبھی کڑاہ کے پاس، کبھی کوٹھے پر۔ کسی نے باہر سے آ کر کہا ’’مہراج ٹھنڈائی مانگ رہے ہیں۔‘‘ ٹھنڈائی دینے لگی۔
اتنے میں پھر کسی نے آ کر کہا۔ ’’بھاٹ آیا ہے۔ اسے کچھ دے دو۔‘‘ بھاٹ کے لیے سِدھا نکال رہی تھی کہ ایک تیسرے آدمی نے آ کر پوچھا کہ ابھی کھانا تیار ہونے میں کتنی دیر ہے؟ ذرا ڈھول مجیرا اتار دو۔ بیچاری اکیلی عورت چاروں طرف دوڑتے دوڑتے حیران ہو رہی تھی۔ جھنجھلاتی تھی۔ کڑھتی تھی۔ پر غصّہ باہر نکلنے کا موقع نہ پایا تھا۔ خوف ہوتا تھا۔ کہیں پڑوسنیں یہ نہ کہنے لگیں کہ اتنے ہی میں ابل پڑیں۔ پیاس سے خود اس کا حلق سوکھا جاتا تھا۔ گرمی کے مارے پھنکی جاتی تھی لیکن اتنی فرصت کہاں کہ ذرا پانی پی لے یا پنکھا لے کر جھلے۔ یہ بھی اندیشہ تھا کہ ذرا نگاہ پلٹی اور چیزوں کی لوٹ مچی۔ اس کشمکش کے عالم میں، اس نے بوڑھی کاکی کو کڑاہ کے پاس بیٹھے دیکھا تو جل گئی۔ غصّہ نہ رک سکا یہ خیال نہ رہا کہ پڑوسنیں بیٹھی ہوئی ہیں۔ دل میں کیا کہیں گی۔ مردانے میں لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے جیسے مینڈک کچھوے پر جھپٹتا ہے اسی طرح وہ بوڑھی کاکی پر جھپٹی اور انھیں دونوں ہاتھوں سے جھنجھوڑ کر بولی۔ ’’ایسے پیٹ میں آگ لگے۔ پیٹ ہے کہ آگ کا کنڈ ہے۔ کوٹھری میں بیٹھتے کیا دم گھٹتا تھا۔ ابھی مہمانوں نے نہیں کھایا۔ دیوتاؤں کا بھوگ تک نہیں لگا۔ تب تک صبر نہ ہو سکا۔ آ کر چھاتی پر سوار ہو گئی۔ نوج ایسی جیبھ دن بھر کھاتی نہ رہتیں تو نہ جانے کس کی ہانڈی میں منہ ڈالتیں۔ گاؤں دیکھے گا تو کہے گا کہ بڑھیا بھر پیٹ کھانے کو نہیں پاتی۔ تب ہی تو اس طرح بوکھلائے پھرتی ہے۔ اس خیال سے اس کا غصّہ اور بھی تیز ہو گیا۔ ڈائین مرے نہ مانجھا چھوڑے۔ نام بیچنے پر لگی ہے۔ ناک کٹوا کے دم لے گی۔ اتنا ٹھونستی ہے۔ جانے کہاں بھسم ہو جاتا ہے۔ لے بھلا چاہتی ہو تو جا کر کوٹھری میں بیٹھو۔ جب گھر کے لوگ لگیں تو تمھیں بھی ملے گا۔ تم کوئی دیوی نہیں ہو کہ چاہے کسی کے منہ میں پانی تک نہ جائے لیکن پہلے تمھاری پوجا کر دے۔
بوڑھی کاکی نے سر نہ اٹھایا۔ نہ روئیں نہ بولیں چپ چاپ رینگتی ہوئی وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ صدمہ ایسا سخت تھا کہ دل و دماغ کی ساری قوتیں سارے جذبات ساری حسیات اس طرف رجوع ہو گئی تھیں۔ جیسے ندی میں جب کراڑ کا کوئی بڑا ٹکڑا کٹ کر گرتا ہے تو آس پاس کا پانی چاروں طرف سے سمٹ کر اس خلا کو پورا کرنے کے لیے دوڑتا ہے۔
کھانا تیار ہو گیا۔ آنگن میں پتل پڑ گئے۔ مہمان کھانے لگے۔ عورتوں نے جیونار گانا شروع کیا۔ مہمانوں کے نائی اور خدمت گار بھی اس جماعت کے ساتھ پر ذرا ہٹ کر کھانے بیٹھے ہوئے تھے لیکن آداب مجلس کے مطابق جب تک سب کے سب کھا نہ چکیں کوئی اٹھ نہ سکتا تھا۔ دو ایک مہمان جو ذرا تعلیم یافتہ تھے خدمت گاروں کی پر خوری پر جھنجھلا رہے تھے۔ وہ اس قید کو بے معنی و مہمل سمجھتے تھے۔
