ستمبر ۱۹۶۵ء کے دوسرے ہفتے میں ایک روز صبح آگرے کے ایک مغربی ہوٹل میں بریک فاسٹ کی سریلی گھنٹی بج چکی تھی اور چند یورپین اور امریکن سیاح برآمدے میں اور گھاس پر بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ ایک سفید رنگ کی رولز رائس پھاٹک میں داخل ہو کر برآمدے کے سامنے رکی۔ سفید براق وردی میں جھلملاتے گورے چٹے شوفر نے جس کی پلکیں اور بال بادلوں کی طرح رو پہلے تھے اتر کر پچھلا دروازہ کھولا۔ سرمئی رنگ کے سوٹ میں ملبوس ایک وجیہہ گیہواں رنگت سفید مونچھوں پر سکون چہرے اور مضبوط ڈیل ڈول والا پچپن سالہ شخص اور ہرے رنگ کے سلیکس اور سفید سوئٹر پہنے ایک شان دار عورت جو چہرے مہرے سے برطانوی معلوم ہوتی تھی کار سے برآمد ہوئے۔ مرد کے داہنے ہاتھ کی انگوٹھی کا بہت بڑا ہیرا دھوپ میں بجلی کے کوندے کی طرح چمکا۔ باریک بھوؤں لپ اسٹک سے عاری پتلے پتلے ہونٹوں اور سنہرے بالوں والی عورت بھی چالیس پینتالیس کے پیٹے میں تھی۔
دوسرے سیاحوں نے رولز کو چونک کر دیکھا ان دو شان دار نو واردوں پر نظر ڈالی اور اپنے اپنے اخباروں کی طرف متوجہ ہو گئے۔
ان دونوں کے ساتھ کوئی سامان نہیں تھا۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے کے کاؤنٹر کی طرف بڑھے۔ مرد کے بائیں پاؤں کے خفیف سے لنگ کے باوجود اس کی چال میں شاہانہ دبدبہ تھا۔ عورت بھی بے حد با وقار تھی۔
’’گڈ مارننگ سر۔۔۔۔۔ میڈم۔‘‘ ریسپشن کلرک نے مسکرا کر کہا ’’ویلکم ٹو آگرہ۔۔۔۔۔‘‘ مرد نے جواباً سر کو خفیف سی جنبش دی۔ کلرک نے رجسٹر کا ورق پلٹتے ہوئے دریافت کیا ’’ڈبل روم سر؟‘‘
’’دو سنگل روم۔‘‘ مرد نے تمکنت سے جواب دیا۔ کلرک نے قلم پیش کیا۔ مرد نے ہلکی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ قلم پکڑا اور رجسٹر پر اس طرح نظر ڈالی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اپنی انگریزی ساتھی کے ہم راہ ذرا مشکوک حالات میں یہاں آیا ہے اور شاید قلم سنبھالنے کی اسے عادت بھی نہیں ہے۔
گھاگ اور تجربہ کار کلرک نے آہستہ سے کھانس کر کہا۔۔۔۔ ’’آپ کا پاسپورٹ نمبر سر؟‘‘
’’پاسپورٹ؟‘‘ مرد نے دفعتاً غصے اور حیرت سے دہرایا۔ اب عورت نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی۔ قلم اس کے ہاتھ سے لیا اور ذرا سوچتے ہوئے رجسٹر میں لکھا: شری ایم۔ اے۔ مرزا قومیت: ہندوستانی مس ای۔ ہنری قومیت: برطانوی۔‘‘
’’آپ کا پاسپورٹ نمبر اور پورا پتہ میڈیم۔۔۔۔۔؟‘‘ کلرک نے استفسار کیا۔
’’پاسپورٹ اور پتہ؟ میں۔۔۔۔۔ میں اپنا پاسپورٹ۔۔۔۔۔ دلّی بھول آئی ہوں۔‘‘ عورت نے ذرا گھبرا کر مگر فوراً بڑی گمبھیرتا سے جواب دیا۔
