اُسے جب ہوش آیا تو وہ ایک بند کمرے میں تھی-اُسے اچھے سے یاد تھا کہ جب وہ اُسے زبردستی اُٹھا کر لایا تھا تو مسلسل مزاحمت اور کمزوری کی وجہ سے وہ بیہوش ہو گئی تھی-اب ہوش آنے پر وہ اس کمرے میں موجود تھی-کمرے کی دیواریں پتھروں اور سیمنٹ سی چنی گئی تھیں-وہ پتہ نہیں کونسی جگہ تھی جہاں وہ اُسے اُٹھا کر لایا تھا-
اُس کا سر درد سے پھٹنے لگا-اُسے ایک کرسی کے اوپر بٹھا کر رسیوں سے باندھا گیا تھا- وہ ہاتھوں کو آذاد کروانے کے لیے زور لگانے لگی مگر ہر کوشش ناکام ہو گئی-تبھی اُس نے مدد کے لیے کسی کو پکارنا چاہا-
“کوئی مجھے یہاں سے نکالو پلیز۔۔۔”-
اُس نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا-وہ جانتی تھی کہ اُس کی اتنی اونچی آوازوں کو سن کر کوئی نہ کوئی تو ضرور آئے گا-
“نکالو مجھے پلیز۔۔۔۔۔کوئی ہے”-
وہ خود کو رسیوں سے آذاد کروانے کے لیے مزاحمت کر رہی تھی-
تبھی دو لڑکے اندر آئے-یہ دونوں وہی تھے جو اُس دن اُس کے ساتھ تھے جب اُس نے مالا کو سانپ سے بچایا تھا-وہ اُس کی چیخ و پکار کو سن کر ہی اندر آئے تھے اور اب بازو سینے پر باندھے اُس کو گھور رہے تھے-شکل سے وہ دونوں بھی مالا کو ویمپائر ہی لگے تھے-
“مجھے کھولو۔۔۔۔”- اُس نے اُن کو دیکھ کر چلا کر کہا-
اُن دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا-
مالا سمجھ گئی کہ اُن کو اُس کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی کیونکہ وہ ہونق بنے کبھی اُس کو اور کبھی ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے-جس کا مطلب صاف تھا کہ وہ اُس کی زبان سے ناواقف تھے-
“اللہ کرے تم سب مر جاؤ۔۔۔۔”- وہ بے بسی سے اُن کو بددعائیں دینے لگی-
“اللہ جی آخر ایسی کونسی غلطی مجھ سے سرذد ہوئی ہے جس کی سزا آپ نے مجھے ان درندوں کے حوالے کر کے دی ہے”- وہ اوپر کی طرف منہ کر کے اونچی آواز میں اللہ سے شکوہ کرنے لگی-
وہ دونوں حیرانگی سے اُس کو دیکھنے لگے-دونوں کو گمان ہوا کہ اتنے صدمے سے شاید نہیں یقیناً اُس کا دماغ خراب ہو گیا تھا-
ایک لڑکے نے ناجانے کونسی زبان میں کچھ کہا-مالا کو کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا-وہ پتہ نہیں کونسی زبان بول رہے تھے-مطلب کہ حد تھی نہ وہ اُن کی بات سمجھ سکتی تھی اور نہ ہی اُن کو اپنی بات سمجھا سکتی تھی-
“کیڑے پڑیں تم وحشی درندوں کو۔۔۔۔اللہ جی اگر اِنہوں نے ہم انسانوں کا خون ہی پینا تھا تو آپ نے ان کو جانور ہی بنا دینا تھا نہ۔۔۔ ایسے آدھے ادھورے خوفناک انسان بنانے کی کیا ضرورت تھی-ہائے میں کہاں پھنس گئی”- وہ اب اللہ سے شکایت کرتے ہوئے باآواز دہائیاں دے رہی تھی-اپنی بات تو وہ اُن کو سمجھا نہیں سکتی اس لیے سوائے اُن کو کوسنے اور اللہ سے شکوے کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی تھی-
