پھروہی صبح تھی ۔۔۔ ایک اوردن۔ اوراس دن کے وہی تقا ضے وہی بوجھل کثیف لمحات ۔ اوروہی دومختلف جہانوں کابوجھ، جس کوریزہ ریزہ ڈھوتے ہوئے نغمہ نے بے اختیارسوچاکہ اس کی دنیامیں سب کچھ بخیرکیوں نہیں؟
وہ Low cost Housing پراجکٹ کولے کربہت دنوں سے ٹینشن میں تھی کل رات بھی وہ پوری طرح سونہیں پائی تھی، اس وقت بھی سربھاری ساہورہاتھا، آنکھیں جل رہی تھیں، جی متلارہاتھا، اور وہ چپ ،چاپ ،گم سم، اپنے آپ میں ڈوبی ، ٹوٹتی بکھرتی میڈسرونٹ کے ساتھ کچن میں جھلس رہی تھی کہ دفعۃًناظرچلایا۔
’’ممی میری میاتھس بک کہاں ہے‘‘
’’آں‘‘وہ بری طرح چونکی۔
’’ تمہاری چیز ہے ناظر‘‘ اس نے سنبھل کرآواز لگائی ۔
’’تمہیں پتہ ہونی چاہئے ‘‘
مگروہ دس سالہ لڑکا کچھ اتناغیرذمہ دار ، لاابالی اورنکھٹوتھاکہ اس سے کچھ بھی نہ سنبھلتاتھا۔۔۔اُف !بچوں کولے کرہرلمحہ ایک مسئلہ تھا، ہرپل ایک ٹینشن۔
’’پاپاسے کہوکہ بیگ ڈھونڈدیں‘‘
’’پاپانہیں ممی آپ ‘‘وہ اڑگیا۔
’’تم کسی دن میری جان لے کررہوگے ناظر‘‘
وہ بری طرح جھلائی اور پھرجیسے ساری ٹینشن اس نے بیٹے پراُتاری ، اس کو کچھ اتناڈانٹا، برابھلاکہاکہ وہ خود پشیماں ہوگئی ۔اس کی بک تومل گئی مگروہ اپنے وجود کے تاریک کھنڈرمیں بھٹکنے لگی۔
وہ شہرکی ایک نامورArchitecture firm میں دیزائین انجینئرتھی، اس کاایک شاندارکرئیرتھابھرپورگھربھی تھا، لیکن وہ کبھی کریئراورفیملی لائف میں Balance نہیں کرپائی تھی، ابتدامیں فقط کریئرہی کرئیرتھااورفیملی لائف میں اس کی ممی اورعبادنے بہت ساتھ دیاتھامگربچے جیسے جیسے بڑے ہونے لگے ان کوماں کی غیر حاضری کھلنے لگی ۔ اس کی کمی محسوس ہونے لگی ، اوروہ اس سے کچھ زیادہ ہی Expect کرنے لگے ، اب تو یہ عالم تھا کہ انہیں کچھ نہیں صرف ماں چاہئے تھی، وہ بہت کوشش کرتی تھی کہ ان کی امیدوں پرکھرااترے ، مگرکریئر کے تقاضے اس کی راہ میں حائل ہوجاتے تھے۔اوربارباراپنادامن بچاتے ہوئے یا ان کو بہلاتے ہوئے ۔ یاان کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ بہت زیادہ دکھی ہوجاتی تھی۔ وہ ان کو زیادہ وقت نہیں دے سکتی تھی ، Job بھی نہیں چھوڑسکتی تھی ، پوزیشن ،دولت ، روشن مستقبل سب کچھ اتنی آسانی سے تووہ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھی۔ مگربچے بھی نہیں سمجھ رہے تھے ، باربارضدپراڑجاتے تھے ۔ چوبیس گھنٹے اس کے دامن سے بندھے رہناچاہتے تھے ۔ اپنے فرینڈ س کی ماؤں کو دیکھ دیکھ کروہ خود بھی اپنی ماں کی قربت چاہتے تھے ، جانے وہ اتنے باؤلے کیوں ہورہے تھے۔
