میں تسبیح پڑھتا ہوں اس کی جو بادشاہ اور عالم ملکوت کا صاحب ہے۔ اس بادشاہ کی جو نہیں سوتا اور نہیں مرتا ہے وہ بہت طاہر اور بہت پاک اور فرشتوں اور ارواحوں کا پروردگار ہے۔ اور ثریٰ ایک سبز پتھر کا نام ہے اور نیچے ثریٰ کے دوزخ کو بنایا۔ اور اس میں ایک سردار کہ مالک اس کو کہتے ہیں۔
اور اسی وقت ایک زلزلہ زمین اور پہاڑوں پر آیا اور حضرت جبریئل نے کہا سات ہزار برس کے آگے سے آدم کے ایک پتھر ستر ہزار من کا کنارے پر دوزخ کے پڑا تھا۔ وہ پتھر پندرہ ہزار برس سے نیچے کی طرف لڑھکتا چلا جاتا تھا ابھی قعر حطمہ میں پہنچا تھا۔ اسی کی آواز تھی اور وہ جگہ منافقوں کی ہے۔
اور جب آدم بہشت سے نکلے صرف ایک ٹکڑا لکڑی کا مسواک کے واسطے لیا۔ جس طرح لوگ کہیں ’’اوور نائٹ‘‘ جانے کے لیے ٹوتھ برش اپنے بیگ میں ڈال لیتے ہیں۔
اور زمین پر آ کر جب آدم نے ہل جوتا اور بیل کج چلنے لگا تو حضرت نے اس پر لکڑی ماری اور بیل نے کہا ’’اے آدم تو مجھے کیوں مارتا ہے۔ اگر تجھ میں عقل ہوتی اس دنیا میں نہ پھنستا۔‘‘ الغیاث۔ الغیاث۔ مہلائیل بن شیش بن آدم کے انتقال کے بعد لوگ ان کی زیارت کے لیے آتے رہے فرزندان مہلائیل نے ابلیس کے کہنے پر اپنے والد کا بت بنا کر برقعہ اس پر ڈالا اور لوگ اس کی زیارت کرنے لگے اور عالم میں بت پرستی پھیلی۔
پھر اس قوم میں ادریس پیدا ہوئے پڑھانے کی کثرت سے لقب ان کا ادریس ہوا۔ علم نجوم ان کے معجزات میں سے ہے۔ اور آپ درزی کا کام کرتے تھے۔ قوم ان کی پھر بت پرستی پر راغب ہوئی۔
بعد چار سو سال کے نوح آئے۔ کہ اپنی قوم کی حالت پر نوحہ بہت کرتے تھے اور جب بڑھیا کے تنور سے گرم پانی نکلا اور طوفان۔ اور قوم عاد اور ہود پیغمبر۔
اور ساتویں زمین پر ایک ہوا ہے نام اس کا ریح العقیم ہے۔ ستر ہزار زنجیروں سے اس کو باندھ رکھا گیا۔ اور ستر ہزار فرشتے اس پر محافظ ہیں۔ جب روز قیامت وہ ہوا چھوڑی جاوے گی پہاڑوں کو مانند ریزہ ابریشم کے اڑا دے گی اسی ہوا نے ظالم قوم عاد کو برباد کیا۔ بعدہٗ صالح پیغمبر کو قوم ثمود پر۔۔۔
بعد اس کے فرشتوں نے شہرستان لوط کا قصد کیا۔ حضرت ابراہیم نے کہا میں بھی تمہارے ساتھ چلوں؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ مت آئیو۔ ہم اس شہر کے لوگوں کو ہلاک کرنے جاتے ہیں۔ عذاب کو دیکھنے کی تم میں طاقت نہ ہو گی۔ اور ان شہروں کی شاہراہوں پر مرد و زن کے گروہ علاحدہ علاحدہ پرچم بلند کیے نعرہ زن چلے جاتے تھے ان تختیوں اور پرچموں پر ایک اجنبی زبان میں Gay Lib مرقوم تھا اور قوم موسیٰ اور قوم عیسیٰ کے فقیہ اور مدرس اپنے کتب خانوں اور چھاپے خانوں میں اس اصطلاح کی تاویل و تفسیر و دفاع میں مشغول تھے
