تارا بائی کی آنکھیں تاروں کی ایسی روشن ہیں اور وہ گرد و پیش کی ہر چیز کو حیرت سے تکتی ہے۔ در اصل تارا بائی کے چہرے پر آنکھیں ہی آنکھیں ہیں۔ وہ قحط کی سوکھی ماری لڑکی ہے۔ جسے بیگم الماس خورشید عالم کے ہاں کام کرتے ہوئے صرف چند ماہ ہوئے ہیں۔ اور وہ اپنی مالکن کے شاندار فلیٹ کے ساز وسامان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ دیکھتی رہتی ہے کہ ایسا عیش و عشرت اسے پہلے کبھی خواب میں بھی نظر نہ آیا تھا۔ وہ گورکھپور کے ایک گاؤں کی بال ودھوا ہے۔ جس کے سسر اور ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کے ماما نے جو ممبئی میں دودھ والا بھیا ہے اسے یہاں بلا بھیجا تھا۔
الماس بیگم کے بیاہ کو ابھی تین چار مہینے ہی گزرے ہیں۔ ان کی منگلورین آیا جو ان کے ساتھ میکے سے آئی تھی ’ملک‘ چلی گئی، تو ان کی بے حد منتظم خالہ بیگم عثمانی نے جو ایک نامور سوشل ور کر ہیں ایمپلائمنٹ ایکس چینج فون کیا اور تارا بائی پٹ بیجنے کی طرح آنکھیں جھپکاتی کمبا لاہل کے ’اسکائی اسکریپر‘ گل نسترن کی دسویں منزل پر آن پہنچیں۔ الماس بیگم نے ان کو ہر طرح قابل اطمینان پایا، مگر جب دوسرے ملازموں نے انہیں تارا بائی کہہ کر پکارا تو وہ بہت بگڑیں، ’’ہم کوئی پتریا ہوں؟‘‘ انھوں نے احتجاج کیا۔ مگراب ان کو تارادئی کے بجائے تارا بائی کہلانے کی عادت ہو گئی ہے۔ اور وہ چپ چاپ کام میں مصروف رہتی ہیں۔ اور بیگم صاحب اور ان کے صاحب کو آنکھیں جھپکا جھپکا کر دیکھا کرتی ہیں۔
الماس بیگم کا اگر بس چلے تو وہ اپنے طرحدار شوہر کو ایک لمحے کے لیے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور وہ جوان جہان آیا کو ملازم رکھنے کی ہر گز قائل نہیں۔ مگر تارا بائی جیسی بے جان اور سگھڑ خادمہ کو دیکھ کر انھوں نے اپنی تجربہ کار خالہ کے انتخاب پر اعتراض نہیں کیا۔
تارا بائی صبح کو بیڈ روم میں چائے لاتی ہے۔ بڑی عقیدت سے صاحب کے جوتوں پر پالش اور کپڑوں پر استری کرتی ہے، ان کے شیو کا پانی لگاتی ہے، جھاڑو پوچھا کرتے وقت وہ بڑی حیرت سے ان خوبصورت چیزوں پر ہاتھ پھیرتی ہے، جو صاحب اپنے ساتھ پیرس سے لائے ہیں، ان کا وائلن وارڈ روب کے اوپر رکھا ہے، جب پہلی بار تارا بائی نے بیڈروم کی صفائی کی تو وائلن پر بڑی دیر تک ہاتھ پھیرا، مگر پرسوں صبح حسب معمول جب وہ بڑی نفاست سے وائلن صاف کر رہی تھی تو نرم مزاج اور شریف صاحب اسی وقت کمرے میں آ گئے اور اس پر برس پڑے کہ وائلن کو ہاتھ کیوں لگایا اور تارا بائی کے ہاتھ سے چھین کر اسے الماری کے اوپر پٹخ دیا، تارا بائی سہم گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور صاحب ذرا شرمندہ سے ہو کر باہر برآمدے میں چلے گئے، جہاں بیگم صاحبہ چائے پی رہی تھی۔ ویسے بیگم صاحبہ کی صبح ہئیر ڈریسر اور بیوٹی سلیون میں گزرتی ہے۔ مینی کیور، پیڈی کیور، مساج کیور، فیشل، سونا باتھ۔۔۔ ایک سے ایک بڑھیا ساڑھیاں، درجنوں رنگ برنگے سینٹس، اور عطر کے ڈبے اور گہنے ان کی الماریوں میں پڑے ہیں۔ مگر تارا بائی سوچتی ہے، بھگوان نے میم صاحب کو دولت بھی، اجت بھی اور ایسا سندر پتی دیا، بس شکل دینے میں کنجوسی کر گئے۔
سنا ہے کہ صاحب اپنی خوبصورتی کی وجہ سے میم صاحبوں کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھے، مگر بیاہ کے بعد سے بیگم صاحبہ نے ان پر بہت سے پابندیاں لگا دی ہیں، دفتر جاتے ہیں تو دن میں کئی بار فون کرتی ہیں، شام کو کسی کام سے باہر جائیں تو بیگم صاحبہ کو پتہ رہتا ہے، کہ کہاں گئے ہیں اور ان جگہوں پر فون کرتی ہیں، شام کو سیر و تفریح اور ملنے ملانے کیلئے دونوں باہر جاتے ہیں، تب بھی بیگم صاحب بڑی کڑی نگرانی رکھتی ہیں مجال ہے جو کسی دوسری لڑکی پر نظر ڈالیں۔
