میں جب بھی ان کا کوئی حکم بجالاتی ہے مجھے اس کٹھ پتلی کی یاد ضرور آتی جو کسی دن موئے اس Puppet Show میں دیکھی تھی ۔ کیسے تھرک تھرک ناچتی تھی وہ اورمیری جو ڈور پیاسنگ بندھی تھی ۔ میں توکہیں نہیں تھی ۔۔جو بھی تھے وہ ہی وہ تھے ۔ لیکن کبھی کبھی من بہک اٹھتا ۔۔پندار کوٹھیس سی لگتی ہے ۔انا کا ناگ پھن پھیلا ئے کھڑا ہوجاتا تو کون ومکان میں ایک ہلچل سی مچ جاتی نہیں ۔ آسیہ نہیں ‘‘
اورتب کہیں اندر ۔دادی جان کی آوازایک پھوار سی برساتی آسیہ ۔شوہر مجازی خدا ہوتاہے ۔۔اس کی رضا میں تمہاری رضا ہے ۔ اس کی خدمت کرو۔ اوراس کا دل جیت کر اپنے لئے جنت کمائو ‘‘اورمیں یہ جنت کماہی رہی تھی کہ کسی دن وہ یہ حکم لے آئے آسیہ ۔تمہیں گرام پنچایت چنائو لڑنا ہے ‘‘
میں ششدر سی ان کا منہ تکنے لگی ۔کہاں مجھ جیسی نیم خواندہ گھریلو عورت اورکہاں سیاست ۔!
سیٹ گروپ اے کی عورت کے لئے مخصوص ہے ‘‘وہ کہہ رہے تھے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ میں سب سنبھال لوں گا‘‘اوروہی کٹھ پتلی تھرک تھرک ناچتی وہ کٹھ پتلی میری آنکھوں میں آبیٹھی انتخاب کے دوران کیا کیا ہوا مجھے کیا معلوم ۔میں تو بس داخلہ فارم جمع کروانے گئی تھی ۔یہی لے گئے تھے مجھے ۔سرتا پا برقعے میں ملبوس منڈ ل آفس میں اپنے دستخط کیلئے اورلوٹ آئی ۔ پھر میں گرہستی تھی اورمیرے گھریلو امور ۔ جو ان دنوں کچھ زیادہ ہی ہوگئے تھے کیونکہ ہر دن پارٹی ورکرس کی تواضع ہی کرتے تھے ۔ اوراس کا سارا انتظام مجھ ہی کو کرنا پڑتا تھا ۔ میں کہنے کو ایک امیدوار تھی مگر مجھے کوئی آسیہ کے نام سے نہیں ساہوکار شجاع کی بیوی کے نام سے ہی جانتا تھا ۔ یہی میری شناخت تھی اوریہی میری پہچان مخالف پارٹی کی امیدوار بی بی کا بھی یہی حال تھا ۔ دراصل یہ انتخاب آسیہ اورشمیم کے درمیان نہیں ان دونوں کے شوہر وں کے درمیان تھا ۔عورتوں کا سارا وجود تو بس کاغذی تھا ۔ یہ بھی تو استحصا ل ہے ۔ شاید ہو ۔میری پا س اتنی فرصت کہاں کہ بیٹھوں اورسوچوں اوروہی کٹھ پتلی تھرک تھر ک ناچتی ۔ وہ کٹھ پتلی میری آنکھوں میں آبیٹھی ‘۔
تقریبا ایک ماہ تک انتخابی سرگرمیاں چلتی رہیں اورمیں ایک لمحہ بھی گھر سے باہر نہیں نکلی کام چوبیسیوں گھنٹے کام ۔ اور شوہر سے یہ سننے کو ملتا ۔ خود کے لئے ہی تو کررہی ہو ۔گرام پنچایت ممبرجو بن رہی ہو ۔ اورمجھے دیکھونا ۔ تمہارے لئے کتنا بھاگ دوڑ کررہاہوں ۔ دن رات بھاگ دوڑ ۔ ہیر پھیر ۔ جوڑ توڑ ۔۔ نتیجہ ظاہر تھا میری کامیابی ۔لیکن یہ کیسی کامیابی تھی ۔نتیجے والے دن عربین کو تیز بخار تھا ۔ اورمیں بچی کی تیمارداری میں لگی ہوئی تھی ۔ ان سے سناکہ میری جیت پر سب نے انہیں کاندھوں پر اٹھالیا ۔ ہاروں سے لاددیا۔ اب میں گرام پنچایت ممبر تھی ۔ پھر جب بھی میٹنگیں بے ہوتیں یہ مجھے منڈل آفس لے جاتے ۔ میں بر قع میں ملبوس تین اور عورتوں کے ساتھ جو میری ہی طرح ممبر ہوکر آئی تھیں ایک کرسی پر بیٹھی سارا وقت ا س ادھیڑبن میں ہوتی تھی کہ مجھے گھر جاکر کیا بنا نا ہے ۔ کہیں گڈو اسکول سے لیٹ نہ ہوجائے ۔ عربین ٹھیک سے ٹفن کھاتی بھی ہے یا نہیں ۔ ۔ اپنی مادری زبان میں واجبی سی تعلیم حاصل کی تھی ۔ کسی اور زبان کی شدبد نہ تھی ۔ سارے مرد جانے کونسی جناتی زبان بولتے تھے ۔ ان کے حرکات و سکنا ت سے اس با ت کا گمان ہوتا تھا کہ وہ گائو ں کو جنت کے نمونہ بنا دیںگے ۔ مگر آتے جاتے دیکھتی ہی تھی کہ گائوں اب بھی ترقی سے بہت دور کھڑا ایک ایسے دھرتی پتر کے انتطار میں ہے جو انقلاب لادے ۔
