جبیں نازاں ہندوستان سے تعلق رکھنے والی اردو کی ممتاز ادیبہ اور شاعرہ ہیں، انھوں نے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نویسی سے کیا ‘ بیک وقت کئ اصناف میں طبع آزمائی کرتی ہیں۔ افسانے، کہانیاں، انشائیہ، فکاہیہ، ادبی اور سیاسی مضامین، کے علاوہ آپ حمد، نعت، منقبت، نظم اور غزل کی شاعرہ بھی ہیں، آپ کی غزل میں انسانی جذبات کی شاندار الفاظ میں عکاسی کی گئی ہے۔ آپ کی شاعری میں بار بار آنے والی گریز کی خصوصیت موجود ہے، محبت، آرزو اور معاشرتی مجبوریوں کو باریک بینی سے شاعری میں سمونے میں جبیں نازاں کی مہارت کا ثبوت ہے۔ آج کا یہ کالم جبیں نازاں کی غزلیہ شاعری کے موضوعاتی عناصر، اسلوبیاتی آلات اور فکری گہرائی کے تجزیاتی جائزے پر مبنی ہے، جس سے عصری اردو ادب میں جبیں نازاں کی شراکت کو اجاگر کیا جائے گا۔
غزل کا یہ شعر “دن رات غزل ہوتی ہے” محبت کی پیچیدگیوں اور عاشق کے ہمہ جہتی تجربات کو بیان کرتی ہے۔ ہر شعر ایک الگ منظر نامے کو سمیٹتا ہے، جس میں خواہش اور مایوسی، امید اور ناامیدی کے درمیان دوغلے پن کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ پرہیز “غزل ہوتی ہے” ایک شاعرانہ آلہ اور فلسفیانہ بیان دونوں کے طور پر کام کرتی ہے، شاعرہ یہ بتاتی ہے کہ زندگی اور محبت کا جوہر شاعری کی تخلیق کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
جہاں آپ کی شاعری میں تڑپ ہے وہاں تخیل بھی ہے مثلاً
“نیند شاعر کو نہ آئے تو غزل ہوتی ہے
چاند منہ ان کا چڑائے تو غزل ہوتی ہے”
یہ اشعار شاعرہ کی بے خواب راتوں پر زور دیتا ہے جہاں نیند کی عدم موجودگی شاعرانہ ترغیب کے لیے زرخیز زمین بن جاتی ہے۔
“چاند منہ ان کا چڑائے تو غزل ہوتی ہے” (یعنی ان کا چاند جیسا چہرہ جوں ہی نظر آتا ہے تو غزل ہوتی ہے): محبوب کے چہرے کو چاند سے تشبیہ دی جاتی ہے، اردو شاعری میں خوبصورتی اور روشن خیالی کی علامت ہے۔
آپ کی شاعری میں معاشرتی پابندیوں اور خوف کا ذکر بھی ملتا ہے جیسے
”ڈر سے ابا کے بھگائے تو غزل ہوتی ہے
لاج دونوں کی بچائے تو غزل ہوتی ہے”
(شاعرہ کہتی ہیں کہ اگر باپ کا خوف ہو تو بندہ بھاگتا ہے اس گھبراہٹ کی وجہ سے تو غزل ہوتی ہے) یہ اسلوب سماجی دباؤ اور خاندانی مجبوریوں کی عکاسی کرتا ہے جو اکثر رومانوی حصول میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
“لاج دونوں کی بچائے تو غزل ہوتی ہے” (شاعرہ کہتی ہیں کہ اگر اس سے دونوں کی عزت بچ جاتی ہے تو غزل بنتی ہے) یہاں شاعرہ محبت میں عزت بچانے کے نازک توازن کو چھونے کی کوشش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، جو روایتی معاشروں میں ایک اہم تشویش ہے۔
آپ کی شاعری میں وقتی خوشی کے ساتھ ساتھ فریب کا بھی ذکر ملتا ہے مثلاً
“در پہ مجبوب بلائے تو غزل ہوتی ہے
پھر جھٹک ہاتھ چھڑا ئے تو غزل ہوتی ہے”
(شاعرہ کہتی ہیں کہ محبوب دروازے پر پکارے تو غزل ہوتی ہے) یعنی اس شعر میں محبوب کے بلائے جانے کی خوشی لمحاتی ہے۔
“پھر جھٹک ہاتھ چھڑائے تو غزل ہوتی ہے” (یعنی پھر اگر وہ آپ کا ہاتھ چھڑائے تو ایک غزل بنتی ہے) شاعری کا یہ اسلوب اچانک دستبرداری اور محبت میں شامل غیر متوقع اور دل کی تکلیف کی علامت ہے۔
جبیں نازاں کی غزل شاعری کے روایتی ڈھانچے پر قائم ہے، جس میں ایک مطلع لہجے کو ترتیب دیتا ہے اور ایک مقطع دستخطی تکمیل فراہم کرتا ہے۔ سادہ لیکن فکر انگیز زبان کا استعمال جذباتی اثر کو بڑھاتا ہے، جس سے غزل قابل رسائی ہونے کے ساتھ ساتھ گہری بھی ہو جاتی ہے۔