فرشتے اس منظر کی تاب نہ لا کر الٹے پاؤں واپس بھاگے۔ الامان۔ الامان۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو مقام کریم فرمایا تھا اور تم نے اسے مقام عذاب میں بدل دیا۔ اور صبح سے شام تک سب دیوار کو آ کر چاٹتے ہیں مگر اس کو توڑ نہیں پاتے۔ سکندر ذوالقرنین قاف سے قاف تک گیا پر کوئی معاملہ درست نہ کر سکا۔ وہ آدمی دو گروہ کے تھے۔ بے عدد۔ بے شمار ان کی قوم کو یاجوج ماجوج۔۔۔
اولاد یاجوج ایک پہاڑ پر رہتی ہے اور اپنی مردم شماری نہیں کرواتی اور عدد ان کا سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔ اور سب زرد رو اور پستہ قد۔ اولاد ماجوج دوسرے پہاڑ پر۔ سفید فام اور سرو قامت و قوی ہیکل دونوں اقوام کوئی دین و مذہب نہیں رکھتے اور خدا کو نہیں جانتے اور اب کچھ عرصے سے ایک دوسرے سے بھی برگشتہ ہیں۔ اور تب کھڑی ہوئی درمیان یاجوج ماجوج کے دیوار موٹی۔ اور بہت سوں نے ان کو بہت سوں سے بہتر پایا۔ خبر میں آیا کہ لقمان حکیم بن باعور نے وصیت کی اپنے بیٹے کو کہ قائم کر نماز اور لوگوں کی طرف غرور سے نہ دیکھ اور نرم کر اپنی آواز کہ بہ تحقیق ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہے۔ اور سلیمان بن داؤد کے بیٹے بطشا بن حنا کے بطن سے، ایک دن مع اپنے وزیر آصف (جس کے نام پر بعد میں شاہان عالم اسلام نے اپنے وزیروں کو آصف الدولہ اور آصف جاہ پکارا اور نام جنرل موشے دیان کے فرزند کا بھی یہی ہے) تخت پر بیٹھے ہوا میں جاتے تھے۔ وزیر اعظم آصف دیو بھی ساتھ تھا اور سب دیو پری جنات گرد بہ گرد تحت کے مودب کھڑے تھے اور پرندوں کے جھنڈ ان کے سر پر اپنے پروں سے سایہ ڈالے تھے اور ہوا نے تخت کو اوس زمین پر لے جا کر رکھا جہاں چیونٹیوں کی بستی تھی۔
کہا ایک چیونٹی نے اے چیونٹیو۔۔۔ ۔۔ گھس جاؤ اپنے گھروں میں نہ پیس ڈالے تم کو سلیمان اور اوس کا لشکر۔ اور اون کو خبر نہ ہو۔ پس مسکرائے سلیمان علیہ اسلام چیونٹی کی بات سے اور شاہ مور کو پکڑ کر اپنی ہتھیلی پر رکھا اور پوچھا اے شاہ مور تم نے اپنے لشکر کو کیوں کہا کہ سلیمان آتا ہے اپنے غاروں میں گھس جاؤ۔۔۔
پھر حضرت نے پوچھا سلطنت تمہاری بہتر ہے یا میری؟ چیونٹی نے کہا۔ میری بادشاہی بہتر ہے یا تمہاری ہے۔ کیونکہ ہوا اٹھاتی ہے تمہارے تخت اور بساط کو اور تخت اٹھاتا ہے تم کو۔ اوس پر تم بیٹھتے ہو۔ یہ اتنا تکلف ہے تمہاری بادشاہی میں۔
سلیمان نے ہنس کر پوچھا تم کس طرح یہ جانتے ہو۔ شاہ مور نے جواب دیا اے سلیمان اللہ نے صرف عقل تم کو نہیں دی۔ ہم ناتوانوں کو بھی کچھ عنایت کی ہے۔
