اپنے ہونے کا احساس بہت حسین ہوتا ہے.میں اکثر اسے اپنے اندر محسوس کرتا ہوں.خود کو دیکھتا ہوں.سنتا ہوں.سوچتا ہوں اور بے اختیار میرا دل چاہتا ہے کہ چلاؤںمیں ہوں ہاں ابھی میں ہوںاورابھی جب یہ احساس اپنے اندر لئے میں Regent Street پر واقع اپنی ملبوسات کی دکان سے نکلا اور Piccadely Circus پہنچا تو مجھے لگا میں کنفیوزڈ ہورہاہوں.بھول رہا ہوں کہ وہ کونسا راستہ ہے جو میرے گھر تک جاتا ہے.میں نے اپنے ذہن پر کافی زور دیا مگر پھر بھی مجھے کچھ یاد نہ آیا..یہ کیسے ممکن ہے میں ہکا بکا رہ گیا اتنی چھوٹی سی بات میں کیسے بھول سکتا ہوں.یہ شہر میرے لئے اجنبی تو نہیں جب سے ہوش سنبھالا تھا ان ہی راستوں کے چکر تو کاٹ رہا تھا.پھر آج یہ کنفیوژن کیوں؟.میں سوچتا رہا.اٹکتا رہا.بھٹکتا رہاادھر کئ مہینوں سے پتہ نہیں کیا ہو رہا تھا.مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے چیزوں کو لے کر میں کنفیوژ ہو رہا ہوں.بھول رہا ہوں روزمرہ کے چھوٹے موٹے واقعات.گفتگو کے درمیان صحیح الفاظ کا انتخاب.میرے اندر ارتکاذ کی کمی ہونے لگی تھی میںصحیح فیصلہ لینے میں دشواری محسوس کرنے لگا تھا.جھٹ سے کوئ مسئلہ حل کرنا اب میرے لئے آسان نہیں رہا تھا.میں نے ہمیشہ یہی سوچ کر خود کو بہلایا کہ یہ سب کام کے دباؤ کی وجہ سے ہے.مگر کیا ایسا ہی تھا دفعتہ مجھے لگا کہ وہ جو زندہ ہونے کی کیفیت میرے اندر ہے وہ مرنے لگی ہےکسی راہ گیر سے پتہ پوچھ کر میں جیسے تیسے گھر پہنچا تو ایک دلخراش حیرانی میرے وجود پر حاوی ہوگئ”ڈیڈ میرا ویڈیو گیم کہاں ہے“روز مجھ سے پوچھ رہی تھی ”آپ تو اسے لینے گئے تھے”میں یوں تھرا گیا جیسے کوئ بہت بڑا جرم کرتے ہوےْ پکڑا گیا ہوں.میرا چہرہ فق ہوگیا.ہاتھ پاؤں کانپنے لگے”یہ آپ کو کیا ہوگیا ہے ڈیڈ“وہ روٹھ گئ”آج کل آپ بہت بھولنے لگے ہیں“۔
مجھے ایسے لگا جیسے میرے سر پر آسماں آگرا ہے.میں خالی ذہن ہو گیا.پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے تکنے لگا”ڈیڈ کو تنگ نہیں کرتے روز“ میری کیفیت بھانپتے ہوےْ سارہ نے بیٹی کو چمکارا” شاید وہ اپنے کسی کام میں الجھ گئے ہو.کل لا دیں گے“ وہ اسے بہلا پھسلا کر اندر لے گئ اور میں اپنے چکراتے ہوےْ سر کو تھامے صوفے پر ڈھیر ہوگیا.آج میں اسی مقام پر کھڑا تھا جس کے بارے میں برسوں سوچا تھا کہ یہی ہوگا.ارمانوں بھری ایک بھرپور زندگی جیتے ہوےْ میرے ذہن کے کسی کونے میں یہ بات ہمیشہ چپکی رہتی تھی کہ یہ سب ختم ہوجاےْگا.جب بھی میں چالیس سال کا ہوجاؤں گا تو کھوجاؤں گاسامنے ٹیبل پر مما ایستھر کی تصویر مسکرارہی تھی”مما “ میں بے اختیار ہوگیا.میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے”مم مجھےنسیاں کا مرض لاحق ہو گیا ہے.میں بھی اسی راہ پر چل پڑاہوں جس پرآپ کبھی چل چکی ہیں.میں اسی قطار میں شامل تھا نا.پچاس فیصد genes میرےپاس تھے نا..تو پھر کیا FAD. وہ موذی جین.اوہ نو..“۔