’’سوری میڈیم۔۔۔۔۔ یہ ہوٹل کا قانون ہے۔ دوسرے یہ کہ آج کل انڈ و پاک جنگ کی وجہ سے ہمیں زیادہ احتیاط برتنی پڑ رہی ہے۔۔۔۔۔‘‘ کلرک نے کہا۔ ’’میں نئی دلّی برطانوی ہائی کمیشن کو فون کر کے آپ کے متعلق چیک کر لوں۔۔۔۔۔ معاف کیجئے گا میڈیم۔۔۔۔۔ یہ محض رسمی خانہ پری ہے۔‘‘
’’برطانوی ہائی کمیشن؟ ہرگز نہیں۔۔۔۔۔‘‘ عورت نے بڑی پر شکوہ انداز میں غصے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
کلرک اب اس نو وارد شان دار جوڑے کو باقاعدہ شک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ مرد نے اب اپنی ساتھی کی مدد کرنا چاہی اور ذرا ملائمت سے کہا ’’ہم یہاں رات کو قیام نہیں کریں گے۔‘‘ کلرک نے مرد پر نظر ڈالی جو اپنے داہنے شانے کی طرف سر کو عادتاً خم کیے ذرا اکتایا ہوا سا کھڑا تھا۔ اس کی با رعب اور دل نشین شخصیت سے یک لخت بھونچکا سا ہو کر کلرک نے جلدی سے کہا ’’بہت اچھا۔ میں منیجر سے بات کرتا ہوں۔‘‘ اور کمروں کی کنجیاں مہمانوں کو پیش کرتے ہوئے بیرے کو آواز دی ’’عبد الشکور‘‘ عبد الشکور کی قیادت میں مہمان کمروں کی طرف بڑھنے لگے تو عورت راستے میں ہندوستانی مصنوعات اور ساڑیوں کی دوکان کے سامنے ٹھٹھک گئی۔
’’سوئیٹ چیزس! ہاؤ بیوٹی فل! نہ جانے اس نیلے ریشم کی قیمت کیا ہو گی۔۔۔۔۔‘‘ اس نے ایک کپڑے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مرد کو حیرت سے مخاطب کیا۔
’’… کل ہمارے مجاہدوں نے بھارت کے۔۔۔۔۔‘‘ دوکان کے ریڈیو میں سے آواز آئی۔ ’’ہمارے جوانوں نے کل سیالکوٹ سیکٹر … ایک ٹرانزسسٹر میں سے آواز آئی۔
’’آج لڑائی زوروں پر ہے صاحب۔۔۔۔۔ آگرے پر بھی بمباری کا خطرہ ہے۔۔۔۔۔‘‘ دوکان دار نے کہا۔
’’آگرے پر بمباری۔۔۔۔۔‘‘ مہمان نے دہرایا وہ اور اس کی برطانوی رفیق سفر آہستہ آہستہ چلتے لاونج میں جا کر ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ مرد باہر باغ کے درختوں پر منڈلاتی زرد تتلیوں کو دیکھتا رہا۔ عورت نے دیوار پر آئینے کے سامنے جا کر بڑی احتیاط سے لپ اسٹک لگائی۔
’’صاحب۔۔۔۔۔ تاج جانے کے لیے کوئی چھوکرا ساتھ کروں؟‘‘ عبد الشکور بیرے نے آ کر دریافت کیا۔
’’نہیں۔۔۔۔۔‘‘ مرد نے چونک کر اور بیرے پر نظر ڈال کر نرمی سے جواب دیا۔
’’ہم آگرے کے راستوں سے واقف ہیں۔‘‘
’’آپ کے سانولے رنگ کے باوجود آپ کے ہم وطن نہ جانے کیوں آپ کو غیر ملکی سمجھنے پر مصر ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہیں آپ غیر ملکی ہی۔ پکّا ہندوستانی بننے کی کوشش تو ضرور کی آپ نے مگر ناکام رہے!‘‘ عورت نے مسکرا کر کہا اور میز پر سے لندن کا تازہ‘‘ اوبزرور‘‘ اٹھا لیا۔
