(Last Updated On: )
ابّودادا نے ازاربند باندھ کر لُنگی کو کھوٹی پر لٹکایا ہی تھا کہ موبائیل نے رنگیلارے ۔۔۔کا راگ الاپنا شروع کیا ۔ اُس نے فوراً موبائیل اٹھایا اور ہیلو کہتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا ۔
’’ کیا ابّو بھائی آج کل فارِن کی پوٹیوں کو گھی کھلا رہے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ہو میاں ۔۔۔تم کو تو مالوم ہے ، اپنا ہے سو دودھ گھی کا دھندہ ہے ۔ گاہک آیا تو کھلانا ہی پڑتا ۔۔۔کیا ۔۔۔؟ ‘‘
موبائیل پر قہقہے کی آواز گونجی ، ’’ مگر کچھ بھی بو لو ابّو بھائی لونڈیا ہے پِستہ ہاؤس کی حلیم ۔۔۔ بس چاٹتے رہو ۔۔۔! ‘‘
’’ ارے کیا بکواس لگائے میاں ۔۔۔! ‘‘اِبّودادا نے مصنوعی غصّے سے کہا ، ’’تم کو تو مالوم ہے نا میں ہے سو جمعہ کے دِن کوئی بُرا کام نہیں کرتا ، ارے نما ز نہیں پڑھتا تو کیا ہوا ۔۔۔ہوں تو کلمہ گو ۔۔۔! چلو فون بند کرو ، میرے کو آج کچھ اچھّے کاماں کرنے دیو بولا ۔ ۔۔! ‘‘
موبائیل کونہرو شرٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے اِبّو دادا نے جونہی دروازے سے باہر دیکھا ، بھاسکر پان کی ٹپری پر کھڑا ہوا تھا ۔ دوسرے ہی لمحے وہ تیر کی طرح نکلا اور اُس کی گردن دبوچ کر اپنی بیٹھک میں لے آیا ۔ اور پھر زور سے جھٹکادے کر دھاڑا ، کیوں رے میرے کو کیا گلا ہوا سیتاپھل سمجھا تھا تو ۔۔۔ ہو۔۔؟‘‘
’’نہ نہ نہ ۔۔۔نہیں بھائی ۔۔۔! ‘‘بھاسکر نے ہاتھ جوڑے اور اُس کے قدموں میں گر گیا ۔ وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا ۔ اِبّو دادا کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھنے لگا ۔ بھاسکر کے دانتوں کے پیچھے زبان کُلبلا رہی تھی لیکن وہ سارے ہی الفاظ بھول گیا تھا ۔
’’ تیرے کو مالوم ہے ۔۔۔؟ میں ایسا ہی دادا نہیں بنا ۔۔۔ بستی میں پوچھ لے ۔۔۔ جو میرے کو غُچہ دینے کی کوشش کرتا اُس کے دانتاں بھی اُس کے ہاتھ نہیں گِنتے ۔۔۔ کیا ۔۔۔؟دوسرے لوگاں اُٹھاکر اس کی جیب میں ڈالتے ۔۔۔ سمجھا ۔۔۔؟ اور تو میرے کو چٹّی دینے کی سوچ را ۔۔۔ ہورے ۔۔۔؟ دادا کا ہاتھ پوری طاقت کے ساتھ ہوا میں لہرایا اور پھر بھاسکر کی کھوپڑی پر اُترنے کے بجائے کرسی کے ہتھے پر گِرا ، ’’اللہ قسم ۔۔۔میں جمعہ کو کوئی بُرا کام نہیں کرتا ۔۔۔بچ گیا تو سالے ۔۔۔چل نکال سود سمیت میرے سارے روپیے ۔۔۔؟ ‘‘
خوف ایک بار پھر بھاسکر کی زبان پر گھگھیایا،’’بھائی۔۔میری عورت۔۔!‘‘
’’تیری عورت ۔۔۔؟ ‘‘ اِبّو دادا کی آنکھوں میں شانتی کا گدرایا ہوا بھر پور جسم اُبھرا اور شہوت کسی رس گُلّے کی مانند اس کے حلق کو میٹھا کر گئی ۔ اس کے بدن میں ایک عجیب سی مسرت دوڑنے لگی ۔ اس دوران بھاسکر نے کیا کچھ کہا وہ اُس نے سُنا ہی نہیں ۔ وہ بس اُسے گھورے جا رہا تھا ۔ کچھ لمحوں کے بعد وہ ایکدم چونکا ، ’’ کیا بول رہا تھا رے تو ۔۔۔ تیری عورت کو ۔۔۔ ! ‘‘