میرا دل جیسے اچھل کر حلق میں آگیا.جسم سے دھاروں دھار پسینہ بہنے لگا.دم گھٹنے لگا.اس خوف کے تحت میں نے کبھی اپنا genetic test نہیں کروایاتھا کہ یہ جین میرے لئےدہشت بن جاےْ گی.میں نے کبھی یہ نہ جاننا چاہا کہیں میں carrier تو نہیں کیونکہ میں جانتا تھا کہ میری دنیا ہی بدل جاےْگی جب میں کسی دن گھر آؤں گا اور کہوں گا
I know I have got it
سارہ تم سن رہی ہو… نا۔
میں سن رہی تھی پلے کا مکالمہ..رومیو اپنی جیولیٹ سے کہ رھا تھا۔
My love is deep;the more I give to thee
The more I have
میں نے سمجھا ایڈورڈ مجھ سے کہ رہا ہے..میں اپنی اداکاری بھولنے لگی.جانے کس نے مجھے ٹہوکا دیا۔
سارہ تم سن رہی ہو….!
وقت پھسل گیا تھا مگر میں پھر بھی سن رہی تھی آج ایڈورڈ کہہ رہا تھا۔
”سارہ مجھے نسیاں کا مرض لاحق ہوگیا ہے.مجھے یقین ہے یہ FAD ہے جو میری ماں سے مجھے وراثت میں ملا ہے.یہ کوئ میری بیماری نہیں ہے جو مجھے مل گئ ہے یہ تو میرے ڈی این اے کا حصہ ہے اب میں کسی طرح اس سے بچاؤ نہیں کرسکتا کوئ راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا کوئ جِین میوٹےشن (Gene mutation) نہیں کر سکتا اپنا ڈی این اے بدل نہیں سکتا.میرے نانا.میری ماں..نسل در نسل موت کے اس کھیل کا اب میں تازہ شکار ہوں تم سن رہی ہو نا….
میں سن رہی تھی سوچ رہی تھی الجھ رہی تھی۔
یہ ایڈورڈ کیا کہ رہا تھا..کیا سچ مچ وہ الزائمر کا شکار ہے کیا اس کے دماغ کے خلیے مر رہے ہیں.مٹ رہے ہیں.وہ کھورہا ہے دھیرے دھیرے کہیں اور…لیکن ابھی ابھی تو ہماری پہچان ہوئ تھی اور ابھی ابھی وہ مجھے بھول جائے گا مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا۔
اوہ گاڈ میں نے بے ساختہ اپنے سینے پر کراس کا نشان بنا کر دعا کی۔
”میرے رومیو کو مجھ سے مت چھین“
میں اسپتال میں بیٹھا ہوا تھا۔
وہی National Hospital for neurology and neuro surgery.central London جہاں برسوں پہلے ڈاکٹر البرٹ نے کنفرم کیا تھا کہ مما کو الزائمر ہے اور وہی ڈاکٹر البرٹ میرے سامنے بیٹھے کہ رہے تھے ۔
Yes he has FAD
( Familial Alzheimer Disease)
یہ Autosomal dominant disease ہے..ہمارے کروموزوم 31 پر واقع تین جٍینس presenilin1(PSEN1
