شمس الرحمن فاروقی نے افسانہ کی ایک کمزوری یہ بتائی ہے کہ ’افسانہ وقت کا محکوم ہے ‘، ’Timeکے چوکھٹے میں قید ہے ‘۔اور اسی بنا پر اس میں کوئی زبردست تبدیلی نہیں ہو سکتی۔میرا سوال یہ ہے کہ کون سی ایسی چیز ہے جو وقت کے چوکھٹے میں قید نہیں ہے ؟کیا ڈراما اور ناول وقت کی حد بندیوں سے پرے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ ڈرامے میں ناول جتنا تو نہیں پھر بھی وقت کی دو دھاری تلوار تو اس پر لٹکتی ہی رہتی ہے۔ در اصل فاروقی نے نہ جانے کیوں افسانے کو ہی نشانۂ تیر و تفنگ بنایا اور اسے لہولہان کرنے کی ٹھانی؟ ایک بات تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جدید افسانہ نگاروں نے انھیں مایوس کیا۔ روایتوں سے انحراف کے چکر میں وہ ان سارے عناصر کو درکنار کرتے گئے جن سے تخلیق کار اور قاری کے مابین رشتہ استوار ہوتا ہے۔ نئے افسانہ نگار علامتوں کی بھول بھلیوں اور تجرید کی دنیا میں یوں کھوئے کہ فاروقی صاحب کو یہ کہنا پڑ گیا کہ ’نئے افسانے میں علامت کا پیچ ایسا پڑ گیا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان افسانہ نگاروں نے علامت کو جبراً یا فیشن کے طور پر اختیار کیا ہے۔ ان میں بے ساختگی کی کمی ہے ان کا افسانہ بہت جکڑا ہوا ہے، بہت مصنوعی اور اس کا انداز بیان بہت سطحی اور نقلی معلوم ہوتا ہے ‘۔ تصور زمان و مکان پر گفتگو کرنے سے قبل ایک بار پھر بتا دوں کہ شمس الرحمن فاروقی نے افسانے کو چھوٹا ثابت کرنے کے لیے جو دلیلیں دی ہیں، ان میں بیشتر سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ انھوں نے اکثر افسانے سے ایسے مطالبات کر ڈالے ہیں جس کی اسے ضرورت ہی نہیں۔ یا پھر انھوں نے افسانے کی خصوصیات کو اس کی کمزوریوں کے طور پر بیان کر دیا ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ فاروقی نے اکثر شاعری کی شعریات کے تناظر میں افسانے کے قواعد مقرر کرنے کی کوشش کی ہے۔ خیر اس لاحاصل بحث سے آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں افسانے میں وقت اور مکان کا کیا تصور ہے ؟ کیوں کہ شمس الرحمن فاروقی کا نام گرچہ اردو میں افسانے کے نظری مباحث کو اٹھانے والوں میں اولیت کا حامل ہے تاہم انھوں نے کئی مباحث کے حوالے سے بس چنگاری دکھانے کا کام کیا ہے۔ اسی مسئلے میں انھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ آخر وقت کے تصور کا کیا مطلب ہے ؟اور ادب کی دوسری اصناف میں اس کی کیا صورتیں ہیں ؟
علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ’مسجد قرطبہ‘ میں لکھا ہے ؎
سلسلہ روز و شب، نقش گر حادثات
سلسلۂ روز و شب، اصل حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
علامہ اقبال کے اس شعر کو فلسفیوں اور دانشور نقادوں نے ’تصور وقت‘ کی تفہیم کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں ادب /افسانے میں وقت کے تصور پر بات کروں، مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے یہی سمجھ لیا جائے کہ وقت کا عمومی تصور کیا ہے ؟
