ارے یہ کیا؟صبح کا اخبارالٹتے ہوئے جیسے ہی آفتاب خاں کی نظراس سرخی پرپڑی کہ سورج دھیرے دھیرے گل ہورہاہے۔وہ بے اختیارچونکے۔۔۔ہوگایہ کوئی سائنسی انکشاف انہیں کیاپتہ ۔ وہ توبس اتنا جانتے تھے کہ سورج توسوانیزے پہ اٹکاانکے اندرآگ اُگل رہاہے اورپیاس کاوہ عالم ہے کہ وہ ساتوں سمندرپی جائے تب بھی نہ بجھے انہیں لگاوہ ہانپ رہے ہیں جل رہے ہیں۔راکھ ہورہے ہیں۔۔۔وہ۔۔۔’’نمستے ساؤکار‘‘کسی کی آواز انہیں خیالوں کی دنیاسے باہر لے آئی۔دیکھاوہ حجام ما داتھا۔
’’یہ سویرے سویرے کون آمرا‘‘ان کا ساراوجودہی جیسے آگ بن گیا، مگروہ چپ ساہاتھ باندھے کھڑا ان کی ساری تپش سہتے ہوئے اتنامودب لگ رہاتھاکہ لگاہواکاایک جھونکاساآیاہو۔اوران کے تپتے وجودکوچھوگیاہو، وہ سنبھل سے گئے،
نہیں اس وقت نہیں مادادوبجے آنا’’وہ بولے‘‘روپیہ ضرورملے گااوروہ بھی آج ہی‘‘
مادانے بے یقینی کے عالم میں ان کی جانب دیکھا، اس نے دوبارشیونگ کی تھی ان کی ۔۔اسے بالکل پتہ تھا روپیہ آج نہیں ملے گا، ایساکئی بارہواتھا، مگرپھربھی وہ کچھ نہ بولا اوران کا مان رکھتے ہوئے چپ ساچل دیا۔
یہ تھوڑی سی عزت۔۔۔یہ ذراسامان۔۔۔آفتاب خان کے اندرکہیں طمانیت کی ایک لہرسی ابھری ، کیاہوا؟ وہ پہلی سی شان وشوکت نہ رہی ہو، کہلاتے تووہ آج بھی ساہوکارہی تھے، بس ایک لمحہ ایک چھوٹا سالمحہ ۔۔۔اورپھروہی تپش وہی سوانیزے پہ اٹکاسورج اوروہی پیاس کا عالم کہ ساتوں سمندرپی جائے تب بھی نہ بجھے انہوں نے بے اختیار سوچا کا ش کہ جوکل سناتھا وہ خواب ہی ہوتامگروہ توایک حقیقت تھی ، بھرپور، توانا، دھڑکتی ہوئی سانس لیتی ہوئی ۔ وہ جواپنی ننگی پیٹھ پر سورج اُٹھائے ان کی حویلی کی بکریاں چرایاکرتاتھا، اس رمضا ن کے لونڈے نے اتنی جرأت کی تھی اپنے چچا کریموکوبھیجاتھا۔ان کی بیٹی کاہاتھ مانگنے ۔ اوراس وقت آفتاب خان کو یوں لگاتھاکہ ، جیسے زلزلے کا ایک شدید جھٹکاآیاہواوروہ آسمان کی بلندیوں سے تحت الثریٰ کی پستیوں میں جاگرے ہو۔۔۔یہ۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے؟ مانا کہ لونڈا تعلیم یافتہ ، ڈسٹرکٹ کلکٹرتھا، مگرپھربھی۔۔۔پھربھی تھاوہ ایک نیچ خاندان کاہی نا،اس کا دادارحیموان کے دادالیاقت خان کے پاؤں دابنے پرمامورتھا، دادی خیرون بھی ، حویلی میں جھاڑولگایاکرتی تھی، یہ با ت توساراگاؤں جانتاتھا، بھولاتوکوئی نہ تھا، بھول توشایدرمضان کے گھروالے گئے تھے جوشہرہجرت کرکے اتنا اونچااُڑے تھے کہ اب حویلی کے عظیم الشا ن گنبدوں پہ بیٹھنے کے تمنائی تھے، اُف ، اتنی ریاکاری، کمینگی۔ وہ توبت سے بن گئے، بے یقینی کے نشتران کے اندرکہیں دورتک بہت گہرے اترگئے ، ایک دلخراش حیرانی ان کے وجودپر حاوی ہوگئی، جی چاہابے اختیارچاہاکہ اپنے تایاکی طرح اپنی جوتی نکالے اوربے طرح مرمت شروع کردے سالے کریموکی خبیث اپنی اوقات بھول گیاتھا، وہ توبھلاہوان کے بھائیوں کا جواس کو باتو ں میں لگاکرحویلی سے باہرلے گئے ، ورنہ تووہ وحشی بے لگام منھ زورخواہش ان سے کچھ بھی کروالیتی ، کچھ بھی۔
سالاکریموتوچلاگیامگران کے اندرسورج جھونک گیاجوسوانیزے پہ اٹکاآگ ہی آگ اگل رہاتھا، اورپیاس کا وہ عالم تھاکہ ساتوں سمندرپی جائے تب بھی نہ بجھے انہیں لگاوہ ہانپ رہے ہیں، جل رہے ہیں، راکھ ہورہے ہیں۔وہ۔۔۔
’’نمستے ساہوکار‘‘کسی کی آواز پھرانہیں خیالوں کی دنیاسے باہر لے آئی ۔۔۔دیکھاسوُری اورشنکرتھے جن کے باپ دادا کبھی ان کی زمینوں کے حصے دارتھے، ان کی کل پانچ ایکڑزمین پروہ فصل اگانے پرمامورتھے، اورزراعت کافقط ایک تہائی حصہ ہی زمینداروں کی نذر کیا جاتا تھا، مگر بھلا ہو بھارت سرکارکاکہ ملک کے زرعی نظام فروغ کی خاطرTenancy. Act نکالااورحصہ دارمالک بن گئے۔
اُف !آفتاب خان کی الجھن صدیوں کی تھکی ہوئی ویرانی پرمحیط ہوگئی، ان دونوں کواپنے آگے بٹھاتے ہوئے ان کے دل میں کچھ ٹوٹ ساگیا، وہ جن کے اجداد ان کے آگے کھڑے نہ ہوپاتے تھے وہی لوگ یوںآج ان کے روبرو تھے، جیسے ان ہی میں سے ایک ہو۔ان ہی کے وجودکے حصے دارہو۔
’’ساہوکارمیری شادی ہے‘‘سوُری نے بڑے ادب سے دعوت نا مہ پیش کیا۔
وہ بولے کچھ نہیں کیاکہتے ؟ یہ وقت بھی کس قدر جلدبدل جاتاہے، انہیں اخبارکی سرخی یادآئی ، جب تابناک سورج گل ہوسکتاہے تووہ ۔۔۔وہ کیوں نہیں۔
آپ ہمارے مائی باپ ہیں۔آپ کاآنا ضروری ہے ’’رخصت لیتے ہوئے۔ جب سوُری نے یہ بات کہی تووہ بے اختیار چونک پڑے ، ا س کا چہرہ تکنے لگے ، لگاہواکاایک جھونکاساآیاہواوران کے تپتے وجودکوچھوگیاہو، یہ تھوڑی سی عزت ۔۔۔یہ ذراسامان ، کہیں اندرطمانیت کی ایک لہرسی ابھری، اتنی وفاداری۔۔۔اتنی شان توانہوں نے ضروررکھ چھوڑی تھی کہ گاؤں میںآج بھی ایساکوئی نہ تھاجوان کی عزت نہ کرتاتھا، ان کے خلاف مرضی آج تک کسی نے کوئی بات کی تھی نہ کوئی حرکت ، مگروہ رمضان کالونڈا اوراس کی جرأت پتہ نہیں کیسے اورکیوں کرکہاں ڈھیل دی تھی انہوں نے کہ وہ سرپر آبیٹھنے کا روادارہواتھا، پیاسے صحراکی سلگتی ہواؤں کی طرح ان کا وجود بے سمت وبے منزل ہونے لگا، ان کے اندرچیختے سناٹے کچھ اورگہرے ہونے لگے، سوُری اورشنکرتوگئے، اوربیتے ہوئے دست بستہ لمحوں کا کرب ان کی آنکھوں میں ٹھہرگیا۔