presenilin2 and APP(Amyloid Precursor Protein)ہمارے دماغ میں موجود ایک پروٹین Amyloid کو کوڈ کرتی ہیں اگر ان میں کسی ایک میں بھی mutation ہو جاتا ہے تو مریض Dementia نسیاں کا شکار ہونے لگتا ہے“۔
پتہ نہیں وہ کیا کہ رہے تھے۔ سارہ کا ردعمل کیا تھا.میرا دماغ تو دھواں دھواں تھا.مجھے کچھ سجھائ نہیں دے رہاتھا.ہائے یہ کیا ہورہا تھا.میں یہ کس شیطان کے چنگل میں پھنس گیا تھا الزائمر تو وہ بیماری ہے جو یہ سوچ تک چرالیتی ہے کہ میں کون ہوں.ابھی تک میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ میں ہوں..مگر آج میں کہاں ہوں؟ارے کوئی مجھے یہ بتائیں کہ میں کہاں ہوں.میرا جی چاہا کہ چیخوں چلاؤں۔ہر کسی سے پوچھوںسارہ مجھے گھر لے آئی۔
بیچاری آج کل کتنی پریشان رہتی ہے۔میری بہت دیکھ بھال کرتی ہے اور میں ہوں کہ اس کاشکریہ ادا کرنا بھول جاتا ہوں.میرا دماغ ادھر جاتا ہی نہیں اس پر تو کسی جن نے قبضہ کر لیا ہے۔میں ڈرتا ہوں.چیخ کر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔کہہ نہیں پاتا۔ہر صبح بیدار ہوتا ہوں تو لگتا ہے میرا دماغ دوڑ رہا ہے.میرا دل بھاری ہورہا ہے۔میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر کڑھ رہا ہوں۔آنسو بے اختیار میری آنکھوں سے بہنے لگتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے شب و روز غیر مہمل اور بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔سارہ کہتی ہے میں ڈپریشن کا شکار ہوں۔نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں۔میں ہر لمحہ دعا کرتا ہوں کہ بس نارمل رہوں۔ مصروف رہوں اور اس کوشش میں آج کل میں کچھ زیادہ ہی بشاشت کا اظہار کرنے لگا ہوں۔روز کے ساتھ خوب کھیلتا ہوں۔سارہ کو کچھ زیادہ ہی پیار کرتاہوں۔ مگر مجھے پتہ ہے یہ سب ڈھونگ ہے.میرا مستقبل تو ایک خلاء ہے۔کبھی بہت ڈپیرسڈ ہوجاتا ہوِں۔کبھی خود کو بہلاتا ہوں کہ بس اب یہی میری زندگی ہے۔
الزائمر کے ساتھ ہی مجھے رہنا ہےابھی تو یہ ابتدا ہے ابھی بہت سارے دن باقی ہیں ابھی سے ایسا کیوں؟.پھر ریزہ ریزہ خو کو سمیٹ کر جینے لگتا ہوں کہ روز کا چہرہ دیکھتے ہی دوبارا ٹوٹنے بکھرنے لگتا ہوں.ڈرنے لگتاہوں کہ کل اس کے ساتھ کیا ہوگا اس کے پاس بھی پچاس فیصد جِینس ہونگے کہیں وہ بھی اس موذی بیماری کا شکار نہ ہوجائے اپنی بیماری تو میں کسی طرح برداشت کر لوں گا مگر میری معصوم بچی کی تکلیف کا احساس میرے لئے سوہان روح ہے اور یہ احساس ہر لمحہ مجھے مضطرب رکھتا ہے اوہ گاڈ کیا ہوگا اس کے ساتھ.کیا ایسا کچھ ہو سکتا ہے کہ میں اس سے کہوں۔Rose you cant have itکیا یہ ممکن ہے ۔
