بے لوث محبت،بے باک صداقت ،خلوص ،دردمندی اور ایثار سے لوگوں کے دل جیتنے والا بائیس سالہ نوجوان محنت کش فیصل عرف ککی ماچھی 6۔فروری 2019 کی شام ایک الم ناک ٹریفک حادثے کی بھینٹ چڑھ کر زینہ ٔ ہستی سے اترگیا ۔ وہ اپنی گدھا گاڑی پر پاور لُوم لاد کر جھنگ سے سرگودھا جانے والی سڑک پر واقع نزدیکی کارخانے کی جانب بڑھ رہا تھا کہ ایک تیز رفتار بس کی زد میں آ کر گدھا گاڑی اُلٹ گئی ۔ککی ماچھی پاورلُوم کے نیچے دب کر زندگی کی بازی ہار گیا مگر گدھے کو خراش تک نہ آئی ۔قحط الرجال کے موجودہ دور کایہ المیہ دیکھ کر دِل بیٹھ جاتا ہے کہ فیض رساں انسان اُٹھتے جاتے ہیں مگرگدھے ہنہناتے پھرتے ہیں ۔ حکایتوں کی روایتوں کے محافظ تقدیر کی شکایتوں کے بجائے سفاک ظلمتوں میںرفتگاں کی یادوں کے چراغ جلا کر گردش ایام کی ان عنایتوں کو پُر نم آ نکھوں سے دیکھ کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے بُھورے رنگ کے بالوں اور جسم کی بُھوری رنگت کے باعث حسین و جمیل فیصل کو بچپن ہی سے سب رشتہ دار اور عزیز و اقارب پیار سے ککی کے نام سے پکارتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عرفیت ہی اس نوجوان بھٹہ مزدور کی پہچان بن گئی۔ مفلس محنت کش خاندانوںکے بچے جب ہوش سنبھالتے ہیں تو گردش ایام اور حالات کی سفاکی کے باعث بالعموم تعلیمی اداروں کا رخ نہیں کرتے بل کہ اپنے ضعیف والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ککی ماچھی کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا اور یہ ہونہار بچہ پرائمری کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ کر اینٹوں کے بھٹے پر اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ مل کر مزدوری کرنے لگا۔وہ علی الصبح چار بجے گھر سے نکلتا اور شام پانچ بجے واپس گھر پہنچتا۔دن بھر کی مشقت سے جب اس کا بدن ٹُو ٹنے لگتا تو شب تاریک کی سفاک ظلمتیں اسے اپنی گو د میں لے لیتیں اور مامتا کے مانند اس نوجوان کو لوریاں دے کر سُلا دیتیں ۔پرِ زمانہ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس کی برق رفتاریاں پروازِ نُور سے بھی کہیں بڑھ کر تیز ہیں۔جب ککی ماچھی سولہ برس کا ہوا تو پھوپھی کی حسین بیٹی سے جو اس کی ہم عمر تھی اس کی شادی کر دی گئی ۔ ککی ماچھی نے اپنی رفیقۂ حیات سے پیمان ِ وفا باندھ کر اُسے محرم ِ راز بنانے کی مقدور بھر سعی کی اور اپنی ساری جمع پُونجی اس کے حوالے کر دی ۔حرص اور ہوا و ہوس سے آلودہ موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ قناعت عنقا ہونے لگی ہے ۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک دلھن نے ککی ماچھی کے گھر قیام کیا مگر بہار کا امکاں پیدا نہ ہو سکا نہ کوئی پھول کھلا اور نہ ہی کوئی کلی نمو پاسکی ۔حسین و جمیل دوشیزاؤں نے تتلیوں کا انداز اپنا رکھا ہے جو گلشن ہستی میںخوب سے خوب تر کی جستجومیں گُل ہائے رنگ رنگ کی تلاش میںسر گرداں دکھائی دیتی ہیں اور اپنی فضا میں مست لمبی اڑانیں بھرتی پھرتی ہیں ۔ ککی ماچھی کی بیوی بھی ایک غریب محنت کش کی رفاقت پرمطمئن نہ ہو سکی اور اس نے مزدور شوہر سے علاحدگی اختیار کر کے پسند کی شادی کر لی ۔بیوی کی اس پیمان شکنی نے ککی ماچھی کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کر دیا ۔ پیہم شکستِ دل کے نتیجے میں ککی اس قدر مایوس ہو گیا کہ اس نے لبِ اظہار پر تالے لگا لیے ، تنہائی اوڑھ کر غم نبھانے اور اس انداز سے سفہا ،اجلاف و ارذال اور پیمان شکن درندوں کے جان لیوا ستم سہنے کے بعد گوشۂ تنہائی میں صفِ ماتم بچھانے کی ٹھان لی۔ وہ ہر وقت چُپ چُپ رہتا اور کسی سے ملنا بھی گوارا نہ کرتا ۔ دن بھر وہ محنت مزدوری میں مصروف رہتا اور شام کو گھر سے باہر کبھی نہ نکلتا۔ سمے کے سم کے ثمر نے ککی ماچھی کے لیے پورا ماحول ہی مسموم کر دیا۔ ککی ماچھی کے والدین اپنے نوجوان بیٹے کی بے ثمر زندگی کو دیکھتے تو تڑپ اُٹھتے۔انھوں نے بڑے ارمانوں سے اپنے نوجوان بیٹے کی دوسری شادی کا فیصلہ کیا ۔انھوں نے ایک ایسی چندے آفتاب چندے ماہتاب لڑکی تلاش کر لی جسے دیکھ کر ککی ماچھی اپنے سب غم بُھول گیا۔