وقت کیا ہے ؟یہ سمجھنے کی کوشش دنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں، دانشوروں نے کی لیکن تاریخ شاہد ہے کہ سب کا ایک بات پر اجماع نہ ہو سکا۔ وقت آج کی سائنس کیلئے ایک اہم اور پر جوش موضوع ہے جس پر بہت سے جدید نظریات کا دارو مدار ہے۔سرآئزک نیوٹن کہتے ہیں ’’وقت ایک سمندر ہے جس میں زندگی کا جہاز تیر رہا ہے،،۔جبکہ جدید سائنسی فکر وقت کے بارے میں کسی اور سمت جا رہی ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی سان ڈیاگو میں فلسفہ کے پروفیسر کیلینڈر لکھتے ہیں کہ ’ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت بہہ رہا ہے، یعنی حال اپنے آپ کو مستقل تازہ دم کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ آپ ماضی کو جتنا بھی یاد کریں یا مستقبل کا اندازہ لگائیں، آپ رہتے بہر حال ’’حال‘‘ ہی میں ہیں۔‘ ایک رائے ان لوگوں کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وقت ہے، لیکن بنیادی شے نہیں ہے، بلکہ ایک جامد کائنات کسی طرح وقت کے اس تاثر کو پیدا کرتی ہے جیسا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ جو کچھ ہم وقت کی صورت میں محسوس کرتے ہیں وہ کائنات کے اجزاء کے درمیان رشتہ ہے۔خیر! فلسفی اس موضوع پر سقراط سے بھی پہلے کے زمانے سے بحث کرتے چلے آئے ہیں اور اس بحث کے ختم ہونے کے آثار اب بھی نظر نہیں آتے۔مسئلہ بس اتنا سا ہے کہ سورج چاند کرۂ ارض کا چکر لگا رہے ہیں، ماہ و سال گزر رہے ہیں اور ہم بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی تبدیلیوں سے دو چار ہو رہے ہیں۔ اب یا تو یہ ’نظام الواقعات‘ ہے یا پھر ’نظام الاوقات‘۔ لیکن ہم ادب کے طالب علموں کو ان سب مسئلوں سے کیا سروکار؟جب تک کچھ حتمی طور پر ثابت نہیں ہو جاتا یا کوئی وحدانی نظریہ وقت کا تصور سامنے نہیں آتا ہم اپنی حالتوں کی تبدیلی وقت کے سر ڈالنے سے کیوں چوکیں ؟!
مشہور جرمن فلسفی ایمانویل کانٹ(Immanuel Kant)نے وقت کو ایک ناگزیر زمرہ (Category)قرار دیا ہے۔ اب اگر ہم اس زمرے میں قید ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنے میں شرم کیوں آ رہی ہے ؟ ہماری سانسیں اور احساسات و خیالات کسی نہ کسی لمحے یا وقت کے کسی دورانیہ میں ہی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ وقت کی غیر موجودگی کی دوہائیاں اسی وقت دی جا سکتی ہیں جب انسان کے وجود یا کائنات کے وجود کا انکار کر دیا جائے اور کوئی بھی ذی شعور انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہو تو ہمیں اس لمحہ کا بھی انکار کرنا ہو گا جس وقت ارتکاب انکار کا عمل ہو رہا ہے۔
اگر معاملہ یہ ہے تو پھر تصور وقت سے منہ پھیرنے یا اسے کسی صنف کے لیے کمزوری ثابت کرنے کا کیا معنی ہے ؟ وقت تو ایک ایسی ناقابل انکار حقیقت ہے جس سے کوئی بھی سانس لینے والا انسان انکار نہیں کر سکتا۔ عابد سہیل نے کیا سچی بات کہی ہے :
’’وقت کی گرفت کائنات پر اس قدر محیط ہے کہ روح کے مسائل سے بحث کے دوران فلسفہ کے مختلف دبستان اور تصورات بھی اس سے نجات نہیں حاصل کر پاتے۔ تناسخ (Transmigration of Soul) کے موئد جب وقت کے عنصر سے دوچار ہوتے ہیں تو عالم ارواح کے عوامل سے وقت کے عنصر کو خارج کرنے کی ناکام کوشش کے علاوہ ان کے پاس چارا نہیں رہ جاتا۔‘‘[67]
