ٹرین مغربی جرمنی کی سرحد میں داخل ہو چکی تھی۔ حدِ نظر تک لالہ کے تختے لہلہا رہے تھے۔ دیہات کی شفاف سڑکوں پر سے کاریں زنّاٹے سے گذرتی جاتی تھیں۔ ندیوں میں بطخیں تیر رہی تھیں۔ ٹرین کے ایک ڈبے میں پانچ مسافر چپ چاپ بیٹھے تھے۔ ایک بوڑھا جو کھڑکی سے سر ٹکائے باہر دیکھ رہا تھا۔ ایک فربہ عورت جو شاید اس کی بیٹی تھی اور اس کی طرف سے بہت فکر مند نظر آتی تھی۔ غالباً وہ بیمار تھا۔ سیٹ کے دوسرے سرے پر ایک خوش شکل طویل القامت شخص، چالیس سال کے لگ بھگ عمر، متبسم پر سکون چہرہ ایک فرنچ کتاب کے مطالعہ میں منہمک تھا۔ مقابل کی کرسی پر ایک نوجوان لڑکی جو وضع قطع سے امریکن معلوم ہوتی تھی، ایک با تصویر رسالے کی ورق گردانی کر رہی تھی اور کبھی کبھی نظریں اٹھا کر سامنے والے پرکشش شخص کو دیکھ لیتی تھی۔ پانچویں مسافر کا چہرہ اخبار سے چھپا تھا۔ اخبار کسی ادق اجنبی زبان میں تھا۔ شاید ناردیجین یا ہنگیرین، یا ہو سکتا ہے آئس لینڈک۔ اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آئس لینڈک میں باتیں کرتے ہیں۔ پڑھتے لکھتے اور شعر کہتے ہیں۔
دنیا عجائب سے خالی نہیں۔ امریکن نما لڑکی نے جو خالص امریکن تجسس سے یہ جاننا چاہتی تھی کہ یہ کون سی زبان ہے، اس خوب صورت آدمی کو اخبار پڑھنے والے نوجوان سے باتیں کرتے سنا۔ وہ بھی کسی اجنبی زبان میں بول رہا تھا۔ لیکن وہ زبان ذرا مانوس سی معلوم ہوئی۔ لڑکی نے قیاس کیا کہ یہ شخص ایرانی یا ترک ہے۔ وہ اپنے شہر ٹورانٹو میں چند ایرانی طلباء سے مل چکی تھی۔ چلو یہ تو پتہ چل گیا کہ یہ فیبولس گائے (Fabulous Guy) پرشین ہے (اس نے انگریزی میں سوچا میں آپ کو اردو میں بتا رہی ہوں کیوں کہ افسانہ بہ زبان اردو ہے)
اچانک بوڑھے نے جو انگریز تھا۔ آہستہ سے کہا۔ ’’دنیا واقعی خاصی خوب صورت ہے‘‘۔
یہ ایک قطعی برطانوی انڈر اسٹیٹمنٹ تھا۔ لڑکی کو معلوم تھا کہ دنیا بے انتہا اداسی سے مسکرائی۔ باپ کی ٹانگوں پر کمبل پھیلا کر مادرانہ شفقت سے کہا۔ ’’ڈیڈ۔ اب آرام کرو۔‘‘
اس نے جواب دیا۔ ’’ایڈنا۔ میں یہ مناظر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
اس کی بیٹی نے رسان سے کہا۔ ’’اچھا اس کے بعد ذرا سو جاؤ۔‘‘
اس کے بعد وہ آ کر کینڈین لڑکی کے پاس بیٹھ گئی۔ گو انگریز تھی مگر شاید اپنا دکھ بانٹنا چاہتی تھی۔ ’’میرا نام ایڈنا ہنٹ ہے۔ یہ میرے والد ہیں پروفیسر چالس ہنٹ۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’تمارا فیلڈنگ ٹورانٹو۔ کینیڈا‘‘۔
’’کیمبرج۔ انگلینڈ۔ ڈیڈ وہاں پیٹر ہاؤس میں ریاضی پڑھاتے تھے۔‘‘
’’بیمار ہیں؟‘‘
’’سرطان۔ اور انہیں بتا دیا گیا ہے۔‘‘ ایڈنا نے سرگوشی میں جواب دیا۔
’’اوہ۔ آئی ایم سو سوری۔‘‘ تمارا فیلڈنگ نے کہا۔
خاموشی چھا گئی۔ کسی اجنبی کے ذاتی الم میں دفعتاً داخل ہو جانے سے بڑی خجالت ہوتی ہے۔
’’اگر تم کو یہ معلوم ہو جائے۔‘‘ ایڈنا نے آہستہ آہستہ کہا۔ ’’کہ یہ دنیا بہت جلد فلاں مدت کے بعد اور ہمیشہ کے لیے چھوڑنی ہے تو جانے کیسا لگتا ہو گا۔‘‘
’’اس معاملے میں انسان کو بہت صابر اور فلسفی ہو جانا چاہئے‘‘ تمارا نے کہا اور خفیف سی ہنسی۔ ’’حالانکہ یہ بھی بے کار ہے‘‘
’’آپ ٹھیک کہتی ہیں جیسے میں اس وقت خود صابر اور فلسفی بننے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘‘ تمارا نے کہا۔
ایڈنا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا گو بحیثیت ایک وضع دار انگریز خاتون وہ کسی سے ذاتی سوال کرنا نہ چاہتی تھی۔
اس بے تکلف کینیڈین لڑکی نے بات جاری رکھی۔ ’’میں جرمنی آنا نہ چاہتی تھی۔ اس ملک سے بہت خوف ناک یادیں وابستہ ہیں۔ میری والدہ کے دو ماموں ایک خالہ ان کے بچے۔ سب کے سب۔ میری ممی آج بھی کسی فیکٹری کی چمنی سے دھواں نکلتا دیکھتی ہیں تو منہ پھیر لیتی ہیں۔‘‘
’’اوہ‘‘
’’حالانکہ یہ میری پیدائش سے بہت پہلے کے واقعات ہیں۔‘‘
’’اوہ۔ میں تمہارے کرسچن نام سے سمجھی تم روسی نڑاد ہو۔ حالانکہ تمہارا خاندانی نام خالص اینگلو سیکسن ہے۔‘‘
’’میرے نانا روسی تھے۔ میرے والد کا اصل نام ڈیویڈ گرین برگ تھا۔ کینیڈا جا کر تعصب سے بچنے کے لیے بدل کر فیلڈنگ کر لیا لیکن میں۔‘‘ اس نے ذرا جوش سے کہا۔ ’’میں اپنے باپ کی طرح بزدل نہیں۔ میں اپنا پورا نام اس طرح لکھتی ہوں۔ تمارا گرین برگ فیلڈنگ۔‘‘
’’واقعی؟‘‘ برطانوی خاتون نے کہا۔ ’’کتنی دل چسپ بات ہے۔‘‘
’’اولادِ آدم کا شجرہ بہت گنجلک ہے‘‘۔ تمارا نے غیر ارادی طور پر ذرا اونچی آواز میں کہا۔ کیوں کہ وہ اس وجہ سے ہمیشہ متحیر رہتی تھی۔
