ہائیڈل برگ میں شاعرِ مشرق کی یادگار
اگلی صبح ہماری کوچ سوئٹزرلینڈ کے اس جنت نظیر شہر لیوزرن سے نکل کر جرمنی کی طرف رواں دواں تھی۔ وہی دلکش نظارے ، وہی سبزے کی لامتناہی چادر ،رنگا رنگ پھولوں کی بہار، حسین وادیاں اور پہاڑ ہر دو جانب آنکھوں کے راستے دل میں اتر ے جارہے تھے ۔ سوئٹزرلینڈ کی طرح جرمنی بھی قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ اس خوبصورتی کا تسلسل جرمنی میں بھی قائم رہا۔ ہاں جرمنی کی تاریخ سوئٹزرلینڈ سے مختلف ضرور ہے۔ جرمنی جو دوسری جنگ عظیم میں تقریباً تباہ ہو گیا تھا انتہائی سرعت سے اپنے پاوٗں پر کھڑا ہوا۔ ان کی ترقی کی رفتار حیرت انگیز ہے۔ جسے تباہ کرنے کے لئے اتحادیوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی وہ آج ان سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پانچ اتحادی ممالک نے جرمنی پر اپنا تسلط جمایا۔ جس میں برطانیہ ، فرانس ، اٹلی ، امریکہ اور روس شامل تھے۔ 1955 میں تین ملکوں فرانس، برطانیہ اور اٹلی نے جرمنی سے انخلا ء اختیار کیا ۔لیکن امریکہ اور روس نے اس پر مضبوطی سے پنجے گاڑے رکھے۔ (امریکی فوجیں تو اب تک وہیں ہیں)۔ امریکہ اور روس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے جرمنی کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا شہر برلن اور دیگر جرمنی دوحصوں میں تقسیم ہو گیا ۔ بہت سارے خاندان حتیٰ کہ کئی میاں بیوی اگلے پینتیس سا ل تک ایک دوسرے سے نہ مل سکے۔ حالانکہ درمیان میں ایک معمولی دیوار تھی۔ لیکن اس دیوار نے ایک نسل تک خاندانوں کو آپس میں ملنے نہ دیا۔
1989میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد معاملات انتہائی سرعت سے سلجھے۔ جرمن پھر سے ایک ہو گئے۔ بچھڑے ہوئے خاندانوں کے جو افراد ابھی تک زندہ تھے آپس میں ملے تو وہ منظر انتہائی رقت انگیز تھا۔ مغربی جرمنی کا دارلخلافہ بون سے پھر برلن منتقل ہو گیا ۔ جرمن اکھٹے ہوئے تو بہت کم عرصے میں بیچ کی ساری دیواریں ختم ہو گئیں۔ پھر سے ایک قوم بن کر انہوں نے دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ اس صدی کا پہلا نصف حصہ جرمنی نے جنگوں کی نذر کر دیا تھا۔ آج بھی جرمنی کی پرانی عمارتوں پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں ۔ یہ نشان جرمنوں کی پرانی نسل کے دلوں پر بھی ثبت ہیں۔ تا ہم موجودہ نسل پرانی دشمنیوں کو بھلا کر یورپ کے ساتھ شیر و شکر ہو چکی ہے۔
جرمنوں میں فرانسیسوں کی طرح لسانی تعصب نہیں ہے۔ اکثر جرمن انگریزی بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ جرمن بارڈر سے پہلے ہم Rhine Falls پر رُکے ۔ انتہائی سر سبزپہاڑوں کی بلندی سے یہ عظیم آبشار شور مچاتی اورجھاگ اڑاتی نیچے گرتی ہے تو آنکھوں کو ایک انوکھے منظر سے روشناس کر اتی چلی جاتی ہے۔ اس قابلِ دید مقام پر ہمارے علاوہ دوسری کئی کوچز بھی کھڑی تھیں۔ان سے ا تر کر سیاح دریا کے کنارے کھڑے ہو کر دوسری جانب گرتے پانی کے ریلے کا نظارہ دیکھنے اور سلو لائیڈ پر منتقل کرنے میں مصروف تھے۔ ایسی جگہوں پر کیفے اور ریسٹ روم ضرو ر ہوتے ہیں۔ میں نے جیب میںہاتھ ڈالا تو سوئس کرنسی بہت تھوڑی سیبچی تھی۔ میں نے کافی کا ایک کپ لیا اور بقیہ رقم کے چند سو وینئر اور کارڈز خرید لئے ۔ کافی لے کر میں دریا کے کنارے چلا گیا۔ وہاں کھڑے ہو کر اس ناقابلِ فراموش منظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ دوسرے سیاحوں سے گپ شپ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ حتیٰ کہ ہماری کوچ چلنے کا وقت آ گیا۔ رین فالز کے سامنے ہم اگرچہ تھوڑی دیر کے لئے رُکے لیکن یہ منظر ہمیشہ کے لئے میرے ذہن کے کینوس پر محفوظ ہو گیا۔
آدھ گھنٹے بعد ہم جرمن سوئس بارڈر پر جاپہنچے ۔وہاں ہمیں کوچ سے ا ترنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔صرف ہماری گائیڈ مولی کیبن میں گئی۔ ہمارے ناموں کی فہرست امیگریشن حکام کے حوالے کی اور پروانہ راہداری لے کر واپس آگئی۔ جرمنی میں داخلے کے فوراََ بعد ہی ہمارا سفر جرمنی کے مشہور و معروف جنگلات بلیک فارسٹ کے اندر شروع ہو گیا۔ نہ جانے ان جنگلات کو بلیک فارسٹ کیوں کہا جاتا ہے۔ اپنے نام کے برعکس یہ جنگلات ایسے ہرگز نہیں تھے کہ انتہائی گھنے ہونے کی وجہ سے وہاں اندھیرا ہو۔بلکہ یہ اونچے پہاڑوں، ڈھلوانوں ، وادیوں، ندی نالوں ، میدانوں اور سرسبز و شاداب کھیتوں کے درمیان جا بجا گھروں پر مشتمل دیہاتی علاقے کا رومان پرور منظر تھا۔ ایک شے جو ہر منظر پر محیط اور مشترک تھی وہ قدرتی حسن تھا ۔ بے پناہ خوبصورتی تھی ، سبزہ تھا، صفائی تھی اور قدرت کی فیاضی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ قدرت نے اس علاقے کو اپنے حسن ، دولت اور قدرتی وسائل سے دل کھول کر نوازا ہے۔ سبزہ، پھول، ہرے بھرے درخت، مکئی اور تمباکو کی فصلوں کے کھیت ، صحت مند گائیں، لکڑی سے بنے دلکش گھر، جنگلوں اور وادیوں کے بیچ سانپ کی طرح بل کھاتی چمکتے تارکول کی سڑک ۔
یہ اتنے دلکش مناظر تھے کہ ایک کی طرف دیکھو تو دوسرے سے بے انصافی ہونے لگتی تھی۔ انسانی نظروں کا دائرہ محدود اور قدرت کے بنائے کینوس کی وسعت لامحدود تھی۔ انہی جنگلات کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت ریسٹورنٹ کے سامنے ہماری کوچ رکی ۔لنچ کا وقت ہو گیا تھا ۔یہ ریسٹورنٹ اور سڑک پہاڑ کی چوٹی پر واقع تھی۔ اس کے ساتھ ہی کافی گہرائی پر گھنے جنگل پرمشتمل وادی تھی جس کے دوسرے کنارے پر ایک اورپہاڑ ایستادہ تھا۔ ریسٹورنٹ بہت خوبصورت تھا۔ اس کے اردگرد رنگ برنگی بڑی بڑی چھتریاں ایستادہ تھیں جن کے نیچے کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے۔ اندر بھی مختلف ہال تھے۔ گیم روم، بار اور دوسری سہولیات بھی مہیا کی گئی تھیں۔
لنچ کے بعد مولی ہمیں ریسٹورنٹ سے محلق ایک عمارت میں لے گئی۔یہاں لکڑی سے مختلف اشیاء بنائی جارہی تھیں۔ مثلا قلم ، پن ہولڈر، ڈیکوریشن پیس ، کرسیاں، میز ، کھڑکیاں ، دروازے اور دیگر کئی چیزیں انتہائی مہارت اور کاریگری کا مظہر نظر آتی تھیں۔ ان میں سب سے ممتاز اور منفر د cooko clockتھا ۔ جرمنی کے اس علاقے میں نہائت اچھی لکڑی و افر مقدار میں دستیاب ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر کاریگر دوسری اشیاء کے علاوہ یہ منفرد کلاک بنا کر پوری دنیا میں برآمد کرتے ہیں۔ اس انوکھے کلاک اور فن کے اس نادر نمونے کو سیاح دھڑا دھڑ خرید رہے تھے۔ اس کلاک میں لکڑی کا بنا cooko (ایک پرندہ ) زنجیر کی مدد سے گھڑی سے بندھا رہتا ہے۔سپرنگ اور لکڑی کے امتزاج سے اس کلاک میں ایسا میکنزم بنایا جاتا ہے کہ ہر گھنٹے بعد اس سے cooko کی آواز آتی ہے ۔ یہ کلاک دیکھنے میں بھی دلکش ہے۔ یہ انسانی ہاتھوں کا بنا ایسا فن پارہ ہے کہ کاریگروں کو داد دینے کا دل چاہتاہے۔
بلیک فارسٹ سے نکل کر جرمنی کے دیہی علاقے کا ہمارا سفر جاری رہتا ہے۔ راستے میں SCHAFFHAUSENاورپھر LAKE TITSEEکا نظارہ کرتے ہیں۔ ان جگہوں پر قدرتی خوبصورتی ، جرمنوں کا حسنِ انتظام اور قدرت کی فیاضیوںکے رنگ جا بجا نظر آتے ہیں ۔ ان مناظر کو آنکھوں کے راستے دل میں اتارتے ہم جرمنی کے مشہور یونیورسٹی ٹائون ہائیڈل برگ پہنچ جاتے ہیں۔
ہائیڈل برگ کو یونیورسٹی ٹائون اس لئے کہتے ہیں کہ اس شہر کی کل آبادی یعنی ایک لاکھ تیس ہزار میں سے بائیس ہزار غیر ملکی طالب علم ہیں۔دنیا کے شاید ہی کسی اور شہر میں غیر ملکی طالب علم اس تناسب سے رہتے ہوں۔ اس وقت شام ہو چکی تھی ۔ ہوٹل جانے سے پہلے ہماری کوچ شہر کے مرکز میں جا کر رُکی۔ ہم شہر کی سیر کے لئے اِدھر اُدھر بکھرگئے۔ یورپ کے دوسرے بہت سے شہروں کی طرح اس چھوٹیسے شہر کے بیچوں بیچ دریا بہتا ہے۔ ایک طرف بلند و بالا پہاڑ ہیں۔ جن پر سرسبز درختوں کے بیچ کافی اونچائی پر ایک عالیشان قلعہ بنا ہوا ہے۔ بعد میں ایسے بہت سے قلعے جرمنی کے مختلف علاقوں میں نظر آئے جو جرمنوں کی جنگجو یانہ تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں ۔ دریا کے ایک جانب سڑک ، پارکنگ ، ریسٹورنٹ ، سووینئرز شاپس ، ہوٹل اور رہائشی عمارتیں تھیں۔ اسی جانب ہماری کوچ بھی کھڑی تھی۔ دریا کی دوسری جانب ایک بڑا سا سرسبز پارک نظر آرہا تھا۔ بیچ میں نیلے شفاف پانی کا دریا بہہ رہا تھا۔ رنگی برنگی چھوٹی بڑی کشتیاں اِدھر اُدھر آجارہی تھیں۔ سامنے واقع پہاڑ پر بڑے بڑے جدید مکانات فاصلے فاصلے پر بنے نظر آرہے تھے۔ مکانوں کے درمیانی جگہوں پر کھیت اور باغات تھے۔ غرضیکہ ہائیڈل برگ شہر اور گاوٗں دونوں کا مرقع ہے۔
یورپ کے شہروں میں آبادی کا دبائو زیادہ نہیں ہے۔ زیادہ تر شہر سائز میں بڑے بڑے لیکن آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے کئی گاوٗں کے برابر ہیں۔ ہائیڈل برگ کو ہی لے لیجئے جس کی کل آبادی ایک لاکھ تیس ہزار ہے۔ یہ آبادی کراچی کے کسی بھی علاقے سیکم ہو گی ۔مثلا لانڈھی ، کیماڑی ، ناظم آباد ، شیر شاہ ، شاہ فیصل کالونی اور کورنگی جیسے ہر علاقے کی آبادی جرمنی کے اس عظیم الشان شہر سے زیادہ ہو گی۔ اس لئے یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے شہروں میںصحت و صفائی اور دیگر سہولیات کا مربوط انتظام رکھنے میں آسانی رہتی ہے۔