سرونٹ نے ناشتہ لگایا مگر دونوالے انہوں نے کھائے نہیں کہ زویاچلائی۔
’’ممی چپاتی سخت ہے‘‘
’’کری بھی ٹھیک نہیں ‘‘ ناظرنے بھی برا سامنھ بنایا ، نغمہ کوپتہ تھاکہ ایساہوگاوہ ریڈی میڈاشیا ء کی عادی اپنے پکوان میں ذائقہ اورصحت کہاں سے لاتی اوربچے تھے کہ ہمیشہ مصررہتے کہ کھانا ممی بنائیں گی۔
’’ممی‘‘ناظرمنمنانے لگا، ’’رینا آنٹی کتناچٹپٹاکھانابناتی ہیں‘‘ چھن سے نغمہ کے اندرکچھ ٹوٹ ساگیا، پندارکو ٹھیس سی لگی، بچے جب دیکھو، اس کاموازنہ اپنے فرینڈس کی ماؤں سے کرتے تھے جیسے کہ اس کواحساس دلانا چاہتے ہو کہ وہ ایک اچھی ماں نہیں ہے ۔
’’ناظر‘‘ وہ چلائی ۔
’’کتنی بارتمہیں سمجھایاہے کہ تمہاری ممی ایک ورکنگ لیڈی ہے ۔ جسے آفس بھی جاناہے وہاں کی ذمہ داریاں بھی نبھانی ہیں اورتمہاری رینا آنٹی تو بس ایک ہاؤس وائف ہے۔‘‘
’’آپ کیوں ہاؤس وائف نہیں ممی‘‘ بس ، ایک ہی سوال ۔ ایک چھوٹا ساسوال ، باربار ، بچوں کے لبوں پر مسلسل ، پیہم لگاتاراوروہ انہیں کیابتاتی ، کسے سمجھاتی ، اسے خود پتا نہ تھاکہ وہ ایک ہا ؤ س وائف کیوں نہیں ہے؟شاید انا کا ادراک ہو، یاخود مختاری کانشہ ، آزادی کا احساس یا انفردیت کی تلاش ، یااپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا جذبہ ، یاشخصی اور معاشی آزادی ، یافقط روپیہ ، پیسہ ، عیش وآرام ۔
’’بکواس بندکرو ‘‘ اس نے دونوں کوڈانٹا۔
’’ممی کوتنگ نہیں کرتے بیٹا‘‘عباد بولا۔
’’وی آرفیملی ہمیں انہیں سپورٹ کرنا چاہئے ، آؤ چلو میں تمہیں کھلادوں ‘‘
ادھرزویابھی کچھ نہیں کھارہی تھی ۔
’’عباد اسے بھی کھلادیں ‘‘وہ جھٹ پٹ اپنے بال سمیٹتے ہوئے بولی اُف! کس قدر تنگ کرتے تھے یہ بچے ، وہ آفس کو لیٹ ہورہی تھی ، مگروہ سمجھتے کب تھے ۔ بے بس سی نغمہ نے عجلت میں اس کے منھ میں نوالے ٹھونسنے شروع کئے کہ وہ الٹی کرنے لگی، پتہ نہیں اس کی غیرموجودگی میں وہ کیا الم غم کھالیتی تھی کہ اکثر بدہضمی کاشکاررہتی تھی ، قصور واروہ خودتھی کہ بچوں کاخیال نہ رکھ پاتی تھی مگرڈانٹااس نے زویا کو، اور جھٹ سے کوئی Antacid سیرپ پلایا ۔ بچوں کولے کرہرلمحہ ایک مسئلہ تھاہرپل ایک ٹنیشن عباددونوں کوڈراپ کرنے کو تیارکھڑاتھا ، اس نے جھٹ پٹ زویا کو لمبی لمبی ہدایتیں دیں مگر اسے خوب پتہ تھا کہ وہ کسی بات پرعمل نہ کرے گی۔ بھلاآٹھ سالہ بچی کو کیاپتہ کہ زندگی ہے کیا؟ وہ خو دکو کیاسنبھالتی ؟ کیسے اپنادھیان رکھ پاتی۔
