پہلی بحث میں یہ کہا جا چکا ہے ہر بیانیہ متن میں کچھ’ کہا‘ اور ’دکھایا‘ جاتا ہے۔اور اگر کچھ کہا جا رہا ہے یا دکھایا جا رہا ہے تو کہنے اور دکھانے والے کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ یعنی اگر بیان اور بیانیہ موجود ہے تو یہ فطری بات ہے کہ بیان کنندہ بھی موجود ہو گا۔ بیان کنندہ کو دوسرے لفظوں میں ’راوی‘ کہہ سکتے ہیں جس کے ذریعہ کہانی آگے بڑھتی ہے یا جو کہانی کو بیان کرتا ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے Narrator کا لفظ مستعمل ہے۔یہ وہ شخص ہوتا ہے جو متن میں واقعہ بیان کرتا ہے۔اس کا تعلق بیان کے طریقے سے رہتا ہے۔ بیانیہ متن میں جو شخص کچھ ’دکھاتا‘ ہے اسے Focalizer کا نام دیا جاتا ہے۔ Focalizerبقول ناصر عباس نیر ’’ ایک ایسا ’ایجنٹ‘ یا ’کردار‘ ہے جو بیانیے کے مفہوم و مقصد اور جہت کا تعین کرتا ہے۔ ہر بیانیہ متن کسی نہ کسی علم، آئیڈیالوجی یا ثقافتی پس منظر کے حصار میں ہوتا ہے۔ وہ کسی نفسیاتی نکتے، انسانی فطرت کی کسی کمزوری، کسی سیاسی نظریے، کسی ثقافتی رسم یا کسی تہذیبی صورت حال پر بطور خاص ’اصرار‘ کرتا ہے۔ بس یہی بیانیے کی Focalization ہے ‘‘۔[43]
راوی یا Focalizerافسانے کا ایک اہم عنصر ہیں کیونکہ یہی بیانیہ کے واقعات، ان کے تسلسل و عدم تسلسل، ان سے وابستہ زمان و مکان اور بیانیے کے مفہوم و مقصد کا تعین کرتے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جو بیانیہ کے قاری اور سامع کے ساتھ ترسیلی ربط (Communication Connection) قائم کرتے ہیں۔بلکہ یہی طے کرتے ہیں کہ قاری کو کس چیز سے آگاہ کیا جائے اور اسے کس بات کی معلومات نہ دی جائیں یا یہ سب کچھ بیان کرنے کے لیے کون سا طریقۂ بیان منتخب کیا جائے۔ یعنی کہانی حاضر راوی، غائب راوی یا ہمہ بیں ناظر یا کس ذریعہ سے قاری تک پہونچائی جائے۔ بیانیہ کی نوعیت میں واقعات کی نوعیت کے سبب تبدیلیاں آتی ہیں ٹھیک اسی طرح بیانیہ کی نوعیت کے اعتبار سے بیان کرنے والے (راوی)کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ راوی(Narrator)اور مصنف/افسانہ نگار (Short Story Writer/Author)دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ کہانی کہنے کے لیے ہم ایک راوی کے محتاج ہیں۔ راوی در اصل کہانی اور قاری کے مابین رابطے کا ایک پل ہوتا ہے۔ ہر متن یہاں تک کہ اخباری رپورٹس یا صحافیانہ مضامین کا بھی ایک راوی ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی کسی ایک نقطۂ نظر(Point of View)سے بیان کیے جاتے ہیں۔جس کا ایک محور ہوتا ہے، ایک زاویہ اور ایک مخصوص سُر ہوتا ہے۔ راوی ہمیں ہماری تاریخ مرتب کرنے میں بہت مدد کرتا ہے۔ اسی کے تعاون سے ہم کرداروں، مقامات، حالات، جذبات، تبصرے، مکالمے، نقطۂ نظر اور معلومات کی وضاحت اور بیان پر قادر ہوتے ہیں۔