’’ہندو انڈیا اور مسلم پاکستان میں مذہبی جنگ‘‘ اس نے اخبار کی ایک سرخی پڑھ کر سنائی۔
’’تشریف لائیے تاج محل دیکھ آئیں‘‘
مرد نے سکون سے کہا۔
’’ذرا ٹھہریئے۔ میں ہاتھ منہ دھو لوں۔۔۔۔۔ آپ کے پیارے ہندوستان کی خاک دھول۔۔۔۔۔!‘‘ وہ سراٹھائے وقار کے ساتھ چلتی ہوئی اپنے کمرے کی سمت روانہ ہو گئی۔
رولز تاج کے سامنے جا کر رکی۔ وہ دونوں کار سے اترے۔ امریکن سیاحوں کی ٹولیاں اور ہندوستانیوں کے گروہ۔۔۔۔۔ نائیلون کی ساڑیاں اور شوخ رنگوں کی شلواریں پہنے نئے متوسط طبقے کی عورتیں اسکول کی لڑکیاں کالج کی طلباء جنتا کے عام افراد جوق در جوق اندر جا رہے تھے۔ ایک درخت کے نیچے ایک کانسٹبل ایک مسکین سے پھٹے ہوئے سیاہ سوٹ اور بوٹائی والے فوٹوگرافر کو پھٹکارنے میں مصروف تھا۔ ایک گائیڈ نے رولز رائیس سے اترنے والوں کا تعاقب کیا۔۔۔۔۔‘‘ گائیڈ میڈیم تاج محل بلٹ بائی شاہ جہاں۔ گریٹ لو اسٹوری۔‘‘
’’بھاگ جاؤ۔۔۔۔۔‘‘ انگریز عورت نے غصے سے پیر پٹخا۔ گائیڈ نے حیرت سے نک چڑھی میم صاحب پر نظر ڈالی۔
’’چلے آتے ہیں تھرڈلے۔۔۔۔۔ کنجوس‘‘ وہ بڑبڑاتا ہوا آگے چلا گیا۔ سرمئی سوٹ والا شخص عالم حیرت میں کھویا تاج محل اور اس کے پیش منظر کو دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اور اس کی ساتھی چبوترے پر سے گذر کر جمنا کے رخ ایک منڈیر پر ٹک گئے۔
ان سے کچھ فاصلے پر تین چار صحافی زور زور سے تبادلہ خیالات کر رہے تھے۔ ’’یہ ہے نیا سماجی انقلاب۔۔۔۔۔‘‘ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا ’’آج سے دس سال قبل عوام کی اتنی بڑی تعداد کے پاس پہننے کے لیے ریشمی کپڑے نہیں تھے اتنے بچے اسکول نہیں جاتے تھے دیہاتیوں کے پاس اتنی سائیکلیں نہیں تھیں۔‘‘
’’جی ہاں۔۔۔۔۔ لیکن آپ بھولتے ہیں کہ آج ہر تیسری چپاتی جو ہر ہندوستانی کھا رہا ہے امریکن گیہوں کی ہے۔۔۔۔۔‘‘ دوسرے نے کہا۔ ’’نہرو کو صرف خواب دیکھنے آتے تھے۔۔۔۔۔‘‘ تیسرے نے کہا۔ ’’… تاج یقیناً ہندو محل ہے۔ اب وقت آ گیا ہے ہمیں ہندوستان کی تاریخ از سر نو لکھنا چاہئے۔‘‘ ایک یونی ورسٹی کا طالب علم اپنے ہم جماعت سے بات کرتا ہوا پاس سے گذرا۔
’’ارے بھائی شیخ صاحب! وہ آپ کے دوست شرما جی تو بڑے سخت جن سنگھی نکلے مجھ سے بحث کر رہے تھے چنیں و چناں۔۔۔۔۔ میں بھی پرانا مسلم لیگی۔ میں نے جواب دیا حضرت ایک بڑا بادشاہ تو آپ لوگوں نے پیدا نہیں کیا۔ اشوک بودھ تھا۔ چندر گپت موریہ جین تھا۔ اکبر مسلمان تھا۔۔۔۔۔ قائل ہو گئے! کیوں شیخ صاحب۔۔۔۔۔ کیسی رہی؟‘‘ مینار کی دوسری طرف ایک صاحب اپنے دوست سے کہہ رہے تھے۔ ’’ہاں بھئی مسلمان کی بھی کیا شان ہے۔‘‘ دوست نے جواب دیا۔
