ہماری افسانوی تنقید کا ایک عام جملہ ہے کہ افسانہ میں سب کچھ ہے مگر اس سے کہانی پن غائب ہے، جس کی وجہ سے یہ افسانہ کامیاب نہیں ہے۔آخر یہ کہانی پن کیا ہے ؟ بدنام زمانہ کتاب’افسانے کی حمایت میں ‘صاحب کتاب نے اس مسئلے پر بہت ہی منطقی اور استدلالی گفتگو کی ہے۔ اس سے پہلے کہ اس پر کچھ بات ہو، شمس الرحمن فاروقی صاحب کے مضمون سے چند ایک اقتباسات ملاحظہ ہوں کہ اس بحث کے یہی نقش اول ہیں۔
’’در اصل دل چسپی جو کہانی پن کا تفاعل ہے، فکر مندی اور لگاؤ کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔‘‘[100]
’’افسانے میں کہانی پن کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ افسانہ دلچسپ یا تجسس انگیز کیوں نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم میں انسانی لگاؤ اور فکر مندی کیوں کم ہے۔ یا افسانہ ہمارے اس لگاؤ اور فکر مندی کو برانگیخت کیوں نہیں کرتا؟‘‘[101]
’’نئے افسانوں پر الزام کچھ درست نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اس لیے دلچسپ نہیں ہیں کہ ان سب کے پلاٹ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے پلاٹ اگرچہ ایک ہی طرح کے ہیں، لیکن ان میں واقعات (ارسطو کی زبان میں ’’مناظر‘‘)کی کثرت ہے۔ اور اگر مناظر کی کثرت ہے تو ’’کہانی پن‘‘ بھی ہو گا اور کہانی پن ہو گا تو (جیسا کہ عام خیال ہے ) افسانے دل چسپ بھی ہوں گے۔اگر اس کے باوجود یہ افسانے دلچسپ نہیں معلوم ہوتے تو اس کی وجہ کہانی پن کی کمی نہیں، بلکہ کچھ اور ہو گی۔ اس ’’کچھ اور‘‘ کو میں نے اوپر یہ کہہ کر ظاہر کیا ہے کہ وہ افسانے جو ہمیں انسانی سطح پر متوجہ نہیں کرتے، غیر دلچسپ معلوم ہو سکتے ہیں۔‘‘[102]
’’پلاٹ کا نہ ہونا(پلاٹ کا نسبتاً کم اہم ہونا) اور واقعات کی کثرت، دل چسپی کو مانع نہیں ہوتی، بشرطیکہ واقعات جن لوگوں پر گزر رہے ہیں، ان سے ہمیں کسی قسم کا لگاؤ ہو۔‘‘[103]
’’واقعات میں ’’نیا پن ‘‘ یا واقعات کی کثرت لا محالہ دل چسپی کی ضامن نہیں ہوتی۔‘‘[104]
’’نئے افسانہ نگاروں نے۔۔۔واقعات کی کثرت تو رکھی ہے، لیکن ان کے کرداروں کو انسانی سطح پر بہ مشکل ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے پلاٹ کو منہدم کرنے پر اس قدر توجہ صرف کی کہ وہ اس بات کو بھول گئے کہ واقعات کی کثرت فی نفسہٖ توجہ انگیز نہیں ہوتی(یعنی واقعات کی کثرت فی نفسہ کہانی پن نہیں ہوتا)۔وہ بالکل درست کہتے ہیں کہ تجسس پیدا کرنا، ہمارا کام نہیں۔۔۔۔ان چیزوں کے بغیر بھی افسانے میں ’’کہانی پن‘‘ ہو سکتا ہے۔ لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے تجسس کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کے لیے مناسب کار روائی نہیں کی ہے۔ ‘‘[105]
افسانہ میں کہانی پن کا مسئلہ عملی تنقید کے وقت تو بہت پڑھا ہے تاہم اس موضوع پر باقاعدہ نظریاتی گفتگو شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ اور کسی اردو کے ناقد یا مضمون نگار نے کرنے کی زحمت نہیں کی ہے۔ میں نے یہ مضمون تحریر کرتے ہوئے بہت سے ادیبوں اور ادب نواز دوستوں سے اس سلسلے میں بات کرنے کی کوشش کی تاکہ موضوع پر مزید گفتگو کر سکوں مگر افسوس کہ کسی کی طرف سے کوئی بھی تشفی بخش جواب نہ ملا۔ کہنے کو ایک افسانہ نگار ہیں، انھوں نے ایک دو سال قبل ماہنامہ ’ایوان اردو‘ میں کہانی پن سے متعلق ایک مضمون لکھا تھا۔ لیکن بیچارے یہی ورد کرتے رہ گئے کہ ہمارے بڑے افسانہ نگار اور ناقدین نے اس موضوع پر کچھ نہیں لکھا۔ انھوں نے اپنے بعد آنے والی نسل کی رہنمائی کے لیے کچھ نہ چھوڑا۔ منٹو صاحب افسانے کے سارے اسرار و رموز اپنے ساتھ لے کر منوں مٹی تلے خدا کے ساتھ افسانہ نگاری کا مسابقہ کر رہے ہیں اور یہاں ان کی متبعین کے پاس بنیادی خطوط بھی نہیں ہیں۔ در اصل موصوف نے ایک اہم رسالے میں پانچ صفحات تو لے لیے کہ بات کہانی پن کے مسئلے پر کریں گے لیکن اس کے متعلق کچھ واضح نہ کر سکے۔