وقت کی گرفت سے کچھ بھی آزاد نہیں۔ شاعری ہو، افسانہ ہو، سائنسی علوم ہوں یا سماجی علوم، سبھی وقت کی دسترس میں ہیں۔ ادبی تخلیقات کا کوئی بھی زمرہ ہو وقت کے بے رحم دائرے سے خارج نہیں۔کیونکہ بقول عابد سہیل ’’ادب عالم ارواح کی پیداوار یا تخلیق نہیں۔ اسے اسی دنیا میں جنم بھی لینا ہے اور اپنا جواز بھی فراہم کرنا ہے۔ چنانچہ ادب میں وقت سے انکار اس لمحۂ موجود سے انکار کے مترادف ہے جس میں یہ انکار کیا جا رہا ہے ‘‘[68]ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ اسے صریحی (Explicit) طور پر نہیں تو مضمر (Implicit) طور پر قبول کیا جائے۔ اکثر بیانیہ میں وقت کا صریحی تصور موجود ہوتا ہے جبکہ شاعری میں مضمر طور پر وقت موجود ہوتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ شاعری وقت کے ’قہر‘ (اگر وقت کی موجودگی قہر /جبر ہے تو!)سے یکسر آزاد ہوتی ہے۔ عابد سہیل نے لکھا ہے :
’’خود شاعری میں بھی طویل اور مختصر بحروں کے ذریعہ وقت کو گرفت میں لانے یا اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن موزونیت کی قید اور بیانیہ کی پوری قوت کی حمایت حاصل نہ ہونے کے سبب اس سلسلے میں اسے اتنی کامیابی مل نہیں پاتی جتنی افسانوی ادب کے لیے ممکن ہوتی ہے۔ ایسی شعری اصناف بھی، مثلاً مثنوی، مرثیہ اور قصیدہ وغیرہ، جن میں بیانیہ سے مقابلتاً زیادہ کام لیا جاتا ہے، بس ایک حد تک بیانیہ کی قوت سے کام لے پاتی ہیں کیوں کہ شعری معذوریوں کے سبب اکثر صورتوں میں ’بیانیہ‘ کے بجائے بیان پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے ‘‘۔ [69]
اس بحث سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ افسانے کو محض وقت کے چوکھٹے میں قید ہونے کی وجہ سے چھوٹی صنف سخن قرار دینے کا فاروقی کا نظریہ مبنی بر صحت نہیں ہے۔
’بیانیہ‘ وقت کے ساتھ بندھا ہوتا ہے، یہ سچ ہے۔ کیونکہ افسانہ/بیانیہ واقعہ کے ساتھ مربوط ہے۔ واقعہ میں واقع ہونے کا عمل انجام پاتا ہے اور وہ کسی نہ کسی وقت، کسی نہ کسی جگہ اور کسی نہ کسی فرد پر واقع ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے، اس لیے یہ افسانے کی کمی یا کمزوری نہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ یہ افسانے کی قوت ہے۔ اس سے متن کو اعتبار و استناد حاصل ہوتا ہے اور اسی کے ذریعہ واقعات اور کرداروں کے عوامل اور رد عمل کو معنویت حاصل ہوتی ہے اور حد امکانات کا تعین بھی ممکن ہو پاتا ہے۔ افسانہ اس معاملے میں زیادہ قوی ہے کہ خود سے ضرورت کے مطابق وقت کی گرفت کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہوتا ہے۔
افسانے میں وقت کو کئی طرح سے پیش کیا جاتا ہے یا متن افسانہ میں وقت کئی طرح سے موجود ہوتا ہے۔ وقت کی عام تفہیم تو یہ ہے کہ وقت حال سے لے کر ماضی اور مستقبل میں ہر لمحے جاری و ساری رہتا ہے۔ معروف معنوں میں یہ وقت کا تصور ہے۔ آپ اس وقت یہ جملہ پڑھ رہے ہیں، یعنی آپ اس لمحے کے طرف بھی جا رہے ہیں جب یہ لکھا گیا ہو گا اور پھر آپ کے سوچنے سمجھنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گا جو مستقبل میں جاری رہے گا۔ وقت کے اسی نقطے سے دوسرے نقطے تک کے دورانیہ میں جو واقع ہوتا ہے اسے واقعہ کا نام دیا جاتا ہے۔ محمد حمید شاہد نے لکھا ہے :