اندرا نوئی کی آواز۔۔۔ہر نازک دل کی گونج بنی ہوئی تھی، Women Can’t have it all کیاواقعی ایسا ہے نغمہ اپنے کیبن تک چلتے ہوئے ان عورتوں کو دیکھتی رہی جو اس کی فرم میں ملازمت کررہی تھیں، ان میں کئی ایک کی فیملیس بھی تھیں، کیاان میں موجود ہرعورت کے اندر یہی کشمکش ہے جواس کے اندرہے؟
اگر واقعی ایسا ہے تو ایساکیوں ہے ؟ وہ الجھ سی گئی کیبن پہنچ کروہ اپنے چیئرپر ڈھیرہوگئی ، کام کرنے کو دل بالکل نہ چاہا۔ رہ رہ کرا س کو اپنی وہ کوتاہیاں یا دآنے لگیں جو اس سے سرزد ہوتی تھیں ۔ابھی کل رات ہی کوناظرآیاتھا اس کے پاس
’’ممی مجھے یہ پرابلم نہیںآتی‘‘ اس نے کہاتھاتو وہ بگڑگئی۔
’’ اپنے مسئلے کا حل تم خودتلاش کرو ناظر‘‘
اب دس سالہ لڑکااپنے مسئلے کاحل کیسے تلاش کرتا ایسے کئی واقعات تھے ،جہاں وہ ایک ماں بنے میں بری طرح ناکام رہی تھی ایسے میں بچوں کی مکمل تربیت اور صحیح پرورش ہوتوکیسے؟ اوروہ ایک نیک انسان بنے توکیونکر؟شایداس دن کی خاطر جب وہ ڈیوٹی جوائن کررہی تھی تواس کی ساس نے کہاتھا۔
’’ عورت گھرکی زینت ہے نغمہ اس پر باہرکی ذمہ داری ڈالنا ظلم ہے ۔ عباد کماتاتوہے تم گھرپررہواوربچوں کی صحیح پرورش کرو ، یادرکھو عورت سب سے پہلے ایک ماں ہے جس کی گود میں ایک پوری نسل پروان چڑھتی ہے ‘‘۔
اورAggressive نغمہ کولگاتھاکہ وہ ایک روایتی ساس ہیں جو اس کوگھر میں مقید کرناچاہتی ہیں تاکہ اس کی حیثیت ہی کسی کونے میں پڑی میز یاکرسی سے زیادہ نہ ہو ، مگرآج اس کو لگ رہاتھاکہ وہ کتنی سچ تھیں۔
اف!! اس کی الجھن صدیوں کی تھکی ہوئی ویرانی پرمحیط ہوگئی۔
’’کیابات ہے میڈم ، خیریت ‘‘ وہ سریتاتھی اس کی ماتحت۔
آں ہاں۔۔۔ وہ سنبھل گئی اور غور سے سریتاکودیکھا۔
’’ ایک بات بتاؤ سریتاکیاتم اپنے کریئراورفیملی لائف میں صحیح بیلنس کرتی ہو‘‘
’’واٹ‘‘ سریتاحیران ہوئی اسے میڈم سے اس سوال کی توقع نہ تھی۔
’’ Just پوچھ رہی ہوں ، بتاؤ‘‘۔
’’نومیڈم ، بہت مشکل ہے ، میرابیٹاہمیشہ میری راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے، کریئر اورفیملی ۔۔۔میں توتھک جاتی ہوں‘‘
اچھا‘‘ نغمہ جیسے اپنے آپ سے بولی ۔
