رات بھر میرے دریچے کے نیچے آذر بائیجانی ترکی میں قوالی ہوا کی۔ صبح منہ اندھیرے آوازیں مدھم پڑیں اور کوہ قاف کے دھندلکے میں ڈوب گئیں۔
جب سورج نکلا میں نے سرائے کے باہر آ کر آسمان پر رخ کو تلاش کیا۔ لیکن رخ کے بجائے ایک فاختہ ارارت کی سمت سے اڑتی ہوئی آئی۔ فاختہ کی چونچ میں ایک عدد خط تھا۔ صحن میں آ کر وہ اس سماوار پر بیٹھ گئی جو انگوروں کی بیل کے نیچے ایک کونے میں تپائی پر رکھا تھا۔ فاختہ نے پتلیاں گھما کر چاروں طرف دیکھا اور مجھ پر اس کی نظر پڑی۔ وہ پھدک کر سماوار سے اتری لفافہ میرے نزدیک گرایا اور کوہ ارارت کی طرف پھر سے اڑ گئی۔
سرائے کے مالک نے بغیر دودھ کی چائے فنجان میں انڈیل کر مجھے دی اور بولا، ’’حانم۔ شاید رخ نے آپ کو اطلاع بھیجی ہے کہ اس نے اپنی فلائٹ پوسٹ پون کی۔‘‘
’’ہو سکتا ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’لیکن میرا خیال ایسا ہے کہ یہ ان دکھیاروں میں سے کسی ایک کا خط ہے جو اپنے لاپتہ عزیزوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کچھ عرصے سے مجھے اس قسم کے پیغام مشرق و مغرب دونوں طرف سے اکثر ملا کرتے ہیں۔‘‘
’’کوئی تعجب نہیں کیوں کہ جنگیں ہر سمت جاری ہیں۔‘‘ سرائے کے سفید ریش مالک نے جو بالکل ٹالسٹائی کا حاجی مراد معلوم ہوتا تھا اور روسی بلاؤز کی چرمی پیٹی میں ایک عدد مرصع نقلی پستول رکھتا تھا۔ اطمینان سے حقہ گڑگڑاتے ہوئے دریافت کیا۔ ’’حانم۔ یہ والی جنگ کون سی تھی؟‘‘
میں نے فنجان تخت کے کنارے پر رکھ کر خط پڑھا۔ تب میں نے طے کیا کہ وقت آ گیا ہے کہ تلاش شروع کرنے کے لیے بالکل ابتدا کی طرف واپس چلا جائے۔ چنانچہ میں نے اپنا روز مرہ کا ماسک چہرے سے اتارا۔ حاجی مراد کو خدا حافظ کہا اور ارارت کی سمت چل پڑی جو سامنے جگمگا رہا تھا۔ لیکن بہت دور تھا۔
میں دن بھر چلا کی۔ بہت سی وادیاں اور منزلیں طے کیں۔ عین غروب آفتاب کے وقت صنوبروں میں گھرا ایک شفق رنگ چشمہ نظر آیا۔ اس کے کنارے ایک نیلی آنکھوں اور سرخ ڈاڑھی والا فقیر مراقبے میں مشغول تھا۔ میں نے بغور دیکھا۔ وہ خواجہ سبز پوش نہیں تھا بلکہ جیسا کہ ان علاقوں کا دستور ہے۔ اس بزرگ نے فل بوٹ پہن رکھے تھے۔ اس کی سفید نمدے کی کلاہ اور دھاری دار چغے سے ظاہر ہوتا تھا کہ اگلے وقتوں کا بیکتاشی درویش ہے۔
اب میں نے دیکھا کہ آفتاب اور بدر کامل دونوں افق پر موجود ہیں۔ صنوبروں پر رات کے پرند نغمہ زن ہوئے۔ پھر سورج اور چاند دونوں جھیل کے پانیوں میں گر گئے۔ جھیل کا رنگ سیاہ ہو گیا۔ اس بزرگ نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور ’یا ہو‘ کا نعرہ بلند کیا جو مجھے معلوم تھا کہ بیکتاشی فقراء کے سلام کا طریقہ ہے۔