یہ دوشیزہ جب دلھن کے رُوپ میں ککی ماچھی کے گھر پہنچی تو اس کے رُوپ کے لشکارے دیکھ کر سب نے یہی کہا کہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے سبھی استعارے اس نئی نویلی دلھن کے دم سے ہیں ۔ دو ماہ کے بعد معلوم ہوا کہ ککی ماچھی کے گھر آ نگن میں پھول کھلنے کی اُمید بندھ گئی ہے ۔ککی ماچھی اب بہت خوش تھااس کی زندگی میں اس وقت بہار آ گئی جب ایک برس بعد اس گھر ایک چاند سی بیٹی نے جنم لیا ۔نامعلوم کس حاسد کی نظر اس باغ کو کھا گئی کہ بچی پیدا ہونے کے تین ماہ بعداس کی ماں اپنی نومولود بیٹی کو اپنی ساس کے پاس چھوڑ کر رُوٹھ کر اپنے میکے چلی گئی اور وہاں سے طلاق کا دعویٰ کر دیا۔ ککی ماچھی کے والدین نے مصالحت کی بہت کوشش کی مگرتقدیر ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے ۔ ککی ماچھی کی دوسری بیوی نے بھی طلاق حاصل کر لی اور عدت پوری کرنے کے بعد اس خزاں رسیدہ شاخ کے بجائے اپنی نئی پسندیدہ اور بلند و بالا ترو تازہ شاخ پر اپنا آشیانہ بنا لیا۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعدککیماچھی کی زندگی کی ناؤ ایک بار پھر مصائب و آلام کے بھنور میں پھنس گئی۔جب ککیماچھی کی دوسری بیوی اپنی آ نکھوں پر ٹھیکری رکھ کر اپنی مامتا کا گلا گھونٹ کر تین ماہ کی نومولود شِیر خوار بیٹی کو اپنی ضعیف ساس کے حوالے کر کے میکے گئی تو اس کی یہ بے حسی الم نصیب خاندان کے لیے ایک عذاب بن گئی۔ مامتا کی جدائی کے ستم سہہ کرصرف چند روز بعدکم سِن بچی نے اس دھوپ بھری دنیا کو چھوڑ عدم کی بے کراں وادیوں میں پناہ لے لی۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ککی ماچھی نے بھی کوہِ ندا کی صدا سن لی ہے اور وہ ساتواں در کھولنے کا قصد کر چکا ہے ۔
جانے والے ہماری محفل سے چاند تارو ںکو ساتھ لیتا جا
ہم خزاں سے نباہ کر لیں گے تُو بہاروں کو ساتھ لیتا جا
پڑوس میں رہنے والے سب واقف حال اور احباب یہ دیکھ رہے تھے کہ ککیماچھی کے معمولات بدل چکے ہیں ۔ رفتہ رفتہ اس کی زندگی سے پیچ و تاب شوق کے سب سامان رخصت ہونے لگے ۔ اپنے نوجوان بیٹے کو یاس و ہراس کی پیدا کردہ جان لیوا تنہائیوں سے نکالنے کی خاطراس کے والدین نے ایک بار پھر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ۔انھوں نے اپنے لخت جگر ککیماچھی کی تیسری شادی کے لیے مناسب رشتے کی تلاش شروع کر دی ۔ شہر کے نواح میںقحبہ خانے کی رذیل نائکہ قفسی اور اس کی جسم فروش طوائف بیٹیوں گوشی، ظلی،صبوحی،پونم، سمی،کسبی،شعاع،روبی اور شباہت نے اپنے پالتو نوسر باز بھڑووں،بقالوں اور دلالوں کے ذریعے اس الم نصیب خاندان کو من پسندرشتے کا جھانسہ دے کر لُوٹنے کی مذموم کوششوں کا آغاز کر دیا مگر گردش ایام اور تقدیر کے مارے والدین اب مزید کسی مہم جوئی کی تاب نہیں لا سکتے تھے۔نائکہ قفسی نے ایک مرتبہ ککی ماچھی کو سر راہ روک کر کہا :
’’ ککی بیٹے !شہر کے ہر گلی کُوچے میں تمھاری محنت ،خلوص اور بھر پور شباب کے چرچے ہیں۔وہ سامنے والے مکان کی دوسری منزل پر ہمارا گھر ہے سڑک پر سیڑھی لگی ہے سیڑھی پر چڑھو تو تمھارے لیے ہمارے گھر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا ۔میری چندے آفتاب چندے ماہتاب نوجوان بیٹیاں گوشی، ظلی،صبوحی،پونم، سمی،کسبی،شعاع،روبی اور شباہت تمھاری راہ میں آ نکھیں بچھانے کو بے تاب ہیں ۔ تم تنہائیوں اور غموں کے حصار سے نکلو اورجس کو چاہو اپنی شریک حیات بنا لو۔‘‘
ککی ماچھی نے نائکہ قفسی کی بات صبر و تحمل سے سنی اورآہ بھر کر کہا :
’’ جو بد نصیب شخص تمھاری سیڑھی پر چڑھا وہ پھر کبھی نہیں اُترا ۔کسی نے سچ کہا ہے کہ شیر بُھوک سے مرنا تو گوار ا کر لے گا مگر خارش زدہ سگانِ راہ کے بچے ہوئے گوشت کی طرف کبھی آ نکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔میں تمھیں اور تمھاری بیٹیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں ۔تمھارے دلاسے کے بعد میں تو یہی کہوں گا کہ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔‘‘