ملک کوآزادی ملے توبرسوں بیت چکے تھے مگرلیاقت خان کی زمینداری تو اب بھی قائم تھی ، تقریباًدوسوایکڑزمین ، ناریل ،آم، سپوٹے، اورشہتوت کے بے شمار باغات ایک عظیم الشان حویلی۔۔۔بے شمارنوکر۔۔۔بے حساب مویشی ۔۔۔کیاکچھ نہ تھا ان کے پاس۔۔۔جس کا ساراانتظام ان کے بڑے بیٹے شجاعت خان کے ہاتھوں میں تھا۔جوکچھ اتنے بے رحم ، سخت دل اورجلاد قسم کے شخص تھے کہ ان کی بے مروتی دل آزاری، غیرانسانی سلوک کے چرچے چاروں دشاؤں میں تھے،مجال تھی جوکوئی ان کے خلاف آواز اُٹھاتاتھا۔ذراساخلاف مرضی کچھ ہوانہیں کہ وہ آدمیوں کودرختوں سے باندھ کر ان پر کوڑے برساتے یااپنے پیرکی جوتی نکال کر بے طرح مرمت کرڈالتے ۔ان کا وہ رعب وہ دبدبہ تھاکہ جسے دیکھ کر جاگیردارانہ نظام کی یادآجائے حالانکہ گاؤں میں توپنچائت راج تھا(یہ الگ بات ہے کہ سرپنچ تولیاقت خان ہی تھے)
اوررنگین مزاج اس قدرتھے کہ گاؤں کی کوئی بھی عورت پسندآجاتی تواس کواُٹھوالیتے ، فلموں کابے حد شوق تھا۔اس لئے گاؤں میں ایک Tent بھی لگوایاتاجہاں رنگین فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔
گاؤں میں سب کچھ پہلی مرتبہ لیاقت خاں لے کرآئے تھے، اپنے بڑے پوتے کے لےئے بائسکل ۔ اعلیٰ نفیس ڈبے بندبسکٹ سے لے کر، حویلی کے لئے Philips کا ریڈیو، ٹیلیفون ، موٹرکاراورمستورات کے لئے ، یارڈلی(لندن کا)پوڈر، زیورات، انواع قسم کے عطر۔۔۔اوربھی بہت کچھ۔
گاؤں کی آبادی مسلمانوں،اونچی نیچی ذات کے ہندؤں کے علاوہ بے شمارہریجنوں پرمشتمل تھی ، صرف چندمعتبرلوگوں کوچھوڑکرایساکوئی شخص نہ تھا سارے گاؤں میں جوزمینداروں کے آگے کھڑا ہوسکتاتھا، بیٹھنا توبہت دورکی بات تھی، جس کو بھی حویلی کے آگے سے گزرناہوتاتھااس کواپنے جوتے چپلیں ہاتھوں میں لے کرگزرنا ہوتاتھااوروہ بھی ننگے پاؤںیہی اس حویلی کاقانون تھا۔
گاؤں کے اکلوتے مندرمیں جب بھی کوئی تہوارہوتادل کھول کرچندہ زمینداروں کے ہاں سے پہنچتاتھا، کچھ اس طرح مسجدمیں جب بھی کوئی تبلیغی جماعت آتی وہ مسجدکے بجائے حویلی میں قیام کرتی تھی، امام،مؤذن توحویلی میں ہی پلتے تھے، عیدبقرعید کے موقع پرحویلی میں جماعت کا اہتمام ہوتاتھااوروہاں سے لوگ عیدگاہ پہنچتے تھے۔ رجب کے کونڈے گیارہویں کی دعوتیں۔میلادکی محفلیں، شبِ برأت کے جلسے ،محرم کے تعزیے، عَلَم ، چونگے، شربت،بقرعیدکی قربانیاںیہ تمام عیدکے تہوارکچھ اس قدر دھوم دھام سے منائی جاتی تھیں کہ آس پاس کے گاؤں سے لوگ حاضری دیتے تھے۔