دفعتاً اس پیر مرد نے بولنا شروع کیا۔ جیسے کسی نے ایک غیر مرئی ٹیپ ریکارڈر چلا دیا ہو۔ اس نے کہا۔ ’’میں اس عجیب روشنی میں سفر کرتا ہوں جو نہ زمین کی روشنی ہے نہ آسمانوں کی۔ جو انوار الٰہی کی سات روشنیوں سے مل کر بنی ہے۔ سنو کہ زندہ ابھی سے مر چکے ہیں اور مردے زندہ ہیں۔ کھوپڑیاں چمکتے غاروں میں گا رہی ہیں۔ جب ان کی آوازیں سمندروں کا شور بن جاتی ہیں میں اپنے تکیے پر منتظر رہتا ہوں۔ ’’میں رات دن خوف الٰہی کی چکّی پیستا ہوں اور خالق کی رضا مندی کی چکّی میں سے دانہ نکالتا ہوں۔ اے حانم۔ آپ کیا چاہتی ہیں؟’‘
’’افندم‘‘ میں نے عرض کی۔ ’’ایک اجنبی عورت نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ وہ یہاں سے ہزاروں میل دور ایک طوفانی دریا کے کنارے رہتی ہے اور اس نے لکھا ہے۔ دریاؤں کی موجیں لوٹ لوٹ آتی ہیں۔ لیکن وقت نہیں لوٹتا۔ کیوں کہ زین بھی بوگس ہے۔ خزاں کی ہوائیں چلیں۔ اور جنگلوں میں اونچے درختوں کے پتے سرخ ہو گئے۔ شاخیں کھڑکھڑائیں اور دلدلوں میں جنگلی بطخیں چلّا رہی ہیں دماغ باقی ہیں اور جسم ختم ہو گئے۔
’’عرصہ دو سال کا ہوا میرا شوہر غائب ہو گیا۔ میں باؤری سب سے پوچھتی پھرتی ہوں کوئی مجھے کچھ نہیں بتاتا۔ خاتون۔ آپ کو ترکوں کی سرزمین میں شاید کوئی واقف اسرار مل جائے۔‘‘
جس وقت میں یہ خط پڑھ کر سنا رہی تھی شمشاد کے درخت کے نزدیک کھڑے اس بزرگ نے ہاتھ سامنے باندھ کر سرجھکا رکھا تھا۔
تب اس فقیر نے ہاتھ آستینوں سے نکالے اور نظریں اٹھائیں اور کہا۔ ’’ملک ہنگری میں میرے جد امجد حاجی گل بابا بیکتاشی کی درگاہ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بخارا اور استنبول اور البانیہ اور رومانیہ سے کلمہ گو ان کے مزار پر انوار کی زیارت کے لیے پا پیادہ ہنگری جایا کرتے تھے۔ اے حانم۔ اب میں وہاں جاتا ہوں۔ اور واپس آ کر تمہیں اطلاع دیتا ہوں۔‘‘
درویش نے ایک صنوبر کے سائے میں کھڑے ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ چند لمحوں بعد آنکھیں وا کیں اور یوں گویا ہوا۔ ’’میں نے ڈینیوب کے کنارے اس شکستہ درگاہ پر ماضی اور مستقبل کا نظارہ کیا۔ سنو۔ جب میرا پر دادا حاجی عدنان آفندی ایک کارواں کے ہم راہ ملک خطا جاتا تھا یار قند کے نزدیک اسے بیکتاش قلی یعنی بندہ خدا کے سلسلے کا ایک نوجوان فقیر ملا۔ اس نے حاجی عدنان کو پلٹ کر دیکھا۔ اور بولا، ’’آغا۔ فکر کرو۔ فکر کرو۔ محتاط ہو۔‘‘ اس کے بعد وہ شاہراہ کے کنارے آباد ایک نقش بندی خانقاہ کے دروازے میں غائب ہوا اور اسی لمحہ دوسری طرف نکل گیا اور سمر قند میوزیم میں داخل ہو گیا۔ اب وہ سمر قند، ازبک سوشلسٹ سویٹ ریپبلک کے عجائب خانے کے ایک گلاس کیس میں کھڑا ہے اور اس کی آنکھیں کانچ کی ہیں۔ حانم۔ میرے ساتھ آئیے۔‘‘ درویش نے اپنا عصا سنبھالا اور جھکا جھکا میرے سائے کی مانند میرے آگے آگے چلنے لگا۔
ہم جھیل دان کے کنارے ایک تکیے پر پہنچے۔ یہ تکیہ ایک چوبی عمارت تھی جس کی چھت سرخ رنگ کی تھی اور چاروں طرف سیب کے درخت تھے۔ اس قلندر نے کہا اس لفظ کے معنیٰ ہیں، ’’خالص سونے کی روح۔‘‘ مجھے سیڑھیوں پر کھڑا چھوڑ دیا اور ہوا کے جھونکے کی مانند اندر چلا گیا۔