’’ بھائی وہ مچان پر سے گِر گئی ۔ اُس کے ہاتھ کی ہڈّی ٹوٹ گئی ۔۔۔ بولکے۔۔۔!‘‘
’’بول کے میرے کو بھانپ دے رہا کیا ۔۔۔؟‘‘وہ کرسی پر سے اُٹھ گیا اور ٹہلنے لگا،’’دیکھ بھاسکر کئی مہینوں سے بہت بہانے بنالیا تو نے ۔۔۔ اب نہیں چلے گا۔۔۔ ابھی سیدھے سیدھے میرے روپیے نکال ، نہیں تو کھوپڑی کا گودا نکال کے رکھ دیتوں میں ۔۔۔ کیا ۔۔۔؟ ‘‘
بھاسکر نے محسوس کرلیا تھا کہ دادا کی ڈپٹ میں اب وہ پہلے جیسا جلال نہیں ہے ۔ اُس کی آواز کی شدّت بھی قدرے کم ہوگئی تھی ۔ اُس نے فوراً جیب میں سے سو کا نوٹ نکالا اور اِبّو کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ، ’’ یہ ایک مہینے کا بیاج ہے بھائی ۔۔۔ اگلے مہینے ۔۔۔! ‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے ۔۔۔! ‘‘ ابّو دادا نے نوٹ کو جیب میں رکھتے ہوئے کہنا شروع کیا ، ’’ آج جمعہ کا دن ہے ۔۔ اللہ کا بڑا دن ، سوب کو مالوم ہے میں آج کوئی بُرا کام نہیںکرتا،ارے نماز نہیں پڑھتا تو کیا ہوا رے ۔۔مگر ہوں تو کلمہ گو ۔۔۔کیا ۔۔ چل اُٹھ ۔۔ اِدھر سے انٹی پو ہو اور بیوی کا علاج کر ۔! ‘‘
اُس کے ذہن میں پھر ایک بار شانتی کا بدن گھوم گیا،سانولی رنگت،سیاہ گھنے گھنگھریالے بال،اُبھرا ہوا سینہ اور ٹھسا ہوا گوشت ۔۔۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا ۔ اُس نے آنکھیں بند کر لیں اور چپکے سے پانی کو حلق کے نیچے اُتار لیا ۔
بارکس سے مغرب کی جانب جانے والی سڑک کے آخری حصّے پر پھیلی ہوئی بستی ابودادا کی سلطنت تھی ۔ اُس کے پاس بھینسوں کا ایک بڑا طبیلہ تھا ۔ جس میں پچیس تیس بھینسیں ہمیشہ بندھی رہتی تھیں ۔ اُن کے گوبر اور پیشاب کی بدبو سے صرف طبیلہ ہی نہیں بلکہ ساری بستی متاثر تھی لیکن کسی میں ہمت نہ تھی جو اُس گندگی کے خلاف آواز اُٹھاتا ۔ طبیلے کے اِدھر اُدھر غریب پس ماندہ طبقات کی جھونپڑیاں تھیں ۔ وہ اُن کا مائی باپ تھا ۔ کوئی شادی بیاہ اُس کی مرضی کے خلاف نہیں ہوسکتی تھی ۔ اُسے سب معلوم تھا کہ کِس جھونپڑے کی کونسی لڑکی سِنِ بلوغ کو پہنچ رہی ہے ۔ وہ ان کی فرمایشیں بھی پوری کرتا ۔ اُن کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا ۔ اُن کے جھگڑے ٹنٹے بھی مٹاتا ۔ وقتاً فوقتاً ان کی پٹائی بھی کرتا رہتا ۔ اِس کے ساتھ ہی ساتھ وہ ان کی چھوٹی موٹی ضروریات کی تکمیل بھی کر دیتا ۔ سڑک کی دوسری طرف کچھ سمنٹ کانکریٹ کی عمارتیں تھیں اور کھپریل کے چھتوں سے آراستہ مکانات کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا تھا ۔ جن میں کچھ مزدور پیشہ افراد ، کچھ کلرک اور اساتذہ برادری آباد تھی ۔ اُس کے علاوہ اُسی حصّے میں کنگال نواب کی بوسیدہ دیوڑھی بھی تھی جس کے مہمان خانے کے حصّے کو بوڑھے نواب نے ہوسٹل میں تبدیل کردیا تھا ۔ اُس میں اسٹوڈنٹس کرائے سے رہتے تھے ۔ اُن ہی میں ایک کمرے میں ماریا برونٹ بھی رہتی تھی جو دکنی سلاطین کی ادبی خدمات پر ریسرچ کرنے انگلستان سے یہاں آئی تھی ۔ اِبّو دادا کا نہ صرف دودھ کا کاروبار تھا بلکہ وہ بیاض بٹّے کا دھندہ بھی کرتا تھا ۔ اسی وجہ سے ساری بستی کسی نہ کسی طور اُس سے جُڑی ہوئی تھی ۔
ایسے ہی ایک دن دوپہر کے وقت جب طبیلے میں بھینسیں جگالی کر رہی تھیں اور ان کے خادم اونگھ رہے تھے اور ابو دادا کرسی پر بیٹھا جمائیاں لے رہا تھا ۔ماریا برونٹ نے دروازے پر آہستہ سے دستک دی اور وہ اپنی کرسی سے ایسے اُچھلا تھا گویا کسی نے اس کے حق میں لاٹری کا نتیجہ سنا دیا ہو ، ’’آپ ۔۔بی بی ۔۔بولے تو میڈم ۔۔۔!‘‘ وہ بُری طرح ہکلایا اور اس کی نظریں سفید ٹاپ کے چوڑے گلے کے اندر جھانکنے لگیں ۔
’’ ام ماریا برونٹ ۔۔۔! ‘‘ وہ اپنا تعارف کروانے لگی ، ’’ اُدھر نواب کے ہوسٹل میں رہتا ہے ۔!‘‘ پھر وہ مسکرائی ، ’’ سنا ہے تم انٹریسٹ پر روپیہ دیتا ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ دیتا ہے ۔۔۔آپ اندر آؤنا ۔۔۔! ‘‘ دادا کی بانچھیں کھِل اُٹھیں ۔ وہ اندر آگئی اور ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی ، ’’ ام کو دے گا ۔۔۔؟ ‘‘
’’آپ کو۔۔؟آپ کے لیے توہم اپنی جان بھی دے دے گا۔‘‘لیکن یہ الفاظ اُس کی زبان سے نکلے ہی نہیں،’’دے گا۔ضروردے گامیڈم ماریا بروکٹ۔!‘‘
’’بروکٹ نہیں ۔۔۔ برونٹ ۔۔۔ ماریا برونٹ ۔۔۔! ‘‘
’’وہی وہی وہی ۔۔۔! ‘‘ ابو دادا اپنی خوشی پر قابو پاتے ہوئے بولا ۔
’’امارا ڈیڈی لندن میں بیمار ہوگیا ۔ وہ ام کو روپیہ نہیں بھیجا ۔ وہ بھیجے گا تو ام واپس کردے گا ۔۔! ‘‘
دادا کی ہوس بھری نظریں اس کے منی اسکرٹ سے نکلی ہوئی خوبصورت ٹانگوں پر جمی ہوئی تھیں ۔
’’خوبصورت ۔۔۔ بہت ہی خوبصورت ۔۔۔! ‘‘ وہ بڑبڑایا ۔
’’واٹ ۔۔۔؟ ‘‘ ماریا نے پہلو بدلا ۔ اُس کے چہرے کے تاثرات بگڑنے لگے ، لیکن غرض نفرت پر غالب آگئی ۔ اُس نے بہت جلد اپنے آپ پر قابو پا لیا ، ’’ ام کو پانچ ہزار روپیہ منگتا ۔۔۔! ‘‘
’’دے گا ۔۔۔ دے گا ۔۔۔! ‘‘ ہوس بھری مسکراہٹ اُس کے چہرے پر نمودار ہوئی اور پھر اپنی حرکت پر بنا شرمندہ ہوئے اُس نے بھی اپنا تعارف کروایا ، ’’ میڈم جمعہ کو ہم کوئی بُرا کام نہیں کرتا ۔۔۔مسلمان ۔۔۔ کلمہ گو ۔۔۔! ‘‘