وہ دونوں ابھی تک وہیں کھڑے اُس کو اکیلے بولتا دیکھ رہے تھے-وہ تو مارک، سیال اور مایا سے بھی گیے گزرے تھے کیونکہ وہ تینوں انگلش تو سمجھتے تھے مگر یہ تو نہ کچھ سمجھ رہے تھے اور نہ ہی اُسے کچھ سمجھا پا رہے تھے-
“پلیز مجھے کھولو۔۔۔۔”- وہ بولنے کے ساتھ ساتھ اشاروں سے بھی اُن کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرنے لگی-
وہ دونوں خاموشی سے کھڑے رہے تو مالا رو دینے والی ہو گئی یعنی کہ وہ سمجھتے ہوئے بھی انجان بن رہے تھے مطلب کہ وہ اُس کو کھولنا ہی نہیں چاہتے تھے-
“اللہ کرے تم لوگ مر جاؤ ابھی کہ ابھی۔۔۔تم لوگوں کو مرتے ہوئے پانی تک نصیب نہ ہو-مر کے سارے کہ سارے جہنم میں جاؤ۔۔۔۔اللہ جی پلیز میری مدد کریں”- وہ اب روتے ہوئے اُن کو کوس رہی تھی-
تبھی وہ چلا آیا-مالا نے دیکھا وہ کل کی نسبت بہت فریش لگ رہا تھا- مالا کو دیکھ کر ایک مسکراہٹ اُس کی طرف اچھالی-وہ اندر تک سلگ گئی-اُسے اتنی تکلیف دے کر وہ کتنا پُرسکون تھا-
اُس کے آتے ہی وہ دونوں باہر نکل گیے-
“اِن کو کچھ سمجھ نہیں آئے گا۔۔۔اس لیے تم جی بھر کہ بددعائیں دے سکتی ہو”- وہ اُس کے قریب چلا آیا-
اُس کے چہرے پر بکھرے پر بکھرے بال سمیٹنے کے لیے اُس نے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا وہ چلا اُٹھی-
“خبردار جو مجھے ہاتھ بھی لگایا تو۔۔۔”-
وہ اُس کا ارادہ بھانپ گئی تھی-اُس کا ہاتھ جہاں تھا وہیں تھم گیا-
“اوکے۔۔۔۔”- وہ مسکراتا ہوا فاصلے پر ہو گیا-
“تمہیں جو چاہیے تھا وہ تمہیں مل تو گیا ہے تو اب پھر مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہو”-وہ انسو بہاتے ہوئے بولی تو اُس کے مسکراتے لب سکڑ گیے-
“پلیز مجھے گھر جانے دو پلیز ۔۔۔۔میرے میاں جی بہت پریشان ہوں گے۔۔۔پلیز مجھے جانے دو”- وہ جانتی تھی کہ غصہ کرنا سراسر بیوقوفی ہے اس لیے ریکوسٹ کی-
وہ اُس کی بات سن کر بنا کوئی جواب دیے کمرے کے کونے میں رکھے پانی والے گھڑے کی طرف بڑھ گیا-
“تم سن رہے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔۔”- اپنی بات کو نظرانداز ہوتا دیکھ کر مالا چلائی-
وہ خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا-مالا کو آگ لگ گئی-
“اللہ کرے تم بھی مرجاؤ۔۔۔۔”- وہ اُسے غصہ دلانے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ اب بھی کچھ نہیں بولا تھا-وہ سنجیدگی سے گھڑے میں سے پانی کا گلاس نکال کر پینے لگا-
مالا نے بے بسی سے اُس کو دیکھا-
“تم آخر ہو کون یہ تو بتا دو کم از کم۔۔۔۔”- وہ سمجھ گئی کہ وہ اُسے کسی صورت وہاں سے نہیں جانے دے گا-
وہ اُس کی بات سن کر مڑا-کچھ دیر اُس کی طرف دیکھتا رہا پھر ہاتھ میں رکھا گلاس واپس رکھا اور اُس کی طرف چلا آیا-