جب وہ دیر تک باہر نہ آیا تو مجھے بہت ڈر لگا۔ میں دبے پاؤں دریچے کے نزدیک پہنچی اور اندر جھانکا۔ تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک چوکور کمرہ ہے جس کا فرش چوبی ہے اور چھت نیچی جس کے شہتیر سیاہ رنگ کے ہیں فرش پر ایک آذربائیجانی غالیچے پر دو بالکل ہم شکل درویش آمنے سامنے خاموش بیٹھے ہیں۔ ایک کونے میں چینی کا ایک فرنچ اسٹوو رکھا ہے جس پر گلاب کے پھول بنے ہیں۔ ایک شہتیر سے ایک طنبورہ آویزاں ہے اور فرش پر ایک نے رکھی ہے کہ مولانا جلال الدین رومی کی روحانی بانسری کی نمائندہ ہے۔
دونوں درویش چپ چاپ بیٹھے رہے۔ پھر ان میں سے ایک اٹھا اور جنوب کی طرف رخ کیا جو مجھے معلوم تھا کہ مدینہ منورہ کی سمت تھی۔ درویش کے اپنے سفید پٹکے سے کہ آذربائیجانی بھیڑوں کی اون سے بنا گیا تھا۔ ایک چھوٹا سا پتھر نکالا، کہ المصطفیٰ اکثر بھوکے رہنے کی وجہ سے اپنے پیٹ سے پتھر باندھے رہتے تھے۔ اور بیکتاشی فقراء اس سنت رسول کی پیروی کرتے ہیں۔ درویش نے بیکتاشی طریقت کی ایک رسم شروع کی۔ اس نے پٹکے کی گرہ باندھی اور کھولی اور پھر باندھی اور کھولی اور دہرایا۔ ’’میں شر کو باندھتا اور خیر کو کھولتا ہوں۔ میں جہالت کو باندھتا اور خوف الٰہی کو کھولتا ہوں۔ طمع کو باندھتا اور فیاضی کو کھولتا ہوں۔ میں عجز و انکساری کی درانتی سے پرہیزگاری کی فصل کاٹتا ہوں۔ میں خود آگہی میں بوڑھا ہوتا ہوں اور صبر کے تنور میں اپنی روٹی پکاتا ہوں۔‘‘
تب میں دریچے سے چند قدم پیچھے ہٹی اور آسمان کی طرف منہ کیا اور ایک اور بیکتاشی مناجات پڑھی۔۔۔ ’’اے وہ جس کا کوئی نسب نامہ نہیں۔ او بیکتاش جو زمانے کے ساتھ گردش کرتا ہے جو شبِ تاریک میں سنگ سیاہ پر رینگتے چیونٹے کی آواز سن لیتا ہے۔‘‘ لیکن اب میں نے بڑی چالاکی سے اپنے پیغام کا اضافہ کر دیا۔ ’’او بیکتاش! بس تو مظلوموں کی فریاد ہی نہیں سنتا۔‘‘
لیکن میری آواز درویشوں کے وظیفے کے شور میں ڈوب گئی۔ وہ اب چلا رہے تھے۔ ’’او نبی۔ جس پر بادل ہمیشہ اپنا سایہ کیے رہتے تھے۔ المصطفیٰ۔۔۔ دنیا پر رحم فرما۔۔۔ رحم۔ رحم، کریم اللہ۔۔۔ یا ہو،‘‘ کے بیکتاشی نعروں سے کمرہ گونج اٹھا۔
دوسرے لمحے وہ درویش کہ نام ان کا حاجی سلیم آفندی تھا، ایک صراحی اور کوزہ ہاتھ میں لیے برآمد ہوئے۔ ’’حانم۔ اس بدقسمت عورت کے لیے جو کچھ میں کر سکتا ہوں کروں گا۔ لیکن علی مرتضیٰ شاہِ ولایت نے کہا ہے، جو کچھ لکھا گیا ہے ہمیشہ موجود رہے گا۔‘‘
تب میں نے ایک بہت غیر متعلق بات حاجی سلیم سے کہی۔ میں نے عرض کیا۔ ’’افندم۔ میرے وطن میں جو یہاں سے ہزاروں میل دور ہے، ہماری آبائی حویلی میں جو اب کھنڈر ہو چکی ہے، ایک تہہ خانہ ہے اس تہہ خانے میں پرانی کتابوں کے انبار ہیں۔ اور ایک پرانا شکستہ چینی کا فرنچ اسٹوو۔ جس پر گلاب کے پھول بنے ہیں اور انٹلکچوئیل چوہے ان کتابوں کو کترنے میں مصروف ہیں جو دولت عثمانیہ اور برطانیہ اور فرانس اور مصر اور ایران میں کسی زمانے میں بڑے شوق سے لکھی اور چھاپی گئیں۔۔۔ قسطنطنیہ۔ ۱۸۷۲ء۔ لندن۔ ای۔ سی۔ فور۔ ۱۸۸۴ء۔ طہران۔ سنہ 1892۔ قاہرہ۔ ۱۹۰۲ء۔ اور ایک نسبتاً جدید کتاب بھی وہاں پڑی ہے۔ لندن رسل اسکوائیر۔ ۱۹۵۲ء۔ اور ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک کہر آلود سہ پہر میں فرنگیوں کے اس بزرگ صوفی سے ان کے فیبر اینڈ فیبر (Faber and Faber) رسل اسکوائر کے دفتر میں ملی تھی اور انہوں نے مجھ سے رقصاں درویشوں کے متعلق باتیں کیں تھیں۔ چونکہ آپ خود اس حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں مجھے قونیہ کے اس مرحوم سلسلہ کے متعلق کچھ بتائیے کہ قونیہ بھی اب محض ایک ٹورسٹ اٹریکشن ہے۔‘‘
درویش نے سر جھکایا اور رونے لگے پھر آنسو آستین سے پونچھے اور خود بھی ایک قطعی غیر متعلق بات کہی۔ ’’حانم‘‘ حاجی سلیم نے فرمایا۔ ’’میں اس لیے روتا ہوں کہ قانون خداوندی کے مطابق میرا ہمزاد جو اندر بیٹھا ہے۔ میرے مرنے سے ٹھیک چالیس دن قبل مر جائے گا۔ ان چالیس دنوں میں، میں کیا کروں گا؟ کیوں کہ وہ مجھے خبردار کرتا رہتا ہے۔‘‘ دفعتاً حاجی سلیم پھر چلائے۔ ’’مولائے کائنات شاہ نجف نے فرمایا ہے۔ جو کچھ لکھا گیا ہے، ہمیشہ رہے گا۔‘‘
’’افندم‘‘ میں نے عرض کی۔ ’’اوپر والوں کی باتیں تو میں نہیں جانتی مگر جو کچھ یہاں لکھا جاتا ہے اکثر بے حد خطرناک ثابت ہوتا ہے کیوں کہ جیسا کہ آپ کو علم ہے۔ ہر حرف کا ایک موکل موجود ہے۔‘‘ درویش نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے کہا۔ ’’جب اس صاحب زماں نے حکم نامے پر دستخط کیے تو اس کے حروف کے طاقت ور موکل اڑ کر یورپ کی سمت گئے اور انہوں نے تباہی پھیلا دی۔ دماغ پاش پاش ہوئے اورجسموں کے پرخچے اڑ گئے۔۔۔ افندم۔ میں اس اجنبی عورت کو کیا جواب دوں؟’‘
’’فکر کرو۔ فکرو کرو۔ محتاط ہو۔ خبردار رہو۔‘‘
’’اس اجنبی خاتون نے لکھا ہے کہ اس کے خاوند کا نام ابو المنصور تھا۔ اور وہ تصویریں بناتا تھا۔‘‘
’’کیا وہ اپنی کھوپڑی بچانے کے لیے جنگل کی سمت نہیں بھاگا؟‘‘ حاجی سلیم نے دریافت کیا۔ ’’جی نہیں۔ اجنبی عورت نے لکھا ہے کہ وہ ایک تالاب کے کنارے بیٹھا جنگلی بطخوں کی تصویریں بناتا رہا۔‘‘
’’نہایت احمق تھا۔‘‘ حاجی سلیم نے مختصراً کہا۔
’’اور ہزاروں لاکھوں انسان جنگلوں اور دلدلوں اور سرحدوں کی طرف بھاگے۔ اور زمین ان کے پیروں تلے سے نکل چکی تھی اور سروں پر تلواروں کا سایہ تھا۔‘‘
’’کوئی تلوار نہیں سوا ذوالفقار علیؑ کے۔‘‘ حاجی سلیم نے بات کاٹی۔ میں خاموش ہو گئی۔ ’’کیا جب قیامت آئی شخص مذکور تنہا تھا؟‘‘ حاجی سلیم نے دریافت کیا۔ ’’جی نہیں۔ مرگ انبوہ کے جشن میں شامل تھا۔‘‘
’’یہ کہاں کا ذکر ہے؟‘‘
’’ہر جگہ کا۔ مشرق، مغرب، شمال، جنوب بیکتاش کا چہرہ ہر سمت ہے۔‘‘ حاجی سلیم نے غور سے مجھے دیکھا۔ ’’حانم۔ کیا تم ان میں سے نہیں ہو جو ایمان لائے؟‘‘