ککی ماچھی نے رسوائے زمانہ نائکہ قفسی کو آئینہ دکھا دیا تھا ۔اس کی بات سن کر نائکہ قفسی بُڑ بُڑاتی ہوئی مایوس ہو کروہاں سے چلی گئی اوراس کے بعد کبھی ککی ماچھی کی راہ میں حائل نہ ہوئی ۔نائکہ قفسی اچھی طرح جانتی تھی کہ ککی ماچھی کا خاندان مصائب و آلام کے جال میں پھنس چکا ہے ۔مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ۔ اس قدرذلت اُٹھانے کے باوجوداُس نے ککی ماچھی کو زیر ِ دام لانے کے لیے کئی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے ۔
ککی ماچھی کے ضعیف والدین نے حرص و ہوس سے آ لودہ رشتے ناتوں کے بارے میں تمام تحفظات کے باوجود محتاط انداز میں نئے سرے سے ککیماچھی کا گھر بسانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں ۔ہر بار نائکہ قفسی اور اس کی پالتو جسم فروش رذیل طوائفیں نئے بہروپ بھر کر اور نیا سوانگ رچا کر اس سادہ لوح خاندان کو لُوٹ لیتیں۔ معمر مو سیقار یارا سازندہ اور ضعیف محنت کش وریام بڑھئی اس صور ت حال سے سخت پریشان تھے ۔ انھوں نے نائکہ قفسی کے مکروہ عزائم کو بھانپ لیا اور الم نصیب خاندان کی کشتی ٔ جاں کو مصائب و آلام کے گرداب سے نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ان خدا ترس انسانوں نے پڑوس میں رہنے والی تہجد گزار ضعیفہ فضیلت خانم کو نائکہ قفسی اور اس کی رذیل جسم فروش بیٹیوں کے بچھائے ہوئے رقص و سرود ،جنس و جنوں اور حسن و جمال کے جال اور مکر کی چال سے مطلع کیا ۔فضیلت خانم نے ایک شام ٹھگوں کی پروردہ نائکہ قفسی اور اس کی جسم فروش رذیل بیٹیوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر نائکہ قفسی اور اس کی بیٹیوں نے فضیلت خانم کو گالیاں دیں اوردھول دھپا تک نوبت آ پہنچی ۔فضیلت خانم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا:
’’ اری او پچھل پیری !تُوایسی گدھ ہے جو زندگی بھر مُرد ار کو نوچ کر کھاتی رہی ۔اب تُو نے اپنی طوائف بیٹیوں کو بھی اپنے قبیح دھندے میں شامل کر لیا ہے ۔فطرت کی سخت تعزیروں سے ڈرو اور مظلوم کی آہ سے پناہ مانگو۔ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے ککی ماچھی کے گھر والوں کی خاک کو دیکھو وہاں اب کچھ باقی نہیں بچا ۔‘‘
فضیلت خانم کی باتیں سن کر نائکہ قفسی نے کھسیانی بلی کے مانند کھمبا نوچنا شروع کر دیا اور نہایت رعونت سے کہا :
’’ بڑھیا تجھ کو پرائی کیا پڑی ہے اس ضعیفی میں تُو اپنی نبیڑ ۔میں تجھے منھ نہیں لگاتی تُو بھی اپنی اوقات میں رہنا سیکھ ۔‘‘
فضیلت خانم نے نائکہ قفسی کو منھ توڑ جواب دیا :
’’ اری نائکہ ڈائن !چھاج تو بولے مگر چھلنی کیوں بولے جس میں سیکڑوں چھید ہیں ۔ تیر امنحوس کو ٹھا ایک ایسا متعفن مورا ہے جس میں شہر بھر کاآلودہ کچرا گرتا ہے جہاں سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں ۔ تُو میری بات سمجھنے کے بجائے اُلٹا مجھ کو سمجھانے لگی ہے ۔ساری دنیا کو یہ بات معلوم ہے کہ تُو نے اور تیری طوائف بیٹیوں نے اس شہر ناپُرساں کے ہزاروں گھر بے چراغ کر دئیے۔اس قدرعبرت ناک ذلت ،رسوائی اور جگ ہنسائی کے باوجود تیری دیدہ دلیری،بے غیرتی اور جعل سازی دیکھ کر حیرت ہوئی ۔ خد اکی قدر ت کے قربا ن جائیں کہ تجھ جیسی نا چیز بھی اب چیز بن بیٹھی ہے ۔ اگر تُو نے ٹھگی ، لُوٹ مار ،فحاشی اور عیاشی کا یہ شرم ناک سلسلہ بند نہ کیا تو شہر کے غیرت مند لوگ تمھار ا ناطقہ بند کر دیں گے۔اری کلموہی! کان کھول کر سُن لے تو خرچی کے ذریعے کالادھن کما کر اِتراتی پھرتی ہے ۔یہاں سے نکل جا ورنہ تجھے کہیں بھی امان نہ ملے گی ۔‘‘
فضیلت خانم کی تنبیہہ کام کر گئی اورنائکہ قفسی اور اس کی طوائف بیٹیاں جو اخلاق باختہ اور عیاش نو جوان لڑکوں کو ناز و ادا کی صورت میں دوائے دِل بیچتی تھیں اپنا قحبہ خانہ بند کر کے کسی دُور دراز علاقے کی جانب کوچ کر گئیں ۔اس کے بعد کسی کو ان ننگ وجود طوائفوں کا اتا پتا معلوم نہ ہوا۔
