لمبے چوڑے سیلے ہوئے غسل خانے میں دن کو بھی اندھیرا رہتا تھا۔ پتیل کے جھال پال تیتڑے، اونچا حمام، مٹکے، چوکی، رنگ برنگی صابن دانیاں، بیسن، ابٹن، جھانوے، لوٹے، آفتابے، مگے، کھونٹیوں پر غراروں اور میلے دوپٹوں کا انبار، آنولوں ریٹھوں سے بھری طشتریاں، اندھیرا خندوس موا علی بابا چالیس چور کا غار۔
لیکن یہی غسل خانہ چھمی بیگم کی دکھی زندگی میں وقت بے وقت جائے پناہ کا کام دیتا تھا۔ اسی کی ہرے شیشوں والی بند کھڑکی کا رخ چنبیلی والے مکان کی طرف تھا۔ اس کے ایک شیشے کا رنگ ناخن سے ذرا سا کھرچ کر چھمی بیگم نے باہر جھانکنے کا انتظام بھی کر رکھا تھا کہ چھمی بیگم کے لاڈلے ابن عم اجو بھائی چنبیلی والے مکان میں رہتے تھے۔ پہروں وہ اس شیشے میں سے سامنے والے گھر کو اس طرح تکتیں جیسے شاہ جہاں اپنے قید خانے میں سے تاج محل کو دیکھا کرتا تھا۔
اوسط درجے کے اس زمین دار خاندان کے آبائی گھر کے دو حصے تھے۔ باہر والا مردانہ حصہ جس کے صحن میں چنبیلی کی گھنی جھاڑیاں تھیں۔ ’’چنبیلی والا مکان‘‘ کہلاتا تھا۔ زنانے حصے کے آنگن میں املی کا سایہ دار درخت کھڑا تھا۔ اس لیے سارے محلے میں اس کا نام ’’املی والا مکان‘‘ پڑ گیا تھا۔ دونوں آنگنوں کی درمیانی دیوار میں آمد و رفت کے لیے ایک کھڑکی تھی۔ چھمی بی کے ابا اور اجو بھائی کے ابا ایک ساتھ رہتے تھے۔ چھمی بی کے پیدا ہوتے ہی اجو بھائی سے منگنی ہو چکی تھی۔ نو دس سال کی عمر میں منگیتر سے کانا پردہ کرا دیا گیا تھا۔ اجو بھائی بلا کے خوب صورت اور کھلنڈرے تھے۔ اکلوتے لاڈلے بیٹے اور دو بھائیوں کے گھر کا واحد چراغ اس لیے وہ تو جی بھر کے بگڑے۔ پتنگ بازی، کبوتر بازی، یہ بازی وہ بازی۔ لیکن بڑے ابا اور اماں کو اطمینان تھا کہ بیاہ ہوتے ہی سدھر جائیں گے۔
چھمی بیگم تو ہوش سبنھالتے ہی انہیں اپنا مجازی خدا سمجھنے لگی تھیں۔ ماں باپ کی اکلوتی وہ بھی تھیں۔ ان کے ناز بھی کم نہ اٹھائے جاتے۔ ضدی، غصیلی اور طنطنے والی چھمی بیگم سولہ سال کی ہوئیں تو شادی کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔ دونوں طرف دھوم دھام سے تیاریاں ہونے لگیں کہ اچانک موت نے اس سکھی اور خوشحال گھرانے کی بساط الٹ دی۔
اس سال شاہجہاں پور میں جو ہیضے کی وبا پھیلی اس میں پندرہ دن کے اندر اندر چھمی بیگم کے اماں اور ابا دونوں چٹ پٹ۔ چھمی بیگم پر قیامت گزر گئی لیکن ابھی تایا تائی کا سایہ سر پر سلامت تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اجو بھائی سے بیاہ ہونے والا تھا۔ چھمی بیگم ماں باپ کا سوگ منانے کے بعد پھر مستقبل کے سہانے خواب دیکھنے میں مصروف ہو گئیں۔ شادی کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی، لیکن اس سے پہلے کہ بڑے ابا کوئی تاریخ مقرر کریں ان کا بیٹھے بٹھائے ہارٹ فیل ہو گیا۔ بڑے ابا کے مرتے ہی اجو بھائی نے کہا کہ وہ چند مقدموں کے معاملات سنبھالنے لکھنؤ جا رہے ہیں اور مصاحبوں کے ساتھ اڑنچھو ہوئے۔
اب املی والے مکان میں رہ گئیں بڑی اماں جو بالکل باولی ہو رہی تھیں اور چھمی بیگم۔ مردانہ سونا ہو گیا۔ ڈیوڑھی پر پرانے ملازم دھمو خاں ڈنڈا سنبھالے بیٹھے رہ گئے۔ اندر سلامت بوا اور ان کی لڑکیاں روتی ناک سنکتی کھانا پکانے میں جٹی رہتیں۔ گھر کی حفاظت کے لیے بڑی اماں نے ایک بوڑھے رشتے دار ملن خاں کو بریلی سے بلوا بھیجا جو چنبیلی والے مکان کے دالان میں کھٹیا ڈال کر پڑ رہے۔
اجو بھائی لکھنؤ گئے تو وہیں کے ہو رہے۔ ہر خط میں اماں کو لکھ بھیجتے کہ مقدمے کی تاریخ بڑھ گئی ہے۔ مہینے دو مہینے میں آ جاؤں گا۔ پورے چھ مہینے بعد واپس آئے تو بڑی اماں نے شادی کا ذکر چھیڑا۔ بولے جب تک زمینوں کے معاملات نہیں سدھر جاتے۔ میں شادی وادی نہیں کرنے کا۔ جبھی سے چھمی بیگم تاریک غسل خانے کے کونے میں میلے کپڑوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر چپکے چپکے رونے لگیں۔ اب چھمی بیگم انیس سال کی ہو چکی تھیں۔
اجو بھائی نے شاید طے کر لیا تھا کہ لکھنؤ ہی میں رہیں گے۔ لوگوں نے آ کر بتایا تھا کہ وہاں خوب رنگ رلیاں منا رہے ہیں۔
چھمی بیگم بھی نہ جانے کیسا نصیبہ لے کر آئی تھیں۔ ایک دن بڑی اماں پر دل کا دورہ پڑا اور وہ بھی چل بسیں۔ اب چھمی بیگم تن تنہا حق حیران رہ گئیں۔ آنگن میں الو بولنے لگا۔ مزید حفاظت کے خیال سے اندھے دھندے ملن میاں چنبیلی والے مکان سے املی والے مکان میں منتقل ہو گئے۔ ادھر دالان میں پڑے وہ کھانسا کرتے، ڈیوڑھی میں دھمو خاں کھانستا رہتا۔ اجو بھائی ماں کے مرنے میں آئے تھے۔ تیجا کرتے ہی واپس چلے گئے۔
کس طرح انہوں نے بیچ منجدھار میں چھمی بیگم کا ساتھ چھوڑا۔ اللہ اللہ! جب وہ یہ سب سوچتیں تو کلیجہ پھٹنے لگتا۔ مہینے کے مہینے لکھنؤ سے دو سوروپئے کا منی آرڈر آ جاتا یا کبھی کبھار ملن خاں کے نام خیر خبر پوچھنے کا خط۔ ملن خاں کی بیوی اور بیٹی بھی بریلی سے آ گئی تھیں لیکن اپنی تنک مزاجی کی وجہ سے چھمی بیگم کی ان دونوں سے ایک دن نہ بنی۔ دن بھر رشتے داروں سے لڑنے جھگڑنے یا آپ ہی آپ تلملانے اور کلپنے کے بعد چھمی بیگم پھر غسل خانے میں گھس جاتیں اور روتیں یا ’’شاہجہانی شیشے‘‘ میں سے چنبیلی والے مکان کو تکا کرتیں۔