سامنے والے دل کش آدمی نے اس کا فقرہ سنا اور سر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرایا۔ گو یا کہتا ہو۔ ’’میں تمہاری بات سمجھتا ہوں۔‘‘ لڑکی دل ہی دل میں اس کی مشکور ہوئی اور اسے دیکھ کر خود بھی مسکرائی۔ اب غالباً میں اس اجنبی پر عاشق ہوتی جا رہی ہوں۔ برطانوی خاتون نے بھی یہ اندازہ لگا لیا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دل چسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک جگہ پر دو انسان ایک دوسرے کی طرف کھینچیں تو سمجھ لیجئے کہ اس انڈر کرنٹ کو حاضرین فواً محسوس کر لیں گے۔ کیوں کہ اولادِ آدم کی باہم کشش کا عجب گھپلا ہے۔
بوڑھا پروفیسر آنکھیں کھول کر پھر کھڑکی کے باہر دیکھنے لگا۔
’’میرے نانا۔۔۔ جب کریمیا سے بھاگے انقلاب کے وقت تو اپنے ساتھ صرف قرآن لے کر بھاگے تھے۔‘‘ تمارا نے آہستہ سے کہا۔
’’کوران۔۔۔ ۔۔؟‘‘ ایڈنا نے تعجب سے دہرایا۔
’’ہاں۔ وہ موزلم تھے اور میری نانی ممی کو بتاتی تھیں وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ قرآن میں لکھا ہے: دنیا بہت خوب صورت ہے۔ اس میں خوشی سے رہو اور دوسروں کو بھی خوش رہنے دو۔ اور شاید موزلم پروفٹ نے کہا تھا کہ اس سے بہتر دنیا نہیں ہو سکتی۔‘‘ سگریٹ سلگانے کے لیے تمارا نے حسب معمول لائٹر کی تلاش میں بیگ کھنگالنا شروع کیا۔ ایرانی نما شخص نے فوراً آگے جھک کر اپنا لائٹر جلایا۔ پھر اجازت چاہ کر تمارا کے پاس بیٹھ گیا۔ ایڈنا ہنٹ دوسری طرف سرک گئی۔
ایرانی نما شخص کھڑکی کے باہر گذرتے ہوئے سہانے منظر دیکھنے میں محو ہو گیا۔ تمارا نے اس سے آہستہ سے کہا۔ ’’یہ بزرگ سرطان میں مبتلا ہیں۔ جن لوگوں کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ چند روز بعد دنیا سے جانے والے ہیں انہیں جانے کیسا لگتا ہو گا۔ یہ خیال کہ ہم بہت جلد معدوم ہو جائیں گے۔ یہ دنیا پھر کبھی نظر نہ آئے گی۔‘‘
ایرانی نما شخص درد مندی سے مسکرایا۔ ’’جس انسان کو یہ معلوم ہو کہ وہ عنقریب موت کے منہ میں جانے والا ہے۔ وہ سخت دل ہو جاتا ہے۔‘‘
’’واقعی؟‘‘ ہم سفر نے اپنا نام بتایا۔ دکتور شریفیان۔ بتریز یونی ورسٹی۔ شعبہ تاریخ۔ کارڈ دیا۔ اس پر نام کے بہت سے نیلے حروف چھپے تھے۔ لڑکی نے بشاشت سے دریافت کیا۔
’’این۔ آئی کیو یعنی۔ نو۔ آئی کیو؟‘‘
’’نصرت الدین امام قلی۔‘‘ لڑکی نے اپنا نام بتانے کی ضرورت نہ سمجھی۔ اسے معلوم تھا کہ یہ اس نصرت الدین امام قلی سے اس کی پہلی اور آخری ملاقات ہرگز نہیں ہے۔
ایک قصبے کے اسٹیشن پر ٹرین رکی۔ اخبار پڑھنے والا لڑکا اسی جگہ سرعت سے اتر گیا۔ دکتور شریفیان بھی لپک کر باہر گئے۔ بارش شروع ہو چکی تھی۔ درخت اور پھول اور گھاس پانی میں جگمگا رہے تھے۔ اکا دکا مسافر برساتیاں اوڑھے پلیٹ فارم پر چپ چاپ کھڑے تھے۔ چند لمحوں بعد ایرانی پروفیسر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمپارٹمنٹ میں واپس آیا۔ اس کے ہاتھ میں لالہ کے گلدستے تھے جو اس نے بڑے اخلاق سے جھک کر دونوں خواتین کو پیش کیے اور اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
آدھ گھنٹا گذر گیا۔ بوڑھا سو چکا تھا۔ دوسرے کونے میں اس کی فربہ بیٹی اپنی باہوں پر سر رکھ کر اونگھ رہی تھی۔
دفعتاً ایرانی دکتور نے کینیڈین لڑکی سے کہا۔ ’’تمارا خانم۔ کہاں تک میرے ساتھ رہو گی؟‘‘ وہ اس سوال کا مطلب سمجھی اور اسے آج تک کسی نے تمارا خانم کہہ کر مخاطب نہ کیا تھا۔ در اصل وہ اپنے گھر اور کالج میں ٹِم کہلاتی تھی۔ کہاں نا معقول ٹم! اور کہاں تمارا خانم جیسے سرود بج رہا ہو یا عمر خیام کا مصرع۔ تمارا خانم کی ایران سے واقفیت محض ایڈورڈ فٹنر جیرلڈ تک محدود تھی۔ اس نے اسی کیفیت میں کہا۔ ’’جہاں تک ممکن ہو۔‘‘
بہر حال وہ دونوں ایک ہی جگہ جا رہے تھے۔ تمارا نے ایرانی پروفیسر کے سوٹ کیس پر چپکا ہوا لیبل پڑھ لیا تھا۔
’’تم وہاں پڑھنے جا رہی ہو یا سیر کرنے؟‘‘
’’پڑھنے۔ بایو کیمسٹری۔ مجھے ایک اسکالر شپ ملا ہے۔ تم ظاہر ہے پڑھانے جا رہے ہو گے۔‘‘
’’صرف چند روز کے لیے۔ میری دانش گاہ نے ایک ضروری کام سے بھیجا ہے۔‘‘ ٹرین قرونِ وسطیٰ کے ایک خوابیدہ یونی ورسٹی ٹاؤن میں داخل ہوئی۔ دوسرے روز وہ وعدے کے مطابق ایک کیفے ٹیریا میں ملے۔ کاؤنٹر سے کھانا لینے کے بعد ایک دریچے والی میز پر جا بیٹھے دریچے کے عین نیچے خوش منظر ندی بہہ رہی تھی۔ دوسرے کنارے پر ایک کائی آلود گوتھک گرجا کھڑا تھا۔ سیاہ گاؤن پہنے انڈر گریجویٹ ندی کے پل پر سے گذر رہے تھے۔
’’بڑا خوب صورت شہر ہے۔‘‘ تمارا نے بے ساختہ کہا۔ حالانکہ وہ جرمنی کی کسی چیز کی تعریف کرنا نہ چاہتی تھی۔
دکتور نصرت الدین ایک پر مذاق اور خوش دل شخص تھا۔ وہ ادھر اُدھر کی باتیں کر کے اسے ہنساتا رہا۔ تمارا نے اسے یہ بتانے کی ضرورت نہ سمجھی کہ وہ جرمنی سے کیوں متنفر تھی۔ اچانک نصرت الدین نے خالص طہرانی لہجے میں اس سے کہا۔ ’’خانم جُون‘‘
’’ہوں۔؟ جُون کا مطلب؟‘‘
’’زندگی‘‘!