شدید تحفظات کے باوجود ککی ماچھی کے ضعیف والدین نے اپنے نوجوان بیٹے کا گھر بسانے کی کوششیں جاری رکھیں مگر اس بار سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اوراجل نے ککیماچھی کو مہلت ہی نہ دی ۔ سردیوں کی اس شام وہ اپنی گدھا گاڑی پر بھاری مشینیں لاد کر لے جا رہا تھاکہ سڑک کے ایک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں اس کی گدھا گاڑی اُلٹی اور ایک گڑھے میں جا گری۔ککی ماچھی بھاری مشینوں کے نیچے دب گیا مگر گدھا محفوظ رہا ۔امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں مگر نوجوانککیماچھی کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر سب لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے ۔اکثر لوگ ککی ماچھی کی الم ناک موت کی خبر سن کراسے گردش ایام ،تقدیر کے زخم اورنوجوان ککی ماچھی کے ضعیف والدین کی الم نصیبی سے تعبیر کر رہے تھے ۔اس موقع پر ہر قسم کے لوگ اکٹھے تھے اور ہر شخص فرطِ غم سے نڈھال تھا۔بھانت بھانت کی آوازیں آ رہی تھیں ۔شہر کے نواح میں عتابی نامی ایک منحوس خیاط رہتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اس عیار خیاط کے مکان کی تعمیر کے لیے اینٹیں ککی ماچھی نے پہنچائی تھیں۔ موسم گرما میںعتابی خیاط آم بہت شوق سے کھاتا تھا۔خاص طور پر لنگڑا آم اُسے بہت پسند تھا ، وہ ایک وقت میں چار کلولنگڑا آم چٹ کر جاتا ۔ شہر کے متمول گھرانے صدقے ،خیرات اور زکوٰۃکی صورت میں لنگڑے خیاط کی مالی امداد کرتے تھے ۔گزشتہ برس لنگڑے خیاط کو کسی نے ملتان سے لنگڑے آم کی ایک ٹوکری بھجوائی جس میں دس کلو لنگڑا آم تھا۔اپنی عادت کے مطابق لنگڑے خیاط نے اپنے ملنے والوں کو یہ بتایا کہ لنگڑا آموں کا یہ ٹوکرا ملتان سے آ یا ہے ۔ککی ماچھی کی گل افشانیٔ گفتار سے محفل کشتِ زعفران بن جاتی تھی ۔آموں کے بارے میں لنگڑے خیاط کی بے سر وپا باتیں سن کر ککی ماچھی نے حیر ت سے کہا :
’’ اگر یہ آم لنگڑ ا ہے تو ملتان سے چل کر تمھارے چنڈو خانے تک کیسے آ پہنچا ؟کسی نے سچ کہا ہے کبوتر ہمیشہ کبوتر کے ساتھ اور باز سدا باز کے ساتھ اُڑان بھرتا ہے ۔اسی طر ح لنگڑا آم بھی اپنے لنگڑے شیدائی کے پاس لنگڑاتا ہوا کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی گیا ۔ثمر بہشت تو اس جہنم نما عقوبت خانے میں پہنچنے سے رہا ۔‘‘
سادیت پسندی کے مہلک مرض میں مبتلا یہ اپاہج ، چربہ ساز، کفن دُزد اور ذہنی مریض منحوس خیاط اس قدر مردوِ خلائق تھاکہ یہ جس طرف سے گزرتا دو طرفہ ندامت اور اہل ِ شہر کی ملامت اس کا تعاقب کرتی تھی ۔ مُردوں کے کفن سینا،کفن کا کپڑا چوری کر کے اسے زندوں کے سر تھوپنا اور الم نصیب پس ماندگان کا خون پینا ہی اس درندے کا وتیرہ تھا ۔ ہمدری ،خلوص ،مروّت اورانسانیت سے محروم اس سبز قدم خیاط کو دیکھتے ہی سب لوگ استغفار پڑھتے۔وہ یہ بات جان لیتے تھے کہ آج کسی نے کوہِ ندا کی صدا سن کر ساتواں در کھولا ہے اور عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب عازم سفر ہے ۔
جو فروش گندم نما بد مست اور بد و ضع لنگڑے خیاط عتابی نے اپنی اُلوّ جیسی آ نکھیںگھمائیں اور مگر مچھ کے آ نسو بہاتے ہوئے اپنا کفن پھاڑ کر اپنی کالی زبان سے یوں ہرزہ سرائی کی :
’’ میں کفن کا پیشہ ور خیاط ہوںاور کفن دُزدی سو پشت سے ہمارا پیشہ ہے ۔ میں زندگی بھر مرنے والوں کے کفن سیتا رہا ہوں ، کفن سینے کی کمائی اور کفن کا کپڑا چوری کر کے بیچتا اور اسی مال سے جیتا رہا ہوں ۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ لوگ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں وہ ناگہانی حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں مگر گدھے بالعموم حادثات سے بچ نکلتے ہیں ۔ آلامِ روزگار کی زد میں آ کر فیض رساں انسانوں کی آنکھیں مُند جاتی ہیں مگر گدھوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا اوروہ ہر طرف ہنہناتے پھرتے ہیں ۔ مجھ پہ اب یہ راز کھلا ہے کہ یہ دنیا آئینہ خانہ ہے جس میں آدمی چرخے کی مال ہے اور حالات اسے تماشا بنا دیتے ہیں ۔میں زندوں سے ہمیشہ یہی پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے کب یاد کریں گے ۔ میںاپنی زندگی کی ساٹھ خزائیں دیکھ چکا ہوںاور اب تک کفن سینے کی سات سنچریاں مکمل کرچکا ہوں۔میں نے ککی کا گھر بسانے کے سلسلے میں شہر کی مقبول مغنیہ قفسی اور رقص و سرود میں یکتا اس کی حسین و جمیل بیٹیوں سے بات کر لی تھی مگر میری سب تدبیریں درہم بر ہم ہو گئیں اور کوئی امید بر نہ آئی۔اب تو ککی ماچھی کے غم زدہ خاندان کو مصائب کے گرداب سے نکالنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ تی۔‘‘