’’اوہ۔۔ریلّی یو آر گریٹ ۔۔۔!‘‘(OH REALLY YOU ARE GREAT) وہ پھر ایک بار دادا کو دیکھ کر مسکرائی ۔ ابو نے پانچ ہزار نوٹوں کا بنڈل اُس کے حوالے کیا اور پھر بولا، ’’ ہم تم کو بتا دیتا میڈم ۔۔۔ہمارا روپیہ واپس کر دینا ۔ ہم وصولی کے معاملے میں بہت بُرا آدمی ہے ۔۔۔ ! ‘‘
’’اوکے ۔۔۔ اوکے ۔۔۔ہم تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہے ۔۔۔ تھینک یو ۔۔۔! ‘‘ وہ ابو دادا کی طرف دیکھ کر پھر ایک بار مسکرائی اور ایک خاص ادا سے ہاتھ ہلاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی ۔
’’سالی سر سے پیر تک اصلی ملائی ہے ۔۔۔‘‘ وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا ۔ اُس کی آنکھوں میں ماریا برونٹ کی مسکراہٹ ساکِت ہوگئی ۔ اور دماغ میں بار بار فلیش ہونے لگی اور اس کے حلق میں پھر رس گلّا پھوٹا اور پورا بدن نہال ہوگیا ۔ خوشی اس سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی ۔ وہ اپنے اس کارنامے کو دوستوں میں بیان کرنے کے لیے بے چین ہوگیا ۔ اور موبائیل پر کالس کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
عورتوں سے جنسی تعلقات کے جھوٹے سچّے واقعات ، غنڈہ گردی ، شراب اور پارٹیاں ابو دادا اور اُس کے ساتھیوں کی زندگی کا یہی ماحاصل تھا ۔ پارٹی اپنے شباب پر تھی۔ شراب کے گلاس کو رکھتے ہوئے ابو دادا نے اپنے دوستوں پر خمار آلود نگاہ ڈالی،’’اللہ قسم باپ۔۔۔لڑکی کیا تھی پِلا ریڈی کے دکان کی برفی ۔۔۔! ‘‘
سب نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا ۔
’’میں اگر جھوٹ بولا تو میرے منہ میں ہے سو خاک ۔۔۔! ‘‘ابو نے مرغ کی ٹانگ کو دانتوں سے نوچتے ہوئے کہنا شروع کیا ، ’’اب ہے سو کیا بولوں ۔۔۔ میں ایک دم اکیلا ۔۔۔ اُن نے منی اسکرٹ میں ۔۔ اُس کی ننگی ٹانگیں ۔۔۔ باپ میری طبیعت ایسی مچلی کہ بس ۔۔۔!‘‘اس نے جلدی جلدی مرغ کی ٹانگ کو چبانا شروع کیا،’’اورمالوم۔۔۔چوڑے ٹاپ میں سے جھانکتے ہوئے دو سفید براق کبوتر ۔۔۔ ہائے ہائے ۔۔میں تو تڑپ کر رہ گیا ۔۔کیا۔۔؟بس باپ قسمت اچّھی نہیں تھی ۔۔۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔۔۔اورتم کوتومالوم ہے میں ہے سو اُس دن کوئی بُرا کام نہیں کرتا ۔۔۔ ارے نہیں تو کیا وہ کبوتر ابو دادا کی بیٹھک سے اُڑتے ۔۔۔؟ ‘‘
’’کیا ابو بھائی اُڑے ہوئے کبوتروں کی کہانی سنا رہے۔۔۔؟‘‘اجمل نے شراب سے بھرے ہوئے گلاس کو ایک ہی سانس میں خالی کردیا ۔
’’بابو۔۔۔تم کیا سمجھ رہیں اِبو کو۔۔۔؟دانے ڈال دیا نا ۔۔۔ تم بس ٹوکری کے ڈوری کے کھینچنے کا انتظار کرو ۔۔۔! ‘‘اس نے فاتحانہ نظروں سے سب کی طرف دیکھا،’’ارے بچپن سے یہی کھیل کھیل رؤں نا میں ۔۔۔! ‘‘