ہائیڈل برگ ہی جرمنی کا وہ مشہور شہر ہے جہاں برصغیر پاک و ہند کے عظیم فلسفی شاعر حضرت علامہ محمد اقبالؔ نے تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں ہائیڈل برگ کی انتظامیہ نے اقبالؔ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اس شہر کی اس گلی کا نام اقبالؔ کے نام سے موسوم کر دیا جہاں ان کا قیام تھا۔ میرا ایک عزیز کسی دور میں اس شہر میں مقیم رہا تھا۔ اس کی زبانی مجھے اس بات کا علم ہوا تھا۔ میرے پاس وقت زیادہ نہیں تھا۔ یہاں صرف ایک رات کا قیام تھالیکن میں اپنی مٹی کے اس عظیم سپوت کی یہ یادگار ہر صورت میں دیکھنا چاہتا تھا۔ سب سیاح ادھر ادھر چلے گئے تھے لیکن جولی حسبِ معمول میرے ساتھ تھی۔ میں نے جب اس سے اس خواہش کا اظہار کیا توپہلے تو اسے علامہ اقبالؔ کی عظمت اور ان سے اپنی عقیدت کا احساس دلانے میں میرا کافی وقت صرف ہو گیا۔ جب اسے علامہ اقبالؔ سے میری عقیدت اور میرے جذبات کا علم ہوا تو وہ بھی میرے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئی۔
اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ وہ سٹریٹ کیسے ڈھونڈھی جائے۔ ایک دو مقامی لوگوں ے ہم نے دریافت کیا۔ ظاہر ہے پورے شہر کی ایک ایک گلی کاا نہیں علم نہیں تھا۔ اچانک مجھے خیال آیا اور میں جولی کو لے کر ایک ٹیکسی میں جا بیٹھا۔ ٹیکسی ڈرائیور کو جب میں نے اقبال اسٹریٹ کا نا م بتایا تو پہلے تو اسے میرا تلفظ سمجھ نہیںآیا۔جب سمجھ میں آیا تو وہ ذرہ بھی نہیں ہچکچایا اور ہمیں لے کر چل پڑا۔ ہم اقبالؔ اسٹریٹ پہنچے تو سب سے پہلے میں نے اسٹریٹ کا سائن دیکھا جو جرمن میں لکھا ہونے کے باوجود آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔ ڈرائیور میری طرف استفسار طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اسٹریٹ تو آگئی اب کہاں جانا ہے۔ ظاہر ہے اس کا علم مجھے بھی نہیں تھا۔ اقبال اسٹریٹ کا نام دیکھ کرایک احساس ِ تسکین بلکہ احساسِ تفاخر جاگا۔ میں نے گاڑی رکوائی، کرایہ ادا کیا اور باہر نکل کر ادھر ادھردیکھنے لگا کہ اب کس طرف جائیں۔میں وہ گھر دیکھنا چاہتا تھاجہاں حضرت علامہ رہائش پذیر رہے تھے۔ ایک دو جرمنوں سے دریافت کرنے کی کوشش کی ۔ ان کی انگریزی واجبی سی تھی۔ انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔شاید انہیں ہماری بات سمجھ ہی نہیں آئی تھی۔ شام کے اس وقت ارد گرد زیادہ لوگ بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ ہم یونہی اس اسٹریٹ پر چہل قدمی کرتے رہے۔
میرے ذہن میں اس وقت کا تصور ابھُراجب علامہ اقبال ا یک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے اس گلی میں رہتے اور ان فضاوٗں میں سانس لیتے تھے۔ اس وقت وہ کیا سوچتے ہوں گے۔ کیسی زندگی گزارتے ہوں گے۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے ان کا تعلق کس قسم کا ہو گا۔ علامہ ایک منفرد بلکہ خاص الخاص ذہن کے مالک تھے۔ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک شاعر اور نظامِ دنیا پر گہری نظریں رکھنے والے فلسفی تھے۔ ہم جیسے عامیوں کو جو نظر یا سمجھ نہیں آتا ان کی عمیق نظریں ا سے بھی بھانپ لیتی تھیں۔ اس وقت بھی جب وہ ان فضائوں میں سانس لیتے ہوں گے ان کا دماغ ان مسائل کی گتھیاں سلجھاتا رہتا ہوگا جو عام لوگوں کو نظر ہی نہیں آتے ۔ مشرق و مغرب کے حالات پر ان کی یکساں نظر تھی۔ مغرب کی معاشی اورحربی برتری اور تیسری دنیا کے ممالک خصوصاً مسلمانوں کی زبوں حالی پر ان کی گہر ی نظریں تھیں۔ ان مسائل کے اسباب ، وجوہات اور ان کے حل بتانے کے لئے وہ اپنا وسیع علم، عمیق سوچ اور عالمگیر شاعری بروئے کار لائے۔ اسی علم ، وسیع نظری اور فلسفیانہ سوچ نے اس شاعری کوجنم دیا جو رہتی دنیا تک افراد اور اقوام کے لئے مشعلِ راہ اور لمحہ فکریہ بنی رہے گی۔
مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بیتاب مجھے
عین ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے
اقبال اسٹریٹ سے واپس ہم پیدل اس مقام پر پہنچے جہاں ہماری کوچ کھڑی تھی۔ لیکن اب نہ وہاں کوچ تھی اور نہ ہمارے گروپ کا کوئی سیاح۔ جولی پریشان ہو کر کہنے لگی’’ اب کیا کریں گے۔ مجھے تو ہوٹل کانام بھی نہیں معلوم‘‘
میری جیبی ڈائری میں اس ہوٹل کا نام درج تھا جہاں ہمیں قیام کرنا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی ’’ گھبرائو نہیں!مجھے ہوٹل کا علم ہے۔ایک دفعہ پھر ٹیکسی لینی پڑے گی‘‘
جولی کہنے لگی’’ اگر ہوٹل کا علم ہے تو اتنی جلد ی وہاں جا کر کیا کریں گے ۔یہیں مرکز شہر میں کچھ تفریح کرتے ہیں۔ رات کسی وقت بھی ہوٹل پہنچ جائیں گے‘‘
ہم شہر کے اس پر رونق علاقے میں گھومنے لگے۔ ہر طرف نوجوان طالب علم دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی دلچسبی کی دکانیں، چھوٹے چھوٹے ریستوران اور انٹرنیٹ کیفے طالبعلموں سے بھرے ہوئے تھے۔ دریائے رین پرواقع پل کراس کر کے ہم دوسری جانب گئے تو وہاں بھی کافی رونق تھی۔ اس وقت تک ہماری بھوک چمک چکی تھی۔ میں کسی پاکستانی یا دوسرے حلال فوڈ والے ریسٹورنٹ کی تلاش میں ادھر اُدھر نظریں دوڑاتا رہا ۔لیکن کچھ نظر نہ آیا ۔ جولی بولی ’’کھانا بعد میں کھائیں گے۔ پہلے کسی کلب یا بار میں چلو۔ میں کھانے سے پہلے ایک دو ڈرنک لینا چاہتی ہوں۔ پورے دن کے سفر کے بعد تھکاوٹ ہو گئی ہے۔ وہ زائل ہو جائے گی‘‘
’’ لیکن میری تھکاوٹ کیسے دور ہو گی ؟ ‘‘میں نے کہا
’’ کوک سے بھی تھکاوٹ دور ہوتی ہے ۔ تم چلو تو سہی! ‘‘جولی نے میرا ہاتھ پکڑکر سامنے واقع ایک کلب کی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔
کلب نوجوان طالب علموں سے بھرا ہوا تھا ۔مقامی لڑکے لڑکیاں بھی جام اور آنکھوں دونوں سے پینے اور پلانے میں مصروف تھے۔ مجھے سوئس اور جرمن لڑکیاں انگریز اور فرنچ لڑکیوں سے زیادہ خوبصورت لگیں۔ اکثر ا نگریز لڑکیاں موٹاپے کی طرف مائل نظر آئیں۔ ان میں نخوت اور کھردرا پن بھی محسوس ہوتا تھا۔ فرنچ لڑکیاں کچھ زیادہ ہی بولڈ ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان میں نسوانی کشش جو شرم و حیا کی وجہ سے ہوتی ہے ناپید ہو تی ہے۔ ان کے مقابلے میں سوئس اور جرمن لڑکیوں میں معصومیت اور اور حیا کا پر تو واضح نظر آتا ہے۔ جن سے وہ مزید پُر کشش اور حسین دکھائی دیتی ہیں۔ ویسے بھی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں میں نے موٹی لڑکیاں بہت کم دیکھیں۔ اس کلب میں بھی ہمارے سامنے والی میز پر دو جرمن لڑکیاں بیٹھیتھیں۔ وہ سرخ رنگ کی شراب کے جام تھامے مصروفِ گفتگو تھیں۔ ان میں سے جو میرے سامنے بیٹھی تھی اس نے شارٹ اسکرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس کی لمبی اور سڈول ٹانگیں اور پتلی کمر انتہائی جاذبِ نظر تھی۔ اس کی آنکھیں نیلی اور بال سنہرے تھے ۔خوبصورت چہرے پر معصومیت کا ایک ہالہ سا تھا۔ جب ہنستی تو موسیقی سی کانوں میں رس گھولنے لگتی۔ جولی نے مجھے اس جرمن لڑکی کی جانب غور سے دیکھتے دیکھا تو میری آنکھوں کے آگے ہاتھ لہراتے ہوئے بولی’’ اتنے غور سے کیا دیکھ رہے ہو؟ ‘‘
’’شاہکار قدرت ! لگتا ہے قدرت نے اسے فرصت میں بنایا ہے‘‘
جولی نے قدرے برا مانتے ہوئے کہا’’ تم شاید بھول گئے ہو کہ تمھارے ساتھ بھی ایک لڑکی بیٹھی ہے۔ شاید تمھاری نزدیک کی نظر کمزور ہے‘‘
’’ نہیں جولی! تم تو میرے اتنے نزدیک ہو کہ آنکھیں بند کر کے بھی تمھیں دیکھ سکتا ہوں‘‘
’’ اب بنا ئو نہیں‘‘ جولی نے مسکراتے ہوئے کہا
’’میں نے کیا بنا نا ہے۔بنایا تو تمھیں قدرت نے ہے وہ بھی انتہائی فرصت میں۔ تمھاری آنکھیں ، تمھارے ہونٹ، تمھاری زلفیں اور تمھار ا بدن کس کس کی تعریف کروں؟‘‘
جولی کے چہرے پر پہلے حیا پھرتسکین اور پھر شرارت سی پھیلنے لگی۔ بولی ’’اسی لئے کل رات ہوٹل سے بھاگ گئے تھے کہ کہیں پھر تمھارے کمرے میں نہ آدھمکوں‘‘
جولی نے رات میرا بہت دیر سے ہوٹل پہنچنے کا غلطمطلب اخذ کیا تھا۔ میں نے اُسے جب گزشتہ رات کے بارے میں بتایا تو وہ مچل گئی’’ تمھار ی شام اتنی دلچسپ گزری ۔تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا ۔میں بھی تمھارے ساتھ جاتی‘‘
’’میں سمجھا تم بور ہو گی کیونکہ مجھے اس میں تمھاری دلچسپی کا کوئی سامان نظر نہیں آرہا تھا‘‘
’’ اس میں بوریت کہاں تھی ۔یہ تو نہایت دلچسپ کرداروں کی نہایت دلچسپ کہانیاں ہیں۔ آخر تمھیں ہی ایسے لوگ کیوں ملتے ہیں۔ مجھے توکبھی نہیں ملے‘‘ جولی نے شوق سے کہا
’’ جولی ایسے لوگ ہمارے اِردگر د بکھرے ہوتے ہیں۔ صرف دیکھنے والی نظر ہونی چاہیے۔ یہ دنیا ایسے کرداروں اور ایسی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں بنیادی طور پر کہانی نویس ہوں۔ میرا موضوع انسان ہے۔ مجھے ایسے لوگوں کی تلاش رہتی ہے جو اپنے دل میں کوئی کہانی چھپائے ہوئے ہوں۔ انسان دنیا کی سب سے دلچسپ چیز ہے۔ انسانوں پر بیتنے والے واقعات ہمیشہ دوسرے انسانوں کی دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں بشرطیکہ ہم انہیںدِل کے کانوں سے سنیں اور محسوس کریں‘‘