با شعور لوگ اس لنگڑ ے خیاط کے کسی عذر ِ لنگ پر توجہ نہ دیتے اور اس عادی دروغ گو کو دھتکار دیتے۔شہر کے لوگ رُو سیاہ لنگڑے خیاط کو کسی جانب سبز قدم گھسیٹتے ہوئے دیکھتے تو تڑپ اُٹھتے اور بے اختیار پکارتے لنگڑے خیاط نے ہاتھ میں کوئی پروا نہ تھام رکھا ہے نہ جانے اس میں اجل نے کس کا نام لکھ دیا ہے ۔بعض توہم پرست لوگ لنگڑے خیاط کو اجل کا ایلچی قرار دیتے اور اس کے قبیح کردار اور منحوس شکل وصورت کی وجہ سے اس کی کریہہ شکل دیکھنے کو ایک انتہائی بُرا شگون سمجھتے تھے ۔ اس لنگڑے خیاط کی بے توفیقی ،بے برکتی ،بے غیرتی اور بے ضمیری نے اسے راندہ ٔ درگاہ بنا دیا تھا ۔اسی وجہ سے اس کے حال زبوںاور مکر کی چالوں سے واقف بدو ملھی سے تعلق رکھنے والے متشاعرزادو بدو نے اس مُوذی و مکار مسخرے کی ہجو لکھی تھی ۔گستاخ لنگڑے خیاط کا بھاڑ جیسا منھ بند کرنے کے لیے یار اسازندہ نے اُسی ہجو کے یہ شعر پڑھے تو گرگ آ شتی کی مثال اس نا ہنجارخیاط کی بولتی بند ہو گئی ۔
سڑک کے موڑ پر کُوچے میںلنگڑا خیاط
گھسٹتا ،تلملاتا جا رہا ہے
اپنے نصیب کی مار کھاتا جا رہا ہے
وہی حرص و ہوس کی سخت تعزیر
جو اُس کی گھسٹتی چال میں ہے
اُچکوں کے پھیلائے جال میں ہے
محنت کش انسانوں کی مجبوری سے نا جائز فائدہ اُٹھا کر زر و مال سے اپنی تجوری بھرنے والے استحصالی مافیا کے پر وردہ نو دولتیے جھابو بدھو نے بھی حسب معمول اس معاملے میںاپنی ٹانگ اڑانے کا فیصلہ کیا۔ مشکو ک نسب کے اس اجرتی بد معاش اور پیشہ ورٹھگ کا تکیہ کلام تھا کہ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔اس کے گھناونے کردار سے آ گاہ لوگوں کی متفقہ رائے تھی کہ اس کینہ پرور ،حاسداور لٹیرے کی زبان بھی بہت لمبی ہے ۔اس کی ہرزہ سرائی سُن کر لوگ اس پر تین حرف بھیجتے اور کبھی اسے منھ نہ لگاتے ۔ککی ماچھی کی مرگ نا گہانی کے موقع پر جھابو بدھو بھی کہیں سے آ نکلا۔ککی ماچھی کی یادوں کے حوالے سے جھابو بدھو نے اپنے تنور جیسے منھ سے بہہ نکلنے والا عفونت زدہ جھاگ اپنے دامن سے پُونچھتے ہوئے کہا :
’’ میں نے شہر سے بہت دُور ایک ویرانے میں اپنا فارم ہاؤس تعمیر کرایا تو ککی ماچھی نے اینٹوں کے بھٹے سے اپنی گدھا گاڑی پر پختہ اینٹیںلاد کر وہاں پہنچائیں۔ وہ ایک خو دار اورجفاکش مزدور تھا اور وہ مجھ سے سادہ پانی پینے کا بھی روادار نہ تھا۔تین لاکھ کے قریب اینٹیں منگوائی گئیں اور ہر بار میں نے جون کی چلچلاتی دھوپ میں تپتی زمین پر بیٹھ کر ایک ایک اینٹ گنی ۔ ککی ماچھی میری اینٹ شماری پر اش اش کر اُٹھا۔ صرف ایک پھیرے میں ایک اینٹ کم نکلی تو میں نے ککی ماچھی کو کھری کھری سنائیں ۔میری کڑوی کسیلی باتیں سُن کر ککی ماچھی مسکرانے لگا ۔ پہلے وہ ایک نظر مجھ پر ڈالتا اور پھر اپنے گدھے کو دیکھتا ۔کافی دیر تک وہ یہ عمل دہراتا رہا مگر میںاس معاملے کی تہہ تک نہ پہنچ سکا ۔اگلے پھیرے میں ککی ماچھی میری گنتی کے مطابق کم پڑنے والی ایک اینٹ کے بدلے دو اینٹیں لایا اور ساتھ ہی ایک بہت بڑا پتھر بھی بھٹے سے اُٹھا لایا ۔اس طرح یہ سارا معاملہ ختم ہو گیا ۔‘‘
’’ ککی ماچھی نے تمھیں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ خرکار اورخر میں کیا فرق ہے ۔‘‘ وریام بڑھئی نے آ ہ بھر کر کہا ’’ جھا بو بدھوتمھاری تو عقل پر پتھر پڑ گئے ہیںتم نے اس اُجاڑ جگہ فارم ہاؤس بنایا ہے جہاں ہر طرف اُلّو بولتے ہیں۔ ارے او نظام شمسی کے بلیک ہول سے اُترکر زمین کا بوجھ بننے والے جنسی جنونی حبشی تمھارا کردار اور باطن بھی تمھاری جسمانی رنگت کی طرح کالا ہے ۔منشیات ،سمگلنگ ،نوسر بازی اور ٹھگی سے سادہ لوح لوگوں سے زرو مال اینٹھ کر اکڑنے والے ابلیس نژاد درندے تمھارے بارے میںیہ بات سچ ہے:
ہو گئے لوگ کیا سے کیا بُدھو
تُو وہیںکا وہیں رہا بُدھو
جھابو بدھو کی جہالت اور کبر و نخوت کودیکھ کر سب لوگ حیرا ن تھے کہ یہ بز اخفش کس قدر دیدہ دلیری سے اپنے قبیح کردار اور کالے دھن پر گھمنڈ کرتا ہے ۔ ماہر علم بشریات ، مایۂ ناز ماہر نفسیات اورککی ماچھی کے استاد حاجی حافظ محمد حیات نے جب جھابو بدھو کی یاوہ گوئی سنی تو وہ چپ نہ رہ سکے اور بولے :