’’ونڈر فل۔ یعنی میں تمہاری زندگی ہوں۔!‘‘ اس نے بے پروائی سے ہاتھ ہلایا۔ ’’ہا ہا۔ میری زندگی! سنو خانم جُون۔ ایک دل چسپ بات بتاؤں۔ تم مجھے بالکل میری دادی جیسی لگتی ہو۔‘‘
’’بہت خوب۔ آپ سے زیادہ با اخلاق شخص پورے یوروپ میں نہ ہو گا۔ ایک چوبیس سالہ لڑکی کو آپ اپنی دادی بنائے دے رہے ہیں!‘‘
’’واللہ۔ کسی روز تمہیں ان کی تصویر دکھلاؤں گا۔‘‘
دوسری شام وہ اس کے ہوسٹل کے کمرے میں آیا۔ تمارا اب تک اپنے سوٹ کیس بند کر کے سامان ترتیب سے نہیں جما سکی تھی۔ سارے کمرے میں چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔
’’بہت پھوہڑ لڑکی ہو۔ کوئی سمجھ دار آدمی تم سے شادی نہ کرے گا۔‘‘ اس نے آتش دان کے سامنے چمڑے کی آرام کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ تمارا نے جلدی جلدی کچھ سامان اٹھا کر ایک طرف رکھا۔ ’’لوگ باگ مجھ سے ابھی سے جلنے لگے ہیں کہ میں نے آتے ہی کیمپس کی سب سے خوب صورت لڑکی چھانٹ لی۔‘‘
’’چھانٹ لی! عرب شیوخ کی طرح آپ بھی حرم رکھتے ہیں!‘‘ تمارا نے مصنوعی غصے سے کہا۔
وہ زور سے ہنسا اور کرسی کی پشت پر سر ٹکا دیا۔ دریچے کے باہر صنوبر کے پتے سر سرائے۔ ’’وہ بھی عجیب عیاش بزدل ظالم قوم ہے۔‘‘ تمارا نے مزید اظہارِ خیال کیا اور ایک الماری کا پٹ زور سے بند کر دیا۔ الماری کے قد آدم آئینے میں پروفیسر کا دل نواز پرو فائل نظر آیا اور اس پر مزید عاشق ہوئی۔
’’تم بالکل ٹھیک کہتی ہو۔ خانم جُون۔ ہم ایرانیوں کی بھی عربوں سے کبھی نہیں پٹی۔ ہم تو انہیں کاکروچ کھانے والا کہتے ہیں۔‘‘ نصرت نے مسکرا کر پائپ جلایا۔
’’کاکروچ کھاتے ہیں؟‘‘ تمارا نے حیرت سے پوچھا اور منہ بنایا۔
’’وحشی۔ بدو۔ مشرقی۔ معاف کرنا۔ میرا مطلب ہے۔ تم تو ان سے بہت مختلف ہو۔ ایرانی تو مڈل ایسٹ کے فرنچ میں کہلاتے ہیں۔‘‘ اس نے ذرا خجالت سے اضافہ کیا۔
’’درست۔ متشکرم۔ متشکرم!‘‘
’’ترجمہ کرو۔‘‘
’’جی۔ تھینکس‘‘۔ اس نے ناک میں بولنے والے امریکن لہجے میں کہا۔
وہ خوب کھلکھلا کر ہنسی۔ ’’تم بہت اچھے ادا کار ہو۔ کم سے کم ٹی۔ وی اسٹار تو بن سکتے ہو۔‘‘
’’واقعی۔؟ بہت جلد تم مجھے ٹی۔ وی اسکرین پر دیکھ لو گی۔‘‘
’’کیا تم نے کبھی ایکٹنگ کی ہے؟‘‘
’’بہت۔ کالج میں ہمیشہ رومیو یہ خاکسار ہی بنا کرتا تھا اور فرہاد۔‘‘
’’فرہاد کون؟‘‘
’’تھے ایک صاحب۔ آغا فرہاد بیگ۔‘‘
اس نے نظامی کے چند اشعار پڑھے۔ ان کا ترجمہ کیا۔ پھر پروفیسر والے انداز میں جیسے کلاس کو پڑھاتا ہو، اس راستے کا نقشہ سمجھایا جدھر سے آرمینیا کی شہزادی شیریں اس کے اپنے وطن آذر بائیجان سے گذرتی خسرو کے دار السلطنت پہنچی تھی۔ بعد ازاں کوہِ بے ستوں کا جغرافیہ اس کینیڈین دانش جو کو ذہن نشیں کرایا۔
ہفتے کی شام کو پہلی بار دکتور شریفیان کی قیام گاہ پر اس کے ہم راہ گئی۔ کیمپس سے خاصی دور صنوبروں کے جھرمٹ میں چھپی ایک پرانی عمارت کی دوسری منزل پر اس کا دو کمروں کا اپارٹمنٹ تھا۔ کمرے میں داخل ہو کر نصرت الدین نے لپمپ جلایا۔ تمارا نے کوٹ اتار کر کرسی پر رکھتے ہوئے چاروں طرف دیکھا۔ فارسی کتابیں اور رسالے سارے میں بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے تھے۔ تمارا کو معلوم تھا اب وہ ہزاروں بار دہرایا ہوا ڈرامہ دہرایا جائے گا۔ وہ ریڈیو گرام پر ریکارڈ لگائے گا۔ پھر اس سے پوچھے گا اسے کون سی شراب پسند ہے۔ عین اس وقت سارے مغرب کے ان گنت کمروں میں یہی ڈرامہ کھیلا جا رہا ہو گا۔ اور وہ اس ڈرامے میں اس آدمی کے ساتھ حصہ لیتے ہوئے ناخوش نہ تھی۔
نصرت نے قیمتی فرانسیسی شراب اور دو گلاس سائڈ بورڈ سے نکالے اور صوفے کی طرف آیا۔ پھر اس نے جھک کر کہا۔ ’’تمارا خانم اب وقت آ گیا ہے کہ تم کو اپنی دادی سے ملواؤں۔‘‘ وہ سرخ ہو گئی۔
’’معلوم ہے ہمارے یہاں مغرب میں اس جملے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟‘‘
’’معلوم ہے۔‘‘ اس نے ذرا بے پروائی سے کہا۔ لیکن اس کے لہجے کی خفیف سی بے پروائی کو تمارا نے شدت سے محسوس کیا۔
اب نصرت الدین نے الماری میں سے ایک چھوٹا سا البم نکالا اور ایک ورق الٹ کر اسے پیش کیا۔ ایک بے حد حسین لڑکی پچھلی صدی کے خاور میانہ کی پوشاک میں ملبوس ایک فرنچ وضع کی کرسی پر بیٹھی تھی۔ پس منظر میں سنگترے کے درخت تھے۔ ’’دادی امّاں۔ اور یہ۔ ہمارا سنگتروں کا باغ تھا۔‘‘ تمارا نے دیکھا دادی میں اس سے بہت ہلکی سی مشابہت ضرور موجود تھی۔ اس نے دوسرا صفحہ پلٹنا چاہا۔ نصرت الدین نے فوراً بڑی ملائمت سے البم اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
’’تمارا خانم وقت ضایع نہ کرو۔ وقت بہت کم ہے۔‘‘ تمارا نے سینڈل اتار کر پاؤں صوفے پر رکھ لیے وہ اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس کے پاؤں پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ’’اتنے نازک چھوٹے چھوٹے پیر۔ تم ضرور کسی شاہی خاندان سے ہو۔‘‘
’’ہوں تو سہی شاید۔‘‘
