شاعری کی ابتدا اور نظریۂ شعر
مسعود حسین خاں نے اپنا ادبی سفر شعر گوئی سے شروع کیا تھا۔ انھوں نے پہلا شعر اس وقت کہا تھا جب وہ محض ساڑھے13سال کے تھے اور کشمیر کی سیر کے لیے گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ ان کے ہمراہ جامعۂ ملیہ اسکول کے ایک استاد سید نذیر نیازی تھے۔ یہ لوگ لاہور ہوتے ہوئے اور علامہ اقبال (1877-1938)سے ان کے دولت کدے پر ملتے ہوئے اکتوبر1932میں کشمیر پہنچے تھے۔ (1)پہلا شعر جو کشمیر میں ان کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا:
نہیں، نہیں، نہیں جاتے تم اُس طرف کو مگر
قدم قدم پہ یہ لرزہ قدم کا، کیسا ہے ؟
اس شعر سے مسعود حسین خاں کی شعر گوئی کا آغاز تو ہو گیا تھا، لیکن اس کی رفتار بہت سست رہی تھی، کیوں کہ وہ طبعاً بہت کم گو واقع ہوئے تھے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’دو نیم‘ پہلی بار 1956میں دہلی سے شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا کوئی اور مجموعۂ کلام شائع نہیں کیا۔ یہی مجموعہ 30سال بعد چند اضافوں کے ساتھ دوسری بار 1986میں، اور اس کے 14سال بعد تیسری بار 2000میں شائع ہوا، لیکن انھوں نے اپنی شاعری اس سے بہت پہلے ترک کر دی تھی۔ انھوں نے آخری شعر 1982میں کشمیر ہی میں کہا تھا جو یہ ہے:
ہر گلی کوچے میں، ہر موڑ پہ وہ ہی آہٹ
کیسا یہ شہر ہے ہر راہ میں تم ہی تم ہو
یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ مسعود حسین خاں کی شاعری کا باقاعدہ طور پر آغاز گیت نگاری سے ہوا۔ گیت ہی کے راستے سے وہ غزل کے میدان میں داخل ہوئے، پھر نظم کو اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بنایا۔ پہلا شعر 1932میں کہنے کے بعد انھوں نے دس سال تک کچھ نہیں کہا تھا، لیکن 1942میں قائم گنج میں اپنے قیام کے زمانے میں انھوں نے پہلا گیت لکھا جس کے لیے زمین پہلے سے تیار ہو چکی تھی۔ اس کے دو سال بعد 1944میں انھوں نے پہلی غزل کہی، اور اس کے اگلے سال (1945)میں وہ نظم نگاری کی جانب مائل ہوئے۔ ان کی گیت نگاری کا سلسلہ 1948میں موقوف ہو گیا، لیکن نظمیں وہ 1981تک لکھتے رہے۔ غزل گوئی کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے 1981تک جاری رہا۔ اس دوران میں وہ اکثر انقباض کے بھی شکار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ان کا شعری سفر 40سال (1942-82)کے عرصے کو محیط ہے، لیکن شعری سرمایہ نہایت قلیل ہے۔ اس کی وجہ راقم السطور کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے یہ بیان کی تھی:
’’شاعری سے میرا شغف بہ وجوہ ’گنڈے دار‘ رہا ہے کبھی بہت زیادہ اور کبھی بہت کم۔ اس لیے کہ جس طرح میرے لیے فکر کی ایک لکیر پر چلتے رہنا دشوار ہوتا تھا، جذبات کے ایک سیل میں بھی بہتے رہنا ناممکن تھا۔ شاعری نہ صرف ریاض چاہتی ہے، یہ شغف بھی چاہتی ہے۔ ‘‘(2)
اپنی کم گوئی کی وجوہات پر مسعود حسین خاں نے ’دونیم‘(طبعِ سوم) کے دیباچے میں بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’یہ سوال میرے اور میرے بعض قدردانوں کے ذہن میں مسلسل اٹھتا رہا ہے کہ آخر میں نے تیس بتیس سال کے بعد شعر کہنا کیوں ترک کر دیا، ترک نہیں تو اس قدر کم ہو گیا کہ اب دس دس سال کے عرصے میں صرف چند غزلیں اور گنتی کی نظمیں (گیت ایک بھی نہیں ) برآمد ہوسکیں۔ جہاں تک میں نے غور کیا ہے، پیشہ ور اور پُر گو شاعروں سے قطع نظر ہر شاعر کے یہاں سخن وری میں ’قبض و بسط ‘ کے دور آتے ہیں …ابتدا سے میری علمی و ادبی مصروفیات اور دل چسپیاں متنوع رہی ہیں جو مجھے شعر و ادب کے کوچے سے لسانیات کی تنگنائے میں ڈھکیل کر لے گئیں … لسانیات ایک عمرانی علم ہے۔ اس لیے اس کے سائنسی اندازِ فکر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان جذ بہ و تخیل کی دنیا سے نکل کر تعقلی استدلال اور منطقی فکر کو اختیار کرے۔ جوں جوں ذہن کی یہ مہارت بڑھتی گئی، میں خواب و خیال کی دنیا سے دور ہوتا گیا۔ اس میں بڑھتی ہوئی عمر کے تقاضے بھی کارفرما تھے۔ ‘‘ )ص(32-33
مسعود حسین خاں شاعری سے متعلق اپنا مخصوص نظریہ رکھتے تھے جس کا ذکر انھوں نے ’دونیم‘ (طبعِ اول) کے دیباچے ’’تمہیدِ شعر‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔ یہی دیباچہ ’دونیم‘ (طبعِ سوم) میں بھی شائع ہوا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے اپنے ایک مضمون ’’میرا شعری تجربہ‘‘ میں بھی اپنے نظریۂ شعر سے بحث کی ہے۔ یہ مضمون ’دونیم‘ کے تیسرے ایڈیشن (2000)میں دیباچے کے طور پر شامل ہے۔ ان کے علاوہ(1 ’’تخلیقِ شعر‘‘، (2’’مطالعۂ شعر‘‘، (3’’غزل کا فن‘‘ جیسے مضامین سے بھی ان کے نظریۂ شعر کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ تینوں مضامین ان کے مجموعۂ مضامین ’اردو زبان اور ادب‘ (1983)میں شامل ہیں۔ (3)
شعر مسعود حسین خاں کے لیے ہمیشہ ’’ذریعۂ نجات‘‘ رہا ہے۔ اس نے کبھی بھی ’’مشغلے‘‘ یا ’’مشق‘‘ کی صورت اختیار نہیں کی۔ یہ ان کا ’’فن‘‘ بھی نہیں ٹھہرا۔ (4)انھوں نے ’’ذریعۂ نجات‘‘ کی وضاحت ’دونیم‘(طبعِ سوم) کے دیباچے میں ان الفاظ میں کی ہے:
’’بعض اوقات کسی جذبے یا صدمے کے باعث ایک خاص ذہنی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، تو اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے اظہار کا سہارا لیتا ہوں، ع
کہ جس سے ہلکا ہو جی، اک غزل ہی کہہ لائیں ‘‘
(ص26)
مسعود حسین خاں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’شعر میرے لیے اپنی شخصیت کا بھرپور اور موثر اظہار ہے۔ ‘‘ تخلیقِ شعر کے بارے میں بھی ان کا مخصوص نظریہ تھا۔ راقم السطور کو انٹرویو دیتے ہوئے تخلیقِ شعر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انھوں نے فرمایا تھا:
’’میرا شعر’ اظہار کے دباؤ‘ پر ورود کرتا ہے۔ اس کی جد و جہد زبان سے ’وارستگی‘ میں مضمر ہے۔ اسی لیے میں نے اس کو اپنے لیے ’ذریعۂ نجات‘ کہا ہے۔ ‘‘(5)
مسعود حسین خاں ’’اظہار کے دباؤ‘‘ کو ’’ہیجاناتِ شعری‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’میرے تخلیقی عمل کا آغاز زبردست ہیجاناتِ شعری اور اظہار کے دباؤ پر شروع ہوتا ہے۔ ‘‘(6)وہ وزنِ شعر کو ’’ہیجاناتِ شعری‘‘ کے لیے ضروری قرار دیتے تھے۔ اسی لیے وہ تخلیقِ شعر کے وقت ٹہلتے اور گنگناتے رہتے تھے۔ اپنے ایک مضمون ’’ تخلیقِ شعر‘‘ میں انھوں نے تخلیقی عمل کے خارجی اور داخلی محرکات کا بہ تفصیل ذکر کیا ہے۔ ان کے خیال میں تحریکِ شعری ایک نہایت شدید قسم کا ذاتی تجربہ ہے جس کے تعلق سے وہ دو قسم کے محرکاتِ شعری پر نظر رکھنا چاہتے ہیں : خارجی محرکات، اور داخلی محرکات۔ (7) مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ ’’شاعر کے تخلیقی عمل کا قیاس بہت کچھ جسمانی تخلیقی عمل پر کیا جا سکتا ہے، ‘‘ کیوں کہ شاعر کے تخلیقی عمل میں بھی ایک مسلسل درد و کرب، سختی، انہماک اور لذتِ تخلیق کی کسک پائی جاتی ہے، اور اس میں بھی ’’وہی بے چینی، وہی انتظار اور آخر میں وہی آسودگی ملتی ہے جس کی شہادت صرف ایک ماں دے سکتی ہے۔ ‘‘ (8)
اظہار کے لیے وزنِ شعر کو ضروری قرار دینے کے ساتھ وہ قافیہ اور ردیف کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’قافیہ اور ردیف سے اظہار کا حسن دونا ہو جاتا ہے‘‘، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ان سے وقتِ ضرورت قطع نظر بھی کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’زبان کا استعاراتی استعمال اس کے حسن میں افزائش کرتا ہے۔ شاعر الفاظ کے جھلملاتے ستارے تراشتا ہے، معنی کی کیلیں گاڑتا نہیں چلتا۔ ان ستاروں میں ایک سے زائد اشارے ہوتے ہیں۔ ‘‘(9)