میر ی بہت زیادہ نہیں صر ف تین بیویاں ہیں
اس دوران جولی کے ’’ایک دو ‘‘ڈرنک ختم ہوگئے۔ کلب سے نکل کر ہم کھانے کی تلاش میں نکل پڑے۔ اس مرتبہ مجھے مایوسی نہیں ہوئی۔ تھوڑے ہی فاصلے ایک عربی ریستوران نظر آگیاجہاں واضح طور پر حلال فوڈ کا سائن لگا ہوا تھا۔ کھانا لے کر ہم اس چھوٹے سے ریسٹورنٹ کے ایک کونے والی میز پر جا بیٹھے ۔ ہمارے ساتھ والی میز پر دو عربی کھانے اور گفتگو میں مشغول تھے۔ ان کی گفتگو سے میں نے اندازہ لگایا کہ ان کا تعلق سلطنت آف عمان سے ہے۔ میں چند سال عمان میں رہ چکا ہوں۔ اس لئیمختلف عرب ملکوں کی عربی میں فرق سمجھ سکتا ہوں۔ عمانی لہجے میں بولی جانے والی عربی سمجھ اور تھوڑی بہت بول بھی سکتا ہوں۔ تاہم سعودی عرب اور مصر کی عربی سمجھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔
ان عمانیوں کی نظر یں بار بار جولی کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ وہ عربی میں جولی کے حسن اور اس کے بدن پر پر تبصرہ بھی کر رہے تھے۔ آخر اُن سے نہ رہا گیا۔ اُن میں سے ایک اٹھ کر ہماری میز پر چلا آیا۔کہنے لگا’’ اگر آپ برا نہ مانیں تو کیامیں تھوڑی دیر کے لئے یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔ دراصل مجھے مختلف ممالک کے لوگوں سے ملنے کا اشتیاق ہے‘‘
میری نظر ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے مختلف ملکوں کے طالب علموں کی طرف اٹھ گئی۔ان میں زیادہ تر مرد تھے۔ اس لئے ان صاحب کو جولی کی وجہ سے ہم خصوصی غیر ملکی لگے تھے اور ان کی نظرِ انتخاب ہم پر بلکہ جولی پر ٹھہری تھی۔ جولی نے ان صاحب کی جسارت پر خشمگیں نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ قریب تھا کہ وہ سخت سا جواب دے کر اسے بھگا دیتی میں نے اسے بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ جولی نے براسامنہ بنا کر میری طرف دیکھا مگر خاموش رہی۔ میں نے ان صاحب سے کہا’’ آپ اپنے ساتھی کو اکیلا چھوڑکر ہمارے پاس آئے ہیں۔ فرمائیں ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟ ‘‘
’’میرا نام سالم ہے اور میرا تعلق سلطنت آف عمان سے ہے ۔میںیہاں جرمنی میں سیر کے لئے آیا ہوں۔ آپ دونوں انگریزی بول رہے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جرمن نہیں ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ مجھے مختلف ملکوں کے باشندوں سے ملنے کا شوق ہے۔ میں نے سوچا آپ سے آپ کے بارے میں کچھ جان سکوں‘‘
’’ میرا نام طارق مرزاہے اور یہ جولی اسمتھ ہے۔ ہم آسٹریلیاسے سیر کے لئے یہاں آئے ہیں‘‘
’’ اوہ اچھا!‘‘ سالم نے اپنی عربیوں والی مخصوص انگریزی میں کہا’’ آستریلیا ! میں نے آستریلیا کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے۔ وہاں کے خوبصورت شہروں ، اچھے موسم اور خوبصورت ساحلوں کا بہت چرچا ہے۔ میںدنیا کے بہت سے ملکوں میں گیا ہوں بدقسمتی سے آسٹریلیا جانے کا موقع نہیں ملا۔ ویسے مس جولی بہت خاموش ہیں۔ لگتا ہے انہیں میری آمد ناگزار گزری ہے؟ ‘‘
’’ نہیں ! ایسی کوئی بات نہیں ہے ‘‘جولی نے مختصر سا جواب دیا
سالم نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا’’ ویسے آپ لوگ صرف یورپ کی سیر کرتے ہیں یا کبھی مشرق ِوسطیٰ جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔ میرا وہاں گھوڑوں کا فارم ہے۔ یہاں جرمنی بھی اسی سلسلے میں آیا ہوں ۔ کچھ مزید گھوڑوں کی خریداری کا معاملہ ہے۔ اگر کبھی مشرقی وسطیٰ کی سیر کا پروگرام بنے تو عمان ضرور آئیں۔ آپ لوگ میرا فارم دیکھ کر خوش ہوں گے۔ سالم اگرچہ جمع کا صیغہ استعمال کر کے ہم دونوں سے بات کر رہا تھا۔ لیکن اس کی نظر یں مسلسل جولی پر گڑی ہوئی تھیں۔جولی بھی اس بات کو محسوس کر رہی تھی ۔ وہ چپ نہ رہ سکی۔اس نے سالم سے پوچھا ’’تمھار ے فارم میں کتنے گھوڑے ہیں؟‘‘
’’ در اصل میرا تعلق عمان کے شاہی خاندان سے ہے۔ سلطان قابوس میرا رشتہ دار ہے۔ میرے ذاتی فارم میں بیس گھوڑے ہیں جب کہ سلطان کے فارم میں سیکڑوں ہیں‘‘
جولی جس نے کچھ سوچ کر وہ سوال پوچھا تھا بولی’’ مسٹر سالم ! تمھارے فارم میں بیس گھوڑے ہیں۔ میںجس فارم ہائوس میں پل کر جوان ہوئی ہوںوہ میرے باپ کا ہے۔ اس وقت بھی وہاں اسّی گھوڑے اور ہزارسے زیادہ گائیں ہیں۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے وہ فارم اور میرے باپ کی دیگر جائیداد مجھے ملنے والی ہے۔ اب آپ یہ بتائیں کہ جو خود آسٹریلیا جیسے ہرے بھرے اور خوبصورت ملک میں اتنے بڑے فارم کی مالک ہے وہ دنیا کے اس سرے پر اور صحرا میں واقع بیسگھوڑوں پر مشتمل ایک چھوٹے سے فارم کو دیکھنے کیوں جائے گی‘‘
سالم جو جاہل اور محکوم عورتوں پر حکم چلانے کا عادی تھا کو شاید زندگی میں پہلی مرتبہ کسی عورت نے ایسا سخت جواب دیا تھا۔ وہ بغلیں جھانکنے لگا۔ لوہا گرم دیکھ کر میں نے سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا’’ مسٹر سالم آپ کا تعلق سلطنت آف عمان کے شاہی خاندان سے ہے۔ آپ نے شاید غور نہیں کیا۔ میرا نام بھی عربی زبان میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں سلطنت آف عمان میں کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کر کے آیا ہوں۔ وہاں ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والوں سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ میں وہاں وزارت ِ دفاع کے تحت فوج کے ایک شعبے سے منسلک تھا۔ مقامی عمانیوں کے علاوہ ہمارے ساتھ برطانوی انگریز بھی کام کرتے تھے۔ برطانوی حکومت نے عمانی حکومت کو حکم دے رکھا تھا کہ کسی بھی برطانوی کو چاہے وہ لندن کی سڑکوں پر جھاڑو کیوں نہ دیتا ہو، آپ کو کم از کم ایک مخصوص گریڈ دینا پڑے گا ۔ اس طرح انگریزوں کو صرف انگریز ہونے کی وجہ سے وہاں صرف افسر بھرتی کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک ہی گریڈ پر کام کرنے والے پاکستانی یا بھارتی کے مقابلے میں عمانی کی تنخواہ دو گنا اور برٹش کی تین گنا ہوتی ہے۔ پاکستانی کو سال میں ایک مرتبہ بمع تنخواہ ایک ماہ کی چھٹی دی جاتی ہے جبکہ انگریز کو سال میں تین مرتبہ ایک ایک ماہ کی رخصت بمعہ تنخواہ اور برطانیہ کے ریٹرن ٹکٹ کی سہولت حاصل ہے۔
علاوہ ازیں برطانوی باشندوں کو خصوصی رہائشی سہولتیں ہیں۔ جن کے تحت وہ اپنی فیملی کو جب تک چاہیں ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے، رہنے سہنے اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست عمانی حکومت کے ذمے ہے۔ ان کے مقابلے میں ایشیائی ملازمین کو صرف بیچلر اکاموڈیشن حاصل ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ برطانوی اتنے زیادہ پڑھے لکھے اور کوالیفائڈ نہیں ہوتیجتنے پاکستانی یا بھارتی ہوتے ہیں۔ ہمارا ایک انگریز آفیسر لندن میں ٹرک ڈرائیور تھا۔جبکہ عمان میں اسے بہت بڑی پوسٹ دے دی گئی تھی۔ وہ مکینکل انجئنیر نگ کے شعبے کا انچارج تھا ۔ دلچسب بات یہ کہ اس کے پاس انجنئیرنگ کی ڈگر ی تھی نہ ڈپلومہ ۔ ہمیں اس کو بریفنگ بھی دینی پڑتی، مسئلہ اور اس کا حل بھی بتانا پڑتا اور پھر اس کا آرڈر بھی سننا پڑتا تھا۔ وہان کسی کو بولنے یا احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ جسیکسی بات پر اعتراض ہوتا وہ استعفیٰ دے کر چلا جاتا۔ اس سے کم والی کوئی صورت نہیں رکھی گئی تھی‘‘
میر ی اس طویل گفتگو کے دوران سالم کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور دوسراجاتا تھا۔ میں نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا ’’مسڑ سالم ! آپ پڑھے لکھے ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں جا چکے ہیں ۔علاوہ ازیںآپ کا تعلق بھی عمان کے حکمران خاندان سے ہے۔ آپ کے پاس ان سوالوں کا کیا جواب ہے؟ اس نا انصافی کا کوئی جواز ہے آپ کے پاس؟‘‘
سالم کے پاس کیا جواب ہونا تھا۔ وہ تو جولی کا حسن دیکھ کر ہماری میز پر چلا آیا تھا جہاں اُسے لینے کے دینے پڑرہے تھے۔ وہ کافی دیر سو چتا رہا پھر مری ہوئی آواز میں بولا’’میں کیا کہوں ! میرا حکومتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ برطانو ی باشندوں کو زیادہ سہولتیں غالباً اس لئے دی جاتی ہیں کہ ان کا معیارِ زندگی اونچا ہے۔ اس لئے ان کی تنخواہ اور دیگر سہولیں زیادہ ہیں‘‘
’’بُل شِٹ !‘‘ جولی تقریباََ چلا کر بولی’’ یہ میں پہلی دفعہ سن رہی ہوں کہ دنیا کے کسی ملک میں انسانوں کے درمیان یوں غیر منصفانہ فرق روا رکھا جاتا ہے۔ کسی ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے ملک کے لوگ اور عوام اس زیادتی کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے ۔جس کو بھی اس زیادتی کا علم ہو گا وہ زیادتی روا رکھنے والوںسے نفرت کر ے گا ۔آپ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں کہ وہاں اب تک جنگل کا قانون چل رہا ہے‘‘ جولی نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی۔