’’ ریشم و کم خواب پہن کر خسیس کبھی رئیس ،پہاڑ کی بلند ترین چوٹی پر بیٹھ کر چغد کبھی عقاب ،بلند و بالا قصر کی منڈیر پر بیٹھ کر کرگس کبھی سرخاب،گلشن میں ہوا کے دوش پر اُڑ کر دُھول کبھی پُھول ،گنگا سے نہا کر اور مشاطہ کے ہاتھوں سج سنور کر منحوس اور کریہہ شکل نائکہ کبھی صاعقہ نہیں بن سکتی۔سراب کسی صورت میں اُمیدوں کی فصل کو سیراب نہیں کر سکتے ۔انسان کی سرشت جب تک نہ بدلے بات بن ہی نہیں سکتی ۔ سسکتی انسانیت کو تڑ پتا دیکھ کر موٹر پہ اُڑنے والے جھابو بدھو جیسے فراعنہ سے تو ککی ماچھی جیسے گدھا گاڑی ہانکنے والے صابرو شاکر جفا کش مزدور بہتر ہیںجو پریشاں حالی اور درماندگی میں مجبور انسانوںکی دست گیری میں کبھی تامل نہیں کرتے ۔‘‘
ککی ماچھی کی مختصر زندگی کے نشیب و فراز سے آ گاہ اس کے ایک معتمد ساتھی نے آ ہ بھر کر کہا:
’’ آہ !تقدیر نے انسانیت سے بے لوث محبت کرنے والا خادم خلق ہم سے چھین لیا ۔ تقدیر اگر ہر لمحہ ہرگام انسانی تدبیر کی دھجیاں نہ بکھیردے ،انسانی عزائم اور منصوبوں کے پر خچے نہ اُڑادے تو اُسے تقدیر کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے ؟تقدیر کی رسائی تو حد ادراک سے بھی آگے ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں فکر انسانی سرابوں میں بھٹکتی دکھائی دیتی ہے ۔محنت کی عظمت کو شعار بنانے والا ککی ماچھی ایک ایسا رانجھا تھاجو شہر کے سب لوگو ںکا سانجھا تھا۔ ‘‘
شعلہ ٔ مستعجل ککی ماچھی کی بے ثمر زندگی نے سب کو رُلا دیااور اس کے سب احباب نے اس صدمے کو شدت سے محسوس کیا ۔یہ عجیب مرد خود آگا ہ تھا جس نے زندگی بھر صبر و تحمل اور محنت شاقہ کو شعار بنایا اور کبھی اپنے تلخ حالات کی شکایت نہ کی ۔ کچی آبادی میںکچے گھروندے کا مکین ککی ماچھی ایک مضبوط و مستحکم شخصیت کا مالک تھا ۔کچی آبادی کے مکینوں کی زندگی میں خوش حالی اور فارغ البالی کے امکانات کم کم دکھائی دیتے ہیں ۔اپنے کچے گھروندوں کو پختہ کرنے کے لیے کچی آبادیوں کے مکین ککی ماچھی سے پختہ اینٹیں اُدھار منگوا لیتے ۔ککی ماچھی بھٹے کے مالک سے مطلوبہ اینٹیں محنت کش مزدورں کے گھر پہنچا دیتا مگر اسے رقم کی ادائیگی مقررہ وقت کبھی نہ ہوئی۔ خون پسینہ ایک کر کے اپنے اہلِ خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے والے مزدوروں کی جانب سے رقم کی ادائیگی میں تاخیری ہتھکنڈوں کے باوجود ککی ماچھی دِل بُرا نہ کرتا ۔دوسری طرف اینٹوں کے بھٹے کا مالک مُزدک ِ نا کردہ کار کے روپ میں غراتا اور اینٹوں کی رقم کی بر وقت ادائیگی پراصرار کرتا اور پے در پے تقاضوں سے ککی ماچھی کا ناک میں دم کر کے آمادۂ پیکار رہتا۔کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ رنج کی گفتگو میں تُو تُو میں میں کی نوبت آ جاتی ۔اس دوران میں بھٹے کا مغرورمالک بھٹے کی آمدنی اور خرچ کو لکھنے والے بُوڑھے منشی خامہ بگوش کو نادر شاہی حکم سناتا :
’’ منشی خامہ بگوش! ککی ماچھی لین دین کا کھرا ثابت نہیں ہوا ۔کان کھو ل کر سن لو آئندہ اسے اُدھار اینٹیں ہر گز نہ دینا ۔‘‘
’’ جیسے تمھاری مرضی ۔‘‘ ککی ماچھی سدا یہی کہتا ’’ درویش اور پرندے رزق پلے نہیں باندھتے ۔جن کا اپنے خالق پر تقویٰ ہے ان کے لیے رزق کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں ۔‘‘
ککی ماچھی دل پر ہاتھ رکھ کر مسکراتا ہوا چلا جاتا اوراکثر یہ کہتاکہ اس پر جو حادثے گزرتے ہیں وہ سب تقدیر نے اس کے حالات میں رقم کر دئیے ہیں۔
ککی ماچھی کے جانے کے بعد بھٹے کا مالک بھٹے کے منشی خامہ بگوش سے رازدارانہ لہجے میں کہتا:
’’میری باتیں ہی باتیں ہیں ککی ماچھی دیانت داری سے کام کرنے والا دیانت دار اور جفاکش مزدور ہے۔اسے مطلوبہ اینٹیںدیتے رہنا ،جب بھی اسے رقم ملے گی وہ پائی پائی کا حساب دے گا ۔ تم اپنی مطلوبہ رقم کا تقاضا کرتے رہو کچھ دیر تو ہو سکتی ہے مگررقم ضرور ملے گی ۔‘‘
اگلی صبح جب منھ اندھیرے ککی ماچھی بھٹے پر پہنچتا تو حسب معمول سب سے پہلے بھٹے کے ضعیف مالک کو جھک کر سلام کرتا بھٹے کا شاطرمالک تکلف کی رواداری اور خلوص و مروّت کی اداکاری کرتے ہوئے نو جوان ککی ماچھی کو گلے لگا لیتا اوراس کے لیے کلمۂ خیر ادا کرتے ہوئے کہتا :
