بادشاہ کا دروازہ (جسے ہندوستان کے پچھلے عہد میں درِ دولت اور قسطنطنیہ میں باب عالی کہتے ہیں) دارِ سرا کہلاتا ہے۔ سرا پردۂ شاہی کے بہت سے دروازے ہیں۔ پہلے دروازے پر بہت سے لوگ مامور ہیں جو ہر وقت پہرہ دیا کرتے ہیں اور اُنہیں میں باجا بجانے والے، شہنائی اور طبل و قرنا بجانے والے بھی موجود رہتے ہیں۔ قاعدہ ہے کہ جہاں کوئی بڑا امیر اور صاحب رتبہ اور ذی اختیار رئیس آیا بس سب کے سب باجا بجانے لگے اور فوراً مبارک باد و دعائے دولت کے شادیانے بجنے لگتے ہیں اور باجوں ہی کی لے میں اُس رئیس کا خیر مقدم ادا کیا جاتا ہے، اور باجوں سے صاف آواز آتی ہے کہ “فلاں رئیس آیا فلاں رئیس آیا”۔ دوسرے اور تیسرے دروازوں پر بھی یہی سامان رہتا ہے اور وہاں بھی اسی طرح نغمہ و سرود میں رؤسا کا خیرمقدم ادا کیا جاتا ہے۔
باب اول کے متصل کچھ دکانیں سی بنی ہوئی ہیں جن میں ہر وقت جلاد اور مجرم کی جان لینے والے فرشتہائے موت بیٹھے رہتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، عادت ہے کہ جب وہاں جائیے اُن لوگوں کو کسی نہ کسی کے قتل میں مصروف پائیے گا، بس بادشاہ کے حکم کی دیر ہے؛ ادھر کسی کے بارے میں سزائے موت کا حکم ہوا اور وہ قتل کے لیے آمادہ ہوئے۔ مجرمین دروازۂ شاہی ہی پر قتل کیے جاتے ہیں۔ پہلے دروازے سے دوسرے دروازے تک ایک بہت بڑی دہلیز بنی ہوئی ہے جس میں کوٹھریاں بنتی چلی گئی ہیں۔ اُن کوٹھریوں میں نگہبان اور محافظین یعنی گارد کے سپاہی باری باری موجود رہتے ہیں اور بڑی ہوشیاری سے پہرا دیا کرتے ہیں۔ دوسرے پھاٹک کے اندر بھی یہی گارد والے ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد تیسرے دروازے تک جو کوٹھریاں ہیں، اُن میں سب نقیبوں کا سردار جو عرض بیگی کی خدمت سے سرفراز ہے بڑے تزک اور ٹھاٹ سے موجود رہا کرتا ہے۔ اُس کے آگے ایک سونے کا عصا رکھا رہتا ہے اور اکثر یہ عصا اُس کے ہاتھ میں نظر آیا کرتا ہے۔ اس کے سر پر سونے کی مرصّع نہایت عمدہ ٹوپی ہوتی ہے جس پر کلغی بھی ضرور نصب رہتی ہے۔ اس کے دونوں طرف بہت سے نقیب دست بستہ ادب سے کھڑے ہوتے ہیں۔ اُن سب کی ٹوپیاں بھی ویسی ہی طلاکار اور بھاری ہوتی ہیں۔ سب کی کمروں پر پٹکے بندھے ہوئے ہیں اور ہاتھوں میں کوڑے ہیں جن کی موٹھیں سونے یا چاندی کی ہیں۔ اور اس دوسرے دروازے سے نکل کے ایک بہت بڑے ہال میں پہونچتا ہے جس میں بکثرت آدمی بیٹھے رہتے ہیں۔