’دو نیم ‘ کے دیباچے ’’تمہیدِ شعر‘‘ میں مسعودحسین خاں نے سماج اور شعر کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’شعر سماج کی ایک قدیم اور جداگانہ قدر ہے۔ اکثر اوقات اس کا ارتقا سماج کی مادی بنیادوں کے متوازی نہیں ہوتا۔ شعر معاشرے سے ابھرتا ہے، لیکن اسے معاشرتی اداروں اور تحریکوں پر مبنی سمجھنا غلط ہے۔ وہ سماج کی ایک مستقل اور متعین قدر ہے اور صرف اسی حیثیت سے اس کا سماج کے دوسرے اداروں اور اعمال سے گہرا رشتہ ہے۔ ’سماجی شعر‘ شاعری کی صرف ایک قسم ہے جس میں ہماری معاشرتی زندگی کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ ‘‘ (’دونیم‘[تیسرا ایڈیشن]، ص8)
شاعر اور سماج کے رشتے پر روشنی ڈالتے ہوئے مسعود حسین خاں لکھتے ہیں :
’’جس طرح شعر سماج کی ایک اہم قدر ہے، شاعر سماج کا ایک اہم فرد ہے، جس کو عزت اور وقعت کی نگاہ سے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ شاعر کا منصب یہ نہیں ہے کہ وہ قلم رکھ کر ہاتھ میں تلوار لے لے یا نعرہ بازی کرتا پھرے۔ اس کی صداقت وہی ہے جس کو وہ محسوس کرے، اور اس کی وسعتِ نظر کا اندازہ اس کے محسوسات سے ہو گا۔ وہ اپنا ہدایت نامہ خود مرتب کرتا ہے۔ بیرونی ہدایات نے اردو کے اکثر ہونہار شاعروں کو تباہ کیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شاعر کو اپنے خول سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ حسبِ توفیق اسے اپنے معاشرے کی ان گہری سانسوں میں شریک ہونا چاہیے جس سے اس کا اندرون وسعت پذیر ہو۔ ‘‘(ایضاً)
ہر چند کہ مسعود حسین خاں نے اپنی شاعری کی ابتدا گیت سے کی تھی، لیکن یہ بوجوہ ان کے ’’ذہنی سفر‘‘کا تا دیر سا تھی نہ بن سکا، چنانچہ وہ ’’غیر شعوری طور پر ‘‘غزل اور نظم کی جانب کھنچتے چلے گئے۔ اس ذہنی تبدیلی کی روداد انھوں نے ’دونیم‘ (طبعِ سوم) کے دیباچے ’’تمہیدِ شعر‘‘ میں یوں بیان کی ہے:
’’ہندی شاعری سے متاثر ہو کر میں نے پہلے پہل گیت کو اپنایا اور کوشش اس بات کی کی کہ ہندوستانی پریم کی ریت کو ٹھیٹھ زبان کے ٹھاٹھ میں پیش کیا جائے۔ کچھ دنوں تک گیت خوش اسلوبی کے ساتھ ذریعۂ نجات بنا رہا، لیکن میرے ذہنی سفر میں یہ بہت دور تک ساتھ نہ دے سکا۔ اس کے ہلکے پھلکے بول جھنکار کے ساتھ گہرے معنی نہ پیدا کر سکے۔ یہ محسوس ہونے لگا کہ گیت میں گہرائی لانے کے لیے آریائی زبان کے ڈھائی ہزار سال کے جمالیاتی عمل میں ڈوبنا پڑے گا۔ یہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے غیر شعوری طور پر اس کی جگہ رفتہ رفتہ غزلوں اور نظموں نے لے لی۔ مجھے یقین ہے کہ غزل میں بات بھرپور انداز میں کہی جا سکتی ہے…غزل کے سانچے میں ڈھلنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی، لیکن ابھی اس صنفِ سخن کے امکانات سلب نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی رمزیت اور اشاریت کے لیے ابھی بہت سی جہات موجود ہیں۔ ‘‘(ص9-10)
گیت نگاری
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں کی شاعری کا باقاعدہ طور پر آغاز 1942میں گیت نگاری سے ہوا۔ دو سال تک گیت لکھتے رہنے کے بعد وہ غزل کی جانب متوجہ ہوئے، پھر نظم کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا۔ ان کے گیتوں کا تنقیدی جائزہ لینے سے پہلے، ان کی گیت نگاری کے محرکات کا پتا لگانا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ مسعود حسین خاں نے چھے سال تک (1927-33)جامعۂ ملیہ اسکول (دہلی) میں تعلیم پائی۔ اس کے بعد مزید تحصیلِ علم کے لیے وہ اپنے چھوٹے چچا محمود حسین خاں (1907-1975)کے ساتھ 1933میں ڈھاکہ گئے، جہاں انھیں لسانی اور تہذیبی اعتبار سے ایک بالکل اجنبی ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں ہر طرف بنگالی زبان کا بول بالا تھا۔ اسکول میں بھی بنگالی زبان کے ’’گانے اور ترانے‘‘ گائے جاتے تھے۔ رابندر سنگیت کا بھی چرچا عام تھا۔ غرض کہ ٹیگور اور نذرل کے نغموں سے ساری فضا مسحور رہتی تھی۔ چنانچہ بنگالی زبان اور اس کی موسیقیت رفتہ رفتہ ان کے دل میں گھر کرتی چلی گئی جس کا ذکر انھوں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘ میں ان الفاظ میں کیا ہے:
’’مَیں اس وقت تک بنگالی سے اچھی طرح واقف نہیں ہوا تھا، لیکن جب اس کے گیت سنتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ بغیر معنوں کے کوئی چیز میرے خون میں اترتی جا رہی ہے۔ ‘‘ (ص 50)۔
بنگالی زبان کے سحر نے انھیں ’گیتانجلی‘ کے مطالعے پر مجبور کیا، چنانچہ جب انھوں نے اپنا شاہکار گیت ’’روپ بنگال‘‘ (1947)لکھا تو اس میں ٹیگور(1861-1941) کے ’ویدانتی تصور‘ کو پیش کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسعود حسین خاں کی گیت نگاری کا محرک ’’بنگلہ دیس‘‘ (یہ نام مسعود حسین خاں نے اپنے گیت ’’روپ بنگال‘‘ میں 1947میں استعمال کیا تھا) کا چہار سالہ (1933-37)قیام ہے، لیکن انھیں اصل تحریک ہندی شاعری سے ملی جس کا انھوں نے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد جم کر مطالعہ کیا تھا۔ یہ ان کی بے کاری کا زمانہ (1942)تھا جو انھوں نے قائم گنج میں رہ کر گزارا تھا۔ اسی زمانے میں انھوں نے ’’مقامی پاٹھ شا لا کے ایک بنارسی پنڈت‘‘ سے ہندی اور سنسکرت زبانیں سیکھیں، اور ہندی میں اتنی مہارت اور اہلیت پیدا کر لی کہ ہندی شاعری کا مطالعہ کر سکیں، چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں وہ ہندی ادب سے بہ خوبی روشناس ہو گئے اور ہندی کے چھایا وادی گیت نگاروں کی تخلیقات کو پسند کرنے لگے۔ (10)ان کے گیتوں پر ہندی کے اِن گیت نگاروں کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسعود حسین خاں نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے ’’ہندی شاعری سے متاثر ہو کر…پہلے پہل گیت کو اپنایا۔ ‘‘ (11)انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 1942کا قیام قائم گنج ان کے اکتسابِ ہندی کے لیے ’’یادگار‘‘ رہا۔ (12) وہ قائم گنج میں اپنے قیام کے زمانے (1942)کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’1941میں ایم اے کی سند ہاتھ میں لے کر بے روزگاری کی کلفت کو دور کرنے کے لیے اپنے وطن قائم گنج چلا گیا۔ وہاں میرے لیے مکمل فراغت کے ماحول میں کئی کششیں تھیں : آم، بالائی اور ایک نوبہار خاندان کے آغازِ شباب کا انتظار۔ ایسے میں ہندی کے چھایا وادی شاعروں کی جانب جھک پڑا۔ ‘‘ (’دونیم‘[طبعِ سوم’، ص20)
مسعود حسین خاں نے راقم السطور کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی گیت نگاری کے محرکات کے با رے میں فرمایا:
’’میرا بنگال (ڈھاکے) میں چار سال تک قیام، رابندر سنگیت اور ’گیتانجلی‘ سے سابقہ گیت نگاری کے اصل محرک تھے۔ ان کو تائید ملی ہندی کے چھایا وادی کوِیوں کے مطالعے سے۔ ‘‘(13)
مسعود حسین خاں نے پہلا گیت 1942میں لکھا جس کا عنوان تھا ’’وہ بات !‘‘ اور جو خالص ’چھایا وادی‘ یعنی رومانی طرز کا گیت تھا۔ اِس گیت کے شانِ نزول کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
’’اپریل 42‘، پھر وہی قائم گنج اور مَیں، وہی آم، وہی ملائی، وہی مردانے گھر کی طویل بیٹھکیں۔ صرف فرق یہ تھا کہ شاعری کی دیوی نے گدگدانا شروع کر دیا تھا۔ ہندی کے چھایا وادی گیت نگار اور ٹیگور کی ’گیتانجلی‘ زیادہ تر زیرِ مطالعہ رہتے۔ اچانک معلوم ہوا کہ سینے میں دلِ گداختہ پیدا ہو چکا ہے۔ محبت اور پریم ایک لا محدود عمل کا تسلسل معلوم ہونے لگا۔ کس کا پریم، یہ نہیں بتا سکتا، بہرحال تھا، وہ یوں پہلا گیت بن کر پھوٹا!
