نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے امیر و غریب سب رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کی پینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رندی و مستی کا زور تھا۔ امور سیاست میں، شعر و سخن میں، طرز معاشرت میں، صنعت و حرفت میں، تجارت و تبادلہ میں سبھی جگہ نفس پرستی کی دہائی تھی۔ اراکین سلطنت مے خوری کے غلام ہو رہے تھے۔ شعرا بوسہ و کنار میں مست، اہل حرفہ کلابتوں اور چکن بنانے میں، اہل سیف تیتر بازی میں، اہل روزگار سرمہ و مسی، عطر و تیل کی خرید و فروخت کا دلدادہ غرض سارا ملک نفس پروری کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ سب کی آنکھوں میں ساغر و جام کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ علم و حکمت کے کن کن ایجادوں میں مصروف ہے۔ بحر و بر پر مغربی اقوام کس طرح حاوی ہوتی جاتی ہیں۔ اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ بٹیر لڑ رہے ہیں تیتروں میں پالیاں ہو رہی تھیں کہیں چوسرہو رہی ہے۔ پو بارہ کا شور مچا ہوا ہے کہیں شطرنج کے معرکے چھڑے ہوئے ہیں۔ فوجیں زیر و زبر ہو رہی ہیں۔ نواب کا حال اس سے بد تر تھا وہاں گتوں اور تالوں کی ایجاد ہوتی تھی۔ خط نفس کے لیے نئے لٹکے، نئے نئے نسخے سوچے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فقرا خیرات کے پیسے پاتے تو روٹیاں خریدنے کی بجائے مدک اور چنڈو کے مزے لیتے تھے۔ رئیس زادے حاضر جوابی اور بدلہ سنجی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ارباب نشاط سے قلم بند کرتے تھے۔ فکر کو جولاں، عقل کو رسا اور ذہن کو تیز کرنے کے لیے شطرنج کیمیا سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی اس قوم کے لوگ کہیں کہیں موجود ہیں۔ جو اس دلیل کو بڑے شد و مد سے پیش کرتے ہیں۔ اس لیے اگر مرزا سجّاد علی اور میر روشن اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ عقل کو تیز کرنے میں صرف کیا کرتے تھے۔ تو کسی ذی فہم کو اعتراض کرنے کا موقع نہ تھا۔ ہاں جہلا انھیں جو چاہیں سمجھیں۔ دونوں صاحبوں کے پاس موروثی جاگیر یں تھیں۔ فکر معاش سے آزاد تھے۔ آخر اور کرتے ہی کیا۔ طلوع سحر ہوتے ہی دونوں صاحب ناشتہ کر کے بساط پر بیٹھ جاتے۔ مہرے بچھا لیتے اور عقل کو تیز کرنا شروع کر دیتے تھے پھر انھیں خبر نہ ہوتی تھی۔ کہ کب دوپہر ہوا۔ کب سہ پہر۔ کب شام۔ گھر سے بار بار آدمی آ کر کہتا تھاکھانا تیار ہے یہاں سے جواب ملتا تھاچلو آتے ہیں۔ دسترخوان بچھاؤ۔ مگر شطرنج کے سامنے قورمے اور پلاؤ کے مزے بھی پھیکے تھے۔ یہاں تک کہ باور چی مجبور ہو کر کھانا کمرے میں ہی رکھ جاتا تھا اور دونوں دوست دونوں کام ساتھ ساتھ کر کے اپنی باریک نظری کا ثبوت دیتے تھے۔ کبھی کبھی کھانا رکھا ہی رہ جاتا۔ اس کی یاد ہی نہ آتی تھی۔ مرزاسجّاد علی کے مکان میں کوئی بڑا بوڑھا نہ تھا اس لیے انہی کے دیوان خانے میں معرکہ آرائیاں ہوتی تھیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مزرا کے گھر کے اورلوگ اس مشغلہ سے خوش تھے۔ ہر گز نہیں۔ محلّہ کے گھر کے نوکر چاکروں میں، مہریوں ماماؤں میں بڑی حاسدانہ حرف گیریاں ہوتی رہتیں تھیں۔ بڑا منحوس کھیل ہے گھر کو تباہ کر کے چھوڑتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کسی کو اس کی چاٹ پڑے۔ آدمی نہ دین کے کام کار ہتا ہے۔ نہ دنیا کے کام کا۔ بس اسے دھوبی کا کتّا سمجھو، گھر کا نہ گھاٹ کا۔ بُرا مرض ہے۔ ستم یہ تھا کہ بیگم صاحبہ بھی آئے دن اس مشغلہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی رہتی تھیں۔ حالانکہ انھیں اس کے موقع مشکل سے ملتے۔ وہ سوتی ہی رہتی تھیں کہ ادھر بازی جم جاتی تھی۔ رات کو سوجاتی تھیں۔ تب کہیں مرزا جی گھر میں آتے تھے۔ ہاں جولا ہے کا غصّہ داڑھی پر اتارا کرتی تھیں۔ نوکروں کو جھڑکیاں دیا کرتیں۔ کیا میاں نے پان مانگے ہیں۔ کہہ دو آ کر لے جائیں۔ کیا پاؤں میں مہندی لگی ہوئی ہے۔ کیا کہا ابھی کھانے کی فرصت نہیں ہے؟ کھانے لے جا کر سر پر پٹک دو۔ کھائیں یا کتّوں کو کھلائیں یہاں ان کے انتظار میں کون بیٹھا رہے گا۔ مگر لطف یہ تھا کہ انھیں اپنے میاں سے اتنی شکایت نہ تھی جتنی میر صاحب سے وہ میر صاحب کو نکھٹو، بگاڑو، ٹکڑے خور وغیرہ ناموں سے یاد کیا کرتی تھیں۔ شاید مرزا جی بھی اپنی بریت کے اظہار میں سارا الزام میر صاحب ہی کے سر ڈال دیتے تھے۔
ایک دن بیگم صاحبہ کے سر میں درد ہونے لگا۔ تو ماما سے کہا۔ جا کر مرزا جی کا بلا لا۔
کسی حکیم کے یہاں سے دوالا دیں۔ دوڑ جلدی کر سر پھٹا جاتا ہے۔ ماما گئی تو مرزا جی نے کہا چل ابھی آتے ہیں۔ بیگم صاحبہ کو اتنی تاب کہاں کہ ان کے سر میں درد ہوا ور میاں شطرنج کھیلنے میں مصروف ہوں۔ چہرہ سرخ ہو گیا اور ماما سے کہا جا کر کہہ ابھی چلیے ورنہ وہ خود حکیم صاحب کے پاس چلی جائیں گی۔ کچھ ان کے آنکھوں دیکھا راستہ نہیں ہے۔ مرزا جی بڑی دلچسپ بازی کھیل رہے تھے۔ دوہی کشتیوں میں میر صاحب کی مات ہوئی جاتی تھی۔ بولے کیا ایسا دم لبوں پر ہے۔ ذرا صبر نہیں آتا۔ حکیم صاحب چھو منتر کر دیں گے کہ ان کے آتے ہی آتے دردِسر رفع ہو جائے گا۔
میر صاحب نے فرمایا۔ ’’ارے جا کر سن ہی آئیے نہ۔ عورتیں نازک مزاج ہوتی ہی ہیں۔‘‘
مرزا۔جی ہاں کیوں نہ چلا جاؤں۔ دو کشتیوں میں میر صاحب کی مات ہوئی جاتی ہے۔
میر صاحب۔ جی اس بھروسے نہ رہیے گا۔ وہ چال سوچی ہے کہ آپ کے مہرے دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ اور مات ہو جائے۔ پر جائیے سن آئیے کیوں خواہ مخواہ ذرا سی بات کے لیے ان کا دل دکھائیے گا۔
مرزا جی۔ جی چاہتا ہے اسی بات پر مات کر دوں۔
میر صاحب۔ میں کھیلوں گا ہی نہیں۔ آپ پہلے جا کر سن آئیں۔
مرزا جی۔ ارے یار جانا پڑے گا حکیم کے یہاں۔ درد ورد خاک نہیں ہے۔ مجھے دق کرنے کا حیلہ ہے۔
میر صاحب۔ کچھ بھی ہو ان کی خاطر کرنی ہی پڑے گی۔
مرزا جی۔ اچھا ایک چال اور چل لوں۔
میر صاحب۔ ہر گز نہیں۔ جب تک آپ سن نہ آئیں گے مہروں کا ہاتھ نہ لگاؤں گا۔
مرزا صاحب مجبور ہو کر اندر گئے تو بیگم صاحبہ نے کراہتے ہوئے کہا۔ تمھیں نگوڑا شطرنج اتنا پیارا ہے کہ چاہے کوئی مر بھی جائے پر اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔ شطرنج ہے کہ میری سوتن ہے۔ نوج کوئی تم جیسا نرموہیا ہو۔