ایڈورڈکھو رہا تھا دھیرے دھیرے کہیں اور جانے کس جہاں میں.میں دیکھ رہی تھی اسے شب و روز گم ہوتے ہوئے الزائمر کسی مکڑی کی طرح اس کے ذہن سے چپک گئ تھی.وہ سب کچھ بھولتا جارہا تھاریٹا بھائ سے ملنے اسکاٹ لینڈ سے آئ تو روپڑی
”الزائمر نے ہمارا بٹوارا کردیا سارہ “وہ بولی“میرے حصے کی جِین میرا بھائ لے گیا اب تو ساری زندگی میں اسی احساس تلے مر مر کر جیوں گی کہ میری جگہ میرا بھائ مرگیا“۔
یہ ریٹا کیوں رورہی ہے “وہ خوفزدہ ہو گیا”مم میں“۔
وہ کچھ کہنا چاہتا تھا الفاظ بھول گیا مگر مجھے پورا یقین ہے کہ میں اس کے دماغ میں بیٹھ کر اس کو محسوس کر سکتی ہوںاس کی سوچوں کو پڑھ سکتی ہوں۔ایڈورڈ میرا رومیو ہے.میری زندگی ہے میری پوری دنیا ہے.اور پھر میں خود سے وعدہ کرنے لگی کہ میں اس کا ساتھ دوں گی اس کی دیکھ بھال کروں گی اور اسطرح میں نے اس کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور اس پر ظاہر بھی ہونے نہ دیا ورنہ وہ دکھی ہوجاتا اسے پتہ تھا کہ اب وہ کوئی چھوٹا سا کام بھی انجام نہیں دے سکتا مگر پھر بھی اپنی ذمہ داریوں کومجھے نبھاتے دیکھنا اس کے بس کی بات نہ تھی .وہ بس گھر تک محدود ہو کر رہ گیا تھا اب اس کا کوئی دوست اسے فون کرتا تھا نہ اس سے ملنے گھر آتا تھا۔الزائمر نے سب کے حوصلے پست کر دئیے تھے۔وہ اسے منحوس سمجھتے تھے۔اس سے دور بھاگتے تھے اس کو یوں دیکھتے تھے جیسے وہ کوئی اور دنیا کی مخلوق ہو۔ان سب کا ماننا تھا کہ الزائمر بوڑھوں کی بیماری ہے۔گنہگاروں کی بیماری ہے۔میں پوچھتی ہوں کیا الزائمر کے مریض عزت واحترام کے ساتھ جی نہیں سکتے۔
میں بستر پر لیٹاہواہوں مگر مجھے پتہ ہے میں سو نہیں سکوں گا کیونکہ میرے سونے اور جاگنے کا وقت بدل گیا ہے.میں دن میں کبھی سو جاتا ہوں اور راتوں کو اٹھ کر گھومنے لگتا ہوں یہ جانے بغیر کہ میں کیا کر رہاہوں۔سارہ میری کھوج میں آتی ہے اور مجھ سے پوچھتی ہے یہ کیا ہورہا ہے ؟ تو میں گبھرا جاتاہوں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے کیا کہوں۔کبھی نل کھلا چھوڑ دیتا ہوں باتھ روم میں پانی بھر جاتا ہے مگر سارہ کچھ نہیں کہتی۔ میں خود ہی خجل ہو جاتا ہوں کہ اس کو کتنا تنگ کرتا ہوںابھی میں اس کوستانا نہیں چاہتا میں تو بستر پر لیٹا ہواہوں اوربس یہی چاہتا ہوں کہ سوجاؤں اور ایک خواب دیکھوں۔مگر مجھے پتہ ہے کہ میری نیند کیا اور میرے خواب کیا؟؟میں بے چین ہو کر کروٹ بدلتا ہوں سوچتا ہوں موبائل پر فیڈ کی گئ فوٹوس دیکھوں۔