اس نکتے پر بحث کو آگے بڑھانے کا پیش خیمہ شمس الرحمن فاروقی کے یہ اقتباسات ہیں۔ فاروقی لکھتے ہیں :
’’بعض نقادوں کا یہ بھی خیال ہے کہ نظم میں بنیادی اکائی لفظ ہے، افسانے میں بنیادی اکائی لفظ نہیں بلکہ واقعہ ہے۔ رچرڈس کی اصطلاح میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ افسانے کی زبان میں حوالہ جاتی عنصر یعنی Referential Element خاصا ہوتا ہے۔‘‘[93]
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اعلیٰ شاعری میں کسی ٹھوس ٹھاس، حشو و زوائد برائے بیت یعنی Slack کی گنجایش نہیں ہوتی، لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ افسانے میں بھی Slack نکل آتا ہے۔ بات یہ ہے کہ افسانہ کی زبان میں وہ تناؤ نہیں ہوتا جو شاعری کا خاصہ ہے۔ اردو میں بعض مثالیں بالکل سامنے کی ہیں، مثلاً بیدی اور قرۃ العین حیدر، ان کے یہاں Slack کی کثرت ہے، پھر بھی ہم ان کو اہم افسانہ نگاروں کی فہرست میں بہت اونچی جگہ دینے پر مجبور ہیں لیکن غالب، اقبال، میر یا انیس کے بہترین کلام میں Slack کا تصور بھی ممکن نہیں۔‘‘ [94]
اس سارے فساد کی جڑ در اصل وہی ہے جس کا تذکرہ ہم نے مقالے کے شروع میں کیا تھا کہ شمس الرحمن فاروقی افسانے کو زبردستی شاعری کے پیمانوں میں اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کون ہے جو اس سچائی سے آنکھ موند سکتا ہے کہ شاعری اور نثر کی زبان مختلف نہیں ہوتی ہے۔ ہوتی ہے، ضرور ہوتی ہے لیکن یہی اس صنف کا تقاضا ہے۔افسانہ اگر شاعری کی زبان میں لکھا جانے لگے تو پھر اس کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ہم شاعری پر ہی کیوں نہ اکتفا کریں اور پھر اس کا نام کیوں نہ شاعری ہی رکھ دیں۔ نثری نظم کی مثال سامنے ہے ہی۔ نظمیہ/شعری افسانہ کی اصطلاح بھی گڑھ لیجیے۔اگر نثر میں شاعری کا امکان ہے تو پھر شاعری میں افسانہ، چہ بعید امر! اور ایسا نہیں ہے کہ شاعرانہ زبان افسانہ میں استعمال نہیں ہوئی ہے۔ بہت سے افسانہ نگاروں نے اس کا استعمال کیا ہے۔لیکن اس کا وہ تاثر جو شاعری کے ساتھ وابستہ ہے وہ افسانے کے مجموعی تاثر کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں رہتا ہے۔ ہمارے رومانی افسانہ نگاروں کے یہاں ایسی شعری زبان استعمال ہوئی ہے، مثلاً نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری اور حجاب امتیاز علی وغیرہ کے یہاں شعریت کا تناسب بہت زیادہ ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ مستحسن قدم نہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی نے لکھا ہے کہ ’’بعد میں کرشن چندر، قرۃ العین حیدر وغیرہ کے یہاں جو شعر زدگی اور غیر ضروری شاعرانہ زبان پائی جاتی ہے، وہ ہمیں کھٹکتی رہی کہ یہ افسانہ کا تاثر مجروح کر دیتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ افسانے کا بڑا حسن ہے کہ اسے شاعری کے بالکل مماثل قرار دیا جائے۔‘‘[95] میں اس بات سے متفق ہوں۔اور جہاں تک رہی حشو و زائد برائے بیت کی بات، تو کیا شاعری میں حشو و زوائد نہیں ہوتے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بعض اشعار زبان زد عام و خاص ہو کر ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور اسی غزل کے کئی مصرعے ہمارے شعور و لاشعور کا حصہ تک نہیں ہوتے۔ در اصل شمس الرحمن فاروقی کا یہ کہنا بے جا ہے کہ ’ افسانہ کی زبان میں وہ تناؤ نہیں ہوتا جو شاعری کا خاصہ ہے ‘۔ کیونکہ زبان میں تناؤ کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ خیال میں تناؤ ہو سکتا ہے۔ اس بات کا اظہار عابد سہیل نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے، جس سے اتفاق کرنا ازبس ضروری ہے۔عابد سہیل نے یہ بھی لکھا ہے :