’’بسا اوقات وقت کی پہچان بھی واقعہ سے ہوتی ہے یعنی وہ دورانیہ جس میں کچھ وقوع پذیر ہو چکا ہو، ہو رہا ہو، یا پھر ہو سکتا ہو۔ وقت کے اسی محدود تصور کو اپنا کر تاریخ لکھی جا سکتی ہے، اخبار کے لیے خبر تراشی جا سکتی ہے، یادداشتوں کی کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔‘‘[70]
حالانکہ اصل میں جب ہم وقت میں آگے یا پیچھے کی طرف سفر کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف ہمارا دن رات والا وقت نہیں ہوتا جو زمین کے اپنے محور کے گرد چکر لگانے سے وقوع پذیر ہوتا ہے بلکہ کائنات کا وہ وقت مراد ہوتا ہے جو سکڑتا بھی ہے اور پھیلتا بھی ہے۔
لیکن وقت کا عام تصور افسانے یا فکشن میں کام نہیں کرتا۔ بلکہ وہاں تو وقت ہواؤں کی طرح یا سمندر کی لہروں کی طرح رُخ اور راستے بدلتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی تو وقت طوفان آنے سے قبل کی خاموشی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ بالکل منجمد اور پتھر کی طرح ثبت۔نہ تو واقعے میں پیش رفت ہے اور نہ وقت ہی آگے بڑھتا ہے۔در اصل ادبی وقت یک جہتی اور کثیر جہتی، متحرک اور جامد ہو سکتا ہے۔ اسے ایک متن میں سمیٹا اور پھیلایا جا سکتا ہے۔ادبی وقت حقیقی وقت سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ ادبی وقت ادبی رجحان، ہیئت، مصنف کے منفرد انداز، متن کی قسم کے مطابق ایک مخصوص انداز میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ مختلف اقسام کے ادبی متون میں دنیاوی ساخت، ادبی وقت اور پلاٹ کی ترقی کے درمیان ایک مضبوط ربط ہوتا ہے۔ البرٹ آئنسٹائن نے بہت پہلے یہ بات کہی تھی کہ وقت ایک بہتے ہوئے دریا کی طرح ہے۔ ہم اس کے دھارے میں بہتے جاتے ہیں۔ یہ مختلف مقامات پر مختلف رفتار سے گزرتا ہے۔ اس نے یہ محسوس کیا تھا کہ کچھ جگہیں ایسی ہونی چاہئیں جہاں وقت کی رفتار آہستہ ہو جائے اور کچھ جگہیں ایسی ہوں جہاں وقت تیز رفتار چلے۔اور وقت کی یہ صورت ہم خارجی دنیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں اور افسانوں میں بھی۔ وقت کی یہ صورتیں افسانے میں اس وقت دیکھی جا سکتی ہیں جب خیال کا بہاؤ یا پھر احساس کی شدت اور جذبات میں مد جور ہو۔واقعات ہوتے ہیں مگر وقت ٹھہر جاتا ہے۔ اسی طرح منظر نگاری یا فروعات نگاری کے عمل میں بھی وقت کو گرفت میں لے لیا جاتا ہے۔کبھی کبھار اس کے برعکس ہوتا ہے کہ وقت تو جاری رہتا ہے مگر واقعات کسی نقطے پر ٹھہرے ہوئے ہوتے ہیں۔در اصل بیانیہ بہت طاقتور ہوتا ہے۔ اس کے اندر یہ طاقت موجود ہے کہ وہ ایک لمحے کو لمحۂ جاوداں میں تبدیل کر دے اور اسے اس بات پر بھی قدرت ہے کہ وہ بڑے بڑے وقفے کو چند پیراگرافوں میں سمیٹ لے۔بہت سے افسانوں میں ایسا ہوتا ہے کہ کئی ہفتوں یا مہینوں یا چند گھنٹوں کے واقعات کو نمایاں کر کے درمیان کے سارے پڑاؤ ایسی ہوشیاری سے اوجھل کر دیے جاتے ہیں کہ قاری کو احساس تک نہیں ہوتا۔بیانیہ اس لحاظ سے بھی قوی ہوتا ہے کہ وہ ماضی اور مستقبل کو حال میں تبدیل کر سکتا ہے اور اسی لیے وہ وقت کے جبر سے جہاں ضرورت ہو آزاد ہو لیتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی کہتے ہیں :