’’میری ساس کہتی ہے کہ آج کی ماں توتھکی ہوئی ناری ہے جس کو ملک اورقوم کے معماربنانے ہیں بلکہ میں اپنے آپ کومنواناہے ‘‘ سریتابولی ۔
تھکی ہوئی ناری۔نغمہ کادل بری طرح دھڑک گیا۔ کیاواقعی ؟ لیکن آفس میں اس کے پاس اتنی فرصت کہاں تھی کہ بیٹھ کرسو چتی۔
Low cost housing ملک میں ایک بہت بڑا Trend تھااوراس پراجکٹ میں ان کے فرم کو یہ اعزاز حاصل تھاکہ وہ شہر کے ایک نامورSlum میں اس پرتجربہ کررہے تھے جس کی وجہ سے وہ اکثر میڈیامیں رہنے لگے تھے، وہ تو اپنے کریئر میں کہیں کاکہیں پہنچ چکی تھی مگر اپناگھر، کیاوہ اس محاذ پرناکام رہی تھی۔
شام کے گہرے ہوتے ہوئے سایوں میں گھرلوٹتے ہوئے وہ ہچکچارہی تھی۔آج ناظرکی اسکول میں پیرنٹ ٹیچر میٹ تھی، اور وہ ناظر سے وعدہ کرنے کے باوجود بھی اس میں جانہ سکی تھی۔اوراسے پتہ تھاکہ ناظر اس بات کولے کر ناراض ہوگااور زویابھی اس کا ساتھ دے گی۔
گھرپہنچتے ہی اس نے دیکھا ، چاروں طرف سناٹاتھا اس نے جھٹ سے خود کوآنے والے واقعات کے لئے یتار کیا ، اورفوراًہی کچن کی راہ لی کہ جلدی سے کوئی ڈش بنادے گی اور ناظر کو منالے گی، مگریہ کیا؟ کچن پہنچتے ہی ان دونوں کوعبادکے ساتھ وہاں موجود دیکھ کرسٹپٹاگئی ، اسے اپنے آنکھوں پریقین نہ آیا خلاف توقع ممی کانعرہ لگاکر زویا اس سے آلپٹی تووہ اور بھی حیران رہ گئی ، ناظر کاموڈ بھی اچھا لگ رہاتھا۔
’’کک کیاہورہاہے ، ناظر آئی یم سوری بیٹے‘‘
’’نیور مائنڈ۔۔۔ وہ مسکرایا تو اس کی ڈھارس بندھی۔
’’ تھینکس بیٹا۔ میں جھٹ پٹ تمہارے لئے کچھ بناتی ہوں‘‘ وہ بولی ’’چٹپٹاہی بناؤں گی ‘‘
’’نوممی آپ کی پسند یدہ ڈش آج ہم نے بنائی ہے ، چلئے آپ فریش ہوجائیے ‘‘
اپنے گھرکے بدلے ہوئے ماحول کودیکھ کر وہ حیران بھی تھی اور خوش بھی ، اس کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟اور اس کو پسندیدہ ڈش کھلا تے ہوے نا ظر بو لا ،،
’’ممی ہماری ٹیچرکہہ رہی تھی کہ سبھی عورتیں گھر بناتی ہیں مگرآپ جیسی عورتیںNation بناتی ہیں۔ آپ میری نہیں پورے دیش کی ماں ہیں ،،
اور نغمہ کولگا جیسے اس کے اچانک پنکھ نکل آے ہوں اور وہ اڑ کر آسمان پرجا بیٹھی ہو۔
’’و ی آر فیملی ہم آپ کو سپورٹ کریں گے ‘‘ وہ دونوں اس کے گلے لگ گأ ۔
کون کہتا ہے کہ آج کی ماں ایک تھکی ہوئی ناری ہے ،نغمہ نے بے اختیار سوچا ۔ نہیں وہ تو ایک ایسی ناری ہے جو خود ملک اور قوم کی معمار ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...