اور یعقوب نبی کہ راتوں رات اپنے بھائی عیص کے ڈر سے شام کی طرف نکل گئے تھے اس لیے نام ان کا اسرائیل ہوا اور یعقوب بہ سبب عقب ہونے عیص کے یہ حال سب توریت میں بھی مرقوم ہے۔ اور زکریا پیغمبر کہ خدا کا ہر وقت ذکر کرتے تھے اور بیٹے ان کے یحییٰ جن کو اہل فرنگ John بولتے ہیں پہاڑوں پر روتے چلاتے پھرتے تھے۔ خدا کی محبت اور دوزخ کے خوف سے۔ اور بہت وحشت میں پڑے تھے عمر اس وقت ان کی سات برس کی تھی مسجد میں جا کے گوشہ اختیار کیا اور قوم بنی اسرائیل نے فساد بپا کیا اور بے شرع چلنے لگے۔
اور جرجیس نبی کہ مشرک ان کو جارج (George) پکارتے ہیں اور حنّہ کہ فرنگستان پہنچ کر یہ نام Anne ہوا اور حنہ کی بیٹی مریم عذرا۔
خبر میں آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی ماں کو لے کر بیت المقدس سے شام جاتے تھے، راہ میں بی بی مریم بیمار پڑیں۔ چونکہ وے سوائے بیخ گیاہ کے اور کچھ استعمال نہ فرماتی تھیں۔ عیسیٰ سے بولیں اے بیٹے مجھ کو وہی لادے۔ وہ اپنی ماں کو اس جگہ چھوڑ کر اس جڑ کو لینے گئے۔ بی بی مریم نے اس میدان میں وفات پائی۔ اور خدا کے حکم سے بہشت کی حوروں نے آن کر ان کو غسل دیا اور بہشت کے کپڑے سے کفنایا اور اسی جگہ دفن کر کے چلی گئیں۔
اور بعد اس کے عیسیٰ نے آن کر اپنی والدہ کو دو دفعہ پکارا۔ کہیں سے جواب نہ ملا۔ تیسری پکار میں جواب دیا۔ لبیک اے بیٹا کیوں بلاتے ہو مجھے حضرت عیسیٰ نے کہا اے امی جان۔ تین دفعہ پکارا آپ کہاں تھیں؟ جواب آیا۔ بیٹے پہلی پکار میں میں فردوس اعلیٰ میں تھی دوسری پکار میں سدرۃ المنتہی میں۔ اور تیسری پکار میں آسمان اول سے آ کے میں نے جواب دیا۔
اور قصہ دقیانوس شاہ روم اور اصحاب کہف کا۔ ایک جنگ میں اپنا دشمن بادشاہ قتل کر کے اس کے لڑکوں کو قید کیا۔ اور ان سے اپنا باتھ روم صاف کرواتا تھا۔ اور خود کو سجدہ کرواتا تھا ان پانچوں شہزادوں نے آپس میں صلاح و مشورت کی کہ ہم پر واجب ہے کہ اس کی خدمت سے باز رہیں وہ جب وہ ملعون چوگان کھیلنے جائے گا البتہ ہم کو بھی لے جائے گا۔ میں چوگان میدان سے باہر پھینکوں گا تم سب ہمارے پیچھے بہانہ چوگان میدان سے نکل چلیو۔ بس اس طرح سے وے اس میدان سے نکل بھاگے۔ صبح کو گھوڑوں کو چھوڑ کر ایک شہر کے کنارے پہنچے وہاں چند گڈریئے ملے۔ وے بولے۔ اے عزیزو تم کہاں جاتے ہو۔ انہوں نے کہا خالق ارض و سما کی طلب کو جاتے ہیں۔ گڈریوں نے بھی صحبت شاہ زادوں کی اختیار کی۔ اور گڈریوں کا کتا بھی ہم راہ ہولیا شہزادے بولے اس کتے کو ہنکار دو تو بہتر ہے وگرنہ یہ بھونکے گا اور لوگ آ کر ہمیں پکڑ لیں گے۔