’’فارن کی عورتاںتو کتے ویسے بھی بہت آزاد خیال رہتی نا ابو بھائی ۔۔۔؟ ‘‘ سبحانی نے ڈکار لے کر اپنی پلیٹ کو سرکادیا ۔
’’ ارے تم پوری پلیٹ صاف نہیں کرے سبحانی ۔۔۔؟ ‘‘ بلی نے بچی ہوئی بریانی کو اپنی پلیٹ میں اُتار لیا ۔ ، ’’ اِبو بھائی چُڑی کے جیسا کھانے والا ان نے فارن کی عورتوں کی آزاد خیالی سے کیا فایدہ اُٹھائیں گا ۔۔۔ ہو ۔۔۔ ؟ ‘‘
سب کے منہ سے ایک ساتھ قہقہہ بلند ہوا ۔
’’میاںدسترپرکھانااوربسترپر عورت کو زخمی حالت میں نہیں چھوڑتے ۔۔! ‘‘ اجمل نے شراب کا گلاس ابو کی طرف بڑھایا ، ’’ میرے قصّے نہیں سُنے کیا ۔۔۔؟ ‘‘
’’بس چُپ رہو اجمل ۔۔۔! ‘‘ سبحانی کی آنکھیں باہر نکل آئیں ، ’’ میرا منہ نکّو کُھلاؤ بولا ۔۔۔! ‘‘
اجمل کی بھی تیوریاں چڑھ گئیں اور اس سے پہلے کہ مذاق جھگڑے میں تبدیل ہوجاتا بلی نے دادا کو مخاطب کرلیا ، ’’ اِبو بھائی وہ تمہاری والی بہت خوبصورت ہے کیا ۔۔۔؟ ‘‘
’’ارے ہو رے ۔۔۔فاری نر ہے نا اُن نے ۔۔۔! ‘‘
’’واہ اللہ میاں واہ ۔۔۔ ساری خوبصورتی ، رنگ ، قد و قامت ، ناک ، آنکھ ، نقشہ ، بال ، مسکراہٹ سوب کچھ اُن کے حوالے کردیے اور ہماری قسمت میں کیا رکھے بولے تو وہی قلی قطب شاہ والی بات ۔۔۔ سانولی ، کنولی ۔۔۔ مزے تو بس ابو بھائی کے ہیں ۔۔۔ کیوں ابو بھائی ۔۔۔؟ ‘‘
اوراِبو کی آنکھیں جیسے آپ ہی آپ بند ہوگیں اور ماریا برونٹ پورے قد کے ساتھ اُس کی آنکھوں میں اُتر آئی اور وہ تصّورات کی وادیوں میں بہت دور نکل گیا۔
دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہورہے تھے ۔ ابو دادا کا کاروبار زوروں پر جاری و ساری تھا ۔ لیکن اس کے دماغ سے ماریا برونٹ کی وہ تصویر دھندلی نہیں ہوئی تھی ۔ پہلے تو وہ چوری چھپے دور سے کنگال نواب کی دیوڑھی کے اُس حصّے کو گھورتا رہتا جہاں سے ماریا اُسے دکھائی دے اور جب وہ نظر نہ آتی تو اُس کا غصّہ بھڑک اُٹھتا اور خواہ مخواہ دوسرے لوگ پِٹ جاتے ۔ عورتیں تو اب اُس کے نام سے ہی گھبرانے لگتیں لیکن ماریا برونٹ نے دوبارہ اُس کی بیٹھک میں قدم نہیں رکھا تھا اور ناہی روپیہ واپس کیا تھا ۔ ایک دن وہ بے خود ہوکر دیوڑھی تک جا پہنچا تھا اور ماریا اُس پر برس پڑی تھی ، ’’ مین MAN تم اِدھر کاہے کو آیا ۔ ام بولا نا پیسہ آئے گا تو تمہارا ایک ایک پائی ام واپس کردے گا بٹ تمہارا اِدھر آنا ام کو پسند نہیں ۔۔۔ گو مین گو ۔۔۔ام کو بدنامی نہیں مانگتا ۔۔۔ ابھی تم اِدھر بالکل نہیں آنے کو مانگتا ۔۔۔ ! ‘‘