“انسان ہوں۔۔۔۔”-وہ سنجیدگی سے بولا اور اُس کے ہاتھوں کی رسیاں ڈھیلی کرنے لگا-وہ دیکھ چکا تھا کہ اُس کو زور سے باندھنے پر تکلیف ہو رہی تھی-مالا حیرت سے اُس کی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی-
“لیکن حرکتیں تو تمہاری جانوروں والی ہیں”- اُس نے تڑخ کر جواب دیا-اب اُسے اُس سے ڈر محسوس نہیں ہو رہا تھا- ویسے بھی اُسے جو کرنا تھا وہ تو کر ہی چکا تھا-اب مزید کیا بھی کر سکتا تھا-تبھی مالا نے ناجانے کیا سوچ کر جھکتے ہوئے اُس کے بازو پہ اتنی زور سے کاٹا کہ اُس کا خون نکل آیا-وہ درد سے کراہتا ہوا فورا ًپیچھے ہوا-اُس نے اپنا ہاتھ اپنے بازو پہ رکھ کر دبایا-اُسے بہت تکلیف محسوس ہوئی تھی-اُسے درد میں دیکھ کر وہ طنزیہ بولی-
“اب پتہ چلا کہ کاٹنے سے کتنا درد ہوتا ہے-سوچو جب تم دوسروں کا خون نکال کر پیتے ہو تو اُن کو کتنی تکلیف محسوس ہوتی ہو گی”-
“ویسے تو تم بھی انسان ہو مگر حرکتیں تو تمہاری بھی میرے جیسی ہی ہیں”- اُس نے دوبارہ اُس کے قریب آتے ہوئے کہا-
مالا کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا-ناجانے وہ اب کیا کرنے والا تھا-اُس نے دوبارہ اُس کے ہاتھوں کوزور سے رسیوں میں جھکڑنا شروع کر دیا-
“تم نرمی کے لائق ہو ہی نہیں ۔۔۔۔”- وہ اپنا کام کر کے پیچھے ہوتے ہوئے بولا اور کمرے سے نکل گیا-
“تم جہنم میں جاؤ گے مر کہ دیکھ لینا ذلیل کمینے آدمی۔۔۔۔”- وہ پیچھے سے چلاتے ہوئے بولی-وہ نظرانداز کرتا ہوا باہر چلا گیا-پیچھے وہ پھر سے اُن سب کو کوسنے لگی-
اُسے وہاں لائے ناجانے کتنے گھنٹے بیت گیے تھے-جس کمرے میں وہ تھی وہاں نہ کوئی کھڑکی تھی اور نہ ہی کوئی روشن دان تھا جس سے پتہ چل سکتا کہ دن کا کونسا وقت ہے-وہاں ایک بلب تھا جو جل رہا تھا اور اُسکی روشنی سے وقت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا-اُس کا گلا چیخ چیخ کر اور رو رو کر اب بیٹھ چکا تھا-
وہ دل ہی دل میں خدا سے شکوے کر رہی تھی کہ اُنہوں نے اُسے کن جانوروں کے حوالے کر دیا تھا-بھوک پیاس کی وجہ سے برا حال تھا اور کمزوری الگ تھی-
مسلسل رسیوں میں بندھے رہنے کی وجہ سے اُس کے بازؤوں پر گہرے نشان پڑ چکے تھے جن کی وجہ سے اُسے اب درد بھی ہو رہا تھا-
تبھی دروازہ کھولنے کی آواز آئی تھی اور وہ اندر داخل ہوا تھا-مالا کا دل چاہا اُٹھ کہ اُس کا حشر نشر کر دے-
وہ بڑے سے تھال میں اُس کے لیے کھانا لے کر آیا تھا-اُس نے ٹرے زمین پر رکھی اور خاموشی سے گھڑے میں سے پانی نکالنے لگا-
مالا نے ایک نظر تھال میں دیکھا جہاں بہت سارے بچھو بے جان پڑے تھے-اُن کو شاید وہ بھون کر لایا تھا-ایک پیالے میں ناجانے کس چیز کا شوربہ تھا اور تھال میں تھوڑے سے زرد رنگ کے چاول بھی تھے-اُسے دیکھ کر ہی ابکائی آنے لگی-
“میں یہ گندا کھانا ہرگز نہیں کھاؤں گی”- وہ اپنی آنکھوں کو زور سے میچتے ہوئے بولی-وہ دوبارہ اُس کھانے کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی-