’’کون سا۔؟ ہر میجسٹی اعلیٰ حضرت تمہارے والد یا چچا یا دادا اس وقت سوئیٹرز لینڈ کے کون سے قصبے میں پناہ گزیں ہیں؟‘‘
’’میرے والد ٹورانٹو میں ایک گارمنٹ فیکٹری کے مالک ہیں۔‘‘ تمارا نے نہیں دیکھا کہ ایک ہلکا سا سایہ دکتور شریفیان کے چہرے پر سے گذر گیا۔
’’لیکن میرے نانا غالباً خوانین کریمیا کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔‘‘
’’اوہو۔ خوانین کریمیا!۔۔۔
حاجی سلیم گرائی۔ قرادولت گرائی۔ جانی بیگ گرائی۔ محمود گرائی کون سے گرائی؟‘‘
’’نصرت مجھے معلوم ہے تم تاریخ کے استاد ہو۔ رعب مت جھاڑو۔ مجھے پتہ نہیں کون سے گرائی۔ میں نے تو یہ نام بھی اس وقت تم سے سنے ہیں۔‘‘
’’اور موصوف تمہارے نانا بالشویک انقلاب سے بھاگ کر پیرس آئے۔‘‘
’’ہاں۔ وہی پرانی کہانی۔ پیرس آئے اور ایک ریستوران میں نوکر ہو گئے اور ریستوران کے مالک کی خوب صورت لڑکی روزلین سے شادی کر لی۔ اور روزلین کے ابّا بہت خفا ہوئے کیوں کہ ان کی دوسری لڑکیوں نے یہاں جرمنی میں اپنے ہم مذہبوں سے بیاہ کیے تھے۔‘‘
وہ دفعتاً چپ ہو گئی۔ اب اس کے چہرے پر سے ایک ہلکا سا سایہ گذرا جسے نصرت الدین امام قلی نے دیکھا۔
چند لمحوں بعد تمارا نے پھر کہنا شروع کیا۔ ’’روزلین کے والد واقعی بہت خفا تھے۔ جب روزلین ان سے فخریہ کہتیں کہ انہوں نے ایک روسی شہزادے سے شادی کی ہے تو وہ گرج کر جواب دیتے آج کل ہر چپڑ قنات کوچوان سائیس خاکروب جو روس سے بھاگ کر یہاں آ رہا ہے، اپنے آپ کو ڈیوک اور کاؤنٹ سے کم نہیں بتاتا۔ تمہارا تاتاری خاوند بھی کریمیا کے کسی خان کا چوب دار رہا ہو گا۔ نانا بے چارے کا تین سال بعد ہی انتقال ہو گیا۔ در اصل شاید جلا وطنی کا الم انہیں کھا گیا۔‘‘ اب شریفیان کے چہرے پر سے ایک اور سایہ گذرا جسے تمارا نے نہیں دیکھا۔
’’میری ممی ان کی اکلوتی اولاد تھیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے زمانے میں ممی نے ایک پولش رفیوجی سے شادی کر لی۔ وہ دونوں آزاد فرانسیسی فوج میں اکٹھے لڑے تھے۔ جنگ کے بعد وہ فرانس سے ہجرت کر کے امریکہ آ گئے۔ جب میں پیدا ہوئی تو ممی نے میرا نام اپنی ایک نادیدہ مرحومہ پھوپھی کے نام پر تمارا رکھا۔ وہ پھوپھی روسی خانہ جنگی میں ماری گئی تھیں۔ ہمارے خاندان میں نصرت الدین ایسا لگتا ہے کہ ہر نسل نے دونوں طرف سوائے خوف ناک قسم کی اموات کے کچھ نہیں دیکھا۔‘‘
’’ہاں بعض خاندان اور بعض نسلیں ایسی بھی ہوتی ہیں۔۔۔‘‘ نصرت الدین نے آہستہ سے کہا۔ پھر پوچھا۔ ’’فی الحال تمہاری قومیت کیا ہے؟‘‘
’’کینیڈین۔‘‘
ایرانی پروفیسر نے شراب گلاسوں میں انڈیلی اور مسکرا کر کہا۔ ’’تمہارے نانا اور میری دادی کے نام۔‘‘ انہوں نے گلاس ٹکرائے۔
دوسرا ہفتہ۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ وہ دونوں ایک ریستوران کی طرف جاتے ہوئے بازار میں سے گذرے۔
اچانک وہ کھلونوں کی ایک دوکان کے سامنے ٹھٹھک گیا اور کھڑکیوں میں سجی گڑیوں کو بڑے پیار سے دیکھنے لگا۔ ’’تمہارے بہت سارے بھانجے بھتیجے ہیں نصرت الدین؟‘‘ تمارا نے دریافت کیا۔
وہ اس کی طرف مڑا اور سادگی سے کہا۔ ’’میرے پانچ عدد بچّے اور ایک عدد ان کی ماں میری محبوب بیوی ہے۔ میری سب سے بڑی لڑکی اٹھارہ سال کی ہے۔ اس کی شادی ہونے والی ہے۔ اور اس کا منگیتر۔ میرے بڑے بھائی کا لڑکا۔ وہ۔ در اصل ٹسٹ پائلٹ ہے۔ اس لیے۔ کچھ پتہ نہیں۔ بہت خطرناک زندگی ہے اس بے چارے کی‘‘۔ وہ ایک دم خاموش ہو گیا۔
س وقت تمارا کو معلوم ہوا جب کسی پر فالج گرتا ہو تو کیسا لگتا ہو گا۔۔۔
اس نے آہستہ سے خود دار آواز میں جس سے ظاہر نہ ہو کہ شاکی ہے۔ کہا۔ ’’تم نے کبھی بتایا نہیں۔‘‘
’’تم نے کبھی پوچھا نہیں۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اچانک تمارا نے اسے پہلی بار دیکھا۔ وہ ایک سنگی انسان تھا کوہِ بے ستون کے پتھروں سے ترشا ہوا مجسمہ۔
ایک ہفتہ اور گذر گیا۔ تمارا اس سے اسی طرح ملا کی وہ اسے مغرب کی Permissive سوسائٹی کی ایک آوارہ لڑکی سمجھتا ہے تو سمجھا کرے۔ وہ تو اس پر سچے دل سے عاشق تھی۔ اس پر جان دیتی تھی۔
ایک رات ندی کے کنارے بنچ پر بیٹھے ہوئے نصرت الدین نے تمارا سے کہا۔ ’’ہلو خواند خاتون۔‘‘
’’کون۔؟‘‘
’’علاء الدین کیقباد دوم کی ملکہ۔‘‘ کبھی وہ اسے ترکان خاتون کہہ کر پکارتا۔ ملک شاہ سلجوقی کی بیگم۔ کبھی اسے شہزادی ساقی بیگ کہتا۔ ’’کیوں کہ۔ تمہارے اندر کم از کم پندرہ فی صد تاتاری خون تو ہے ہی۔ اور سنو۔ فرض کرو۔‘‘ ندی کے کنارے اسی رات اس نے کہا۔ ’’اگر تمہارے نانا کریمیا ہی میں رہ گئے ہوتے۔ وہیں کسی خان زادی سے شادی کر لی ہوتی اور تمہاری اماں فرض کروں ہمارے کسی او غلو پاشا سے بیاہ کر تبریز آ جاتیں تو تم میری گل چہر خانم ہو سکتی تھیں۔‘‘ دفعتاً وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تاریخ۔ نسل۔ خون۔ کس کا کیا قصور ہے؟ وہ بہت بے رحم تھا۔
نصرت الدین اس کے رونے سے مطلق نہ گھبرایا۔ نرمی سے کہا۔ ’’چلو بی بی جُون۔ گھر چلیں۔‘‘
’’گھر؟‘‘ اس نے سر اٹھا کر کہا۔ ’’میرا گھر کہاں ہے؟‘‘