راوی کی اہمیت کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے کہ راوی کہیں نہ کہیں افسانے کا ایک کردار ہوتا ہے اور چونکہ وہ راوی ہے اس لیے بیانیہ میں اس کا نقطۂ نظر ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ واحد متکلم راوی اور دوسرے تمام راویوں کے ساتھ یکساں طور پر لازم آتا ہے۔ کیونکہ ہر نوع کے راوی اور ہر نوع کے بیانیہ میں ایک قسم کا جدلیاتی رشتہ پایا جاتا ہے اور اسی لیے راوی کے نقطۂ نظر پر بیانیہ کا اثر اور بیانیہ کی تشکیل میں راوی کا نقطۂ نظر شامل ہوتا ہے۔ جیسے راوی کی عمر، جنس، تعلیم، معاشرتی اقدار اور اخلاق و عادات جن سے راوی کے نقطۂ نظر کی تشکیل ہوتی ہے، اس کا مدار بیانیہ ہوتا ہے اور بیانیہ کے امتیازات کا تعین بھی اسی سے ہوتا ہے۔ ساتھ ہی قاری بھی اسی بیانیہ کے ذریعہ ہی راوی کے نقطۂ نظر تک رسائی حاصل کرتا ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ زبان افسانے میں ایک اہم جز کے طور پر کام کرتی ہے اور زبان کے استعمال کا معیارو ساخت راوی کا وجود بھی طے کرتا ہے۔ اس کی ایک بہت ہی واضح مثال ہے کہ اگر افسانہ نگار مرد ہے لیکن اس کے افسانے میں جس کی زبان سے قصہ بیان کیا جا رہا ہے وہ عورت ہے تو افسانے کی زبان پر راوی کی شخصیت کی چھاپ ہونی چاہیے۔ یعنی اس کے ذریعہ بیان کیے جانے والے واقعات صیغہ مونث میں ادا کیے جائیں گے۔ اسی طرح اس کے برعکس بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
افسانے میں عموماً راوی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ حاضر راوی اور غائب راوی۔حاضر راوی وہ ہے جو ’میں ‘ (واحد متکلم)یا ’ہم‘(جمع متکلم) کے ذریعہ افسانے میں ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے۔ دوسرا راوی غائب ہوتا ہے۔ یعنی افسانے کی قرأت کے وقت ہمارے سامنے قصوں کا بیان تو ہوتا ہے لیکن ہم یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کہ انھیں بیان کون کر رہا ہے۔ اس لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کوئی شخص ہو گا جو ان تمام واقعات سے واقف ہے اور انھیں بیان کر رہا ہے۔ ایسے میں یہ احساس بھی شدید طور پر ہوتا ہے کہ وہ غائب راوی بذات خود افسانہ نگار ہے۔فکشن میں راوی کی تقسیم ایک اور نوعیت سے ممکن ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ راوی ڈرامائی ہو گا یعنی یہ ایسا راوی ہو گا جس کے بارے میں مصنف ’میں ‘ یا ’ہم‘ کے ذریعہ افسانے میں مکالمہ قائم کرے گا۔اس کے بھی کچھ احوال کا پتہ افسانے سے ملتا ہے۔ اسے ایک مثال کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ’ہم اس وقت آفس کی چوتھی منزل پر بیٹھے تھے۔ دروازے کی گھنٹی بجی اور حسنیٰ کمرے میں داخل ہوئی‘ یہاں جو ہم ہے وہ راوی ہے اور ایک کردار بھی۔ کبھی کبھار یہ راوی دوسرے کرداروں کی طرح واضح اور روشن بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ تخلیق کار کا کام ہے کہ وہ اپنے راوی کو کس نوعیت کا بنانا چاہتا ہے۔ تاہم یہاں یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ اکثر ڈرامائے گئے راوی واضح طور پر راوی کہے ہی نہیں جاتے۔جاننے والی بات یہ بھی ہے کہ ڈرامائے گئے راویوں میں بعض کی حیثیت صرف مشاہد کی ہوتی ہے اور بعض کی حیثیت راوی عامل (Narrator Agent) کی ہوتی ہے جو واقعات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسری صورت غیر ڈرامائی راوی کی ہو سکتی ہے اور یہ راوی ’وہ‘ بھی ہو سکتا ہے اور ’میں ‘ بھی ہو سکتا ہے۔جدید فکشن میں سب سے اہم واحد غائب راوی ہے۔ یہ وہ سہارا ہے جس کے ذریعہ مصنفین اپنے بیانیے مرتب کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ آئینہ دار یا Reflectorکا کام کرتے ہیں جبکہ کبھی کبھار وہ کثیف اور مبہم قسم کے راوی ہوتے ہیں۔