یہ کیا کہتے ہو تم پریتم!
ختم ہوئی وہ بات
پھول کے کان میں جو بھونرے نے
گن گن کر کے گائی
منہ سے کہہ نہ سکی جو تم سے
آنکھوں نے بتلائی
ختم کہاں وہ بات
وہ چلتی دن ر ات
ہم دونوں کا جیون اس کے
سامنے اک پرچھائیں
وقت کی چپ چپ بہتی گھڑیاں
اس کو ناپ نہ پائیں
کھائی مات پہ مات
ختم کہاں وہ بات! ‘‘
(’ورودِ مسعود‘، ص98-99)۔
ہرچند کہ ڈکشن، امیجری اور اسلوب کے اعتبار سے یہ ایک گیت ہے، تاہم اس کی رمزیت و اشاریت اور آہنگ غزل سے بہت قریب ہے، مثلاً ’’یہ کیا کہتے ہو تم پریتم!‘‘ کا شعری آہنگ
یہ کیا
کہتے
ہو تم
پریتم
فعلن
فعلن
فعلن
فعلن
عروضی اعتبار سے میر تقی میر (1724-1810)کی مشہور غزل ’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں …‘‘ کی یاد دلاتا ہے:
الٹی
ہو گئیں
سب تد
بیریں
فعلن
فعلن
فعلن
فعلن
یہ ایک داخلی انداز کا گیت ہے اور اس کا تعلق حکایتِ غمِ دل سے ہے۔ گیت نگار نے اس گیت میں ’’درپردہ‘‘ بہت کچھ کہہ دیا ہے جسے ہم شرحِ دل سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اسے’چھایاواد‘ کا ایک بہترین گیت کہنا بے جا نہ ہو گا۔
اسی طرح کا ایک گیت موسوم بہ ’’موج کا گیت‘‘ ہے جو استعاراتی انداز میں عشق کی ناکامیوں اور محرومیوں کی داستان بیان کرتا ہے۔ ایک طرف دریا کی موج ہے جو ’’بے کل‘‘ ہے اور جس کے سینے میں بیتابی و بیقراری اور ’’ہل چل‘‘ ہے اور جو ساحل تک پہنچنے کی شدید ’’چاہت‘‘ رکھتی ہے۔ دریا کی موج ساحل کے قدموں تک پہنچتی ہے، اس کے لبوں کا بوسہ لیتی ہے، لیکن ساحل کی بے حسی کی وجہ سے اس سے ٹکرا کر چوٹ کھاتی ہے اور گر پڑتی ہے، لیکن پھر اٹھتی ہے اور اچھلتی ہے، لیکن پھر ساحل سے ٹکرا کر چوٹ کھاتی ہے۔ ساحل کی اس بے حسی اور بے التفاتی پر موج آنسو بہاتی ہے اور روتی ہے، بالآخر ناکام و نامراد واپس لوٹ جاتی ہے:
بے حس ساحل، بے حس ساحل!
کیسی چوٹ لگائی
دور سے لب پر بوسہ لے کر
اِن چرنوں تک آئی
کیوں سمٹے ہے تیرا آنچل
میرے آنسو ہوتے چھل چھل
میں بے کل، چاہت سے پاگل
لے کر کومل من میں ہل چل
کھِل کھِل ہنستی کھیلتی آئی
بے حس! کیسی چوٹ لگائی
میرے آنسو ہوتے چھَل چھَل
اٹھ اٹھ پھر پھر، کرتی کل کل
اچھل اچھل کر دیکھتی پَل پَل
رہ رہ روتی ہوتی واپس
ساحل بے حس، بے حس، بے حس!
(’دو نیم‘[طبعِ سوم]، ص180-81)
’’آج سہی انکار‘‘ ایک اور پیارا گیت ہے جس میں شاعر کی یہ معصوم سی خواہش ہے کہ اس کی محبوبہ اپنے سرخ لبوں کو وا کر دے (’’کھول دے لال دوار‘‘)، اور کچھ تو وہ بولے خواہ ’’انکار‘‘ ہی کی بات کیوں نہ ہو، تاکہ اس کی مترنم آواز(’’جھنکار‘‘) سے شاعر کے کانوں کو آسودگی حاصل ہو اور محبوبہ کے منہ سے چند بول سننے کی اس کی دلی مراد بر آئے:
آج سہی انکار!
لیکن کچھ تو بول
اِن ہونٹوں کو کھول
جو کرتے ہیں پیار
آج سہی انکار
کھول دے لال دوار
ہے بس اتنی چاہ
رکھ دے کیا پرواہ
ہر ہر بول پہ دھار
آج سہی انکار
سب معنی ٰ بے کار
بولوں کو مت تول
ہو گا سُر کا مول
مکھ کی بس جھنکار!
آج سہی انکار!