مرزا۔ کیا کروں۔ میر صاحب مانتے ہی نہ تھے۔ بڑی مشکلوں سے گلا چھڑا کر آیا ہوں۔
بیگم۔ کیا جیسا خود نکھٹو ہیں ویسے ہی دوسروں کو سمجھتے ہیں۔ ان کے بھی تو بال بچے ہیں کہ سب کا صفایا کر دیا۔
مرزا۔ بڑا لتّی آدمی ہے۔ جب آ کر سر پر سوار ہو جاتا ہے تو مجبور ہو کر مجھے بھی کھیلنا ہی پڑتا ہے۔
بیگم۔ دھتکار کیوں نہیں دیتے کتّے کی طرح۔
مرزا۔ سبحان اللہ برابر کے آدمی ہیں۔ عمر میں، رتبہ میں مجھ سے دو انگل اونچے ملاحظہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
بیگم۔ تومیں ہی دھتکارے دیتی ہوں۔ ناراض ہو جائیں گے۔ کون میری روٹیاں چلاتے ہیں۔ رانی روٹھیں گی اپنا سہاگ لیں گی (ماما سے) عباسی شطرنج اٹھا لا۔ میر صاحب سے کہہ دینا۔ میاں اب نہ کھیلیں گے۔ آپ تشریف لے جائیں۔ اب پھر منہ نہ دکھائیے گا۔
مرزا۔ ہائیں ہائیں کہیں ایسا غضب نہ کرنا۔ کیا ذلیل کراؤ گی۔ ٹھہر عبّاسی۔ کمبخت کہاں دوڑی جاتی ہے۔
بیگم۔ جانے کیوں نہیں دیتے۔ میرا جو خون پئے جو روکے۔ اچھا اسے روک لیا۔ مجھے روک لو تو جانوں۔ یہ کہہ کر بیگم صاحبہ خود جھلّائی ہوئی دیوان خانے کی طرف چلیں۔ مرزا جی کا چہرہ فق ہو گیا۔ ہوائیاں اڑنے لگیں۔ بیوی کی منتّیں کرنے لگے۔ خدا کے لیے تمھیں شہیدِ کربلا کی قسم۔ میری میّت دیکھے جو ادھر قدم رکھے لیکن بیگم صاحبہ نے ایک نہ مانی۔ دیوان خانے کے دروازے تک گئیں۔ یکایک نامحرم کے روبرو بے نقاب جاتے ہوئے پیر رک گئے۔ وہیں سے اندر کی طرف جھانکا حسنِ اتفاق سے کمرہ خالی تھا۔ میر صاحب نے حسبِ ضرورت دو چار مہرے تبدیل کر دیے تھے اس وقت اپنی صفائی جتانے کے لیے باہر چبوترہ پر چہل قدمی کر رہے تھے پھر کیا تھا بیگم صاحبہ کو منہ مانگی مراد ملی۔ اندر پہنچ کر بازی الٹ دی۔ مہرے کچھ تخت کے نیچے پھینکے کچھ باہر۔ تب دروازہ اندر سے بند کر کے کنڈی لگا دی۔ میر صاحب دروازے پر تو تھے ہی مہرے باہر پھینکے جاتے دیکھے۔ پھر چوڑیوں کی جھنکار سنی تو سمجھ گئے بیگم صاحبہ بگڑ گئیں۔ چپکے سے گھر کی راہ لی۔
مرزا نے بیگم صاحبہ سے کہا تم نے غضب کر دیا۔
بیگم۔ اب موا ادھر آئے تو کھڑے کھڑے نکال دوں۔ گھر نہیں چکلا سمجھ لیا ہے۔ اتنی لو اگر خدا سے ہو تو ولی ہو جاتے۔ آپ لوگ تو شطرنج کھیلیں میں یہاں چولھے چکی میں سر کھپاؤں، لونڈی سمجھ رکھا ہے۔ جاتے ہو حکیم صاحب کے یہاں کہ اب بھی تامل ہے۔
مرزا جی گھر سے نکلے تو حکیم صاحب کے یہاں کے بدلے میر صاحب کے گھر پہنچے تو معذرت آمیز لہجہ میں با دل پُر درد سارا ماجرا کہہ سنایا۔
میر صاحب ہنس کر بولے۔ اتنا تو میں اسی وقت سمجھ گیا تھا جب دردِ سر کا پیغام ماما لائی تھی کہ آج آثار اچھے نہیں ہیں۔ مگر بڑی غصّہ ور معلوم ہوتی ہیں۔ اف اتنی تمکنت آپ نے انھیں بہت سر چڑھا رکھا ہے۔ یہ مناسب نہیں۔ انھیں اس سے کیا مطلب کہ باہر کیا کرتے ہیں۔ خانہ داری کا انتظام کرنا ان کا کام ہے مردوں کی باتوں میں دخل دینے کا انھیں کیا مجال۔ میرے یہاں دیکھئے۔ کبھی کوئی چوں بھی نہیں کرتا۔