’’تمہارا گھر ٹورونٹو میں ہے۔ تم نے کبھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ میرا گھر کہاں ہے۔‘‘ نصرت الدین نے ذرا تلخی سے کہا۔
وہ روتی رہی لیکن اچانک دل میں امید کی مدھم سی شمع روشن ہوئی۔ یہ ضرور اپنی بیوی سے ناخوش ہے۔ اس کی ازدواجی زندگی پر سکون نہیں۔ اسی وجہ سے کہہ رہا ہے۔ ’’میرا گھر کہاں ہے؟‘‘ ان تمام مغربی لڑکیوں کی طرح جو مشرقی نوجوانوں سے معاشقے کے دوران ان کی زبان سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تمارا بڑے اشتیاق سے فارسی کے چند فقرے یاد کرنے میں مصروف تھی۔
ایک روز کیفے ٹیریا میں اس نے کہا۔ ’’آغا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ جب ہم بوڑھے ہو جائیں تب ملیں۔‘‘
’’ہاں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘‘
’’آج سے بیس سال بعد جب تم مورخوں کی کسی کانفرنس کی صدارت کے لیے مونٹریال آؤ۔ یا۔ یو این میں ایرانی سفیر ہو کر نیویارک پہنچو۔‘‘
’’اور تم کسی امریکن کروڑ پتی کی فربہ بیوہ ہو۔‘‘
’’ہاں۔ اور ٹفنی میں ہماری اچانک مڈبھیڑ ہو جائے۔ جہاں تم اپنی نواسی کی منگنی کی انگوٹھی خریدنے آئے ہو۔ اور تم سوچو میں نے اس بوڑھی موٹی عورت کو پہلے کہیں دیکھا ہے۔ فارسی میں بوڑھی عورت کو کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’پیرہ زن۔‘‘
’’اور عربی میں؟‘‘
’’مجھے عربی نہیں آتی۔ ترکی اور فرنچ میں البتہ بتا سکتا ہوں۔‘‘
’’سنو نصرت الدین۔ ایک بات سنو۔ آج صبح میں نے ایک عجیب خوف ناک وعدہ اپنے آپ سے کیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’جب میں اس امریکن کروڑ پتی سے شادی کروں گی۔‘‘
’’جو بوجہ السر تمہیں جلد بیوہ کر جائے گا۔‘‘
’’ہاں۔ لیکن اس سے قبل ایک بار۔ صرف ایک بار۔ تم جہاں کہیں بھی ہو گے۔ تبریز۔ اصفہان۔ شیراز۔ میں وہاں پہنچ کر اپنے اس نا معقول شوہر کے ساتھ ضرور بے وفائی کروں گی۔ ضرور بالضرور۔‘‘ نصرت نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’بعض مرتبہ تم مجھے اپنی دادی کی تصویر معلوم ہوتی ہو۔ بعض دفعہ میری لڑکی کی۔ وہ بھی تمہاری طرح۔ تمہاری طرح اپنے ابن عم کو اس شدت سے چاہتی ہے۔‘‘ وہ پھر ملول نظر آیا۔
’’آغا۔ تم مجھے بھی اپنی بنت عم سمجھو۔‘‘
’’تم میری بنتِ عم ہو تو سہی۔‘‘
’’کیوں کہ ہم سب اولادِ آدم ہیں۔ ہے نا۔؟‘‘
’’اولاد آدم۔ اولادِ ابراہیم۔ آل یا فث۔ آلِ اسحاق۔ آل اسماعیل۔ میں انسان کے شجرہ نسب کے اس گھپلے پر مزید روشنی ڈال سکتا تھا۔ تمارا خانم لیکن اب کھانا شروع کرو۔‘‘ وہ ریستوران کی دیوار پر لگے ہوئے آئینے میں اس کا پروفائل دیکھنے لگی اور بولی۔‘‘ میں نے آج تک ایسی خوب صورت ناک نہیں دیکھی۔‘‘
’’میں نے بھی نہیں دیکھی۔‘‘ شریفیان نے کہا۔
’’آغا۔ تم میں نرگسیت بھی ہے؟‘‘۔ تمارا نے پوچھا۔
’’ہے‘‘ وہ شرارت سے مسکرایا۔ اس وقت اچانک تمارا کو ایک قدیم فرانسیسی دعا یاد آئی جو بریٹنی کے ماہی گیر سمندر میں اپنی کشتی لے جانے سے پہلے پڑھتے تھے۔
اے ربِ عظیم۔ میری حفاظت کر میری ناؤ اتنی چھوٹی سی ہے اور تیرا سمندر اتنا بڑا ہے اس نے دل میں دہرایا۔ اے رب عظیم۔ اس کی حفاظت کرنا اس کی ناؤ اتنی چھوٹی سی ہے۔ اور تیرا سمندر ۔۔۔۔۔۔
’’آغا۔ ایک بات بتاؤ۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’تم نے آج کا اخبار پڑھا؟۔ تمہارے ملک کے بہت سے دانش جو اور دانش ور شہنشاہ کے خلاف ہیں۔ انہوں نے برلن میں کل بڑا بھاری جلوس نکالا۔‘‘
’’پڑھا۔‘‘
’’تم تو جلا وطن ایرانی نہیں ہو؟‘‘
’’نہیں۔ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ تمارا خانم میں لڑکے پڑھاتا ہوں۔‘‘
’’اچھا۔ شکر ہے۔ دیکھو۔ کسی خطرے میں نہ پڑنا۔ ہر طرف آج کل دنیا میں خطرہ ہی خطرہ ہے۔ اپنا خیال رکھو۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
اس رات وہ حسب معمول ندی کے کنارے بیٹھے تھے۔ تمارا نے کہا۔ ’’جب ہم اپنے اپنے دیس واپس جائیں گے میں کتنی باتیں یاد کروں گی۔ تم کو خیر میرا خیال بھی نہ آئے گا۔ تم مشرقی لوگوں کی عادت ہے۔ یورپ امریکہ آ کر لڑکیوں کے ساتھ تفریح کی اور واپس چلے گئے۔ بتاؤ میرا خیال کبھی آئے گا؟‘‘
وہ مسکرا کر چپ چاپ پائپ پیتا رہا۔ ’’تم نصرت الدین امام قلی میرا دل رکھنے کے لیے اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ کم از کم سال کے سال ایک عدد نیو ایئرز کارڈ ہی بھیج دیا کرو گے۔ اب تک میرا پتہ بھی نوٹ بک میں نہیں لکھا۔‘‘ اس نے نصرت کے کوٹ کی جیب سے نوٹ بک ڈھونڈ کر نکالی ٹی کا صفحہ پلٹ کر اپنا نام اور پتہ لکھا اور بولی۔ ’’وعدہ کرو۔ یہاں سے جا کر مجھے خط لکھو گے۔‘‘
’’میں غلط وعدے کبھی نہیں کرتا۔‘‘
وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ذرا خفگی سے آگے آگے چلنے لگی۔ نصرت نے چپکے سے جیب میں سے نوٹ بک نکالی۔ وہ صفحہ علاحدہ کیا جس پر تمارا نے اپنا پتہ لکھا تھا۔ باریک باریک پرزے کر کے ان کی گولی بنائی اور ندی میں پھینک دی۔