سرمئی سوٹ اور سفید مونچھوں والے شخص کی ساتھی ہونٹ پچکا کر مسکرائی اور پوچھا ’’شام کو پھر یہاں آئیں گے نا؟ میں تاج کو چاندنی میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’حد ہے۔‘‘ اس کے ساتھی نے نرمی اور اداسی سے مسکرا کر کہا۔
’’اپنے جاں نثاروں کو قتل کرتے رہنے کی بجائے آپ کو چاہئے تھا کہ ان میں سے ایک سے شادی کر لیتیں۔‘‘
’’شادی؟ ہا ہا۔۔۔۔۔‘‘ انگریز عورت نے ہونٹ پچکا کر کہا۔ ’’آپ جیسی پریشان کن بیبیوں کو ہمارے یہاں کوار کوٹلے میں بند کر دیا جاتا تھا!‘‘
’’اب قلعہ‘‘۔ عورت نے گائیڈ بک کھولتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں سمن برج میں بیٹھے تھے۔
قلعہ میں بھی غیر ملکی اور ہندوستانی سیاحوں کا میلہ سا لگا تھا۔ دور جمنا کے گھاٹ پر دھوبنیں کپڑے دھو رہی تھیں۔ ستمبر کی دھوپ تیز ہوتی جا رہی تھی۔
’’جھروکہ درشن۔۔۔۔۔ دیوان عام۔۔۔۔۔ بیگمات۔۔۔۔۔ مینا بازار۔۔۔۔۔ کنیزیں۔۔۔۔۔ منصب دار۔۔۔۔۔ خواجہ سرا۔۔۔۔۔ جو کچھ رالف نے یہاں سے جا کر مجھے بتایا تھا آنکھیں بند کر لوں تو سب سامنے آ جاتا ہے۔۔۔۔۔‘‘ عورت نے آہستہ سے کہا ’’وہ سامنے سنگی تخت پر شاہ جہاں بیٹھا کرتا تھا؟‘‘
’’سامنے مہتابی پر؟ نہیں۔۔۔۔۔ وہ خرّم کا نہیں سلیم۔۔۔۔۔ سلیم کا تخت ہے۔‘‘ مرد نے چونک کر جواب دیا۔ برابر کی برجی میں دو انگریز اور دو امریکن آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ’’… ہندوستانیوں کی مجموعی نا اہلی دیکھ کر مجھے اس مغربی نظریہ پر یقین آ گیا ہے کہ تاج ایک اطالوی معمار نے بنایا تھا۔‘‘ انگریز کی آواز آئی۔ انگریز عورت ذرا خجل سی نظر آئی۔ وہ دونوں نیچے اترے۔
نچلی منزل میں چگّی داڑھی والا ایک گائیڈ غسل خانے کے دروازے میں کھڑا ایک ہندوستانی جوڑے کو بتا رہا تھا۔۔۔۔ ’’یہ دیکھئے۔۔۔۔ ’’مغل اعظم‘‘ کے نمونے پر۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے ’’مغل اعظم‘‘ کا شیش محل اس کمرے کے نمونے پر بنایا گیا تھا۔۔۔۔۔‘‘ سرمئی سوٹ والے نے اچانک ایک تلخ قہقہہ لگایا۔
وہ دونوں قلعہ کا طویل عرض طے کر کے پھاٹک پر پہنچے۔ ’’کوک میڈیم؟‘‘ چائے اور شربت اسٹال والے نے سوال کیا۔ وہ دونوں تھکے ہارے ٹین کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ چند فرنچ سیاح برابر کی کرسیوں پر سستا رہے تھے۔
ایک گائیڈ ان کے سامنے کھڑا بے تکان بولے جا رہا تھا۔۔۔۔۔‘‘ انڈیا کے دو پیریڈ ہیں۔۔۔۔۔ سر۔۔۔۔۔ ہندو پیریڈ اینڈ مسلم پیریڈ۔ ہندو پیریڈ کا گریٹ رُولر ہے اشوک دی گریٹ۔ مسلم پیریڈ میں چھ کنگ ہوئے بابر دی فاؤنڈر آف دی مغل امپائر ہمایوں اکبر دی گریٹ جہانگیر دی ڈرنکر شاہ جہاں دی بلڈر اور اورنگ زیب دی فناٹک اورنگ زیب کے بعد دی اینڈ ہو گیا۔‘‘