اور وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے وہاں سے اس طرح نکلا جیسے اُس کو دیکھ کر اُس کے مقروض چھُپتے چھپاتے بھاگ نکلتے ہیں ۔ وہ گھر آیا اُسے عجیب سی بے چینی ہونے لگی ۔ سامنے سُرمے دانی رکھی ہوئی تھی ۔ بے اختیار اُس کے ہاتھ اُس طرف بڑھے اور وہ سُرمے کی کاڑی کو آنکھوں میں پھیرنے لگا ۔ ٹھیک اُسی وقت اُس کا گُرگا رمضانی داخل ہوا اور اُسے نیچے سے اوپر تک دیکھتے ہوئے بولا ، ’’ کیا جمعہ کی تیاری ہے باپ ۔۔۔آج تو بھائی آپ گھر سے باہر نکلوچ نکّو ۔۔۔ سارے پیسے ڈوب جائیں گے ۔۔۔!‘‘
اِبو ایک دم بھڑک اُٹھا ، ’’چُپ رے سالے ۔۔۔ میں ہے سو پہلے ہی ایسے سمندر میں جال ڈال کو بیٹھا ہوں ، نہ مچھلی آرہی نہ جال باہر نکل رہا ، اور اوپر سے تو ڈوبونے کی باتاں کر رہا ۔۔چل حساب دے ۔ کتنی وصولی کرا تو ۔۔۔؟وہ نکال ۔۔!‘‘
رمضانی گھبرا گیا اور نوٹوں کی گڈّی اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے طوطے کی طرح سبق پڑھنے لگا ، ’’ بھائی راجمّاں سود سمیت پیسے لوٹادی ، کریم ہے سو خالی سود دیا ، تاراماں بولی وہ خود شام کو آئے گی ، وِنے ماسٹر کا وہیچ رونا تھا ، ابھی پگار نہیں ملی ، ریڈی پورے پیسے واپس کر دیا ، پوچمّاں اصل رقم دے دی ، سود شام کو لاتی بولی ، وہ شیخ لعل ہے نا بھائی ، ارے وہیچ جو سپنا ہیر سلون کے پیچھے رہتا ، میرے کو دیکھ کے بھاگنے لگا ، میں چیل کے جیسا اُس پر جھپٹا اور پورا قرضہ وصول کرلیا بھائی ، اور وہ نرسمہا ہے نا ۔۔۔ اُس کے پیسے میں چھین لیا تو اُن نے رو رہا تھا ۔ کاہے کو بولے تو کتے بچّے کے امتحان کی فیس بھرنا تھی ۔۔۔ ارے ہم کو کیا کرنا ہے ۔۔۔ ہے نا بھائی ۔۔۔! ‘‘
’’رمضانی تم ہے سو مسلمان ہے نا ۔۔۔؟ارے اللہ میاں حکم دیا نا کہ علم کو عام کرو ، اور تم اُس کو پڑھنے سے روک دیے ۔۔۔؟ ابھی جاؤ اور نرسمہا کو میرے پاس بھیج دو ۔۔۔ میرے کو تمہارا یہ کام ہے سو پسند نہیں آیا ۔۔۔! ‘‘
’’ بہت اچّھا بھائی ۔۔۔آگے سنو ۔۔۔! ‘‘
ابودادا نے اُس کی طرف دیکھا تو وہ پھر شروع ہوگیا ، ’’ وہ چندن ہے نا بھائی ۔۔۔ بس دیکھو اُن نے میرے ہاتھ سے نکل گیا ۔ بہت ڈھونڈا اُس کو کہاں چھپ گیا کیا ہے کی ۔۔۔ اور بھائی وہ فارن ماڈل ۔۔۔! ‘‘
’’ تم کو اُس کے پاس جانے کا بولا تھا میں ؟‘‘ابو دادا کی آنکھیں چڑھ گئیں ۔
’’ارے میں کدھر اُدھر گیا ۔ بھائی بس تم کو یاد دلادیا ۔۔۔! ‘‘
ابو خاموش ہوگیا ۔ اس کے دماغ میں پھر فلیش شروع ہوگئے تھے ۔
’’بھائی میں سوب سمجھ رؤں ۔ آپ اُس لونڈیا سے پیسے کیوں نہیں وصول کر رہے ۔۔۔!‘‘رمضانی نے سیدھی آنکھ دبائی اور اس کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ پھیل گئی ۔
’’ ارے نہیں رے ۔۔۔! ‘‘ ابو نے جھینپتے ہوئے جواب دیا ، ’’ ابودادا نے آج تک کسی پر ایک دمڑی بھی نہیں چھوڑا ۔۔۔! ‘‘
’’ہوبھئی ۔۔۔ ! میں شانتی کو بھی ایسے ہی رات کو آپ کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔! ‘‘
’’آں ۔۔۔‘‘ ابو نے چونک کر رمضانی کی طرف دیکھا ، ’’ تم رات کو میرے گھر کے سامنے کیا کررہے تھے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ارے کون کیا کر سکتا ہے ۔۔۔؟ جو میری ہمت ۔۔ بھائی میں پکچر دیکھ کر واپس آرہا تھا ۔۔۔ مگر بھائی وہ فارِن ماڈل کی بات ہی کچھ اور ہے ۔۔‘‘ رمضانی نے کہنے کو تو یہ جملہ کہہ دیا تھا لیکن اُسے ڈر بھی محسوس ہورہا تھا ۔ اُس نے ڈرتے ڈرتے دادا کی طرف دیکھا لیکن دادا وہاں پر کہاں موجود تھا ۔ وہ تو ماریا برونٹ کے ساتھ دور کہیں تصّورات کی وادیوں میں پہنچ چکا تھا ۔
رمضانی کچھ دیر تک چپ چاپ اُسے دیکھتا رہا اور پھر بیٹھک سے باہر نکل گیا ۔
’’ارے اِبّو بھائی ۔۔۔!‘‘اچانک سوامی بیٹھک میں داخل ہوا،’’وہ بھوری بھینس بہت الڈا رہی ہے ۔ مانج پر آگئی ہے لگتا ۔ اُس کا انتظام کرنا ہی پڑ ے گا ۔۔! ‘‘
’’ بھوری بھینس ۔۔۔! ‘‘ ابو دادا نے من ہی من میں دُہرایا ۔ جانور بھی خوب ہوتے ہیں ۔ اپنے کسی جذبے کے لیے اُنھیں کسی پردے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اظہار کے لیے کوئی تکلف نہیں ۔۔۔ ایک بھوری کا میں بھی انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔ مگر ۔۔۔ وہ چپ چاپ اُٹھا اور سوامی کے ساتھ ہولیا ۔ جھونپڑیوں کے باہر زندگی بہہ رہی تھی ۔ کوئی چولھے کے سامنے تھا ، کوئی کپڑے دھو رہا تھا ، کوئی اناج چُن رہا تھا تو کوئی کپڑوں کے پردوں کی آڑ میں نہا رہا تھا ۔ پالتو کُتّے اور بکریاں اِدھر اُدھر منہ مار رہے تھے ۔ مرغ بے وقت اذانیں دے رہے تھے اور ابو دادا کی نظریں کنگال نواب کی دیوڑھی کے اُ سی حصّے پر ٹِکی ہوئی تھیں ۔ بستی کی کنواری لڑکیاں چور نظروں سے کبھی ابو دادا کی طرف اور کبھی طبیلے سے آتی ہوئی بھوری بھینس کی سوز میں ڈوبی ہوئی آوازوں کو سُن رہی تھیں۔
وہ دونوں طبیلے میں پہنچے ۔ کشور جانور لانے چلا گیا تھا ۔ سوامی نے بانسوں کے جنگلے میں بھوری بھینس کو پھنسا دیا تھا ۔ اُس کے ڈکرانے کی آوازیں بدستور جاری تھیں ۔ ابو دادا نے طبیلے کی ٹوٹی دیوار سے گردن اوپر کی تو اُس کی نتھنوں میں ماریا برونٹ کے پرفیوم کی مست کردینے والی خوشبو مہکنے لگی ۔ وہ گردن اونچی کیے اُسی طرف بہت دیر تک اُس خوشبو کو سونگھتا رہا ۔ اُس کے پورے بدن میں ایک ہیجان سا پیدا ہوگیا اور آنکھیں خمار سے بھاری ہونے لگیں ۔ اُس نے پھر ایک بار بھوری بھینس کی طرف دیکھا تو اُسے وہ نظر آیا جو کسی اور کو نظر ہی نہیں آسکتا تھا ۔ وہ وہاں سے چپ چاپ اپنی بیٹھک کی طرف لوٹ آیا اور کرسی پر ڈھیر ہوگیا لیکن پرفیوم کی خوشبو اب بھی اُ س کے نتھنوں میں مہک رہی تھی ۔ اُس نے پھر ایک بار اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اپنی تصوراتی وادیوں کی طرف نکل گیا ۔۔۔ دور ۔۔۔ بہت دور ۔۔۔ بہت دور ۔۔۔
