چونے اور پتھر سے تعمیر شدہ صحرائی گھر کی ہر درز سے زندگی سانس لیتی محسوس ہوتی تھی۔ گھر کے باہر بڑھیا اپنی کرسی پر بیٹھی کوئی کپڑا سی رہی تھی۔ بڑھیا کے سامنے مکان کے داخلی دروازے کی دوسری جانب ایک خالی کرسی بھی دھری تھی۔ وہاں سورج کی مہربان اجلی دھوپ زندگی کی حرارت کا احساس دلا رہی تھی اور تازہ ہوا گنگناتی ہوئی گزرتی تو گوشے گوشے کو معطر کر دیتی۔ اسے یاد آیا ایسی ہی ایک بڑھیا کہانیوں میں چاند پر سوت کاتا کرتی تھی۔ کہیں یہ وہی بڑھیا تو نہیں۔ وہ اس وادی میں جہاں وقت بھی دبے پاؤں چلتا تھا خاموشی سے مکان کی جانب بڑھا تاکہ اُس بڑھیا سے تکلے کی سوئی سے لے کر چاند گرہن تک کی ہر الف لیلوی داستان سن لے۔
مگر اس وادی کی جانب قدم بڑھاتے ہی سارا منظر بدل گیا۔ گویا کچھ شرارتی بچوں نے افق کے دونوں کناروں کو تھام کر جھولا جھلانے والی چادر کی مانند اوپر اٹھا لیا ہو۔
ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر اس نے زور سے آنکھیں ملیں اور پھر حیران ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ وہ ایک فلک بوس عمارت کے اوپر موجود تھا چاروں طرف آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنیاں فلک پر پھیلے ستاروں کے زمین سے محو کلام ہونے سے مانع تھیں اور مدھم سا چاند بہت پھیکا لگ رہا تھا۔ اس نے جنگلے کے ساتھ کھڑے سر جھکا کر نیچے دیکھا تو چکرا کر رہ گیا۔ بہت نیچے سڑکوں پر ٹریفک جگمگاتی روشنیوں کے نقطوں کی مانند تیزی سے دونوں سمتوں میں بہتی نظر آ رہی تھی اور گھڑی کی سوئیاں اتنی تیزی سے چل رہی تھیں کہ اسے بالوں میں اترتی سفیدی کا بھی احساس نہ ہوا۔
٭٭٭