صاحب نے یہ سارے قاعدے قانون ہنسی خوشی قبول کر لئے ہیں۔ کیونکہ بیگم صاحبہ بہت امیر اور صاحب کی نوکری بھی ان کے دولت مند سسر نے دلوائی ہے۔ ورنہ بیاہ سے پہلے صاحب بہت غریب تھے۔ اسکالر شپ پر انجنئیرنگ پڑھنے فرانس گئے تھے۔ واپس آئے تو روزگار نہیں ملا، پریشان حال گھوم رہے تھے۔ جب ہی بیگم صاحبہ کے گھر والوں نے انہیں پھانس لیا۔
بڑے لوگوں کی دنیا کے عجیب قصے تارا بائی فلیٹ کے مستری، باورچی، حمال اور دوسرے نوکروں سے سنتی ہے اور اس کی آنکھیں اچنبھے سے کھلی رہتی ہیں۔
خورشید عالم بڑے اچھے اور وائلن نواز آدمی تھے۔ مگر جب سے بیاہ ہوا تو بیوی کی محبت میں ایسے کھوئے کہ وائلن کو ہاتھ نہیں لگایا، کیونکہ الماس بیگم کو اس ساز سے دلی نفرت تھی، خورشید عالم بیوی کے بے حد احسان مند ہیں کیونکہ اس شادی سے ان کی زندگی بدل گئی، اور احسان مندی ایسی شے ہے کہ انسان سنگیت کی قربانی بھی دے سکتا ہے۔ خورشید عالم شہر کی ایک خستہ عمارت میں پڑے تھے اور بسوں میں مارے مارے پھرتے تھے اب لکھ پتی کی حیثیت سے کمبالا ہل میں فروکش ہیں۔ مرد کیلئے اس کا اقتصادی تحفظ غالباً سب سے بڑی چیز ہے۔
خورشید عالم اب وائلن کبھی نہیں بجائیں گے۔
یہ صرف ڈیڑھ سال پہلے کا ذکر ہے، کہ الماس اپنے ملک التجار باپ کی عالی شان کوٹھی میں مالا بار بل پر رہتی تھی۔ وہ سوشل ورک کر رہی تھی، اور عمر زیادہ ہو جانے کے کارن شادی کی امید سے دست بر دار ہو چکی تھی۔ جب ایک دعوت میں ان کی ملاقات خورشید عالم سے ہوئی اور ان کی جہاں دیدہ خالہ بیگم عثمانی نے ممکنات بھانپ کر اپنے جاسوسوں کے ذریعہ معلومات فراہم کیں۔ لڑکا یوپی کا ہے، یورپ سے لوٹ کر تلاش معاش میں سر گرداں ہے مگر شادی پر تیار نہیں کیونکہ فرانس میں ایک لڑکی چھوڑ آیا ہے اور اس کی آمد کا منتظر ہے۔ بیگم عثمانی فوراً اپنی مہم پر جٹ گئیں۔ الماس کے والد نے اپنی ایک فرم میں خورشید عالم کو پندرہ سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا، الماس کی والد نے انہیں اپنے ہاں مدعو کیا اور الماس سے ملاقاتیں خود بخود شروع ہو گئیں، مگر پھر بھی لڑکے نے لڑکی کے سلسلے میں کسی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا۔ دفتر سے لوٹ کر انہیں بیشتر وقت الماس کے ہاں گزارنا پڑتا اور اس لڑکی کی سطحی گفتگو سے اکتا کر اس پر فضا بالکنی میں جا کر کھڑے ہوتے جس کا رخ سمندر کی طرف تھا، پھر وہ سوچتے ایک دن اس کا جہاز آ کر اس ساحل پر لگے لگا، اور وہ اس میں سے اترے گی، اسے ہمراہ ہی آ جانا چاہئیے تھا مگر پیرس میں کالج میں اس کا کام ختم نہیں ہوا تھا۔ اس کا جہاز ساحل سے آگے نکل گیا، وہ بالکنی کے جنگلے پر جھکے افق کو تکتے رہتے۔ الماس اندر سے نکل کر شگفتگی سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتی، ”کیا سوچ رہے ہیں۔ “ وہ ذرا جھینپ کر مسکرا دیتے۔
رات کے کھانے پر الماس کے والد کے ساتھ ملکی سیاست سے وابستہ ہائی فنانس پر تبادلۂ خیالات کرنے کے بعد وہ تھکے ہارے اپنی جائے قیام پر پہنچتے اور وائلن نکال کر دھنیں بجانے لگتے، جو اس کی سنگت میں پیرس میں بجایا کرتے تھے۔ وہ دونوں ہر تیسرے دن ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے، اور پچھلے خط میں انہوں نے اسے اطلاع دی تھی انہیں بمبئی ہی میں بڑی عمدہ ملازمت مل گئی ہے، ملازمت کے ساتھ جو خوفناک شاخسانے بھی تھے اس کا ذکر انہوں نے خط میں نہیں کیا تھا۔
ایک برس گزر گیا مگر انہوں نے الماس سے شادی کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا، آخر عثمانی بیگم نے طے کیا کہ خود ہی ان سے صاف صاف بات کر لینا چاہئیے، عین مناسب ہو گا۔ مگر تب ہی پرتاب گڑھ سے تار آیا کہ خورشید عالم کے والد سخت بیمار ہیں اور وہ چھٹی لے کر وطن واپس روانہ ہو گئے۔