یہ زندگی بھی کیسی زندگی ہے۔ وہ سوچتیں۔ ابھی سب کچھ ہے ابھی کچھ بھی نہیں۔ کل کی بات معلوم ہوتی ہے کہ اس گھر پر کتنی رونق تھی۔ دالان میں آرام کرسیاں پڑی ہیں۔ صحن میں مونڈھے بچھے ہیں۔ گیس کے ہنڈے سنسنا رہے ہیں۔ ابا اور بڑے ابا کے دوستوں کی محفل جمی ہے۔ مشاعرے ہو رہے ہیں۔ قوال گارہا ہے۔ جب اجو بھائی کے دوست احباب آتے تو اجو آنگن والی کھڑکی میں آ کر کھنکارتے اور ایک مخصوص آواز میں آہستہ آہستہ سے پکارتے۔ ’’ارے بھئی چھمو! ذرا چائے تو بھجوا دو۔‘‘
اس بھرے پرے گھر کو کس کی نظر کھا گئی؟ اپنی اس شدید یاس ونا امیدی کے باوجود چھمی بیگم کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن اجو واپس آئیں گے۔ چنبیلی والا مکان پھر آباد ہو گا۔
جمعے کے جمعے وہ مردانے مکان میں جاتیں۔ دھمو خاں اور سلامت بوا کی لڑکیوں کے ساتھ مل کر باغ کے جھاڑ جھنکاڑ کی صفائی کرواتیں۔ دالان کے جالے صاف کیے جاتے۔ اندر کے کمرے مقفل تھے۔ دروازوں کے شیشوں میں سے جھانک کر وہ بڑے ابا، ابا اور اجو کے کمروں پر نظر ڈالتیں اور سر ہلاتیں، ٹھنڈی آہیں بھرتی واپس آ جاتیں۔
چھمی بیگم تیس سال کی ہو گئیں۔ بال وقت سے پہلے سفید ہو چلے۔ اب انہوں نے چنبیلی کے باغ کی دیکھ بھال بھی چھوڑ دی۔ دل دنیا سے اچاٹ سا ہو گیا لیکن غصے اور طنطنے کا عالم وہی رہا بلکہ اب عمر کی پختگی کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ان کی اس تمکنت اور طنطنے کے لیے وجوہات کچھ کم نہ تھیں۔ ماں باپ خالص اصل نسل روہیلے پٹھان، دادا پرداد ہفت ہزاری نہ سہی ایک ہزاری، دو ہزاری (یا نگوڑے جو کچھ بھی وہ ہوتے تھے ) ضرور ہی رہے ہوں گے۔ سارے کنبے کا سرخ و سپید رنگ اور پٹھانی خود داری اور غصہ اس حقیقت کا کھلا ثبوت تھا کہ اس خاندان میں کھبیل کبھی نہ ہوئی۔ ماضی کے ان جغادری روہیلہ سرداروں کے نام لیوا اس کنبے کے حسب نسب پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اس فکر میں وہ بالکل قلعہ بند ہو کر بیٹھ رہیں۔ محلے کی عورتوں سے ملنا جلنا بھی کم کر دیا۔ بیواؤں کے سے سفید کپڑے پہننے لگیں۔
ان کا زیادہ وقت مصلے پر گزرتا۔ اکثر دوپہر کے سناٹے میں سلامت بوا آنگن کی کھڑکی میں بیٹھ کر زردہ پھانکتے ہوئے بڑی ڈراؤنی آواز میں آپ سے آپ بڑبڑاتیں۔۔۔ ’’باری تالا فرماتا ہے مجھے دو وخت اپنے بندوں پر ہنسی آتی ہے ایک جب جسے میں بنا رہا ہوں اسے کوئی بگاڑنے کی کوشش کرے اور دو جب جسے میں بگاڑ رہا ہوں وہ اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے بس دو ’وخت‘۔۔۔‘‘
اور چھمی بیگم دہل کر ڈانٹتیں۔ ’’اے سلامت بوا! نحوست کی باتیں مت کرو۔‘‘ لیکن سلامت بوا اطمینان سے اسی طرح بڑبڑاتی رہتیں۔
اس روز نو چندی جمعرات تھی۔ چھمی بیگم غسل خانے میں نہا رہی تھیں۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ حمام کے نیچے سلگتے انگارے کب کے بجھ چکے تھے اور چھمی بیگم کو کپکپی سی چڑھ رہی تھی۔ جلدی سے بال تولیہ میں لپیٹ کر کھڑاوں پہن رہی تھیں جب باہر سے سلامت بوا کی سڑبلی نواسی نے زور سے غسل خانے کے دیمک لگے کواڑ کی کنڈی کھڑکھڑائی۔ ’’ آپا! اے آپا! جلدی نکلو۔‘‘
’’ارے کیا ہے باؤلی!‘‘ چھمی بیگم نے جھنجھلا کر آواز دی۔
’’آپا! چنبیلی والے مکاں میں آپ سے کہا ہے کہ چار پانچ جنوں کے لیے چائے بھجوا دو جلدی۔‘‘
’’کیا۔۔۔ کیا؟‘‘ چھمی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔
انہوں نے جلدی سے شاہجہانی شیشے سے آنکھ لگا دی۔ صحن کا پھاٹک کھلا ہوا تھا۔ باہر دو تانگے کھڑے تھے۔ دو تین لقندرے سامان اتروا رہے تھے۔ ایک سیاہ فام لیکن تیکھے نقش والی عورت سرخ جارجٹ کی ساڑی پہنے ہری بنارسی شال میں لپٹی دالان میں مونڈھے پر بیٹھی اطمینان سے گھٹنے ہلا ہلا کر نوکروں کو احکام دے رہی تھی۔ ایک اس کی ہم شکل تیرہ چودہ سالہ بڑی شکل والی اچھال چھکا سی لڑکی کاسنی شلوار قمیص پہنے فرش پر اکڑوں بیٹھی ایک بکس کھولنے میں مشغول تھی۔
اتنے میں اندر سے اجو بھائی۔۔۔ جی ہاں ہمیشہ کی طرح بانکے چھبیلے اجو بھائی دالان میں آئے۔ جھک کر اس لال چڑیل سے کچھ کہا۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنسی۔ چھمی بیگم کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ نیم تاریک غسل خانہ اب بالکل اندھا کنواں بن گیا۔
انہوں نے جلدی سے ایک کھونٹی پکڑ لی، لڑکھڑاتی ہوئی باہر آئیں اور بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گر گئیں۔ بات یہ تھی کہ اجو بھائی جنہوں نے برسوں سے لکھنؤ والی کلو کو گھر ڈال رکھا تھا اب باقاعدہ نکاح کر کے اسے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ کاسنی شلوار والی لڑکی اشرفی کلو اپنے ساتھ لائی تھی، اجو بھائی کی نہیں تھی۔