افسانے میں کہانی پن کے مسئلے پر بات کرتے وقت اکثر بات افسانے میں واقعیت و حقیقت کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔حالانکہ کہانی پن بالکل جدا عنصر ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اسے ’’ دلچسپی‘‘کے مترادف کہا ہے اور وہ دلچسپی کسی کہانی میں انسانی لگاؤ کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ اوپر دیے گئے اقتباسات سے تو یہ معلوم ہو ہی گیا کہ فاروقی واقعات کی تکثیر و تقصیر کو کہانی پن کو وجود بخشنے کے اسباب میں شمار نہیں کرتے ہیں۔
افسانے میں دلچسپی کس طرح پیدا ہوتی ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کے ذریعہ ہم کہانی پن اور اس کے اسباب کی اصل تک پہنچ سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہمیں کسی متن میں دلچسپی نہیں ہوتی ہے تو ہم اسے پڑھنا بند کر دیتے ہیں اور پھر وہی تنقیدی جملہ سامنے آتا ہے کہ’ کیا بے کار افسانہ ہے، اس میں کہانی پن ہے ہی نہیں ‘۔ یعنی دلچسپی کا نہ پیدا ہونا کہانی پن کے فقدان کا سبب ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر افسانے میں دلچسپی کیسے پیدا ہوتی ہے ؟ اس کا جواب بھی شمس الرحمن فاروقی نے دے دیا ہے کہ اگر کہانی کا کوئی انسانی لگاؤ والا پہلو ہے تو کہانی میں کہانی پن بہر حال موجود ہو گا۔
ترقی پسندوں نے جس بیانیہ کو رواج دیا وہ علت و معلول کے واضح رشتے پر منحصر بیانیہ تھا جس میں وقتی ترتیب کے پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے قاری کے سامنے یہ سوال پیدا کرنے کا ماحول قائم کیا جاتا تھا کہ ’آگے کیا ہو گا‘ اور یہی تجسس دلچسپی بھی تھی جسے کہانی پن بھی کہا جاتا تھا۔ اسی لیے جب جدیدیت کے زیر اثر اس طرح کے افسانے خلق ہوئے جنھوں نے ظاہری سطح پر علت و معلول کے روایتی انداز سے انحراف کرتے ہوئے نیا بیانیہ خلق کیا تو کہانی سے کہانی پن کے غائب ہونے کی صدائیں بلند ہوئیں اور جب ۱۹۸۰ کے بعد نئی نسل کے لوگوں نے دوبارہ خود کو ترقی پسند روایت کی علت و معلول والی مانوس منطق پر مبنی بیانیے سے جوڑا، جسے اس عہد کے افسانوں کی اساسی خوبی گردانا جاتا ہے اور جس کے ذریعہ تجسس کو مہمیز کرنے کے ہنر کو کہانی پن سے تعبیر کیا جاتا ہے، تو پھر ادبی منظر نامے پر افسانے میں کہانی پن کی واپسی کا اعلان ہوا۔ شافع قدوائی نے اپنے ایک مضمون میں ترقی پسند نظریے کے کہانی پن کے بارے میں لکھا ہے :
’’اردو میں عموماً کہانی پن کو واقعہ یا واقعات کے منطقی تسلسل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کہانی پن اور دلچسپی کو لازم و ملزوم ٹھہرایا جاتا ہے۔ بعض ناقدوں کا خیال ہے کہ کہانی پن سے مراد ہے کہانی کی وہ صفت جس کے ذریعہ وہ آگے بڑھتی ہے۔آگے بڑھنے کا انحصار ہوتا ہے واقعہ کی کثرت پر اور واقعات کے مابین زمانی ربط پر۔کہانی پن کی تشریح میں ’’ پھر کیا ہوا یا آگے کیا ہوا ‘‘کو اساسی اہمیت دی گئی ہے۔ کہانی پن سے ایک ایسی منطقی ترتیب مراد لی گئی جس کے توسط سے کردار اپنا تشخص قائم کرتے ہیں، اپنے اعمال و افعال کا جواز فراہم کرتے ہیں اور اپنے عمل سے کہانی کو روشن کرتے ہیں۔‘‘[106]