’’ جیتے رہو ککی بیٹے ،میری باتوں کا بُر ا نہ ماننا ۔اینٹوں کا یہ بھٹہ تو تمھارا اپنا ہے ۔جتنی چاہے اینٹیں اُٹھا لو تمھارا ہاتھ کون ر وک سکتا ہے ؟‘‘
بھٹے کے معمر مالک کی یہ باتیںسن کر ککی ماچھی خوشی سے پُھولے نہ سماتااور کہتا :
’’ اللہ کریم تمھیں اینٹو ںکا بھٹہ نصیب کرے ،مجھے اس بات پر ناز ہے کہ میں بھی مزدور ہوں اور میرا باپ اب تک اسی بھٹے پر مزدوری کرتا ہے ۔بھٹہ تو آپ ہی کا ہے ہم مزدور تو آپ کی مہربانیوں کے مقروض ہیں ۔ بڑی تعداد میں کرنسی نوٹ چھاپنے کے لیے تمھارا بھٹہ تو زمین پرکھڑا ہے مگر غربت ،افلاس ،بیماری اور قرض کی وجہ سے مزدوروں کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے ۔ بے بس و لاچار مزدور قسمت آزمانے کہاں جائیں؟ ‘‘
بھٹے کا معمر اور جہاں دیدہ منشی خامہ بگوش آگے بڑھ کرخود ککی ماچھی کے ریڑھے پر اینٹیں رکھنا شروع کر دیتا اور کہتا:
’’ ککی بیٹے جن لوگوں کو اینٹیں دیتے ہو ان سے کچھ پیشگی رقم بھی طلب کیا کرو ۔‘‘
’’ بابا جی !غریب لوگ پیشگی رقم کہاں سے دیں؟‘‘ککی ماچھی آ ہ بھر کر کہتا ’’ یہ فاقہ کش غریب لوگ نسل در نسل مقروض چلے آ رہے ہیں ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ گردشِ حالات کے مارے قسمت سے ہارے مفلس و قلاش لوگو ں کے حالات تو نہیں بدلتے مگر بے ضمیروں کے سدا وارے نیارے رہتے ہیں ۔ ‘‘
ایفائے عہد اور وقت کی پابندی میں ککی ماچھی اپنی مثال آ پ تھا۔اینٹیں ،ریت ،مٹی ،سیمنٹ ،بجری اور دیگر عمارتی سامان وہ اپنی گدھا گاڑی پر لاد کرمقررہ وقت پرمالک کے پاس پہنچاتا۔وعدہ کرنے میں وہ ایک وضع احتیا ط کا قائل تھا مگر جب وہ کسی سے کوئی وعدہ کر لیتا تواس کی تکمیل کے لیے جان کی بازی لگا دیتا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے زندگی بھر کبھی پیمان وفا ٹوٹنے کی نوبت ہی نہ آنے دی۔اس کا رویہ رجائیت پسندانہ رہا اس نے کبھی کسی کو مایوس نہ کیا۔عمارتی سامان اور ہر قسم کا بوجھ مقررہ مقام تک پہنچانے کے سلسلے میںوہ صرف ایسے وعدے کرتا جن کی بروقت تکمیل اس کے حوصلے اور بس کی بات ہوتی۔اگر عمارتی سامان کی با ر برداری میںاسے کسی دشوار ی کااحساس ہوتا تو وہ مالک سے بلا تامل معذرت کر لیتا ۔جھوٹے وعدے ،پیمان شکنی ،فریب کاری ،نوسر بازی ،طفل تسلیوں اورسرابوں کے عذابوں سے وہ سخت نفرت کرتاتھا ۔اپنی مختصر زندگی کے انتہائی تلخ ،لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور تباہ کن تجربات کی بنا پروہ یہ بات بر ملا کہتاکہ پیمان شکنی کے مسموم اثرات سے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو جاتی ہیں ۔ایفائے عہد سے
انحراف کے انسانی دِ ل پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیںان کے بارے میں ککی ماچھی آ ہ بھر کر کہتا کہ دِل کی مثال بھی ایک تمثال دار آ ئینے کی سی ہے ۔ایک موذی و مکار، عادی دروغ گو اور کینہ پرور درندہ اپنی پیمان شکنی سے متاثرہ شخص کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیتا ہے ۔پیمان شکن ابلہ کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور تیر ستم سہنے کے بعد متاثرہ شخص کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو جاتی اور جگر چھلنی ہو جاتا ہے ۔ ککی ماچھی کا کہنا تھا کہ سادیت کے مرض میں مبتلا بو الہوس ،جرائم پیشہ اورمفاد پرست عناصر کا وتیرہ ہے کہ وہ محض اس لیے وعدے کرتے ہیں کہ انھیں توڑ کر لذتِ ایذا حاصل کی جائے ۔ ککی ماچھی ترک تعلق کو ایک افسوس ناک اور دل دہلا دینے والے تجربے سے تعبیر کرتا تھا۔ترک تعلق کی زد میں آنے والوں کی یاس و ہراس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتاہے کہ ان کی امید کا انحصارمرگ نا گہانی پر ہوتا ہے۔پیمان شکنی کے بعد متاثرہ افراد جس اذیت و عقوبت سے دو چار ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے ککی ماچھی جب اپنی زندگی کے تلخ تجربات بیان کرتا تو سننے والوںکی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔جب وہ اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی وعدہ خلافیوں کا حوالہ دیتا تو اس کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں ۔