صبح سویرے چھ بجے تمارا کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے تکیے سے ذرا سا سر اٹھا کر دریچے کے باہر دیکھا۔ صبح کی روشنی نقرئی پانی کی مانند صنوبروں پر پھیل رہی تھی۔ چند لمحوں بعد اس نے آنکھیں بند کیں اور پھر سو گئی۔ سوا آٹھ کے قریب جب وہ بستر سے اٹھی نصرت میز پر ناشتہ چننے میں مصروف ہو چکا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ تمارا نے کروٹ بدل کر کاہلی سے ہاتھ بڑھایا۔ ٹیلی فون پلنگ کے سرہانے کتابوں کے انبار پر رکھا تھا۔ اس نے ذرا سا سرک کر رسیور اٹھایا۔ اور ’’الو‘‘ کہے بغیر نصرت کو اشارے سے بلایا۔ وہ لپک کر آیا اور رسیور ہاتھ میں لے کر کسی سے فرنچ میں باتیں کرنے لگا۔ گفتگو ختم کرنے کے بعد نصرت نے جھک کر اس سے کہا۔ ’’خانم جُون۔ اب اٹھو۔‘‘
اس نے سستی سے کلاک پر نظر ڈالی اور منٹ کی سوئی کو آہستہ آہستہ پھسلتے دیکھتی رہی۔
نصرت باورچی خانے میں گیا۔ قہوے کی کشتی لا کر گول میز پر رکھی۔ تمارا کو آواز دی اور دریچے کے قریب کھڑے ہو کر قہوہ پینے میں مصروف ہو گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں توس تھا اور دوسرے میں پیالی۔ اور وہ ذرا جلدی جلدی توس کھاتا جا رہا تھا۔
سفید جالی کے پردے کے مقابل اس کے پروفائل نے بے حد غضب ڈھایا۔
تمارا چھلانگ لگا کر پلنگ سے اتری اور اس کے قریب جا کر بڑے لاڈ سے کہا۔ ’’آج اتنی جلدی کیا ہے۔ تم ہمیشہ دیر سے کام پر جاتے ہو۔‘‘
’’ساڑھے نو بجے وائس چانسلر سے اپوائنٹمنٹ ہے۔‘‘ اس نے کلاک پر نظر ڈال کر جواب دیا۔
’’جھٹ پٹ تیار ہو کر ناشتہ کر لو۔ تمہیں راستے میں اتارتا جاؤں گا۔‘‘
ٹھیک پونے نو پر وہ دونوں عمارت سے باہر نکلے۔ صنوبروں کے جھنڈ میں سے گذرتے سڑک کی طرف روانہ ہو گئے۔ رات بارش ہوئی تھی اور بڑی سہانی ہوا چل رہی تھی۔ گھاس میں کھلے زرد پھولوں کی وسعت میں لہریں سی اٹھ رہی تھیں۔ وہ دس منٹ تک سڑک کے کنارے ٹیکسی کے انتظار میں کھڑے رہے۔ اتنے میں ایک بس آتی نظر آئی۔ نصرت نے آنکھیں چندھیا کر اس کا نمبر پڑھا اور تمارا سے بولا۔ ’’یہ تمہارے ہوسٹل کی طرف نہیں جاتی۔ تم دوسری بس میں چلی جانا میں اسے پکڑتا ہوں۔‘‘
اس نے ہاتھ اٹھا کر بس روکی۔ تمارا کی طرف پلٹ کر کہا۔ ’’خدا حافظ۔‘‘ اور لپک کر بس میں سوار ہو گیا۔
شام کو کلاس سے واپس آ کر تمارا نے حسب معمول اسے فون کیا۔ گھنٹی بجی وہ شاید اب تک واپس نہ آیا تھا۔ دوسری صبح اتوار تھا۔ وہ کافی دیر میں سو کر اٹھی۔ اس کی جرمن روم میٹ باہر جا چکی تھی۔ اس نے اٹھ کر حسب معمول دروازے کے نیچے پڑے ہوئے سنڈے ایڈیشن اٹھائے سب سے اوپر والے اخبار کی شہہ سرخی میں وہ خوف ناک خبر چھپی تھی۔ اس کی تصویر بھی شایع ہوئی تھی۔ وہ دکتور نصرت الدین امام قلی شریفیان پروفیسر تاریخ دانش گاہ تبریز نہیں تھا۔ وہ ایرانی بھی نہیں تھا۔ لیکن اخبار میں اس کا جو نام چھپا تھا وہ بھی غالباً اس کا اصل نام نہ تھا۔ اس کے ساتھ دوسری تصویر اس دبلے پتلے نوجوان کی تھی جو ٹرین میں سارا وقت اخبار پڑھتا رہا تھا اور خاموشی سے ایک قصبے کے اسٹیشن پر اتر گیا تھا۔ نزدیک کے ایک شہر کے ایئر پورٹ میں ایک طیارے پر دستی بموں اور مشین گنوں سے حملہ کرتے ہوئے وہ تین مارے گئے تھے۔ نصرت الدین نے حملہ کرنے کے بعد سب سے پہلے دستی بم سے خود کو ہلاک کیا تھا۔ ہنسی خوشی اپنی مرضی سے ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گیا تھا۔
وہ دن بھر نیم غشی کے عالم میں پلنگ پر پڑی رہی۔ متواتر اور مسلسل اس کے دماغ میں طرح طرح کی تصویریں گھومتی رہیں۔ جیسے انسان کو سر سام یا ہائی بلڈ پریشر کے حملے کے دوران انوکھے نظارے دکھلائی پڑتے ہیں۔ رنگ برنگے موتیوں کی جھالریں۔ سمندر۔ بے تکی شکلیں۔ آگ۔ اور آوازیں۔ شاید وہ Clare audience کا شکار بھی ہو چکی تھی۔ کیوں کہ اس کے کان میں صاف آوازیں اس طرح آیا کیں جیسے کوئی برابر بیٹھا باتیں کر رہا ہو۔ اور ٹرین کی گڑگڑاہٹ۔ میں نے تمہاری بات سنی تھی۔ جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ عنقریب موت کے منہ میں جانے والا ہے۔ وہ سخت دل ہو جاتا ہے۔ یہ ہمارا سنگتروں کا باغ تھا۔ تم نے کبھی مجھ سے نہ پوچھا میرا گھر کہاں ہے۔ ونڈر فل۔ میں تمہاری زندگی! ہا ہا۔ میری زندگی۔ جان من۔ چلو وقت نہیں ہے۔ وقت بہت کم ہے۔ قربُون۔ وقت ضایع نہ کرو۔ میری لڑکی کا منگیتر۔ بہت خطرناک زندگی ہے اس بے چارے کی۔ مجھے عربی نہیں آتی ہے۔ ہلو ترکان خاتون۔ میں غلط وعدے کبھی نہیں کرتا۔ ایسے وعدے کبھی نہیں کرتا جو نبھا نہ سکوں۔ تم میری بنتِ عم ہو تو سہی۔ آل اسحاق۔ آلِ اسماعیل۔ میں نبی آدم کے شجرے کے اس گھپلے پر مزید روشنی ڈال سکتا ہوں۔ لیکن تمارا خانم کھانا شروع کرو۔ دیکھو
’’نصرت خطرے میں نہ پڑنا۔ ہر طرف دنیا میں خطرہ ہی خطرہ ہو۔ اپنا خیال رکھو۔‘‘
’’اچھا رکھوں گا۔ شہزادی ساقی بیگ۔‘‘
