شمس الرحمن فاروقی نے ’ افسانے کی حمایت میں ‘ افسانے کی جو کمزوریاں بیان کی ہیں ان میں اس کی سب بڑی کمزوری ’بیانیہ‘ کو قرار دیا ہے۔حالانکہ بعد میں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی سب سے بڑی خوبی بھی یہی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ بیانیہ کہتے کسے ہیں ؟ بیان اور بیانیہ میں کیا فرق ہے ؟ اور افسانے سے ان کا کیا تعلق ہے ؟شمس الرحمن فاروقی نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں اس حوالے سے دو مکمل مضامین قلمبند کیے ہیں اور ساتھ ہی کئی دوسرے مضامین میں بھی اس بارے میں کچھ باتیں کہی ہیں۔ ذیل میں سب سے پہلے بیانیہ کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی کے اقوال پر نظر ڈالتے ہیں :
’’افسانہ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا بیانیہ کردار پوری طرح بدلا نہیں جا سکتا‘‘[20]
’’افسانے کی حمایت میں سب سے بڑی بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اس کو بیانیہ کی امداد حاصل ہوتی ہے جو شاعری کے ساتھ اتنی ہمدردی نہیں رکھتا‘‘۔[21]
’’بیان وہ وسیلہ ہے جس سے کہانی وجود میں آ سکتی ہے۔ ‘‘[22]
’’افسانہ چاہے واقعے کا اظہار کرے یا کردار کا، یا دونوں چیزوں کا، یا چاہے وہ کسی سماجی حقیقت کو بیان کرے یا نفسیاتی نکات کی گہرائیاں کریدے، وہ بیان یعنی Narrationکے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔بیانیہ اس کے لیے ہاتھ پاؤں کا کام کرتا ہے، اگر افسانے میں سراسر مکالمہ ہے یا صرف خود کلامی ہے تو بھی وہ افسانہ اسی وجہ سے ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں کسی واقعے کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔‘‘[23]
’’بیانیہ وہ گاڑی ہے جس پر کردار اور واقعات سفر کرتے ہیں۔ مناظر اور لینڈ اسکیپ بھی اسی کی کھڑکی سے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر وہ تحریر بیانیہ ہے جس میں واقعے اور کردار کے انعقاد کا امکان ہو۔ اس بات سے غرض نہیں کہ کسی مقر رہ تحریر میں کوئی واقعہ یا کردار منعقد ہوا بھی ہے کہ نہیں۔ بس امکان کا وجود کافی ہے۔‘‘[24]
’’بیانیہ سے مراد ہر وہ تحریر ہے جس میں کوئی واقعہ (Event) یا واقعات بیان کیے جائیں ‘‘۔ [25]
’’بیانیہ محض واقعات پر مبنی ہوتا ہے، و عام اس سے کہ وہ واقعات فرضی ہیں یا حقیقی‘‘۔[26]
ان میں پہلے دو اقوال میں مصنف نے بیانیہ کو افسانے کی کمزوری یا قوت بتایا ہے جبکہ باقی بیانات میں بیانیہ کو سمجھانے یا اس کی تعریف بتانے کی کوشش کی ہے۔تاہم صرف ان بیانات سے بیانیہ کی مکمل تصویر سامنے نہیں آتی، البتہ مکالمہ قائم کرنے کے لیے اتنی معلومات کافی ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ افسانے کو کمزور بتانے کے لیے فاروقی نے بیانیہ کو اس کا کمزور پہلو ضرور گردانا مگر کچھ وقت بعد تسلیم بھی کر بیٹھے کہ بیانیہ در اصل ایسی طاقت ہے جو افسانے کے پاس ہے اور شاعری جیسی قدیم اور اہم صنف سخن کو حاصل نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی مکمل سچائی نہیں ہے۔ کیونکہ شاعری صرف لفظوں کے تخلیقی برتاؤ اور فکر و خیال کی بندشوں یا قوافی اور ردیف کی اختراع پردازیوں کا نام نہیں بلکہ اس میں بیانیہ بھی پایا جاتا ہے۔ مرثیہ، مثنوی، شہر آشوب، نظم ان تمام میں کہیں نہ کہیں بیانیہ موجود ہوتا ہے۔ یعنی محض بیانیہ کی موجودگی کے سبب افسانہ کو چھوٹی صنف سخن قرار دینا، کٹ حجتی ہے۔اور خود فاروقی نے بھی اپنے مضمون ’چند کلمے بیانیہ کے بیان میں ‘ ایسے اشعار بطور مثال پیش کیے ہیں جن میں واقعہ بیان ہوا ہے، یعنی بیانیہ موجود ہے۔ اسی طرح عابد سہیل نے بھی اپنی کتاب میں ایسے شعروں کو بطور مثال پیش کیا ہے جن میں بیانیہ موجود ہے۔ لیکن مجھے اس مسئلے سے زیادہ دلچسپی نہیں کہ ارسطو سے لے کر ہیگل، نطشہ اور باختن تک بڑے بڑے ادباء اور دانشوروں نے اصناف کی برتری و کمتری کی بحث چھیڑی ہے۔ مگر اس کا حاصل کیا ہے ؟اور اس کا فائدہ عام قاری کو کیا ہوتا ہے ؟ شاید کچھ نہیں۔ لہٰذا میں اس بحث سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی بات بیانیہ پر مرکوز رکھنا چاہتا ہوں کہ بیانیہ آخر ہے کیا؟ اورافسانے سے اس کا رشتہ کیا ہے ؟نیز یہ کہ یہ مکالمہ، خود کلامی، وصف حال یا اظہار کے دوسرے طریقوں سے کس طور مختلف ہے ؟یا پھر یہ سوال کہ بیانیہ لازماً ایک لسانی وسیلہ ہے یا اظہار کے دوسرے وسائل مثلاً موسیقی اور اعضا کی حرکات و سکنات کے ساتھ ساتھ بیانیہ کے اور بھی غیر لسانی وسائل ہیں ؟ وغیرہ
بیانیات (Narratology)فکشن کی شعریات کی جدید ڈسپلن کا نام ہے جسے فرانسیسی ساختیات پسندوں نے وجود بخشا۔ اس عمل میں انھوں نے روسی ہیئت پسندوں کے بیانیہ ماڈل کو بھی سامنے رکھا۔ اس لفظ کا استعمال سب سے پہلے زویتان ٹاڈاروف (Tzvetan Todorov) نے ۱۹۶۹ء میں اپنی کتاب Grammaire du Decameronمیں کیا، جس سے مراد بیانیہ/فکشن کی سائنس(Science of Narrative) لیا۔ حالانکہ ٹاڈاروف سے قبل بیانیہ کے حوالے سے کام کرنے والوں میں لیوی سٹراس اور اے جے گریما(A.J.Greima) کا نام آتا ہے۔ ماقبل مذکور ناموں کے بعد رولاں بارت (Roland Barthes)، تھامس پاول(Thomas Pavel)، جیرالڈ پرنس(Gerald J. Prince) اور ژرارژنیت (Gérard Genette) وغیرہ نے ’بیانیہ‘ کے حوالے سے کام کیا۔
انگریزی زبان میں بیانیہ کوNarrativeکہتے ہیں۔جبکہ بیان Narrationکہلاتا ہے۔ بسا اوقات بیان کو ہم Statement کے معنی میں بھی لیتے ہیں اور Narrationکو بیانیہ کا نام بھی دیتے ہیں۔ بیانیہ اور بیان(Narration and Narrative)آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ یعنی بغیر بیان کے بیانیے پر کوئی ڈسکورس، گفتگو، مکالمہ یا مباحثہ قائم ہوہی نہیں سکتا۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے اپنے ایک مضمون ’بیان و بیانیہ کی آویزش اور اردو افسانہ‘میں لکھا ہے :
در اصل لفظ بیانیہ، بیان کے تقریباً ہر تصور کا احاطہ کرتا ہے۔ بیان کے بغیر افسانہ وجود میں نہیں آتا لہٰذا بیانیہ محض واقعات کی منطقی ترتیب سے عبارت نہیں ہے اور بیانیہ Story Lineکا دوسرا نام بھی نہیں۔۔۔۔بیان کو تو ہم Statement کے معنی میں لے سکتے ہیں مگر بیانیہ Statement نہیں ہے، Narrationہے یعنی بیانیہ میں بیان تو موجود رہتا ہے مگر بیان میں بیانیہ کی موجودگی کا امکان شاذ ہی ہوتا ہے۔کیوں کہ بیان میں بیان کنندہ کا موجود رہنا ضروری نہیں ہے۔ جیسا کہ صحافتی بیان میں نظر آتا ہے، اور اگر بیان کنندہ (راوی)ہے بھی تو چھپا ہوا ہے۔ اس کا سامنے آنا ضروری نہیں ہے مگر بیانیہ میں بیان کنندہ کی موجودگی ضروری ہے جیسا کہ بالعموم افسانوں اور ناولوں میں ہوا کرتا ہے۔[27]
ویسے تو بیانیہ کے متعدد مفاہیم بیان کیے گئے ہیں۔باربرا ہرنسٹائن اسمتھ(Barbara Herrnstein Smith) بیانیہ فقط ایک واقعہ کی ظہور پذیری کو مانتی ہے جبکہ نویل کیرول (Noel Carroll) کے نزدیک کم از کم دو واقعات کا ہونا بیانیہ کے لیے ضروری ہے۔اس کا کہنا ہے :
“Narrative discourse is comprised of more than one event and/or state of affairs that are connected and are wont a unified object and perspicuously ordered in time”.