تب بکریوں کے گلہ بانوں نے کتے کو مارا پیٹا وہ لہولہان ہو گیا مگر اس نے ساتھ نہ چھوڑا۔ اللہ نے اس کو زبان دی۔ اس نے کہا اے یارو مجھے مت مارو۔ تم جس کے بندے ہو میں بھی اس کا تابع دار ہوں۔ پس وہ کتے کو باری باری اپنے کاندھے پر اٹھا کر لے چلے۔ تمام رات چلا کیے۔ جب روز روشن ہوا سب جا کر ایک پہاڑ کے غار میں داخل ہو گئے اور نام ان کے یہ ہیں مکسملیان۔ ایلخا۔ مرکوکش۔ نوازنش۔ سالینوس۔ اریطاس۔ کفسطوطس۔ کھنسطوطس۔ کشفوطط۔ یارطوس اور کشفو طط کا نام کشف طیط بھی آیا ہے اور کتے کا نام قطمیر تھا۔ قاموس میں یہی لکھا ہے۔
اور نینوا کے پیغمبر یونس کہ نسل ہود سے تھے وہاں قوم ثمود کی تھی۔ سب نافرمان تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے یونس کو مچھلی کے پیٹ میں گرفتار کیا وے پکارے لا الہ الا انت سبحٰنک انی کنت من الظالمین۔ پس پکارا بیچ اندھیروں کے کہ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے۔ تو بے عیب ہے۔ بیشک میں تھا ظالموں میں۔ اور میں کشفطیط۔۔۔
جب میں جاگا میں نے دیکھا کہ میں ایک مہیب عظیم الجثہ فولادی مچھلی کے پیٹ میں ہوں اور وہ آسمانوں پر اڑی چلی جاتی ہے اس کے پیٹ میں میں تنہا نہیں ہوں اقوام عالم کے مرد و زن اس میں موجود مصروف اکل و شرب ہیں اور کوہِ قاف کی پریاں تمام مردوں کو بلوریں جام مے اور فواکہات پیش کرنے میں مشغول ہیں۔ اور سامنے مچھلی کے جبڑے کے نزدیک ایک پردہ سیمیں پر متحرک تصاویر دکھلائی دیں۔ اور نام اس تماشے کا DEEP THROAT تھا۔ میں نے آنکھیں مل کر اپنے برابر بیٹھے شخص سے پوچھا اے برادر کیا تم میرے ساتھی سلطبوطس ہو؟ اور وہ ہمارا کتا قطمیر کہاں ہے؟ وہ بولا۔ نہیں میں وہ نہیں ہوں جو تم سمجھے پھر اس نے اپنا نام بتایا اور اپنے گہرے زخم دکھلائے اور خاموش ہو گیا۔ اور خون کے آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔ کیا تم بھی دقیانوس کے ظلم کا شکار ہو؟ میں نے ہمدردی سے دریافت کیا۔ وہ بولا میں دقیانوسی تصورات و تعصبات و نظریات کے جور و ستم کا شکار ہوں۔ اس کی یہ تقریر میں سمجھ نہ سکا۔ وہ بولتا رہا۔ میں ایک شہر سے کہ جس کا نام قدیم لکھشمن ٹیلہ ہے، اپنی جان بچا کر بھاگ رہا ہوں۔ میری قوم پر خدا نے عذاب الیم نازل کیا ہے کہ وہ قوم مجنون و مخبوط الحواس ہو چکی ہے اور لکھشمن ٹیلہ کی گلیوں میں ایک دوسرے کا خون بہا کر ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہے اور دنیا کو اپنا عبرت ناک تماشا دکھا رہی ہے اور قسم ہے نوح اور ہود اور صالح اور یونس کے خدا کی کہ میری قوم اپنے آپ کو بڑے ہی شدید عذاب میں مبتلا کر چکی ہے۔ میرا گھر بار مال اسباب تباہ ہوا میرے ہم مذہبوں کے ہاتھوں جورو بچے ہلاک ہوئے میں تن واحد بھاگ کر ملک روم جاتا ہوں کہ وہاں محنت و مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال سکوں اور سر پر خاک ڈال کر گریہ و زاری کروں۔