پرانی یادیں بہت دور کی یادیں میں ابھی ان یادوں سے چمٹا ہوا ہوں۔یہ یادیں جیسے مرہم ہیں جس سے میرے زخمی وجود کو راحت ملتی ہے۔ یہ یادیں ابھی دستیاب ہیں.میرے بس میں ہیں جو کسی گیت کے سننے یاکوئ تصویر دیکھنے سے فورا میرے ذہن میں ابھر آتی ہیں اور ان کی جھلملاتی جوت میرے دماغ میں ایک اجالا سا بکھیر دیتی ہے.کبھی یہ اجالا میرے لئیے ناقابل فہم ہوتا ہے اور کبھی یہ بہت زیادہ لو دیتا ہے اور کوئ واقعہ پوری طرح میرے ذہن میں واضح ہوجاتا ہے۔
موبائل گیلری میں جو پہلی تصویر تھی وہ مما کی تھی جو نیلے گاؤن میں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں.میں تصویر میں پوری طرح کھوگیا۔جاگا تو اس وقت جب سارہ میرے آگے کھڑی مجھ سے پوچھ رہی تھی ”آپ تو بستر پرتھے.یہاں بالکونی میں کیسے ملا“۔
”اوہ “میںاضطراب کاشکار ہو گیا”اوکے ایڈی۔ ریلاکس آپ ٹھیک تو ہیں۔نا“ وہ مجھے بہلانے لگی۔
”جانے دیجئیے ۔کوئی مسئلہ نہیں “ وہ مجھے یہ باور کرانے لگی کہ میں بے وقوف نہیں ہوں۔
”غم نہ کریں وہ ڈھارس بندھانے لگی۔جب تک آپ مجھے اور روز کو پہچانتے ہیں تب تک تو سب ٹھیک ہے“۔
ہائے ! یہ سارہ کیا کہ رہی تھی۔میں متوحش سا ہو جاتا ہوں۔اس کا مطلب ہے یہ بیماری اور بڑھے گی اور میں انہیں پہچاننا چھوڑ دوں گا۔
وہ مجھے اپنے کمرے میں لے آئی اور دوبارا مجھے بستر پر لٹا کر تھپکنے لگی کہ میں سوجاؤں.مگرمیں اس کی جانب دیکھ رہا ہوں.اور سوچ رہا ہوں کہ وہ کتنی اچھی ہے.کتنا میرا خیال رکھتی ہے اور میں ہوں کہ اسے کتنا ستاتا ہوں وہ میرے لیے اتنا کچھ کرتی ہے اور میں اس کا شکریہ ادا کرنا بھول جاتا ہوں۔میرا دماغ ادھر جاتا نہیں کیا میں صرف جسم رہ گیا ہوں۔
وہ ایک خوشگوار شام ہے اور میں ایڈورڈ کی دلجوئ کی خاطر اسے تھیٹر لے جارہی ہوں.اور ذہن نشین کرنے کے لئے وہ یہ بات بار بار دہرا رہا ہے۔
”ہمیں تھیٹر جانا ہے…ہمیں تھیٹر جانا ہے…ہمیںٍ… “
وہ جیسے ایک معصوم بچہ بن گیا ہے.جو اٹک رہا ہے..بھٹک رہا ہے.اس کے حال پر جب میرے آنسو آگئے تو وہ خوفزدہ ہوگیا۔
”مم ….میں “اس نے کچھ کہنا چاہا الفاظ بھول گیا”۔
”ارے میں کیا کہ رہا تھا ..سوری میں تو بھول گیا“
”ہمیں تھیٹر جاناہے“ میں نے یاد دلایا ۔
”ارے ہاں “ وہ خوش ہوگیا ” ہمیں تھیٹر جانا ہے.سوری میں بھول جاتا ہوں.مجھے یاد دلاتے رہنا“۔
”ایڈی آپ جانتے ہیں کونسا پلے ہے“۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”رومیو جیولیٹ..یاد ہے نا آپ کو“۔
”آں“وہ بدقت اپنی یادوں سے کوئ دور کا لمحہ لے آیا”کالج میں اسٹیج کیا تھا“