بوڑھی کاکی اپنی کوٹھری میں جا کر پچھتا رہی تھیں کہ کہاں سے کہاں گئی۔ انھیں روپا پر غصّہ نہیں تھا۔ اپنی عجلت پر افسوس تھا۔ سچ تو ہے جب تک مہمان کھا نہ چکیں گے۔ گھر والے کیسے کھائیں گے مجھ سے اتنی دیر بھی نہ رہا گیا۔ سب کے سامنے پانی اتر گیا۔ اب جب تک کہ کوئی نہ بلانے آئے گا نا جاؤں گی۔
دل میں یہ فیصلہ کر کے وہ خاموشی سے بلاوے کا انتظار کرنے لگیں لیکن گھی کی مرغوب خوشبو بہت صبر آزما ثابت ہو رہی تھی۔ انھیں ایک ایک لمحہ ایک ایک گھنٹہ معلوم ہوتا تھا اب پتل بچھ گئے ہوں گے۔ اب مہمان آ گئے ہوں گے۔ لوگ ہاتھ پیر دھو رہے ہیں نائی پانی دے رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے لوگ کھانے پر بیٹھ گئے۔ جیونار گایا جا رہا ہے۔ یہ سوچ کر بہانے کے لیے لیٹ گئیں اور دھیرے دھیرے گنگنانے لگیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ مجھے گاتے بہت دیر ہو گئی۔ کیا اتنی دیر تک لوگ کھا ہی رہے ہوں گے۔ کسی کی بول چال سنائی نہیں دیتی۔ ضرور لوگ کھا پی کے چلے گئے مجھے کوئی بلانے نہیں آیا۔ روپا چڑ گئی ہے کیا جانے کہ نہ بلائے۔ سوچتی ہو کہ آپ ہی آئیں گی۔ کوئی مہمان نہیں کہ بلا کر لاؤں۔
بوڑھی کاکی چلنے کے لیے تیار ہوئیں۔ یہ یقین کہ اب ایک لمحہ میں پوریاں اور مصالحے دار ترکاریاں سامنے آئیں گی اور ان کے حسن ذائقہ کو گدگدانے لگا۔ انھوں نے دل میں طرح طرح کے منصوبے باندھے۔ ’’پہلے ترکاری سے پوریاں کھاؤں گی پھر دہی اور شکر سے۔ کچوریاں رائتے کے ساتھ مزے دار معلوم ہوں گی۔ چاہے کوئی برا مانے یا بھلا میں تو مانگ مانگ کر کھاؤں گی۔ یہی نہ لوگ کہیں گے انھیں لحاظ نہیں ہے کیا کریں۔ اتنے دنوں کے بعد پوریاں مل رہی ہیں۔ تو منہ جھوٹا کر کے تھوڑے ہی اٹھ آؤں گی۔‘‘
وہ اکڑوں بیٹھ کر ہاتھوں کے بل کھسکتی ہوئی آنگن میں آئیں۔ مگر وائے قسمت اشتیاق نے اپنی پرانی عادت کے مطابق وقت کا غلط اندازہ کیا تھا مہمانوں کی جماعت ابھی بیٹھی ہوئی تھی۔ کوئی کھا کر انگلیاں چاٹتا تھا اور کنکھیوں سے دیکھتا تھا کہ اور لوگ بھی کھا رہے یا نہیں۔ کوئی اس فکر میں تھا کہ تیل پر پوریاں چھوٹی جاتی ہیں۔ کاش کسی طرح انھیں اندر رکھ لیتا۔ کوئی دہی کھا کر زبان چٹخارتا تھا لیکن دوسرا شکورا مانگتے ہوئے شرماتا تھا۔ کہ اتنے میں بوڑھی کاکی رینگتی ہوئی ان کے بیچ میں جا پہنچیں۔ کئی آدمی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے آوازیں آئیں۔ ’’ارے یہ کون بڑھیا ہے؟ دیکھو کسی کو چھو مت لے۔‘‘
پنڈت بدھ رام، کاکی کو دیکھتے ہی غصّہ سے تلملا گئے۔ پوریوں کے تھال لیے کھڑے تھے تھال کو زمین پر پٹک دیا اور جس طرح بے رحم ساہوکار اپنے کسی نا دہند مغرور اسامی کو دیکھتے ہی جھپٹ کر اس کا ٹیٹوا لیتا ہے اسی طرح لپک کر انھوں نے بوڑھی کاکی کے دونوں شانے پکڑے اور گھسیٹتے ہوئے لا کر انھیں اس اندھیری کوٹھری میں دھم سے گرا دیا۔ آرزوؤں کا سبز باغ لو کے ایک جھونکے میں ویران ہو گیا۔