سرمئی سوٹ والا شخص سر پیچھے ڈالے آسمان کو تکتا رہا۔ اسٹال کا لڑکا کوکا کولا کی دو بوتلیں لے کر آیا۔ سرمئی سوٹ والا شخص اور اس کی ساتھی اسی طرح بیٹھے رہے۔ ’’صاحب۔۔۔۔۔ کوکا کولا۔۔۔۔۔ میم صاحب۔۔۔۔۔‘‘ دونوں نے ذرا ناچاری سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر عورت نے کن انکھیوں سے برابر بیٹھی ہوئی فرنچ لڑکی پر نظر ڈالی جو تیلی کے ذریعے کوکا کولا پینے میں مشغول تھی۔ عورت نے آنکھوں آنکھوں میں اپنے ساتھی کو اشارہ کیا دونوں بڑی نفاست کے ساتھ کوکا کولا پینے میں مصروف ہو گئے۔ اب زوال کا وقت تھا۔ بوتلیں زمین پر رکھ کر وہ دونوں اٹھے۔ مرد نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک نوٹ نکالا اور بوائے کی پلیٹ میں رکھ دیا۔ وہ سو کا نوٹ تھا۔ پل بھر میں اس کے چاروں طرف بھیڑ لگ گئی۔۔۔۔۔ بھکاری گائیڈ آوارہ لونڈے بے کار نوجوان چیتھڑوں میں لپٹے بچے۔ ’’بخشیش۔۔۔۔۔ بخشیش۔۔۔۔۔ راجہ صاحب۔۔۔۔۔ نواب صاحب حضور۔۔۔۔۔ اللہ بھلا کرے۔۔۔۔۔ بھگوان بھلی کریں۔۔۔۔۔‘‘ ایک امریکن سیاح نے جلدی سے کیمرہ فوکس کر کے اس منظر کی تصویر کھینچی۔
’’بخشیش۔۔۔۔۔ بخشیش۔۔۔۔۔ بخشیش۔۔۔۔۔‘‘ کورس بلند ہوا۔ سرمئی سوٹ والے شخص نے گھبرا کر اپنی جیبوں میں دوبارہ ہاتھ ڈالا لیکن نوٹ کے بجائے مٹھی بھر سکّے نکل آئے اس نے سکّوں کو غور سے دیکھا اور سراسیمہ ہو کر اپنی جیب میں واپس ڈال دیا۔ مگر دو سکّے اس کی انگلیوں سے پھسل کر زمین پر گر پڑے اور لڑھکتے ہوئے ایک فرانسیسی کی کرسی کے نزدیک جا پہنچے۔ یہ دیکھ کر سرمئی سوٹ والے اور اس کی انگریز ساتھی نے وہاں سے سرپٹ دوڑنا شروع کیا۔
فرانسیسی نے جو صورت شکل سے سوربون کا جغادری پروفیسر معلوم ہوتا تھا جھک کر وہ سکّے اٹھا لیے ان کو ایک لمحے کے لیے غور سے دیکھا اور آنکھیں پھیلا کر چلایا ’’گڈنس۔۔۔۔۔ یہ تو۔۔۔۔۔ یہ تو۔۔۔۔۔‘‘ وہ سرمئی سوٹ والے شخص کے پیچھے پیچھے دوڑا مگر اس دوران میں وہ دونوں غائب ہو چکے تھے۔
فتح پور سیکری میں سیاحوں کا مجمع نسبتاً کم تھا۔ سنگ سرخ کے محلات ڈھلتی دھوپ میں کسی مطمئن فن کار کے تخیل کی طرح پر سکون نظر آ رہے تھے۔ اکبر کا محل سنسان پڑا تھا۔ اتنے میں دو سائے صحن سے گذر کر وسطی حوض کی جانب بڑھتے نظر آئے۔ سرمئی سوٹ والا مرد اور اس کی ساتھی میم پل پر سے گذر کر سنگی تخت پر بیٹھ گئے۔ مرد ویران آنکھوں سے چاروں طرف ویرانی کو دیکھ رہا تھا اس کا چہرہ ست گیا تھا اور ہونٹ کانپ رہے تھے۔