شام کو اجو بھائی پردہ کروائے بغیر درّانہ زنانے میں چلے آئے اور دالان میں پہنچ کر پکارا۔
’’ارے بھئی چھمو۔۔ ۔ آؤ اپنی بھابی سے مل لو۔‘‘ چھمی بیگم کانپ کر رہ گئیں۔
پلنگ سے اٹھ کر پھر غسل خانے میں جا گھسیں اور زور سے چٹخنی چڑھا دی۔ اجو بھائی ذرا چور سے بنے دالان کے ایک در میں کھڑے رہے۔ کلو ان کے پیچھے کھڑی تھی۔ دونوں میاں بیوی چند منٹ تک اسی طرح چپ چاپ کھڑے رہے اور پھر سرجھکائے چنبیلی والے مکان واپس چلے گئے۔
اس دن کے بعد سے چھمی بیگم کی دنیا بدل گئی۔ اب وہ سارا دن قرآن شریف ہی پڑھا کرتیں۔ اجو نے انہیں اتنے برسوں ہوا میں معلق رکھ کے ان کی زندگی تباہ کر کے کسی اور سے شادی کر لی۔ اس ناقابل برداشت صدمے سے زیادہ دہشت انہیں اس بات تھی کہ انہوں نے کلو بائی طوائف سے نکاح کر کے خاندان کا حسب نسب برباد کر دیا۔ چھمی بیگم اس جرم کے لیے انہیں مرتے دم تک معاف نہ کر سکتی تھیں۔
کلو نے کئی بار ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اکثر وہ آنگن کی کھڑکی میں آہستہ سے کہتی ’’بٹیا! کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیجئے۔‘‘
کبھی کوئی خاص کھانا پکتا تو نوکر کے ہاتھ سے بھجواتی لیکن چھمی بیگم نے دھمو خاں کو حکم دے رکھا تھا کہ چنبیلی والے مکان سے کوئی چڑیا کا بچہ بھی اس طرف آئے تو اس کی ٹانگیں توڑ دو۔ گھر واپس آنے کے دوسرے مہینے اجو بھائی نے ملن خاں کے ہاتھ دو سو روپے بھجوائے جو وہ اب تک لکھنؤ سے بھیجا کرتے تھے۔ لیکن اب صورت حال بدل چکی تھی۔ چھمی بیگم کھڑکی میں جا کر للکاریں۔
’’جمعہ خاں مرحوم کی بیٹی اور شبو خاں مرحوم کی بھتیجی چکلے سے آیا ہوا ایک پیسہ بھی اپنے اوپر حرام سمجھتی ہے۔ ملن خاں ! غیرت والے پٹھان ہو تو جا کر یہ دو سو روپلی بھیجنے والوں کے منہ پر دے مارو۔‘‘
یہ رجز پڑھ کر انہوں نے کھڑکی کا دروازہ بند کیا اور اس میں یہ موٹا قفل ڈال دیا۔
اب چھمی بیگم اپنے زیور بیچ کر گزر بسر کرنے لگیں۔ زیور ختم ہو گئے تو گھر کا قیمتی پرانا سامان کباڑی کے ہاتھ فروخت کر ڈالا لیکن بھوک ایک دائمی مرض ہے جس کا وقتی علاج کافی نہیں اور چھمی بیگم کو دھمو خاں، ملن خاں، سلامت بوا اور ان کے چینگڑ پوٹوں کا پیٹ بھرنا تھا۔ انہوں نے گھر میں قرآن شریف اور اردو پڑھانے کے لیے بچیوں کا مکتب کھول لیا۔ محلے والوں کی سلائی کرنے لگیں۔ جب محنت کرتے کرتے بیمار پڑ گئیں اور ہل ہل کر بخار چڑھ آیا تو سلامت بوا ہڑبڑا گئیں اور غصے سے بولیں۔ ’’بی بی! کیا آن پر جان دے دو گی؟ ایسی بھی کیا نگوڑی آن!‘‘
لیکن چھمی بیگم پر غنودگی طاری تھی۔ سلامت بھاگی بھاگی چنبیلی والے مکان پہنچیں۔ کلو فوراً سر پر برقع ڈال گلی کے راستے اندر آئی۔ ڈاکٹر بلایا گیا۔ کلو ساری رات نند کی پٹی سے لگی بیٹھی رہی۔ اجو بھائی نے کئی بار آ کر دکھیاری چچا زاد بہن کی حالت دیکھی لیکن شاید اب بھی اس بے انصافی کا احساس انہیں نہ ہوا جو انہوں نے چھمی بیگم کے ساتھ کی تھی کیوں کہ بقول سلامت بوا اس کالی کلوٹی کلو نے انہیں الو کا گوشت کھلا رکھا تھا۔
چھمی بیگم کو جوں ہی ہوش آیا۔ آنکھیں کھولیں اور کلو کا متفکر چہرہ سامنے دیکھا ان پر غم و غصے کا بھوت پھر سوار ہو گیا۔ کلو ان کے پٹھانی جلال سے بے حد خوف زدہ تھی۔ فوراً کان دبا کر اپنے گھر واپس بھاگ گئی۔ بیش تر طوائفوں کی طرح جو شادی کر کے بے حد وفا شعار بیویاں ثابت ہوتی ہیں، کلو بھی بڑی پتی ورتا عورت تھی۔ اس کی سب سے بڑی تمنا یہی تھی کہ چھمی بیگم اسے کنبے کی بہو اور اپنی بھاوج سمجھ کر املی والے مکان میں داخل کر لیں۔ اس کی تمنا کبھی نہ پوری ہوئی۔
دس سال نکل گئے۔ اجو بھائی کو چھمی بیگم کے رشتے کی فکر بھی تھی لیکن چھمی بیگم ادھیڑ ہو چکی تھیں۔ اب ان سے شادی کون کرے گا۔ چھمی بیگم ان سے اور کلو سے اسی طرح شدید پردہ کرتی تھیں۔ اسی طرح مدرسہ چلا کر گزر کر رہی تھیں کہ ملک تقسیم ہو گیا۔ آدھا شاہجہاں پور سمجھو خالی ہو گیا۔ ان کے مکتب کی ساری لڑکیاں اپنے اپنے ماں باپ کے ساتھ پاکستان چلی گئیں۔ چھمی بیگم کے ہاں روٹیوں کے لالے پڑ گئے۔
اسی زمانے میں شامت اعمال کہ کسی کام سے اجو بھائی دلی گئے اور فسادوں میں وہ بھی اللہ کو پیارے ہوئے جب ان کی سناؤنی آئی ہے کلو پچھاڑیں کھانے لگی۔ چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ آنگن کی کھڑکی پر مکے مار مار کر ہاتھ لہولہان کر لیے۔۔۔
’’بٹیا!۔۔۔ دروازہ کھولیے۔۔۔ ہائے بٹیا۔۔۔ بٹیا۔۔۔ ارے میں کہیں کی نہ رہی!‘‘
چھمی بیگم دالان کے تخت پر بے خبر سو رہی تھیں۔ بین سن کر جاگ اٹھیں۔ دیوار کی کیل سے ٹنگی کنجی اتاری۔ تالا کھولا۔ کلو بال بکھرائے بھتنی کی طرح کھڑی چیخ رہی تھی۔
