احمد ساری رات نہ سو سکا تھا، بے چینی اور تلخی سے کبھی پہلو بدلتا تو کبھی کھجلی شروع کر دیتا اسی دوران رہی سہی کسر ٹونی نے بھونک بھونک کر پوری کر دی۔ ایک لمحے کے لیے بھی میرے بچے کو سکون کی نیند میسر نہ آئی تھی۔ ایسے میں بھلا ماں کو قرار کیسے آتا۔ ۔ ۔ ۔ آخر ہوا کیا اور کیوں ؟ انھیں سوچوں میں غلطاں و پیچاں رہی، کبھی عجیب واہمے ستاتے، کہیں کسی کی نظر نہ لگ گئی ہو میرے لعل کو ؟ کوئی نئی الرجی نہ ہو ؟
محض دو سال کا ہی تو تھا، گورے رنگ میں ویسے ہی سکن انفیکشن کی مدافعت کم ہوتی ہے، اگر احمد کو مچھر بھی کاٹ جاتا تو کئی دنوں اس کا نشان نہ جاتا تھا۔ اس لیے میں ہمیشہ بہت احتیاط کرتی۔ گھر کے کونوں کھدروں کی صفائی سے لے کر مچھر بھگانے والے سیال بھی تواتر سے لگائے رکھتی تھی۔
صبح ہوئی تو دیکھا کہ اس کی کہنیوں کے اندر ہلکے سفید اور سرخی مائل دانے بنے ہوئے تھے۔ میں ڈر گئی کہ کہیں خسرہ تو نہیں نکل رہا، مگر پھر سوچا کہ ساتھ بخار تو ہے نہیں اس لیے یہ خسرہ نہیں ہو سکتا۔ جب سے پاکستان گئی تھی احمد سارا دن ٹونی کے ساتھ کھیلتا رہتا، کئی بار روکنے کی کوشش کی مگر بے سود، اور ہمارا پالتو کتا ٹونی بھی گویا مہینوں سے احمد کا ہی منتظر تھا، جب بھی احمد اس کے کینل کے قریب جاتا وہ دم ہلا ہلا کر خوشی کا اظہار کرتا، اگر کھلا ہوتا یا رسی لمبی ہوتی تو اس کے پاؤں چاٹنے سے بھی باز نہ آتا۔ تب مجھے سخت کوفت ہوتی اور فوراً نہلانے کے بعد اس کے کپڑے تبدیل کرتی۔ دل میں ایک اور خدشے نے سر ابھارا کہیں ٹونی کی وجہ سے کوئی انفیکشن نہ ہو گیا ہو۔
جب صبح گھر والوں سے احمد کی نئی الرجی کا ذکر کیا تو اس کی دادی کہنے لگیں اتنے واہمے مت پالا کرو۔ بچوں کے سر پر چھوٹی موٹی تکلیفیں آتی رہتی ہیں۔ یہ کوئی ایسی خاص بات نہیں خشکی کی وجہ سے خارش ہوئی ہو گی اور فکر مت کرو ٹونی کی ساری ویکسین کروائی ہوئی ہے۔ مگر میرا دل کہہ رہا تھا کہیں نا کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔
ہمارے گھر کے ساتھ ایک کمرے، برآمدے، چھوٹے سے باورچی خانے اور غسل خانے پر مشتمل کوارٹر بنا ہوا تھا، جسے میری ساس نے ایک مجبور عورت کو بغیر کرائے کے رہنے پر دیا ہوا تھا، بدلے میں وہ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیتی تھی۔ وہ کوارٹر ہمارے گھر کے پچھلے صحن سے جڑا تھا اور بیچ میں کوئی دیوار نہ تھی۔ سارا دن ہمارے بچے ادھر سے ادھر دندناتے پھرتے۔ اس عورت فوزیہ کے تین بچے تھے جن میں سے ایک بیٹا حارث معذور تھا۔
اس دن عرصے بعد جب کسی کام سے کوارٹر کا رخ کیا تو حارث کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔ سانولی رنگ اور موٹی آنکھوں والا بچہ بہت خوبصورت تھا، اس کی کالی سیاہ سرمگیں آنکھیں تھیں جن کی سپیدی بہت نمایاں تھی۔ ان پر لمبی گھنی پلکیں سایہ فگن محسوس ہو رہی تھیں، سر پر چمکدار گھنے بال اور تیکھے نقوش تھے۔ وہ زمین پر رینگنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھا۔ اس کا لباس اور پھر سارا وجود مٹی ہو رہا تھا۔ مگر مٹی اسے سمیٹنے میں ناکام نظر آ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں گفتگو کر رہیں تھیں اور ہونٹوں کے کناروں میں نرم تبسم رقصاں تھا، گویا مٹی کو دوستی کا پیغام دے کر کچھ پانا چاہتا ہو۔
مجھے ایسا محسوس ہوا گویا کسی نے میرا دل مٹھی میں لے کر بھینچ دیا ہو۔ میں نے فوزیہ سے پوچھا اسے کیا ہوا تھا؟
باجی آپ کو نہیں پتا ؟ اس کو پولیو ہوا تھا جی۔ ۔ ۔ ۔ فوزیہ نے جواب دیا۔ پولیو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تاسف سے کہا …
کیوں اس کی ویکسین نہیں کرائی تھی؟ اور جب پولیو کا بخار ہوا تب ہسپتال میں داخل کرواتی اگر اچھی دیکھ بھال ہو جاتی تو نقصان اتنا شدید نہ ہوتا۔
نائیں باجی حفاظتی ٹیکے تو لگوائے تھے جی اس کو۔ اور جب کبھی قطرے پلانے والی آتی ہیں تو جی ہم ہر بار اس کو قطرے بھی پلواتے ہیں۔ فوزیہ نے معصومیت سے جواب دیا۔
مگر اب قطرے پلانے کا کیا فائدہ ؟ قطرے پہلے پلانے تھے نا۔ میں نے کہا