میں نے بات جاری رکھی۔ ’’اور لاکھوں سرحدوں کی طرف بھاگے۔ وہ بہ حالت خموشی مشرق سے مغرب کی جانب آئے اور اسی طرح سر جھکائے پھر واپس لوٹ گئے۔ تب میں نے بہت سوچا کہ یہ سب کیوں ہوا۔ اور مجھے یاد آیا۔ لکھا ہے، جو اپنی روح کا حج کرے اس پر اسرار منکشف ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنی روح کا حج کیا پر کچھ دریافت نہ ہوا۔‘‘
’’حانم۔ شاید تمہارے قلب پر کفر کی مہر گہری لگی ہے،‘‘ حاجی سلیم نے کہا اور صراحی سے تھوڑا سا پانی کوزے میں انڈیلتے ہوئے ایک بیکتاشی دعا پڑھی۔۔۔ ’’کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے۔ اور محمدؐ اس کا رسول۔ اور علی اس کا دوست۔ اور امام مہدی آخر الزماں۔ اور موسی کلیم اللہ اور عیسیٰ روح اللہ۔۔۔ حانم اس پانی میں دیکھو۔۔۔‘‘
’’کیوں۔ کیا آپ کو جام جمشید مل گیا ہے؟‘‘ میں نے ذرا جھنجھلا کر پوچھا۔ ’’حانم۔ پانی میں دیکھو۔‘‘
میں نے دیکھا اور کہا۔ ’’افندم۔ اس میں تو مجھے ایک عدد گھوڑا گاڑی نظر آتی ہے۔ یعنی اسٹیج کوچ۔ جو ایک جاپانی سے پل پر سے گزر رہی ہے۔‘‘ پھر دفعتاً میں نے ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے commentator کی طرح جوش سے کہنا شروع کیا۔ ’’اور اس گاڑی میں ایک کٹھ پتلی نوہ ماسک پہنے بیٹھی ہے۔۔۔ اور کوچوان کا چہرہ نہیں ہے۔۔۔ کوچوان کا چہرہ نہیں ہے۔۔۔ اور اب ایک ناؤ جو وسیع دریا کے دھندلکے میں رواں ہے۔ اور کنارے پر نازک سے پہاڑ اور بانس کے جھنڈ اور بید کے پودے اور پہاڑی کے دامن میں بانس کا جھونپڑا۔ اس کے برآمدے میں ایک منحنی انسان۔ بکرے کی سی داڑھی۔۔۔ بیٹھا تصویر بنا رہا ہے۔۔۔ افندم۔۔۔ یہ سب تو کچھ زین سا معلوم ہوتا ہے۔۔۔‘‘
’’زین بھی درست ہے۔ حانم، اور غور سے دیکھو ناؤ یا بکتر بند گاڑیاں؟‘‘
’’افندم۔۔۔ افندم۔۔۔ آپ کے پیالے کا پانی سرخ ہو گیا!‘‘
’’کریم اللہ۔۔۔ یا ہو۔۔۔‘‘ حاجی سلیم نے ٹھنڈی سانس لے کر آہستہ سے دہرایا۔ کوزہ اٹھا کر سر جھکائے سیڑھیاں اترے، سیب کے جھرمٹ سے گزرتے جھیل کے کنارے پہنچے اور دفعتاً اس مشاقی اور پھرتی سے کوزہ دور پانی میں پھینک دیا جیسے کرکٹ کے کھلاڑی گیند پھینکتے ہیں۔ پھر وہ تکیے پر واپس آئے اور سیڑھی پر بیٹھ کر کہنا شروع کیا۔ ’’میں خوف الٰہی کی چکّی پیستا ہوں۔ اور نفرت اور ظلم کو باندھتا ہوں۔ اور محبت اور دردمندی کو کھولتا ہوں۔ اور غیظ و غضب کو باندھتا ہوں۔۔۔ اے حانم ہندی۔۔۔ کیا یہ شخص ابو المنصور ایک انسان تھا یا ایک علامت؟‘‘
’’دونوں۔۔۔ میں نے جواب دیا۔‘‘ حاجی سلیم نے سر جھکا کر دوبارہ رونا شروع کیا۔ ’’کیا میں اس خاتون کو لکھ دوں کہ وہ صبر کے تنور میں اپنی روٹی پکاتی رہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’افندم۔ اب میں شاہ جہاں آباد واپس جاتی ہوں۔ آپ بھی استانبول لوٹ جائیے اور وہاں محلہ پیرایا توپ کاپو میں اپنا تکیہ مولوی آباد کیجئے یا خانقاہ او غلو علی پاشا۔‘‘