وہ اُس کی بات سن کر ایک سیکنڈ کے لیے رکا تھا-پیچھے مڑ کر اُس کو ایک نظر دیکھا اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا-مالا کو اُس کا خود کا یوں نظرانداز کرنا سخت طیش میں مبتلا کر گیا تھا-
“تمہیں سچ میں لگتا ہے کہ میں یہ بچھو کھاؤں گی۔۔۔”-وہ اب کی بار مزید اونچی آواز میں بولی تاکہ وہ اُس کی بات کا جواب دے-مالا نے دیکھا اُس کے ہاتھ پر جہاں اُس نے کاٹا تھا وہاں ایک پٹی بندھی ہوئی تھی-
وہ پانی کا گلاس بھر کے اُس کے پاس لے آیا-سنجیدگی سے گلاس زمین پر کھانے کے تھال کے ساتھ ہی رکھا اور اُس کے ہاتھ کی رسیاں کھولنے لگا-
“تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟ ہو تو تم جانور نہ تو پھر اتنا ایٹی ٹیوڈ کس بات پر ہے؟”- مالا نے اُسے مسلسل چپ پاکر غصے سے پوچھا-اُس نے بنا کوئی جواب دیے اُس کے دونوں ہاتھ کھول دیے-ہاتھوں کے آذاد ہوتے ہی موقع پاکر مالا بلی کی طرح اُس پر جھپٹ پڑی-اُس نے اپنے لمبے ناخنوں سے اُس کا چہرہ نوچنا شروع کر دیا-وہ اتنے شدید حملے کے لیے تیار نہیں تھا-اُس نے خود کو بچانے کے لیے اُس کے ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ جنونی انداز میں اُسے چہرے اور گردن پر جگہ جگہ زخمی کر رہی تھی-وہ بمشکل اُس کے واروں سے بچتا ہوا پیچھے ہوا-مالا کی اس حرکت پر خونخوار نظروں سے اُس کو گھورا-اُس کے چہرے اور گردن پر کئی جگہ سے خون کی دھاریں نکلنا شروع ہو گئیں تھی-
“میں مار دوں گی تمہیں۔۔۔”- وہ کسی بھپری ہوئی شیرنی کی طرح غراتے ہوئے بولی-
وہ بنا کچھ بولے ایک کپڑے سے اپنا چہرہ صاف کرنے لگا-
مالا نے اُس کا چہرہ دیکھا-وہاں ایک شکن بھی نہیں تھی-وہ خاموشی سے اپنا چہرہ صاف کرنے لگا-وہ یک ٹک اُس کو گھورنے لگی-عجیب پاگل تھا-آخر وہ کیوں برداشت کر رہا تھا- وہ پہلے بھی اُسے نقصان پہنچا چکی تھی اور اب پھر اُس نے ایسا کیا تھا مگر پھر بھی وہ کچھ نہیں بولا تھا-وہ عجیب پُراسرا شخصیت کا مالک تھا-
“کھانا کھا لو۔۔۔۔”- اُس نے اپنا چہرہ صاف کرنے کے بعد کھانے کا تھال اُس کی طرف بڑھایا-
مالا نے دیکھا اُس کے چہرے اور گردن پر اُس کے ناخنوں سے ہونے والی کچھ خراشوں کے نشان اتنے گہرے تھے کہ خون مسلسل بہہ رہا تھا-
مالا نے ہاتھ مار کر تھال دور پھینک دیا-سب کچھ فرش پر بکھر گیا-پیتل کے تھال کے گرنے سے ایک زوردار آواز پیدا ہوئی-
”میں یہ ہرگز نہیں کھاؤں گی”-وہ ایسے بیہیو کر رہی تھی جیسے وہ اُس کا غلام ہو-
مالا کی بات پر وہ اُسے گھورتے ہوئے بولا-
“اب تمہیں یہ بھی نہیں ملے گا۔۔۔تم اس کے بھی لائق نہیں ہو”- وہ کہتے ہوئے زمین پہ پڑا کھانا جو اب گندا ہو چکا تھا اُسے ہاتھوں سے تھال میں رکھنے لگا-
اپنا کام کرنے کے بعد وہ آگے بڑھا اور واپس اُس کے ہاتھوں کو رسیوں میں جھکڑنے لگا-