(’دونیم‘[طبعِ سوم]، ص 184-85)
مسعود حسین خاں کی گیت نگاری کا دور محض چھے سال کے عرصے کو محیط ہے۔ اس کی ابتدا 1942میں ہوئی، اور آخری گیت انھوں نے 1948میں لکھا۔ ان میں سے بیشتر گیت 1942سے 1945تک لکھے گئے۔ آخر کے تین برسوں میں انھوں نے صرف پانچ گیت لکھے جن میں ان کا روپک ’’روپ بنگال‘‘ بھی شامل ہے جو 1947میں لکھا گیا۔ گاندھی جی(1869-1948)کے سانحۂ قتل پر ’’باپو‘‘ کے عنوان سے انھوں نے 1948میں ایک گیت لکھا، اس کے بعد اسی سال ایک اور گیت لکھ کر گیت نگاری کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔
مسعود حسین خاں نے اپنے بہت کم گیتوں کے عنوانات قائم کیے ہیں۔ ان کے 22گیتوں میں سے صرف چھے گیت ایسے ہیں جن کے عنوانات دیے ہوئے ہیں، بقیہ 16گیت بغیر کسی عنوان کے ہیں۔ اگر ان گیتوں کے بھی عنوانات دے دیے جاتے تو ان کے مرکزی خیال کو سمجھنے میں مدد ملتی، تاہم زیادہ تر گیت محبت یا پریم، بلکہ ’اپار پریم‘ کے جذبے سے مملو ہیں اور عشقیہ خیالات (Love Themes)کی ترجمانی کرتے ہیں کہ ’چھایا واد‘ کا بنیادی سروکار بھی یہی ہے اور جیسا کہ مذکور ہوا، مسعود حسین خاں نے چھایا واد کا گہرا اثر قبول کیا ہے۔ وہ ان گیتوں کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ان گیتوں میں ٹیگور کی ’گیتانجلی‘ اور ہندی کے چھایا وادی کوِیوں کی چھاپ ضرور ملے گی، لیکن ہر جگہ شاعر کے دل کی دھڑکن اور ذاتی واردات کا اثر موجود ہے۔ یہ اس لیے بھی کہ یہ میرے لیے شکستِ دل کا زمانہ رہا ہے۔ میں نے بہ یک وقت ایک گوشت پوست کے پیکر اور ایک ’پرچھائیں ‘ سے محبت کی تھی۔ یہ ’چھایا‘ اور ’مایا‘ کی کشمکش کا کھیل تھا۔ میں اس کی تفصیل فراہم کرنا نہیں چاہتا۔ البتہ ان گیتوں کے بین السطور ایک حساس اور زخمی دل ضرور مل جائے گا۔ مجھے یہ گیت اس لیے پسند ہیں کہ یہ عشقیہ واردات کا صحیح عکس ہیں۔ صرف کہیں کہیں روایت نے انھیں ماورائی بنا دیا ہے۔ ‘‘ (’’میرا شعری تجربہ‘‘، مشمولہ ’مقالاتِ مسعود‘[1989]، ص 168)
مسعود حسین خاں نے بعض گیت ’رومانیت‘ سے ہٹ کر بھی لکھے ہیں، مثلاً ’’ہچکولے‘‘، ’’غلاموں کا ناچ‘‘، ’’باپو‘‘، ’’روپ بنگال‘‘، وغیرہ۔ ’’ہچکولے‘‘ انھوں نے جرمن خاتون مِس فلپس بورن کے انتقال پر 1943میں لکھا تھا۔ مِس بورن کچھ دنوں جامعۂ ملیہ میں آ کر رہی تھیں۔ وہاں کے لوگ انھیں ’آپا جان‘ کہتے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اور ان کے افرادِ خانہ سے وہ کافی مانوس ہو گئی تھیں۔ مسعود حسین خاں کی مس بورن سے ملاقات جامعہ ہی میں ہوئی تھی۔ ’’غلاموں کا ناچ‘‘ ان کا تحریکِ آزادی پر لکھا ہوا گیت ہے اور ’’باپو‘‘ میں انھوں نے گاندھی جی کے سانحۂ قتل پر اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔ (14)
مسعود حسین خاں کا شاہکار گیت ’’روپ بنگال‘‘ ہے جو 1947کے پس منظر میں لکھا گیا ہے، جب ملک تقسیم کے دہانے پر کھڑا تھا اور ایک تہذیب د و نیم ہو رہی تھی۔ یہ گیت ایک ’روپک‘ ہے جس میں استعاراتی و تمثیلی اندازِ بیان سے کام لیا گیا ہے۔ مسعود حسین خاں نے اپنی بات کہنے کے لیے ایک بنگالی لڑکی منجل اور ایک افغانی (جو ایک پردیسی ہے) کا سہارا لیا ہے۔ یہ دونوں کردار دو مختلف فلسفیانہ تصورات کے نمائندہ ہیں۔ منجل ٹیگور (1861-1941)کے فلسفۂ وحدت الوجود کی قائل ہے اور ویدانتی فکر کی نمائندگی کرتی ہے۔ افغانی اقبال (1877-1938)کے فلسفۂ خودی کا ترجمان ہے، اور حرکت و عمل اور اثباتِ ذات میں یقین رکھتا ہے۔ مسعود حسین خاں نے راقم السطور کو متذکرہ انٹرویو کے دوران میں بتایا تھا کہ یہ گیت ان کے افکار کی ’’کلیات‘‘ پیش کرتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ یہ ان کی گیت نگاری کا ’’سب سے بڑا تحفہ‘‘ ہے، (15)لیکن انھیں ہمیشہ اس بات کا افسوس رہا کہ نقادوں نے اس گیت کا صحیح تناظر میں مطالعہ نہیں کیا اور اس کی ’’تہہ تک‘‘ نہ پہنچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ کا 1986میں دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو اس گیت کے ساتھ انھیں ایک ’’تشریحی نوٹ‘‘ بھی دینا پڑا۔ (16)
’’روپ بنگال‘‘ روپک کی شکل میں ایک فلسفیانہ گیت ہے جو اپنے زمانی و مکانی حوالے بھی رکھتا ہے۔ زمانی اعتبار سے یہ 1947کے اس ’’کرب‘‘ کی یاد دلاتا ہے جو شاعر نے اپنے ملک کے دو ٹکڑے (دونیم) ہونے پر محسوس کیا تھا، اور مکانی اعتبار سے اس کا تعلق بنگال کی اس سرزمین سے ہے جو شاعر کے اِس شعری تجربے کا پس منظر رہی ہے اور جسے اس نے ’’بنگلہ دیس‘‘ کہا ہے جو ’’پریم کی بھومی، راگ کی بھومی، رنگ کی بھومی‘‘ ہے۔ یہ گیت چھے حصوں میں منقسم ہے: (1دیس، (2روپ، (3ایک شا م، (4ناؤ میں، (5 بانس کے جنگل میں، اور (6 آموں کے کنج میں۔
منجل اور افغانی دونوں بنگال کے دِل کش مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ساتھ ساتھ گھومتے ہیں اور فلسفیانہ گفتگو کرتے ہیں۔ افغانی فلسفۂ خودی کے بارے میں منجل کو بتاتا ہے اور منجل افغانی کو فلسفۂ وحدت الوجود کا درس دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ گھومتے گھومتے آموں کے کنج میں پہنچ جاتے ہیں اور گیت اپنے نقطۂ عروج تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ منجل دھیرے دھیرے ہوا میں تحلیل ہونے لگتی ہے اور افغانی سے کہتی ہے:
’’تم میرے سائے بن جاؤ
خود کو کھو کر مجھ کو پاؤ!‘‘
افغانی کہتا ہے:
’’منجل، منجل! ٹھیرو، کیوں مٹتی جاتی ہو!‘‘
یہ سن کر منجل کہتی ہے:
’’پتلے عمل کے!