میں نے کہا’’ اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ معیار ِ زندگی کے مطابق معاوضہ دینا چاہیے تو پڑھا لکھا ہونے کے باوجود غریب اس معاشرے میں ہمیشہ غریب رہے گا اور امیر کا بیٹا نالائق ہونے کے باوجود امیر ہی رہے گا ۔ویسے یہاں جرمنی یا کسی اور مغربی ملک میں آپ کے شہر یوں کو معاوضہ اس لئے کم دیا جائے کہ ان کا معیارِ زندگی مقامی لوگوں سے کم تر ہے تو آ پ کو کیسا محسوس ہو گا؟ آپ لوگوں کی تو زبان عربی ہے جس میں قرآن پاک اُترا ہے ۔ احادیث عربی میں ہیں۔ آپ لوگ مسلمان ہیں۔ کیا یہی اسلامی مساوات ہے؟ کیا قرآن میں یہی لکھا ہے؟ کیا اسلام یہی سبق دیتا ہے؟ آپ لوگ مذہب پر عمل کر رہے ہیں نہ انصاف کے تقاضے نبھا رہے ہیں ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ آپ لوگ ابھی تک پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔وہاں ایک مرد کی چار بیویاں اور کئی لونڈیاں نہ ہوں تو وہ معاشرے میں سر اٹھا کر نہیںچل سکتا ۔وہاں پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد کے ساتھ یہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ شعور اور آگاہی سے آپ لوگوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ آپ یہاں جرمنی میں سیر کرنے آئے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ آپ اپنی کئی بیویوں میں سے کسی کو ساتھ کیوں نہیں لائے؟‘‘
سالم کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے’’ میر ی زیادہ بیویاں نہیں، صرفتین ہیں۔ انہیں گھومنے پھرنے کا شوق نہیں ہے‘‘
سالم نے’’ صرف تین ‘‘اس طرح کہا جیسے بیچارہ غریب اور مسکین ہے اور بہت کم پر گزارا کر رہا ہے۔
’’تین بیویاں‘‘ جولی نے حیرانگی سے کہا’’ اورتینوں میں سے ایک کو بھی ساتھ نہیں لائے۔ یہ شرم کی بات ہے مسٹر سالم ! وہ بھی انسان ہیں۔ جس طرح آپ کو سیر و سیاحت اور تفریح کا حق حاصل ہے انہیں بھی ہے۔ ان کا بھی من مچلتا ہو گا کہ گھر سے نکلیں۔ وہ کوئی بھیڑ بکریاں تو نہیں ہیں کہ انہیں کھونٹے پر باندھ کر خود یہاں آگئے ہیں اور ادھر اُدھر منہ مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں اس کو سرا سر غیرانسانی فعل تصور کرتی ہوںاور ایسے شخص سے نفرت کرتی ہوں‘‘
سالم ماتھے کا پسینہ پوچھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا’’ مجھے اجازت دیجئیے ہم نے کہیں اور بھی جانا ہے‘‘
ہمارے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ اپنے دوست کو لے کر ریستوران سے نکلتا چلا گیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ جولی نے ہنسنا شروع کیا اور کافی دیر تک ہنستی چلی گئی ۔ہنستے ہنستے وہ میرے اُوپر آ گری۔ میں نے اسے الگ کرتے ہوئے آنکھیں نکالیں اور پوچھا’’ یہ تمھارا اسّی گھوڑوں اور ہزار گائیوں والا فارم کہاں ہے؟ ہے بھی یا سالم پر رعب ڈالنے کے لئے یہ تمھاری ذہنی اختراع ہے‘‘
’’ بالکل ہے‘‘ جولی اب سنجیدہ ہو چکی تھی ’’ یہ سڈنی کے مغرب میں واقع ایک قصبے باتھرسٹ کے پاس ہے۔ تاہم دوسری بات جھوٹ ہو سکتی ہے کہ یہ سب کچھ مجھے ملنے والا ہے۔ اگر چہ میں والدین کی اکلوتی اولاد ہوں لیکن انہیں میری کوئی خاص پرواہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے میرے ماں باپ مرنے سے پہلے بیچ باچ کر سب کچھ کھا جائیں یا کسی رفاعی ادارے کے حوالے کر جائیں۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ سب کچھ میرا تھا، نہ ہے، اس لیے مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘
’’ اور تمھارے والدین !تمھیں ان کی فکر ہے یا نہیں؟‘‘
’’ کیسی فکر ؟ ان کے پاس سب کچھ ہے۔ میں ان کے لئے کیا کرسکتی ہوں؟ ‘‘ جولی نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا
میں نے قدرے حیران ہو کر کہا’’ تمھارے خیال میں ان کی دولت اور جائیداد ان کے لئے سب کچھ ہے۔ تمھاری انہیں ضرورت نہیں ہے؟‘‘
’’میری کیا ضرورت ہے؟ میں تو اُلٹا ان کے لئے بوجھ ہوتی۔ تم کون سا موضوع لے بیٹھے ہو ۔رات بہت ہو گئی ہوٹل نہیں چلنا ۔صبح سویرے آگے بھی روانہ ہونا ہے‘‘
ہم نے ٹیکسی لی اور چند منٹ میں ہوٹل پہنچ گئے۔ ہمارا ہوٹل وہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ اگر ہمیں راستے کا علم ہوتا تو پیدل بھی جا سکتے تھے۔
میں فٹ پاتھ پر پڑا پتھر تھا
صبح کو لون کے لئے روانہ ہونے سے پہلے دریائے نکر کے کنارے سفر کرتے کرتے ہم ایسے مقام پر پہنچے جہاں ماوٗنٹین ٹرین ہائیڈل برگ کے سر پر بنے عظیم الشان قلعے میں لے جاتی تھی ۔ یہ مقام شہر کے اس مرکزی حصے سے زیادہ دور نہیں تھاجہاں رات ہم آوارہ گردی کرتے رہے تھے۔ اس مقام سے پیدل بھی یہاں ٹرین اسٹیشن پرآسکتے تھے۔ یہ ٹرین لیوژرن میں پہاڑ کی چوٹی پر زنجیر سے کھینچی جانے والی ٹرین جیسی تھی ۔ ہمارے ٹکٹ مولی نے پہلے سے خرید رکھے تھے ا س لئے بغیر کسی انتظار کے ہم آسمان کی طرف جانے والی ٹرین پر سوار ہو گئے ۔ جی ہاں! جب ٹرین چلی تو ایسے لگتا تھا کہ ہم سیدھا آسمان کی طرف سفر کر رہے ہیں ۔ آسمان پر پہنچنے سے ذراپہلے ہمارے راستے میں یہ قلعہ آتا تھا۔ ہم وہاں جا اُترے کیونکہ ابھی ہمارا اوپر جانے کا ارادہ نہیں تھا۔
یہ عظیم الشان قلعہ چودھویں اور ستر ھویں صدی کے درمیان مختلف بادشاہوں نے تعمیر کروا یا تھا۔ یہ اتنا بڑا تھا کہ اس وقت کی ہائیڈل برگ کی کل آبادی آسانی سے اس میں سما سکتی تھی۔۔ مٹیالے رنگ کے سخت اور بڑے بڑے پتھروں سے بنے قلعے کی نہ صرف مضبوطی کا خیال رکھا گیا تھا بلکہ اس کے بڑے بڑے دروازے ، محرابیں اور دیو قامت مینار انسانی ہاتھوں کا بنایا عجوبہ لگ رہے تھے۔ جدیدٹیکنالوجی کی غیر موجودگی میں پہاڑ کی چوٹی پرپہاڑ جیسا قلعہ بنانے والے کاریگروں کو انسان بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چھ سات صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کے پتھر، دروازے،نقش ونگار اور چھتیں نہ صرف سلامت تھیںبلکہ مکمل دیکھ بھال کی وجہ سے عمارت اتنی پرانی محسوس نہیں ہوتی تھی جتنی تھی۔ ایک گھنٹے تک ہم قلعہ میں گھومتے رہے ۔ پھر اسی ٹرین پر بیٹھ کر نیچے آئے۔وہاں سے جرمنی کے ایک اور قدیم شہر کو لون کی طرف ہمارا سفر شروع ہو گیا ۔ شہر سے نکلنے سے پہلے ہماری کوچ ایک یونیورسٹی کے سامنے سے گزری۔ جس کے بارے میںمولی نے بتایا کہ یہ جدید جرمنی کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ اس کا قیام 1386میں عمل میں آیا تھا۔ یہ آج بھی پڑھائی کے معیار اور ریسرچ کے حوالے سے جرمنی کی چندمشہور ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔
چند گھنٹوں میں ہم کولون پہنچ گئے۔دریائے رین کے کنارے واقع یہ شہر 33قبل مسیح میں وجود میں آیا تھا۔ یہ جرمنی کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور ان کاچوتھا بڑا شہر ہے۔ اس کی وجہ ِشہرت اس کی مشہور ِ زمانہ کولون (خوشبو) کے علاوہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ایک عظیم الشان گرجا گھر ہے۔ گو تھک طرز تعمیر کے اس اعلیٰ نمونے کی تعمیر 1248میں شروع ہوئی تھی ۔ کئی صدیوں تک اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا۔ 1560میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے اس کی تعمیر روکنی پڑی ۔ بالآخر 1880میں یہ مکمل ہوا۔ گویا چھ صدیوں میں یہ عمارت مکمل ہوئی۔اس کے آسمان سے باتیں کرتے انتہائی بلند میناروں کو انسان دیکھتا رہ جاتا ہے۔ جدید سائنسی ٹیکنالوجی کے بغیر اتنی عظیم عمارت کیسے اور کس نے بنائی یہ سوچ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم چرچ کے اندر جانے سے پہلے اس کے اردگرد گھوم کراس کی جسامت کا اندازہ لگا رہے تھے ۔ لگتا تھا کہ متذکرہ دور کی حکومتوں نے اپنے فنڈز کا ایک بڑاحصہ اس اور اس جیسی دوسری قابل ذکر عمارتوں کے لئے مخصوص کر رکھا تھا تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے کارنامے یاد رکھ سکیں۔ اس بہت بڑے ، بلند ، مضبوط ، خوبصورت اور شاندار چرچ کو جرمنی کی سب سے زیادہ قابلِ ذکر عمارت کہا جاسکتا ہے۔
ہم چرچ کے اندر داخل ہوئے تو لگتا تھا کہ کسی الگ دنیا میں پہنچ گئے ہوں۔ چھت دیکھنے کے لئے آسمان کی طرف منہ اٹھانا پڑ رہا تھا۔ بڑے بڑے فانوس زنجیروں کی مدد سے لٹکے ہوئے تھے۔ انہیں زیادہ روشن نہیں رکھا گیا تھا۔ چرچ میںبجلی کی روشنی سے قبل والا ماحول قائم رکھا گیا تھا۔ زیادہ تر روشنی رنگ برنگے شیشوں والی بڑی بڑی کھڑکیوں سے چھن کر اندر آرہی تھی۔ یہ سورج کی روشنی کی بجائے مختلف رنگوں سے بنی ایک مصنوعی اور پراسرا ر روشنی لگتی تھی۔ چرچ کے بڑے ہال میں لکڑی کا بنا فرنیچر بھی دورِ قدیم کی نشانیوںمیں سے ہے۔ غرضیکہ ایک عجیب ، خوابناک ، نیم روشن، رنگوں سے مزین اور پُرا سرار سا ماحول تھا۔ لگتا نہیں تھا کہ ہم اکیسویں صدی میں ایک ترقی یافتہ شہر میں کھڑے ہیں۔ یہ منظر ہمیں صدیوں پیچھے لے جاتا تھا جب ان چرچوں کے پادریوں کی پورے یورپ پر حکومت ہو ا کرتی تھی۔ بادشاہ اور حکومتیں گرجا گھروں کے دستِ نگر اور ان کے حکم کے تابع تھے ۔ان گرجا گھروں میں بیٹھ کر جنگیں شروع کرنے اور روکنے کے فیصلے ہوتے تھے۔ ان گرجا گھروں سے ہی پروٹسٹنٹ اور کیتھولک عیسائیوں کے درمیان طویل اور خون ریز جنگ کا فیصلہ ہوا تھا جس نے پورے یورپ کی سرزمین کو سرخ رنگ میں رنگ دیا تھا۔