مرزا۔ خیر اب یہ بتائیے اب جماؤ کہاں ہو گا۔
میر۔ اس کا کیا غم ہے اتنا بڑا گھر پڑا ہوا ہے بس یہیں جمے گی۔
مرزا۔ لیکن بیگم صاحبہ کو کیسے مناؤں گا جب گھر پر بیٹھا رہتا تھا۔ تب تو اتنی خفگی تھی۔ گھر سے چلا آؤں تو شاید زندہ نہ چھوڑیں۔
میر۔ اجی بکنے دیجئے۔ دو چار دن میں خود بخود سیدھی ہو جائیں گی۔ ہاں آپ بھی ذرا تن جائیے۔
میر صاحب کی بیگم صاحبہ کسی وجہ سے میر صاحب کے گھر سے غائب رہنا ہی پسند کرتی تھیں۔ اس لیے وہ ان کے مشغلہ تفریح کا مطلق گلہ نہ کرتی تھیں۔ بلکہ کبھی کبھی انھیں جانے میں دیر ہو جاتی یا کچھ السا اتے تو سرودبہ مستان یاد دہانی دن کے مصداق انھیں آگاہ کر دیا کرتی تھیں۔ ان وجوہ سے میر صاحب کو گمان ہو گیا تھا۔ کہ میری بیگم صاحبہ نہایت خلیق متحمل مزاج اور عفت کیش ہیں۔ لیکن جب ان کے دیوان خانہ میں بساط بچھنے لگی اور میر صاحب کی دائمی موجودگی سے بیگم صاحبہ کی آزادی میں ہرج پیدا ہونے لگا۔ تو انھیں بڑی تشویش دامن گیر ہوئی۔ دن کے دن دروازہ جھانکنے کو ترس جاتی تھیں۔ سوچنے لگیں کیوں کر یہ بلا سر سے ٹلے۔
ادھر نوکروں میں بھی یہ کانا پھوسی ہونے لگی۔ اب تک دن بھر پڑے پڑے خراٹے لیتے تھے۔ گھر میں کوئی آئے کوئی جائے ان سے مطلب تھا نہ سروکار بمشکل سے دو چار دفعہ بازار جانا پڑتا۔ اب آٹھوں پہر کی دھونس ہو گئی۔ کبھی پان لگانے کا حکم ہوتا۔ کبھی پانی لانے کبھی برف لانے کا کبھی تمباکو بھرنے کا۔ حقّہ تو کسی دل جلے عاشق کی طرح ہر دم گرم رہتا تھا۔ سب جا کر بیگم صاحبہ سے کہتے حضور میاں کا شطرنج تو ہمارے جی کا جنجال ہو گیا۔ دن بھر دوڑتے دوڑتے پیروں میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔ یہ بھی کوئی کھیل ہے کہ صبح کو بیٹھے تو شام کر دی۔ گھڑی دو گھڑی کھیل لیا چلو چھٹی ہوئی۔ اور پھر حضور تو جانتی ہیں کہ کتنا منحوس کھیل ہے جسے اس کی چاٹ پڑ جاتی ہے کبھی نہیں پنپتا۔ گھر پر کوئی نہ کوئی آفت ضرور آتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک کے پیچھے محلے کے محلے تباہ ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ محلے والے ہر دم ہمیں لوگوں کو ٹوکا کرتے ہیں۔ شرم سے گڑ جانا پڑتا ہے۔ بیگم صاحبہ کہتیں مجھے تو یہ کھیل خود ایک آنکھ نہیں بھاتا، پر کیا کروں میرا کیا بس ہے۔
محلہ میں دو چار بڑے بوڑھے تھے وہ طرح طرح کی بدگمانیاں کرنے لگے۔ اب خیریت نہیں ہمارے رئیسوں کا یہ حال ہے تو ملک کا خدا ہی حافظ ہے یہ سلطنت شطرنج کے ہاتھوں تباہ ہو گی۔ لچھن بُرے ہیں۔
ملک میں واویلا مچا ہوا تھا۔، رعایا دن دھاڑے لٹتی تھی۔ پر کوئی اس کی فریاد سننے والا نہ تھا۔ دیہاتوں کی ساری دولت لکھنؤ میں کھچی چلی آتی تھی اور یہاں سامانِ عیش کے بہم پہچانے میں صرف ہو جاتی تھی۔ بھانڈ، نقال، کتھک، ارباب نشاط کی گرم بازاری تھی۔ ساقنوں کی دوکانوں پر اشرفیاں برستی تھیں۔ رئیس زادے ایک ایک دم کی ایک ایک اشرفی پھینک دیتے تھے۔ مصارف کا یہ حال اور انگریزی کمپنی کا قرضہ روز بروز بڑھتا جاتا تھا اس کی ادائیگی کی کسی کو فکر نہ تھی۔ یہاں تک کہ سالانہ خراج بھی ادا نہ ہو سکتا تھا۔ ریزیڈنٹ بار بار تاکیدی خطوط لکھتا۔ دھمکیاں دیتا، مگر یہاں لوگوں پر نفس پروری کا نشہ سوار تھا کسی کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی۔