مہمانوں نے کھانا کھایا۔ گھر والوں نے کھایا۔ باجے والے دھوبی چمار بھی کھا چکے لیکن بوڑھی کاکی کو کسی نے نہ پوچھا۔ بدھ رام اور روپا دونوں ہی انھیں ان کی بے حیائی کی سزا دینے کا تصفیہ کر چکے تھے۔ ان کے بڑھاپے پر، بے کسی پر، فتور عقل پر کسی کو ترس نہیں آتا تھا۔ اکیلی لاڈلی ان لے لیے کڑھ رہی تھی۔
لاڈلی کو کاکی سے بہت انس تھا۔ بے چاری بھولی، سیدھی لڑکی تھی۔ طفلانہ شوخی اور شرارت کی اس میں بُو تک نہ تھی۔ دونوں بار جب اس کی ماں اور باپ نے کاکی کو بے رحمی سے گھسیٹا تو لاڈلی کا کلیجہ بیٹھ کر رہ گیا۔ وہ جھنجھلا رہی تھی کہ یہ لوگ کاکی کو کیوں بہت سی پوریاں نہیں دے دیتے۔ کیا مہمان سب کی سب تھوڑے ہی کھا جائیں گے اور اگر کاکی نے مہمانوں سے پہلے ہی کھا لیا تو کیا بگڑ جائے گا؟ وہ کاکی کے پاس جا کر انھیں تسلّی دینا چاہتی تھی۔ لیکن ماں کے خوف سے نہ جاتی تھی۔ اس نے اپنے حصّے کی پوریاں مطلق نہ کھائی تھیں۔ اپنی گڑیوں کی پٹاری میں بند کر رکھی تھیں۔ وہ یہ پوریاں کاکی کے پاس لے جانا چاہتی تھیں۔ اس کا دل بے قرار ہو رہا تھا۔ بوڑھی کاکی میری آواز سنتے ہی اٹھ بیٹھیں گی۔ پوریاں دیکھ کر کیسی خوش ہوں گی۔ مجھے خوب پیار کریں گی۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ روپا آنگن میں پڑی سو رہی تھی۔ لاڈلی کی آنکھوں میں نیند نہ آتی تھی۔ کاکی کو پوریاں کھلانے کی خوشی اسے سونے نہ دیتی تھی۔ اس نے گڑیوں کی پٹاری سامنے ہی رکھی۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ امّاں غافل سو رہی ہیں تو وہ چپکے سے اٹھی اور سوچنے لگی کہ کیسے چلوں۔ چاروں طرف اندھیرا تھا۔ صرف چولھوں میں آگ چمک رہی تھی اور چولھوں کے پاس ایک کتّا لیٹا ہوا تھا۔ لاڈلی کی نگاہ دروازہ والے نیم کے درخت کی طرف گئی۔ اسے معلوم ہوا کہ اس پر ہنومان جی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی دم ان کی گدل سب صاف نظر آتی تھی۔ مارے خوف کے اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اتنے میں کتّا اٹھ بیٹھا لاڈلی کو ڈھارس ہوئی۔ کئی سوتے ہوئے آدمیوں کی بہ نسبت ایک جاگتا ہوا کتّا اس کے لیے زیادہ تقویت کا باعث ہوا۔ اس نے پٹاری اٹھائی اور بوڑھی کاکی کی کوٹھری کی طرف چلی۔
بوڑھی کاکی کو محض اتنا یاد تھا کہ کسی نے میرے شانے پکڑے، پھر انھیں ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی پہاڑ پر اڑائے لیے جاتا ہے۔ ان کے پیر بار بار پتھروں سے ٹکرائے۔ تب کسی نے انھیں پہاڑ پر سے پٹک دیا۔ وہ بے ہوش ہو گئیں۔