’’ارے لوگو! میرا سہاگ لٹ گیا۔۔۔ ہائے بٹیا میری مانگ اجڑ گئی!!‘‘ اس نے آگے بڑھ کر چھمی سے لپٹنا چاہا۔ وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئیں۔ نیند سے بوجھل آنکھیں ملیں اور اچانک ان کی سمجھ میں بات آ گئی۔ تب وہ بھی کھڑکی میں بیٹھ گئیں۔ سفید دوپٹہ منہ پر رکھ لیا۔ سسک سسک کر رونے لگیں۔ اور روتے روتے بولیں۔ ’’اری مردار تو تو آج بیوہ ہوئی ہے۔ میں بد بخت تو سدا کی بیوہ ہوں۔‘‘
اجو بھائی کے چالیسویں کے بعد ہی کلو نہ جانے کہاں غائب ہو گئی۔ اس کی لڑکی اشرفی جس کا چند سال پہلے اجو بھائی مرحوم نے اپنے کسی مصاحب سے نکاح کروا دیا تھا، لکھنؤ سے آئی اور چنبیلی والے مکان کے ساز و سامان پر قبضہ کیا اور سب چیزیں چھکڑوں پر لدوا کر چلتی بنی۔ چھمی بیگم غسل خانے کے شیشے میں سے بے نیازی کے ساتھ فانی دنیا کے یہ سارے تماشے دیکھتی رہیں۔
چنبیلی والے مکان پر کسٹوڈین کا تالا پڑ گیا کیوں کہ چھمّی بیگم عدالت میں یہ کسی طرح ثابت نہ کر پائیں کہ اجو بھائی پاکستان نہیں گئے بلوے میں مارے گئے ہیں۔ خود کسی پرانے آسیب کی طرح وہ املی والے مکان میں موجود رہیں۔ ملن خاں اور دھمو خاں دونوں بڑھاپے اور فاقہ کشی کی وجہ سے مر گئے۔ سلامت بوا پر فالج گر گیا۔ ان کی لڑکیاں اور داماد پاکستان چلے گئے۔
چھمی بیگم سلائی کر کے پیٹ پالتی رہیں۔ تن تنہا مکان میں رہتے اب انہیں ڈر نہیں لگتا تھا کیوں کہ سر سفید ہو چکا تھا بہت جلد محلے کی بڑی بوڑھی کہلائیں گی۔ کچھ عرصے بعد چنبیلی والے مکان میں ایک سکھ شرنارتھی ڈاکٹر آن بسے کبھی کبھی سردارنیاں آنگن کی کھڑکی میں آن بیٹھتیں اور وہ اور چھمی بیگم اپنے اپنے دکھ سکھ کی باتیں کرتیں۔ ڈاکٹر صاحب کی لڑکی چرن جیت کی شادی نئی دہلی میں کسی سرکاری افسر سے ہوئی تھی۔
اب کی بار وہ میکے آئی تو اس نے اپنی ماں سے کہا کہ اس کے شوہر کے مسلمان افسر اعلی کی بیگم کو استانی کی ضرورت ہے جو گھر پر رہ کر ان کے بچوں کو اردو اور قرآن پڑھائے۔
’’میں تو چھمی ماسی سے کہتے ڈرتی ہوں۔ انہیں جلال آ جائے گا، آپ کہہ کر دیکھئے۔‘‘ بڑی سردارنی نے چھمی بیگم سے اس ملازمت کا ذکر کیا۔ سمجھایا بجھایا۔
’’بہن جی اس تنگ دستی اور تنہائی میں کب تک بسر کرو گی۔ دلی چلی جاؤ۔ صبیح الدین صاحب کے ہاں عزت و آرام سے بڑھاپا کٹ جائے گا۔‘‘ چھمی بیگم کا غصہ کب کا دھیما پڑ چکا تھا۔ جوش و خروش، طنطنے اور جلال میں کمی آ گئی تھی۔ ان کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی کہ اگر کل کلاں کو مر گئیں تو آخر وقت میں یٰسین شریف پڑھنے والا تو کوئی ہونا چاہئے۔ قصہ مختصر یہ کہ چھمی بیگم برقعہ اوڑھ صرف ایک بکس اور بستر اور لوٹا ساتھ لے کر گھر سے نکلیں جو اب تک بالکل کھنڈر ہو چکا تھا اور اس کے کھنڈر ہونے کا اب انہیں قطعی غم نہ تھا کیوں کہ وہ تیاگ اور سنیاس کی اسٹیج پر پہنچ چکی تھیں۔
وہ ریل میں بیٹھ کر دلی پہنچیں جہاں ریلوے اسٹیشن پر بے چاری بیگم صبیح الدین چرن جیت سنگھ کا خط ملنے پر کار لے کر خود انہیں گھر لے جانے کے لیے آ گئی تھیں۔ اس روز سے چھمی بیگم بنت جمعہ خاں زمین دار شاہجہاں پور مغلانی جی بن گئیں۔ چھمی بیگم نے پورے بارہ سال سفید براق دوپٹہ ماتھے سے لپیٹے صبیح الدین صاحب کے گھر میں گزار دیئے۔ بچے جنہیں وہ اردو اور قرآن شریف پڑھانے آئی تھیں بڑے ہو گئے۔ بڑا لڑکا بی۔ اے کے بعد اپنے چچا کے پاس پاکستان بھیج دیا گیا۔ منجھلی لڑکی بھی کراچی چلی گئی۔ چھوٹی لڑکی کالج میں پہنچ گئی۔
اب بیگم صبیح الدین کو چھمی بیگم کی ضرورت نہیں تھی۔ صبیح الدین صاحب ریٹائر ہو کر اپنے وطن مرزا پور جانے والے تھے۔ دہلی سے روانہ ہونے سے پہلے بیگم صبیح الدین نے چھمی بیگم کو اپنی دوست بیگم راشد علی کے ہاں رکھوا دیا۔
راشد علی صاحب بھی حکومت ہند کے ایک اعلیٰ افسر تھے۔ چھمی بیگم صبیح الدین صاحب کے ہاں بہت سکھ چین سے رہی تھیں۔ ان سے گھر کے بزرگوں کا سا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ انہیں تینوں بچوں سے بے حد محبت ہو گئی تھی۔ غصہ بھی بہت کم آتا تھا۔ اگر آتا بھی تو اپنی محبوریوں کا خیال کر کے پی جاتی تھیں۔ اب وہ نخرا دکھاتیں بھی کس پر۔ ناز اٹھانے، خفگی برداشت کرنے والے سب اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ کبھی کبھی انہیں کلو کا خیال بھی آ جاتا اور سوچتیں نہ جانے کم بخت اب کہاں اور کس حال میں ہو گی یا شاید وہ بھی مر کھپ گئی ہو۔ آج کل زندگیوں کا کیا بھروسہ ہے۔
بیگم راشد علی بیگم صبیح الدین کی طرح درد مند اور دین دار خاتون تو نہ تھیں۔ آج کل کی ماڈرن لڑکی تھیں لیکن عزت انہوں نے بھی چھمی بیگم کی بہت کی۔ یہاں بھی وہ گھر کے فرد کی حیثیت سے رہتیں۔ راشد علی ان کا بہت خیال رکھتے۔ ان کے با رعب، پر وقار شکل و صورت اور اعلیٰ نسبی سے سب ہی متاثر تھے۔