’’یعنی (افسانویت سے مملو) بیانیائی پیش کش کم از کم ایک سے زیادہ واقعات پر مشتمل ہوتا ہے اور منسلکہ واقعات کا ایک مشترکہ موضوع ہوتا ہے ساتھ متذکرہ واقعات ایک زمانی تنظیم کے مبہم طور پر تابع ہوتے ہیں ‘‘۔ [28]
کینیڈیائی ادیب کنگ تھامس(King Thomas)کے مطابق ”The truth about stories is all that we are.”[29] یعنی جو کچھ بھی ہے وہ بیانیہ کے حدود سے باہر نہیں۔جبکہ موجودہ عہد میں بیانیہ بذات خود بیانیاتی تصورات سے متجاوز ہو کر دیگر جدید تصورات کی سرحدوں میں داخل ہو گیا ہے۔آج Narrative کے ایک معنی ’موقف ‘ کے بھی لیے جاتے ہیں۔
سکندر احمد نے اپنے ایک مضمون’ تکلم، بیانیہ اور افسانویت ‘میں لکھا ہے کہ ’’موجودہ تناظر میں لفظ Narrative یعنی بیانیہ کا استعمال ان معنوں میں بھی ہو رہا ہے جن کا براہ راست تعلق کسی واقعے سے نہیں ‘‘۔[30]اور اسی مضمون میں انھوں نے رولاں بارت(Roland Barthes) کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ’’بیانیہ ہر عہد اور سماج اور ہر جگہ موجود ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر شخص کا حوالہ بیانیہ ہی ہے۔ ’بیانیہ ہے اسی لیے میں ہوں ‘۔ بیانیہ کی حیثیت بین الاقوامی، ماورائے ثقافت اور ما ورائے تاریخ ہے۔یہ بس موجود ہے جس طرح زندگی موجود ہے۔‘‘[31]ارجمند آرا نے رولاں بارت کے مضمون Introduction to the structural analysis of Narrativesکے ترجمے میں لکھا ہے :
’’ جب سے عالم انسان کی تاریخ شروع ہوئی ہے اس کی ابتدا تب ہی سے ہے ؛ اور کہیں بھی، کسی بھی زمانے میں کوئی ایسا سماج نہیں تھا جو بیانیہ سے مبرا ہو۔ سماج کے ہر طبقے اور لوگوں کے ہر گروہ کی اپنی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں، ان کا اپنا اپنا بیانیہ ہوتا ہے جس سے بعض اوقات مختلف تہذیبی پس منظر رکھنے والے لوگ، بلکہ مخالف بھی، لطف اندوز ہوتے ہیں۔اعلیٰ اور پست ادبی معیار کی تقسیم سے بے نیاز، بیانیہ بین اقوامی، بین تواریخی اور بین تہذیبی ہوتا ہے۔ یہ تو بس از خود موجود ہے، خود زندگی کی طرح‘‘۔ [32]
محمد حمید شاہد نے بیانیہ کے باب میں لکھا ہے :
’’کوئی واقعہ بیان ہو رہا ہو یا منظر نامہ، کوئی مکالمہ ہو یا مختلف زمانوں کے بیچ یادوں اور احساسات کا سلسلہ جس میں زمانے آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔۔۔سب نامیاتی وحدت میں ڈھل کر ہی فکشن بن پاتے ہیں اور جونہی یہ فکشن بنتے ہیں، سارا متن بیانیہ ہو جاتا ہے۔‘‘ [33]
عابد سہیل نے بیانیہ کی تفہیم کی ایک سہل اور آسان صورت پیش کی ہے :
’’بیانیہ الفاظ کی مدد سے کسی معروض، شخص، اشخاص کے اشکال ظاہری یا خصوصیات کی تصویر کشی کا نام ہے۔ معروض واقعہ بھی ہو سکتا ہے، خیال بھی، دل و دماغ کی ایک لہر اور منظر بھی۔‘‘ [34]
شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ جن ناقدین کے بھی اقوال ذکر کیے گیے ہیں سب سے ایک بات مشترکہ طور پر سامنے آتی ہے کہ کسی بھی واقعہ کا بیان اصطلاحی لفظوں میں ’بیانیہ‘ کہلاتا ہے۔ یعنی بیانیہ کے لیے واقعہ کا ہونا ضروری امر ٹھہرتا ہے کیونکہ اگر کوئی چیز واقع نہ ہو گی تو پھر بیان کس چیز کا ہو گا اور اگر بیان نہیں ہوا تو بیانیہ کے وجود میں آنے کا سوال کیوں کر اٹھتا ہے ؟ اس لیے اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ یہ وضاحت ہو جائے کہ واقعہ کیا ہے ؟اور وصف حال یا بیانیہ سے اس کا کیا ربط ہے ؟شمس الرحمان فاروقی نے واقعے کی تعریف میں کہا ہے :
’’وہ بیان جس میں کسی قسم کی تبدیلی حال کا ذکر ہو، Event یعنی واقعہ کہا جائے گا‘‘[35]
اس کے بعد انھوں نے کچھ مثالیں دے کر سمجھایا ہے کہ کن بیانات میں واقعہ ہے اور کن میں نہیں مثلاً ’دروازہ کھلتے ہی کتا اندر آ گیا‘ میں واقعہ بیان ہوا ہے لیکن’ کتے بھونکتے ہیں ‘ کو واقعہ نہیں کہہ سکتے۔کیونکہ حالت کی تبدیلی نہیں ہو رہی ہے، جو واقعہ ہونے کی لازمی شرط ہے۔پروفیسر قاضی افضال نے اپنے ایک مضمون میں واقعہ اور اس کے متعلقات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’جس عمل(حرکت ) میں صورت حال تبدیل ہوتی ہو اسے ’واقعہ ‘ کہتے ہیں اور ’صورت حال‘ سے مراد وہ زمانی تسلسل ہے جس میں مظہر/تنظیم /یا اشیا ایک ہی شکل میں قائم رہتی ہیں۔ اس تسلسل یا ٹھہراؤ یا تنظیم میں کسی عمل کے سبب تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اسے ’واقعہ‘ کہتے ہیں۔‘‘[36]
اسے ایک مثال کے ذریعہ سمجھئے۔ مان لیجئے مصنف کسی کیفیت، منظر، مکان، کمرے، باغ یا حالت کی تصویر کشی کرتا ہے، تو اسے ہم تصویر کشی کا نام دیں گے۔ جیسے ’’دوپہر کا وقت تھا، پورے ماحول پر سورج کی گرمی نے قہر برپا کر رکھا تھا، آنگن خالی پڑا تھا، گھر والے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے ‘‘یہ ایک صورت حال ہے، ’’اچانک برتن گرنے کی آواز آئی‘ یہ واقعہ ہے۔
واقعہ کی اصل چار شرائط یا صفات پر قائم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسی نہ کسی حرکت یا عمل کا ہونا یعنی تبدیلی حال واقعہ کے قائم ہونے کی شرط ہے۔ جبکہ دوسری صفت بقول قاضی افضال حسین ’’یہ ہے کہ اس صورت حال کی تبدیلی میں ایک جلی یا خفی Processہو گا۔ اس Process میں عمل کا ایک محرک اور عمل کے نتیجہ میں تبدیلی کی ایک صورت ہو گی اور ان دونوں میں لازماً سبب اور نتیجے کا تعلق ہو گا‘‘۔[37]اس تعلق کی وضاحت ممکن ہے کہ راوی بیانیہ میں ظاہر کر دے اور ممکن ہے کہ نتیجہ تو ظاہر ہو، تاہم سبب کے دریافت کی ذمہ داری قاری کے سر ہو کہ وہ عقلی یا استدلالی عناصر کے استعمال سے اس کا پتہ لگائے۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیانیہ میں نتیجہ تو ظاہر ہو مگر سبب کی طرف کوئی جلی یا خفی اشارہ موجود ہی نہ ہو تو وہ ’واقعہ ‘ نہیں بلکہ ’ماجرا‘ کہلائے گا۔’ماجرا‘ ایسے نتائج کو کہتے ہیں جن میں سبب کی کوئی عقلی بنیاد نہ ہو۔