باجی بس جو ہونا تھا ہو گیا اب تو جی۔ بس سارا دن اس بیچارے کی دیکھ بھال میں گزر جاتا ہے، کیا کروں دوسرے بچوں کو دیکھنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ ابھی اسی مہینے کچھ دن اوپر ہوئے تھے کہ دوائی کھا لی، یہ بیچارہ تو محتاج ہو گیا اب اور کیا کرنے ہیں، اسے کون سنبھالے گا ؟
اوہو مجھے بیحد افسوس ہوا اسی لیے اتنی کمزور لگ رہی ہو میں نے فوزیہ سے کہا۔
اسی دوران میرا بیٹا احمد کھیلتا ہوا اندر آ گیا۔ حارث کی آنکھوں میں جگنو چمکنے لگے۔
وہ بے زبان کینچوے کی مانند اپنے سوکھے ہوئے اعضا زمین پر گھسیٹنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں ایک پیغام ابھرا ّّاس کی احساسات کی ترسیل صرف
احمد اسے اپنی توتلی آوازیں دینے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حا لث حالث ادل آؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور یہ سن کر کینچوے کی آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھ گئی۔ مٹی پر گھسیٹتے ہوئے دو قدم جتنا بھی بڑھ نہ پایا تھا کہ فوزیہ نے اٹھا کر باہر صحن میں چارپائی پر لٹا دیا۔ میں نے تاسف سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ سوکھے سرکنڈے جیسے بازو زخم خوردہ تھے۔ جا بجا دانے دھبے اور پیپ کے نشان کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے تھے۔
شام کو احمد کے چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی تو میرا شک یقین میں بدل گیا احمد کو سکیبیز کا انفیکشن ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے دوا لکھ دی احتیاطی تدابیر بتائیں پھر حیرت سے پوچھا کہ آپ سکبیز تک کیسے جا پہنچیں ؟ میں نے جواب میں صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
رات کو میں فوزیہ کے پاس گئی اور پوچھا کہ حارث کو خارش کب سے ہے ؟ باقی بچوں کو بھی ہوئی ہو گی ؟ فوزیہ نے کہا باجی ایک سال ہو گیا باقی سب کو تو دوا سے آرام آ گیا تھا مگر اس کا پتا نہیں تھا۔ میں سمجھی بستر پر پڑے رہنے سے زخم بن رہے ہیں۔
یہ بیچارہ تو کھجلا بھی نہیں سکتا، باجی ہم نے بڑی دوائیں لگائی ہیں اس کو، پر آرام نہیں آتا۔
میں نے اسے دوائیاں اور لوشن دیتے ہوئے کہا: دیکھو فوزیہ تم سمجھدار ہو اگر صفائی رکھو گی تو اس کا انفیکشن ٹھیک ہو گا۔ مگر صرف صفائی ہی نہیں، دوا کے ساتھ تین دن تک صبح شام اس کے کپڑے اور چاردیں تبدیل کرو اور پھر انہیں ابلتے ہوئے پانی میں دھونا۔ ایک ہفتے میں سب زخم ٹھیک ہو جائیں گے۔
دس پندرہ دن بعد کی بات ہے، صبح سویرے اخبار گیٹ کے نیچے سے نکال کر میں احمد کے پیچھے پیچھے فوزیہ کے کوارٹر تک جا پہنچی۔ احمد کو دیکھ کر حارث اسی طرح ہمکنے لگا۔ احمد ادھر ادھر پھدک رہا تھا، اور حارث کی نظریں اس کا طواف کر رہی تھیں پھر احمد اپنی تین پہیوں والی سائکل چلانے لگا۔ حارث نے اٹھنے کی ناکام کوشش کی گویا سائکل پر بیٹھنا چاہ رہا ہو۔ فوزیہ حسرت سے اسے تک رہی تھی۔ جب میری نظر حارث پر پڑی تو وہ انتہائی محویت اور محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگا، گویا میرا شکریہ ادا کر رہا ہو۔ اس کے سارے زخم مندمل ہو چکے تھے۔
اس پل دو معصوم بچوں کے درمیان ان کہی آفاقی محبت ہر شے پر بھاری پڑ رہی تھی۔
فوزیہ گیلی آنکھوں کے کناروں کو پونچھتے ہوئے کہنے لگی :
باجی میں کیسے آپ کا شکریہ ادا کروں ؟ آپ نے مجھ غریب پر اور اس بچے پر ایسا احسان کیا ہے کہ عمر بھر چکا نہیں پاؤں گی۔ یہ سن کر میں مارے خفت و ندامت کے نظریں چرانے لگی۔ حارث کی آنکھوں کی چمک نے مجھے ضمیر کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا۔ میں نے اپنا شرمسار چہرہ اخبار میں چھپا لیا۔ تب سرخی پر نظر پڑی کہ ملک گیر پولیو مہم میں کئی پولیو ورکرز شدت پسندوں کے حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مجھے لگ رہا تھا کہ مجھ سمیت سارا شہر ایک چمکیلی آنکھوں والے کینچوے جیسے بچے کے سامنے نظر اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔
٭٭٭