راوی کے اقسام یا نوعیت کی بات اگر ہم آسان طریقے سے سمجھیں تو انھیں ان نکات کی سطح پر دیکھنا ضروری ہے :
۔واحد متکلم راوی(First Person Narrator):واحد متکلم راوی اپنے لیے ’میں ‘(I)کا لفظ استعمال میں لاتا ہے۔ کبھی کبھی ’ہم‘(We) بھی ہوتا ہے جو جمع متکلم راوی کے درجے میں ہے۔یہ حاضر راوی ہے۔ یہ عموماً کہانی کا کردار ہوتا ہے جو دوسرے کرداروں سے ہم کلام ہوتا ہے اور ہم اس راوی کی آنکھ سے کہانی کی دنیا کی سیر کرتے ہیں۔ ہم وہی باتیں جاننے کے مجاز ہیں جو باتیں راوی کے علم میں ہیں۔
۔واحد مذکر/مؤنث حاضر راوی(Second Person Narrator): یہ راوی اپنے لیے ’تم‘(You) لفظ کا استعمال کرتا ہے۔ اس راوی کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہ کہانی میں قاری کو اپنے ساتھ شریک سفر کر لیتا ہے اور قاری بھی اس کے احکامات سننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار پاتا ہے۔حالانکہ یہ راوی ادب میں بہت کم ہوتا ہے پھر بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔
۔غائب راوی( Third Person Narrator): غائب راوی، متکلم اور حاضر راوی کی طرح کہانی کا کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ یہ کہانی میں اپنی حیثیت یا شخصیت کی پہچان کو واضح نہیں کرتا۔ غائب راوی ’وہ‘(مذکر و مؤنث)کی صورت کہانی کو بیان کرتا ہے۔ یہ جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے اس کا باہر سے مشاہدہ کرنے والا ہوتا ہے۔بسا اوقات غائب راوی Omniscient (سب چیزوں کا عالم/ہمہ بیں ) بھی ہوتا ہے۔ یہ راوی کہانی بیان کرتے یا تحریر کرتے وقت تمام تر اعمال و خیالات سے آگاہ ہوتا ہے۔ یعنی اسے کرداروں کی سوچ اور فکر تک کا علم ہوتا ہے۔ لیکن جب اس پر دوبارہ غور کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ کچھ چھپا رہا ہے۔ یہ راوی واحد متکلم کا نقطۂ نظر چھپا رہا ہوتا ہے کیونکہ اسے صرف ایک کردار کے نقطۂ نظر کا علم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ غائب راوی کا ’محدود بیان‘(Limited Narration)ہوتا ہے۔کبھی کبھی غائب راوی Limited یا Focalized Narrator (محدود راوی) کے طور پر ہوتا ہے جسے پوری کہانی کا علم نہیں ہوتا بلکہ وہ کچھ با توں سے آگاہ ہوتا ہے۔ یعنی وہ کسی خاص کردار کے انداز نظر کو بیان کرنے پر تو قدرت رکھتا ہے لیکن وہ تمام کرداروں کے اذہان تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔غائب راوی کی سطح پر ہی ایک قسم کا راوی Objective یا Observer Narrator (معروضی/مشاہد راوی) بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک اہم راوی ہوتا ہے جو کرداروں کے احساسات و افعال، تاثرات و اثرات، ان کی نشست و برخاست کی تمام تفاصیل بیان کرتا ہے۔