اِس چرچ اور اسکے نواحی علاقے کی سیر کے بعد ہم اپنے ہوٹل چلے گئے۔یہ ہوٹل وہاں سے قریب ہی تھا۔ بقیہ سیاح ابھی تک کولون کی سیر میں مصروف تھے۔ میں اس لئے جلدی چلا آیا کہ آج شام میرا ایک جرمن دوست مجھ سے ملنے آنے والا تھا۔ برائون عمان میں میرا کولیگ تھا۔ ہم مختلفسیکشن میں کام کرتے تھے۔ ہماری مشترکہ دلچسپی اسکوائش ہمیں قریب لے آئی۔ دراصل عمان میںمیرا ایک دوست نسیم خان اسکوائش کا بہت اچھا کھلاڑی تھا۔ وہ عمان کا نمبرون کھلاڑی بھی رہا ۔ اسے جہانگیر خان اور جان شیر خان سے کھیلنے کا موقع بھی ملا ۔ وطن سے دور رہنے کی وجہ سے اور پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے اسے اپنا کھیل دنیا کو دکھانے اور اسے مزید آگے بڑھانے کے مواقع نہ مل سکے۔ جس کی وجہ سے وہ قومی اور عالمی سطح پر منظرِ عام پر نہ آسکا ۔ ورنہ اس میں جتنا ٹیلنٹ تھا وہ اسے اعلیٰ سطح کا کھلاڑی بنا سکتا تھا۔ غربت ، وسائل کی کمی اور غریب الوطنی کی وجہ سے وہ ایسا نہ کرسکا۔
نسیم خان روز انہ شام مجھے زبردستی اسکوائش کورٹ میں لے جاتا۔تا کہ وہ اپنی پریکٹس کر سکے اور مجھے بھگا بھگا کر ہلکان کر سکے ۔اگرچہ وہ میرے ساتھ پوری توانائی سے نہیں کھیلتا تھا ۔بلکہ ہاتھ ’’ہولا ‘‘ رکھ کر مجھے بھی کھیلنے کا موقع دینے کی کوشش کرتا تھا ۔ میرے لئے پھر بھی اس کا ساتھ دینا مشکل ہوتا تھا۔ اسی نسیم خان کی وجہ سے تھوڑا بہت ہاتھ چلانا مجھے بھی آگیا ۔پاکستانی ہونے کی وجہ سے گوروں پر ہماری اسکوائش کا ویسے بھی رعب تھا ۔کیونکہ پہلے جہانگیرخان اور پھر جان شیر خان دنیا کو مسلسل فتح کر تے آ رہے تھے ۔ ہمارے ساتھ کام کرنے والے انگریز، جرمن اور فرنچ جب بھی اسکوائش کھیلنے جمنازیم میں آتے وہ ہمارے ساتھ کھیل کر اپنے کھیل کو’’ بہتر بنانے ‘‘کی کوشش کرتے ۔ میں نے بھی ان کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش نہیں کہ میں پاکستانی ضرورہوںلیکن جہانگیرخان اور جان شیر خان کے مقابلے میں ایک ذرہ ِخاک بھی نہیںہوں۔ گوروں کے لئے میرا پاکستانی ہونا ہی کافی تھا۔ نسیم خان سے وہ اس لئے کتراتے تھے کہ وہ انہیں بری طرح ہراتا تھا ۔جب کہ میں اکثر’’ ان کا دل رکھنے کے لئے ‘‘ہار بھی جاتا تھا ۔ آپس کی بات تو یہ ہے کہ دل رکھنے والا بہانہ کافی عرصے تک میں بناتا رہا۔ ہارتا تو میں پوری کوشش کے بعد بھی تھا۔ بہر حال برائون اور دوسرے یورپین اکثر میرے ساتھ اسکوائش کھیلنے کی کوشش میں لگے رہتے۔ اسی وجہ سے ان میں سے اکثر کے ساتھ میری دوستی ہو گئی۔
برائون مجھ سے پہلے عمان سے جرمنی واپس چلا گیا تھا۔ جانے سے پہلے اس نے مجھے اپنا جرمنی کا فون نمبر دیا ۔ گاہے گاہے فون پر ہماری بات ہو تی رہی۔ اس دوران میں عمان سے سڈنی منتقل ہو گیا۔ ایک مرتبہ برا ئون کو کاروبار کے سلسلے میں سڈنی آنا پڑا ۔ وہاںہماری کئی ملاقاتیں رہیں اور اکٹھے اچھا وقت گزارا۔ وہی برائون جرمنی کے اس شہرہ آفاق شہر کولون میں رہتا تھا۔ اسے میری آمد کی اطلاع تھی۔ میرے ہوٹل پہنچنے کے ایک گھنٹے بعد ہی وہ اپنی بیوی کیتھی کے ساتھ وہاں آگیا۔ بہت گرم جوشی سے ملا۔ اس نے مجھیاپنے ساتھ لے جانا چاہا۔ اس نے اپنے گھر میں میرے لئے گیسٹ روم تیار کیا ہواتھا۔ اس پیشکش پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیااور انہیں سمجھایا ’’ میں ہوٹل میں رہوں یا نہ رہوں اس کی ادائیگی پہلے کر چکا ہوں۔ دوسرا یہ کہ صبح آٹھ بجے ہم نے MAINZ کے لئے روانہ ہونا ہے۔ تمھارے گھر کی نسبت یہاں آسانی سے تیار ہو کر اگلے سفر کے لئے روانہ ہو سکتا ہوں۔ تا ہم آج کی شام آپ دونوں میاں بیوی کے نام‘‘
برائون اپنے ساتھ گاڑی میں اسکوائش کٹ بھی لے کر آیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے میرے ساتھ اسکوائش کھیل کر پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے معذرت کر لی اور اسے بتایا ’’ نہ تو میں نے عرصے سے اسکوائش کھیلیہے او ر نہ ہی میرے پاس ضروری سامان ہے۔ اس لئے معذرت کرتا ہوں‘‘
برائون نے زیادہ اصرار نہیں کیا۔ وہ گاڑ ی ڈرائیو کرتا ہوا دریائے رین کے کنارے فیری اسٹیشن پر پہنچا۔ ٹکٹ لے کر ہم ایک فیری میں سوار ہو گئے جو دریائے رین کے سینے پر پھسلتی کولون کے بیچوں بیچ چل پڑی۔ دریا کے کنارے کولون کے متمول لوگوں کے شاندار مکانات بنے ہوئے ہیں۔ جن کے ٹیرس پانی سے ملے ہوئے ہیں۔ ان کی ذاتی کشتیاں گھر کے سامنے بندھی مالکوں کا انتظار کر رہی ہیں کہ وہ آئیں تو انہیں اپنے سینے پر لاد کر دریا کی سیر کرائیں اور انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچائیں۔ اس دو منزلہ فیری میں بار بھی تھا ۔ براوٗن نے اپنے لئے جرمن بیئر ، کیتھی کے لئے مالٹوں کا تازہ جوس اور میرے لئے کافی خریدی اور ہم اس کی چھت پر آبیٹھے ۔ سنہری دھوپ ہر سمت پھیلی ہوئی تھی۔ رنگ برنگی کشتیاں اِدھر اُدھر آجارہی تھیں ۔جب کوئی بوٹ ہمارے نزدیک سے گزرتی تو وہ ہماری طرف ہاتھ ضرور لہراتے ۔ جواب میں ہم بھی ہاتھ ہلاتے۔ برائون عمان کی یادیں تازہ کر رہا تھا۔ اس کی گفتگو اور اس کی حسرتوں کا خلاصہ یہی تھا کہ دل ڈھونڈتا ہے پھر فرصت کے وہ رات دن ۔
عمان میں ہماری جاب بہت آسان تھی۔ آٹھ سے ایکبجے تک کام ہوتا تھا۔ وہ بھیہفتے میں صرف پانچ دن۔ اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ہم کتابیں پڑھتے ، ویڈیو پر فلمیں دیکھتے ، سوئمنگ کرتے، اسکوائش کھیلتے اور گپ شپ کرتے تھے۔ اس کے بعد آج تک فرصت کے وہ لمحات میسر نہ آ سکے۔ برائون واپس جرمنی چلا گیا اور میں آسٹریلیا ۔ دونوں ممالک رہنے کے لئے گراں اور جینے کے لئے روزوشب کی محنت مانگتے ہیں۔ برائون اسپورٹس گڈز(کھیلوں کے سامان) کا کاروبار کر رہا تھا۔ یوں تو ان کا کاروبار اچھا چل رہاتھا لیکن دونوں میاں بیوی صبح سے شام تک مصرو ف رہتے تھے۔ یہی ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا چلن ہے۔ یہاں انسان کو لہو کے بیل کی طرح رات دن جتا رہتا ہے تب جا کر اس کا گزارہ ہوتا ہے۔ ان ممالک میں معیارِ زندگی کی سطح ترقی پذیر اورنیم ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بلند ہے لیکن اس معیار کو قائم رکھنے کے لئے بہت سے ڈالروں ،پونڈوں اور مارکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لئے کوئی چور راستہ نہیں ہے۔ کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جان توڑ محنت۔ یہاں اپنے علاوہ حکومت اور دوسرے شہر یوں کے لئے بھی کمانا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہم جو کچھ بھی کماتے ہیں اس کا تیسرا حصہ حکومت کو ٹیکس کی شکل میں ادا کرناپڑتا ہے۔ اس سے نہ صرف حکومت کے اخراجات پورے ہوتے ہیںبلکہ کم آمدنی والوں، بے روزگاروں ، بوڑھوں اور دوسرے ضروت مندوں کے اخراجات بھی اسی سے ادا ہوتے ہیں۔ ٹیکس سے کسی کو مفر نہیں ۔ کاروباری ہو یا تنخواہ دار سب کو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ محنت کی آمدنی کا تیسرا حصہ ٹیکس کی شکل میں دے کر ایک دفعہ پیٹ میں مروڑ تو اٹھتا ہے۔ لیکن یہ سوچ کر تسلی ہوتی ہے کہ یہ ٹیکس ضائع نہیں ہو رہا ہے۔ بلکہ اس کا صحیح استعمال ہو رہا ہے ۔ اس کا بڑاحصہ صحت، تعلیم ، ٹرانسپورٹ ، صفائی ستھرائی ، ماحول اور رسل و رسائل کی سہولتوں کی شکل میں عوام کو واپس مل جاتا ہے۔
میری دلچسپی کو مد نظر رکھ کر برائون اور کیتھی مجھے کولون کے مشہور میوزیم ROMISCH GERMANISCHES لے گئے ۔ اس میں تیرھویںسے انیسویں صدی کے درمیان اس علاقے میں بنائے آرٹ کے فن پارے موجود تھے۔ ایک سے ایک خوبصورت پینٹنگ نظروں کو خیرہ کر رہی تھی۔ کافی دیر تک ہم میوزیم میں گھوم کر جرمنی کے مشہور مصوروں کے فن پاروں کو نظروں سے دل میں اتارتے رہے۔ برائون اور کیتھی بھی صرف ایک مرتبہ اور وہ بھی بہت پہلے یہاں آئے تھے اس لئے وہ بھی ہر تصویر کو بہت شوق اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
وہاں سے ہم ایک ایسے بازار میں گئے جہاں ہر طرف خوشبوئیں ہی خوشبوئیں تھیں لیکن شیشیوں میں بند ۔جی ہاں! یہ پرفیوم کی دکانیں تھیں۔ یہاں پرفیوم کی اتنی قسمیں دستیاب تھیں کہ انتخاب مشکل تھا۔ میں کولون کی یاد گار کے طور پر فیوم کی چند شیشیاںخریدنا چاہتا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا خریدوں جو معیاری بھی ہو اور جس کی اجازت میری جیب بھی دے۔ یہ دونوں مسئلے کیتھی اور برائون نے حل کر دیئے ۔ وہ اس طرح کہ کیتھی نے میرے لئے پرفیومز کا انتخاب کیا اور میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود برائون نے ان کابِل ادا کر دیا۔ مجھے برائون کی عادتیں کچھ پاکستانی سی لگیں۔ یہاںعموماََ اتنی دریا دلی کوئی نہیں دکھاتا۔ شاید برائون کو سڈنی میں دیے گئے میرے تحائف یاد تھے۔ بہرحال یہ بھی اس کی بڑائی تھی ۔ ان میا ں بیوی نے اپنی محبت اور مہمان نوازی سے ثابت کر دیا کہ یہ وصف یورپ میں بھی موجود ہے۔