’’زبان کا تناؤ بذات خود کچھ نہیں۔ یہ بھی فنکار کے ہاتھ میں ایسا ہی ایک اوزار ہے جیسا کہ زبان کا ڈھیلا ڈھالا استعمال۔ مثلاً کسی ناول یا افسانہ میں کسی کاہل کردار کی شخصیت کو پیش کرنے کے لیے اگر تناؤ سے بھرپور زبان استعمال کی جائے تو یہ ’’من چہ می سرایم و تنبورۂ من چہ می سراید‘‘کی مثال ہو گا۔ وزن اور شاعرانہ موزونیت کے جبر سے آزادی کے سبب نثر میں زبان کے تخلیقی استعمال کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، جب کہ شاعری میں آہنگ اور وزن ہی کو اکثر صورتوں میں زبان کا تخلیقی اور تناؤ سے بھرپور استعمال سمجھ لیا جاتا ہے۔‘‘[96]
در اصل زبان ایک شے ہے اور اس کا تخلیقی استعمال ایک الگ شے۔ افسانے میں اس کا استعمال بحث کا موضوع بن سکتا ہے۔ جس کے بارے میں کچھ باتیں ذیل میں کی جائیں گی۔
زبان کیا ہے ؟ ایک ذریعہ جس سے ہم اپنے ما فی الضمیر کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں یا پھر الفاظ کا مجموعہ۔ اس کا استعمال بولنے یا لکھنے والے کی بصیرت، علمیت اور صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ کیسی زبان استعمال کرتا ہے ؟ اور اسے زبان کے استعمال کے منظر وپس منظر کا علم ہے یا نہیں ؟اسی لیے صرف زبان کا جاننا ہی اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ہوتا بلکہ دوسرے تقاضوں مثلاً ضروریات کے مطابق لہجوں کی تبدیلی اور ضرورت کے مطابق مترادف لفظوں کا استعمال، زبان کے بہتر استعمال کی ضمانت ہوا کرتا ہے۔ اگر کوئی بھی فنکار /افسانہ نگار ان تمام با توں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی فن پارہ خلق کرتا ہے، اس کی زبان بہت سارے بے سوچے سمجھے لکھے گئے اشعار سے لاکھ درجہ بہتر اور تخلیقی ہو گی۔ زبان میں تبدیلی ایک مستقل عمل ہے جو جاری ہے۔اس لحاظ سے زبان روز اول سے ارتقا پذیر ہے۔ شاعری کی لفظیات ہوں یا پھر نثر کی، ہر نیا عہد اپنا اسلوب اور ڈکشن اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ بقول محمود ہاشمی ’’معاشرہ کی بدلتی ہوئی قدروں اور بدلتی ہوئی زبان کی تاریخ ایک ہی ہوتی ہے۔‘‘ [97]در اصل زبان کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارے میں ناقدین، ماہرلسانیات یا کوئی بھی یہ اعلان کر دے کہ اور بس آج تمہارے لیے زبان مکمل کر دی گئی۔اب یہی تمہارے اٹھنے بیٹھنے سے لے کر موت و حیات تک کی تمام ضروریات کو بیان کرنے کا ذریعہ ہو گی۔ خبر دار جو اس میں کچھ بھی اضافہ یا تخفیف ہوئی۔
یہیں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے فکشن کی نثر خلاقانہ نثر ہوتی ہے اور اس کا مجموعی تاثر وہی ہوتا ہے جو شاعری کا ہوتا ہے۔لیکن اسے نثر کی خصوصیات سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔ زبان کے برتاؤ کا مسئلہ اہم ہوتا ہے کہ کون سا فن کار زبان کے صحیح برتاؤ پر قادر ہو سکا ہے۔ زبان کے خلاقانہ استعمال سے ان سارے زوائد اور حشو کو افسانے سے Removeکر دیا جاتا ہے جو اس کی ضرورت نہیں ہوتے۔ اور اسی عمل سے استعارے خلق ہوتے ہیں۔ یہی طریقۂ کار شاعری کا بھی ہے۔ لیکن شاعری اوزان و بحور کی قید میں ہے جس کی وجہ سے وہ زبان کا استعمال اپنے ڈھب سے کرتی ہے اور افسانہ زبان کا استعمال اپنے امکانات کے مطابق کرتا ہے۔اس عمل میں کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ کی زبان شاعری سے قریب آ گئی ہے۔تو اس میں اتنا ہچکچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تخلیقی اصناف میں رویوں کے بدلنے کا جواز بہر حال ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ فن کار کی بصیرت جس طرح کام کرتی ہے تبدیلیاں اس طور فن کے حدود میں آتی ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی نے لکھا ہے :