کر دو اپنے بندھن ڈھیلے
منجل کو سایوں میں ڈھونڈو
اور اس کا سایہ بن جاؤ
خود کو کھو کر اس کو پاؤ…‘‘
(افغانی کا آموں کے کنج میں یہ گیت گانا)
’’آج کیا میں نے کچھ ایسا
خود کو کھویا اس کو پایا
مل جاؤں گا اس سے، یا پھر
بن جاؤں گا اس کا سایا!‘‘
(’دونیم‘[طبعِ سوم]، ص 213-40)
یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ یہ گیت مسعود حسین خاں نے ڈھاکے سے اپنی واپسی (1937)کے دس سال بعد 1947میں لکھا تھا۔ وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ’’بنگلہ دیس کی یہ سیربین یادوں کے ان سینکڑوں رنگین ٹکروں کو جوڑ کر بنائی گئی ہے جو میرے حافظے میں محفوظ رہ گئے تھے۔ ‘‘ (’ورودِ مسعود‘، ص56)
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں، اقبال کی سیاسی فکر سے اتفاق نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اس کے ناقد تھے۔ اقبال کی سیاسی فکر کے مقابلے میں وہ مولانا ابوالکلام آزاد (1888-1958)کی سیاسی فکر کو ’’لائقِ پیروی‘‘ سمجھتے تھے، (17) چنانچہ ان کا یہ گیت بھی اقبال کے ’’فلسفۂ خودی اور تقسیمِ ملک دونوں کے بارے میں ’’ایک شاعرانہ طنز‘‘ ہے۔ (18) انھوں نے ایک جگہ یہ بھی کہا ہے کہ ’’یہ [گیت]وطن کو یک جا رکھنے کی میری آخری شعری کاوش تھی۔ ‘‘(19)
مسعود حسین خاں کے سارے گیت ان کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ کے پہلے ایڈیشن میں 1956میں شائع ہوئے جس میں ان کی نظمیں اور غزلیں بھی شامل تھیں۔ اسی سال انھوں نے اپنے تمام گیتوں کا ایک مجموعہ ہندی(دیوناگری رسمِ خط) میں بھی ’روپ بنگال اور دوسرے گیت‘ کے نام سے شائع کیا، لیکن ان کے بہ قول ’’ہندی والوں نے تو اردو شعری محاورے سے بہت زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے اسے لائقِ اعتنا بھی نہ سمجھا۔ ‘‘(20) چنانچہ مسعود حسین خاں نے تمام تر شہرت اردو گیت نگار ہی کی حیثیت سے حاصل کی۔ ان کے گیت ’ادبِ لطیف‘ اور ’شاہراہ‘ جیسے ممتاز ادبی رسائل میں شائع ہوئے اور اکثر ریڈیو سے بھی نشر کیے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو گیت نگاری میں عظمت اللہ خاں (1887-1923)اور میراجی(1912-1949)کے بعد سب سے زیادہ شہرت مسعود حسین خاں ہی کو حاصل ہوئی، حالاں کہ اس دور میں اردو کے بعض دیگر شعرا بھی گیت لکھ رہے تھے۔ بلا شبہ مسعود حسین خاں کے گیت فکر کی ندرت، جذبہ واحساس کی سچائی، لہجے کی نرمی اور مٹھاس، نیز ٹھیٹھ ہندوستانی زبان کے لیے ہمیشہ قابلِ توجہ رہیں گے۔
غزل گوئی
گیت نگاری کے آغاز (1942)کے دو سال بعد مسعود حسین خاں غزل گوئی کی جانب متوجہ ہوئے۔ انھوں نے پہلی غزل 1944میں کہی اور 1958تک وہ مسلسل غزلیں کہتے رہے۔ اس کے بعد سے ان کی غزل گوئی کا سلسلہ ختم ہو گیا، لیکن 1981میں جب وہ دوبارہ کشمیر گئے تو 23سال بعد انھوں نے وہاں ایک غزل کہی جو ’’میری غزل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ مسعود حسین خاں نے گیت نگاری اور غزل گوئی چار سال تک (1944-48) ساتھ ساتھ کی، اگرچہ انھوں نے 1945سے نظم نگاری بھی شروع کر دی تھی۔ گیت نگاری 1948میں بالکل موقوف ہو گئی، لیکن غزل گوئی کا سلسلہ اگلے دس سال (1958)تک جاری رہا۔ ان کی غزل گوئی کا زمانہ 14سال (1944-58)کے عرصے کو محیط ہے۔ اس دوران میں انھوں نے 46غزلیں کہیں، علاوہ ازیں چند قطعات اور چند متفرق اشعار بھی کہے جو ان کے مجموعۂ کلام ’دو نیم‘‘ میں شامل ہیں۔
مسعود حسین خاں کے گیتوں کی طرح ان کی غزلیں بھی رومانی طرز کی ہیں جن میں عشقیہ جذبات ومحسوسات اور داخلی تجربات کو سچائی کے سا تھ بیان کیا گیا ہے۔ مجموعۂ کلام ’دو نیم‘ (طبعِ سوم)سے غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
ترے خیال کی مستی شراب سے بڑھ کر
ترے لبوں کا تصور گلاب سے بڑھ کر
وہ دل ہی کیا جو محبت سے آشنا نہ ہوا
سفینہ کیا وہ جسے بحرِ بیکراں نہ ملا
ہزار بار اسے ناکامیوں نے سمجھایا
مگر یہ دل تری الفت سے باز کب آیا
چاہ بھی کیا گناہ ہوتی ہے؟
میں گنہ گار، شرمسار نہیں
جہاں بھی دیکھا وہیں تجھ کو پایا جانِ وصال
تری نگاہ کا پرتو کہاں کہاں نہ ملا
شاعر نے ’حدیثِ عشق‘ اور ’حکایتِ غمِ دل‘ سا دہ لفظوں میں بیان کر دی ہے جس میں نہ تصنع ہے اور نہ غلو۔ بعض اشعار تو سہلِ ممتنع کی مثال پیش کر تے ہیں :
عشق میں اضطراب رہتا ہے
جی نہایت خراب رہتا ہے
کوئی اتنے دن تک خفا کیسے ہو گا
انھیں جائیں گے ہم کسی دن منانے
کبھی کبھی تو محبت سے ساز باز کرو
کسی کے ناز اٹھاؤ، کسی سے ناز کرو
ہر غنچہ دل گرفتہ ہوا سن کے میری بات
چھوڑو بھی، اب وہ قصہ سنایا نہ جائے گا
ہم اس شوخ سے کچھ توقع کریں بھی
مگر ٹھیک کیا بات مانے نہ مانے
خالص غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں حسنِ بیان بھی ہے اور روایتی علامتیں اور رمزو اشاریت بھی:
آج کہنا ہی پڑے گی دلِ مجبور کی بات
اس کے پردے میں کہیں گے بتِ مغرور کی بات
نیا جنوں ہے جو اپنا نئی جفا ہو گی
نہ جانے طرزِ ستم ان کی کیا سے کیا ہو گی
تشنگی جی کی بڑھتی جاتی ہے
سامنے اک سراب رہتا ہے
مرحمت کا تری شمار نہیں
درد بھی بے حساب رہتا ہے
ابھی تو غنچۂ دل ہی کے منہ میں ہے وہ بات
مگر نسیمِ سحر ہے چمن میں فتنہ طراز
محبت میں انتظار کی گھڑیاں بھی آتی ہیں۔ انتظار میں عاشق کو ’’قرار‘‘ نصیب نہیں ہوتا، وہ ’’سوگوار‘‘ رہتا ہے، اور اس کے دل کی ’’دھڑکنیں ‘‘ تیز تر ہوتی جاتی ہیں۔ ’دونیم‘ کے شاعر کا بھی انتظار میں کچھ یہی حال تھا:
تجھے بہار ملی مجھ کو انتظار ملا
اس انتظار میں لیکن کسے قرار ملا
ترے خیال میں دل آج سوگوار سا ہے
مجھے گمان ہے کچھ اس کو انتظار سا ہے
وہ انتظار کہ آنکھوں نے آہٹیں سن لیں
وہ دھڑکنیں ہیں کہ ہوتیں نہیں کبھی مدھم
اِن اشعار کی معنویت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے ’ورودِ مسعود‘ میں نجمہ (جو مسعود حسین خاں سے منسوب ہو چکی تھیں ) سے شادی کے حوالے سے ان کا یہ جملہ پڑھا: ’’میں بھی انتظار سے عاجز آ چکا تھا‘‘ (ص126)۔ مسعود حسین خاں نے اکثر یہ کہا ہے کہ ’’میری شاعری اور میری زندگی میں گہرا ربط رہا ہے‘‘ (ایضاً، ص118)۔ اسی لیے ان کے عشقیہ جذبات سے مملو اشعار کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی شاعری روایتی شاعری نہیں ہے، بلکہ ذاتی تجربات پر مبنی ’شرحِ دل‘ ہے۔
مسعود حسین خاں کی شاعری محض عشقیہ جذبات کے اظہار اور وارداتِ قلبی کے بیان تک ہی محدود نہیں، بلکہ اس میں خارجی دنیا کے مسائل اور زمانے کا دکھ درد بھی ہے، نیز معاشرتی سطح پر ’دونیم‘ (دو ٹکڑے )ہوتی ہوئی زندگی کی جانب بلیغ اشارے بھی ہیں۔ ایک خاص مرحلے تک پہنچنے کے بعد ان کے شعری تجربے میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور ان کی شاعری ’’ذات‘‘ سے ’’کائنات‘‘ کی جانب سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سلیمان اطہر جاوید نے ان کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کی شاعر ی میں ’’رومانیت اور انقلاب کی لہریں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ انھوں نے جہاں رومانی موضوعات اور پیرایے کو اختیار کیا ہے، وہاں زمانے کے نشیب و فراز اور پیچ و خم پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے، اور بعض مواقع پر تو بہت کھل کر۔ ‘‘(21)
مسعود حسین خاں کے ذیل کے اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں عصرِ حاضر کی ابتری و انتشار اور حشر سامانی کا عکس نمایاں ہے:
سب حنا بندیِ نظر ہے مری
ورنہ عالم میں کچھ بہار نہیں
تجھی پہ کچھ نہیں موقوف اے دلِ محروم
جہاں بھی دیکھیے عالم میں انتشار سا ہے
مجھے تلاش نہیں ہے کہ ابنِ مریم ہو
مگر جہان میں کوئی تو ابنِ آدم ہو
