وہ ایک سڑک جودل سے دماغ تک جاتی تھی میری اس پرکنفیوژسی کھڑی تھی آج اس نے پھروہی خواب دیکھاتھاکہ ماں میری کی گودخالی ہے اوروہ چرچ میں اکیلی اداس دلگرفتہ سی سرجھکائے کھڑی ہیں۔کیوں؟کیوں دیکھتی ہے وہ یہ خواب۔باربارلگاتارکہتے ہیں جوخیال شدیدہوتے ہیں وہ نیندوں میں بھی ابھرکرآتے ہیں اوریہ سچ تھا۔یہ خیال یہ شدیدخیال،یہ اپنی خالی گودکاخیال،یہ خیال ہرلمحہ میری کومضطرب رکھتاتھا۔نورکی وہ ایک ننھی سی کرن جوبالکل مصنوعی طریقے سے اس کے وجودمیں داخل کی گئی تھی وہ کسی سورج کی طرح اس کے اندرروشن تھی اوراس کے طلوع ہونے کے دن جیسے جیسے قریب آرہے تھے ’’میری‘‘کولگ رہاتھااس کی گودخالی ہونے والی ہے۔
دنیاکی بہت ساری عورتیں ماں بنتی ہیں تواس قوی احساس کے ساتھ کہ ان کی کوکھ میں پروان چڑھ رہاہے وہ ان کااپناہے لیکن میری جس کوجنم دے رہی تھی وہ اس کانہیں تھا،بھومیکاکاتھا۔جارج کہتاہے یہ سروگیسی ہے جس کی ایک بھاری رقم انہیں بھومیکااوراس کے پتی روی سے ملنے والی ہے۔لعنت ہوایسی رقم پر۔یہ جارج نے کیاکردیاتھا؟اس کی کوکھ کابیوپارکیوں کیاتھا؟’’گاڈمجھے معاف کردو،میں گناہ گارہوں،مجھے بخش دو‘‘ وہ سینے پرصلیب کانشان بناکراپنی مغفرت کی دعاکرنے لگی کہ دفعۃً اس کولگاوہ اس کی کوکھ میں مچل رہاہے ۔اکثریہی ہوتاتھاوہ اس کی کوکھ میں مچلتا تھا، ہمکتا تھا ، لپکتا تھا، بلکتا تھا، تڑپتاتھا،اف؛وہ اس کی ہرسوچ ،ہرخیال سے کس قدرہم آہنگ تھا۔وہ جس کسی جذبے کے زیراثرہوتی تھی وہ بھی اسی جذبے سے متأثرنظرآتاتھا۔یہ اٹوٹ ناطہ،یہ لازوال رشتہ،یہ لافانی بندھن،اتنی کشش،پھربھی وہ بھومیکا کاہے ، کیوں؟؟
یہ سائنس کاکونسامذاق ہے ۔
’’جارج‘‘اس نے بہت چپکے سے جارج کواپناہم خیال بناناچاہا
’’کیایہ ضروری ہے کہ بچہ ہم روی صاحب کے حوالے کردیں‘‘
’’کیوں؟وہ سوالیہ نشان بن گیا۔
اس کوہم پالیں گے ‘‘وہ پورے اطمینان سے بولی۔
’’یہ میرابچہ نہیں ہے میری،،۔وہ غرایامیں زندگی بھراس کابوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔
’’جارج‘‘میری کے دل کو ٹھیس سی لگی ۔ وہ جس کے پیار کی خاطر سارا عالم کھوبیٹھی تھی آج وہی اس کی ذرا سی بات ماننے سے صاف انکار کررہاتھا ۔ جذباتی نہ بنو میری ‘‘جارج نے شاید اس کی آنکھوں سے اس کے دلی جذبات کا انداز لگالیاتھا ۔ فورا ہی ٹھنڈا پڑتے ہوئے نرم سی آواز میں بولا تم اس بچے کیا کروگی ۔’’ اپنی گندی اورغلیظ دنیا میں لے جا کر اس کو وہی بناؤگی جو تم تھیں ۔