“کک کیا کر رہے ہو تم۔۔۔؟”-وہ اُسے اپنے سامنے جھک کر اپنے ہاتھ باندھتا دیکھ کر ہکلاتے ہوئے بولی-
وہ اُس کے بہت قریب تھا-مالا نے ایک نظر اُس کے نقوش کا جائزہ لیا-شکل سے وہ کسی یونانی دیوتا کی طرح لگتا تھا-گھنیری پلکوں کے نیچے اُس کی آنکھوں کا اصل رنگ ناجانے کونسا تھا کیونکہ مالا نے اکثر اُس کی آنکھوں کو رنگ بدلتے دیکھا تھا-اُس کا رنگ بہت زیادہ سفید بھی نہیں تھا اور نہ ہی گندمی تھا-اُس کی ناک بہت تیکھی تھی-
وہ دیکھنے میں بہت پیارا تھا مگر مالا کی آنکھوں میں تو اُس کا صرف وہی روپ بس گیا تھا جب اُس نے اُسے انسان سے جانور بنے دیکھا تھا- اُس وقت اُس کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا اور سامنے کے دو دانت لمبے ہو کر باہر کو نکل گیے تھے اور اُس حالت میں وہ بہت خوفناک لگتا تھا-اُس کے ناخن بھی بہت لمبے اور نوکیلے ہو جاتے تھے-
“اب تم کل صبح تک بھوکی ہی رہو گی۔۔۔”-وہ اپنا کام کر کے اُس سے دور ہوا-
اُس نے تھال اُٹھا کر گھڑے کے پاس رکھ دیا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا-مالا ہقا بقا اُسے جاتا دیکھتی رہی-
پوری رات مسلسل جاگنے اور کرسی پر بیٹھے رہنے اور بھوکے ہونے کی وجہ سے اُسے بخار ہو گیا-اُس کی آنکھوں کے سامنے بار بار اندھیرا چھا رہا تھا-وہ اُسے وہاں چھوڑ کر خود نجانے کہاں چلا گیا تھا-مالا کی حالت از حد خراب ہو رہی تھی-اُسے یوں لگا جیسے وہ موت کے بہت قریب ہو-جسم میں سے لمحہ لمحہ جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی-کمزوری کے باعث اُس کو ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے-اوپر سے میاں جی کے بارے میں سوچ سوچ کر اُس کو مزید پریشانی ہو رہی تھی-اُسے وہاں بندھے کم سے کم بھی دو راتیں اور ایک دن ہو چکا تھا اور تب سے لے کر اب تک اُس نے نہ پانی کی ایک بوند پی تھی اور نہ ہی ہلق میں کھانے کا ایک نوالہ گیا تھا- بے بسی سے اُس کو رونا آ گیا-زندگی میں کبھی ایسی نوبت پہلے نہیں آئی تھی-میاں جی نے اُسے شہزادیوں کی طرح پالا تھا- اُس کی ہر خواہش وہ اُس کے منہ سے نکلنے سے پہلے ہی پوری کر دیتے تھے اور آج وہ پانی کی بوند بوند کو ترس رہی تھی-
تبھی کسی نے دروازہ کھولا تھا اور کوئی اندر آیا تھا- آنکھوں میں نمی اور چکراتے سر کے ساتھ اُس نے آخری چہرہ اُس کا دیکھا تھا- اُسے بیہوش ہوتے دیکھ کر وہ بجلی کی سی تیزی سے اُس تک پہنچا تھا مگر اُس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ ہواس کھو چکی تھی-
دوبارہ جب اُسے ہوش آیا تو وہ ایک نرم گرم بستر پر لیٹی ہوئی تھی-اُس کے اوپر ہلکے گلابی رنگ کا ملائم سا کمبل تھا-اُس نے اپنے چکراتے اور بھاری سر کے ساتھ اُٹھنے کی کوشش کی مگر کمزوری اتنی ذیادہ تھی کہ وہ بمشکل آنکھیں کھول پا رہی تھی-