رفتہ رفتہ سناٹا گہرا ہو گیا۔ دور کسی کونے میں کوئی آہستہ سروں میں درباری الاپ رہا تھا۔
’’پادشاہ صبح سویرے موسیقی کی آواز پر جاگتا ہے۔ عبادت کرتا ہے۔ اس کے بعد جھروکے میں جا کر رعایا کو درشن دیتا ہے عورتیں بیمار بچوں کو لے کر آتی ہیں کہ پادشاہ کے درشن سے انہیں شفا ملے۔ دیوان عام میں جلوہ افروز ہونے کے بعد وہ ملکی معاملات میں مصروف ہو جاتا تھا۔ پھر اپنے کمروں میں جا کر بے حد سادہ کھانا نوش کرتا ہے۔ سہ پہر کو قلعہ کی افواج شاہی اسلحہ فیکٹری اور زیر تعمیر عمارتوں کا معائنہ کرتا ہے۔ میکنیکل ایجادوں میں مصروف رہتا ہے شام کو چوگان پچیسی یا جانوروں کی لڑائی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ رات کو محفل موسیقی آراستہ ہوتی ہے۔ داستانیں چھڑتی ہیں۔ علمی اور ادبی مباحثے ہوتے ہیں۔‘‘ سیکری لندن سے زیادہ پر رونق ہے۔ شاہی تقریبات اور جشن ہندو اور مسلم تہوار جلسے اور جلوس خوش حال متوسط طبقہ باکمال کاریگر علماء شعراء مدارس کے طالب علم اہل سیف اور تاجر اور منصب دار سادھو سنت اور صوفیا و فقراء۔۔۔۔۔
آگرے سے سیکری تک راستے بھر بازار اور دوکانیں تھیں۔ اس سارے ہنگامے اور گہما گہمی میں ۱۵۸۵ء میں ایک روز تین غیر اہم سے انگریز اس خاموشی سے فتح پور پہنچے کہ کسی نے ان کی آمد کا مطلق نوٹس نہ لیا۔ یہ تینوں ولیم لیڈز رالف فچ اور جان نیوبری انگلستان کی حکمراں کی طرف سے اس درخواست کا خط لے کر یہاں پہنچے تھے کہ پادشاہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور تجارت کی اجازت مرحمت فرمائے۔ پادشاہ نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ولیم لیڈز کو دربار میں جوہری کا کام مل گیا۔ رالف فچ آٹھ سال بعد لندن واپس لوٹا اور اپنی رپورٹ پیش کی جس کی بنا پر ۱۶۰۰ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو چارٹر ملا۔‘‘
انگریز عورت نے پڑھتے پڑھتے کتاب بند کر دی کیوں کہ اوپر سے ایک طیارہ گڑگڑاتا ہوا گذر رہا تھا۔ جودھا بائی کے محل میں گھومتے ہوئے سیاحوں میں بھنبھناہٹ سی بلند ہوئی۔۔۔۔۔
’’پاکستانی بمبار۔۔۔۔۔؟ پاکستانی بمباری۔۔۔۔۔‘‘ طیارہ زن سے گذر گیا۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ اب سائے طویل ہو رہے تھے۔ محل کی دیواروں کے باہر حکیم کے مکان شفا خانے مدارس ٹکسالوں حماموں اور رانیوں کے محلوں کی غلام گردشیں تاریک ہو چلی تھیں۔ دور اصطبل کی ڈیوڑھی کے باہر ایک بوڑھا ہندو گھڑا اور گلاس لیے صبر کے ساتھ سیاحوں کا منتظر تھا۔ کوئی ہندوستانی سیاح پانی پی کر اسے پانچ یا دس پیسے دیتا تو وہ ’’اللہ بھلا کرے۔۔۔۔۔ اللہ بھلا کرے‘‘ دہرانے لگتا۔