جب ان کے ہوش بجا ہوئے تو کسی کی ذرا بھی آہٹ نہ ملتی تھی۔ سمجھ گئیں کہ سب لوگ کھا پی کر سو گئے۔ اور ان کے ساتھ میری تقدیر بھی سو گئی۔ رات کیسے کٹے گی۔ رام کیا کھاؤں۔؟ پیٹ میں آگ جل رہی ہے۔ یا کسی نے میری سدھ نہ لی۔ کیا میرا پیٹ کاٹنے سے دھن ہو جائے گا؟ ان لوگوں کو اتنی دیا بھی نہیں آتی کہ بڑھیا نہ جانے کب مر جائے۔ اس کار ویاں کیوں دکھائیں۔ میں پیٹ کی روٹیاں ہی کھاتی ہوں کہ اور کچھ۔ اس پر یہ حال میں اندھی اپاہج ٹھہری۔ نہ کچھ سوجھے نہ بوجھے۔ اگر آنگن میں چلی گئی تو کیا بدھ رام سے اتنا کہتے نہ بنتا تھا کہ کاکی ابھی لوگ کھا رہے ہیں پھر آنا، مجھے گھسیٹا پٹکا۔ انھیں پوریوں کے لیے روپا نے سب کے سامنے گالیاں دیں۔ انہی پوریوں کے لیے اور اتنی درگت کر کے بھی ان کا پتھر کا کلیجہ نہ پسیجا۔ سب کو کھلایا میری بات نہ پوچھی۔ جب تب ہی نہ دیا تو اب کیا دے گی۔ یہ سوچ کر مایوسانہ صبر کے ساتھ لیٹ گئیں۔ رقت سے گلا بھر بھر آتا تھا۔ لیکن مہمانوں کے سامنے لحاظ سے روتی نہ تھی۔
یکایک ان کے کان میں آواز آئی۔ ’’کاکی اٹھو میں پوری لائی ہوں۔‘‘
کاکی نے لاڈلی کی آواز پہچانی۔ چٹ پٹ اٹھ بیٹھیں۔ دونوں ہاتھوں سے لاڈلی کو ٹٹولا اور اسے گود میں بٹھا لیا۔ لاڈلی نے پوریاں نکال کر دیں۔ کاکی نے پوچھا۔
’’کیا تمھاری اماں نے دی ہیں۔‘‘
لاڈلی نے فخر سے کہا۔ ’’نہیں یہ میرے حصّے کی ہیں۔‘‘
کاکی پوریوں پر ٹوٹ پڑیں۔ پانچ منٹ میں پٹاری خالی ہو گئی۔ لاڈلی نے پوچھا کاکی پیٹ بھر گیا۔؟
جیسے تھوڑی سی بارش ٹھنڈک کی جگہ اور بھی حبس پیدا کر دیتی ہے۔ اسی طرح ان چند پوریوں نے کاکی کی اشتہا اور رغبت کو اور بھی تیز کر دیا تھا۔ بولیں ’’نہیں بیٹی جا کے اماں سے اور مانگ لاؤ۔‘‘
لاڈلی۔ ’’اماں سوتی ہیں جگاؤں گی تو اماں ماریں گی۔‘‘
کاکی نے پٹاری کو پھر ٹٹولا۔ اس میں چند ریزے گرے تھے۔ انھیں نکال کر کھا گئیں۔ بار بار ہونٹ چاٹتی تھیں۔ چٹخارے بھرتی تھیں۔ دل مسوس رہا تھا کہ اور پوریاں کیسے پاؤں۔؟ صبر کا باندھ جب ٹوٹ جاتا ہے تو خواہش کا بہاؤ قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ مستوں کو سرور کی یاد دلانا انھیں دیوانہ بناتا ہے۔ کاکی کا بیتاب دل خواہش کے اس بہاؤ میں بہ گیا۔ حلال حرام کی تمیز نہ رہی۔ وہ کچھ دیر تک اس خواہش کو روکتی ہیں۔ یکایک لاڈلی سے بولیں۔ میرا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے چلو جہاں مہمانوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔‘‘
لاڈلی ان کا منشا نہ سمجھ سکی۔ اس نے کاکی کا ہاتھ پکڑا اور انھیں لا کر جھوٹے پتلن کے پاس بٹھا دیا اور غریب بھوک کی ماری فاتر العقل بڑھیا پتلن سے پوریوں کے ٹکڑے چن چن کر کھانے لگی۔ وہی کتنا لذیذ تھا۔ سالن کتنا مزہ دار، کچوریاں کتنی سلونی سموسے کتنے خستہ اور نرم۔؟
کاکی فتور عقل کے باوجود جانتی تھی کہ میں وہ کر رہی ہوں جو مجھے نہ کرنا چاہیے۔ میں دوسروں کے جھوٹے پتّل چاٹ رہی ہوں، لیکن بڑھاپے کی حرص مرض کا آخری دور ہے۔ جب سارے حواس ایک ہی مرکز پر آ کر جمع ہو جات ہیں۔ بوڑھی کاکی میں یہ مرکز ان کا حسنِ ذائقہ تھا۔