بڑھے گا اور زمانے میں اضطرابِ خرد
مگر جنوں میں بھی گہرائیاں بڑھیں گی ابھی
گزر بھی جائیں گے اے جان یہ عذاب کے دن
بسے ہوئے ہیں تصور میں اک گلاب کے دن
میری افسردہ دلی گردشِ ایام سے ہے
لوگ کہتے ہیں محبت مجھے گلفام سے ہے
1947میں ملک آزاد ہوا، لیکن موجِ خوں سر سے گذر گئی۔ شاعر کے حساس دل نے اس کرب کو یوں محسوس کیا:
کیا کیا نہ سمجھیں، کیا کیا نہ سوچیں
کیا سن رہے تھے، کیا ہو رہا ہے
گھبرا گئے ہم رنج و الم سے
اے مالکِ غم کیا ماجرا ہے
کوئی سبیل نکالو کہ غم ذرا کم ہو
برنگِ لالہ جگر میں کبھی تو شبنم ہو
ہے بجلیوں کو اشارہ کہ ہم اسیروں پر
کھلیں جو بندِ سیاست تو بندشِ غم ہو
جو ارضِ پاک میں گذری ہمیں وہ سب معلوم
رِشی کے دیس میں لیکن بشر یہ کیا گذری
مسعود حسین خاں ایک سچے قوم پرست تھے، اور تا دمِ آخر وہ قوم پرست رہے۔ انھوں نے دو قومی نظریے کو رَد کر دیا تھا۔ وہ ملک کی تقسیم کے خلاف تھے۔ اسی لیے انھوں نے محمد علی جناح (1876-1948)کی سیاسی فکر کی تنقید کی تھی۔ وہ انگریزوں کو بھی ملک کی تقسیم کا ذمہ دار سمجھتے تھے اور اسے ان کے لگائے ہوئے ’’داغ‘‘ سے تعبیر کرتے تھے:
دیارِ ہند سے جاتے ہوئے بتانِ فرنگ
وہ داغ دے گئے جس کا نہ کوئی مرہم ہو
مسعود حسین خاں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’میرے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں آیا تھا کہ ملک ’دونیم‘ ہوسکتا ہے‘‘(ص124)، لیکن جو ہونا تھا سو ہوا۔ تقسیم کے بعد ملک چھوڑ کر جانے والوں کو انھوں نے یہ مشورہ دیا تھا:
کنارِ گنگ و جمن آپ چھوڑ کر مسعودؔ
کہیں نہ جائیں، نظر لاکھ ان کی برہم ہو
مسعود حسین خاں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے یورپ اور امریکہ بھی گئے۔ وہاں کے قیام کے زمانے میں انھیں اپنی غریب الوطنی اور تنہائی کا شدید احساس رہا۔ یہ احساس شعر کے سانچے میں ڈھل کر یوں برآمد ہوا:
پھر وہی شامیں سونی سونی، پھر وہی راتیں تیرہ و تار
کس نے کہا تھا پھول کھلے تھے، کس نے کہا آئی تھی بہار
ترے دیار میں کوئی بھی ہم زباں نہ ملا
ہزار نقش ملے کوئی راز داں نہ ملا
ادائے خاص ملی اور صلائے عام ملی
مگر کہیں بھی وہ اندازِ جانِ جاں نہ ملا
کسے سنائیں غزل بہرِ شرحِ دل مسعودؔ
کہ اس دیار میں کوئی بھی نکتہ داں نہ ملا
کہاں ہے تو مرے مشرق، بتا مرے مشرق!
عزیز جامِ سفالیں ترا، تری شبنم
نہ بام و در نہ فضائیں نہ آسماں ہم راز
مری نوا کو مگر اجنبی دیار ملا
نظم نگاری
مسعود حسین خاں نے اپنی پہلی نظم ’’ماہِ تمام‘‘ 1945میں لکھی، لیکن اس سے پہلے وہ غزل گوئی کی جانب مائل ہو چکے تھے اور اس سے بھی پہلے وہ خاصی تعداد میں گیت لکھ چکے تھے۔ ان کی گیت نگاری کا سلسلہ تو 1948میں موقوف ہو چکا تھا، لیکن غزلیں وہ 1958تک لکھتے رہے تھے، اگرچہ آخری غزل انھوں نے ’’میری غزل‘‘ کے عنوان سے 1981میں لکھی تھی۔ ان کی نظم نگاری کا سلسلہ بھی 1981تک جاری رہا۔ درمیان میں اکثر انقباض کی صور ت بھی پیدا ہوتی رہی۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ انتقال سے تین سال قبل جب وہ اپنی بینائی کے کم زور ہو جانے کی وجہ سے شدید طور پر اداس اور افسردہ (Depressed)تھے تو انھوں نے ایسے عالم میں دل کو چھو لینے والی نظم ’’سخنِ واپسیں ‘‘ کہی جو پہلے ہفت روزہ ’ہماری ز بان‘(نئی دہلی) میں شا ئع ہوئی، پھر ماہنامہ ’سب رس‘ (حیدرآباد) میں چھپی۔ (22) علاوہ ازیں یہ نظم انھوں نے اپنے حلقۂ احباب میں بھی تقسیم کی۔ مسعود حسین خاں نے 1981تک کل 22نظمیں لکھیں۔ اگر ’’سخنِ واپسیں ‘‘ کو بھی شمار کر لیا جائے تو ان کی نظموں کی کل تعداد 23ہو جاتی ہے۔
غزلوں کی طرح مسعود حسین خاں کی نظمیں بھی ان کی زندگی کا عکس پیش کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ (طبعِ سوم) کے دیباچے ’’تمہیدِ شعر‘‘ میں لکھا بھی ہے کہ ’’شعر میرے لیے اپنی شخصیت کا بھرپور اور مؤثر اظہار ہے۔ ‘‘ انھوں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘ میں بھی اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ ’’میری شاعری میری زندگی ہے‘‘ (ص99)۔ اسی لیے انھوں نے اپنی یہ خود نوشت لکھتے وقت ’’جا بجا‘‘ اپنی شاعری کا سہارا لیا ہے اور کہا ہے، ع
مجھ سے ملنا ہے تو ’دو نیم‘ کے اشعار میں مِل(23)
مسعود حسین خاں کی ابتدائی نظموں میں ’’جمال‘‘ ایک خوبصورت نظم ہے جو انھوں نے نجمہ (جو ان سے منسوب ہو چکی تھیں ) کی یاد میں علی گڑھ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ نجمہ کا ذکر پہلے بھی آ چکا ہے۔ یہ 1946کی بات ہے کہ نجمہ سے ان کی نسبت طے ہو چکی تھی۔ مسعود حسین خاں اس زمانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں استاد تھے اور وہاں تنہائی کی زندگی گزار رہے تھے۔ نجمہ ان کی ہونے والی بیوی ہی نہیں، ان کا ’’انتخاب‘‘ بھی تھیں۔ اس نظم کو انھوں نے ’’خراجِ محبت‘‘ کہا ہے۔ ’ورودِ مسعود‘میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’میں نے علی گڑھ کے صحرا میں بیٹھ کر نجمہ کی یا د کے دیے روشن کیے اور ’’جمال‘‘ کے عنوان سے اسے یہ خراجِ محبت پیش کیا۔ ‘‘(ص122)
اس نظم کے ابتدائی د و شعر دیکھیے:
کہاں سے آ گئیں رنگینیاں تمنا میں
کہ پھر خیال نے لالے کھلائے صحرا میں
تری نگاہ سے میری نظر میں مستی ہے
ترے جمال سے موجیں ہیں دل کے دریا میں
پوری نظم محبوب (خیالی محبوب نہیں !) کے حسن و جمال کا بیان ہے جس میں حسنِ بیان سے کام لیا گیا ہے۔ آخری شعر میں شاعر اس نتیجے پر پہنچتا ہے:
جمالِ یار لطیف، آرزو ہے اس سے لطیف
یہ آئی ہے، نہ وہ آئے گا حرفِ سادہ میں
نجمہ سے نسبت کے بارے میں انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں لکھا:
’’اِس نسبت کے بعد ایسا لگا کہ، ع
’عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا‘
زندگی میں ایک معنویت اور مرکزیت آ گئی اور شاعری میں وسعت۔ ‘‘(ص123)
ایک دوسری رومانی نظم ’’پرچھائیں کی موت‘‘ کا بھی مسعود حسین خاں کے وجود اور ذاتی تجربے سے گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک ایسی داستانِ عشق ہے جو مبنی بر حقائق ہے اور جس کی تفصیل ’ورودِ مسعود‘ میں انھوں نے خود بیان کر دی ہے (دیکھیے ص 115-18)۔ اس داستانِ عشق میں شاعر نے نہ تو کبھی اپنے محبوب کا چہرہ دیکھا اور نہ کبھی اس سے ملا اور بات کی بس اس کی پرچھائیں اور صرف پرچھائیں ہی شاعر کا مقدر تھی، لیکن ایک طویل عرصے کے بعد شاعر تک جب یہ خبر پہنچی کہ ملک کی سرحدوں سے د ور وہ ابدی نیند سوگئی ہے تو شاعر ’’تھوڑی دیر کے لیے ساکت و صامت رہ گیا۔ ‘‘ اسی کے بعد 1979میں ’’پرچھائیں کی موت‘‘ کی تخلیق عمل میں آئی۔ اس نظم کی شانِ نزول کے با رے میں مسعود حسین خاں لکھتے ہیں :
’’میری ایک نظم ’’پرچھائیں کی موت‘‘ خالص رومانی ہے، لیکن اس کی تہہ میں واردات نقلی یا تخئیلی نہیں، اصلی اور واقعاتی ہے۔ اس ’پرچھائیں ‘ کو جو دیارِ غیر میں جا کر اب فنا ہو چکی ہے، پسِ مرگ بے نقاب کرنا میری کم ہمتی کی دلیل ہو گی۔ یہ ہمارے قدامت پرست معاشرے کی ایک ایسی پڑھی لکھی لڑکی کی داستان ہے جو خود اپنی آگ میں جل کر بھسم ہو گئی۔ یہ ایک راز ہے جس کا سربستہ رہنا ہی اب بہتر ہے۔ لیکن نظم کو پڑھیے گا تو بین السطور اس کی پوری کہانی سمجھ میں آ جائے گی۔ ‘‘(24)
نظم کے بعض اجزا ملاحظہ ہوں :
’’وہ پرچھائیں تھی
سیاہ برقع میں ملبوس ایک پرچھائیں
میرا روشن وجود جس کا برسوں تعاقب کرتا رہا
میری دزدیدہ نظریں جس کی سیہ نقاب سے
برسوں کشاکش میں مبتلا رہیں
تاکہ اس کے رخِ روشن کو بے نقاب کر سکیں
تاکہ اس کے خط و خال کو رنگوں کا غسل دے سکیں
لیکن سماج کو یہ منظور نہ تھا
میں جلتا رہا اور وہ کوئلہ بنتی رہی
اپنے انگاروں کی دباتی رہی!