یہاں یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ راوی اور مصنف دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔اور جب اس بات کا علم ہو گیا تو چند اور باتیں راوی کے بارے میں جاننا ضروری ہیں۔ایسا اس وجہ سے ہے کہ جب ہم راوی کے بارے میں جانیں گے تو یہ فیصلہ بہتر ڈھنگ سے کر سکیں گے کہ راوی ہم سے کہہ کیا رہا ہے اور جب راوی خود کہانی کا ایک کردار ہو(جس کا تذکرہ اوپر ہوا ہے )تو اس بارے میں چند معلومات حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ ہم کہانی میں اس کردار کو پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان راویوں کے بارے میں بھی معلومات رکھنی ہے جن کا ذکر کہانی میں نہیں یا جو کہانی کے کردار نہیں ہیں، یعنی تھرڈ پرسن نیریٹر۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ راوی کی تخلیق خالق متن کرتا ہے اور خالق متن انسان ہے اس لیے اس پر اس کے نفسیات یا خیالات کی اثر پذیری سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ زیادہ تر کہانیاں سنانے والے کے ذہن و شعور سے ہو کر گزر چکی ہوتی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ مصنف راوی کی تخلیق بہت آزاد ڈھنگ سے کرے مگر اس احتمال سے قطعی طور پر منکر نہیں ہوا جا سکتا کہ بعض دفعہ وہ تخلیق کار کی خواہشوں کے مطابق افسانے کے رنگ و روپ متعین کرے۔ یہیں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ متن افسانہ میں ’راوی ‘ اور ’مصنف‘(تخلیق کار)کیا ایک ہی فرد ہوتے ہیں ؟ راوی اپنے اعتقادات و خیالات میں اپنے آپ ہی تکمیل کی سرحدوں سے ملا ہوا ہے یا اس میں مصنف بھی شریک ہے ؟کیونکہ جن افسانوں یا ناولوں میں راوی ڈرامایا نہیں گیا اس میں ایک مضمر مصنف/ مصنف بالکنایہ(Implied Author) کی تصویر ابھرتی ہے اور راوی مصنف کی ذات ثانی یعنی (Second Self) ہوتا ہے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ راوی صرف واقعات بیان کرنے، سنانے اور دکھانے کا عمل ہی انجام نہیں دیتا بلکہ وہ سنانے اور دکھانے کے ساتھ بڑی حد تک ان واقعات پر تبصرہ کرنے کا بھی حق رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے پروفیسر قاضی افضال نے لکھا ہے :
’’نمائندگی کی زبان میں مصنف (صحافی/مورخ /سوانح نگار) اور’ راوی‘ ایک ہی شخص ہوتا ہے۔ جب کہ واقعہ کی تشکیلی زبان میں مصنف (فکشن نگار)اور ’راوی‘ ایک ہی شخص نہیں ہوتا۔ افسانہ نگار واقعہ تعمیر کرتے ہوئے، واقعہ بیان کرنے والا ایک ’راوی‘ بھی تشکیل دیتا ہے، جو مصنف سے الگ اپنی شناخت رکھتا ہے اور بیانیہ کے اوصاف و امتیازات اسی ’راوی‘ کے نقطۂ نظر اور اس کی ترجیحات سے براہ راست مربوط ہوتے ہیں۔‘‘[44]
ایک دوسری جگہ قاضی افضال نے مزید لکھا ہے :
’’ماہرین بیانیات اس بات پر متفق ہیں کہ متن کا مصنف / مرتب اور اس کا ’راوی‘ خواہ وہ مصنف ہی کیوں نہ ہو ایک ہی شخص نہیں ہوتے بلکہ متن میں واقعہ تعمیر کرتے ہوئے مصنف ’راوی ‘ میں منقلب ہو جاتا ہے اور اس پر بھی محاکمے (Evaluation)کے وہی اصول جاری ہو جاتے ہیں، جو کسی دوسری نوع کے راوی کے لیے معیار تصور کیے جاتے ہیں ‘‘۔[45]
جبکہ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے :
’’جب بیانیہ کا وجود افسانے کی شرط ٹھہرا تو بیان کنندہ یعنی راوی کا وجود بھی افسانے کی شرط ٹھہرتا ہے۔ یہ راوی، افسانے کے متکلم یعنی Protagonist یا مرکزی کردار یا ہیرو سے مختلف بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی‘‘۔ [46]
افسانے میں جن دو طرح کے راویوں کی بات کی گئی ہے اس کی وضاحت کرنے بیٹھیں تو شمس الرحمن فاروقی کے مضمون کی طرف توجہ دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ کیونکہ بہر صورت یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر اردو میں مواد کا ملنا بہت مشکل ہے۔ چند ایک گنے چنے مضامین میں قاضی افضال اور شمس الرحمن فاروقی کا مضمون ہی ہاتھ لگتا ہے۔ ویسے پروفیسر قاضی افضال نے وئین سی بوتھ(Wayne C Booth) کے مضمون کا ترجمہ بھی کیا ہے جس سے راوی سے متعلق کئی اہم باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں۔
راوی سے متعلق ہم یہ جانتے ہیں کہ مصنف، راوی، قاری اور کردار کہانی یا افسانے کے مختلف حصے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کے درمیان فاصلہ ہونا طے ہے۔ راوی اپنے مصنف، قاری اور کہانی کے کرداروں سے فاصلے کی نوعیت اور درجے کے اعتبار سے واضح طور پر مختلف ہوتا ہے۔ متن کی کوئی بھی قرأت ہو راوی، مصنف، کردار اور قاری کے درمیان مماثلت اور تضاد کے رشتے بنتے رہتے ہیں۔ اختلاف و اتفاق کا سبب اقدار، اخلاق، ذہن یا جسم کسی بھی سطح پر ممکن ہے۔ اس حوالے سے وئین سی بوتھ کی کتاب The Rhetoric of Fiction میں قابل ذکر بحث کی گئی ہے۔ جس کے اندر فاصلے اور فاصلوں میں تبدیلیوں کے کئی زاویے پیش کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ راوی کے یہی فاصلے اس کے ’معتبر راوی‘ اور ’غیر معتبر راوی‘ ہونے کا جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔ وئین سی بوتھ کے خیال میں راوی مضمر مصنف سے اخلاقی، ذہن و شعور اور زمانی اور مکانی سطح پر زیادہ یا کم دور ہو سکتا ہے۔ راوی ان کرداروں سے بھی فاصلے پر ہوتا ہے جن کی وہ کہانی بیان کر رہا ہے۔ اختلاف کی سطح اخلاقی، ذہنی اور زمانی اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ راوی قاری سے جسمانی، جذباتی یا اخلاقی اعتبار سے قدرے فاصلے پر ہو سکتا ہے۔ مضمر مصنف قاری سے ذہنی یا اخلاقی سطح پر قدرے فاصلے پر ہو سکتا ہے۔ مضمر مصنف (جو اپنے قاری کو ساتھ لے کر چلنا چاہ رہا ہو)دوسرے کرداروں سے قدرے فاصلے پر ہو سکتا ہے۔وئین سی بوتھ کے اسی مضمون میں درج ہے :
’’راوی میں اس نوع کے فاصلے کو بیان کرنے کے لیے ہماری اصطلاحات افسوس ناک حد تک ناکافی ہیں۔ کسی بہتر اصطلاح کی غیر موجودگی میں ہم نے اس راوی کو ’’معتبر‘‘ کہا ہے جب وہ متن کے معیار سے ہم آہنگ ہو یا اس کی نمائندگی کرتا ہو(متن کی اقدار سے مراد مضمر مصنف کے معیار (Norms) ہیں )اور اس راوی کو ’’غیر معتبر‘ ‘کہتے ہیں، جب وہ اس معیار کا پابند نہ ہو۔‘‘[47]
ناصر عباس نیر نے اپنی کتاب ’لسانیات اور تنقید ‘میں لکھا ہے :