”اچھا “ میں کھل اٹھی۔
”ارے میں نے اپنی بات کہاں ختم کی تھی “ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ بھول گیا
مگر میں سمجھ سکتی ہوں کہ وہ کیا ہیں..؟
کیا یہ میں ہوں….میں نے خود کو محسوس کرنا چاہا..ہاں شاید میں ہی ہوں.پھر لوگ مجھے ایسے کیوں دیکھتے ہیں جیسے میں کوئ اجنبی ہوں اگروہ مجھے سمجھتے تواسطرح مجھے نہ دیکھتے اس کے برعکس وہ میری مدد کرتےمجھے یہ سمجھاتے کہ میں ہوں.ہاں میں ہوں.مگر مجھے لگ رہا ہے کہ میرے اندر کوئ اور ہے.کوئ بہت ہی مختلف اور یہ بہت ہی خوفزدہ کرنے والی بات ہے کہ میرے اندر کوئ ہے.میرا ایک حصہ چاہتا ہے کہ میں کچھہ کروں دوسراچاہتا ہے کہ کچھ نہ کروں.یہ کون ہے جو مجھ پرقابض ہے.کیا یہ کوئ آسیب ہے.اس نے تو میری عزت نفس کو تار تار کر دیا ہے میں چیخ کر کہنا چاہتا ہوں کہ نہیں پاتا
”ایڈی “ آپ ٹھیک تو ہیں نا“ مجھے گم سم دیکھ کر سارہ نے جو مجھے ہلایا تو میں چونک پڑا.اسے خالی نظروں سے دیکھا اور یوں سر ہلانے لگا جیسے کہ میں سچ مچ ٹھیک ہوں۔
”چلئے میں آپ کو ایک دھن سناتی ہوں“۔
وہ پیانو پر کوئ دھن بجانے لگی.وہ اکثر ایسا کرتی ہے.اف ! وہ مجھے کتنا چاہتی ہے میں بھی تو اس سے محبت کرتا ہوں اور جب بھی اس کے قریب ہوتا ہوں اسکے ارد گرد بکھرے لوگ مجھے اس جیسے ہی لگتے ہیں اس لئے میں انہیں چھوتا ہوں اورانہیں برا لگتا ہے.پتہ نہیں یہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے.کیوں انہیں اچھا نہیں لگتا کہ کوئ انہیں چھوئے.سارہ کہتی ہے مجھے کسی اجنبی کو نہیں چھوناہے میں پوچھتا ہوں کیوں؟سارہ میری بات نہیں سمجھتی کوئی مجھے نہیں سمجھتا۔ایسا کیوں ؟؟
یہ ممکن نہیں کہ وقت رک جائے.تھم جائےاور میرا ایڈی مجھے مل جائےمگر اب تو مجھے پہچانتا بھی نہیں۔وہ تو کسی کو بھی نہیں پہچانتا۔جو کچھ وہ جانتا تھا سب بھول چکا تھا وہ تمام رشتے جو اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھے اب اس کے لئے کوئ معنی نہیں رکھتے تھے.وہ لوگ جن کے ہونے کو ہم زندگی کہتے ہیں دماغ سے اگر رخصت ہوجائیں تو پھر کیا رہے گا۔یوں تو انسان حقیقتاً اپنی سوچوں میں اپنے دماغ میں ہوتا ہے۔یادوں میں ہوتا ہے.اگریاد یں ہی نہ رہیں تو پھر زندگی بھی نہ رہے۔ایڈورڈ پتہ نہیں اب کس دنیا میں تھا۔اس کی زبان لڑکھڑانے لگی تھی وہ سیدھی طرح بول نہیں سکتا تھا خود کو سمجھا نہیں سکتا تھا مگر اس کے ارد گرد کیا ہورہا ہے یہ سمجھ ضرور سکتا تھا چیزوں میں ابھی اس کی دلچسپی برقرار تھی۔اپنے قریب پائے جانے والے چہروں کا وہ اب بھی نوٹس لیتا تھا مگر الفاظ اس کے ذہن سے پھسل جاتے تھے اور وہ فوراً افسردہ.مایوس اور خوفزدہ ہوجاتا تھا۔میں شب و روز اس کو یقین دلاتی رہتی ہوں کہ اب بھی بہت ساری یادیں ہیں جو اس کے اندر باقی ہیں .گھر کی روز کی میری اور اس کا چہرہ چمکنے لگتا ہے۔