خیر میر صاحب کے دیوان خانے میں شطرنج ہوتے کئی مہینے گذر گئے، نت نئے نقشے حل کیے جاتے، نئے نئے قلعے تعمیر ہوتے اور مسمار کیے جاتے، کبھی کبھی کھیلتے کھیلتے آپس میں جھڑپ ہو جاتی، تو تو میں میں کی نوبت پہنچ جاتی۔ پریہ شکر رنجیاں بہت جلد رفع ہو جاتی تھیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مرزا جی روٹھ کر اپنے گھر چلے جاتے۔ میر صاحب بساط اٹھا کر اپنے گھر میں آ بیٹھتے اور قسمیں کھاتے کہ اب شطرنج کے نزدیک نہ جائیں گے مگر صبح ہوتے ہی دونوں دوست پھر مل بیٹھتے۔ نیند ساری بدمزگیوں کو دور کر دیتی تھی۔
ایک دن دونوں احباب بیٹھے شطرنج کے دلدل میں غوطے کھا رہے تھے کہ شاہی رسالہ کا ایک سوار وردی پہنے اسلحہ سے لیس میر صاحب کا نام پوچھتا آ پہنچا۔ میر صاحب کے حواس اڑے۔ اوسان خطہ ہو گئے۔ خدا جانے کیا بلا سر پر آئی۔ گھر کے دروازے بند کر لیے۔ اور نوکروں سے کہا۔ گھر میں نہیں ہیں۔
سوار نے کہا گھر میں نہیں ہیں تو کہاں ہیں۔ کہیں چھپے بیٹھے ہوں گے۔
خدمت گار۔ میں یہ نہیں جانتا گھر میں سے یہی جواب ملا ہے۔ کیا کام ہے۔؟
سوار۔ کام تجھے کیا بتاؤں حضور میں طلبی ہے۔ شاید فوج کے لیے کچھ سپاہی مانگے گئے ہیں۔ جاگیر دار ہیں کہ مذاق ہے۔
خدمت گار۔ اچھا تشریف لے جائیے۔ کہہ دیا جائے گا۔
سوار۔ کہنے سننے کی بات نہیں۔ میں کل پھر آؤں گا اور تلاش کر کے لے جاؤں گا اپنے ہمراہ حاضر کرنے کا حکم ہوا ہے۔
سوار تو چلا گیا۔ میر صاحب کی روح فنا ہو گئی۔ کانپتے ہوئے مرزا جی سے بولے اب کیا ہو گا۔
مرزا۔ بڑی مصیبت ہے کہیں میری طلبی بھی نہ ہو۔
میر۔ کمبخت کل پھر آنے کو کہہ گیا ہے۔
مرزا۔ قہر آسمانی ہے اور کیا کہیں سپاہیوں کی مانگ ہو تو بن موت مرے۔ یہاں تو جنگ کا نام سنتے ہی تپ چڑھ آتی ہے۔
میر۔ یہاں تو آج سے دانہ پانی حرام سمجھئے۔
مرزا۔ بس یہی تدبیر ہے کہ اس سے ملیے ہی نہیں۔ دونوں آدمی غائب ہو جائیں۔ سارا شہر چھانتا پھرے۔ کل سے گومتی پار کسی ویرانے میں نقشہ جمے۔ وہاں کیسے خبر ہو گی۔ حضرت اپنا سا منہ لے کر لوٹ جائیں گے۔
میر۔ بس بس آپ کو خوب سوجھی۔ واللہ کل سے گومتی پار کی ٹھہرے۔
ادھر بیگم صاحبہ سوار سے کہہ رہی تھیں۔ تم نے خوب بہروپ بھرا۔
اس نے جواب دیا۔ ایسے گاؤدیوں کو تو چٹکیوں پر نچاتا ہوں۔ اس کی ساری نقل اور ہمت تو شطرنج نے چر لی۔ اب دیکھ لینا جو کبھی بھول کر بھی گھر رہے صبح کا گیا پھر رات کو آئے گا۔
اس دن سے دونوں دوست منہ اندھیرے گھر سے نکل کھڑے ہوتے اور بغل میں ایک چھوٹی سی دری دبائے۔ ڈبّے میں گلوریاں بھرے گومتی پار ایک پرانی ویران مسجد میں جا بیٹھے جو شاید عہد مغلیہ کی یادگار تھی۔ راستہ میں تمباکو، مدریالے لیتے اور مسجد میں پہنچتے۔ دری بچھی۔ حقّہ بھر کر بساط پر جا بیٹھتے۔ پھر انھیں دین دنیا کی فکر نہ رہتی تھی۔ کشت، شہ، پٹو لیا۔ ان الفاظ کے سوا ان کے منہ سے اور کوئی کلمہ نہ نکلتا تھا۔ کوئی چلہ کش بھی اتنے استغراق کی حالت میں نہ بیٹھتا تھا۔ دوپہر کو جب بھوک معلوم ہوتی تو دونوں حضرت گلیوں میں ہوتے ہوئے کسی نانبائی کی دکان پر کھانا کھا لیتے اور چلم حقّہ پی کر پھر شطرنج بازی۔ کبھی کبھی تو انھیں کھانے کی سدھ نہ رہتی تھی۔