وہ یہ بات زور دے کر کہتا کہ فریب کاری ،عیاری اور مکاری سے کیے گئے وعدے متاثرہ افراد کو خوش فہمی کے سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔اس قسم کے مایوس کن عہد و پیمان نہ صر ف جی کا زیان ثابت ہوتے ہیں بل کہ یہ ایسے ذہنی خلجان کا با عث بھی بن جاتے ہیں جس کا مداوا کسی صورت میںممکن ہی نہیں ۔ ککی ماچھی وعدے کو انسانی جان پر ایک ایسے قرض کا نام دیتا تھا جس کی ادائیگی کسی نہ کسی مرحلۂ زیست پر ہر حال میں لازم ہے ۔وہ اپنے دیرینہ کرم فرما پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات کی اس بات سے متفق تھا کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں کیے جانے والے ہر وعدے کی کوئی نہ کوئی قیمت کسی نہ کسی صورت میں ضرور اد اکرنی پڑتی ہے ۔وہ پروفیسر گدا حسین افضل کی اصول پرستی ،حق گوئی ا ور بے باکی کا بہت بڑا مداح تھا ۔ ککی ماچھی جب بھی گدا حسین افضل کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتا تو ان کے ایفائے عہد کی خاص طورپر مثالیں دیتا ۔وہ اس یگانۂ روزگار مفکر ،فلسفی ، دانش ور اور مصلح کی یہ بات داہرتا کہ ایذا رسانی ، سفلگی ، فریب کاری ،مکاری ،نوسر بازی اور عیاری کی اس سے قبیح مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی کیے ہوئے وعدے سے منحرف ہو جانے پر نادم ہونے کے بجائے ہنہناتا پھرے ۔ گزشتہ برس بابابلھے شاہ کے عرس پر ککی ماچھی قصور گیا تو وہاں میر ے حوالے سے عالمی شہرت کے حامل دانش ور پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی سے بھی ملاقات کی ۔ وہ اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فاضل پروفیسر کی یہ بات دہراتا کہ عہد و پیمان جہاں ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق کا معتبر حوالہ ہیں وہاںجو فروش گندم نما عناصر اور بہتی گنگا میںہاتھ دھو کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے سفہا اور اجلا ف و ارذال نے پیمان شکنی کو اپنی موقع پرستی کی ضروریات کی تکمیل کا وسیلہ بنا رکھا ہے۔ککی ماچھی اپنے احباب کو یہ بات سمجھاتا کہ معاشرتی زندگی میں جب بھی کہیں عہد و پیمان کو توڑ کر حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب کی صورت پیدا ہوتی ہے تو اہلِ درد تڑپ اُٹھتے ہیں کہ ایک بار پھر زندگی کی اقدار عالیہ کی ترجمان صداقتوں کوکذب و افترا کے ہاتھوں ہزیمت اُٹھانی پڑی۔
غسل کفن دینے کے بعد ککی ماچھی کی میّت کو سرخ گلاب کے پھولوں کی عطر بیز پتیوں سے ڈھانپ دیا گیا۔
جنازہ تیار تھا ککی ماچھی کے گھر سے جنازہ اُٹھا تو نوحہ خواں پارٹی نے میاں محمد بخش کا یہ کلام پڑھا تو جنازے میں شامل سب لوگ دھاڑیں مار مارکر رونے لگے:
لے او یار حوالے رب دے اج مِل لے جاندی واری
اس ملنے نوں توں یاد کریسیں تے روسیں عمراں سار ی
توں بیلی تے سب جگ بیلی ان بیلی وی بیلی
سجناں باہجھ محمد بخشا سُنجی پئی اے حویلی
سرو اُداس حیران کھلوتے پیر زمیں وِچ گڈ ے
اُچے ہو ہو جھاتیاں مارن متاں یار کِدوں سر کڈے
کلا چھڈ کے ٹُر گئے تے سجن کر گئے بے پروائیاں
مدتاں ہوئیاں سُکھ دیاں گھڑیا ں فیر نہ مُڑ کے آئیاں
ٹُر گیو ںسجنا ں چھڈ کے سانوںتے پا گیوں وِچ فکراں
پاٹی لِیر پرانی وانگوں ٹنگ گیوں وِچ کِکراں
دُکھیے دا دُکھ دُکھیا جانے سُکھیے نوں کیہہ خبراں
ٹُر جاندے نیں سجن جنہاندے اوہ روون تک تک قبراں
سئے سئے جوڑ سنگت دے ویکھے آخر وِتھاں پئیاں
جنھاں بناں اِک پل سی نہ لنگھدا اوہ شکلا ں وی بُھل گئیاں
شہر کے جنوب میں واقع پندرہ سو سال قدیم کر بلا حیدری کی جناز گاہ میں ممتاز عالم دین حافظ اللہ دتہ نے اس نوجوان مزدور کا جنازہ پڑھایا۔ککی ماچھی کی نا گہانی وفات پر شہر کا شہر سوگوار تھا ۔اس دن شہر کی سڑکوں پر کہیںگدھا گاڑی نظر نہ آ ئی اور اینٹوں کے کسی بھٹے پر کوئی کام نہ ہوا ۔ ککی ماچھی کی حادثاتی موت نے اس کے ضعیف باپ کو زندہ در گور کر دیا ۔دائمی مفارقت دینے والے کب ملتے ہیں ککی ماچھی کی ضعیف ماں پھر بھی منتظر ہے کہ شاید اس کا لخت جگر کبھی لوٹ آئے۔ لحد کے کنارے کھڑے فرطِ غم سے نڈھال منشی خامہ بگوش نے گلو گیر لہجے میں کہا :
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دِن اور