شیخ سلیم چشتی کی درسگاہ کی اونچی فصیل کے پیچھے ایک صحن میں ابو الفضل اور فیضی کے مکان کے برابر برابر خاموش کھڑے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے مکین ابھی ابھی گھر خالی کر کے کہیں گئے ہیں۔ فیضی کے مکان کی دیواروں پر سیاحوں نے پنسل سے جو نام لکھے تھے ان میں صدر دروازے پر ’’ساجد پہلوان مراد آباد‘‘ سب سے جلی حروف میں نظر آ رہا تھا۔ ایک آوارہ کتّا ابو الفضل کے مکان کے چبوترے سے اترا اور خراماں خراماں چلتا ہوا فیضی کے صدر دالان میں آیا اور پڑ کر سو گیا۔ صحن کی گھاس اور بڑا درخت ہوا میں سر سرایا کیے۔
اکبر کے محل میں چبوترے پر بیٹھے ہوئے سرمئی سوٹ والے شخص نے آزردگی سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اور اٹھا۔ پنچ محل کی آخری منزل پر پہنچ کر عورت نے سحر زدہ سی آواز میں اس سے پوچھا۔
’’فتح پور کیوں چھوڑ دیا تھا؟ اس لیے کہ پانی ختم ہو گیا تھا یا شمال مغرب کے مخدوش حالات کی وجہ سے لاہور جا کر رہنا پڑا تھا؟‘‘
مرد نے بے دھیانی سے سر ہلایا دونوں نیچے اترے۔ مرد دیوان خاص کے اندر چلا گیا۔ ایک خستہ حال نوجوان طالب علم ’’آنکھ مچولی‘‘ کی سیڑھیوں پر بیٹھا اپنے ایک دوست سے آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا: ’’حجروں اور پھاٹکوں سے نکل کر اس نے سارا ہندوستان فتح کیا۔ سارے ہندوستان کو متحد کیا۔ سولہویں صدی میں اس نے ایک سیکولر قومی ریاست کا خواب دیکھا لیکن۔۔۔۔۔ اس شاداب عظیم الشان دولت مند ملک پر سورج ڈوب کر دور اس اندھیرے سرد کہر آلود غریب جزیرے پر طلوع ہونے والا تھا۔۔۔۔۔ کیوں ہارے ہم لوگ؟ ان حجروں اور ایوانوں میں وہ ساری آوازیں گونج رہی ہیں۔۔۔۔۔ عرفی نظیری بیربل فیضی خان خاناں ٹوڈر مل مان سنگھ تان سین عبد الصمد فرخ بیگ مکند کیشو۔۔۔۔۔ حیرت انگیز۔۔۔۔۔‘‘
سرمئی سوٹ اور سفید مونچھوں والا شخص دیوان خاص سے باہر نکلا۔
’’سورج ڈوب رہا ہے۔‘‘ اس نے اچانک اپنی رفیق سفر سے کہا جو لڑکیوں کے مدرسے کی سیڑھیوں پر کھڑی تھی۔ ’’جلدی کرو۔۔۔۔۔ جلدی۔۔۔۔۔‘‘ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تقریباً گھسیٹتا ہوا صحن سے باہر لے گیا۔ سرمئی سوٹ والے شخص نے دعا ختم کی۔ وہ اور اس کی ہم سفر بلند دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ بلند دروازے کے نیچے سارا دیس ساری دھرتی پھیلی ہوئی تھی۔
تہمد باندھے ہوئے ایک آدمی نے قریب آ کر بڑی لجاجت سے کہا ’’صاحب آٹھ آنے دے دیجئے تو باؤلی میں کود کر دکھاؤں گا۔‘‘