’’واحد متکلم کے صیغے میں لکھی گئی کہانی قاری کو اس گمان میں جلد مبتلا کر دیتی ہے کہ وہ فاصلے پر بیٹھا ہوا تماشائی نہیں، خود کہانی کے عمل میں شامل ہے۔ کہانی میں ’’میں ‘‘کی برابر موجودگی کا احساس قاری کو یہ بات بھلانے کی زبردست ترغیب دیتا ہے کہ کہانی کے ’’میں ‘‘سے قاری کی الگ کوئی شخصیت یا انا ہے۔ چناں چہ واحد متکلم میں لکھی گئی کہانی حقیقت کا تاثر ابھارنے میں خاصی کامیاب ہوتی ہے۔ اسی طرح ’’ہمہ بیں ناظر‘‘(Omniscient Narrator) کے ’’پوائنٹ آف ویو‘‘سے لکھی گئی کہانی بھی حقیقت سے قاری کی حسی اور شش جہات قربت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ کہانی میں جب داخلی اور خارجی، سماجی اور نجی، واقعاتی اور نفسیاتی زندگی کا ہر پہلو قاری کی گرفت میں آ جاتا ہے تو وہ ’’بیان واقعہ‘‘ کو بھول کر ’’واقعے ‘‘ میں کھو جاتا ہے ‘‘۔[48]
کہانی کوئی بھی ہو وہ تخلیق کی جاتی ہے۔اس کے حقیقت اور واقعیت کے تعلق سے ہم بحث آئندہ کریں گے مگر یہاں پر اتنا عرض کرنا ہے کہ کہانی کی تشکیل میں مصنف کا نقطۂ نظر شامل ہوتا ہے اور یہی نقطۂ نظر راوی کی شخصیت تعمیر کرتا ہے۔ لیکن جب مصنف راوی کی تعمیر کرتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ چاہے حاضر راوی ہو یا پھر غائب راوی سب کے ساتھ کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ان مسائل کو شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون ’فکشن تنقید سے متعلق چند مباحث‘ میں پیش کیا ہے۔
حاضر راوی کے ساتھ جو مسائل ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر ’میں ‘ کے پاس اطمینان بخش معلومات و اطلاعات نہیں ہوتی ہیں تو مصنف کہانی میں نا ممکنات کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی ڈرامایا گیا راوی نہیں ہوتا تو ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک معصوم ذہن قاری یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ کہانی اس تک بلا واسطہ (Un-mediated)پہنچی ہے لیکن جب کوئی راوی افسانے میں ڈرامایا گیا ہوتا ہے تو اس طرح کے احتمالات کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے جب افسانے میں ایسا کوئی ’میں ‘ بیان ہوتا ہے تو ہم اس کا نقطۂ نظر سمجھنے اور جاننے کے لیے چوکنّے ہو جاتے ہیں کیونکہ یہی چیز ہمارے اور واقعے کے درمیان حائل ہوتی ہے۔
فاروقی نے اپنے مضمون’ افسانے کی تنقید سے متعلق چند مباحث ‘میں لکھا ہے کہ ’’دو طرح کے راویوں کا امکان افسانے کی واقعیت، بلکہ اس کے سارے وجود اور فن افسانہ نویسی/گوئی کے عملی اظہار کے بارے میں مختلف طرح کے سوالات اور مشکلات پیدا کرتا ہے۔‘‘ [49]یہ کہنے کے بعد انھوں نے جن دو نوع کے راویوں کو افسانے کے وجود کا حصہ ٹھہرایا ہے، کے ساتھ جڑے بعض مسائل اور پریشانیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ذیل میں شمس الرحمن فاروقی کے ذریعہ بیان کیے گئے مسائل کا تذکرہ مختصراً کیا جا رہا ہے کہ مجھے بھی ان مسائل سے انکار نہیں اور اگر راویوں کی فطرت اور ان کی حقیقت کو مد نظر رکھ کر ان نکات یا مسائل کو پڑھا جائے تو یقیناً ان سے انکار ممکن نہ ہو سکے گا۔ یہ جو نکات بیان کیے جا رہے ہیں انھیں ہم ان راویوں سے جڑے مسائل بھی کہہ سکتے ہیں اور ساتھ ہی انھیں ہم حاضر راوی یا غائب راوی والے افسانوں کے امتیازات کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