اندھیرا پڑے پالا اس کی روم میٹ کمرے میں آئی۔ روشنی جلا کر تمارا کی طرف دیکھے بغیر بے دھیانی سے میکانیکی انداز میں ہاتھ بڑھا کر ٹیلی ویڑن کا سوئچ آن کیا اور گنگناتی ہوئی بالکنی میں چلی گئی۔ تمارا کروٹ بدل کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے برفیلی نیلی اسکرین دیکھنے لگی۔ کچھ دیر بعد نیوز ریل شروع ہوئی۔ اچانک اس کا کلوز اپ سامنے آیا۔ آدھا چہرہ۔ آدھا دستی بم سے اڑ چکا تھا۔ صرف پروفائل باقی تھا۔ دماغ بھی اڑ چکا تھا۔ ایئر پورٹ کے چمکیلے شفاف فرش پر اس کا بھیجا بکھرا پڑا تھا۔ اور انتڑیاں۔ سیاہ جما ہوا خون۔ کٹا ہوا ہاتھ۔ کارتوس کی پیٹی۔ گوشت اور ہڈیوں کا مختصر سا ملغوبہ۔
’’تم بہت اچھے اداکار ہو۔ کم از کم ٹی وی اسٹار تو بن سکتے ہو۔‘‘
’’واقعی؟ جلد تم مجھے ٹی وی اسکرین پر دیکھ لو گی۔‘‘
کیمرہ پیچھے ہٹا۔ لالہ کا ایک گلدستہ جو بھگدڑ میں کسی مسافر کے ہاتھ سے چھٹ کر گر گیا تھا۔ برابر میں۔ نصرت الدین کا کٹا ہوا ہاتھ لالہ کے پھول اس کے خون میں لت پت۔ پھر اس کا آدھا چہرہ۔ پھر گوشت کا ملغوبہ۔ اس ملغوبے کو اتنے قریب دیکھ کر تمارا کو ابکائی سی آئی۔ وہ چکرا کر اٹھی اور غسل خانے کی طرف بھاگنا چاہا۔ اس کی ہیبت زدہ چیخ سن کر پالا، اس کی روم میٹ، بالکنی سے لپکی ہوئی آئی۔ تمارا نے دیکھا پالا کا چہرہ نیلا اور سفید تھا۔
پالا نے فوراً ٹیلی ویژن بند کیا اور اسے فرش پر سے اٹھانے کے لیے جھکی۔ پالا کے سر پر سفید اسکارف بندھا تھا۔ جیسے نرس آپریشن ٹیبل پر سرطان کے مریض کو لٹاتی ہو۔ یا اسے ایک ٹرالی پر بٹھا کر گیس چیمبر کے اندر لے جایا جا رہا تھا۔ اور برابر کی بھٹی میں انسان زندہ جلائے جا رہے تھے ان کا سیاہ دھواں چمنیوں میں سے نکل کر آسمان کی نیلاہٹ میں گھلتا جا رہا تھا۔ اب وہ ایک نیلے ہال میں تھی۔ دیواریں فرش چھت برف کی طرح نیلی اور سرد۔ کمرے کے بعد کمرے۔ گیلریاں۔ سب نیلے۔ ایک کمرے میں سفید آتش دان کے پاس ایک نیلے چہرے والی عورت کھڑی تھی۔ شکل سے سنٹرل یوروپین معلوم ہوتی تھی۔ پورا سراپا ایسا نیلا جیسے رنگین تصویر کا نیلا پروف جو ابھی پریس سے تیار ہو کر نہ نکلا ہو۔ ایک اور ہال۔ اس کے وسط میں قالین بانی کا کرگھا۔ کرگھے پر ادھ بُنا قالین۔ اس پر ’’شجرِ حیات‘‘ کا ادھورا نمونہ۔
’’یہ شجرِ حیات کیا چیز ہے نصرت الدین؟‘‘
’’مڈل ایسٹ کے قالینوں کا موتیف خانم جون۔‘‘ کرگھے کی دوسری طرف سر پر رو مال باندھے دو مڈل ایسٹرن عورتیں۔ پھر بہت سے پردے جیسے محلات میں ہوتے ہیں۔ اطلسی آبشار۔ پردوں کے انبار میں الجھ گئی پھر اس نے بگٹٹ بھاگنا شروع کیا۔ مگر گیلری طویل ہوتی چلی گئی۔ وہ نیچے اتری جیسے بنک کے تہہ خانے ہوتے ہیں چمکیلی سنگلاخ دیواریں۔ چمکیلا فرش۔ جیل خانے کے کوریڈور جیسا۔
اب وہ ایک بہت وسیع سرنگ میں چل رہی تھی۔ اچانک اسے چند کیچڑ کے آدمی نظر آئے۔ وہ اس سرنگ یا انڈر گراؤنڈ ریلوے کے سنسنان کوریڈور میں ایک میں ہول کے اندر اور اس کے گرد پھاؤڑے لیے کھڑے تھے۔ کیچڑ کے چہرے۔ کیچڑ کی وردیاں اسے دیکھ کر استہزا سے ہنسے۔ وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی۔ عین سامنے چوڑا دروازہ تھا۔ دروازے کے باہر شہر کا بازار۔ بارش ہو رہی تھی۔ ٹرامیں ٹن ٹن کرتی گذر رہی تھیں۔ دروازے کے برابر ایک پھول والی برساتی اوڑھے بیٹھی پھول بیچ رہی تھی۔ اس کے قریب جا کر اس عورت کو چھوا۔ وہ عورت مردہ تھی۔ اسے کوئی تعجب نہ ہوا۔ آگے بڑھی۔ سڑک پر مردوں کا ہجوم تھا۔ بسیں اور ٹرامیں مردے چلا رہے تھے۔ دکانوں میں خرید و فروخت مردے کر رہے تھے۔ ایک تھیٹر بال میں جھانکا۔ اسٹیج پر ’’سوان لیک‘‘ میں مردے رقصاں تھے اور تماشائی بے جان تھے۔
’’یہ زومبی ہیں نا؟‘‘۔ اس نے ایک آدمی سے پوچھا جو تیز تیز قدم رکھتا اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔ ’’قیں قیں‘‘۔ اس آدمی نے مونچھوں پر ہاتھ پھیر کر جواب دیا۔ ’’زومبی نہیں مادموزیل۔ خالص۔ اصلی مردے۔‘‘ وہ آدمی بہت لمبا تھا۔ تاڑ کا تاڑ۔ گریٹ کوٹ میں ملبوس مفلر سے سر چھپائے۔ مستقل مونچھوں پر ہاتھ رکھ کر بولتا تھا۔ اس کی آنکھیں ٹریفک کی بتیوں کی مانند کبھی سرخ ہو جاتیں کبھی سبز۔ اچانک اس نے تمارا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کا پنجہ لوہے کا تھا۔
’’اکس کیوز می۔‘‘ تمارا نے نرمی سے کہا اور ہاتھ چھڑا کر بھاگتی ہوئی ایک بس میں سوار ہو گئی۔ چاروں طرف دیکھا۔ شاید اس بس میں نصرت موجود ہو۔ یہ اس کے ہوسٹل کی طرف جاتی ہے۔ نمبر پڑھ لیا تھا۔ ایک دفعہ نصرت مل جائے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ دفعتاً بس خالی ہو گئی۔ بغیر ڈرائیور بغیر مسافروں کے فراٹے بھرتی ایک پل پر سے گذر کر قبرستان کے پھاٹک پر رک گئی۔ یہ زندوں کا قبرستان ہے۔ تمارا نے اپنے آپ کو بتایا اب اسے ساری باتیں آپ سے آپ معلوم ہوتی جا رہی تھیں۔ میں چیزوں کو ان کے اصل بنیادی روپ میں دیکھ رہی ہوں۔