اگرچہ سورج ابھی تک پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا لیکن شام ہو چکی تھی۔ پورا دن گھومنے پھرنے سے میں خاصا تھک چکاتھا اور جسم آرام کا تقاضا کر رہا تھا۔ برائون ڈنر کے لئے کسی ریسٹورنٹ میںجانا چاہتا تھا۔ کیتھی نے اس کی تجویز رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ گھر جا کر اپنے ہاتھوں سے ڈنر تیار کرے گی۔ برائون نے فیصلہ میرے ہاتھ میں چھوڑا تو میں نے ان کے گھر جانے کا فیصلہ سنا دیا ۔ آدھے گھنٹے بعد ہم برائون کے خوبصورت گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ کیتھی نے پوچھا کہ میں کیا کھانا چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا’’ اگر تم برا نہ منائو تو ایک ڈش میں خود بنانا چاہوں گا ۔خود بھی کھائوں گا اگرتم لوگوں کو پسند آئے تو تم بھی کھانا‘‘
کیتھی نے خوشدلی سے کہا ’’کیوں نہیں !مجھے بتاتے جائیں کہ یہ ڈش بنانے کے لئے آپ کوکیا کیا درکار ہے‘‘
’’ضرور‘‘
دراصل مجھے لیوژرن میں میری اور اسمتھ کے گھر کا ڈنر یاد تھا۔ یورپین کھانے بہت ہلکے پھلکے ہوتے ہیں جبکہ مجھے زوروں کی بھوک لگی تھی۔ دوسرا یہ کہ میں مسالے وغیرہ اپنی مرضی کے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ ان کے ہاں حلال گوشت تو نہیں تھا۔تاہم مچھلی کے قتلے فریج میں موجود تھے۔ ابلے ہوئے سفید چنوں کے بند ڈبے بھی تھے۔ میں نے چنے ڈال کر بریانی بنائی۔جو بھی مسالے دستیاب تھے ان کا بھر پور استعمال کیا۔اس کے ساتھ مسالوں والی مچھلی فرائی کی۔ کیتھی نے میری مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اس دوران کچھ سبزیاں ا ُبا ل لی تھیں ۔ اس نیسبزی کا سوپ بھی تیار کر لیا۔ ان کے ہاں لبنانی روٹی تو نہیں تھی تاہم بریڈ موجود تھی جسے ہم نے فرائی پین میں ہلکا سا تیل لگاکرفرائی کرلیا۔ کیک بھی موجود تھا۔ اس طرح اچھا خاصا اہتمام ہو گیا۔
میں نے بریانی میں اگرچہ مرچیں کم ہی رکھی تھی لیکن کیتھی اور برائون کو وہ بھی تیز محسوس ہو رہی تھیں۔ برائون نے ایک پلیٹ بریانی کے ساتھ دو بوتلیں بئیر کی ختم کر دیں۔ کیتھی نے بھی اپنی پلیٹ ختم کرکے چھوڑی حالانکہ وہ بھی سی سی کر رہی تھی۔ مرچوں کے باوجود انہوں نے وہ بریانی بہت رغبت سے کھائی۔ تلی ہوئی مچھلی بھی انہیں بہت اچھی لگی۔اس طرح میں نے مہمان کی بجائے میزبان کا کردار ادا کیا۔ دونوںمیاں بیوی بہت خوشتھے۔ برائون کھاناپکنے کے دوران کچن میں بیٹھااسکاچ کی چسکیاں لیتا رہااور کھانے کے دوران بئیر پر ہاتھ صاف کرتا رہا۔ اس نے بھی مرچ مسالے والے کھانے کو بہت پسند کیا۔ وہسکی ، بئیر اور بریانی نے اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔ وہ کیتھی سے لپٹ کر بوس و کنار میں یہ بھول گیا کہ کہ کوئی اور بھی وہاں موجود ہے۔میں نے کھنکار کر انہیں متوجہ کیا تو کیتھی کسمسا کر اس کی بانہوں سے نکل آئی۔کیتھی کے گال اور لبکچھ شرم سے اور کچھ برائون کی گستاخیوں سے گلنار ہو گئے تھے۔
برائون کیتھی سے کہنے لگا’’ بریانی بنانے کا یہ طریقہ یاد رکھنا اور آئندہ اُبلے ہوئے چاولوں کی بجائے اسی طرح پکایا کرو‘‘
’’ تاکہ تمہیں بئیر پینے کا موقع مل جائے‘‘ کیتھی نے پیار بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا
’’ بریانی اور بئیر سے تمھارا پیار یوں ہی پروان چڑھسکتا ہے تو میں یہ طریقہ لکھ کر چھوڑ جاتا ہوں‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا
رات گئے برائون مجھے ہوٹل چھوڑنے نکلالیکن وہ ہوٹل کی بجائے کسی اور سمت ہی جا نکلا۔ یہاں ہر جانب نائٹ کلب ، فاسٹ فوڈز،جو ا ء خانے اور ریستورانوں کی روشنیاں جلتی بجھتی نظر آرہی تھیں۔ میرے استفسار پر براوٗن نے بتایا ’’ یہ کولون کا وہ علاقہ ہے جہاں دن سے زیادہ راتیں جاگتی ہیں۔ چراغ جلے نوجوانوں کی ٹولیاں کی ٹولیاں یہاں چلی آتی ہیں۔ کلب ، جوا ء خانے اور ریستوران بھر جاتے ہیں۔ یہاں ہر وہ کام ہوتا ہے جو مسقط میں منع تھا۔ حتی کہ اگر جیب میں مال ہو تو منشیات بھی آسانی سے مل جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یورپ بھر کے شوقین لڑکے لڑکیاں کولون کے اس علاقے کو جنت سمجھتے ہیں۔ رات بھر خوب ناچ گانا ، پینا پلانا اور چرس اور افیم سے بھرے سگریٹوں کا دھواں اڑانا، ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ نشے میں وہ اپنی گرل فرینڈز بلکہ خود کو بھی بھول جاتے ہیں۔ صبح جب نشہ اترتا ہے تو کوئی فٹ پاتھ پر پڑا ہوتا ہے اور کوئی کلب کی میز پر سر رکھے سویا ہوتا ہے۔ ایک کی گرل فرینڈ دوسرے کی بانہوں میں اور دوسرے کی تیسرے کی گود میں ہوتی ہے۔ اس طرح جوڑیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور وہ اپنا غم غلط کرنے ہر شام یہاں چلے آتے ہیں۔ انہیں نہ دنیا کی فکر ہوتی ہے نہ مستقبل کا غم اور نہ کسی اپنے کی پرواہ ۔ بس نشے سے بھرا ایک سگریٹ یا انجکشن ان کی کل کائنات ہوتی ہے ۔ جب تک نشیمیں مدہوش نہیں ہوتے خوب ناچتے اور چہکتے ہیں۔ پھر آنکھیں بند کر کے کسی اور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں‘‘
َ برائون نے جب اتنی تفصیل سے ان نشئیوں کا حال سنایا تو میں نے کہا ’’جتنی تفصیل سے تم ان کے اندر کاحال سنا رہے ہو۔ لگتا ہے تم خود بھی کبھی ان راستوں سے گزرے ہو‘‘
کہنے لگا ’’تم بالکل درست کہہ رہے ہو ۔کبھی میں بھی اس بازار کی ایک اینٹ بلکہ سڑک پر پڑا ہوا ایک پتھر تھا۔ اینٹ تو عمارت کا حصہ ہوتی ہے اور صدیوں تک عمارت کی سربلندی کو قائم رکھنے کے لئے اپنی جگہ جمی رہتی ہے جب کہ میں فٹ پاتھ پر پڑا وہ پتھر تھاجسے ہر ا یرا غیر ا ٹھوکر مار کر ادھر سے اُدھر کر دیتا ہے۔ وہ بھی کیا دور تھا۔ نوجوانی اور آزادی تھی۔ گھر چھوڑا تو پھر والدین اور بہن بھائیوں کو بھول کر سکون کی تلاش میںاس بازار میں آنکلا ۔نئی نئی آزادی ملی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ ہر وہ کام کر گزروں جس سے والدین منع کرتے تھے۔ سال دو سال یہی مشغلہ رہا۔ پڑھائی تو کب کی چھوٹ چکی تھی۔ جو عارضی جاب کرتااس کی تمام کمائی اسی رات اس بازار میں لٹا کر گھر چلا جاتا ۔گھر بھی کیاتھا۔ ایک ہی کمرے میں پانچ چھ میرے ہی جیسے نشئی لڑکے لڑکیاں سونے کے لئے چلے آتے تھے۔ سو نے کے علاوہ اس کمرے میں اور کوئی سہولت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ ٹوائلٹ بھی عمارت کے باہر تھی۔ غرضیکہ دو سال تک میں دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے نادیدہ غم غلط کرتا رہا۔
جب آہستہ آہستہ ہوش کی دنیا میں آیا تو محسوس ہوا کہ اپنی زندگی کے دو قیمتی سال ضائع کر دئیے ہیں ۔ رسمی تعلیم کا سلسلہ تو کب کا منقطع ہو چکا تھا۔ ایک ٹیکنیکل کالج میں ایر کنڈیشنگ کا کورس کیا اور ایر کنڈیشنگ انجنیئر بن کرمیں عام لوگوں کی صف میں شامل ہو کر نارمل زندگی بسرکرنے لگا۔اسی ہنر کی وجہ سے مجھے عمان کی وہ جاب ملی تھی۔ اس گرم اور صحرائی ملک میں چند سال گزارنے کا بہت فائدہ ہوا۔ میں اتنی رقم پس انداز کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ آج اپنے کاروبار کا مالک ہوں ۔میری زندگی میں اگر کوئی کمی تھی تو وہ کیتھی نے پوری کردی۔ وہ بہت پیار کرنے والی بیوی ہے۔ میرے ماضی سے واقف ہونے کے باوجود اس نے کبھی اس کا طعنہ نہیں دیا۔ مجھے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ کیتھی کو پا کر میں خود کو بہت خوش قسمت محسوس کرتا ہوں ۔ ہفتے عشرے میں ہم اپنے والدین کے ہاں جاتے ہیں۔ وہاں دوسرے بہن بھائی بھی آتے ہیں اور خوب رونق رہتی ہے۔ زندگی بہت سکون سے گزر رہی ہے۔‘‘
برائون جب اپنی کہانی سنا رہا تھا توہم ایک کلب کے اند ر بیٹھے رنگ برنگی روشنیوں کے جھماکے اور تیز موسیقی کی زد میں تھے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ برائون اس علاقے سے نفرت بھی کرتا ہے اور مجھے لے کر یہاں آگیا ہے۔ شاید وہ میرے سامنے اپنے ماضی کی تلخ و شیریں یادوں کو دُہرانا چاہتا تھا۔وہاںتیز موسیقی ، سگرٹوں کے دھوئیں،بدبو اور شور شرابے کی وجہ سے میرا سر درد کرنے لگا ۔اس لئے برائون کا ڈرنک ختم ہوتے ہی ہم وہاں سے چلے آئے ۔
برائون نے مجھے ہوٹل کے سامنے ڈراپ کیا تو پاکستانیوں کی طرح گلے ملا ۔گلو گیر آواز میں بولا ’’جانے اب کب ملاقات ہوگی!ہوگی بھی یا نہیں۔ میرے پاکستانی دوست! تم میرے دل کی کتاب میں ہمیشہ زندہ وتابندہ رہو گے‘‘
میں برائون کے جذباتی پن سے واقف تو تھا لیکن اس کے جذبات کی اس گرمی سے پہلی دفعہ آشنا ہوا تھا۔ یورپ کی یخ ٹھنڈی فضائوں میں پرورش پانے والا یہ شخص اندر سیبالکلپاکستانی تھا۔ خلوص ومحبت اس کے رگ و پے میں بسی تھی۔ سچ ہے کہ یہ دولت خدا کسی کو بھی عنایت کر سکتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے اور کسی بھی ماحول میں رہتاہو۔
رات نو سر نو سر کہتے گزرتی ہے
ہوٹل کے سامنے پبلک فون بوتھ تھا ۔ جانجی اور مشی وہاں سے جاپان کسی سے فون پر بات کر رہے تھے ۔ مجھے دیکھا تو مشی نے کہا ’’مسٹر طارق پلیز ! مسٹر طارق پلیز! ‘‘
میں ان کے پاس گیا اور پوچھا’’ کیا بات ہے؟‘‘
مشی بولی ’’کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں اس شہر کا کیا نام ہے‘‘
’’ کولون ‘‘میں نے حیرانگی سے کہا
’’تھینک یو !تھینک یو !مسٹر طارق ‘‘ مشی نے ایسے کہاجیسے میں نے کسی نہایت پیچیدہ مسئلے کا حل بتا دیا ہو۔