بیگم راشد اکثر سہیلیوں سے کہتیں۔ ’’بھئی واقعی زندگیوں میں کیسے کیسے انقلاب آتے ہیں۔ پل کی پل میں کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ ہماری مغلانی بی کا قصہ سنا ہے آپ نے؟ شاہجہاں پور کے فلاں خاندان۔۔۔۔۔‘‘
اور سننے والی خواتین سر ہلا کر ٹھنڈی سانسیں بھرتیں اور دوسرے اسی طرح کے عبرت انگیز، نصیحت آموز واقعات سناتیں۔
بیگم راشد کے بچے بہت خورد سال تھے۔ ان پر حیدر آبادی ’’آیا ماں‘‘ مامور تھیں۔ چھمی بیگم ہاؤس کیپر بن گئیں۔ گھر سنبھالنے کے لیے بیگم راشد کو چھمی بیگم کی بے حد ضرورت تھی کیوں کہ ان کا اپنا وقت زیادہ تر کلبوں، پارٹیوں اور سرکاری تقریبات میں گزرتا تھا۔ پانچ برس چھمی بیگم نے راشد علی صاحب کے گھر میں کاٹ دئیے۔
جب راشد صاحب کا تبادلہ ہندوستانی سفارت خانے واشنگٹن ہونے لگا، ان کی بیگم کو فکر ہوئی کہ چھمی کا کہیں اور ٹھکانہ بنائیں۔ ایک دن وہ اپنے ایک الوداعی لنچ کے لیے روشن آرا کلب گئیں ہوئیں تھی اور چھمی بیگم سے کہتی گئیں تھیں کہ فلاں وقت کار لے کر منی کو میرے پاس لے آئیے گا۔
جب چھمی بیگم روشن آرا کلب پہنچیں لنچ ابھی ختم نہ ہوا تھا۔ چھمی بیگم بچی کی انگلی پکڑے سبزے پر ٹہلتی رہیں۔ چھمی بیگم اب پردہ نہیں کرتی تھیں اور ساڑھی پہنتی تھیں۔ اس نگوڑی دلی میں انہیں پہچاننے والا اب کون رکھا تھا۔
سامنے برآمدے میں ایک طرف رمی کی محفل جمی ہوئی تھی اور ایک بے حد فیشن ایبل چالیس پینتالیس سالہ حقاقہ دقاقہ خاتون پانچ چھ مردوں کے ساتھ قہقہے لگا لگا کر تاش کھیلنے میں مصروف تھیں۔ سترہ برس نئی دلی میں رہ کر چھمی بیگم اس نئی ’’اعلیٰ سوسائٹی‘‘ اور جدید ہندوستانی خواتین کی الٹرا ماڈرن طرز زندگی کی بھی عادی ہو چکی تھیں اس لیے چھمی بیگم اطمینان سے گھاس پر ٹہلا کیں۔ چند منٹ بعد اس خاتون نے سر اٹھا کر چھمی بیگم کو ذرا غور سے دیکھا۔ کچھ دیر بعد پھر نظر ڈالی اور اپنے ایک ساتھی سے کچھ کہا۔
تب چھمی بیگم نے دیکھا ایک مردوا تاش کی میز سے اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ان کی طرف آ رہا ہے۔ قریب آ کر اس نے کہا۔ ’’بڑی بی! ذرا ادھر آئیے۔‘‘
چھمی بیگم متانت سے برآمدے میں پہنچیں۔ اجنبی خاتون نے پوچھا یہ بچی کس کی ہے اور وہ کس کی ملازمہ ہیں؟ چھمی بیگم نے بتایا۔ خاتون نے کہا کہ وہ بمبئی میں رہتی ہیں اور آج کل انہیں بھی ایک قابل اعتبار بڑی بی کی تلاش ہے۔ اگر وہ اپنی جیسی کسی بڑی بی کو جانتی ہوں تو بتائیں۔
چھمی بیگم فوراً دل میں اس رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر بجا لائیں جو رزق کا ایک دروازہ بند کرتا ہے تو دوسرا کھول بھی دیتا ہے۔ پھر انہوں نے اسی وقار سے جواب دیا کہ وہ خود بہت جلد اپنی ملازمت سے سبکدوش ہونے والی ہیں۔
’’میری بیگم ابھی باہر آتی ہوں گی۔ ان سے بات کر لیجئے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ بیگم راشد کے انتظار میں وہیں برآمدے کے ایک در میں ٹک گئیں۔
جب بیگم راشد لنچ روم سے نکلیں تو میز سے اٹھ کر اجنبی خاتون نے فوراً اپنا تعارف کرایا۔ اپنا نام مسز رضیہ بانو بتایا اور چھمی بیگم کے متعلق ان سے بات کی۔ بیگم راشد بھی بہت خوش ہوئیں اور وعدہ کیا کہ واشنگٹن روانہ ہونے سے پہلے وہ چھمی بیگم کو خود بمبئی کی ریل میں بٹھا دیں گی۔ رضیہ بانو نے بتایا تھا کہ وہ آج شام ہی بمبئی واپس جا رہی ہیں۔ اپنے گھر کا پتہ لکھ کر انہوں نے چھمی بیگم کو دے دیا۔
لیکن بیگم راشد نے ذرا متفکر ہو کر پوچھا۔ ’’خالہ تم اکیلی اتنی دور کا سفر کر لو گی؟‘‘
چھمی بیگم نے فوراً اقرار میں سر ہلا دیا۔ چھمی بیگم کو اب زندگی میں کسی بات کے لیے ’’نہیں‘‘ کہنے کی ضرورت ہی نہ رہی تھی۔
انہوں نے رضیہ بانو سے تنخواہ کا فیصلہ بھی نہ کیا۔ کیوں کہ انہوں نے ہمیشہ کے لیے ایک تنخواہ مقرر کر لی تھی۔ چالیس روپے ماہوار اور کھانا۔ یہ چالیس روپے ان کی ذاتی ضروریات کے لیے ضرورت سے زیادہ تھے۔ کپڑے ہمیشہ انہیں اپنی بیگموں سے مل جاتے تھے۔ عرصہ ہوا انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ کپڑے لتے، گہنے پاتے، جائداد املاک، رشتے ناطے، دوستی محبت، سب بے معنی اور فانی چیزیں ہیں۔
بیگم راشد علی اور چھمی بیگم برآمدے سے اترنے لگیں تو رضیہ بانو نے بیگ کھول کر فوراً ڈیڑھ سو روپے کے نوٹ نکال کر چھمی بیگم کے حوالے کر دئیے ’’سفر خرچ اور دوسرے اخراجات‘‘ انہوں نے ذرا بے پروائی سے کہا۔
بیگم راشد علی کو ان کی اس دریا دلی پر حیرت ہوئی لیکن انہیں خود معلوم تھا کہ بمبئی میں ایک سے ایک بڑی سیٹھانی بستی ہے۔ چھمی بیگم نے خاموشی سے نوٹ صدری کی جیب میں اڑس لیے۔ انہوں نے اب زندگی کے انوکھے واقعات پر متعجب ہونا بھی چھوڑ دیا تھا۔