’’حانم۔ میرے واپس جانے کے لیے اب کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ استانبول کے دو سو چھپن تکیے نصف صدی ہونے آئی ایک صاحب الزماں کے حکم سے بند کر دیئے گئے۔ چند ایک کے ماڈل عجائب خانوں میں رکھے ہیں۔ یہ فقیر حقیر بھی ایک گلاس کیس میں کھڑا ہے۔۔۔‘‘ حاجی سلیم نے کہا اور آنسو بہاتے رہے۔ دفعتاً میں نے نوٹس کیا کہ حاجی سلیم کی نیلی آنکھیں کانچ کی تھیں۔
’’بہرحال۔ افندم۔ آپ جہاں کہیں بھی واپس جائیں اس بیکتاش سے کہہ دیجئے گا کہ ساری دنیا میں، مشرق و مغرب شمال و جنوب میں، اس کے قلیوں پر بہت ظلم ہوئے اور ہو رہے ہیں۔۔۔ اور دعا کرتے رہئے۔‘‘
’’ہم بیکتاشی محض دعا نہیں کرتے۔ حانم۔ تم نماز پڑھتی ہو؟ سیدھی سادی نماز؟ ہم نماز پڑھنے کو دارِ منصور پر چڑھنا کہتے ہیں۔ میں روز دار منصور پر چڑھتا ہوں۔ اور فنا ہوتا ہوں۔ اور زندہ ہوتا ہوں۔ چونکہ تم ایسا کبھی نہ کرو گی تمہیں کچھ معلوم نہ ہو گا۔ میں روزانہ خواہشات کو باندھتا اور قناعت کو کھولتا ہوں۔ خدا صابر ہے کیوں کہ حی و قیوم ہے۔ بندہ بے صبر ہے کیوں کہ اس کی زندگی چند روزہ ہے اور وقت تیزی سے گذرتا جاتا ہے۔‘‘
تب میں نے ذرا بے ادبی سے کہا، ’’افندم۔ آپ کو ہسپانیہ کے حاجی یوسف بیکتاشی کا نام یاد ہے؟ پندرہویں صدی عیسوی میں وہ علیہ الرحمۃ اندلس میں موجود تھے۔ جب مسلمانوں پر قہر ٹوٹا ان کا اور ان کے مریدوں کا صبر و رضا کسی کام نہ آیا۔‘‘
حاجی سلیم نے میری بات کا مطلق نوٹس نہ لیا اور کہتے رہے۔ ’’میں انوار الٰہی کی روشنی میں سفر کرتا ہوں۔ میں نناوے اسمائے الٰہی کی روشنی میں چلتا ہوں۔ ہو، جو برنگ سرخ ہے۔ احد، سبز اور عزیز، جو سیاہ ہے اور ودود، جس کی ذات میں روشنی نہیں۔۔۔ حاجی سلیم بیکتاشی کی گفتگو ختم ہوئی۔۔۔‘‘
معاً غیر مرئی ٹیپ ریکارڈر میں سے عجیب و غریب آوازیں نکلنے لگیں جیسے کسی نے اسے الٹا چلا دیا ہو۔ کیوں کہ وجود متعدد حصوں میں منقسم ہے۔
حاجی سلیم سامنے دیکھتے اپنا لبادہ سرسراتے تکیے کے اندر جا کر غائب ہو گئے۔ دروازہ باہر سے بند تھا۔ اس میں زنگ آلود موٹا قفل پڑا تھا۔
میں نے انگور کی بیلوں سے گھرے دریچے میں جا کر اندر جھانکا۔ حاجی سلیم اور ان کا ہمزاد اپنے اپنے ہاتھ سامنے باندھے گم سم آمنے سامنے دو زانو بیٹھے تھے۔ دیکھتے دیکھتے وہ دونوں پیلے پرانے کاغذوں میں تبدیل ہو گئے۔ کوہ ارارات کی طرف سے ہوا کا ایک تیز سرد جھونکا آیا جس میں دریچے کے شکستہ پٹ بھڑ سے کھل گئے اور وہ دونوں درویش پرزہ پرزہ ہو کر کمرے میں بکھر گئے۔ باہر آ کر ان کے پرزے فضا میں چکر کاٹنے لگے اور خستہ فالتو کاغذوں کی طرح ہوا میں اڑ گئے۔
رخ تغلق آباد کی سرزمین پر اترا اور اپنے پنکھ پھیلا دیئے۔ میں نے نیچے آ کر شہر کا رخ کیا۔ راہ میں سونچا، تلاش یہاں از سر نو شروع کرنے سے قبل اپنے پرانے دھرانے ماسک کی مرمت کروانا ضروری ہے۔ گو میں زیادہ مدت بعد واپس نہیں آئی تھی لیکن شہر بدل گیا تھا۔ تب اندر پرستھ کی ایک گلی میں میں نے ایک رتھ بان سے پوچھا۔ ’’او بھائی رتھ بان۔ جمبو دویپ کی تازہ ترین آج کل کی راجدھانی کا راستہ کدھر ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’معلوم نہیں۔‘‘ اور گھوڑوں پر چابک لگا کر ہوا ہو گیا۔