تیسرے درواے پر نام لکھ لینے والے رہا کرتے ہیں اور اُن لوگوں کا فرض ہے کہ سوا اُن لوگوں کے جن کو خاص بہ حکم شاہی اجازت ہو اور کسی کو اندر نہ جانے دیں۔ اُن لوگوں کے پاس تمام اُن رؤسا کے نام لکھے ہوئے ہیں جن کو اندر جانے کی اجازت ہے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ ہر مستحق کَے آدمیوں اور ہمراہیوں کے لے جانے کا مجاز ہے۔ لہذا اس شمار سے زیادہ ہمراہیوں کو وہ نہیں لے جانے دیتے ہیں اور جب کوئی شخص اس دروازے سے گذرتا ہے، فوراً لوگ لکھ لیتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں وقت حضوری میں گیا۔ اور بعد نماز عشا کے خود سلطان روزانہ فہرست کو اپنی آنکھ سے ملاحظہ کر لیا کرتا ہے۔ علاوہ آمد و رفت کے اور جو واقعات در دولت پر دن بھر پیش آتے ہیں، اُن کو یہاں کے محرر بطور رپورٹ کے لکھتے جاتے ہیں۔ اُن رپورٹوں کا پیش کرنا جن شاہزادوں کے سپرد ہے، وہی شاہزادے رپورٹوں کو محرروں سے لے کے ملاحظہ شاہی میں لے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ خدمت باری باری شاہزادوں کے سپرد ہے۔
درِ دولت کا ایک یہ بھی دستور ہےکہ جو شخص باب بادشاہی میں تین دن یا اس سے زیادہ غیر حاضر رہے وہ پھر بغیر اجازت شاہی کے اندر نہیں آنے پاتا اور جب وہ پھر حاضری کا ارادہ کرے تو اُس کا فرض ہے کہ اپنا عذر بارگاہ شاہی میں پیش کرے کہ فلاں ضرورت یا اس مرض کی وجہ سے وہ غیر حاضر رہا۔ اور یہ بھی دستور ہے کہ جب وہ عذر پیش کرے تو بعد قبولیت عذر کے بادشاہ کی طرف سے اُس کو حسب رواج و حیثیت کوئی نہ کوئی تحفہ مرحمت ہو اور یہی دستور مسافروں اور بادشاہ کے دربار میں باہر سے آنے والوں کے ساتھ بھی معین ہے۔ یہ ہدایا و تحف بھی ہر حیثیت کے مناسب نامزد کر دیے گئے۔ مثلاً فقہا کو قرآن مجید نذر دیا جاتا ہے، فقرا کو جانماز، تسبیح اور مسواک وغیرہ دی جاتی ہے، روسا اور اُمرا کو گھوڑے، اونٹ اور اسلحہ دیے جاتے ہیں۔
تیسرے پھاٹک سے نکل کے انسان اُس بڑے عالیشان محل میں پہونچتا ہے جسے ہزار ستون کہتے ہیں۔ اس کے ستون لکڑی کے ہیں جن پر روغن پھرا ہوا ہے اور چھت بھی لکڑی کی ہے۔ مگر اُس پر ایسی عجیب و غریب صنّاعی سے بیل بوٹے اور نقش و نگار بنائے گئے ہیں کہ انسان کو حیرت ہوجاتی ہے۔ اس محل میں لوگ آ کے ادب سے بیٹھتے ہیں اور اس میں خود سلطان بھی جلوہ افروز ہوتا ہے۔ یہ محل دیوان عام بھی کہلاتا ہے۔ اس دیوان عام میں سلطان اکثر بعد عصر آ کے بیٹھتا ہے۔ خاص سلطان کی نشست کے لیے وہاں یہ انتظام رہتا ہے کہ ایک مسطح چبوترے پر نہایت نفیس اور برّاق فرش اور فرش پر ایک عمدہ تخت رہتا ہے۔ تخت کی پشت کے جانب گاؤ تکیہ لگا ہوا ہے اور داہنے بائیں دونوں پہلوؤں پر یہی ایک ایک تکیہ رہتا ہے، اور بیٹھنے کی یہ وضع ہوتی ہے جس طرح انسان نماز میں تشہد پڑھنے کے لیے بیٹھتا ہے اور یہی وضع تخت نشینی میں کل شاہان ہند کی ہے۔ اور جب بادشاہ بیٹھتا ہے تو اس کے آگے وزیر اعظم دست بستہ کھڑا ہوتا ہے اور اُس کے پیچھے اہل قلم و اراکین دفتر شاہی صف باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ اہل قلم کے پیچھے حاجبین دربار شاہی ٹھہرتے ہیں، یعنی وہ لوگ جو ہر آنے والے کو سونچ سمجھ کے لاتے ہیں اور اُس کی حیثیت کے مناسب اس کی جگہ پر لا کے اسے کھڑا کر دیتے ہیں۔ اُن حاجبوں کا سردار اعظم ہمیشہ دربار دہلی میں ایک معزز اور معتمد علیہ شاہی رہتا ہے۔ سلطان محمد تغلق کے عہد میں یہ خدمت خاص سلطان کے بھتیجے فیروز ملک کےسپرد ہے۔ یہ اپنے تمام ماتحت حاجبوں کے آگے اور خاص سلطان کے قریب رہتا ہے، اُس کے بعد اُس کا ماتحت حاجب رہتا ہے جسے حاجب خاص کہتے ہیں، پھر نائب حاجب خاص جو داروغہ محل بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ اور اس حجاب اور نقیبوں کے گروہ میں تقریباً سو آدمی ہیں جو ہر وقت موجود رہتے ہیں۔
جس وقت سلطان بیٹھتا ہے سب کے سب ایک ساتھ شور کر کے کہتے ہیں “بسم اللہ الرحمن الرحیم” اور ملک الکبیر یعنی حاجبوں اور نقیبوں کا سردار مورچھل ہاتھ میں لیے رہتا ہے اور برابر جھلا کرتا ہے۔ ان مذکورہ لوگوں کے بعد سو مسلح جوان صف باندھے تخت کے داہنے جانب کھڑے رہتے ہیں اور سو بائیں جانب؛ اُن کے ہاتھوں میں کوڑے، تلواریں اور تیر کمان رہا کرتے ہیں۔ میمنہ اور میسرہ پر دیوان عام کے طول کے رخ پر قاضی القضات کھڑا ہوتا ہے اور اُس کے قریب ہی خطیب الخطبا یعنی سب خطیبوں کا سردار رہتا ہے۔ پھر تمام قاضی، پھر بڑے بڑے فقہا اور اُن کے بعد بڑے بڑے عمائد شہر اور مشائخ اور بادشاہ کے اعزا و اقربا اور داماد کھڑے رہا کرتے ہیں۔ پھر اُن لوگوں کی صف ہوتی ہے جو کبار اعزا کہلاتے ہیں، کبار اعزا سے مراد غربا و مساکین ہیں۔ پھر اہل فوج ہوتے ہیں۔ ان سب لوگوں کے پیچھے دونوں طرف تیس تیس کوتل گھوڑے نہایت اعلیٰ درجہ کے ساز و یراق سے آراستہ لا کے کھڑے کر دیے جاتے ہیں جن میں سے بعضے گھوڑے تو ایسے ہیں کہ خلافت اسلامیہ عباسیہ کی یادگار ہیں، یعنی اُن پر سیاہ اطلس کا چار جامہ وغیرہ ہوتا ہے اور اُس پر طلائی کام بنا ہوتا ہے اور بعضے کا سامان سفید طلا کار اطلس کا ہوتا ہے۔ یہ گھوڑے خاص سلطان کی سواری کے لیے مخصوص ہیں اور اُن پر سِوا خود بدولت کے اور کسی کی مجال نہیں کہ کبھی سوار ہو سکے۔ دربار میں یہ گھوڑے ٹھہرائے بھی ایسے مقام پر جاتے ہیں کہ سلطان کی نظر وہاں تک پہونچ سکتی ہو اور ہر لحظہ شاہنشاہ ہندکی نگاہ کے سامنے رہیں۔ ان گھوڑوں کے پیچھے پچاس ہاتھی کھڑے کیے جاتے ہیں جن پر ریشمی طلا کار جھولیں پڑی ہوتی ہیں اور جن کے دانتوں پر فولادی انیاں چڑھی ہوتی ہیں تاکہ مجرموں کو یہ ہاتھی بہ سہولت قتل کر سکیں۔ ہر ہاتھی کی گردن پر فیلبان کج بانک ہاتھ میں لیے سوار رہتا ہے اور اُن کی پیٹھ پر بہت بڑی بڑی عماریاں کسی رہتی ہیں جن میں سے ہر ایک میں اتنی وسعت ہوتی ہے کہ اُس پر بیس مسلح سپاہی بآسانی بیٹھ سکیں۔ ہاتھی کے قد و قامت کے لحاظ سے اس شمار میں کبھی کمی و زیادتی بھی ہو جاتی ہے۔ عماری کے چاروں کونوں پر چار عَلم بھی نصب ہوتے ہیں۔ یہ ہاتھی بڑی ہوشیاری اور محنت سے سدھائے گئے ہیں؛ چنانچہ جب چاہا جاتا ہے بادشاہ کے آگے جھک کے آستان بوسی کرتے ہیں اور بڑے ادب سے سر جھکاتے ہیں۔ ان میں سے بھی تیس ہاتھی تخت کے داہنے جانب اور تیس بائیں جانب ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُن ہاتھیوں میں سے جہاں کسی ہاتھی نے بڑھ کے سلطان کے آگے سر نیاز جھکا یا، حجاب اور نقیبوں کے گروہ سے صدائے “بسم اللہ الرحمن الرحیم” بلند ہوتی ہے۔
آداب شاہی میں یہ بھی داخل ہے کہ جتنے عہدہ دار یہاں آ کے ٹھہرنے کے مجاز ہیں، جب وہ دربار میں آ ئیں تو پہلے اُن کا فرض ہے کہ ایک مقام خاص پر جو تسلیم گاہ ہے، جا کے بادشاہ کو سلام کر لیں تو پھر اپنے مقام پر جا کے ٹھہریں۔ اُن لوگوں کے سلام کرنے کے وقت بھی “بسم اللہ” کا نعرہ صف حجاب سے بلند ہوتا ہے۔ لیکن ہندوؤں میں سے کوئی راجا یا عہدہ دار شاہی سلام کرتا ہے تو اُس وقت نقیب بآواز بلند اُس کی طرف خطاب کر کے کہتے ہیں “ھداک اللہ”۔ اور سلطان کے غلام سب لوگوں کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں جن کی وضع سپاہیوں کی ہوتی ہے اور ہر ایک کے ہاتھ میں ڈھال تلوار رہتی ہے۔ اس ترتیب کا یہ نتیجہ ہے کہ جو کوئی بادشاہ تک پہونچنا چاہے تو پہلے ان میں ہو کے گزرے گا، پھر حاجبوں میں ہو کے۔
جب کوئی باہر کا عامل دربار شاہی میں ہدیہ اور تحائف لا کے حاضر ہونا چاہتا ہے تو حاجب جو خدمت عرض بیگی کو سر انجام دیتے ہیں، اپنی اُس مذکورہ ترتیب سے یعنی سب کے آگے امیر حاجب، اُس کے پیچھے اُس کا نائب، پھر خاص حاجب، پھر اُس کا نائب، پھر داروغۂ محل، پھر اُس کا نائب۔ غرض اس گروہ کے تمام لوگ آگے پیچھے اپنی ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے تخت شاہی کی طرف بڑھتے ہیں اور تین مقاموں پر کھڑے ہو کے آداب شاہی بجا لا کے عرض کرتے ہیں کہ “فلاں شخص در دولت پر حاضر ہے اور آستان بوسی کی آرزو رکھتا ہے”۔ اگر بادشاہ نے اجازت دی تو اُس کو اس طور پر دربار میں لاتے ہیں کہ وہ جو تحفہ یا ہدیہ لایا ہے اُس کو لیے ہوئے لوگ آگے آگے چلتے ہیں تاکہ سلطان کی اُس پر نظر پڑے، وہ شخص قبل اس کے کہ سلطان کے قریب پہونچے دور ہی سے تین بار آداب شاہی بجا لاتا ہے۔ اُس کے بعد حاجبوں کے ٹھہرنے کے مقام پر پہونچتا ہے۔ اگر کوئی بہت بڑا امیر اور معزز شخص ہوا تو امیر حاجب کے برابر کھڑا ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو اُس کے پیچھے ہی ٹھہر جاتا ہے۔ جب وہ اپنی جگہ پر ٹھہر گیا تو سلطان بذات خود اُس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور نہایت ہی خلق و محبت اور توجہ کے الفاظ میں باتیں کرتا ہے۔ اُس کے آنے پر مرحبا کہتا ہے اور اگر اُس کی عزت کے لحاظ سے مناسب معلوم ہوا تو پاس بلا کےمصافحہ کرتا ہے اور کبھی کبھی معانقہ بھی کرتا ہے اور اُس کے ہدیوں کو منگوا کے اپنے سامنے رکھتا ہے۔ اگر اسلحہ کپڑوں کے قسم سے کوئی چیز ہوئی تو ہاتھ میں اٹھا کے اُلٹ پلٹ کے بھی دیکھتا ہے اور خواہ مخواہ تحفوں کی تعریف کرتا ہے، صرف اس لیے کہ جس نے پیش کیا ہے، اُس کا دل خوش ہو جائے۔ اس کے بعد اُس کو خلعت مرحمت ہوتا ہے اور اُس کی حیثیت کے مناسب ایک رقم “سر دھونے” کے نام سے اُس کو نقد عطا ہوتی ہے۔ یہ ہندوستان کا دستور ہے کہ بادشاہ شرف حضوری حاصل کرنے والوں کو جو رقم مرحمت فرماتا ہے وہ “غسل سر” کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
یہ تو اُن ہدیوں کا ذکر تھا جو باہر کے آنے والوں یا ابتداءً شرف حضوری حاصل کرنے والوں کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن وہ تحائف اور ہدایا جو عمائد شاہی یا خاص عمّال اور چکلہ داروں یا زمینداروں کی طرف سے پیش ہوتے ہیں اُن کا اور دستور ہے۔ امرا اور عمّال کا قاعدہ ہے کہ بہت دنوں تک مال و اسباب نذر شاہی کے لیے فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ہاتھی، گھوڑے، سونے چاندی کے برتن اور نیز سونے چاندی کی مسلّم اینٹیں۔ اسی قسم کی تمام چیزیں جب حضوری میں پیش ہوتی ہیں تو شاہی غلام اُن چیزوں کو لے کے بڑھتے ہیں۔ اگر ہاتھی ہوئے تو پہلے ہاتھی، پھر گھوڑے مع لوازم ساز و یراق، پھر اونٹ جن پر مال و اسباب لدا ہوتاہے، تدریجاً بادشاہ کی نظر سے گذر کے خزانہ شاہی میں داخل کیے جاتے ہیں۔
جب سلطان محمد تغلق دولت آباد سے واپس آتا تھا، اُن دنوں وزیر اعظم خواجہ جہاں نے ایک روز اپنے ہدایا ملاحظہ شاہی میں پیش کیے۔ بادشاہ نے شہر بیانہ کے باہر ایک مقام پر اُن ہدیوں کے ملاحظہ سے گذرانے جانے کا حکم دیا تھا۔ اُس موقع پر میں بھی وہاں موجود تھا اور میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ وزیر کے ہدیے اسی ترتیب سے پیش کیے گئے تھے جس طرح میں نے بیان کیا۔ منجملہ اور دولت مندی کے سامانوں کے میں نے اُس موقع پر دیکھا کہ ایک سینی میں عمدہ اور بے بہا یاقوت اور ایک سینی میں بے مثل زمرد اور ایک میں بڑے بڑے موتی بادشاہ کی نذر گذرانے گئے تھے۔ دولت مندی کے یہ نمونے دیکھ کے مجھے حیرت ہو گئی۔ خصوص یہ دیکھ کے کہ سلطان ابو سعید بادشاہ عراق کے بھتیجے حاجی کاون بھی وہاں موجود تھے۔ بادشاہ نے اُن مذکورہ جواہرات میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ اُن کو دے دیا تھا۔