مسٹر و مسز راشد علی کے امریکہ روانہ ہونے سے دو دن پہلے چھمی بیگم نے بھی ٹرین میں سوار ہو کر بمبئی کا رخ کیا۔ بمبئی سنٹرل پہنچ کر وہ پہلی بار ذرا گھبرائیں کیوں کہ نئی دلی کی پرسکون کوٹھیوں میں انہوں نے اب تک بہت محفوظ اور مامون زندگی گزاری تھی۔ اللہ کا نام لے کر پلیٹ فارم سے باہر نکلیں۔ قلی کے سر سے اپنا ٹین کا بکس اور دری میں لپٹا بستر اتروایا۔ اپنا لوٹا، دستی پنکھا اور پندنیا ہاتھوں میں سنبھال کر ٹیکسی کی۔ سردار جی کو پتہ بتایا۔ ’’گلزار، جاڈن روڈ۔‘‘
چند منٹ میں ٹیکسی ایک بلند وبالا ئی عمارت کی برساتی میں جا رکی۔ چھمی بیگم نے بوڑھے سردار جی کو کرایہ دیا جو راستے میں ان سے دنیا کے حالات پر تبادلہ خیالات کرتے آئے تھے۔
اسی وقت دو بے حد اسمارٹ لڑکیاں لفٹ سے نکل کر سردار جی کی ٹیکسی میں بیٹھ گئیں۔ سردار جی نے خاموشی سے فلیگ گرایا اور پھاٹک سے باہر نکل گئے۔ کس قدر غیر شخصی، منظم اور مکینکل زندگی اس شہر کی تھی۔
چھمی بیگم نے صدری کی جیب سے میلا کاغذ کا ٹکڑا نکال کر پھر آنکھیں چندھیائیں اور پتہ پڑھا۔ گیارہویں منزل فلیٹ ۳، اسٹول پر بیٹھے چوکیدار نے اکتائے ہوئے انداز میں خاموشی سے اٹھ کر ان کا سامان لفٹ میں رکھ دیا۔ لفٹ آٹو میٹک تھا۔ چھمی بیگم بہت گھبرائیں چوکیدار جلدی سے اندر آیا اور نہیں گیارہویں فلور تک پہنچا کر واپس نیچے چلا گیا۔
اب چھمی بیگم اپنے سامان سمیت طویل گیلری میں اکیلی کھڑی تھیں۔ پھر ان کی نظر ایک نزدیکی دروازے پر پڑی جس کے اوپر نمبر ۳ لکھا تھا۔ دروازے پر ایک اور آہنی جالی دار دروازہ چڑھا تھا جو اندر سے مقفل تھا جیسے بنکوں کے دروازے ہوتے ہیں۔ چھمی بیگم نے آگے بڑھ کر گھنٹی بجائی۔ چند لحظوں بعد ایک بھوری آنکھ نے اندرونی کواڑ کے جالی دار سوراخ کا پٹ ہٹا کر جھانکا۔ چھمی بیگم کو دفعتہً برسوں بعد اپنے غسل خانے کی کھڑکی کا کھرچا ہوا شیشہ یاد آ گیا جس میں سے انہوں نے پہلی بار اس منحوس لال چڑیل کو دیکھا تھا۔
مزید توقف کے بعد دونوں دروازے کھلے اور ایک غصیلا سا گورکھا باہر نکلا۔ اس نے مشکوک اور بے رحم نظروں سے چھمی بیگم کو دیکھا۔ چھمی بیگم ڈر سی گئیں لیکن پھر یاد آیا وہ بھی پٹھان ہیں۔ سر اٹھا کر وقار سے کہا۔
’’بیگم صاحب سے کہو چھمی بیگم دلی سے آ گئی ہیں۔‘‘
’’مالوم ہے۔ تم دلی سے آیا ہے اندر آ جاؤ۔‘‘ گورکھے نے خشکی سے جواب دیا اور باہر نکل کر ان کا بکس بستر اٹھا لیا۔
اس کے پیچھے پیچھے چھمی بیگم اندر آ گئیں تو اس نے کھٹ سے دونوں دروازے مقفل کر دیئے۔ اب چھمی بیگم ایک نیم تاریک، ایر کنڈیشنڈ عالی شان ڈرائنگ روم میں کھڑی تھیں۔ ایسا شان دار ڈرائنگ روم تو نہ بے چارے صبیح الدین صاحب کا تھا اور نہ راشد علی صاحب کا۔ ایک طرف کی دیوار پر سیاہ پردہ پڑا تھا جو ذرا سا سرکا ہوا تھا اور اس کے پیچھے دیوار میں نصب سنیما کی چھوٹی سی اسکرین نظر آ رہی تھی۔ کمرے کے دوسرے حصے میں بار تھی۔
’’بیگم صاحبہ ہیں؟‘‘ چھمی بیگم نے دونوں ہاتھوں میں لوٹا، پندنیا اور پنکھا اٹھائے اٹھائے دریافت کیا۔
’’میم صاحب سو رہا ہے۔‘‘
’’اور صاحب؟‘‘ ملازمت شروع ہونے سے پہلے گھر کے صاحب کے انٹرویو سے وہ ہمیشہ جھجکتی تھیں۔ گورکھے نے کوئی جواب نہ دیا اور ڈرائنگ روم سے نکل کر ایک گیلری کی طرف چلا۔ چھمی بیگم اس کے پیچھے پیچھے دونوں طرف دیکھتی ہوئی۔ گیلری میں دو رویہ چار دروازے تھے جو سب اندر سے بند تھے۔ یہ بہت بڑا اور پر شکوہ فلیٹ تھا۔ آگے جا کر گیلری بائیں طرف کو مڑ گئی تھی۔ یہاں باورچی خانہ اور نوکروں کے دو مختصر سے کمرے تھے جن کے باہر بالکنی تھی۔ نوکروں کے استعمال والے زینے میں بھی اندر سے تالا پڑا تھا۔ ایک صاف ستھری اور روشن خالی کوٹھری میں جا کر گورکھے نے بکس بستر ادھم سے زمین پر رکھ دیا اور اسی طرح چپ چاپ باہر چلا گیا۔
چھمی بیگم نے پندنیا بڑے طاق کے تختے پر رکھ کر اپنی نئی جائے پناہ، نئے ٹھکانے پر نظر ڈالی۔ کونے میں لوہے کا ایک پلنگ پڑا تھا۔ انہوں نے دل میں سوچا یہ بہت چبھے گا۔ دیواروں پر پچھلے شوقین مزاج ملازم کی چپکائی ہوئی فلم ایکٹرسوں کی تصویر مسکرا رہی تھیں۔ کوٹھری میں حبس طاری تھا۔ چھمی بیگم نے کھڑکی کھولی تو اچانک سمندر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ نیلا، وسیع، بے کراں سمندر ٹھاٹھیں مارتا، غیر متوقع، زندگی کے واقعات کی مانند اچانک۔ انہوں نے سمندر پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ دفعتہً خیال آیا اس کارساز کے قربان جاؤں۔ سمندر تک پہنچ گئی۔ اب انشاء اللہ حج بھی کر آؤں گی۔ اسی سمندر کے اس پار مکہ مدینہ ہے۔ یہ سوچ کر ان کا جی بھر آیا۔
کوٹھری سے ملحق نوکروں کا غسل خانہ تھا۔ چھمی بیگم نے بکسا کھولا۔ کپڑے نکالے، غسل خانے میں گئیں۔ اپنے آبائی مکان کا وہ طویل و عریض نیم تاریک غسل خانہ، مامائیں، اصیلیں وہ برسوں کی کوشش کے بعد بھلا چکی تھیں کہ انسان زندگی کی پیہم تبدیلیوں کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے ورنہ مر جائے۔ نہا دھو، کپڑے بدل وہ پھر اپنی کوٹھری میں آئیں۔ سارا گھر سنسان پڑا تھا۔ نوکر نہ چاکر۔ صاحب دفتر گئے ہوں گے۔ بچے اسکول میم صاحب سو رہی تھیں۔