’’میں سمجھتا ہوں کہ زبان کے تمام تخلیقی اظہارات میں چند قدریں تو مشترک ہیں۔لیکن اس کے باوجود چند باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اس صنف کا ناگزیر حصہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا اس اشتراک پر ہمیں نہ زیادہ گھبرانا چاہیئے اور نہ اسے اس صنف کی پہچان بنانا چاہیے۔۔۔۔شاعری کا Approach زیادہ Syntheticہوتا ہے، Analyticکم۔ لیکن افسانے میں Analytic Approach زیادہ ہونا چاہیے۔۔۔۔‘‘[98]
اور اسی سے جڑی بات وارث علوی بھی کہتے ہیں :
’’فنکارانہ تخیل میں یہ قوت ہوتی ہے کہ نثر کو بھی تخلیقی سطح پر پہنچا دے۔ یہ کام تخیل نثر کے حوالہ جاتی عناصر کو کم کر کے نہیں بلکہ ان کا استعمال دوسرے ڈھنگ سے کر کے کرتا ہے، کیونکہ نثری اصناف ڈراما، ناول اور افسانہ کا تقاضا ہے کہ ان میں زبان کا استعمال شاعری کی زبان کے استعمال سے مختلف ہو۔ اگر مختلف نہیں ہو گا تو یہ اصناف اپنا کام نہیں کر سکیں گی۔ مثلاً ڈرامے میں مکالمہ ہوتا ہے اور ناول اور افسانہ میں کردار نگاری، واقعہ نگاری، فرنیچر کا بیان، نفسیاتی تجزیہ وغیرہ وغیرہ۔ شاعری کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں، نثر کو ہے۔ ضرورت کے تحت جب زبان کا عمل بدل جائے تو اس کی پرکھ کا معیار یہ ہو گا کہ جس کام کے لیے زبان کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ کام زبان ٹھیک سے کر رہی ہے یا نہیں۔ لہٰذا شاعری کے معیار بے کار ہوں گے، کیونکہ افسانہ میں زبان شاعری کا کام کر ہی نہیں رہی۔‘‘ [99]
ویسے اگر دیکھیں تو افسانے میں زبان کی سطح پر کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ خصوصاً ً ترقی پسندوں، جدیدیوں اور مابعد جدیدیوں کے افسانے پڑھیے تو نمایاں اور واضح فرق نظر آئے گا۔ پریم چند سے انتظار حسین یا بلراج مینرا یا سریندر پرکاش وغیرہ کے یہاں تکنیک کی سطح پر جب تبدیلیاں ہوئیں تو زبان کی سطح بھی متاثر ہوئی اور زبان کی سطح پر کئی تجربے ہوئے۔ عبداللہ حسین کی ’’ندی‘‘ میں بھی زبان کا خوب تجربہ ہوا ہے جو کسی عمدہ نظم یا غزل کا اثر دینے میں کامیاب ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ابتدا میں ایک طرح کا صحافتی افسانہ بہت مروج ہو گیا تھا جس میں زبان کا تخلیقی استعمال بہت کم ہوتا تھا، اس کے مقابلے میں اگر جدیدیوں کے افسانے پڑھیں تو وہاں زبان کی سطح پر افسانے کا جو شعری کردار ہے وہ ہمیں بہت بھاتا ہے۔ تاہم یہاں یہ بات غور کرنے والی ہے کہ افسانہ ایک بیانیہ صنف سخن ہے، جو شاعری سے الگ اپنا ایک وجود رکھتا ہے اور وہ وجود بہر حال برقرار رہنا چاہیے۔ ایسی زبان ہرگز استعمال نہیں کی جانی چاہیے جو اسے انشائیہ، ادب لطیف یا نثری نظموں کے زمرے میں دھکیل دے۔