اُف!یہ شان وشوکت، یہ حکومت ،۔۔۔یہ سب پہ چھاجانے کی منہ زورخواہش ۔۔۔یہ عزت وتکریم حاصل کرنے کا بے لگام جذبہ۔۔۔یہ ظلم ڈھانے کی شیطانی جبلت یہ سب کچھ فقط ایک Tenancy Act کے تحت تباہ ہوگیا، ملک کی ترقی کی خاطر سرکار نے زمینداروں کی وہ حالت کی کہ کچھ نہ رہاکچھ نہ بچا،حویلی والے آسمان کی بلندیوں سے تحت الثریٰ کی پستیوں میںیوں جاگرے کہ عمربھرکواُٹھ نہ سکے ، کل تک جوان کی دوسوایکڑزمین کے حصہ دارتھے وہ آناًفاناً ان زمین کے مالک بن بیٹھے، پھرتوگاؤں کی ہواہی بدل گئی،ساری جماعتیں مسجدکو منتقل ہوگئی،مسجدکے صدرکوئی اوربن بیٹھے ، مندرکے چندے بندہوگئے۔باقاعدہ ایلکشن کے تحت گاؤں میں سرپنچ کا چناؤہونے لگااوریہ سب کچھ ایسانہ تھا کہ لیاقت خاں برداشت کرپاتے اس سانحے نے توان کی جان ہی لے لی، شجاعت کے خاں پر فالج کاحملہ ہوااوروہ بسترکے ہورہے اورآفتاب خاں کے والد توبہت پہلے ہی داغ مفارقت دے چکے تھے۔ اب بھرے پرے خاندان کی ساری ذمہ داریاں کے کندھوں پرآپڑی، جوکچھ بچ رہاتھااس کوانہوں نے اپنی ماں اورتائی کی مددسے سنبھالا۔۔۔بہنوں کی شادیاں کیں، بھائیوں کوتعلیم دلوائی ، مگرکبھی کسی کے آگے جھکے نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا، اپنی خاندانی آن وبان کا کچھ زیادہ ہی پاس ولحاظ تھاانہیں اوراس کے لئے کیاکچھ نہیں سہاانہوں نے ، کتنی ذہنی اذیتیں نہ اُٹھائیں۔۔۔کیسی کیسی مشقتیں نہ جھیلی مگرکبھی حرفِ شکایت زبان پرنہ لایا۔من ہی من وہ کڑھتے رہے ، ٹوٹتے بکھرتے رہے ، مسمارراتوں کے سسکتے ہوئے لمحوں میں اپنی باطنی بے کیفی سے الجھتے رہے ، اپنی صلیب آپ اُٹھاکرذلت کی راہوں میں دورتک اکیلے تہناچلتے رہے، لوگوں نے تووہ درددیئے کہ وہ اُف بھی نہ کرسکے۔معتبرلوگ تودورنیچ لوگوں کے بچے بھی تعلیم سے آراستہ ہوکر اعلیٰ عہدوں پرفائزہونے لگے۔ اورشہر ہجرت کرکے وہاں سے دولت کماکرگاؤں میں اپنی جھوٹی شان وشوکت دکھلانے لگے، گاؤں میں بہت سے لوگوں کے پاس موٹرکاریں، ریڈیو، ٹی وی اوربہت سی نمائش کی اشیاء کیاآئیں کہ وہ سب خودکو گاؤں کے رئیس زادوں میں شمارکرنے لگے ، پھردیہی ترقی کے منصوبوں کے تحت گاؤں نے اتنی ترقی کی کہ اس کا نقشہ ہی بدل گیا، لیکن اگرکچھ نہ بدلا تھا تووہ آفتاب خاں کی سوچ تھی ، ان کی نگاہوں میں تووہ آج بھی رئیس خاندانی شخص تھے، کیاہوازمین نہ رہی تھیں کہلاتے وہ اب بھی ساہوکارہی تھے ،حالانکہ ہرکسی کوپتہ تھاکہ ان کی معاشی حالت مستحکم نہیں، مگرکسی نے کبھی بھی انہیں اس بات کا احساس نہیں دلایاتھا،انہیں پتہ تھاان کی پشت پرتولوگ دنیاجہاں کی باتیں بناتے ہیں، ہنسی مذاق اُڑتے ہیں، مگرسامنے آکرکبھی کسی نے منہ کھولنے کی جرأت نہ کی ، اورآج اتنے سالوں بعدپہلی مرتبہ ، ہاں بالکل پہلی مرتبہ ۔۔۔