دوپہر کا وقت تھا۔ اب انہیں چائے کی طلب ستانے لگی۔ ساری عمر شدید ذہنی اور جذباتی صدمے سہتے رہنے سے چھمی بیگم کی تیزی طراری کب کی ہوا ہو چکی تھی اور۔۔۔ وہ بڑھاپے کی وجہ سے ستّری بہتّری بھولی بھگی ہو کر بھی رہ گئی تھیں۔ سادگی سے سوچا اب کچن میں جا کر چائے بناؤں۔ سنسان باورچی خانے میں پہنچیں تو وہاں گیس کے چولھے نظر آئے جو استعمال کرنا نہ جانتی تھیں۔ ذرا جھنجھلا کر گیلری میں آئیں جس کے چار دروازوں میں سے ایک کھل چکا تھا اور اس پر پڑا بیش قیمت پردہ دکھائی دے رہا تھا۔
ان کے قدموں کی چاپ سن کہ پردے کے پیچھے سے کسی نے آواز دی۔۔۔ ’’کون ہے؟‘‘
’’چھمی بیگم۔۔ ۔ دلی سے آئی ہوں۔‘‘ انہوں نے اسی سادگی سے جواب دیا۔
’’اوہو۔۔ ۔ آ گئیں، آؤ آ جاؤ۔‘‘ پردہ سرکا کر اندر گئیں۔ ایک بالکل شاہانہ خواب گاہ میں وسیع و عریض امریکن چھپرکھٹ پر رضیہ بانو گلابی نائیلون کا نائٹ گون پہنے نیم دراز تھیں۔ انگلیوں میں سگریٹ سلگ رہا تھا۔ چھمی بیگم کو ان کا یہ ننگا پہناوا ذرا بھی پسند نہ آیا۔ لیکن سوچا بھئی اپنا اپنا دستور ہے اس شہر کے یہی رنگ ڈھنگ ہیں۔ رضیہ بانو کا سگریٹ بھی انہیں اچھا نہ لگا۔ بیگم صبیح الدین اور بیگم راشد دونوں سگریٹ نہیں پیتی تھیں۔
بہر حال انہوں نے برد باری سے کہا ’’السلام علیکم‘‘
’’ آ جاؤ۔۔۔ بوا بیٹھو۔‘‘ رضیہ بانو نے فرش کی طرف اشارہ کیا۔ جب سے چھمی بیگم برقع سر پر ڈال کر حق حلال کی روزی کمانے باپ دادا کی دہلیز سے باہر نکلی تھیں آج تک انہیں کسی نے بوا نہیں کہا تھا۔ صبیح الدین صاحب اور راشد صاحب دونوں کے ہاں انہیں چھمی خالہ یا صرف خالہ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ وہ تمکنت سے دیوان کے کنارے پر ٹک گئیں۔ رضیہ بانو کے سرہانے دو ٹیلی فون رکھے تھے۔ ایک سفید ایک سرخ۔ سفید والے کی گھنٹی بجی۔ رضیہ بانو نے ریسیور اٹھا کر انگریزی میں آہستہ آہستہ کچھ باتیں کیں۔ ہاتھ بڑھا کر سائڈ ٹیبل سے ایک بڑی سی مجلد نوٹ بک اٹھائی، اس میں کچھ لکھا پھر ریسیور رکھ کر سرخ رنگ کے ٹیلی فون کا ایک نمبر ملایا اور آہستہ سے کہا ’’مادھو۔۔۔ چار نمبر۔۔ ۔ نائن تھرٹی۔‘‘ اور فون بند کر دیا۔
چھمی بیگم خاموش بیٹھی کمرے کی آرائش دیکھتی رہیں۔ مرمریں مجسمے، بڑی بڑی تصویریں، ریڈیوگرام طول طویل سفید رنگ کا وارڈ روب۔
اتنے میں پردہ سرکا کہ ایک طرح دار لڑکی ہاؤس کوٹ پہنے اندر آئی۔ گیلری کے بند دروازوں میں سے ایک کھلا۔ کمرے میں سے زور سے ’’ہائی فائی‘‘ کی آواز سنائی دی۔ لڑکی نے رضیہ بانو سے کچھ گٹ پٹ کی، الٹے پاؤں واپس گئی اور گیلری والا دروازہ پھر بند ہو گیا۔
’’اللہ رکھے کتنے بچے ہیں ؟‘‘ چھمی بیگم نے دریافت کیا۔
’’میرے ہاں کوئی اولاد نہیں۔ یہ میری بھانجیاں ہیں میرے ساتھ رہتی ہیں۔‘‘ رضیہ بانو نے مختصراً جواب دے کر پھر مجلد نوٹ بک کھول لی۔
’’کالج میں پڑھتی ہوں گی۔‘‘ چھمی بیگم نے کہا۔
’’کون؟‘‘ رضیہ بانو نے بے خیالی سے پوچھا۔
’’بھانجیاں آپ کی۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’اللہ رکھے آپ کے میاں بزنس کرتے ہیں؟‘‘ چھمی بیگم کو معلوم تھا کہ بمبئی میں سب لوگ بزنس کرتے ہیں۔
’’ہیں۔۔ ۔ کیا۔۔ ۔؟‘‘ رضیہ بانو نے نوٹ بک سے سر اٹھا کر ذرا ناگواری سے پوچھا۔۔
’’میاں ؟۔۔ ۔ میاں مر گئے۔‘‘
’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ چھمی بیگم کے منہ سے نکلا۔ لحظے بھرکے لیے اجو بھائی اللہ بخشے کی موت کا زخم پھر ہرا ہو گیا۔ ہر موت کی خبر پر ہرا ہو جاتا تھا۔ کوئی کیا جان سکتا تھا کہ چھمی بیگم نے اپنی ساری عمر کیسے بے پایاں اندوہ میں مبتلا رہ کر اسے کس طرح ضبط کر کے گزار دی۔ صبر شکر، صبر شکر۔
چوڑی دار پاجامہ پہنے ایک اور مجسم قیامت نوجوان لڑکی لہراتی، بل کھاتی کمرے میں آئی۔ رضیہ بانو نے اس سے انگریزی میں کچھ کہا۔ لڑکی اسی طرح لہراتی مسکراتی باہر چلی گئی۔ اب رضیہ بانو چھمی بیگم کی طرف متوجہ ہوئیں جنہیں چائے کی طلب میں جمائیاں آنے لگی تھیں۔ رضیہ بانو نے ایک تکیہ کہنیوں کے نیچے دبا کر کہنا شروع کیا۔
’’بوا (چھمی بیگم پھر کلبلائیں) آپ نے بہت اچھا کیا جو میرے ہاں آ گئیں۔ میں نے پہلی نظر میں اندازہ لگا لیا تھا کہ آپ بے سہارا اور دکھی ہیں۔ اب آپ اس گھر کو اپنا گھر سمجھئے۔ میں ہمیشہ یہ چاہتی ہوں کوئی بزرگ بی بی میرے گھر میں نماز قرآن پڑھتی رہا کریں۔ برسوں سے میرے پاس ایک حیدر آبادی بڑی بی تھیں۔ وہ پچھلے سال بے چاری حج کرنے گئیں وہیں انتقال ہو گیا۔۔۔ اچھا۔‘‘ رضیہ بانو نے پہلو بدل کر بات جاری رکھی۔
’’میں اب آپ کو بتانا یہ چاہتی ہوں بوا کہ یہ بمبئی شہر میدان حشر ہے۔ طرح طرح کی باتیں، طرح طرح کے لوگ۔ آپ کسی بات پر کان نہ دھرئیے۔ بس اپنے کام سے کام رکھئے۔ کچن کی نگرانی کر لیجئے۔ باقی وقت اپنے نماز روزے میں گزارئیے۔ اب آپ کے لیے محنت کا نہیں آرام کا وقت ہے۔ قرآن شریف پڑھئے۔ میرے حق میں دعائے خیر کرتی رہئے۔ باقی یہ کہ لڑکیوں۔۔۔ میری بھانجیوں کے لیے دوسری آیا موجود ہے۔ ابراہیم خانساماں کا نام ہے۔ بشن سنگھ گورکھا ہے۔ مادھو میرا ڈرائیور ہے۔۔۔ لیکن کسی کے جھگڑوں قضیوں میں نہ پڑئیے۔‘‘