یعنی جدیدیت سے قبل ’کہانی پن‘ کیا ہوا اور واقعات کی تکثیر اور منطقی ربط و زمانی ترتیب سے محصور تھا لیکن جب جدید طرز کی تحریریں لکھی گئیں تو ان میں یہ سارا تصور تاش کے پتوں کی طرح بکھرتا نظر آیا اور اردو کے قاری نے ان تمام افسانوں کو مسترد کر دیا جو کہانی پن کی اس بنی بنائی روایت کی پاسداری نہیں کر رہے تھے۔ حالانکہ اسی عہد میں سریندر پرکاش، بلراج مینرا، نیر مسعود، انتظار حسین اور کئی اہم ناموں نے ایسے افسانے لکھے جو ’کہانی پن ‘ کے اس تصور سے لیس نہیں تھے لیکن قاری کا احساس جمال انھیں وہ افسانے پڑھنے پر مجبور کرتا رہا۔ میں جہاں تک سمجھتا ہوں کہ ’کہانی پن ‘ کو محض واقعات کی زمانی ترتیب اور تجسس یا کیا ہوا کی تعبیر و تشریح سے ہی جوڑ کر دیکھنا غلط رویہ ہے جو افسانے کی تخلیق میں نئے زاویوں اور نئے رویوں کے پیدا ہونے میں حائل ہے۔شافع قدوائی نے لکھا ہے :
’’کہانی پن افسانہ کی خلقی صفت ہے جو اس کے ناگزیر اجزا راوی، کردار، مکالمہ، طرز اظہار، فضا، مناظر اور بیانیہ عرصہ کو ایک نامیاتی کل کے طور پر پیش کرتی ہیں اور کہانی پن موضوع ہی نہیں بلکہ تخلیقی طرز اظہار میں مضمر ہوتا ہے۔ افسانہ کا قاری پوری صورت حال سے واقف ہونے کا خواہاں ہوتا ہے اور پوری تفصیل سے بیک لمحہ واقف ہونا چاہتا ہے۔ کہانی پن سے مراد بعض تفصیلات کا اظہار اور بعض کو معرض التوا میں رکھنا ہے۔ التوا کا وقفہ کتنا ہو، یہ لازماً علت و معلول پر منحصر نہیں ہوتا۔ کہانی پن زمانی ربط کے ساتھ ساتھ ذہنی اور تاثراتی ربط کے لیے ساز گار بیانیہ عرصہ قائم کرتا ہے اس لحاظ سے کہانی پن محض دلچسپی یا تجسس کا زائیدہ نہیں ہوتا۔‘‘[107]
منٹو کے افسانوں میں، انتظار حسین کی تخلیقات میں اور نیر مسعود یا خالد جاوید، معین الدین جینابڑے یا دوسرے کئی اہم افسانہ نگاروں کے افسانوں میں کہانی پن محض واقعات کی تکثیر کا تفاعل نہیں ہے اور نہ ہی وہ علت و معلول کی ظاہری منطق پر مبنی بیانیہ ہے بلکہ ان کے یہاں تجسس علت و معلول سے آگے کی خبر دیتا ہے۔ ’کہانی پن‘ محض واقعات کی کثرت کے سبب قائم نہیں ہوتا بلکہ اکثر مکالموں کے وسیلے سے بھی بیانیہ عرصہ قائم ہوتا ہے۔اسی طرح جدید افسانوں میں داخلی منظر ناموں کی تکثیر سے جو تاثراتی ربط تخلیق پایا ہے وہ بھی کہانی پن کا ہی ایک حصہ ہے۔در اصل کہانی پن ہمہ جہت پہلو رکھتا ہے۔ یہ ایک پہلو دار عمل ہے اور بقول شافع قدوائی ’’اس کا بنیادی تفاعل کہانی کو ایک نامیاتی کل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اکثر بدیہات کو معرض التوا میں رکھ کر Story Time تشکیل دی جاتی ہے۔‘‘[108]
شمس الرحمن فاروقی کی بحث اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ انھوں نے دلچسپی، کہانی پن، کیا ہوا اور آگے کیا ہو گا جیسے مباحث کو کھول کر بیان کیا ہے اور کہانی پن ہونے کے لیے ایک اہم نکتہ تلاش کیا ہے کہ ’’افسانے میں کہانی پن کا کوئی براہِ راست تعلق واقعات کی تکثیر یا تقصیر سے نہیں ہے۔ یہ مسئلہ در اصل اس بات سے متعلق ہے کہ افسانے میں انسانی عنصر کتنا ہے ؟اگر افسانہ ہماری انسانیت کے کسی پہلو کو متوجہ کر سکتا ہے تو اس میں کہانی پن پیدا ہو جاتا ہے۔ واقعہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، حیرت انگیز ہو یا روز مرّہ کی زندگی سے لیا گیا ہو، اگر وہ انسانی سطح پر ہمیں متاثر کر سکتا ہے تو ہمیں اس میں دل چسپی ہوتی ہے۔‘‘[109]
منجملہ یہ کہ کہانی پن کوئی مفرد شے نہیں ہوتی بلکہ وہ کبھی افسانوں میں واقعات کے پے درپے وقوعے، کبھی افسانہ نگار کی تخلیقی فضا بندی، کبھی انسانی لگاؤ، کبھی مکالموں کی کثرت اور کبھی علت و معلول والی کیفیت سے افسانے کے متن میں پیدا ہوتا ہے۔
٭٭٭