حاضر راوی والے افسانوں کے ساتھ بنیادی طور پر آٹھ مسائل وابستہ ہیں۔ پہلا یہ کہ ایسے افسانوں میں صرف وہی واقعات بیان ہو سکتے ہیں جن میں راوی خود موجود رہا ہو۔ دوسرا یہ کہ افسانے میں کرداروں پر ہونے والے اثرات کے بارے میں راوی کی شہادت موضوعی اور ناقابل یقین ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ راوی کہتا ہے کہ جب فلاں شخص نے فلاں سے ملنے کے بعد کہا کہ اسے اس سے محبت ہے تو اس کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ظاہر سی بات ہے کسی کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ جانے کا قضیہ راوی کا ایک بیان ہے، جو محض ایک رائے ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔تیسرا مسئلہ یہ کہ ایسے افسانوں میں تجسس کا عنصر کم ہوتا ہے۔کیونکہ راوی اپنے خیالات و جذبات کو پردے میں نہیں رکھ سکتا۔ چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اگر حاضر راوی کو کسی بات کا علم نہیں تو وہ کسی کردار کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔ تاہم اس کے لیے بھی اسے ایسے حالات پیدا کرنے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ملاقات کردار سے ثابت کر سکے اور پھر اپنی خواہش کو معرض بیان میں لانے کے راستے پیدا کرے۔ پانچواں اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر حاضر راوی اپنے کسی خیال کا اظہار کر رہا ہے تو قاری کو اس کی حقیقت پر شک اور تذبذب ہوتا ہے یعنی وہ سوچتا ہے کہ شاید یہ راوی کی اپنی رائے اور اس کا تاثر ہے، بہت ممکن ہے کہ حقیقت کچھ اور ہو۔ اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھئے کہ حاضر راوی کہے کہ ’فلاں شخص کی عمر چوبیس سال ہے اور وہ بہت خوبصورت ہے ‘۔ یہ بات محض راوی کے بیان کا درجہ رکھتی ہے۔ اس پر اعتبار کامل کا امکان بھی ہے اور نہیں بھی۔تاہم اگر یہی بات غائب راوی کہتا تو ہمارے پاس اعتبار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔چھٹا مسئلہ حاضر راوی کا یہ ہے کہ اگر حاضر راوی افسانے میں مرکزی کردار نہیں تو پھر مرکزی کردار ہر بات کے لیے راوی کی فراہم کردہ معلومات کا محتاج رہتا ہے۔اس طرح افسانہ نگار بظاہر پس منظر میں چلا جاتا ہے اور مرکزی کردار کے خال و خد حاضر راوی کے حوالے سے ہی ابھر سکتے ہیں۔سا تواں مسئلہ یہ ہے کہ حاضر راوی والے افسانے میں واقعیت کا التباس پیدا کرنا(واقعیت کا التباس پیدا کرنا ضروری ہے ؟ اس سوال پر بحث آگے ہو گی) نسبتاً آسان ہے کیونکہ افسانہ نگار پس منظر میں چلا جاتا ہے۔اسی کے ساتھ ایک نکتہ اور بھی جڑا ہے کہ کبھی کبھی حاضر راوی محض مرتب یا دیباچہ نگار کا روپ اختیار کر لیتا ہے کہ میرے فلاں دوست نے مجھے یہ واقعہ سنایا۔ اس طرح راوی اپنا دامن بھی بچا لیتا ہے اور افسانہ نگار کو غائب راوی کا ایک وسیلہ دریافت ہو جاتا ہے۔ آٹھواں مسئلہ یہ ہے کہ حاضر راوی والے افسانوں میں کرداروں کی تعداد نسبتاً کم ہو گی کیونکہ حاضر راوی بہر حال کثیر تعداد میں لوگوں سے نہیں مل سکتا اور نہ کثیر واقعات کا عینی شاہد ہو سکتا ہے۔ایسی صورت میں اگر کرداروں میں توسیع ہو گی تو راوی محض مشاہد ہو کر رہ جائے گا اور حاضر راوی والے افسانے میں واقعیت کے التباس کی تخلیق کا مسئلہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