مشی نے جانجی کو بتایا اور جانجی نے فون پر کسی کو بتایا کہ وہ اس وقت کو لون میں ہیں۔ گویا پورا دن یہاںگزارنے کے بعد بھی ہنسوں کے اس جوڑے کو شہر کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ ایسے بھی ہوتے ہیں سیاح ۔
اس وقت آدھی رات تھی لیکن ہمارے گروپ کے زیادہ تر سیاح ابھی ہوٹل کے بار میں موجود گپ شپ اور مے نوشی میں مصروف تھے۔ میری اس رودادِ سفر میں کلب اور بار کا ذکر بار بار آ رہا ہے۔ اس سے کچھ قارئین غلط فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان کے لئے میں عرض کرتا چلوں۔کلب میں زیادہ وقت گزارنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ وہاں پینے کے لئے جاتے ہیں ۔ پینے پلانے کے ساتھ وہاں وہ تفریحِ طبع کے دوسرے ذرائع سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ دوسری قسم والے پینے سے زیادہ دوسرے لوگوں سے ملنے اور ان کے ساتھ گفتگو کر کے وقت گزارنے جاتے ہیں۔ کلب میں جانے والے تمام لوگ وہاں سے ڈرَنک ہو کر ہی نہیں نکلتے ۔بعض صرف ایک آدھ ڈرنک لیتے ہیں اور بعض توصرف سافٹ ڈرنک پی کر ڈکار لیتے ہوئے گھر لوٹ جاتے ہیں۔ ان کامطمعِ نظرصرف ہنس کھیل کر وقت گزارنا ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہیں۔ بلیئرڈ اور موسیقی سے دلبہلاتے ہیں، گھوڑوں کی ریس پر شرطیںلگاتے ہیں، پو کر مشین میں ڈالر گنوا کر بھی مطمئن نظر آتے ہیں کہ وقت اچھا گزرا۔ کلب کی بڑی اسکرین والی ٹی وی پر نئے اور پرانے مختلف کھیلوں کے دلچسپ مقابلے دیکھتے ہیں۔ وہاں یہ کھاتے ہیںپیتے ہیں اور پھر سونے کے لئے گھر چلے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ لوگوں کا تو گھر سے زیادہ ان کلبوں میں وقت گزرتا ہے۔ اگر یہ کلب بھی نہ ہوں تو جس طرح کی فیملی لائف یورپ ،امریکہ او ر آسٹریلیا کے لوگوں کی ہوتی ہے اس میں تو وہ گھٹ گھٹ کر وقت سے پہلے مر جائیں ۔ کیونکہ گھر میں نہ بچے ہوتے ہیں نہ بہو اور نہ پوتے پوتیاں جن کے ساتھ وہ وقت گزار سکیں۔ بڈھا بڈھی ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر اکتا جاتے ہیں تو کلبوں میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا کولون کے اس ہوٹل میں ہمارے گروپ کے سیاحوں کی مے نوشی کا۔ اس رات خلاف معمول مولی بھی وہاں بیٹھی پی رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو سب سے پہلا تبصرہ اسی نے کیا ’’کہاں تھے اب تک ناٹی بوائے ! لگتا ہے یورپ کی ہوا تمھیں خوب راس آئی ہے اس لئے اکثر راتیں باہر گزارنے لگے ہو‘‘
میں نے ایک سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا ’’بھئی ! جب میزبانوں کو ایک چھڑے چھانٹ مہمان کا خیال نہ ہو تو مہمان بے چارے کو اپنا بندوبست کرنا ہی پڑتا ہے‘‘
مولی نے جولی کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں کہا’’ تم اتنے بھی چھڑے چھانٹ نہیں ہو۔ تمھارا خیال رکھنے والے بہت لوگ ہیں۔‘‘
یہ بات مجھے مولی پہلے بھی کئی بار کہہ چکی تھی۔ لگتا تھا مولی میرے اور جولی کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار تھی۔ میں نے بات بدلنے کے لئے کہا’’ تم آج خلافِ معمول ہم مسافروں کے ساتھ کیسے بیٹھی ہو‘‘
’’ بھئی ! مسافر تو میں بھی ہوں بلکہ میرا سفرتو ساراسال جاری رہتا ہے۔ ویسے میں بھی تمھاری طرح ابھی تھو ڑی دیر پہلے ہی واپس آئی ہوں ۔کمر ے میں جانے سے پہلے سوچا آپ لوگوں کے ساتھ ایک آدھ ڈرنک لے لوں۔ نیند اچھی آئے گی‘‘
’’ اگر پھر بھی نہ آئی تو مجھے بلا لینا ‘‘میں نے شرارت سے کہا
مولی جس کے چہرے پر سرخی سی پھیل گئی بولی’’تم کیا کرو گے ناٹی بوائے ؟‘‘
’’ میں نے کیا کرنا ہے بس کوئی لوری وغیرہ سنادوں گا ۔شاید اس سے تمھیں نیند جلدی آجائے‘‘
مولی نے اٹھتے ہوئے کہا’’ شکریہ! مجھے اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ویسے آپ لوگ کب تک سونے جائیں گے۔ صبح ہم نے آگے روانہ ہوناہے‘‘
جارج نے کہا ’’بس ایک ڈرنک اور ! اس کے بعد چلے جائیں گے‘‘
میں نے دیکھا کہ جولی نے خفگی کے اظہار کے طور پر چہر ہ کچھ پھلایا ہوا تھا۔ اس نے اب تک کوئی بات بھی نہیں کی تھی۔ ورنہ وہ ایک لمحے کے لئے بھی خاموش رہنے والی نہیں تھی۔ میں نے اس کی دلجوئی کی خاطر کہا’’ میں ڈرنک لینے جارہا ہوں تم کیا لو گی؟ ‘‘
’’کچھ نہیں ! میرے پاس ڈرنک ہے ‘‘ اس نے بدستور سرد لہجے میں کہا۔
حالانکہ بیئر کا جو گلاس اس کے آگے رکھا تھا اس کے پیندے کی جھاگ ہی باقی تھی۔ سب کے سامنے بحث جاری رکھنے کی بجائے میں کائونٹر پر گیا ۔ اپنے لئے کوک اور جولی کے لئے فوسٹر کا گلاس لے آیا۔ اس محفل میں بھارتی نژاد ڈاکٹر رامیش اور پانڈے نظر نہیں آرہے تھے۔ لیوژرن میں ہونے والی تلخ بحث کے بعد وہ میرے ساتھ تو کچھ کھنچے کھنچے تھے ہی باقی ٹورسٹوں سے بھی الگ الگ اپنی فیملیوں میں زیادہ وقت گزارنے لگے تھے۔ ویسے بھی ان کی فیملیوں میں اتنے ممبر تھے کہ وہ آپس میں گپ شپ کر کے وقت گزار سکتے تھے۔ جسٹن اور جوزی حسبِ معمول پینے اور قہقہے لگانے میں مصروف تھے ۔ وہ میاں بیوی ہمارے گروپ کی جان تھے۔ ہنس مکھ ، ملنسار او ر ہر وقت ہنسنے کھیلنے والے۔ یہ میاں بیوی زندگیکا ہر میٹھا رس کشید کر نے اور اور اُسے مزے لے لے کر پینے کا فن جانتے تھے۔ حالانکہ اپنی زندگی میں پہلی اور شاید آخری مرتبہ ملنے والی ایک معقول رقم اس دورے میں خرچ کر کے وہ خالی ہاتھ سڈنی لوٹنے والے تھے۔ لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جو صرف آج کی فکر کرتے ہیں کل کے لئے وقت سے پہلے ہلکان نہیںہوتے۔ توکل جن کا مضبوط سہار ا ہوتا ہے ۔ایک دوسرے سے پیار کے سہارے زندگی کی کڑی منزلوں سے آسانی سے گزر جاتے ہیں ۔
اس رات خلافِِ معمول ہمارے ساتھ امریکن بوڑھا باب بھی بیٹھا وہسکی سے چسکیاں اور زبان سے چٹکیاں لے رہا تھا۔ وہ اکثر ایک دو مخصوص فیملیوں کے ساتھ ہی زیادہ وقت گزارتا تھا۔ زیادہ بڑی محفل میں شرکت سے اجتناب کرتا تھا۔ لیکن آج شاید وہ بوڑھے جوڑے اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے۔ لہذا باب ہمارے ساتھ آبیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ تفصیلی بات چیت کا مجھے پہلے موقع نہیں ملا تھا۔ آج یہ موقع میسر آیا تو ہم نے دیکھا کہ باب جو بظاہر سنجیدہ نظر آ تا تھا محفل کو اپنی مزاحیہ باتوں سے زعفرانِ زار بنانا جانتا تھا۔ وہ کسی دور میں امریکن آرمی میں رہ چکا تھا ۔ امریکن آرمی میں مرد اور عورتیں ہر شعبے میں بلا تخصیص اکٹھے کام کرتے ہیں۔ جہاں جوان مرد اور جوان عورتیں چوبیس گھنٹے اکھٹے رہتے ہوں۔ ان پر کوئی خاص پابندی بھی نہ ہو تو ہر دن اور ہر رات نئے رشتے اور نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ کئی لطیفے وجود میں آتے ہیں۔ کئی طربیے اورکئی المیے بھی ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ بہرحال اس رات باب المیوں سے زیادہ لطیفوں کا ذکر کر رہا تھا۔ ایک لطیفہ اس نے سنایا ’’ایک امریکن لڑکی فوج میں بھرتی ہوئی۔ چند ماہ کے بعد اسے پہلی چھٹی ملی اور وہ گھر گئی۔ وہاں اس کی ملاقات اپنی بچپن کیسہیلوں سے ہوئی تو ایک سہیلی نے پوچھا’’ سنائو فوج کی نوکری میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے؟‘‘
فوجی لڑکی سے کہا ’’کچھ نہیں! بس سارا دن ’یس سر‘ ’یس سر‘ کرتے گزر جاتا ہے‘‘
دوسری لڑکی نے چھیڑتے ہوئے کہا’’ اور رات؟‘‘
فوجی لڑکی نے بلا جھجک کہا’’ رات’ نو سر‘’ نو سر‘ کہتے گزرتی ہے‘‘
انہی لطیفوں اور چٹکلوں میں صبح کے دو بج گئے۔ اس وقت پورے ہال میں صرٖ ف ہمارا ٹیبل ہی آبادتھا۔ باقی لوگ کب کے سونے جا چکے تھے۔ دو بجے ہم نے بھی یہ محفل بر خواست کی اور اٹھ کر اپنے کمروں کی طرف چل دئیے۔ اس وقت تک تقریباً سبھی ڈرَنک ہو چکے تھے اور ایک دوسرے کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔ جولی جس نے آج خلاف معمول چپ سی سادھی ہوئی تھی ، اُٹھنے کی بجائے سیٹ پر بیٹھی گلاس سے کھیلتی رہی۔ میں لفٹ کے پاس سے واپس مڑا۔ اس سے پوچھا ’’سرکار ! کیا ارادہ ہے۔ کیا رات یہیں بیٹھ کر گزار دو گی‘‘
اس نے ڈرَنک ہونے کے باوجود خفگی کا سلسلہ جاری رکھا ’’تمھیں کیا !میں یہاں بیٹھوں یا مروں ۔تمھیں تو اکیلے سیر سپاٹے کا شوق ہے۔ پورا کر لیانا شوق ‘‘
’’ اچھایہ بات ہے ۔تم میرے اکیلے باہر جانے پر خفا ہو۔ بھئی میں ایک دوست کے ہاں تھا۔ وہ ابھی مجھے ہوٹل چھوڑ کر گیا ہے‘‘
’’یہ تمہارا ہر شہر میں کوئی نہ کوئی دوست کہاں سے نکل آتا ہے ‘‘ اس نے جھنجلا کر کہا
میں واپس بیٹھ گیا’’ دوست تو اللہ کی دین ہوتے ہیں۔ میں نے زندگی میں کئیجگہوں پر وقت گزارا ہے۔ ہرجگہ کچھ لوگوں سے انسان کی بے تکلفی ہو ہی جاتی ہے اور ان میں سے کچھ کہیں نہ کہیں مل بھی جاتے ہیں۔ میرا یہ جرمن دوست عمان میں میرا کولیگ رہا ہے اور ہم نے کافی وقت اکھٹے گزارا ہے۔ اچھی فطرت کا انسان ہے کہ اس نے اب تک مجھے یاد رکھا۔وہ خود مجھے ہوٹل سے لے کر گیا تھا ‘‘
جولی پہلے تو شک بھری نظروں سے دیکھتی رہی پھر اٹھتے ہوئے بولی ’’ تمہارا دوست مجھے تمہارے ساتھ دیکھ لیتا تو اسے کچھ ہو جاتا یا تمہاری دوستی پر حرف آتا‘‘
’’ میں نے سوچا کہ دو دوستوں کی پرانی یادوں کے حوالے سے ملاقات میں تم بوریت محسوس کروگی اس لئے تمہیں بتائے بغیر چلا گیا۔ اب بحث بند کرو ا ور اٹھو‘‘