…
وقت فاصلے میں تبدیل ہوتا گیا
بالآخر ایک دن وہ بھڑک اٹھی
اور اس کی زبان پر پہلی بار خدا کے بجائے میرا نام آ گیا؟
…
فاصلے بڑھتے گئے
وہ میری یادوں کے طاق کا گلدستہ بنتی گئی
لیکن میں اس کے روشن وجود میں سایہ بن کر داخل ہوتا گیا
دونوں بے خبر لیکن دور ہو کر قریب
یکایک خبر کی بجلی ٹوٹی کہ چند سال پہلے وطن سے دور
وہ قبر کی تاریکیوں میں اتر گئی
’غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا‘
میری زبان پر پہلی بار خدا کا نام آ گیا!‘‘
(’دو نیم‘[طبعِ سوم]، ص 90-91)
’’انتظار‘‘ مسعود حسین خاں نے اپنے قیامِ لندن کے دوران میں 1950میں لکھی۔ یہ نظم انھوں نے سب سے پہلے لندن کے ادبی حلقے کے ماہانہ جلسے میں سنائی جس پر سامعین نے اظہارِ خیال کیا اور داد دی۔ اس جلسے میں جو لوگ موجود تھے ان میں منیب الرحمن، انور انصاری، اعجاز حسین بٹالوی، غلام عباس اور حفیظ جاوید کے نام خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ نظم مغرب کے حوالے سے نو آبادیاتی تناظر میں لکھی گئی ہے جس کی جانب نظم میں واضح اشارہ موجود ہے:
’’تھکی تھکی سی یہ شامیں سوادِ مغرب کی
میں رو رہا ہوں
کہ ان کی سحر نہیں معلوم
ہجومِ لالہ و گل
(داغہائے دل کہ نہ پوچھ!)
…
انھیں غرض ترے مشرق کی سر زمینوں میں ‘‘
مغرب کی نو آبادیاتی فکر نے تیسری دنیا کی سماجی قدروں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ شاعر کو انھی قدروں (کی بازیابی) کا انتظار ہے:
…
’’وہ انتظار جو بیگانۂ وفا نہ ہوا!
…
کھلی ہوئی ہیں وہ آنکھیں
کہ تھک چکی ہے نظر
مگر وہ شام و سحر مشعلیں جلائے ہوئے
تکا کریں یونہی محرابِ روز و شب کے پار
(کہ وقت شرما جائے)‘‘
’’فرنگی خزاں ‘‘1951میں پیرس میں لکھی ہوئی نظم ہے۔ مسعود حسین خاں جب پیرس پہنچے تھے تو اس وقت وہاں پت جھڑ یعنی Fallکا موسم شروع ہو چکا تھا اور درختوں کی پتیاں زرد ہو ہو کر زمیں بوس ہو رہی تھیں۔ بلند قامت درخت بے لباس اداس کھڑے تھے۔ یہ منظر بڑی اداسی اور افسردگی کا تھا۔ افسردگی کی وجہ یہ بھی تھی کہ سردی یخ بستہ ہواؤں کے ساتھ خزاں کا تیزی سے پیچھا کر رہی تھی۔ شاعر نے ان تاثرات کو اپنی متذکرہ نظم میں شاعرانہ حسن کے ساتھ پیش کیا ہے:
سونا اگل دیا ہے فرنگی خزاں نے آج
شرما دیا بہار کو زخمِ نہاں نے آج
بادِ سحر میں بڑھ گئیں کچھ سرد مہریاں
کیا بے رخی دکھائی ہے آبِ رواں نے آج
شبنم نے پھر بہار کے شعلے بجھا دیے
کیا تر جبیں کیا اسے بادِ خزاں نے آج
’’یومِ آزادی‘‘ 15اگست 1947کے موقع پر لکھی ہوئی نظم ہے جو اہلِ وطن کے لیے خوشی کا دن ہوتا ہے، لیکن شاعر کے خیال میں ملک کے نوجوانوں اور عورتوں کو وہ سب کچھ نہیں ملا جس کی انھیں توقع تھی۔ اسی لیے شاعر کہتا ہے، ع
ایسی آزادی کا آیا نہ سمجھ میں مفہوم
مسعود حسین خاں نے اپنے بیٹے (جاوید حسین) کی ولادت پر 1950میں ایک نظم بہ عنوان ’’ننھا شاہکار‘‘ کہی تھی جس میں پدرانہ جذبات کو شعری اظہار کی صورت دی گئی ہے۔ یہ نظم اس Excitementکو منعکس کرتی ہے جو ایک شخص پہلی بار باپ بننے پر محسوس کرتا ہے۔
مجموعۂ کلام ’دونیم‘ (طبعِ سوم) میں چار ایسی نظمیں بھی شامل ہیں جن میں مسعود حسین خاں نے چار ایسے ’بچھڑنے والوں ‘ کو خراجِ عقیدت و محبت پیش کیا ہے جن سے ان کے نہایت قریبی دوستانہ مراسم تھے۔ پہلی نظم ’’اشعر کی موت‘‘ ہے جو انھوں نے اپنے عزیز شاگرد اور دوست اشعر ملیح آبادی کی یاد میں 1950میں لکھی۔ دوسری نظم انھوں نے ’’پیرِ مغانِ اردو‘‘ کے عنوان سے نصیر الدین ہاشمی کی یا د میں 1965میں لکھی۔ اپنے بزرگ دوست عمرالدین (سابق صدر، شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کی وفات پر بھی اسی سال ایک نظم لکھی اور ایک نظم نجیب اشرف مرحوم پر 1968میں لکھی جس میں ان کے اوصاف بیان کیے اور انھیں بڑی محبت سے یاد کیا۔ اس نظم کے دو اشعار درجِ ذیل ہیں :
حریمِ اردوئے بے کس کا پاسباں نہ رہا
ہزار حیف کہ اک پیرِ نوجواں نہ رہا
زبان روتی ہے، الفاظ سر پٹکتے ہیں
فغاں، کہ حرف و معانی کا اک جہاں نہ رہا
’دو نیم‘ میں شامل دوسری نظمیں، مثلاً ’’ماہِ تمام‘‘، ’’خوابِ سنگ‘‘، ’’وادیِ رنگ‘‘، ’’زندگی کا خلا‘‘، ’’مدینۂ آدم‘‘، ’’دیے جلاؤ ساتھیو!‘‘وغیرہ بھی فکری اعتبار سے لائقِ توجہ ہیں، لیکن یہاں زیادہ تفصیل کا موقع نہیں۔ مسعود حسین خاں کی ابتدائی غزلوں کی طرح ان کی ابتدائی دور کی نظمیں بھی ان کی شخصیت کا ’’بھرپور‘‘ اظہار ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسعود حسین خاں نے اپنے ادبی سفر میں کسی قسم کی گروہ بندی نہیں کی اور نہ وہ کبھی کسی گروہ میں شامل ہوئے۔ انھوں نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ’’میرا انفرادیت پسند ذہن ہر قسم کی گروہ بندی سے متنفر رہا ہے۔ ‘‘(25)انھوں نے اپنی شاعری میں بھی کسی کا تتبع نہیں کیا۔ وہ بعض شعرا سے متاثر ضرور ہوئے، مثلاً غالب، اقبال، ٹیگور وغیرہ یا ہندی کے بعض چھایا وادی گیت نگار۔ وہ میر، اصغر گونڈوی، حسرت موہانی اور فانی بدایونی کو بھی پسند کرتے تھے، بلکہ ان کے ’’دل دادہ‘‘ تھے۔ علاوہ ازیں فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی اور ن.م.راشد بھی ان کے پسندیدہ شعرا کی فہرست میں شامل تھے، (26) لیکن ان شعرا کا پرتو ان کی شاعری میں کہیں نظر نہیں آتا۔ انھوں نے راقم السطور کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک جگہ کہا ہے کہ ’’سیاست ہو کہ ادب، فلسفہ ہو کہ مذہب میرا ذہن ’تابعین‘ کی ذہنیت کبھی اختیار نہیں کرتا۔ اسی طرح افراد متاثر کرتے ہیں، مغلوب نہیں کر پاتے۔ ‘‘(27)