’’افسانے یا شارٹ اسٹوری میں وقت کا تصور تاریخ کے پروگریسیو تصور کے قریب ہے۔ آگے بڑھتا ہوا رواں دواں وقت کا سلسلہ۔حصوں بخروں میں تقسیم اور ساعتوں ثانیوں میں بکھری ہوئی واقعات کی زنجیر جو فرض کر لی جاتی ہے کہ ایک دن اختتام کو پہنچ جائے گی۔۔۔۔ افسانے میں مختصر کہانیاں خلا سے نہیں آتیں۔ ان کا جنم ہماری اسی دنیا میں ہوتا ہے اور ان کا تعلق اسی دنیا کے سماجی در و بفت کے درمیان نکھر کر سامنے آتا ہے۔ یہ تاریخ کے سیاق و سباق میں رہ کر لکھی جاتی ہیں۔ جان ایلس کہتا ہے :’کسی متن کو تاریخ کے سیاق و سباق سے کاٹ دینے کا مطلب ادب کو زندگی سے منقطع کر دینا ہے ‘، یہ بات کسی حد تک درست ہے۔ لیکن فکشن کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ واقع کی وقوع پذیری کو as such بیان نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہو تو فکشن ادب کی حدود سے خارج ہو جاتا ہے۔۔۔۔کہانی زمان اور مکان کے اندر جنم لینے کے باوجود مکمل طور پر Fabricated ہوتی ہے۔ ‘‘ [71]
ارسطو نے جب رزمیہ کے ضمن میں پلاٹ کے تصور پر بات کی تو صرف آغاز و وسط اور اختتام کی ہی بات نہیں کی تھی بلکہ یہ بھی کہا کہ اس میں وقت اور مکان کی وحدت بھی ہونی چاہئے۔ پلاٹ کے ضمن میں بیان کی گئی اس توضیح کو ہم نے افسانوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے یعنی افسانے میں بھی وحدت زمان و مکان ہونا چاہیے۔
ویسے عام طور پرافسانوں میں ایک زمانی ترتیب ہوتی ہے۔اس کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں جیسے Frozen Time Technique، Temporal Time، Actual Time یا پھر Spiritual Time۔شمس الرحمن فاروقی نے خود یہی لکھا ہے :
’’جدید افسانہ پلاٹ اور Time Sequence سے انکار کرتا ہے، لیکن یہ انکار بھی اپنی منطقی حد تک نہیں لے جا یا جا سکتا، کیوں کہ Time کے بغیر افسانہ وجود میں نہیں آ سکتا، چاہے وہ Temporal Timeہو یا Actual Timeہو یا Spiritual Time یا ان سب کا امتزاج، جیسا کہ خواب میں ہوتا ہے۔ افسانہ بیانیہ کا محتاج ہوتا ہے جو وقت سے بندھا ہوتا ہے۔‘‘[72]
خیر ہمیں اس سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے کہ افسانہ وقت سے بندھا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے۔ اردو افسانے کی پوری روایت جدید تجربوں اور رویوں کے نئے نئے در وا کرتی رہی ہے۔ کون سا آذوقۂ حیات ہے جو افسانے نے چکھا نہیں۔ اس لیے وقت کا وجود افسانے کی قوت ہے اور اچھے افسانہ نگاروں کو وقت کے دائرے میں رہ کر بھی وقت سے نمٹنے کا فن بخوبی آتا ہے۔