واقعہ کی تیسری شرط یا صفت یہ ہے کہ جب تبدیلی حال ہو گا تو اس میں لازماً زمانہ یا وقت (Time) شریک ہو گا۔ یعنی واقعہ کا کسی نہ کسی وقت میں ہونا ہی اس کی اصل ہے۔جبکہ واقعہ کے تعلق سے چوتھی بات یہ ہے کہ اس کا تصور بغیر کردار کے قائم نہیں ہو سکتا ہے۔کیونکہ واقعہ ہو گا تو وہ کسی نہ کسی ذی روح، ذی عقل، حیوان، انسان یا غیر ذی روح جیسے مظاہر فطرت وغیرہ پر پیش آئے گا۔واقعہ جس پر پیش آتا ہے اصطلاح میں اسے کردار کہا جاتا ہے۔ کردار سے متعلق ہم اگلے نکتے کے تحت تفصیل سے بات کریں گے۔
اردو ادب میں بیانیہ سے متعلق سب سے پہلے سنجیدہ بحث کرنے والی ممتاز شیریں کا تذکرہ کیے بغیر اس بحث کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ انھوں نے اپنے مضمون’ تکنیک کا تنوع، ناول اور افسانے میں ‘میں بیانیہ تکنیک کے بارے میں لکھا ہے کہ اس میں مکالمے سے زیادہ کام نہیں لیا جاتا اور اس میں داستان بیان کی جاتی ہے۔ اسے بیان کرنے والا کبھی مصنف ہوتا ہے یا پھر وہ کسی کردار کو بیان کرنے کے لیے آگے کر دیتا ہے۔اور پھر اسی مضمون میں انھوں نے کہا ہے :
’’بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے علی الترتیب بیان ہوتے ہیں۔ہم بیانیہ کو بقول عسکری ’کہانیہ ‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘[38]
ممتاز شیریں کے بیان کو دیکھیے اور ماقبل میں بیانیہ سے متعلق ہونے والی گفتگو کو ایک بار پھر پڑھیے تو پتہ چلتا ہے کہ ممتاز شیریں نے بیانیہ کو افسانے کے دوسرے نام کے طور پر بیان کیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک بیانیہ متنِ افسانہ( Suzet) ہے۔متن افسانہ(Suzet)اور کہانی (Fabula) جسے شمس الرحمن فاروقی نے بالترتیب قصۂ مروی اور قصۂ مطلق کا نام دیا ہے، روسی ہیئت پسند وں کی عطا کردہ اصطلاحیں ہیں۔نظریاتی سطح پر عام تصور یہ ہے کہ Fabula منطقی اور فطری اعتبار سے خارجی یا خیالی دنیا میں Suzet سے پہلے موجود ہوتا ہے۔ انہی میں سے کچھ قصوں کے سہارے افسانہ نگار بیانیہ تشکیل دیتا ہے۔جبکہ بقول سکندر احمد ’’چند ماہرین بیانیات (Narratologists) کے نزدیک فابلا ایک ہوائی تصور ہے کیوں کہ جب متن یا پیش کش سامنے آتا ہے تب بھی پیش کش یعنی شوزے سے ہی یہ اخذ کیا جاتا ہے یعنی پیش کش (شوزے ) کی حیثیت اولین ہے، فابلا کی نہیں۔‘‘[39]
شمس الرحمن فاروقی کو ممتاز شیریں کی بیانیہ کی یہ تفہیم درست نہیں لگتی۔جبکہ میرے مطابق ممتاز شیریں اصطلاح ’بیانیہ‘ کی تعریف و تفہیم کی کوشش نہیں کر رہی تھیں۔ اس لیے ان کی بات کو ہمیں ان کے اس موضوع کے سیاق میں رکھ کر دیکھنا چاہئے، جس پر وہ گفتگو کر رہی تھیں۔انھوں نے کچھ افسانوں کے تجزیے کے ضمن میں وہ باتیں کہی تھیں۔
’چند کلمے بیانیہ کے بیان میں ‘ لکھتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی نے اس بات کی وضاحت کی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کچھ بیانیے افسانوی ہوتے ہیں جبکہ کچھ بیانیے غیر افسانوی ہوتے ہیں۔ غیر افسانوی بیانیہ کے طور پر فاروقی نے اخبار کی رپورٹ، ریڈیو پر کھیلوں یا جلسے یا وقوعے پر ہونے والے رواں تبصرے، واقعات کے بیان پر مشتمل خطوط، سفرنامے، سوانح عمریاں، خودنوشت سوانح عمریاں وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے جس میں بیانیہ تو ہوتا ہے لیکن یہ سب افسانہ نہیں ہوتے۔