ان کو پرتاب گڑھ گئے چند روز ہی گزرے تھے کہ الماس جو ان کی طرف سے نا امید ہو چکی تھی۔ ایک شام اپنی سہیلیوں کے ساتھ ایک جرمن پیانسٹ کا کنسرٹ سننے تاج محل میں گئی۔ کرسٹل روم میں حسب معمول بوڑھے پارسیوں اور پاسنوں کا مجمع تھا، اور ایک حسین آنکھوں والی پارسی لڑکی کنسرٹ کا پروگرام بانٹی پھر رہی تھی۔ ایک شناسا خاتون نے الماس کا تعارف اس لڑکی سے کرایا، “پیروجا دستور” اور خود آگے چلی گئیں۔
الماس نے حسب عادت بڑی ناقدانہ اور تیکھی نظروں سے اس اجنبی لڑکی کا جائزہ لیا۔ لڑکی بے حد حسین تھی۔ ’’آپ کا نام کیا بتایا مسز رستم جی نے؟‘‘ الماس نے ذرا مشتاقانہ انداز میں سوال کیا۔ ’’پیروجا دستور‘‘ لڑکی نے سادگی سے جواب دیا۔ ’’میں نے آپ کو پہلے کسی کنسرٹ وغیرہ میں نہیں دیکھا۔‘‘
’’میں سات برس بعد پچھلے ہفتے ہی پیرس سے آئی ہوں۔‘‘
’’سات برس پیرس میں! تب تو آپ فرنچ خوب فر فر بول لیتی ہوں گی؟‘‘ الماس نے ذرا ناگواری سے کہا۔ ’’جی ہاں۔۔۔‘‘ پیروجا ہنسنے لگی۔
اب خاص خاص مہمان جرمن پیانسٹ کے ہمراہ لاؤنج کی سمت بڑھ رہے تھے۔ پیروجا، الماس سے معذرت چاہ کر ایک انگریز خاتون سے اس پیانسٹ کی موسیقی پر بے حد ٹیکنیکل قسم کا تبصرہ کرنے میں منہمک ہو گئی، لیکن لاؤنج میں پہنچ کر الماس پھر اس لڑکی سے ٹکرا گئی۔ کمرے میں چائے کی گہما گہمی شروع ہو چکی تھی۔
’’آئیے یہاں بیٹھ جائیں‘‘ پیروجا نے مسکرا کر الماس سے کہا۔ وہ دونوں دریچے سے لگی ہوئی ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھ گئیں۔ ’’آپ تو ویسٹرن میوزک کی ایکسپرٹ معلوم ہوتی ہیں۔‘‘ الماس نے ذرا رکھائی سے بات شروع کی، کیونکہ وہ خوب صورت اور کم عمر لڑکیوں کو ہر گز برداشت نہ کر سکتی تھی۔ ’’جی ہاں میں پیرس میں پیانو کی اعلی تعلیم کیلئے گئی تھی۔‘‘
الماس کے ذہن میں کہیں دور خطرے کی گھنٹی بجی اس نے باہر سمندر کی شفاف اور بے حد نیلی سطح پر نظر ڈال کر بڑے اخلاق اور بے تکلفی سے کہا، ’’ہاؤ انٹسرٹنگ، پیانو تو ہمارے پاس بھی موجود ہے کسی روز آ کر کچھ سناؤ۔‘‘
’’ضرور۔۔۔‘‘ پیروجا نے مسرت سے جواب دیا۔
’’سنیچر کے روز کیا پروگرام ہے تمہارا؟ میں اپنے ہاں ایک ہیں پارٹی کر رہی ہوں، سہیلیاں تم سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔‘‘
’’آئی وڈ لو ٹو کم۔۔۔ تھینک یو؟‘‘
’’تم رہتی کہا ہو پیروجا؟‘‘
پیروجا نے تار دیو کی ایک گلی کا پتہ بتایا، الماس نے ذرا اطمینان کی سانس لی، تار دیو مفلوک الحال پارسیوں کا محلہ ہے۔
’’میں اپنے چچا کے ساتھ رہتی ہوں۔ میرے والدین کا انتقال ہو چکا ہے۔ میرے کوئی بھائی بہن بھی نہیں، مجھے چچا چچی نے پالا ہے، وہ لا ولد ہیں۔ چچا ایک بینک میں کلرک ہیں۔‘‘ پیروجا سادگی سے کہتی رہی۔ پھر ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد سمندر کی پر سکون سطح دیکھتے ہوئے اس نے اچانک کہا۔ ’’کیسی عجیب بات ہے۔ پچھلے ہفتہ جب میرا جہاز اس ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا تو میں سوچ رہی تھی کہ اتنے عرصے کے بعد اجنبیوں کی طرح بمبئی واپس پہنچ رہی ہوں، یہ بڑا کٹھور شہر ہے تم کو معلوم ہی ہو گا الماس۔۔۔؟ مخلص دوست یہاں بہت مشکل سے ملتے ہیں۔ مگر میری خوشی دیکھو آج تم سے ملاقات ہو گئی۔‘‘
الماس نے درد مندی کے ساتھ سر ہلا دیا، لاؤنج میں باتوں کی دھیمی دھیمی بھنبھناہٹ جاتی تھی، چند لمحوں کے بعد اس نے پوچھا، ’’تم پیرس کیسے گئیں؟‘‘
’’مجھے اسکالر شپ مل گیا تھا، وہاں پیانو کی ڈگری کی بعد چند سال تک میوزک کالج میں ریسرج کرتی رہی، میں وہاں بہت خوش تھی مگر یہاں میرے چچا بالکل اکیلے تھے۔ وہ دونوں بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ چچی بیچاری تو ضعیف العمری کی وجہ بالکل بہری بھی ہو گئیں ہیں ان کی خاطر وطن واپس آئی اور اس کے علاوہ۔۔۔‘‘