اتحاد زمان و مکان در اصل افسانے کی بنیادی خصوصیت ہے۔ ارسطو نے پلاٹ کے لیے وحدت زمان و مکان کے لزوم کی بات کی تھی تاہم اگر ہم افسانے میں پلاٹ کے وجود کا انکار بھی کرنے کی ٹھان لیں تو بھی افسانے سے زمان و مکان کے تصور سے انکار مشکل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسانی تجربے کی ابتدا وقت اور جگہ کے بغیر وجود پذیر نہیں ہو سکتی۔مشہور یونانی فلسفی آرکیٹاس(Archyats)کہتا ہے کہ ”All existing things are either in place or not without place” کہ ہر چیز یا تو کسی جگہ میں ہو گی یا بغیر مقام کے نہیں ہو گی۔آرکیٹاس، افلاطون(Plato)کا دوست تھا۔اس نے مزید کہا کہ ’’Place is the first of all beings, since everything that exists is in a place and cannot exist without a place.‘‘ مقام ہی آغاز ہے، کیونکہ کوئی بھی چیز جس کا وجود ہے وہ کسی جگہ میں ہے اور وہ بغیر مقام یا جگہ کے اپنا وجود برقرار نہیں رکھتی۔شاید اسی وجہ سے ارسطو نے بھی کہا تھا کہ”The power of place will be remarkable.”مقام کی قوت غیر معمولی ہے۔ علم انسان شناسی(anthropology)کے آسٹریلیائی ماہر ای ایچ اسٹینر( E. H. Stanner)نے کہا کہ ’’Nothing could extinguish the fact and claim of estate.‘‘کوئی بھی چیز اسٹیٹ(مقام/مکان)کی سچائی کو جھٹلا نہیں سکتی۔[73]یہ تمام باتیں برسوں سے فلسفہ، علوم انسانیات کے ماہرین اور دنیا میں وجود پانے والے غور و فکر کرنے والوں نے واضح کر دی ہیں کہ وقت اور مقام کی حقیقت سے انکار کرنا بہت مشکل ہے۔ اور اگر ادب میں وقت یا مکان کی موجودگی بھی ملتی ہے تو اس پر اتنا واویلا کیوں ؟آخر اس وجہ سے اس کی وقعت پر سوال اٹھانے کا کیا تُک بنتا ہے ؟
در اصل وحدت زمان کا واضح سا مفہوم بس اتنا سا ہے کہ افسانے کے واقعات اور وقت میں مطابقت ہو۔ کیونکہ واقعات اور وقت میں عدم مطابقت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ افسانہ تضاد کا شکار ہو جائے گا۔اسی طرح وحدت مکان کا بھی معاملہ ہے۔کوئی بھی ادب ہو کسی نہ کسی فضا یا ماحول و مقام میں پرورش پائے گا۔
افسانہ عموماً دو قسم کے ماحول میں پرورش پاتا ہے۔ ایک وہ جسے آپ نے دیکھا ہو یا جو کبھی آپ کے مشاہدے کا حصہ رہا ہو۔ دوسرا تصوراتی ماحول ہے، جس کے بارے میں آپ اپنے خیالوں میں طرح طرح کی تصویریں اور عکس بناتے رہتے ہیں۔پہلی قسم میں ظاہر ہے کہ افسانہ نگار افسانے کی کہانی کے مطابق کوئی ایسا مقام یا ایسی لوکیشن منتخب کرتا ہے جو آپ نے دیکھ رکھی ہو، سو اس ماحول سے قاری کو متعارف بھی کرائے گا اور ہو سکتا ہے کہانی کی فضا کے مطابق وہاں کے ماحول کا کچھ نقشہ بھی کھینچ دے، جس کا تعلق روزمرہ کے مشاہدے میں عام ہو۔ دوسری قسم میں ضروری نہیں کہ آپ اپنی دیکھی ہوئی لوکیشن کا ہی نقشہ پیش کریں، آپ جس جگہ کی کہانی بیان کر رہے ہیں وہ جگہ یا مقام تصوراتی بھی ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ بیانیہ سے جڑا ہوا ہے کہ بیانیہ کہانی بیان کرنے سے عبارت ہے جس میں واقعہ کا ہونا ضروری ہے اور ہم سبھی جانتے ہیں کہ واقعہ کسی وقت، کسی مقام اور کسی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ وابستہ ہونے سے کہانی میں کردار کا وجود لازم آتا ہے۔ آئیے اب کردار پر بات کرتے ہیں۔
٭٭٭