لیکن بقول محمد حمید شاہد فاروقی کی اس تفہیم سے ’’ہم بیانیہ کی ان صورتوں اور دیگر اسالیب کے ان امکانات کو بھی نظر انداز کرتے گئے جو فکشن میں کام آتے ہیں ‘‘۔[40]اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اردو افسانوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں افسانوں میں ایسے اقتباسات مل جائیں گے جن کا تذکرہ اگر بغیر حوالے کے کیا جائے تو یہ پہچاننا مشکل ہو گا کہ یہ افسانے کا حصہ ہے یا پھر کسی خودنوشت، انشائیے یا پھر دوسری نثری صنف کا ٹکڑا۔محمد حمید شاہد کا خیال ہے:
’’ان سارے افسانوں کو جو داستان کے ڈھنگ کو قبلہ مانتے تھے، رومان پسندی، سماجی مقصدیت یا بعد ازاں علامت اور تجرید کو اپنایا اور اب اسالیب کے بنے بنائے سانچوں کو پگھلا کر ایسے نئے بیانیے کو تشکیل دے رہے ہیں جو متن کے خارج اور داخل دونوں میں بہتا ہے، سب بیانیہ کی ذیل میں آ جاتے ہیں۔ اس طرح افسانے / فکشن یعنی بیانیہ کو نامیاتی وحدت کے اندر رکھ کر دیکھنا اور سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے۔‘‘[41]
یعنی افسانوی بیانیہ اور غیر افسانوی بیانیہ کی تفریق نہیں کی جا سکتی ہے کہ بیانیہ فقط بیانیہ ہے۔لیکن مجھے اس بات سے اتفاق نہیں کیونکہ بیانیہ ایک تخلیقی عمل ہے۔ یہ خلق کیا جاتا ہے۔ اب اگر وہ رپورٹ کی شکل میں ہے تو وہ صحافتی بیانیہ ہو گا اور اگر تاریخ ہے توتاریخی بیانیہ ہو گا اور اگر وہ انشائیہ، افسانہ، ناول، کہانی، داستان یا نظم وغزل ہے تو وہ تخلیقی بیانیہ کے ضمن میں آئے گا۔ یعنی جس تعلق سے بیانیہ خلق کیا جا رہا ہے اس کی نوعیت بھی وہیں سے اخذ کی جائے گی۔
’بیانیہ‘ کی آسان سی تعریف و توضیح پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے بھی کی ہے۔ یہ توضیح یقیناً بیانیہ کی مکمل تصویر ہمارے سامنے روشن کر دیتی ہے۔وہ اپنی کتاب ’اردو میں بیانیہ کی روایت‘کے حرف آغاز میں لکھتے ہیں :
’’کہانی جو نظم یا نثر میں کہی/ سنائی جائے جو مبنی برواقعات و کردار ہو، ان واقعات کا اپنا ایک تسلسل ہو اور وہ کردار گفتار و عمل کے متحمل ہوں ؛ پھر چاہے وہ حکایت، قصے یا داستان کی شکل میں ہو، افسانے، ناول اور مثنوی کے روپ میں ہو یا پھر ڈرامے اور فلم کے بہروپ میں ’’بیانیہ‘‘ کہلاتی ہے۔‘‘[42]
یہیں پر فاروقی کے اس سوال پر نظر ڈالتے چلیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اظہار کے وہ طریقے جن میں واقعہ بیان نہیں ہوتابلکہ واقعے کو آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، انھیں بیانیہ کہا جائے گا یا نہیں، جیسے فلم (فیچر فلم، ڈاکیومینٹری فلم، کمنٹری)، ڈراما، رقص جیسے کتھا کلی اور بیلے جس میں واقعات ہوتے ہیں کیا وہ بیانیہ ہوں گے ؟