غائب راوی کے ساتھ بھی کچھ مسائل اور امتیازات ہوتے ہیں۔مثلاً غائب راوی حد درجہ معتبر ہوتا ہے۔ وہ کرداروں کے بارے میں کچھ بھی کہے اس پر ایمان لانے کے سوا قاری کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتا۔ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے کہ ایسی صورت میں ’’اس میں واقعیت کا التباس مسئلہ نہیں ہوتا ہے کہ التباس کی آزادی کو اس بری طرح نہ برتا جائے کہ خود التباس ہی ختم ہو جائے۔‘‘ غائب راوی کے ساتھ ایک اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بیان پر زیادہ قدرت رکھتا ہے وہ بیک وقت کئی جگہوں پر یا ایک جگہ پر ہونے والے متعدد واقعات کے بیان پر قادر ہوتا ہے۔ اس طرح کے راوی والے افسانوں کا دائرہ بیان بہت وسیع ہوتا ہے۔ اس میں کوئی ایک واقعہ، تاثر، کسی کی تنہائیوں میں پیش آنے والے واقعات، دو لوگوں کی باہم گفتگو، راز، خطوط یا اس طرح کی تمام صورتوں کا بیان بآسانی کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح غائب راوی کو وقت کے تعین میں ذرا آزادی حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً وہ یہ کہہ کر اپنا کام نکال سکتا ہے کہ اس واقعہ کے کئی سال پہلے، چند ہفتے بعد یا اس طرح کے زمانی بیان کو ظاہر کرنے والے جملوں کے سہارے وہ اپنے بیان کو آگے بڑھا سکتا ہے لیکن حاضر راوی کو وقت کا تعین سختی سے کرنا پڑتا ہے۔ایک اور مسئلے کا تذکرہ شمس الرحمن فاروقی نے کیا ہے کہ ’’غائب راوی والے افسانے میں قاری کو یہ گمان گذر سکتا ہے کہ کوئی ضروری نہیں کہ یہ تاثر افسانہ نگار کا ہو، اس کے کردار کا نہ ہو‘‘۔کیونکہ غائب راوی والے افسانوں میں ایسا ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کی شخصیت لاشعوری طور پر ہی سہی افسانہ میں آ جاتی ہے جس سے اس کی واقعیت مجروح ہوتی ہے۔
کچھ باتیں دونوں طرح کے راویوں کے درمیان مشترک بھی ہوتی ہیں مثلاً افسانوں کی تلخیص صیغۂ حال میں بیان کی جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ جب افسانہ ایک بار بیان ہو گیا تو وہ ہمیشہ کے لیے موجود اور ہر وقت واقع ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح تمام افسانوں میں تمام واقعات کی اصل نوعیت پر مکمل اجماع نہیں ہو سکتا۔کیونکہ کوئی بھی افسانہ اپنے تمام کرداروں اور تمام واقعات کی مکمل ترین تفصیل نہیں بیان کر سکتا۔اور اسی وجہ سے ہم افسانے کے کرداروں اور واقعات کو محض تفصیل یا جزئیات کے ذریعے اعتبار نہیں بخش سکتے۔
یہ وہ مسائل ہیں جن کا تذکرہ شمس الرحمن فاروقی نے اپنی کتاب’ افسانے کی حمایت میں ‘ میں کیا ہے۔یہ ایسے مسائل ہیں جن کی سچائی سے منہ نہیں موڑا جا سکتا ہے۔ تاہم یہاں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ ابھی بھی اردو تنقید میں افسانہ اور اس کے راوی کے اقسام، امتیازات، مسائل اور شناخت کو لے کر برائے نام تحریریں بھی سامنے نہیں آئی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس موضوع پر بہت اچھے انداز میں گفتگو کی ہے اور اس اہم مسئلے سے اردو قارئین کو واقف کرانے کی سعی کی ہے۔
٭٭٭