دہلی میں عیدین کو بڑی کیفیت ہوتی ہے اور بے شک اُس روز یہاں کی دولت و عظمت کا جبروت نظر آیا کرتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ شاہان دہلی کی عظمت بمقابلہ دیگر فرمانروایان بلاد کے کس قدر بڑھی ہوئی ہے۔ جس روز صبح کو عید ہونے والی ہوتی ہے، اُس روز رات ہی کو بادشاہ کی طرف سے تمام عمائد سلطنت، مقربین خلافت، اہل دولت، معزز لوگوں، نائبوں، حاجبوں، نقیبوں، سرداران عساکر، غلاموں اور پرچہ و پیام پیش کرنے والوں کے پاس حسب مراتب و مدارج خلعت بھیج دیے جاتے ہیں۔ صبح ہوئی اور ہاتھی عمدہ عمدہ مرصع اور طلاکار جھولوں اور عماریوں سے آراستہ کیے جانے لگے۔ یہ ہاتھی سر سے پاؤں تک جواہرات، سونے اور ریشم میں غرق ہوتے ہیں۔ سولہ ہاتھی تو خاص شاہنشاہ کی سواری کے لیے مخصوص ہوتے ہیں جن پر کسی کی مجال نہیں کہ سوار ہو سکے۔ ہر سلطانی ہاتھی کی عماری پر ایک مرصّع چھتر بھی نصب ہوتا ہے جو مرصع کار سونے ہی کے ڈنڈے پر قائم ہوتا ہے۔ اُن میں سے ایک ہاتھی پر سلطان سوار ہوتا ہے اور بڑے جلوس اور دھوم دھام سے سواری عید گاہ کو روانہ ہوتی ہے۔ سلطانی ہاتھی کے آگے غلام صف باندھ کے چلتے ہیں جن کے سروں پر طلائی ٹوپیاں اور کمروں میں طلائی پٹکے ہوتے ہیں، ان میں سے بعضوں کی ٹوپیاں اور پٹکے مرصع کار بھی ہوتے ہیں۔ اُن کے بعد چاؤشوں اور نقیبوں کا ہجوم ہوتا ہے جو پکارتے جاتے ہیں کہ “سواری ہے شاہنشاہ ہندوستان کی”۔ ان نقیبوں کا شمار تین سو ہے، اُس روز سب کے سب ہمراہ رکاب ہوتے ہیں۔ اُن کے بھی سروں پر ہندی ٹوپیاں اور کمروں میں سنہری پیٹیاں ہوتی ہیں اور ہاتھوں میں طلاکار گُرز ہوتے ہیں۔
بادشاہ کے بعد قاضی القضاۃ صدر جہاں ناصر الدین خوارزمی کا ہاتھ ہوتا ہے اور اُن کے جلو میں کل قاضی اور اعزائے خراسان و عراق و شام و مصر و مغرب کے مفلوک الحال ہوتے ہیں جن کی خدمت گزاری سلطنت کی جانب سے کی جاتی ہے۔ اُن میں سے ہر شخص ایک جداگانہ ہاتھی پر سوار ہوتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں خراسان کے محتاج و فلاکت زدہ اس کثرت سے آئے اور آتے ہیں کہ یہاں جتنے محتاج ہیں سب خراسانی خیال کیے جاتے ہیں۔ اس گروہ کے بعد مؤذن لوگ بھی ہاتھیوں پر سوار ساتھ ہوتے ہیں جو راستہ میں برابر بآواز بلند کلمات تہلیل و تکبیر کہتے جاتے ہیں۔
درِ دولت کے باہر تمام فوجیں اور کل عمائد شہر اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ جلوس شاہی کے منتظر کھڑے ہوتے ہیں اور اس انتظام سے کہ ہر امیر کے ساتھ علاحدہ باجے، روشن چوکیاں، طبل اور علم اُس کی عزت اور اُس کے رتبہ کے موافق موجود ہوتے ہیں۔ بادشاہ جب مندرجۂ بالا حیثیت سے چل کے در دولت کے باہر نکلتا ہے تو یہ سب لوگ حسب ضابطہ سلامی لیتے ہیں۔ اور اب عید گاہ کی طرف اس شان و شوکت سے جلوس روانہ ہوتا ہے کہ سب کے آگے شاہی ہاتھی اور اُسی حیثیت سے جس طرح ہم بیان کر آئے، یعنی غلام اور چاؤش آگے آگے انتظام کرتے ہوئے اور عام پبلک کو شاہی عظمت و جبروت کی اطلاع دیتے ہوئے۔ اور بادشاہ کے ہاتھی کے بعد ہی قاضی القضاۃ اور اعزا وغیرہ رہتے ہیں اور مؤذن بھی اسی طرح ہاتھیوں پر بیٹھے تکبیر و تہلیل کہتے ہوئے ہمراہ نکل جاتے ہیں، پھر ان سب لوگوں کے بعد امرا و رؤسا کے جلوس اپنی شانداری سے باجے بجاتے ہوئے چلتے ہیں۔ طبل بجتا جاتا ہے اور قرنا پھنکتا جاتا ہے۔ پہلے تو سلطان کے بھائی مبارک خان پورے جلوس اور تمام سامانوں کے ساتھ چلتا ہے۔ پھر بادشاہ کا چچازاد بھائی ملک فیروز اپنے جلوس کے ساتھ بڑھتا ہے۔ پھر حضور کا بھتیجا بہرام خان اپنے ساز و سامان کے ساتھ چلتا ہے۔ پھر وزیر اعظم مع اپنے خدم و چشم کے۔ پھر ملک مجیر بن ذی الرجا اپنی فوج اور اپنے جلوس کے ساتھ روانہ ہوتا ہے۔ پھر دہلی کا بہت بڑا صاحب سطوت رئیس اپنے جلوس کو آگے بڑھاتا ہے جو ملک الکبیر قبولہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بہت ہی بڑا متمول اور صاحب اختیار شخص ہے۔ اُس کے دفتر کا دیوان اعظم ملک علاء الدین علی مصری معروف بہ ابن شرایشی جس کو میں بہت ہی معتبر شخص جانتا ہوں، خود اُس نے مجھ سے بیان کیا کہ اُس کو خزانہ سلطانی سے بابت مصارف خانگی کے چھتیس لاکھ روپیہ سالانہ ملتا ہے۔ ملک قبولہ کے بعد ملک نکبیہ اپنے جلوس کے ساتھ روانہ ہوتا ہے۔ پھر عزۃ الملک اپنے لوگوں کو بڑھاتا ہے۔ پھر مخلص الملک پھر قطب الملک۔ غرض تمام امرا اپنے جلوس کو لے کے چلتے ہیں۔ یہ سب دہلی کے بہت بڑے رؤسا ہیں اور ایسے ہیں کہ کسی وقت سلطان سے جدا نہیں ہوتے ہیں۔ عید کے روز انہیں حکم ہے کہ اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ اور اپنے عطا شدہ مراتب کا بخوبی اظہار کر کے تزک و احتشام سے ہمراہ رکاب سلطان عید گاہ کو جایا کریں۔ ان سب کے علاوہ اور چھوٹے چھوٹے صدہا رؤسا ہیں جو یکے بعد دیگرے اس سلسلۂ جلوس میں عید گاہ کو جاتے ہیں۔ اور آج کے دن جتنے ہیں سب مسلح ہوتے ہیں اور نیز اُن کے گھوڑے اور ہاتھی بھی خوب آراستہ نظر آتے ہیں۔ بادشاہ عیدگاہ کے دروازے پر پہونچ کے ٹھہر جاتا ہے اور قاضی القضاۃ سے اندر جانے کی درخواست کرتا ہے، پھر امرائے کبار اور نیز اُن بیرونی مصیبت زدہ کبار اعزا کو داخل ہونے کا حکم دیتا ہے۔ جب یہ لوگ جا چکتے ہیں تو خود ہاتھی سے اُتر کر عید گاہ میں جاتا ہے۔ بادشاہ کے پہونچتے ہی امام اُٹھ کے نماز پڑھاتا ہے اور خطبہ پڑھتا ہے۔ اور اگر عید الاضحیٰ ہوئی تو قربانی کے لیے اونٹ حاضر کیا جاتاہے اور سلطان اپنےہاتھ سے نیزہ مار کے اُسے ذبح کرتا ہے۔ ذبح کرنے کے وقت بادشاہ اپنے جسم پر ایک کپڑا لپیٹ لیا کرتا ہے تاکہ لباس شاہی خون کے دھبوں سے محفوظ رہے۔
عید کے دن جو دربار ہوتا ہے وہ بھی نہایت پُرتکلف اور بڑی شان و شوکت سے ہوتا ہے۔ اس کے لیے بہت کچھ اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اُس کا حال ہم پھر بیان کریں گے۔ اس لیے کہ اب یہ مضمون بہت طولانی ہو گیا اور اگر زیادہ بڑھ گیا تو لوگوں کی دلچسپی نہ ہو گی۔