سیدھے لفظوں میں اگر کہیں تو یہ تمام طریقۂ اظہار بیانیہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی جس طرح بیانیہ منظوم و منثور دونوں ہو سکتا ہے اسی طرح بیانیہ تحریری و ملفوظی بھی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اظہار کے جس طریقے میں واقعات کو دکھا دینا ہے مثلاً سنیماوغیرہ، ان میں بھی واقعات کو سلو لائیڈ پر اتارنے سے پہلے کاغذ پر بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح مصوری ایک طریقۂ اظہار ہے جس میں واقعات، احساسات، جذبات اور خیالات کی پیشکش ہوتی ہے، یہاں بھی تصویری علامتوں کے سہارے فنکار اپنے ما فی الضمیر کا بیان کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ موسیقی ایک قدیم فن ہے اس کی بھی دھنیں تیار کرنے سے قبل اس کا خاکہ کاغذ پر تحریر کیا جاتا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ بیانیہ کی سرحد سے کوئی بھی چیز باہر نہیں، علم کی جتنی شاخیں ہیں وہ بیانیہ کی قلمرو میں شامل ہیں۔
غرض یہ کہ بیانیہ انسانی مسائل، پریشانیوں، معاملات و تجربات کا مظہر ہے۔ یہ تمام چیزیں انسان کی شعوری کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتیں بلکہ یہ ہمارے روز مرہ کے واقعات میں شامل ہوتی ہیں اور جب ان تجربات میں ایک بڑے طبقے کو شریک کرنے کی سعی کی جاتی ہے تو بیانیہ معرض وجود میں آتا ہے۔ہم جن مسائل سے جوجھتے ہیں، جن پریشانیوں اور تجربات سے نبرد آزما ہوتے ہیں وہ غیر شعوری ہوتے ہیں تاہم جب ہم انھیں ان کے پس منظر، حوالے اور تناظر میں دوسروں کے ساتھ بانٹنا یا شیئر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بیانیہ ہی واحد ذریعہ کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے تجربات، خیالات اور واقعات ایک دوسرے سے بانٹتا ہے لیکن اس صورت میں ہم بیانیہ نہیں تخلیق کر رہے ہوتے ہیں۔کیونکہ بیانیہ محدود تناظر نہیں رکھتا بلکہ اس کا مخاطب پوری دنیا ہوتی ہے۔اسی لیے خود کلامی اور آپسی گفتگو، تکلم محض کے زمرے سے بیانیہ کے زمرے میں اسی وقت آتی ہے جب اس میں دوسروں کو شریک کیا جاتا ہے۔یقیناً بیانیہ اپنی ابتدائی صورت میں تکلم محض ہی ہوتا ہے مگر اس کے اندر ہمہ وقتی پیدا ہونے کے بعد ہی اسے بیانیہ کا نام دیا جا سکتا ہے۔کیونکہ تکلم محض، گفتگو یا خود کلامی وغیرہ کا سلسلہ زمانی ہونے کے باوجود دو چار قدم پر ہی مشتمل ہوتا ہے جبکہ بیانیہ کا سفر ہمہ وقتی ہوتا ہے۔ بیانیہ کے ذریعے انسانی تجربات و حوادث وقت کے تسلسل کے ساتھ وا ہوتے ہیں۔
بیان اور بیان کی تفہیم کے وقت یہ بات سامنے آتی ہے کہ بیانیات (Narratology) کا تعلق بیانیہ (Narrative) سے ہے۔ٹھیک اسی وقت ذہن میں ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ اگر کچھ بیان ہو رہا ہے تو اس کا بیان کرنے والا بھی کوئی ہو گا، یعنی جہاں بیانیہ ہو گا بیان کنندہ بھی ہو گا۔ جسے اصطلاح میں ’بیان کنندہ‘ (Narrator) کہتے ہیں۔یعنی بیانیات(Narratology )، بیانیہ(Narrative) اور بیان کنندہ ( Narrator)کا آپسی تعلق بہت گہرا ہے۔
٭٭٭