کبھی کبھار گفتگو کا موقع جو مل جاتا تو اپنی ساتھی ممبر عورتوں کے ساتھ خالص نسوانی باتیں ہواکرتی جو گھر ،شوہر سسرال اوربچوں کے ارد گرد گھومتی تھیں ۔وہ جانے کو ن کونسے کاغذات لے کر آتے کہ میں دستخط کردیتی پڑھی لکھی تو تھی نہیں کہ انہیں دیکھتی ۔ اگر اس بات کا مجھے علم بھی ہوجائے ۔ کہ ان کاغذات میں کیا ہے تب بھی میں اپنے شوہر کی حکم عدولی تو نہیں کرسکتی تھی ۔ میں تو اپنے لئے جنت کمارہی تھی ۔ اب مجھے کیا پتہ میرے شوہر کے قدم کس راستے پر ہیں ۔اڑتے اڑتے مجھے یہ خبر ملنے لگی کہ یہ بہت سارا پیسہ بنارہے ہیں ۔ منڈل کے پیسوں میںہیرا پھیری ہورہی ہے ۔ جورقم گائوں کی ترقی کے لئے آتی ہے اس میں خرد برد ہونے لگی ہے ۔ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ ایسانہیں ہونا چاہیے لیکن میں یہ سب کیوں سوچ رہی ہوں ۔ مجھے تو بس شوہر کی خدمت کرنی ہے ۔ اپنے لئے جنت کمانی ہے ۔ لیکن جب سے گرام پنچایت ممبر ہوئی ہوں ۔ شایدہ کچھ زیادہ ہی غورو فکر کرنے لگی ہوں ۔ جو میرے گھر اورمیری صحت کے لئے ٹھیک نہیں مگر کیا کروں ؟ میں لاکھ نیم خواندہ سہی مگر کند ذہن نہیں ہوں میرا نام لے کر میرے شوہر جانے کیا کیا دھاندلیاں کررہے ہو۔ میں سب سمجھ رہی تھی ۔ لیکن اتنی وفادار بیوی تھی کہ اپنی آواز نہیں پیدا کرسکتی تھی ۔ اپنی چپ کو نہیں توڑ سکتی تھی ۔ ان کے کسی معاملے میں نہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتی تھی ۔ ۔ لیکن کبھی کبھی من بہک اٹھتا۔ پندار کو ٹھیس سی لگتی ۔ انا کا ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہوجاتا تو کون مکان میں ایک ہلچل سی مچ جاتی۔ نہیںآسیہ ۔ نہیں ‘‘ اورتب کہیں اندر ۔دادی جان کی آواز ایک پھوار سی برساتی’’ ـشوہر مجازی خدا ہوتا ہےاس کی رضا میں تمہاری رضا ہے۔ اس کی خدمت کرو اوراس دل جیت کر اپنے لئے جنت کمائو‘‘میں اپنے لئے جنت کمارہی تھی کہ کسی دن سنا کہ یہ تو پورے دوزخ میں جاگرے ہیں ۔ یہ کیا منہ لے کر کہتے ۔ دوسروں سے سنا ۔ گرام پر دھان کسی لڑکی سے بلا ت کار کے جرم میں ملوث ہے ۔ اوریہ اس کے ساتھ ہیں ۔
اف!! کس بے وفا سے میں نے عمر بھر وفا کی تھی ۔ میرا من بہک اٹھا ۔ پندار کو زبردست ٹھیس لگی ۔ انا کا ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہوگیا ۔ میرے کون و مکان میں ایک ہلچل سی مچ گئی ۔نہیں آسیہ ۔ نہیں ۔ تم اس Puppet Show کی کٹھ پتلی نہیں ‘‘اورمیں نے اپنے اندر ایک عورت کو جاگتے محسوس کیا جس کا اپنا ایک ذہن تھا ۔ آواز بھی تھی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...