اچانک اُس کے کانوں میں بھوری بھینس کے ڈکرانے کی آوازگونجی اور اُس نے فوراً اپنی آنکھیں کھول دیں ۔ سامنے ماریا برونٹ کھڑی تھی ۔ اُس نے دروازہ بھی بند کر لیا تھا ۔
’’ آپ۔۔۔آپ ۔۔۔! ‘‘ وہ بُری طرح ہکلایا ۔
ماریا برونٹ کے چہرے پر آج کچھ اور ہی تھا ۔
بھوری بھینس پھر ایک بار ڈکرائی ۔
ابودادا کی ٹانگوں میں عجیب سی اکڑن بیدار ہونے لگی ۔
’’ مین (MAN ) ہم جانتا ہے ۔ آج جمعہ کا دن نہیں ہے ۔امارا روپیہ نہیں آیا ، اور اب کبھی آئے گا بھی نہیں ۔۔۔! ‘‘ اُس کی آواز بھراگئی ، ’’ کیونکہ امارا ڈیڈی مر گیا اور ہم کو لندن واپس جانا مانگتا ۔۔۔‘‘
منی اسکرٹ کے باہر اُس کی ننگی خوبصورت ٹانگیں مسلسل پہلو بدل رہی تھیں اور ابو دادا کا خون کسی سیلاب کی مانند بدن کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا ۔
’’ مین۔۔۔ ہم انگریز کمیونٹی کبھی کسی کا احسان نہیں رکھتی ۔ امارے پاس جو کچھ تھا اُس سے ام سب کا پے منٹ ( payment) کردیا ۔ ابھی تمہارا پے منٹ کرنے امارے پاس روپیہ نہیں ہے ۔ ام جانتا ۔۔۔تم روپیہ کے بدلے ام سے کیا چیز لے گا ۔ ام وہ تم کو انٹریسٹ کے ساتھ دینے کو آیا ہے ۔کم آن ۔۔ وصول کرلو ۔۔۔!‘‘
اُس کے ہاتھ تیزی سے ٹاپ کے بٹنوں کی طرف اُٹھے اور وہ اُنھیں ایک ایک کر کے کھولنے لگی ۔ ابو دادا تیزی سے کرسی پر سے اُٹھا ۔ اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔ وہ آہستہ آہستہ اُس کی طرف بڑھنے لگا ۔ ماریا برونٹ نے اپنے ہاتھ پھیلا دیے ۔ ابو اس کے قریب پہنچا پھر اُس کے ہاتھ اُس کے ٹاپ کی طرف بڑھے ۔
بھوری بھینس کا گلا رُندھ گیا تھا ۔
اِبو دادا نے اُس کے کھلے بٹنوں کو ایک ایک کرکے بند کرنا شروع کیا ۔وہ حیرت سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ ابو کے چہرے پراب بھی وہی مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔ پھر اُس نے آہستہ سے کہا ، ’’ ماریا ۔۔۔ ہم بھی مسلمان ہیں ۔۔۔کلمہ گو ۔۔۔ کس چیز کی کیا قیمت ہوتی ہے وہ ہم بھی جانتا ہے ۔۔۔! ‘‘ پھر اُس نے اُس کے ہاتھ کو آہستہ سے پکڑا ۔ دروازہ کھولا اور اُسے نہایت خلوص کے ساتھ باہر کردیا ۔
ماریا نے جاتے جاتے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا ۔ اُس کے چہرے پر آج کچھ اور ہی مسکراہٹ تھی ۔ اُس نے پھر ایک ادائے خاص سے ہاتھ ہلا کر ابودادا کو خدا حافظ کہا اور اپنے قدموں کی رفتار بڑھا دی ۔
ابو کی آنکھوں میں ماریابرونٹ کی مسکراہٹ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساکت ہوگئی ۔۔۔۔
٭٭٭