جولی نے سیٹ تو چھوڑ دی لیکن جو وزن پہلے سیٹ پر تھا اب میرے کاندھوں پر آگیا۔ میں نے اسے الگ کرتے ہوئے خفگی سے کہا’’ اب اتنی بھی ڈرَنک نہیں ہو کہ اپنے پائوں پر نہ کھڑی ہو سکو۔ سیدھی طرح چل کر اپنے کمرے میں جائو اور سو جائو‘‘
اس نے میرے کندھے سے سر اٹھایا، گلے سے بانہیں الگ کیں اور دوبارہ جا کر سیٹ پر گر گئی۔ میں تھکن اور نیند سے پہلے ہی بے حال تھا۔جولی کی ان حرکتوں سے جھلا گیا ۔ ہاتھ پکڑ کر اُسے جھٹکے سے اٹھایا اور تقریباََ گھسیٹ کر لفٹ تک لے کر گیا۔ ۔اس کو تو جیسے یہی چاہیے تھا ۔وزن میرے اوپر ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس نے ہاتھوں اور پاوٗ ں کا استعمال بھی بند کر دیا بلکہ آنکھیں بھی بند کرلیں ۔ میں جانتا تھا کہ ڈرامہ کر رہی ہے لیکن میرے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ اسی حالت میںاُسے بمشکل اس کے کمرے تک پہنچایا ۔ا س کا دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں آیا اورلباس تبدیل کر کے چند گھنٹے نیند لینے کے لئے بستر پر دراز ہو گیا۔
بے چارے یورپ والے
ہماری اگلی منزل ہالینڈ کا درالخلافہ ایمسٹرڈم تھا۔ لیکن اس سے پہلے کولون میںجرمنی بلکہ یورپ کے مشہور و معروف دریا ئے رین کا کروز (دریائی سیر)ہمارے پروگرام کا حصہ تھا۔ دریائے رین یورپ کے مختلف ممالک میں سانپ کی طرح بل کھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ یورپ کے مختلف شہروں میں رسل و رسائل کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے ۔کافی لوگ خشکی کی بجائے اس دریا کے سینے پر سفر کر کے ایک سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ دریا کا یہ سفر جدید ترین سہولتوں کی وجہ سے خوبصورت تفریح کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔آج ہم بھی اس سے لطف اندو ز ہونے والے تھے ۔جس فیری میں ہم سوار ہوئے وہ انتہائی خوبصورت اور تمام سہولیات سے آراستہ تھی۔ یہ تین منزلوں پر مشتمل تھی۔ اسے بحری جہاز کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔شیشے کی دیواروں والے ہال، خوبصورت کھلے عرشے، کافی شاپس ،رنگا رنگ دکانیں اور کئی ریستوران اس فیری کا حصہ تھے۔ اس بہت بڑے دریائی برتن میں ہمارے گروپ کے علاوہ سیکڑوں مزید سیاح بھی سمائے ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر ہماری طرح آسٹریلیا ، امریکہ، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور جنوبی افریقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ ایشیائی خاندان بھی ان میں نظر آئے۔تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہ سبھی بھارت کے صوبے گجرات سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکہ میں مستقل سکونت رکھے ہوئے ہیں۔ یورپ کے اس پورے سفر میں مختلف ہوٹلوں ، تفریحی مقامات اور فیریز پر ہمارا دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے بے شمار سیاحوں سے پالا پڑا۔ اتفاق سے پورے سفر میںمجھے ان میں سے ایک بھی پاکستانی نہیں ملا۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے بھی بشمول ہمارے اپنے گروپ کے صرف صوبہ گجرات کے لوگ ہی ملے۔ شمالی بھارت کا کوئی شخص اس فضول خرچی میں شامل نظرنہیں آیا۔
ہماری فیری جرمنی کے جس علاقے میں تیرتی چلی جارہی تھی وہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ دریاکے دونوں جانب سبزے کی چادر پہنے پہاڑ ایستادہ تھے۔ ایک جانب اونچا اور دوسری جانب قدرے چھوٹا پہاڑ تھا۔ اس چھوٹے پہاڑ کی ڈھلوانوں پر دریا کے ساتھ ساتھ خوبصورت مکانات، ہرے بھرے درخت ، پودے اور رنگ برنگے پھول دعوتِ نظارہ دے رہے تھے۔ پہاڑ کی چوٹیوں پر جا بجا بڑے بڑے جنگی قلعے نظر آرہے تھے۔ اس وقت صبح کے دس بجے تھے۔ ابھی ہوٹل سے سب ناشتہ کر کے نکلے تھے پھر بھی اکثر سیاحوں کے ہاتھ میں شراب کے جام یا بیئر کی بوتلیں نظر آرہی تھیں۔ رات کو نیند پوری نہ کر سکنے پر میری طبیعت قدرے مضمحل تھی۔ اس لئے میں نے گرما گرم کافی کا کپ لیا۔ میرے ساتھیوں میں سے کچھ نے میری تقلید میں کافی کے کپ خرید ے۔ ہم فیری کی تیسری منزل سے ہر دو جانب کے نظارے نظروں سے دل میں اتارنے لگے۔ ڈیک پر صاف ستھرے بینچ اور میزیں تھیں۔جہاں میرے علاوہ جسٹن، جوزی، باب، جولی، ڈیوڈ، مسز مارگریٹ کے علاوہ جانحی اور مشی بھی بیٹھے تھے۔ جسٹن اور جوزی حسبِ معمول چٹکلے چھوڑنے اور قہقہے لگانے میں مصروف تھے ۔ باب کل رات کی طرح آج بھی خوش نظر آرہا تھا۔ جانحی اور مشی حسبِ معمول سب سے بے نیاز پیار کی دنیا میں گم تھے۔ کبھی کبھار ایک دو لمحوںکے لئے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے آنکھیں اِدھر اُدھر گھما کر ہماری طرف مسکر ا کر دیکھتے اور پھر اُسی پوزیشنمیں چلے جاتے ۔ دوسرے سیاحوں کے ساتھ ان کی گفتگو عموماََ ہیلو ہائے اور ایک آدھ مسکراہٹ تک محدود رہتی تھی۔ زبان کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن ان کے باہمی مصروفیات بھی انہیں کسی دوسری جانب دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ شاید انہیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں ہی ساری دنیا سمائی نظر آتی تھی۔
تھوڑی دیر پہلے خوبصورت دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ اچانک آسمان گرے کلر میں تبدیل ہوا اور بارش شروع ہو گئی ۔موسم کی اس اتنی اچانک تبدیلی پر ہم حیران سے رہ گئے۔ لیکن یہ یورپ تھاجہاں کا موسم ان کی نیلی آنکھوں والی حسینائوں کی طرح تیزی سے آنکھیں بدلنے کا عادی تھا۔ ہم اپنے کپ تھامے ہال کے اندر چلے گئے۔ فیری کا کپتان ارد گرد کے علاقے اور قلعوں کی تاریخ بتا رہا تھا۔ مجھے تاریخ سے زیادہ اپنے اردگرد پھیلے سیکڑوں سیاحوں اور دریا کے کناروں پر قدرت کی فیاضی سے دلچسپی تھی۔ دریا کی یہ دو گھنٹے کی سیر ہمارے لئے بہت اچھی تفریح ثابت ہوئی۔ سیاح ہنس کھیل اور کھا پی کر خوب لطف اندوز ہوئے۔ شہر سے کافی باہر ایک جگہ یہ سفر اختتام پذیر ہوا ۔
ہم فیری سے اتر کر باہر نکلے جہاں فشر اور مولی کوچ کے ہمراہ موجود تھے۔ ایمسڑڈم جانے سے پہلے ہم جرمنی کے کئی شہروں میں سے گزرے۔ ان میں سے زیورچ اور مینز قابل ذکر ہیں۔ زیورچ کے مرکزی حصے میں اس کا عظیم الشان چرچ آسمان سے باتیں کرنے والے بلند و بالا مینار کی وجہ سے بہت نمایاں نظر آرہا تھا۔ وہاںمختصر قیام کے بعد ہمارا سفر جاری رہا ۔ اب ہم جرمنی کے ایک اور شہر MAINZپہنچے۔ وہاں بھی رکنے اور کچھ دیکھنے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ تاہم لنچ ہم نے وہیں کیا ۔ جرمنی کی جتنی تھوڑی بہت کرنسی بچی تھی میں نے لنچ پر خرچ کر دی۔ وہاں سے روانہ ہونے لگے تو مولی نے بتایا کہ آگے چند گھنٹے تک سفر میں وقفہ نہیں ہے۔ اس لئے اپنی ضروریات سے یہیں فارغ ہو لیں۔ مجھے جرمنی میں پیئے ہوئے پانی اور کافی کو یہیں بہانے کی ضرورت محسو س ہوئی۔ ٹوائلٹ میں گیاتو پتا چلا کہ حسب ِمعمول اندر جانے کے لئے رقم کی ضرورت ہے۔ شاپنگ وغیرہ کے لئے توکریڈٹ کارڈ استعمال کیا جا سکتا تھا لیکن ٹوائلٹ میں یہ سہولت نہیں تھی۔ کریڈٹ کارڈ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر یہ بعید نہیں کہ وہاں اب ٹوائلٹ میں بھی کریڈٹ کارڈ استعمال ہو رہا ہو۔
لیکن اس وقت جرمنی کے مشہور شہر مینز میں ٹوائلٹ جانے کے لئے مجھے صرف چند سکے درکا ر تھے جو میرے پاس موجود نہیں تھے۔ مجبوراً میں نے گھوم پھر کر ایک اے ٹی ایم ڈھونڈا ۔قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ باری آنے پر پچاس ڈچ مارک نکلوائے اور پھر ٹوائلٹ میں گیا۔ ایک کرنسی کو دوسری کرنسی میں تبدیل کرنا ہو تو بیورو ڈی چینج والے اچھا خاصا کمیشن لے لیتے ہیں۔ ٹوائلٹ میں چند سکے خرچ ہوئے۔ لیکن بعد میں یہ کرنسی ڈچ مارک میں تبدیل کروائی تواس کا اچھا خاصاکمیشن ادا کیا۔ ادھر آسٹریلیا میں میرے بنک نے جرمنی کی کرنسی لینے پر اپنا کمیشن چارج کیا۔ ان دونوں کمیشنوں کی کل رقم پاکستانی پانچ سو روپے سے زائد بن جاتی ہے۔ گویا ایک پائو بھر پانی بہانے کے مجھے پانچ سو روپے ادا کرنے پڑے۔ کہاں ہوتا کراچی، لاہور یا پنڈی جہاں ٹوائلٹ کی فیس تو درکنار خود ٹوائلٹ کی بھی ضرورت نہ پڑتیکہ زمینِ خدا تنگ نیست۔
یورپ والے اپنے آپ کو آزاد کہتے ہیں۔ کیا ایسی آزادی انہیں حاصل ہے۔یہبے چارے تو مالٹے کا چھلکاتک زمین پر پھینکنے کے لئے ترستے رہتے ہیں ۔ انہیںزمین پر تھوکنے اور سگریٹ کے ٹوٹے پھینکنے کی بھی آزادی نہیں ہے۔ کہا ں ہم پاکستان جیسے آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں کہ پان کی پیک سے دیواریں لال کر دیتے ہیں۔ بسیں اور ٹرینیں گل و گلزار کر دیتے ہیں۔ پھل کھا کر چھلکے جہاں دل چاہتا ہے پھینک سکتے ہیں ۔بلکہ پورے گھر کا کچرا سڑک پر پھینک سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی روک سکتا ہے اور نہ کسی قسم کا جرمانہ دینا پڑتا ہے ۔ یہ ہے اصل آزادی ۔ یورپ والے اس آزادی سے ایک دفعہمستفیدہوں تو پھر انہیں اپنی آزادی پھیکی لگنے لگے ۔جہاںٹوائلٹ میں جانے کے لئے پانچ سور روپے دینے پڑتے ہیں۔ بے چارے یورپ والے ۔