اندر جا کر اس نے ایک ایئر کنڈیشنڈ قبر میں جھانکا۔ یہ ایک Split Level قبر تھی۔ اندر رنگین ٹیلی ویژن کے سامنے زندہ لوگ بیٹھے شراب پی رہے تھے۔ ٹیلی ویژن پر سنٹرل یوروپین نیلی چہرے والی عورت ’’للی مارلین‘‘ گا رہی تھی۔ اس نے ۱۹۱۶ء کے فیشن کا لباس پہن رکھا تھا۔ گڑگڑاہٹ کے ساتھ خبریں شروع ہو گئیں۔ وہ خبریں سننا نہ چاہتی تھی اس لیے بھاگی۔
راستے میں اس نے دیکھا کہ جنازے قبرستانوں سے الٹے گھروں کی طرف جا رہے ہیں۔ قبریں زندوں سے بھر گئی ہیں جگہ نہیں ملی۔ اس نے اپنے آپ کو بتایا۔ اور شہر واپس آئی۔ یہاں حسب معمول ہر جگہ مردے ہی مردے تھے۔ دفتروں میں کارخانوں میں ہر جگہ بعض مردوں نے پچھلی صدیوں کے لباس پہن رکھے تھے۔
اس کے سامنے ایک سولہویں صدی کا برطانوی بادشاہ اپنا تاج سیدھا کرتا ذرا جھینپا جھینپا کیوں کہ اس کا شاہی لباس بے حد شکن آلود اور بوسیدہ تھا۔ تابوت سے نکلا۔ (تابوت گاڑی کو باوردی مردے کھینچ رہے تھے) سلامی لیتا ایک بنک کی سیڑھیاں چڑھا اور جا کر منیجر کی کرسی پر گم صم بیٹھ گیا۔ اور مٹی کے رنگ کی بھر بھری داڑھی پر ہاتھ پھیرتا رہا۔
باہر پارک میں اٹھارہویں صدی کی مردہ عورتیں سائیکل چلانے کی مشق کر رہی تھیں۔ ان کے منجمد چہرے مٹی کے تھے۔ ’’یہ ان لوگوں کو کیوں بلایا گیا ہے۔‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’جنرل لام بندی۔‘‘ ایک گیارہویں صدی کے نارمن کسان نے جواب دیا اور سر جھکائے پارک کی کیاری میں کدال چلاتا رہا۔ اس کے ہاتھ بالکل خشک اور سیاہ تھے۔
تب اس نے سوچا وقت دعا ہے۔ توبہ استغفار۔ توبہ استغفار۔ ایک عظیم الشان صومعہ فوراً اس کے سامنے آ گیا۔ وہ سرپر رو مال باندھ کر اس کے صدر دروازے کی طرف بڑھی۔ اندر ربائی نماز عشا پڑھانے میں مصروف تھا۔ دروازے کی محراب کے نیچے ایک آدمی گھٹنوں میں منہ چھپائے بیٹھا سر پر خاک ڈال رہا تھا۔ ’’معاف کیجئے گا آپ حضرت ایوب ہیں۔‘‘ اس نے ادب سے جھک کر دریافت کیا۔ ’’نہیں۔ میں بلبلا کر خدا کو پکارتا ہوں۔ مگر منہ سے صرف گالیاں نکلتی ہیں۔‘‘ آدمی نے سر اٹھا کر جواب دیا۔ ’’آپ ابلیس ہیں؟‘‘
’’یا ابلیس یا مجذوب یا محض نروس بریک ڈاؤن کا شکار۔‘‘ اس نے جواب دیا اور مزید راکھ سرپر ڈالی۔ ’’آپ نے ایل۔ ایس۔ ڈی نوش جان کی ہو گی۔ آپ کی روح کو کیا تکلیف ہے۔‘‘
’’روح؟ روح گئی چولہے بھاڑ میں۔ کیسی روح؟‘‘ اس نے جواب دیا اور بال نوچے۔ میں چیزوں کو ان کے بنیادی روپ میں دیکھ رہی ہوں اس نے دل میں دہرایا اور خود کو بہت عاقل اور ہلکا پھلکا محسوس کیا۔
وہ ایک انڈر گراؤنڈ ٹرین میں موجود تھی۔ ٹرین کبھی کھچا کھچ بھر جاتی۔ کبھی ایک دم خالی۔ اس میں دنیا بھر کی قوموں کے لوگ سوار تھے اور زمین کے نیچے نیچے آواز سے زیادہ تیز رفتار سے ساری دنیا میں گھوم رہی تھی۔ سرحدوں کے بعد سرحدیں۔ اور الجزائر اور سنائی اور سوریہ اور ٹرین سمندر کے نیچے سے نکل کر ایک تپتے ہوئے صحرا میں آ گئی اور بغیر پٹریوں کے ریت پر چلنے لگی۔ اور گڑگڑاتی ہوئی سامنے پٹرا کے سرخ رومن کھنڈروں میں گھس گئی۔ اور ٹائیر اور صدون اور نینوا افق پر سنسان خیموں کے پردے بادِ سموم میں پھٹپھٹا رہے تھے۔ سارے میں جلی ہوئی رسیاں اور جلے ہوئے پردے اور بچوں کی ننھی منی جوتیاں بکھری پڑی تھیں۔
بہت دور فرات بہہ رہا تھا۔ اس کے کنارے ایک گھوڑا زور سے ہنہنایا اور کسی نے بڑی کرب ناک آواز میں پکارا۔ العطش۔ العطش۔ اس کے کیا معنیٰ ہیں۔ ا س کی سمجھ میں نہ آیا۔ کیوں کہ اسے کوئی زبان نہ آتی تھی۔ سوا اپنی زبان کے۔ میں اب واپس جانا چاہتی ہوں۔ میں وہاں ہو آئی ہوں وہاں کچھ نہیں ہے پرچھائیوں کی پرچھائیاں بھی نہیں ہیں۔ لیکن آواز برابر گونجا کی۔ العطش۔ پھر ایک لرزہ خیز چیخ بلند ہوئی۔ العطش۔
اچانک سورج کی روشنی بہت تیز ہو گئی۔ تباہ شدہ خیمہ گاہ اب صاف بہت قریب نظر آ رہی تھی۔ ’’آج خیمہ گاہوں پر پھر بم باری کی گئی ہے۔‘‘ جرمن نیوز کاسٹر نے کہا۔ تیسرے روز جب اس کی طبیعت سنبھلی اور وہ کلاس کے بعد لنچ کے لیے اسی کیفے ٹیریا میں گئی دریچے کے سامنے والی میز پر اس وقت دو ہندوستانی طالب علم بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ ان کے سامنے تازہ اخبار رکھا تھا جس میں ’’نصرت الدین‘‘ اور اس کے ساتھیوں کی مزید تصویریں اور تفصیلات چھپی تھیں۔ تمارا جلدی سے کاؤنٹر کے پاس جا کر قطار میں لگ گئی۔
بیاباں میں ہے بیاباں میں ہے دونوں طالب علم کسی اجنبی زبان میں بات کر رہے تھے اور ان کے جوش و خروش سے اندازہ ہوتا تھا کہ شعر پڑھ رہے ہیں۔ (جیسے وہ فارسی اشعار اسے سنایا کرتا تھا) ۔
آئس لینڈک کی طرح دنیا میں کتنی زبانیں ہیں جو تمارا کو نہیں آتیں، کتنے جذبات، تصورات، نظریے، خواب، کرب اندوہ جن سے وہ واقف ہونا نہیں چاہتی۔ کافی کچھ جان جاننے کے باوجود۔ منتظر لالہ کب سے۔ کانٹا چمچے اور پلیٹ اٹھا کر وہ قطار میں آگے سرکی۔ قبا چاہئے۔ قبا چاہئے۔ اس کو خون عرب سے۔ سامنے سے تمارا گرین برگ کو اپنی ٹرے اٹھائے آتا دیکھ کر وہ لڑکے معاً خاموش ہو گئے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...