’’ہلو الماس تم یہاں بیٹھی ہو۔ چلو جلدی، مسز ملگاؤں تم کو بلا رہی ہیں‘‘ ایک خاتون نے میز کے پاس آ کر کہا۔ پیروجا کی بات ادھوری رہ گئی۔ ’’سنیچر کو صبح گیارہ بجے کار بھیج دے گی‘‘ الماس نے کہا اور معذرت چاہ کر میز سے اٹھ کر مہمانوں کے مجمع میں کھو گئی۔
سنیچر کے روز پیروجا، الماس کے گھر پہنچی، جہاں مرغیوں کی پارٹی اپنے عروج پر تھی۔ بیٹلز کے ریکارڈ بج رہے تھے۔ چند لڑکیاں جنہوں نے چند روز پہلے ایک فیشن شو میں حصہ لیا تھا، زور شور سے اس پر تبصرہ کر رہی تھیں۔ یہ سب لڑکیاں جن کی ماتر بھاشائیں اردو، ہندی، گجراتی اور مراٹھی تھیں۔ انگریزی اور صرف انگریزی بول رہی تھیں۔ اور انہوں نے بے حد چست پتلونیں پہن رکھی تھیں۔ پیروجا کو ایک لمحے کیلئے محسوس ہوا کہ وہ ابھی ہندوستان واپس نہیں آئی ہے۔ برسوں یورپ میں رہ کر اسے معلوم ہو چکا تھا کہ اجنتا کی زندہ تصویروں کے بجائے ان مغربیت زدہ ہندوستانی خواتین کو دیکھ کر اہل یورپ کو سخت افسوس اور مایوسی ہوتی ہے۔ چنانچہ پیروجا پیرس اور روم میں اپنی ٹھیٹ ہندوستانی وضع قطع پر بڑی نازاں رہتی تھی، بمبئی کی ان نقلی امریکن لڑکیوں سے اکتا کر وہ بالکنی میں جا کھڑی ہوئی جس کے سامنے سمندر تھا اور پہلو میں برج خموشاں کا جنگل نظر آ رہا تھا۔ وہ چونک اٹھی، گھنے جنگل کے اوپر کھلی فضاؤں میں چند گدھ اور کوے منڈلا رہے تھے، اور چاروں طرف بڑا ڈراؤنا سناٹا طاری تھا۔ وہ گھبرا کر واپس نیچے اتری اور زندگی سے گونجتے ہوئے کمرے میں آ کر صوفے پر ٹک گئی۔
کمرے کے ایک کونے میں غالباً بطور آرائش گرینڈ پیانو رکھا ہوا تھا، لڑکیاں اب ریڈیو گرام پر ہیری ببلا فونٹ کا پرانا کلسپو، جمیکا فئیرویل بجا رہی تھیں۔ مغنی کی دلکش آواز، گٹار کی جان لیوا گونج ساتھ ساتھ کمرے میں پھیلنے لگی۔
Down the way where the nights are gay
and the sun shines daily in the mountain top
I took a trip on a sailing ship
and when I reached Jamaica I made a stop
But I am sad to say
I m on my way
And won’t be back for many a day
My heart is down
My head is turning around
I had to leave a little girl in Kingstone town
الماس چپ چاپ جا کر بالکنی میں کھڑی ہو گئی۔ ریکارڈ ختم ہوا تو اس نے پیروجا سے کہا، ’’ہم لوگ سخت بد مذاق ہیں ایک ماہر پیانسٹ یہاں بیٹھی ہے اورہم ریکارڈ بجا رہے ہیں۔۔۔ چلو بھائی۔۔۔۔ اٹھو۔۔۔۔‘‘ پیروجا مسکراتی ہوئی پیانو کے اسٹول پر بیٹھ گئی۔
’’کیا سناؤں، میں تو صرف کلاسیکی میوزک ہی بجاتی ہوں۔‘‘
’’ہائے۔۔۔ پوپ۔۔۔ نہیں؟‘‘ لڑکیوں نے غل مچایا۔۔۔ ’’اچھا کوئی انڈین فلم سانگ ہی بجاؤ۔۔۔‘‘
’’فلم سانگ بھی مجھے نہیں آتے۔۔۔ مگر ایک غزل یاد ہے۔۔۔ جو مجھے۔۔۔ جو مجھے۔۔۔‘‘ وہ جھینپ کر ٹھنک گئی۔۔۔
’’غزل؟ اوہ آئی لو پوئیٹری‘‘ ایک مسلمان لڑکی جس کے والدین اہل زبان تھے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا۔
پیروجا نے پردوں پر انگلیاں پھیریں اور ایک انجانی مسرور پھریری سی آئی، پھر اس نے آہستہ آہستہ ایک دل کش دھن بجانا شروع کیا۔ ’’گاؤ بھی ساتھ ساتھ‘‘ لڑکیاں چلائیں۔ ’’بھئی میں گا نہیں سکتی، میرا اردو تلفظ بہت خوفناک ہے۔‘‘
’’اچھا اس کے الفاظ بتا دو۔۔۔ ہم لوگ گائیں گے۔‘‘
’’وہ کچھ اس طرح ہے۔۔۔‘‘ پیروجا نے کہا،
’’تو سامنے ہے اپنے بتلا کہ تو کہاں ہے
کس طرح تجھ کو دیکھوں نظارہ درمیاں ہے
چند لڑکیوں نے ساتھ ساتھ گانا شروع کیا۔۔۔ ’’نظّارہ درمیاں ہے۔۔۔۔۔ نظّارہ درمیاں ہے۔‘‘
غزل ختم ہوئی تالیاں بجیں۔