مسعود حسین خاں کی شاعری کا ابتدائی دور، ترقی پسند ادبی تحریک کے عروج کا زمانہ تھا، لیکن اس تحریک کی جانب ان کا رویہ ’’نوٹِس‘‘ نہ لینے کا رہا۔ وہ مارکس اور اسٹالن دونوں سے بیزار تھے، البتہ لینن کو پسند کرتے تھے۔ وہ خود کہتے ہیں :
’’مجھے نہ تو مارکس کی فکر اور نہ اسٹالن کی آمریت متاثر کر سکی… صرف لینن کی شخصیت سے میں متاثر رہا، لیکن نہ اس حد تک کہ وہ میرے خمیرِ شعر کا ہیرو بن سکے۔ ‘‘(28)
اس کے با وصف ان کی بعض نظموں، مثلاً ’’خوابِ سنگ‘‘، ’’دیے جلاؤ ساتھیو!‘‘، ’’ہند کی شبِ مہتاب‘‘، ’’وادیِ رنگ‘‘، وغیرہ میں ترقی پسند شاعری کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح رفعت سروش نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنی نظموں میں ’’اقبال کی فرہنگ‘‘ سے متاثر ہیں۔ (29)
فنی اعتبار سے اگر مسعود حسین خاں کی شاعری کو دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ انھوں نے ہیئت کا کوئی خاص تجربہ نہیں کیا، اور نہ زبان کے سلسلے میں کوئی جدت طرازی کی۔ انھوں نے شعر کی جو مسلمہ ہیئتیں ہیں انھی میں طبع آزمائی کی ہے اور فری ورس(Free Verse)کا بھی استعمال کیا ہے۔ ’’انتظار‘‘، ’’پرچھائیں کی موت‘‘ اور ہچکولے‘‘ (گیت) اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ بعض نظمیں آزاد مقفّیٰ انداز رکھتی ہیں، مثلاً ’’ماہِ تمام‘‘۔ قافیے کے بارے میں ان کا قول ہے کہ ’’قافیہ پیمائی میرا شعار نہیں۔ یہ نہیں کہ قافیہ کی رہبری سے محروم ہوں، لیکن بہرحال قافیے کو تنگ نہیں ہونے دیتا۔ ‘‘(30)
٭٭
حواشی
۱ دیکھیے مسعود حسین خاں کی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ (پٹنہ: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1988)، ص 44-45۔
۲ دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو بہ عنوان ’’مسعود حسین خاں کا نظریۂ شعر اور شعری محرکات و اکتسابات (ایک گفتگو کی یاد داشت)‘‘، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘ از مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 2012)، ص 201۔ [یہ انٹرویوسب سے پہلے سہ ماہی ’اردو ادب‘ (نئی دہلی) کی اشاعت 353، بابت جولائی، اگست، ستمبر2011میں شائع ہوا۔]
۳ مسعود حسین خاں، ’اردو ز بان اور ادب‘(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1983)، طبعِ اول (علی گڑھ، 1954)۔
۴ دیکھیے مسعود حسین خاں، ’دونیم‘ (مجموعۂ کلام)، طبعِ سوم (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 2000)، ص 7۔
۵ دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص206۔
۶ ایضاً، ص208۔
۷ مسعود حسین خاں، ’اردو زبان اور ادب‘ (ایڈیشن 1983)، ص11۔ مسعود حسین خاں کے قول کے مطابق ’’خارجی محرکات کے تحت شراب، تمباکو، افیون اور منشیات آجاتی ہیں جن کا عادی شاعروں کا طائفہ ازل سے رہا ہے…داخلی محرکاتِ شعری…کا تعلق شاعر کی جبلّی اور جذباتی زندگی اور ذہنی صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔ ‘‘ (ص11-12)۔
۸ ایضاً، ص 13۔
۹ دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص206۔
۱۰ ’چھایا واد‘ ہندی کی ایک ادبی اصطلاح ہے جس سے مراد ’رومانیت‘ (Romanticism)ہے۔ اس کا ارتقا ہندی شاعری کے ایک ’دبستان‘ کے طور پر 1918-1937کے دوران میں ہوا۔ اس کے نمائندہ گیت نگاروں میں جے شنکر پرساد، سوریہ کانت ترپاٹھی ’نرالا‘، سمترانندن پنت، اور مہا دیوی ورما کے نام لیے جاتے ہیں۔
۱۱ مسعود حسین خاں، ’دو نیم‘ (طبعِ سوم)، ص 9۔
۱۲ مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص 103۔
۱۳ دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص204۔
۱۴ گاندھی جی کے سانحۂ قتل پر مسعود حسین خاں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے اپنی خود نوشت ’درودِ مسعود‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بچپن سے میر ی عادت رہی ہے کہ موت پر بھی میرے آنسو نہیں نکلتے، لیکن 30جنوری کی رات کو مَیں دیر تک سسکیوں سے روتا رہا۔ ‘‘(ص126)۔
۱۵ دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص206۔
۱۶ ’’تشریحی نوٹ‘‘ کے لیے دیکھیے مسعود حسین خاں کے مجموعۂ کلام ’دو نیم‘ کا دوسرا ایڈیشن (1986)، ص182، اور تیسراایڈیشن(2000)، ص214۔
۱۷ دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص205۔
۱۸ ایضاً، ص 205۔
۱۹ ایضاً، ص 206۔
۲۰ ایضاً، ص 204۔
۲۱ دیکھیے سلیمان اطہر جاوید کا تبصراتی مضمون ’’دونیم‘‘، مطبوعہ روزنامہ ’سیاست‘ (حیدرآباد)، بابت 12فروری 2001۔ [یہ مضمون اِس اخبار کے ’ادبی ڈائری‘ کے کالم میں شائع ہوا]۔
۲۲ مسعود حسین خاں، ’’دمِ واپسیں ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’سب رس‘ (حیدرآباد)، بابت ما رچ 2007، ص22۔
۲۳ یہ مصرع راقم السطور کو مسعود حسین خاں کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ کے کسی بھی ایڈیشن میں نہیں ملا، اور ان کی خود نوشت سوانح حیات، ’ورودِ مسعود‘ (1988)میں بھی کہیں نظر نہیں آیا۔ لیکن جب ’دونیم‘ کا تیسرا ایڈیشن 2000میں چھپ کر آیا تو مسعود حسین خاں نے از راہِ کرم اس کا ایک نسخہ مجھے عنایت فرماتے وقت اس کے اندرونی صفحے پر اپنے قلم سے یہ مصرع لکھ دیا اور دستخط کر دیے۔ یہ نسخہ تا دمِ تحریر میرے پاس محفوظ ہے۔
۲۴ دیکھیے مسعود حسین خاں کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ کے تیسرے ایڈیشن (2000)کا دیباچہ بہ عنوان’’طبعِ سوم‘‘، ص30-31۔
۲۵ دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص200۔
۲۶ ایضاً، ص201۔
۲۷ ایضاً، ص203۔
۲۸ ایضاً، ص200۔
۲۹ بہ حوالہ مکتوبِ رفعت سروش بنام مسعود حسین خاں، مورخہ 5فروری 2001۔ (اس خط کا عکس راقم السطور کے پاس محفوظ ہے)۔
۳۰ دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص 208۔