ہمت کر کہ سر اُٹھا کر آس پاس دیکھا تو حیران رہ گئی-اُس نے اپنی پوری زندگی میں اتنا شاندار کمرہ نہیں دیکھا تھا-کمرے میں ملگجا سا اندھیرا چھایا ہوا تھا-کھڑکیوں پر بھاری بڑے بڑے پردے لٹک رہے تھے اور اندھیرے کے باعث وہ اُن کا رنگ نہیں پہچان پائی تھی-
اُس نے دیکھا بیڈ کے پاس ہی ٹیبل پر بہت سارے فروٹس اور دودھ کا گلاس رکھا ہوا تھا-فروٹس دیکھ کر اُسے احساس ہوا کہ اُسے کچھ کھانے کی شدید ضرورت تھی ورنہ اگلے کچھ گھنٹوں میں شاید نہیں یقیناً اُس کی موت واقع ہو جانی تھی-
اُس نے بمشکل اپنا ہاتھ ٹیبل تک پہنچایا اور دودھ کا گاس اُٹھا لیا-گلاس اُس کے ہاتھوں میں کانپ رہا تھا- اُس نے گلاس کو لبوں سے لگایا اور گھونٹ گھونٹ وہ جامِ حیات پینے لگی کیونکہ اُس وقت وہ دودھ جامِ حیات سے کم نہیں تھا-
دودھ کا گلاس اندر گیا تو جیسے جسم میں ہر چیز حرکت میں آ گئی-اُس کے ہواس بھی کچھ ٹھکانے آنے لگے-دودھ سے اتنی انرجی آ گئی تھی کہ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی-اُس نے ایک سرخ رنگ کا فروٹ اٹھایا- وہ فروٹ اُس نے پہلے نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی کھایا تھا- اُس نے ایک بائٹ لیا تو ذائقہ اچھا لگا-وہ ٹرے میں پڑے سارے فروٹ کھا گئی-
کھانے کے بعد جب اُسے احساس ہوا کہ وہ کہاں ہے تو ایک دم پریشانی بڑھی-اس سے پہلے کہ وہ بیڈ سے اُترتی وہ دروازہ کھول کر اندر آیا-مالا نے اُسے لائٹ جلاتے دیکھا-لائٹ جلاتے ہی پورا کمرہ روشن ہو گیا-
وہ چلتا ہوا بیڈ کے قریب آیا-مالا سانس روکے اُسے دیکھ رہی تھی-
اُس نے ایک نظر خالی ٹرے کو دیکھا اور دوسری نظر مالا کو دیکھا-
“اور کوئی چیز چاہیے تو بتا دو۔۔۔”- وہ ہمیشہ کی طرح سنجیدہ لہجے میں بولا-
مالا نے اُس کی بات نہیں سنی تھی کیونکہ وہ ٹرے میں پڑی چھری کو اب مسلسل دیکھ رہی تھی-
وہ اُس کے بہت نزدیک ہی بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا-بس ہاتھ بڑھا کر چھری پکڑنے ،اُسے مارنے کی دیر تھی اور پھر سب ٹھیک ہو جانا تھا-وہ اُس کی طرف متوجہ نہیں تھا کیونکہ اُس کا دیہان دوسری طرف تھا ورنہ وہ اُس کا ارادہ ضرور سمجھ جاتا اور مالا نے اِسی بات کا فائدہ اٹھایا تھا اور چھری پکڑ کہ بنا کچھ سوچے اُس کی کمر میں اتنی زور سے ماری کہ وہ اُس کے جسم کو چیرتی ہوئی اندر گھس گئی-وہ درد کے مارے چلا اٹھا تھا-
اُس کی کمر سے خون کا فوارہ نکلنا شروع ہو گیا تھا- اُس نے اپنے ہاتھ اپنی کمر میں پیوست چھری پر رکھے اور ایک نظر مالا کو دیکھا جو آنکھیں پھاڑے حیرت سے اپنی بہادری کا یہ کارنامہ دیکھ رہی تھی-وہ ہلکے ہلکے کانپ رہی تھی-ڈر تھا کہ نجانے اب وہ اُس کے ساتھ کیا کرے گا-مگر اُس نے منہ سے بنا کچھ کہے اپنی کمر میں پیوست چھری کو ایک ہی جھٹکے سے باہر نکالا-