تب میں اور آگے بڑھی اور ایک تو رانی شہسوار سے دریافت کیا۔ ’’او بھائی شہسوار اگر میں تغلق آباد پہنچ گئی ہوں تو کسی ایسے کارخانے کا راستہ بتاؤ جہاں میں اپنے ماسک کی مرمت کروا سکوں۔‘‘ شہسوار نے جواب دیا۔ ’’بی بی سامنے قتلق نگار خانم کا مقبرہ ہے۔ یعنی تھا۔ اس کے اوپر جو ایر کنڈیشنڈ عمارت کھڑی ہے۔ اس کے اندر وہ قدیم خاتون جو رائیڈر ہیگرڈ کے ناولوں میں she کے نام سے ایکٹنگ کیا کرتی تھی اب بیوٹی پارلر چلاتی ہے۔‘‘
لہٰذا میں اس کارخانے پر پہنچی۔ اس کے سامنے ایسا ہجوم تھا جیسے کوئی مرگیا ہو۔ میں نے اندر جھانکا ہیروں سے جگمگاتی بہت سی عورات ایک قطار میں خوف ناک مشینوں کے نیچے سردیئے ساکت و صامت بیٹھی تھیں۔ اور مزید عورات اس طرح آ رہی تھیں جیسے فرنگستان میں مردے morticians کے یہاں آتے ہیں۔ دہشت زدہ ہو کر میں الٹے پاؤں باہر نکلی تو شاہجہاں آباد کی ایک گلی میں ایک چگی داڑھی والے نوجوان نے میرا راستہ روکا اور گویا ہوا۔۔۔ ’’اے اس قدر confused نظر آنے والی بھارتیہ مہیلا۔ میں ایک پردیسی مسافر ہوں اور مجھے بھوک لگی ہے۔ کسی ایسی جگہ کا پتہ بتلا سکتی ہو جہاں میں دریائی مچھلی اور اچھا بھات کھا سکوں؟‘‘
میں اسے جامع مسجد کے قریب ایک بھٹیار خانے میں لے گئی جہاں قلعے کے چٹورے ’سلاطین‘ اور شعراء کی آمد و رفت رہتی تھی۔ دیکھا تو بھٹیار خانہ سنسان پڑا تھا۔ میں بہت مایوس نظر آئی تو اس اجنبی نوجوان نے کہا، ’’بانوئے محترم۔ آئیے نیو ڈیلہی چلتے ہیں۔‘‘
نیو ڈیلہی کے ایک mod ریستوران میں چگی داڑھی والا یوں داخل ہوا جیسے بطخ پانی میں داخل ہوتی ہے۔ میں فوراً سمجھ گئی کہ یہ شخص نامعلوم آرٹسٹ ہے۔ اس طعام خانے میں مرد اور عورتیں بالکل یکساں نظر آ رہے تھے۔ بلکہ عورتیں مرد اور مرد لڑکیاں معلوم ہوتے تھے کہ یہ unisex کہلاتا ہے۔
پردیسی نوجوان نے دریچے کے قریب میز پر بیٹھ کر دریائی مچھلی منگوائی اور کہا کہ گو وہ اب ہمارا دوست اور حلیف ہے۔ لیکن اپنا بل خود ادا کرے گا۔ تب میں نے اس سے کہا۔ ’’او بھائی پردیسی مہمان۔ میں تمہاری اس خود داری کی قدر کرتی ہوں۔ لیکن تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ نوجوان دریچے سے باہر دیکھتا رہا جہاں ترک بادشاہوں کے خستہ مقبروں میں غریب غربا ٹاٹ کے جھونپڑے ڈالے شام کا کھانا پکا رہے تھے، کیوں کہ بہر حال سب کچھ زین ہے اور بیکتاش کا چہرہ ہر طرف ہے۔ اچانک اس نوجوان نے حاجی سلیم آفندی کی آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’کٹھ پتلیاں ستلیوں سے آویزاں اسٹیج پر اتاری جاتی ہیں۔ تماشا گر ایک ستلی اوپر کھینچ لیتا ہے۔ دوسری کٹھ پتلی نیچے اتار دیتا ہے۔‘‘