’’میں خود۔۔ ۔‘‘ چھمی بیگم نے کہنا چاہا لیکن رضیہ بانو نے ان کی بات کاٹی۔
’’میری اللہ کے فضل سے بہت بڑی بزنس ہے۔‘‘ کچھ توقف کے بعد اضافہ کیا۔
’’ایکسپورٹ امپورٹ جانتی ہیں ایکسپورٹ امپورٹ؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ چھمی بیگم نے سر ہلایا۔ صبیح الدین صاحب محکمہ تجارت کے افسر تھے اور اس طرح کے الفاظ چھمی بیگم کے کانوں میں پڑتے رہتے تھے۔
رضیہ بانو چھمی بیگم کو بہت سمجھ دار اور نیک بی بی معلوم ہوئیں اور اس قدرخدا پرست۔ چھمی بیگم نے ان کا باریک نائٹ گاؤن اور سگریٹ نوشی معاف کر دی۔
’’میں عورت ذات تن تنہا اتنا بڑا کاروبار چلا رہی ہوں۔ اسی کی وجہ سے دس طرح کے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ بھانجیاں بھی آج کل کی لڑکیاں ہیں۔ ان کے دوست احباب بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ پھر میری بزنس کی وجہ سے دو مرتبہ پولیس ریڈ کر چکی ہے۔‘‘
’’پولیس؟‘‘ چھمی بیگم نے ذرا دہل کر دہرایا۔
رضیہ بانو ہنس پڑیں۔ ’’ڈریئے نہیں۔ یہاں بڑے بڑے تاجروں کو پولیس اور انکم ٹیکس والے اکثر پریشان کرتے ہیں۔ میں اکیلی عورت، دسیوں دشمن پیدا ہو گئے۔ کسی نے جا کر پولیس والوں سے جڑ دی کہ میں نے انکم ٹیکس نہیں دیا ہے، بس دوڑ آ گئی۔ اسی وجہ سے میں نے باہر لوہے کا دروازہ لگوا لیا ہے تو اب آپ سے کہنا یہ ہے کہ جب باہر کی گھنٹی بجے تو آپ پہلے سوراخ میں سے دیکھ اطمینان کر لیجئے۔ کبھی کبھی یہ پولیس والے سادہ کپڑوں میں بھی آ جاتے ہیں۔‘‘
چھمی بیگم سفر کی تکان اور چائے کی طلب میں نڈھال ہوئی جا رہی تھیں۔ اٹھ کھڑی ہوئیں اور بولیں۔
’’بی بی گیس کا چولہا کیسے جلتا ہے؟‘‘
رضیہ بانو نے سرہانے ایک برقی بٹن دبایا۔ ایک منٹ میں ابراہیم باورچی دروازے میں نمودار ہو گیا۔
’’ابراہیم! یہ ہماری نئی بوا ہیں۔ ان کے لیے چائے تو بنا دو جھٹ پٹ!‘‘ چھمی بیگم جلدی سے اٹھ کر ابراہیم کے پیچھے پیچھے کچن کی طرف روانہ ہو گئیں۔
ظہر، عصر، مغرب ساری نمازیں پڑھ کر وہ پھر بالکنی میں جا کھڑی ہوئیں۔ گھر میں کرنے کے لیے کچھ کام ہی نہ تھا۔ رضیہ بانو بن سنور کر باہر جا چکی تھیں۔ دو ’’بھانجیوں‘‘ کے کمروں میں روشنی جل رہی تھی۔ تیسری بھانجی غائب تھی۔ تینوں چاروں ملازم بھی فلیٹ میں نہ تھے۔ اس لیے گھنٹی بجی تو بجتی ہی چلی گئی۔
چھمی بیگم نئی دلی کی عادت کے مطابق فوراً دروازہ کھولنے کے لیے ڈرائنگ روم کی طرف لپکیں اور جلدی سے اندر والا دروازہ کھول دیا۔ باہر کا آہنی دروازہ اس وقت پہلے سے ایک طرف کو سرکا ہوا تھا اور جس طرح صبیح الدین صاحب اور راشد صاحب کی کوٹھیوں میں ڈرائنگ روم کی دہلیز پر آ کر وہ مہمانوں سے بہت اخلاق سے کہتی تھیں۔ ’’تشریف لائیے۔‘‘ اسی عادت کے مطابق انہوں نے اخلاق سے کہا۔ ’’تشریف لائیے۔‘‘
دو فربہ مارواڑی اور ایک معطر نوجوان امیر زادہ اندر داخل ہوئے۔ امیر زادہ سیدھا بار کی طرف چلا گیا۔ فربہ مارواڑی دھم سے ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ صبیح الدین صاحب کے ہاں بھی اکثر اس وضع قطع کے کاروباری اپنی غرض سے آیا کرتے تھے۔ معطر نوجوان کو دیکھ کر البتہ ذرا تعجب ہوا۔ پھر سوچا اس شہر کا یہی دستور ہو گا۔
ابھی وہ یہی طے کر رہی تھیں کہ معزز مہمانوں سے چائے کے لیے پوچھیں یا کافی کے لیے کہ سونے کے بٹنوں اور ہیرے کی انگوٹھیوں والے فربہ مارواڑی نے ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’میڈم کدھر ہے؟‘‘
چھمی بیگم بخوبی جانتی تھیں کہ بیگم کو انگریزی میں میڈم کہتے ہیں۔ سلیقے سے جواب دیا۔ ’’میڈم باہر گئی ہیں۔‘‘
’’سالا چھوکری لوگ کدھر گیا؟‘‘ چھمی بیگم کو غصہ آ گیا۔ یہ صحیح ہے کہ اہل بمبئی تمیز دار اور اہل زبان نہیں لیکن یہ گالی گلوج کیا معنی؟ انہوں نے ہونٹ پچکا کر پوچھا۔
’’بیگم صاحب کی بھانجیاں؟‘‘ اتنے میں دروازہ کھلا اور رضیہ بانو سرعت سے خود اندر آ گئیں۔ چھمی بیگم سے کہا۔ ’’بوا تم جا کر اپنی کوٹھری میں بیٹھو، آرام کرو۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ ان کے گیلری میں سے گزر جانے کے بعد ایک بھانجی کے کمرے سے ایک صاحب نکل کر باہر چلے گئے۔ چھمی بیگم نے اپنی کوٹھری میں جا کر ایک بار پھر جاء نماز نکالی، وضو کیا، نفلیں پڑھنے لگیں اور اس رب ذو الجلال کا شکریہ ادا کیا جسے اپنے بندوں پر صرف دو وخت ہنسی آتی ہے اور اسی پاک پروردگار نے ان کے باپ دادا کی لاج ان کے حسب نسب کی عزت رکھ لی اور ایک بار پھر ایک شریف گھرانے کی حق حلال کی کمائی میں ان کا حصہ بھی لگا دیا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...