میں اکثراپنا فیملی البم کھولے اس کو یاد دلانے کی کوشش کرتی ہوں۔
”ایڈی چلئے ہم کچھ فوٹوس ڈھونڈتے ہیں“میں اوراق پلٹتے ہوئے کہتی اور وہ یادوں کی راہگذر پر چلنے لگتا۔
”دیکھئے“میں ایک صفحہ کھولتی”یہ پلے کی تصویر ہے اور آپ رومیو بن کر کس قدر ہینڈسم لگ رہے ہیں“وہ خوش ہونے لگتا۔
”یہ دیکھئے“میں ایک اور صفحہ الٹتی”یہ ہماری شادی کی تصویر ہے اور آپ اس سوٹ میں کتنے اسمارٹ لگ رہے ہیں.یہ سوٹ ابھی تک رکھا ہا ہے..آج پہنادوں“۔
کک کیا پہننا ہے “ وہ پوچھنے لگتا۔
وہ ایک لمحہ ایک چھوٹا سا لمحہ وہ لمحہ اس کے ذہن سے پھسل جاتا وہ لمحہ بھول جاتا سارا سحر چلاجاتا شادی والی یاد رفع ہو جاتی۔پلے والی یاد کھو جاتی اور میری آنکھوں میں آنسو آجاتے۔اوہ گاڈ کتنادشوار ہوتا ہے بار بار سب کچھ بھول جانا..یادداشت کاچلا جانا تو ایسا ہے جیسے کوئ قسطوں میں خودکشی کرے.میرا ایڈی جو اچھے لباس کاشوقین تھا۔مہنگی پرفیومس کا دیوانہ تھا آج کیا رہ گیا تھا ایک خالی سیپ مگر میرے جذبوں سے بے خبر وہ اکثر گم سم ہوتا۔کیا ان لمحوں میں وہ خود کو محسوس کر رہا ہوتاہے۔
”ایڈی ”میں مضطرب ہوجاتی”کیا سوچ رہے ہیں مجھے پتہ ہے آپ دور ہیں بہت دور آپ کوئی بہت دور کا واقعہ سوچ رہے ہیں کوئ ایسا واقعہ جو ماضی میں ہم نے شئیر کیا تھا وہ لمحات جو اہم ہیں اب آپ کے ذہن میں نہیں ہیں.کاش میں کسی طرح وقت کو منجمد کرسکتی۔آپ اسی طرح جوان زندگی سے بھرپور رہتے۔خوشیاں بانٹنے والے.مجھ سے محبت کرنے والے۔مگر پتہ نہیں کون کونسی گرہوں نے آپ کے دماغ کو جکڑ رکھا ہے۔یہ خیال ہی میرے لئے سوہان روح ہے کہ آپ مجھے نہیں پہہچا نتے آپ کے ذہن کے بھیگے کاغذ میں لپیٹے ہوئے سارے لمحات مٹ چکے ہیں“۔
میں اپنے خیالوں میں کھو جاتی اور پھر چونک کر دیکھتی وہ یونہی گم سم بیٹھا رہتا۔یا سویا رہتا ۔”اوہ سوری ایڈی“ میں پشیمان ہوجاتی“ میں تو کچھ اور سوچ رہی تھی۔مجھے تو آپ کو سوچنا چاہئے تھا آپ کا خیال رکھنا چاہئے تھا“۔
کبھی وہ سو رہا ہوتا تو کچھ آنسو اس کے گالوں پر بہ رہے ہوتے اور میں تڑپ اٹھتی.پتہ نہیں وہ کونسی یادیں ہیں جو اب بھی اسے ستاتی تھیں.رلاتی تھیں.کاش مجھے اس کا پتہ ہوتا پھر میں دعا کرنے لگتی..اوہ گاڈ کچھ ایسا کر کہ میں ان یادوں میں رہوں۔
ایڈی آپ سن رہے ہیں….نا !!