’’اب کوئی ویسٹرن چیز بجاؤ۔۔۔‘‘ ایک لڑکی نے فرمائش کی۔۔۔ ’’شوپاں کی میڈنز فینسی بجاؤں؟ یہ نغمہ میں اور میرا منگیتر ہمیشہ اکھٹے بجاتے تھے۔ پیرس میں وہ وائلن پر میری سنگت کرتے تھے۔‘‘
’’تمہارے منگیتر بھی میوزیشن ہیں؟‘‘ ایک لڑکی نے پوچھا۔ ’’پروفیشنل نہیں شوقیہ‘‘ پیروجا نے نے جواب دیا اور نغمہ بجانے میں محو ہو گئی۔
اگلے ہفتوں میں الماس نے پیروجا سے بڑی گہری دوستی گانٹھ لی۔ اس دوران میں پیروجا نے ایک کانونٹ کالج میں پیانو سکھانے کی نوکری مل گئی، جو تعطیلات کے بعد کھلنے والا تھا۔ ہفتے میں تین بار ایک امریکن کی دس سالہ لڑکی کو پیانو سکھانے کا ٹیوشن بھی اسے مل گیا تھا۔ امریکن کی بیوی کا حال ہی میں انتقال ہوا تھا اور وہ اپنا غم بھلانے کیلئے اپنے بچوں کے ہمراہ بغرض سیاحت ہندوستان آیا ہوا تھا۔ اور جوہو میں سن اور سینڈ میں مقیم تھا۔ تاردیو سے جوہو تک کا سفر خاصا طویل تھا، مگر امریکن پیروجا کو اچھی تنخواہ دینے والا تھا، اور بڑی شفقت سے پیش آتا تھا۔ پیروجا اپنی زندگی سے فی الحال بہت خوش تھی، چند روز بعد وہ اپنے وطن سے آنے والا تھا۔ پیروجا نے اسے بمبئی آتے ہی ملازمت اور ٹیوشن ملنے کی اطلاع نہیں دی تھی، کہ وہ اسے ایک اچانک سر پرائز دینا چاہتی تھی۔
ایک روز الماس کے ساتھ اس کی کوٹھی کے باغ میں ٹہل رہی تھی کہ فوارے پر پہنچ کر الماس نے اس سے دفعتاً سوال کیا۔ ’’تم نے وہ غزل کہاں سے سیکھی تھی؟‘‘
’’اوہ۔۔۔ وہ۔۔۔؟ پیرس میں۔۔۔‘‘
’’پیرس! ہاؤ انٹرسٹنگ! کس نے سکھائی؟‘‘
’’میرے منگیتر نے۔۔۔‘‘
’’اوہ پیروجا، تم نے مجھ کو بتایا بھی نہیں اب تک۔۔۔‘‘
’’تمہاری ہی کمیونٹی کے ہیں وہ۔۔۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ واقعی۔۔۔‘‘ الماس فوارے کی مینڈ پر بیٹھ گئی۔
’’میرے باپ دادا دستو تھے۔ مگر میرے چچا بہت روشن خیال ہیں انہوں نے اجازت دے دی ہے۔‘‘
’’کیا نام ہے صاحب زادے کا؟‘‘
یہ ناموں کا بھی عجیب قصہ تھا۔ خورشید عالم اس کی نرگسی آنکھوں پر عاشق ہوئے تھے۔ جب پیرس کے ہندوستانی سفارت خانے کی ایک تقریب میں پہلی ملاقات ہوئی اور کسی نے اس کا تعارف پیروجا کہہ کر ان سے کرایا تو انہوں نے شرارت سے کہا تھا، ’’لیکن آپ کا نام نرگس ہونا چاہیے تھا۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ نرگیش؟ نرگیش تو میری آنٹی کا نام ہے۔‘‘
’’لاحول ولا قوۃ۔۔۔‘‘ خورشید عالم نے ایسی بے تکلفی سے کہا تھا جیسے اسے ہمیشہ سے جانتے ہوں۔۔۔ ’’نرگیش، کھورشیٹ، پیروجا۔ آپ لوگوں نے حسین ایرانی ناموں کی ریڑھ ماری ہے۔ میں آپ کو فیروزہ پکاروں تو کوئی اعتراض ہے؟‘‘
’’ہر گز نہیں۔‘‘ پیروجا نے ہنس کر جواب دیا تھا۔۔۔ اور پھر ایک بار خورشید عالم نے دریا کنارے ٹہلتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ ’’یہ تمہاری بہادر آنکھیں، ہفت زبان آنکھیں۔۔۔ جگنو ایسی، شہاب ثاقب ایسی، ہیرے جواہرات ایسی، روشن دھوپ اور جھلملاتی بارش ایسی آنکھیں۔۔۔۔ نرگس کے پھول جو تمہارے آنکھوں میں تبدیل ہو گئے۔‘‘
’’میں نے پوچھا کیا نام ہے ان صاحب کا؟‘‘ الماس کی تیکھی آواز پر وہ چونکی۔
’’کھورشیٹ عالم‘‘ پیروجا نے جواب دیا۔ چند لمحوں کے سکوت کے بعد اس نے گھبرا کر نظریں اٹھائیں، سیاہ ساری میں ملبوس، کمر پر ہاتھ رکھے سیاہ اونٹ کی طرح اس کے سامنے کھڑی الماس اس سے کہہ رہی تھی۔ ’’کیسا عجیب اتفاق ہے پیروجا ڈئیر۔ میرے منگیتر کا نام بھی خورشید عالم ہے۔ وہ بھی وائلن بجاتے ہیں اور وہ بھی پیرس سے آئے ہوئے ہیں، اور ان دنوں اپنے ملنے والوں سے ملنے کے لیے وطن گئے ہوئے ہیں۔‘‘