میرے بائیں جانب ایک اور نحیف و نزار لاغر بندہ خدا بیٹھا اخبار پڑھتا تھا۔ اس سے پوچھا اے عزیز کیا تم میرے بھائی اریطاس ہو؟ بولا۔ نہیں میں پورب کے اس ملک سے آتا ہوں جہاں خدا نے اپنا قہر نازل کیا تھا وہاں بھی میرے اہلِ قوم نے ایک دوسرے کو تہ تیغ کر ڈالا۔ اب میں محنت مزدوری کرنے ملک المانیہ جاتا ہوں۔ تیسرے نے کہا۔ میں قوم گو سالہ پرست کا ایک فرد ہوں میرے ملک میں آج کل میرے ہم وطن اور ہم مذہب اور ہم قوم ایک دوسرے کو کھائے جا رہے ہیں۔ کہیں چین و امن نہیں میں بھی ملک فرنگ بھاگ رہا ہوں۔ تب مجھ کشفطیط کو یاد آیا۔
قصہ عامیل مقتول کا کہ بعد قتل میل کے جب قبیلے کے لوگ تہمت ایک دوسرے پر دینے لگے کہ اس نے مارا ہو گا اس نے مارا ہو گا موسیٰ کے پاس آ کر انہوں نے کہا یا رسول اللہ آپ دعا فرمائیے کہ اللہ قاتل کو خبر دے۔ موسی نے دعا کی۔ جبریل نے موسی سے کہا حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ غماز کو ہم دشمن جانتے ہیں۔ غمازی کیوں کر کر یں ان کو کہہ دے کہ ایک گائے کی زبان لے مقتول پر مار دیں تب وہ جی اٹھے گا اور خود بول دے گا جس نے مارا حق تعالیٰ نے ان کو فرمایا گائے کی بابت کیوں کہ وہ قوم سنہرے بچھڑے کو پوجتی تھی۔
موسی نے اپنی قوم کو اللہ کا حکم سنایا وے بولے ’’پکار ہمارے واسطے اپنے رب کو کہ بیان کرے وہ گائے کیسی ہے‘‘۔ موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ گائے ہے نہ بوڑھی نہ بچہ نہ جوان بیچ میں ان کے ہے وہ ایک گائے ہے خوب زرد رنگ اس کا۔ خوش آتی ہے دیکھنے والوں کو۔ بدن سے پوری تندرست ہے۔ داغ اس میں کچھ نہیں۔۔۔
قصہ گائے یوں ہے کہ ایک شخص بنی اسرائیل میں تھا۔ مرد صالح نیک بخت اور ایک گائے اس کی تھی۔ اس نے گائے کو جنگل میں خدا پر سونپا اور وہ گائے جب بڑی ہوئی جنگل میں کوئی اسے پکڑ نہ سکتا تھا۔ معاملہ اس گائے کا بہت طویل و پے چیدہ تھا میں اسے ذہن سے ہٹا کر سامنے پردہ سیمیں کی طرف دیکھنے لگا جہاں مناظر عجیب و غریب دکھلائی دیئے کہ جن کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوتے تھے اور میں نے سوچا کہ اب عذاب الٰہی آیا ہی چاہتا ہے۔ پھر میں نے ڈر کر چاروں طرف دیکھا سب مرد و زن مشغول اکل و شرب کمال اطمینان و فرط انبساط سے وہ شیطانی تماشا دیکھنے میں محو تھے اور میرے پیچھے اور آگے ایک گروہ کثیر مسکین صورتِ بندگان خدا کا بیٹھا تھا۔