مما بول رہی تھیں مگر ڈیڈ نے سننا چھوڑ دیا۔
پھر مما نے بھی بولنا چھوڑ دیا لکھنا چھوڑ دیا۔
مگر میں نے ان کے بلاگ پر جانا نہ چھوڑا..اپنے حالات اس دنیا سے شئیر کرنا نہ چھوڑا۔
دھیرے دھیرے وقت آگے گزر گیا بہت آگے۔
ڈیڈ اب پوری طرح کھوچکے تھے.وہ بولنا سننا کھانا پینا چلنا پھرنا سب بھول چکے تھے.پتہ نہیں وہ اب کہاں تھے نہ زندہ نہ مردہ.نہ زمین نہ آسمان..نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا..پھر وہ کہاں تھے؟ شاید وہ کوئ تیسری دنیا ہوگی جہاں وہ تھے اور پتہ نہیں وہ دنیا کیسی تھی..میرے ونڈرفل ڈیڈ ابھی تو وہ صرف ٤٥برس کے تھے ابھی تو انہیں پوری دنیا دیکھنی تھی.مگر وہ خالی سیپ ہو کر رہ گئے تھے بس ایک آخری لمحے کے منتظر جب وہ اپنی سانس بھی لینا بھول جاتے۔
اور میری غریب مما انہوں نے تو پورے دس سال ڈیڈ کی خدمت کی.انکی دیکھ بھال کی راتوں کو جاگ کر انہیں سنبھالا.ہر پل ان کے ساتھ رہیں.ڈیڈ کو کبھی تنہا نہ چھوڑا..ڈیڈ تو ان کی دنیا تھے پوری اور مکمل دنیا۔
اور وہ ڈیڈ میں کچھ اس قدر محو ہوگئیں کہ انہیں خود پر دھیان دینے کی فرصت کبھی نہ ملی وہ جیسے خود کو فراموش کربیٹھیں۔اپنی صحت اور اپنے وجود سے بے نیاز ہوتی چلی گئیں۔ڈیڈ کو زندگی دیتے دیتے انہیں یہ پتہ ہی نہ چلا کہ کب ان کی اپنی زندگی ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔برسوں کی اس خودفراموشی نے بےنیازی نے دھیرے دھیرے اپنا رنگ دکھایا۔ان کی صحت جواب دے گئی۔کئی بیماریوں کو انہوں نے اپنے اوپر اوڑھ لیا۔وہ محض ایک ڈھانچہ بن کر رہ گئیں۔آخرکار وہ دن بھی آگیا جب وہ خود اپنی دیکھ بھال کرنے کے قابل نہ رہیں وہ ڈیڈ کو کیا سنبھال پاتیں۔مجبوراً ڈیڈ کو کئیر ہوم میں منتقل کرنا پڑا۔مگر مما کو پھر بھی اپنی محبت پر بھروسہ تھا کہ وہ ڈیڈ کو سنبھال لیں گی۔اپنی زندگی ان کے اندر رکھ دیں گی.انہیں مرنے نہ دیں گی۔مگر گاڈ کو یہ منظور نہ تھا مما کی ساری تپسیا ایک کرب۔مایوسی اور ناامیدی میں ڈھل گئی۔وہ گم سم ہوگئیں۔چلتی پھرتی لاش بن گئیں۔
ہائے وہ جان لیوا لمحہ۔بالاخر وہ لمحہ بھی آگیا جب ڈیڈ سانس لینا بھول گئے۔ میرے ونڈرفل ڈیڈ آج وہ ہمارے ساتھ نہیں مگر ان کی وہ موذی جین۔کیا پتہ وہ میرے اندر ہو…مما ڈرتی ہیں مگر میں نہیں ڈرتی.الزائمر آج لاعلاج ہے۔کل تو نہیں ہوگا۔میں خود ایک ڈاکٹر ہوں اور الزائمر کو چیلینج کرتی ہوں۔
اے الزائمر شاید تم مجھے ایک دن پالوگے مگر اس سے پہلے میں تمہیں ڈھونڈ لوں گی
I will do everything to get you first
;;;