عین اسی وقت روپا کی آنکھ کھلی۔ اسے معلوم ہوا کہ لاڈلی میرے پاس نہیں ہے۔ چونکی چارپائی کے اِدھر ادھر تاکنے لگی کہ کہیں لڑکی نیچے تو نہیں گر پڑی۔ اسے وہاں نہ پا کر وہ اٹھ بیٹھی۔ تو کیا دیکھتی ہے کہ لاڈلی چھوٹے پتلن کے پاس چپ چاپ کھڑی ہے اور بوڑھی کاکی پتلن پرسے پوریوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر کھا رہی ہیں۔ روپا کا کلیجہ سن سے ہو گیا۔ کسی گائے کے گردن پر چھری چلتے دیکھ کر اس کے دل کی جو حالت ہوتی وہی اس وقت ہوئی۔ ایک برہمنی دوسروں کا جھوٹا پتل ٹٹولے اس سے عبرتناک نظارہ نا ممکن تھا۔ پوریوں کے چند لقموں کے لیے اس کی چچیری ساس ایسا رکیک اور حقیر فعل کر رہی ہے۔ یہ وہ نظارہ تھا جس سے دیکھنے والوں کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین رک گئی ہے۔ آسمان چکر کھا رہا ہے۔ دنیا پر کوئی آفت آنے والی ہے۔ روپا کو غصّہ نہ آیا۔ عبرت کے سامنے غصّہ کا ذکر کیا؟ درد اور خوف سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس دھرم اور پاپ کا الزام کس پر ہے؟ اس نے صدق دل سے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’پر ماتما بچّوں پر رحم کرنا۔ اس ادھرم کی سزا مجھے مت دینا ہمارا ستیاناس ہو جائے گا۔‘‘
روپا کو اپنی خود غرضی اور بے انصافی آج تک کبھی اتنی صفائی سے نظر نہ آئی تھی۔ ہائے میں کنتی بے رحم ہوں۔ جس کی جائداد سے مجھے دو سو روپے سال کی آمدنی ہو رہی ہے اس کی یہ درگت اور میرے کارن۔ اے ایشور مجھ سے بڑا بھاری گناہ ہوا ہے مجھے معاف کرو۔ آج میرے بیٹے کا تلک تھا۔ سیکڑوں آدمیوں نے کھانا کھایا میں ان کے اشارے کی غلام بنی ہوئی تھی۔ اپنے نام کے لیے۔ اپنی بڑائی کے لیے سیکڑوں روپے خرچ کر دیے۔ لیکن جس کی بدولت ہزاروں روپے کھائے اسے اس تقریب کے دن بھی پیٹ بھر کر کھانا نہ دے سکی۔ محض اس لیے نہ کہ وہ بڑھیا ہے۔ بے کس ہے۔ بے زبان ہے۔
اس نے چراغ جلایا۔ اپنے بھنڈارے کا دروازہ کھولا اور ایک تھالی میں کھانے کی سب چیزیں سجا کر لیے ہوئے بوڑھی کاکی کی طرف چلی۔
آدھی رات ہو چکی تھی۔ آسمان پر تاروں کے تھال سجے ہوئے تھے اور ان پر بیٹھے ہوئے فرشتے بہشتی نعمتیں سجا رہے تھے۔ لیکن ان میں کسی کو وہ مسرت نہ حاصل ہو سکتی تھی جو بوڑھی کاکی کو اپنے سامنے تھال دیکھ کر ہوئی۔ روپا نے رقت آمیز لہجہ میں کہا: ۔
’’کاکی اٹھو کھانا کھالو۔ مجھ سے آج بڑی بھول ہوئی۔ اس کا برا نہ ماننا پرماتما سے دعا کرو کہ وہ میری خطا معاف کر دے۔‘‘
بھولے بھالے بچّے کی طرح جو مٹھائیاں پا کر مار اور گھڑکیاں سب بھول جاتا ہے۔ بوڑھی کاکی بیٹھی ہوئی کھانا کھا رہی تھیں ان کے ایک ایک روئیں سے سچّی دعائیں نکل رہی تھیں اور روپا بیٹھی یہ روحانی نظارہ دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...