’’یہ بھی درست ہے۔‘‘ میں نے حاجی سلیم آفندی کی مانند جواب دیا۔ پھر میں نے مستعدی اجنبی عورت کا خط پرس میں سے نکالا اور بولی۔ ’’او بھائی مسافر۔ زندہ مردوں کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اور مردے زندوں کے۔ اور تصویروں کی تصویریں باقی ہیں چونکہ تم طوفانی دریاؤں کی سمت سے آئے ہو ممکن ہے تم نے مصور ابو المنصور کا نام سنا ہو۔‘‘
مسافر کھانا کھاتا رہا۔ کیوں کہ کھانا پیدائش اور موت اور ازل اور ابد کے درمیان سب سے بڑی اور اٹل حقیقت ہے۔ گو ہم سے کہا گیا تھا کہ بھوک کو باندھو اور قناعت کو کھولو۔ تاکہ کچھ لوگ باقی لوگوں سے زیادہ کھا سکیں۔‘‘
میں نے پھر دریافت کیا۔ ’’تم یہاں کا ہے کی جستجو میں آئے ہو؟‘‘
’’کیا جستجو ضروری ہے؟‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں یہاں نیشنل اسکول آف ڈراما میں آپ کی حکومت کے اسکالر شپ پر فن تماشا گری سیکھنے آیا ہوں جس فن کے آپ لوگ ماہر ہیں۔‘‘
’’کیا تم ان لوگوں کے قبیلے سے ہو جو نقلی چہرے لگا کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کوئی اور ہیں؟ کیا تمہارے ماں باپ اداکار ہیں؟‘‘
’’میرا باپ جنگلی بطخوں کی تصویریں بناتا تھا۔‘‘
’’کیا اب بھی وہ زندوں میں شامل ہے؟‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔ تب نوجوان نے اکتا کر کہا۔ ’’شاید میری ماں نے آپ کو بھی خط لکھا ہے۔ وہ طرح طرح کے لوگوں کو خط لکھ لکھ کر میرے باپ کی کھوج میں مصروف ہیں اور یہ یقین کرنے کو ہرگز تیار نہیں کہ میرے باپ کو صبح پانچ بجے طلوع آفتاب سے قبل مکان سے باہر لے جا کر عالم بالا روانہ کر دیا گیا تھا۔‘‘ اس کے بعد اس شخص گم نام نے کھانا ختم کیا۔ سکون سے خدا حافظ کہا اور ریستوران سے باہر چلا گیا۔
میں نے دریچے میں سے دیکھا۔ نئی دہلی کی سڑکیں بارش میں بھیگ رہی تھیں۔ اتنے میں دور سے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز آئی اور ایک گھوڑا گاڑی قتلق نگار خانم کے مقبرے کے پیچھے سے نمودار ہوئی اور سنسان سڑک پر سامنے سے گذر گئی۔ اس اسٹیج کوچ کے اندر ایک کٹھ پتلی نوہ ماسک لگائے بیٹھی تھی۔ کوچوان نے شوگن عہد کا کیمونو پہن رکھا تھا۔ کوچوان نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔ اور اس کا چہرہ نہیں تھا۔ میں نے جلدی سے اپنے ماسک کو چھوا۔ اور مجھے یہ خوف ناک احساس ہوا کہ میں یہ محض ظاہر ہی نہیں کرتی کہ میں کوئی اور ہوں۔ میں واقعی کوئی اور ہوں۔ اور ایک ایسی نوہ تمثیل میں شامل ہوں جو کسی کے سمجھ میں نہیں آتی۔
عزیز من۔ آج سے چھ سو برس قبل حاجی گل بابا بیکتاشی علیہ الرحمۃ نے یہ معمہ اپنے مریدوں کے سامنے رکھا تھا جب وہ نیلے ڈینیوب کے کنارے عثمانی مملکت ہنگری میں اپنی خانقاہ کے اندر بیٹھے حکایاتِ قدیم و جدید کے ذریعہ درس دیا کرتے تھے۔
’’اور اس مقام پر میرا راگ ختم ہوا۔ اے دنیاؤ۔ اب رخصت ہو۔ اور واپس جاؤ۔‘‘
مولانا جلال الدین رومیؒ نے کہا اور نے ہاتھ سے رکھ دی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...