ادھر ملک میں سیاسی پیچیدگیاں روز بروز پیچیدہ ہوتی جاتی تھیں۔ کمپنی کی فوجیں لکھنؤ کی طرف بڑھی چلی آتی تھیں۔ شہر میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ لوگ اپنے اپنے بال بچوں کو لے کر دیہاتوں میں بھاگے جا رہے تھے۔ پر ہمارے دونوں شطرنج باز دوستوں کو غم دزد اور غم کالا سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ گھر سے چلتے تو گلیوں میں ہو جاتے کہ کہیں کسی کی نگاہ نہ پڑ جائے۔ محلے والوں کو بھی ان کی صورت نہ دکھائی دیتی تھی۔ یہاں تک کہ انگریزی فوجیں لکھنؤ کے قریب پہنچ گئیں۔
ایک دن دونوں احباب بیٹھے بازی کھیل رہے تھے۔ میر صاحب کی بازی کچھ کمزور تھی۔ مرزا صاحب انھیں کشت پر کشت دے رہے تھے کہ دفعتاً کمپنی کی فوج سڑک پر سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ کمپنی نے لکھنؤ پر تصرف کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ قرض کی علّت میں سلطنت ہضم کر لینا چاہتی تھی۔ وہی مہاجنی چال چلی۔ جس سے آج ساری کمزور قومیں پا بہ زنجیر ہو رہی ہیں۔
میر صاحب انگریزی فوجیں آ رہی ہیں۔
مرزا آنے دیجئے۔ کشت بچائیے۔ یہ کشت۔
میر۔ ذرا دیکھنا چاہیے۔ آڑ سے دیکھیں کیسے قوی ہیکل جوان ہیں دیکھ کر سینہ تھر اتا ہے۔
مرزا۔ دیکھ لیجئے گا کیا جلدی ہے پھر کشت۔
میر۔ توپ خانہ بھی ہے کوئی پانچ ہزار آدمی ہوں گے۔ سرخ چہرہ جیسے لال بندر۔
مرزا۔ جناب حیلے نہ کیجئے۔ یہ کشت۔
میر۔ آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ خیال تو کیجئے۔ شہر کا محاصرہ ہو گیا تو گھر کیسے چلیں گے۔
مرزا۔ جب گھر چلنے کا وقت آئے گا۔ تو دیکھی جائے گی۔ یہ کشت اور مات۔
فوج نکل گئی۔ یاروں نے دوسری بازی بچھا دی۔ مرزا جی بولے آج کھانے کی کیسی رہے گی۔
میر۔ آج روزہ ہے کیا آپ کو زیادہ بھوک لگی ہے۔
مرزا۔ جی نہیں۔ شہر میں نامعلوم کیا ہو رہا ہو گا۔
میر۔ شہر میں کچھ نہیں ہو رہا ہو گا۔ لوگ کھانے سے فارغ ہو کر آرام کر رہے ہوں گے۔
حضور جانِ عالم بھی استراحت فرماتے ہوں گے یا شاید ساغر کا دور چل رہا ہو گا۔
اب کے دونوں دوست کھیلنے بیٹھے تو تین بج گئے اب کے مرزا جی کی بازی کمزور تھی۔ اسی اثنا میں فوج کی واپسی کی آہٹ ملی۔ نواب واجد علی شاہ معز ول کر دئیے گئے تھے۔ اور فوج انھیں گرفتار کیے لیے جاتی تھی۔ شہر میں کوئی ہنگامہ نہ ہوا۔ نہ کشت و خون یہاں تک کہ کسی جانباز نے ایک قطرہ خون بھی نہ بہایا۔ نواب گھر سے اس طرح رخصت ہوئے جیسے لڑکی روتی پیٹتی سسرال جاتی ہے۔ بیگمیں روئیں، نواب روئے، مامائیں مغلانیاں روئیں اور بس سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ ازل سے کسی بادشاہ کی معزولی اتنی صلح آمیز، اتنی بے ضرر نہ ہوئی ہو گی۔ کم از کم تاریخ میں اس کی نظیر نہیں۔ یہ وہ اہنسا نہ تھی جس پر ملائک خوش ہوتے ہیں۔ یہ وہ پست ہمتی، وہ نامردی تھی جس پر دیویاں روتی ہیں۔ لکھنؤ کا فرمانروا قیدی بنا چلا جاتا تھا اور لکھنؤ عیش کی نیند میں مست تھا۔ یہ سیاسی زوال کی انتہائی حد تھی۔