‘‘ اف!! وہ نہر و نگر کے کچراپٹی علاقے کی تنگ سی گندی سی غلیظ سی گلی ۔۔۔ وہ لمبی لمبی نالیاں جن میں ہمہ وقت کیچڑ بھرا ہوا ۔ پاس ہی ادھ کھلا گڑجہاں سے سارا فضلہ باہر بہنے کو اتاولا ۔ وہ مٹی کی چھوٹی چھوٹی دیواروں پر گھاس پھوس کی چھتوں والی بے شمار جھگی جھونپڑیاں وہ ان کے آگے بیٹھے ادھ ننگے نہاتے مرد ۔ وہ گلی میں گندگی پھیلا تے بچے ۔ وہ آوارہ گھومتے پھرتے خارش زدہ کتے ۔ وہ ان ہی کے ساتھ اپنے تین چار کالے ننگ دھڑنگ بھائی سمیت لوٹ پوٹ کر جوان ہوئی تھی ۔
اس کا باپ اپنی ننگی پیٹھ پر سورج اٹھائے دن بھر ٹھیلا کھینچا کرتا تھا ۔اور رات کو داروپی کر کسی نالی میں لڑھک جاتا تھا ۔ اس کی ماں نکڑپر بیٹھی گرے پڑے، کٹے پھٹے پھل ، جن پر بے شمار مکھیا ں بھنبھناتی رہتی تھیں ۔ قریب کے مارکیٹ سے چن کر بیچتی تھی ، اوران سب کے پیٹ کا دوذخ بھرتی تھی ۔ اوروہیں کسی دن منجوناتھ کی ٹین کی چھت والے چائے خانہ میں جہاں ہمہ وقت ایک ٹوٹاپھوٹا ریڈیو گلا پھاڑ ا کرتا تھا اس کی ملاقات جارج سے ہوئی تھی ۔ جو جانے کہاں سے آکر اس چائے خانہ میں ملازم ہوا تھا ۔ ہٹا کٹا صحت مند جارج اس کی زندگی میں کیا آیا بہار آگئی ۔میری کی مہبوت آرزوئیں ، بے زبان خواہش گنگ ، خواب ،لافانی مسرتوں میں تبدیل ہوگئے ۔ اس کا وجود ایک مہکتا ہو ا نغمہ بن گیا ۔ وہ دونوں روز ہی ملتے تھے ۔ اورمستقبل کے سہانے خواب دیکھتے تھے ۔ لیکن فقط خواب دیکھنے سے تو مستقبل سنور نہیں سکتا تھا ۔ اس کے لئے تو روپیہ درکار تھا ۔ ۔۔ روپیہ تو جارج کے پاس بھی نہیں تھا جس سے وہ پیار کرتی تھی ۔ روپیہ جس کے لئے وہ بہت ترسی ہوئی تھی ۔ بچپن سے روپیہ جو ا س کی اورجارج کی آنے والے خوش آئند زندگی کے لئے ضروری تھا ۔ وہ روپیہ ان کے پاس نہیں تھا ۔ پھر جارج نے روپئے کو حاصل کرنے کی ایک انوکھی سی راہ سجھائی اوروہ سسروگیسی تھی ۔ اف ! اس قدر بھاری سی ذمہ داری اور وہ نہرونگر کی گندی سی غلیظ سی گلیاں ۔ وہ ایک سڑک جو دل سے دماغ تک جاتی تھی میری اس پہ کنفیوز سی کھڑی تھی ۔ آج اس نے پھر ایک خواب دیکھا تھا کہ سیپ کامنہ کھلا ہوا ہے اورابر نسیاں کا وہ قطر ہ جو گوہر آب دار بن چکا ہے وہ بھومیکا لے گئی ہے اورخالی سیپ سامیری کا وجود تہہ درتہہ سمندر کی گود میں اتررہاہے اورچرچ میں اکیلی اداس دلگرفتہ سی سر جھکائے اپنی خالی گود لئے ماں میری نہیں وہ کھڑی ہے !!