’’روز کتنا کما لیتے ہو؟‘‘ سرمئی سوٹ والے نے دکھ سے پوچھا۔ ’’سرکار ہم چھ آدمی ہیں جن کا ٹرن آ جائے روزانہ صاحب لوگ باؤلی میں کودنے کو بھی تو نہیں کہتے۔ چار آٹھ آنے مل جاتے ہیں۔‘‘ غوطہ خور نے جواب دیا۔
’’کوئی اور کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘ سرمئی سوٹ والے نے پوچھا۔
’’روزگار کہاں ہے صاحب۔‘‘ غوطہ خور نے جواب دیا۔ سرمئی سوٹ والے نے بے ساختہ اپنی ہیرے کی انگوٹھی پر نظر ڈالی اور اسے اتارنا چاہا۔ مگر انگریز عورت نے فوراً اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اوپر سے ایک اور جنگی طیارہ گڑگڑاتا ہوا گذرا۔
’’اتنے مر گئے اور ابھی اور مریں گے؟‘‘ مرد نے اپنے آپ سے پوچھا۔ عورت نے نظر اٹھا کر بلند دروازے کی محراب پر لکھے ہوئے الفاظ پڑھے۔۔۔۔ ’’عیسیٰ ابن مریم نے کہا: دنیا ایک پل ہے اس پر مکان نہ بناؤ۔ دنیا کی مدت محض ایک گھنٹے کی ہے۔ یہ ایک گھنٹہ عبادت میں صرف کرو۔ کیوں کہ اس کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے وہ کسی کو معلوم نہیں۔‘‘
مرد نے بلند دروازے کے سامنے نظر ڈالی نیچے حد نظر تک سارا دیس ساری دھرتی پھیلی ہوئی تھی۔ کھیت جھونپڑیاں انسانوں کی آبادی نئی فیکٹریاں۔
’’ان جھونپڑوں میں کتنی بھوک بلبلا رہی ہے۔‘‘ انگریز عورت نے ناگواری سے کہا ’’اور سرحد پر سرحد کے اس پار توپیں گرج رہی ہیں۔‘‘
آدھی رات کے قریب ہوٹل کے لاؤنج میں انگریز عورت پکچر پوسٹ کارڈوں بنارسی ساڑیوں اور دوسرے تحفوں کے پیکٹ بنانے میں مصروف تھی۔
’’کمال ہے۔ ان سب چیزوں کا کیا کریں گی آپ؟‘‘ اس کے ساتھی نے حیرت سے پوچھا۔
’’واہ۔ واپسی پر سب پوچھیں گے نہیں کہ ہندوستان سے کیا لائیں! سڈنی اسپنسر سیسل فرانسس سب کے سب۔ عورتیں الگ جان کھائیں گی یہ دیکھئے میں نے تو میری تک کے لیے ہاتھی دانت کی کنگھی خرید لی۔ مگر اب یاد آیا کہ بے کار ہے کیوں کہ میری غریب کا سر ہی نہیں ہے۔‘‘
ہوٹل کے باغ میں مرغ نے بانگ دی۔ وہ دونوں چونک پڑے۔ صوفے سے اٹھے اور خاموشی سے برآمدے میں آ گئے۔ جہاں ایک میز پر وزٹرز بک کھلی رکھی تھی۔ مرد ٹھٹھک گیا۔ اس نے رجسٹر پر جھک کر ذرا دقّت سے اپنے دستخط کیے۔
جلال الدین محمد اکبر۔۔۔۔۔ شہنشاہ ہند
پھر عورت نے قلم اس سے لے کر بڑی روانی سے لکھا۔۔۔۔۔ ایلزبتھ اوّل۔۔۔۔۔ ملکہ انگلستان
پورن ماشی کا چاند باغ کے اوپر تیر رہا تھا۔ وہ دونوں برآمدے سے سائے کی طرح اتر کر رولز میں بیٹھے۔۔۔۔۔ برف جیسی وردی اور رُو پہلے بادلوں جیسے بالوں اور پلکوں والے شوفر نے انجن اسٹارٹ کیا۔ رولز چند گز آگے بڑھ کر دفعتاً چاندنی میں تحلیل ہو گئی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...