مرزا نے کہا۔ حضور عالی کو ظالموں نے قید کر لیا ہے۔
میر۔ ہو گا۔ آپ کوئی قاضی ہیں یہ لیجئے شہ۔
مرزا۔ حضرت ذرا ٹھہرئیے۔ اس وقت بازی کی طرف طبیعت نہیں مائل ہوتی۔
حضور عالی خوں کے آنسو روتے جاتے ہوں گے۔ لکھنؤ کا چراغ آج گل ہو گیا۔
میر۔ رونا ہی چاہئے۔ یہ عیش قید فرنگ میں کہاں میسر۔ یہ شہ۔
مرزا۔ کسی کے دن ہمیشہ برابر نہیں جاتے۔ کتنی سخت مصیبت میں ہے، بلائے آسمانی۔
میر۔ ہاں ہے ہی۔ پھر کشت بس دوسری کشت میں مات ہے۔ بچ نہیں سکتے۔
مرزا۔ آپ بڑے بے درد ہیں۔ واللہ ایسا حادثہ جانکاہ دیکھ کر آپ کو صدمہ نہیں ہوتا۔ ہائے حضور جان عالم کے بعد اب کمال کا کوئی قدر دان نہ رہا۔ لکھنؤ ویران ہو گیا۔
میر۔ پہلے اپنے بادشاہ کی جان بچائیے پھر حضور پُر نور کا ماتم کیجئے۔ یہ کشت اور مات، لانا ہاتھ۔
نواب کو لیے ہوئے فوج سامنے سے نکل گئی۔ ان کے جاتے ہی مرزا جی نے نئی بازی بچھا دی۔ ہار کی چوٹ بُری ہوتی ہے۔ میر صاحب نے کہا آئیے نواب صاحب کی حالتِ زار پر ایک مرثیہ کہہ ڈالیں۔ لیکن مرزا جی کی وفاداری اور اطاعت شعاری اپنی ہار کے ساتھ غائب ہو گئی تھی۔ وہ شکست کا انتقام لینے کے لیے بے صبر ہو رہے تھے۔
شام ہو گئی مسجد کے کھنڈر میں چمگاڈروں نے اذان دینا شروع کر دی، ابابیلیں اپنے اپنے گھونسلوں سے چمٹ کر نماز مغرب ادا کرنے لگیں۔ پر دونوں کھلاڑی بازی پر ڈٹے ہوئے تھے۔ گویا وہ خون کے پیاسے سورما موت کی بازی کھیل رہے ہوں۔ مرزا متواتر تین بازیاں ہار چکے تھے اب چوتھی بازی کا بھی رنگ اچھا نہ تھا وہ بار بار جیتنے کا مستقل ارادہ کر کے خوب سنبھل کر طبیعت پر زور دے دے کر کھیلتے تھے لیکن ایک نہ ایک چال ایسی خراب پڑ جاتی تھی کہ ساری بازی بگڑ جاتی۔ ادھر میر صاحب غزلیں پڑھتے تھے۔ ٹھمریاں گاتے تھے چٹکیاں لیتے تھے۔ آوازیں کستے تھے۔ ضلع اور جگت میں کمال دکھاتے تھے ایسے خوش تھے گویا کوئی دفینہ ہاتھ آ گیا ہے۔ مرزا صاحب ان کی یہ خوش فہمیاں سن سن کر جھنجلاتے تھے اور بار بار تیور چڑھا کر کہتے آپ چال نہ تبدیل کیا کیجئے۔ یہ کیا کہ چال چلے اور فوراً بدل دی۔ جو کچھ کرنا ہو ایک بار خوب غور کر کے کیجئے۔ جناب آپ مہرے پر انگلی کیوں رکھے رہتے ہیں۔ مہرے کو بے لاگ چھوڑ دیا کیجئے۔ جب تک چال کا فیصلہ نہ ہو جائے مہرے کو ہاتھ نہ لگایا کیجئے۔ حضرت آپ ایک چال آدھ آدھ گھنٹے میں کیوں چلتے ہیں۔ اس کی سند نہیں جس کی ایک چال میں پانچ منٹ سے زیادہ لگے۔ اس کی مات سمجھی جائے۔ پھر آپ نے چال بدلی۔ مہرہ وہیں رکھ دیجئے۔
میر صاحب کا فرزین پٹا جاتا تھا۔ بولے میں نے چال چلی کب تھی۔
مرزا۔ آپ کی چال ہو چکی ہے خیریت اس میں ہے کہ مہرہ اسی گھر میں رکھ دیجئے۔
میر۔ اس گھر میں کیوں رکھوں؟ میں نے مہرے کو ہاتھ سے چھوا کب تھا۔