آپ کی شاعری میں جہاں تکرار ہے وہاں پرہیز بھی ہے مثلاً
پرہیز “غزل ہوتی ہے” ایک تال کا تسلسل پیدا کرتی ہے، جو انفرادی دوہے کو ایک مربوط پوری شاعری میں باندھ دیتی ہے۔ یہ تکرار نہ صرف موضوعاتی وحدت کو تقویت دیتی ہے بلکہ آرزو اور عکاسی کی تکراری نوعیت کا آئینہ دار بھی ہے۔
آپ کی شاعری میں بہترین تصویر کشی کے ساتھ ساتھ بہترین استعارات و تلمیحات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
جبیں نازاں حسی تجربات کو جنم دینے کے لیے واضح تصویر اور استعارے کا استعمال کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، محبوب کے چہرے کا چاند اور خوابوں کو چوری شدہ امن سے تشبیہ دینا ایک بہترین جذباتی منظر نامہ بنانے میں کارگر نظر آتا ہے۔
غزل میں جہاں جہاں تضاد کا ذکر آیا ہے – وہاں ملاپ کا بھی ذکر ملتا ہے۔
ہر شعر متضاد جذبات اور حالات کو جوڑتا ہے، جیسے خوشی اور غم، موجودگی اور غیر موجودگی، اور امید اور مایوسی۔ یہ تضاد شاعری کی جذباتی گونج کو بڑھاتا ہے اور محبت اور زندگی میں موجود تضادات کو نمایاں کرتا ہے۔
آپ کی غزل صرف شاعرانہ تاثرات کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ محبت کی تہذیبی اور معاشرتی حرکیات پر بھرپور تبصرہ بھی ہے۔ معاشرتی مجبوریوں، خاندانی دباؤ، اور خوشی کی عارضی نوعیت کا حوالہ انسانی رشتوں اور سماجی تانے بانے کی گہری سمجھ کی عکاسی کرتا ہے۔
غزل ایسے موضوعات کو چھوتی ہے جو جنوبی ایشیائی معاشروں میں ثقافتی طور پر اہم ہیں، جیسے عزت، خاندانی اختیار، اور محبت کی عوامی-نجی اختلافات وغیرہ۔ یہ ثقافتی تناظر غزل کے بیانیے کو تقویت بخشتا ہے اور معنی کی تہوں کو جوڑتا ہے۔
آپ کی شاعری میں فلسفیانہ مظاہر بھی دکھائی دیتے ہیں گریز کے ذریعے جبیں نازاں فلسفیانہ طور پر یہ تجویز کرتی ہے کہ شاعری کی تخلیق انسانی تجربے کا ایک موروثی حصہ ہے، خاص طور پر جذباتی انتشار کے وقت۔ یہ خیال غزل کو محض اظہارِ محبت سے انسانی کیفیت کی عکاسی تک پہنچاتا ہے۔
جبیں نازاں کی غزل کا یہ شعر “دن رات غزل ہوتی ہے” ایک پُرجوش اور فکری طور پر محرک کام ہے جو محبت، آرزو، اور معاشرتی مجبوریوں کے لازوال موضوعات کو حل کرتے ہوئے غزل کے جوہر کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ زبان، منظر نگاری اور ساخت کے اپنے ماہرانہ استعمال کے ذریعے، جبیں نازاں نہ صرف غزل کی روایتی جڑوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے بلکہ اسے عصری مناسبت سے بھی متاثرکن بناکر پیش کرتی ہے۔ یہ غزل اس کی شاعرانہ صلاحیت اور انسانی دل کے بارے میں اس کی بصیرت اور افہام و تفہیم کا ثبوت ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے جبیں نازاں کی غزل پیش خدمت ہے۔
*
غزل
*
نیند شاعر کو نہ آئے تو غزل ہوتی ہے
چاندمنہ ان کا چڑائے تو غزل ہوتی ہے
ڈر سے ابا کے بھگائے تو غزل ہوتی ہے
لاج دونوں کی بچائے تو غزل ہوتی ہے
در پہ مجبوب بلائے تو غزل ہوتی ہے
پھر جھٹک ہاتھ چھڑا ئے تو غزل ہوتی ہے
روز اک خواب دکھائے تو غزل ہوتی ہے
چین تعبیر چرائے تو غزل ہوتی ہے
غیر کو دولہا بنائے تو غزل ہوتی ہے
دلربا ٹھینگا دکھائے تو غزل ہوتی ہے
آئے معشوق کی بارات کہ نکلے ڈولا
وقت منحوس رلائے تو غزل ہوتی ہے
نازاں! مہمان جو آئے تو غزل ہوتی ہے
اور آ کر وہ نہ جائے تو غزل ہوتی ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال پاکستان سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