اگست کے آسمان پر زور سے بجلی چمکی مگر کسی نے نہیں دیکھا کہ وہ کڑکتی ہوئی بجلی آن کر پیروجا پر گر گئی۔ وہ کچھ دیر تک ساکت بیٹھی رہی، پھر اس نے اس عالی شان عمارت پر نظر ڈالی اور اپنے پرانے اور چھوٹے سے فلیٹ کا تصور کیا، بجلی پھر چمکی اور مالابار ہل کے اس منظر کو روشن کر گئی، چشم زدن میں ساری بات پیروجا کی سمجھ میں آ گئی، اور یہ بھی کہ اپنے خطوں میں خورشید عالم نے الماس کا ذکر کیوں نہیں کیا تھا، اور کچھ عرصے سے شادی کے تذکرہ کو وہ کس وجہ سے اپنے خطوں میں ٹال رہے تھے۔ وہ آہستہ سے اٹھی اور اس نے آہستہ سے کہا، ’’اچھا بھئی الماس، منگنی مبارک ہو خدا حافظ۔‘‘
’’جا رہی ہو پیروجا؟ ٹھہرو میری کار تم کو پہنچا آئے گی۔۔۔ ڈرائیور۔۔۔‘‘ الماس نے سکون کے ساتھ آواز دی۔
’’نہیں الماس۔۔۔ شکریہ۔‘‘ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی پھاٹک سے نکلی۔۔۔ سڑک سے دوسری طرف اسی وقت بس آن کر رکی، وہ تیزی سے سڑک پار کر کے بس میں سوار ہو گئی۔
فوارے کے پاس کھڑی الماس پھاٹک کی طرف دیکھتی رہی۔ بارش کی زبردست بوچھاڑ نے پام کے درختوں کو جھکا دیا۔
اس واقعے کے تیسرے روز خورشید عالم کا خط الماس کے والد کے نام آیا جس میں انہوں نے اپنے ابا میاں کی شدید علالت کی وجہ سے رخصت کی میعاد بڑھانے کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے الماس کے والد کو یہ نہیں لکھا کہ، اس خبر سے کہ ان کا اکلوتا لڑکا کسی مسلمان رئیس زادی کے بجائے کسی پارسن سے شادی کر رہا ہے، ان کے کٹر مذہبی ابا جان صدمے کے باعث جاں بلب ہو چکے ہیں۔ خورشید عالم کے خط سے ظاہر تھا کہ وہ بیحد پریشان ہیں جواب میں الماس نے خود انھیں لکھا۔
’’آپ جتنے دن چاہے وہاں رہیں، ڈیڈی آپ کو غیر نہیں سمجھتے، ہم سب آپ کی پریشانی میں شریک ہیں۔ آپ ابا میاں کو علاج کیلئے یہاں کیوں نہیں لے آتے؟ برسبیل تذکرہ کل میں سوئمنگ کیلئے سن اینڈ سینڈ گئی تھی، وہاں ایک بڑی دلچسپ پارسن مس پیروجا سے ملاقات ہوئی جو پیانو بجاتی ہے اور پیرس سے آئی ہے، اور شاید کسی امریکن کی گرل فرینڈ ہے اور شاید اسی کے ساتھ سن اینڈ سینڈ میں ٹھہری ہوئی ہے میں نے آپ کو اس لئے لکھا کہ غالباً آپ بھی کبھی اس سے ملے ہوں پیرس میں، اچھا۔۔۔ اب آپ ابا میاں کو لے آ کر آ جائیے، تاکہ یہاں بریچ کنیڈی ہسپتال میں ان کیلئے کمرہ ریزرو کر لیا جائے۔۔۔ آپ کی مخلص۔۔۔ الماس۔۔۔‘‘
شام پڑے تاردیو کی خستہ حال عمارت کے سامنے ٹیکسی آ کر رکی اور خورشید عالم باہر اترے۔ جیب سے نوٹ بک نکال کر انہوں نے ایڈریس پر نظر ڈالی اور عمارت کے لب سڑک برآمدے کی دھنسی ہوئی سیڑھی پر قدم رکھا۔ سامنے ایک دروازے کی چوکھٹ پر چونے سے جو ‘چوک’ صبح بنایا گیا تھا، وہ اب تک موجود تھا اندر نیم تاریک کمرے کے سرے پر کھڑکی میں ایک بوڑھا پارسی میلی سفید پتلون پہنے سر پر گول ٹوپی اوڑھے کمرے میں زیر لب دعائیں پڑھ رہا تھا۔ ایک طرف میلی سی کرسی پڑی تھی وسطی میز پر رنگین موم جامہ بچھا تھا۔ دیوار پر زرتشت کی بڑی تصویر آویزاں تھی۔ کمرے میں ناریل اور مچھلی کی تیز باس امڈ رہی تھی۔ ایک بوڑھی پارسن سرخ جارجٹ کی ساڑھی پہنے سر پر رو مال باندھے منڈیا ہلاتی اندر سے نکلی۔
’’مس پیروجا دستور ہیں؟‘‘
’’پیروجا؟‘‘ پارسن نے دھندلی آنکھوں سے خورشید عالم کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’جوہو گئی۔۔۔ سن اینڈ سینڈ۔‘‘
’’کیا؟ کیا مس دستور سن اینڈ سینڈ میں منتقل ہو گئی ہیں؟‘‘ بہری پٹ ضعیفہ نے اقرار میں سر ہلایا۔
’’کس کے۔۔۔ کے ساتھ؟‘‘ خورشید عالم نے ہکلا کر پوچھا۔ بوڑھی عورت اندر گئی اور ایک وزیٹنگ کارڈ لا کر خورشید کی ہتھیلی پر رکھ دیا، کارڈ پر کسی امریکن کا نام درج تھا۔