مرزا۔ آپ قیامت تک مہرے کو نہ چھوئیں تو کیا چال ہی نہ ہو گی۔ فرزین پٹتے دیکھا تو دھاندلی کرنے لگے۔
میر۔ دھاندلی آپ کرتے ہیں۔ ہار جیت تقدیر سے ہوتی ہے۔ دھاندلی کرنے سے کوئی نہیں جیتا۔
مرزا۔ یہ بازی آپ کی مات ہو گی۔
میر۔ میری مات کیوں ہونے لگی۔
مرزا۔ تو آپ مہرہ اس گھر میں رکھ دیجئے جہاں پہلے رکھا تھا۔
میر۔ وہاں کیوں رکھوں۔ نہیں رکھتا۔
مرزا۔ آپ کو رکھنا پڑے گا۔
میر۔ ہر گز نہیں۔
مرزا۔ رکھیں گے تو آپ کے فرشتے۔ آپ کی حقیقت ہی کیا ہے۔
بات بڑھ گئی دونوں اپنے ٹیک کے دھنی تھے، نہ یہ دبتا تھا نہ وہ۔ تکرار میں لا محالہ غیر متعلق باتیں ہونے لگتی ہیں جن کا منشا ذلیل اور خفیف کرنا ہوتا ہے۔ مرزا جی نے فرمایا اگر خاندان میں کسی نے شطرنج کھیلا ہوتا تو آپ آئین اور قاعدے سے واقف ہوتے۔ وہ ہمیشہ گھانس چھیلا کیے۔ آپ کیا کھا کر شطرنج کھیلیے گا۔ ریاست شے دیگر ہے۔ جاگیر مل جانے سے کوئی رئیس نہیں ہو جاتا۔
میر۔ گھانس آپ کے ابّا جان چھیلتے ہوں گے۔ یہاں تو شطرنج کھیلتے پیڑھیاں اور پشتیں گذر گئیں۔
مرزا۔ اجی جائیے۔ نواب غازی الدین کے یہاں باورچی گیری کرتے کرتے عمر گذر گئی۔ اس طفیل میں جاگیر پا گئے۔ آج رئیس بننے کا شوق چڑھ آیا ہے۔ رئیس بننادل لگی نہیں ہے۔
میر۔ کیوں اپنے بزرگوں کے منہ کالکھ لگا رہے ہو۔ وہی باورچی رہے ہوں گے۔ ہمارے بزرگ تو نواب کے دسترخوان پر بیٹھتے تھے۔ ہم نوالہ وہم پیالہ تھے۔
مرزا۔ بے حیاؤں کو شرم بھی نہیں آتی۔
میر۔ زبان سنبھالیے۔ ورنہ بُرا ہو گا۔ ایسی باتیں سننے کے عادی نہیں ہیں کسی نے آنکھ دکھائی اور ہم نے دیا تلا ہوا ہاتھ۔ بھنڈار کھل گئے۔
مرزا۔ آپ ہمارے حوصلے دیکھیں گے۔ تو سنبھل جائیے۔ تقدیر آزمائی ہو جائے ادھر یا ادھر۔
میر۔ ہاں آ جاؤ۔ تم سے دبتا کون ہے۔
دونوں دوستوں نے کمر سے تلواریں نکال لیں۔ ان دنوں ادنی و اعلیٰ سبھی کٹار خنجر، قبض، شیر پنجہ باندھتے تھے۔ دونوں عیش کے بندے تھے۔ مگر بے غیرت نہ تھے۔ قوی دلیری ان میں عنقا تھی۔ مگر ذاتی دلیری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے سیاسی جذبات فنا ہو گئے تھے۔ بادشاہ کے لیے، سلطنت کے لیے، قوم کے لیے کیوں مریں۔ کیوں کر اپنی میٹھی نیند میں خلل ڈالیں۔ مگر انفرادی جذبات میں مطلق خوف نہ تھا۔ بلکہ وہ قوی تر ہو گئے تھے۔ دونوں نے پینترے بدلے۔ لکڑی اور گتکہ کھیلے ہوئے تھے۔ تلواریں چمکیں۔ چھپا چھپ کی آواز آئی۔ دونوں زخم کھا کر گر پڑے۔ دونوں نے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ اپنے بادشاہ کے لیے جن کی آنکھوں سے ایک بوند آنسو کی نہ گری۔ انھیں دونوں آدمیوں نے شطرنج کے وزیر کے لیے اپنی گردنیں کٹا دیں۔
اندھیرا ہو گیا تھا۔ بازی بچھی ہوئی تھی۔ دونوں بادشاہ اپنے اپنے تخت پر رونق افروز تھے۔ ان پر حسرت چھائی ہوئی تھی۔ گویا مقتولین کی موت کا ماتم کر رہے تھے۔
چاروں طرف سنّاٹے کا عالم تھا۔ کھنڈر کی پوشیدہ دیواریں اور خستہ حال کنگورے اور سر بسجود مینار ان لاشوں کو دیکھتے تھے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی پر افسوس کرتے تھے جس میں سنگ و خشت کا ثبات بھی نہیں۔
٭٭٭