افسا نے کا کینوس اسی اختصار و ایجاز کا متقاضی ہے جو شاعری کا خاصہ ہے۔افسانہ نگار کو اس اختصار میں جامعیت پیدا کرنے کے لئے اشارے اور کنایے کی زبان استعمال کرنی پڑتی ہے۔زبان کا استعمال کرنا بہت آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے مشق کی ضرورت ہے۔ ایک پیراگراف میں مکمل طور پر واقعہ کی ایک مکمل تصویر کشی کرنی ہوتی ہے اور یہ بغیر تجربے کے نہیں آتی۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ یار لوگ ایک ایک دو دو جملوں پر مشتمل پیراگراف بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ربط وتسلسل مکمل طور پر زبان میں موجود رہے۔ایسی صورت میں نثری نظموں کا گمان گزرتا ہے۔ اس خدشے کے اظہار میں وہ بالکل صحت پر ہیں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اس صورت میں جب پیراگراف میں کئی جملے ہوں تو بیانیہ میں تجربوں کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے اور زبان کی سطح پر برتنے کے کئی امکانات موجود ہوتے ہیں۔
یوں تو یہ بہت بنیادی بات ہے جب افسانہ مخاطبہ، مکالمہ یا خود کلامی والا بیانیہ ہوتا ہے تو مصنف افسانے کے کردار کو خود پر طاری کر کے لکھتا ہے۔ کرداروں کے مکالمے لکھتے وقت افسانہ نگار کی زبان پر قدرت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ معاشرے میں مختلف قسم کے طبقات بستے ہیں، اس صورت اگر اس کا کردار بھلے، بیوروکریٹ، سرکاری افسر، فوجی، صوفی، بینکار، صنعت کار، ادب کا استاد، وکیل، جج، بھنگی، ماہی گیر فقیر ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ لکھتے وقت اپنی خاص ذہنی کیفیت میں اپنی زبان اور تصورات و نظریات دے دیتا ہے جس کی وجہ سے راوی اور کرداروں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ کسی ٹھیلے والے، سبزی فروش، موچی نائی جیسے کردار کو بھی بہت اعلیٰ اور مہذب زبان دیتا ہے، کیا یہ ضروری نہیں کہ ان کرداروں والی زبان لکھے ؟ کردار غیر فطری اسی لیے نظر آتے ہیں کہ زبان ان کی اپنی نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ کردار کو اپنی زبان بولنی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ دوسری صورت میں وہ غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ بطور راوی افسانہ لکھتے ہوئے کردار خود راوی ہوتا ہے۔اس لیے کہانی بڑھاتے وقت کرداروں کی زبان افسانہ نگار کی گرفت میں ہونی چاہیے۔ایسے کئی نمونے بڑے افسانہ نگاروں کے یہاں مل جائیں گے جن میں انھوں نے کردار کو اپنے اوپر طاری کیا تو بالکل اسی طرح ادا کیا۔مثلاً کرشن چندر نے اپنے افسانے ’’ جہلم میں ناؤ پر ‘‘ میں ایک وائٹ کالر کردار اپنایا ہے۔ منٹو نے ’’سڑک کے کنارے ‘‘ میں عورت کے کردار کو لکھا اور کمال لکھا۔ ’’ پڑھیے کلمہ ‘‘ میں انھوں نے ایک مالشیے کا کردار کیا اور وہی زبان بولی۔
در اصل افسانے میں کردار ہمیشہ کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں یا پھر واقعے کی رو میں ان کا ارتقا ہوتا ہے لیکن اس عمل میں مکالمے بہت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اس لیے کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے مکالمے مکمل طور پر مصنف کی گرفت میں ہونے چاہئیں۔اس صورت میں ایک بات یہ کہ اس میں وہ اپنے نظریات کو شامل نہ کریں، اور چونکہ ایسا امکان بہت کم ہوتا ہے اس لیے اگر کرتے بھی ہیں تو انتہائی غیر محسوس طریقے سے ہونا چاہیے۔ تاہم کردار کی زبان وہی ہونی چاہیے جو ممکنہ طور پر حقیقی ہو۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ افسانے کے کردار جب اپنی زبان میں مکالمے ادا کرتے ہیں تو وہ افسانہ زیادہ کامیاب اور جاندار ہوتا ہے۔برخلاف اس کے اگر افسانہ نگار کردار کے منہ میں اپنی زبان ڈال دیتا ہے تو افسانہ مصنوعی پن کا شکار ہو جاتا ہے۔
٭٭٭