رمضان کے لونڈے نے یہ حرکت کی تھی۔ اتنی ذلت۔۔۔اتنی توہین۔۔۔اُف!!ان کے جسم وجان پرایک دل فگار سناٹا پھیل گیا۔ ان کے سینے سے اتنی دردناک چیخیں ابھریں کہ ان کاوجودریزہ ریزہ ہوگیا۔غصہ ، پشیمانی ، لاچاری، شرمندگی ، بے چارگی کے گرم گرم ابلتے آنسوؤں سے ان کا چہرہ بھیگنے لگا، یہ شب وروزکی تپش یہ جلن یہ اذیت ایسی نہ تھی جوحویلی میں کسی سے چھپی رہتی ، بھائیوں نے جوان کی یہ حالت دیکھی توبہت سمجھایا۔
’’زمانے بدل گیاہے بھائی صاحب‘‘وہ بولے ’’اب کسی شخص کا معیار اس کی خاندان کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی شخصی قابلیت سے قائم کیاجاتاہے، رمضان کا لونڈاڈی سی ہے وہ چاہے توسارے گاؤں کی تقدیربدل سکتاہے، آپ خوپرقابورکھئے۔ اوریہ سوچیں کہ آپ اپنی بچی کا بیاہ ایک خاندان سے نہیں ایک شخص سے کررہے ہیں‘‘۔
آفتاب خاں نے سب کچھ سنا۔ بھائیوں نے جوکہاوہ غلط تونہ تھالیکن کیاکرتے ، اس د ل کا کیاکرتے جویہ ماننے کوتیارنہ تھاکہ اپنی لخت جگرکو لیاقت خاں کی پڑپوتی کو ۔۔۔ان کے خدمت گاروں کے حوالے کردیں۔
بھائیوں نے لونڈے کوحویلی آنے کی دعوت دی ، وہ چپ رہے بھلااورکرتے بھی کیا؟کہیں اندریہ سوچ تھی کہ گاؤں والے اس رشتے کو صحیح نہ جانیں گے، مگرلونڈا جب گاؤںآیا توہرکسی نے اس کی وہ آؤبھگت کی کہ وہ انگشت بدنداں رہ گئے، سب بھو ل چکے تھے کہ وہ رمضان کا وہی لونڈا ہے جواپنی ننگی پیٹھ پرسورج اُٹھائے حویلی کی بکریاں چرایاکرتاتھا، ان کے لئے تووہ اب ڈی سی کا مران تھا جس کی وجاہت ، لیاقت اورمالی حیثیت سے ہرکوئی مرعوب تھا، آج لیاقت خاں کی پڑپوتی کی کوئی اہمیت نہ تھی، جوتھا وہ ڈی سی کامران تھا، وہاں کوئی یہ نہیں کہہ رہاتھاکہ کامران خوش نصیب ہے جواسے ساہوکارکی بیٹی مل رہی رہے، بلکہ ہرایک کی زبان پریہی تھا کہ قمرخوش قسمت ہے جواسے کامران مل رہاہے ۔اُف!!یہ روح فرسا تغیر، یہ حوصلہ شکن انقلاب ۔۔۔وقت کی یہ المناک کروٹ آفتاب خاں کولگاجیسے زلزلے کا ایک شدید جھٹکاآیاہو، اورسارا کائنات زیروزبر ہوگئی ہو، وہ خودکوکہاں چھپاتے کیاکرتے؟
کامران نے حویلی میں قد م رکھا توآفتاب خاں نے دیکھاکہ سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ روشن ہے ، اوردوپہر کی سلگتی دھوپ سارے گاؤں کو گرمارہی ہے ۔
جب یہ تابناک سورج ہی گل ہوسکتاہے تووہ ۔۔۔وہ ۔۔۔آفتاب خاں نے بے اختیار سوچا، وہ کیوں نہیں اوردفعۃًانہیں لگاجیسے سورج گل ہوچکاہے ، مرچکاہے، اورچاروں طرف اندھیرا پھیل رہاہے اورپھردیکھتے دیکھتے وہ سارا اندھیرا دھیرے دھیران کے دل میں اترنے لگا!!
٭٭٭