“کیوں کیا تم نے ایسا۔۔۔۔؟”- وہ زخمی نگاہوں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا- اُس وقت اُس کی آنکھوں میں اتنا درد تھا کہ مالا اندر تک دہل گئی-اُسے اپنے زخم سے ذیادہ اس بات پر درد ہو رہا تھا کہ مالا نے یہ کیا تھا-
کاش وہ اُس لڑکی کو بتا سکتا کہ وہ اُس کے لیے کتنی اہم تھی-وہ اُس سے کتنی شدید محبت کرتا تھا-اُس نے ایک بار اُسے دکھ پہنچایا تھا مگر اب وہ اُسی دکھ اور تکلیف کا مداوا کرنا چاہتا تھا مگر وہ تو اُسے اپنا دشمن سمجھتی تھی اور اُسے تکلیف دینے کا ایک بھی موقع نہیں چھوڑتی تھی-
مالا کی زبان تالو سے چپک گئی تھی-وہ کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہی تھی-حالانکہ اُسے خوش ہونا چاہیے تھا کہ اُس نے اپنا بدلہ لے لیا تھا مگر حیرت انگیز طور پر اُسے تکلیف ہو رہی تھی-اُسے درد میں دیکھ کر ناجانے کیوں اُسے خود بھی درد ہو رہا تھا-
وہ اُٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا-جبکہ وہ وہیں بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی-اُس کا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا اور کچھ ہی لمحوں بعد وہ اس صدمے سے ایک بار پھر اپنے ہواس کھو چکی تھی-
شام کو جب اُس کی دوبارہ آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا-کمرہ بلکل سنسان پڑا ہوا تھا-وہ بیڈ سے نیچے اُتری اور دروازہ کھول کر باہر آ گئی-باہر ہلکا ہلکا اندھیرا چھا رہا تھا- اردگرد کا سارا علاقہ جنگل کا تھا-
اُس کے پاس بھاگنے کا موقع تھا مگر اُسے سجھ نہ آیا کہ وہ کہاں اور کس طرف جائے-
اچانک اُسے اپنے پیچھے کسی کے غرانے کی آواز سنائی دی-اُس نے ڈرتے ڈرتے دیکھا تو ہوش ہواس سب اُڑ گیے-اُس سے بمشکل پندرہ فٹ کی دوری پر ایک بڑا سا شیر منہ کھولے کھڑا اُسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا- مالا کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی-موت اُس کے سامنے تھی-اگر وہ اُس جانور کے ہاتھوں زندہ بچ گئی تھی تو اب اس جانور کا نوالہ بننے والی تھی-اُس کے اندر بھاگنے کی بھی ہمت نہیں تھی کیونکہ بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا- وہ شیر ایک ہی جست میں چھلانگ لگا کر اُس تک پہنچ سکتا تھا-شیر ایک بار پھر غرایا تھا-
وہ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ دو قدم پیچھے ہوئی تو کسی سے ٹکرا گئی-اُس نے فوراً پیچھے دیکھا-وہ اُس کے بہت قریب کھڑا تھا-مالا کے دل کی دھڑکن زوروں پر تھی-حیرت انگیز طور پر شیر اُسے دیکھتے ہی خاموشی سے واپس چلا گیا-
وہ سکھ کا سانس لیتی کچھ فاصلے پر ہوئی-
“تم باہر کیوں آئی۔۔۔؟یہ جگہ تمہارے لیے سیف نہیں ہے”- اُس نے نرمی سے کہا تو وہ اُسے دیکھے گئی-
“تم مجھے واپس جانے دو پلیز۔۔۔۔”- وہ ایک بار پھر اُس کے سامنے التجا کر رہی تھی-