’’تم مسٹر کھورشیٹ عالم ہو؟ پیروجا نے کہا تھا کہ تم آنے والے ہو اگر اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آؤں تو میں فوراً اس کو جوہو فون کر دوں اور تم کو یہ نہ بتاؤں وہ کہاں گئی ہے۔‘‘ اس نے بلاؤز کی جیب سے پچیس پیسے نکالے۔ خورشید عالم نے ہکا بکا ہو کر بوڑھی کو دیکھا۔ ’’آپ کو ایسی صورت حال پر کوئی اعتراض نہیں؟‘‘
بہری نے نفی میں سر ہلایا، ’’ہم بہت غریب لوگ ہیں، مگر اب پیروجا کو ایک امریکن۔۔۔‘‘ دفعتاً بوڑھی پارسن کو یاد آیا کہ انہوں نے مہمان کو اندر ہی نہیں بلایا ہے اور انہوں نے پیٹھ جھکا کر کہا۔ ’’آؤ۔۔۔ اندر آ جاؤ۔‘‘
خورشید عالم مبہوت کھڑے رہے پھر تیزی سے پلٹ کر ٹیکسی میں جا بیٹھے۔ ’’بائی بائی‘‘ ضعیفہ نے ہاتھ ہلایا۔
بوڑھا پارسی دعا ختم کر کے باہر لپکا مگر ٹیکسی زن سے آگے جا چکی تھی۔
جس روز الماس اور خورشید عالم کی منگنی کی دعوت تھی، ایسی ٹوٹ کر بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ ڈنر سے ذرا پہلے بارش تھمی اور خورشید عالم اور الماس کے والد کے دوست ڈاکٹر صدیقی جو حال ہی میں تبدیل ہو کر بمبئ آئے تھے، بالکنی میں جا کھڑے ہوئے، جس سے کچھ فاصلے پر برج خموشاں کا اندھیرا جنگل بھیگی ہوئی ہوا میں سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اندر ڈرائنگ روم میں قہقہے گونج رہے تھے اور گرینڈ پیانو پر رکھے ہوئے شمعدان میں موم بتیاں جھلملا رہی تھیں۔ بڑا سخت رومینٹک اور پر کیف وقت تھا۔ اتنے میں گیلری میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ایک ملازم نے آ کر الماس سے کہا۔ ’’خورشید صاحب کیلئے فون آیا ہے۔‘‘ دلہن بنی ہوئی الماس لپک کر فون پر پہنچی۔ ایک مقامی ہسپتال سے ایک نرس پریشان آواز میں دریافت کر رہی تھی، ’’کیا مسٹر عالم وہاں موجود ہیں؟‘‘
’’آپ بتائیے آپ کو مسٹر عالم سے کیا کام ہے؟‘‘ الماس نے درشتی سے پوچھا۔۔۔
’’مس پیروجا دستور ایک مہینے سے یہاں سخت بیمار پڑی ہیں آج ان کی حالت زیادہ نازک ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہلوایا ہے اگر چند منٹ کیلئے مسٹر عالم یہاں آ سکیں۔۔۔‘‘
’’مسٹر عالم یہاں نہیں ہیں۔‘‘
’’آر یو شیور؟‘‘
’’یس آئی ایم شیور۔۔۔‘‘ الماس نے گرج کر جواب دیا۔ ’’کیا آپ سمجھتی ہیں میں جھوٹ بول رہی ہوں؟‘‘ اور کھٹ سے فون بند کر دیا۔
دو گھنٹے بعد پھر فون آیا۔
’’ڈاکٹر صدیقی آپ کی کال۔۔۔‘‘ گیلری میں کسی نے آواز دی۔ ’’آپ کو فوراً ہسپتال بلایا گیا ہے‘‘ ڈاکٹر صدیقی جلدی سے ٹیلی فون پر گئے۔ پھر انہوں نے الماس کو آواز دی، ’’بھئی معاف کرنا مجھے بھاگنا پڑ رہا ہے۔‘‘
الماس دروازے تک آئی۔ ’’کل آئیے گا۔ کل ہم لوگ ویک اینڈ کیلئے پونا جا رہے ہیں۔‘‘
’’ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔۔ گڈ نائٹ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صدیقی نے کہا اور باہر نکل گئے۔
بریچ کنیڈی کے ہسپتال میں صحت یاب ہو کر خورشید عالم کے ابا میاں خوش خوش پرتاب گڈھ واپس جا چکے ہیں، جب تک کمبالا ہل والا فلیٹ تیار نہیں ہوا، جو دلہن کو جہیز میں ملا تھا، شادی کے بعد دولہا میاں سسرال ہی میں رہے، اکثر وہ صبح کو دفتر جانے سے پہلے بالکنی میں جا کر کھڑے ہوتے۔ نیچے پہاڑ کے گھنے باغ میں گزرتی بل کھاتی سڑک برج خموشاں کی طرف جاتی تھی۔ وقتا فوقتا سفید براق کپڑوں میں ملبوس پارسی سفید رومالوں کے ذریعہ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے، قطاریں بنائے، جنازہ اٹھائے دور پہاڑی پر چڑھتے ہوئے نظر آتے۔ کوّے اور گدھ درختوں پر منتظر بیٹھے رہتے۔ برج خموشاں کے احاطے کا پھاٹک دور کیمپس کارنر پر کھلتا تھا۔ پھاٹک پر ایک جھاڑ جھنکاڑ داڑھی والا خوفناک بوڑھا پھونس پارسی دربان ساکت بیٹھا رہتا۔ سفید ساریوں اور سفید وگلوں میں ملبوس سوگوار پارسی’میت چڑھانے‘ کے بعد سرسبز پہاڑی سے اتر کر اپنی اپنی موٹروں میں بیٹھ جاتے۔ پھاٹک کے باہر زندگی کا پر جوش سمندر اسی طرح ٹھاٹیں مارتا رہتا، مقابل کی عمارت پر ایر انڈیا کے ’مہاراجہ‘ کا اشتہار نت نئے پر لطف انداز میں ان زندہ انسانوں کو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ایک سے ایک دلچسپ شہروں تک سفر کرنے کی دعوت میں مصروف رہتا۔