میں نے ان سے سوال کیا بھائیو تم کہاں کا قصد رکھین ہو۔ وے بولے ہم جاتے ہیں ان صحراؤں کی طرف برائے کسب زر کثیر جہاں قدموں تلے سیاہ سیال طلائی بیش بہا کے چشمے جاری ہیں اور شکر ہے اس رب ذو الجلال کا جس نے ہمارے دن بھی پھیرے۔ تب مجھ کشفطیط کہ جو اصحاب کہف میں سے جاگا ہوں یاد آیا کہ موسیٰ کلیم اللہ کو خدا کی طرف سے حکم ہوا تھا کہ فرعون کو راہ راست پر لانے کے لیے اس سے نرم نرم بات کیجیو۔ اور میں کشفطیط۔ میں نے بھی اپنے وقت کے فرعونوں اور شدّادوں اور قارونوں اور ہامانوں سے نرم نرم بات کی مگر وہ میرے مزاج کی نرمی کو کمزوری سمجھا کیے اور مجھے مزید ایذائیں دیں اور میرے دن نہ پھرے۔
اور قصہ بادشاہ قارون کا جو موسی کا جدی چچیرا بھائی تھا بیٹا صافن کا، اور صافن بیٹا فاہش کا اور فاہش یعقوب علیہ السلام کا۔ عین اس وقت جب کہ میں ان ہیبت ناک امور پر غور کر رہا تھا معاً پردہ سیمیں پر سے تماشا گر فاجرہ عورت کی تصویر معدوم ہوئی اور اس کے عقب سے سات عدد نقاب پوش نمودار ہوئے ہاتھوں میں ان کے آتشیں گولے تھے اور دیگر اسلحہ جات۔ اور انہوں نے پکارا۔ ہم لوگ تم لوگوں کو ہلاک کر ڈالیں گے بیچ آسمان و زمین کے ورنہ لے چلو ہم کواس شہر کی سمت جہاں ہم جانا چاہتے ہیں۔ اور وہ اطالوی قارون جو اس وقت اس جگہ موجود ہے کرے حوالے کنجیاں اپنے خزانے کی وگرنہ مار ڈالیں گے اس کو جان سے اور پکڑ لیں گے تم سب کو بطور یرغمال اور اگر نہ مانا تم نے حکم ہمارا تم سب کو بھی ہلاک کر دیں گے۔ بلا تامل۔ کہ تم نے قایم کیا ہے فساد بیچ زمین کے۔
اور جواب دیا ایک شخص نے بآواز بلند کہ البتہ تم ہو ذریاب ابلیس لعین کے کہ ہلاک کرنا چاہتے ہو ان بے گناہوں کو جنہوں نے نہیں بگاڑا کچھ تمہارا۔ عین اس لمحے مچھلی کے پیٹ میں کڑک دار گڑگڑاہٹ ہوئی۔ اس نے فضائے تاریک میں غوطہ مارا اترنے لگی بسرعت طرف کرہ زمین کے اور عزرائیل علیہ السلام کی صورت سب کے سامنے نمودار ہوئی اور ہم سب اس مہیب فولادی مچھلی کے پیٹ میں محبوس قعر حطمہ کی جانب اترتے جا رہے ہیں اور وہ ریح العقیم جسے ستّر ہزار زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا تھا آزاد ہو چکی ہے۔
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین
بے شک میں تھا گنہگاروں میں
بے شک میں تھا گنہگاروں میں
بے شک میں تھا گنہگاروں میں
اور اس راقم الحروف آئینہ فروش شہر کوراں نے یہ حکایت بیان کی اور پہاڑ کی کھوہ سے برآمد ہو کر اصحاب کہف کا کتا قطمیر آسمان کی طرف منہ اٹھائے روئے چلا جاتا ہے۔
٭٭٭