جانے کی بات پر اُس کی آنکھوں میں ایک درد ابھرا تھا اور وہ کچھ دیر بعد بولا تھا-
“کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا اور ہمیشہ بہت خوش رکھوں گا۔۔۔”-
اُس کے لہجے میں تڑپ تھی-مالا کی روح تک لرز گئی-مطلب وہ ایک ایسے انسان کے ساتھ رہے گی جس سے اُسے ہر وقت خطرہ ہو گا-جو کبھی بھی انسان سے وحشی درندہ بن کر اُس کا خون پی سکتا تھا بلکہ ہو سکتا کبھی اُس کی جان ہی لے لے-یہ سوچ ہی لرزا دینے والی تھی-اُس نے زور سے نفی میں سر ہلایا-
“ہرگز نہیں میں تو تمہیں ایک سیکنڈ بھی برداشت نہیں کر سکتی اور تم ساری زندگی کی بات کر رہے ہو-دیکھو پلیز مجھے معاف کر دو اور مجھے یہاں سے جانے دو کیونکہ تم مجھے بہت تکلیف دے چکے ہو اور اب مجھ میں مزید کچھ بھی سہنے کی ہمت نہیں ہے”-اُس کے انکار پر وہ چپ ہو گیا-
اُس وقت اُس کے پاس اختیار تھا کہ وہ زبردستی اُسے اپنے ساتھ رکھ لیتا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا-
“چلو میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں”- وہ کچھ دیر بعد بولا تو مالا کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا-
“کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ “- وہ بے یقینی سے پوچھ رہی تھی-جواباً اُس کا سر اثبات میں ہل گیا-
پھر وہ اُسے اُس گاؤں کے باہر چھوڑ گیا جہاں میاں جی بے چینی سے اُس کی راہ تک رہے تھے-جاتے ہوئے مالا کو محسوس ہوا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن وہ بنا کچھ بولے ہی ہمیشہ کے لیے چلا گیا-مالا نے ایک اداس سی نگاہ اُس راستے پر ڈالی جہاں سے وہ گیا تھا اور گھر کی طرف چل دی-جہاں اُس کی منزل تھی-جہاں اُس کے اپنے تھے-
آج اِس بات کو چار سال گزر گیے ہیں-مالا اب شادی شدہ ہے اور اپنی زندگی میں بہت خوش ہے مگر آج بھی اُس کے دل کے ایک کونے میں وہ ویمپائر رہتا ہے-اُس کی کتنی عجیب و غریب محبت ہے-اُسے اکثر خواب میں اس کی آنکھیں نظر آتی ہیں-کتنی عجیب بات ہے نہ کہ وہ ایک ایسے انسان سے بے پناہ محبت کرتی ہے جس کا اُسے نام تک نہیں پتہ-اکثر اُس کا دل کرتا ہے کہ وہ ایک بار پھر افریقہ کے اُن جنگلوں میں جائے اور ہمیشہ کے لیے اُس کے ساتھ وہیں رہ جائے-اُسے ہمیشہ ایک گلٹ رہتا ہے کہ کاش وہ اُس وقت اُس کی بات مان لیتی-ایسے کئی کاش اُسے اکثر بے چین رکھتے ہیں-
زندگی میں کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے انجام ہماری مرضی سے ہوتے ہیں مگر پھر بھی وہ انجام اکثر ہمیں خوشی کی بجائے ہمیشہ کے لیے ایک درد دے جاتے ہیں جو ہم نہ کسی کو بتا سکتے ہیں اور نہ ہی کم کر سکتے ہیں-بس اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں-شاید زندگی اسی کا نام ہے اور اِس کی اکثر کہانیوں کا درد ہی انجام ہے-
ختم شد
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...