’اس‘ نے ایک بار خط میں لکھا تھا۔۔۔ ’’ذہن کی ہزاروں آنکھیں ہیں، دل کی آنکھ صرف ایک ہے۔ لیکن جب محبت ختم ہو جائے تو ساری زندگی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘
سمندر کی موج پل کی پل میں فنا ہو گئی۔ آسمان پر سے گزرنے والے بادل فضا میں غائب ہو چکے۔ جب وہ مری ہو گی تو کوؤں اور گدھوں نے اس کا کس طرح سواگت کیا ہو گا؟ اس طوفانی رات کو ہسپتال کے وارڈ سے نکل کر اس کی روح جب آسمانوں پر پہنچی ہو گی، اور عالم بالا کے گھپ اندھیرے میں یا کسی دوسری روح نے ٹکرا کر پوچھا ہو گا، ’’تم کون ہوں؟‘‘ تو اس نے جواب دیا ہو گا، ’’پتہ نہیں۔۔۔ میں ابھی تو مری ہوں۔‘‘
اب تک اس کی روح کہاں سے کہاں نکل گئی ہو گی، مرے ہوئے انسان زیادہ تیزی سے سفر کرتے ہیں۔
تارا بائی اپنی روشن آنکھوں سے صاحب کے گھر کی ہر چیز کو ارمان اور حیرت سے دیکھتی ہے۔ وہ صاحب کو حیرت سے تکا کرتی ہے۔ الماس بیگم اب امید سے ہیں بہت جلد تارا بائی کا کام دگنا بڑھ جائے گا۔
آج صبح آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر صدیقی آئے تھے، جب تارا بائی ان کیلئے چائے لے کر برآمدے میں گئی تو وہ چونک پڑے اور خوشی سے پوچھا، ’’ارے تارا دئی۔۔۔ تم یہاں کام کر رہی ہو؟‘‘
’’جی صاحب۔۔۔‘‘ تارا بائی نے شرما کر جواب دیا۔ ’’اب صاف دکھائی دیتا ہے؟‘‘
’’جی داگدر جی۔۔۔ اب سب کچھ بہت صاف سجھائی دیتا ہے۔‘‘
’’گڈ۔۔۔‘‘ پھر وہ مسٹر اور مسز خورشید عالم سے مخاطب ہوئے۔ ’’بھئی یہ لڑکی دس سال کی عمر میں اندھی ہو گئی تھی، مگر خوش قسمتی سے اس کا اندھا پن عارضی ثابت ہوا۔ تمہیں یاد ہے الماس تمہاری انگیجمنٹ پارٹی کی رات مجھے ہسپتال بھاگنا پڑا تھا؟ وہاں ایک خاتون مس پیروجا دستور کا انتقال ہو گیا تھا، انہوں نے مرنے سے چند روز قبل اپنی آنکھیں آئی بینک کو ڈونیٹ کرنے کی وصیت کی تھی، لہذا ان کے مرتے ہی مجھے فوراً بلا لیا گیا کہ ان آنکھوں کے ڈیلے نکال لوں۔ بے حد نرگسی آنکھیں تھیں بے چاری کی۔ جانے کون تھی غریب، ایک بہری بڑھیا پارسن پلنگ کے سرہانے کھڑے بری طرح روئے جا رہی تھی بڑا الم ناک منظر تھا۔۔۔ خیر تو چند روز بعد اس تارا دئی کا ماموں اسے میرے پاس لایا تھا اسے کسی ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ نیا کورنیا لگانے سے اس کی بینائی واپس آ سکتی ہے۔ میں نے وہی مس دستور کی آنکھیں ذخیرے سے نکال کر ان کی کورنیا اس لڑکی کی آنکھوں میں فٹ کر دیا۔ دیکھو کیسی تارا ایسی آنکھیں ہو گئیں اس کی۔ واقعی میڈیکل سائنس آج کل معجزے دکھا رہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر صدیقی نے بات ختم کر کے اطمینان سے سگریٹ جلایا۔ مگر الماس بیگم کا چہرہ بھیانک ہو گیا ہے۔ خورشید عالم لڑکھڑاتے ہوئے اٹھ کر جیسے اندھوں کی طرح ہوا میں کچھ ٹٹولتے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ تارا بائی ان کی کیفیت دیکھ کر بھاگی بھاگی اندر جاتی ہے۔ تو صاحب پلٹ کر باؤلوں کی طرف اسے تکتے ہیں۔ تارا بائی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، وہ بوکھلائی ہوئی باورچی خانے میں جا کر برتن صاف کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے۔
دور برج خموشاں پہ اسی طرح گدھ اور کوّے منڈلا رہے ہیں۔
کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس
دوئی نیناں جن کھائیو پیا ملن کی آس
٭٭٭