نثری نظم (نثم؟)
نثری نظم ہے کیا؟ 1955 ء کے لگ بھگ ہندوستان کے صوبہ بہار سے احمد ہمیشؔ (اب مرحوم) نے مجھے کچھ نظمیں بھیجیں کہ وہ مالی طور پر تنگ ہیں اور اگر میں انہیں ہندی حروف میں لکھ کر اور مشکل الفاظ کے معانی حاشیہ میں لکھ کر کسی ایسے ہندی رسالے میں چھپوا دوں جہاں سے کچھ معاوضہ بھی مل سکتا ہو تو وہ ممنون ہوں گے۔ یہ سب نظمیں اُس زمانے میں ہندی میں لکھی ہوئی کویتاؤں کی طرح نثر لطیف میں تھیں یعنی کہ یہ کسی بھی بحر میں ساقط الوزن قرار پاتیں۔۔۔ لیکن نثر سے قطع نظر، نظم کے دیگر عناصر، یعنی اسلوب میں سادگی، آہنگ میں شیرینی، تمثال، استعارہ، تشبیہ ہ، امیجری اور خیال بندی میں نظم کے سب عناصر سے مملو یہ ’’نثری نظمیں ‘‘ تھیں، بالکل ویسے ہی جیسے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ٹیگور کی ’’گیتانجلی‘‘ کو نوبل پرائز ملنے کے بعد اس کے متعدد اچھے اور برے اردو ترجمے لاہور اور دہلی سے چھپے تھے (اور یہ سب نثر لطیف میں تھے !)۔۔۔ اور ان کے تتبع میں مرزا ادیب اور کچھ دیگر اہل قلم نے درجنوں کی تعداد میں ایسی ہی نظمیں لکھی تھیں اور رسائل کا ایک حصہ ایسی نگارشات پر مشتمل ہوتا تھا، جسے ’’ادب لطیف‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔۔ احمد ہمیش کی نظموں میں صرف اردو عروض، قافیہ، ردیف اور سطور کی طوالت میں یک پیمانہ نہ ہونے کی خصوصیت۔۔۔ نہیں تھے، یعنی وہ سب تکنیکی عناصر جو نظم کو نثر سے جدا کرتے ہیں، بالکل عنقا تھے۔ لیکن اپنی ’’روح‘‘ اور ’’جوع‘‘ میں یہ نثر پارے نظمیں تھیں۔۔۔ میں نے ان کا کام کر دیا اور ان نظموں کے یکے بعد دیگرے انگریزی ماہنامہ ’’سریتا‘‘ میں چھپنے کے بعد اور انہیں معقول معاوضہ ملنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے میرا ان سے تعلق قطع ہو گیا۔
اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں کہ اردو میں ’’نثری نظم‘‘ کی شروعات احمد ہمیش سے ہوئی۔ بعد میں موصوف (اب مرحوم) بہار سے پاکستان ہجرت کر گئے اور کچھ ماہ لاہور میں احمد ندیم قاسمی (مرحوم) کے مہمان رہنے کے بعد کراچی جا کر بس گئے۔ مجھ سے ان کی تجدید ملاقات 1985ء کے لگ بھگ ہوئی جب میں امریکا آ کر بس چکا تھا۔ کراچی سے وہ ایک سہ ماہی رسالہ شائع کرتے تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش بھی تھا۔ لیکن ان کا نثری نظم کا مجاہدہ آخر رنگ لایا اور کچھ دیگر شعرا نے بھی دیکھا دیکھی نثری نظمیں لکھنا شروع کر دیا۔
اس کا ایک محرک ن م راشد کی مطبوعہ ’’ایران میں اجنبی‘‘ کی اشاعت بھی تھی اس میں راشد نے فارسی شعرا کی جو نظمیں اردو میں پیش کی تھیں، وہ سب نثر میں تھیں اور یوں بھی اگر ہندوستان کی سب صوبائی زبانوں (مراٹھی، گجراتی، اُڑیا، پنجابی۔۔۔ اور وندھیا چل پربت کے پار کی پانچ زبانوں ) میں نثر لطیف ہی نظم کا ملبوس بن چکا ہو، تو اردو کب تک اس سے لا تعلق رہ سکتی تھی؟
میں نے خود آج تک چھ سو سے سات سو تک نظمیں لکھی ہیں، اور ان میں سے ایک بھی نثری نظم نہیں ہے، پھر بھی میں احباب کی تحریر کردہ نثری نظموں کی طرف بارہا متوجہ ہوا ہوں، ان میں اسلام آباد کے میرے دو عزیز دوست، نصیر احمد ناصرؔ اور علی محمد فرشیؔ بھی ہیں، جن کی نثری نظمیں مجھے بہت پسند ہیں۔ ایک دو بار خود بھی کوشش کی ہے میں نے کہ کم از کم چار پانچ ہی نثری نظمیں لکھ لوں، لیکن ہر بار جب شروع کرتا ہوں تو نظم خود بہ خود کسی بحر میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔
ایک بار پھر یہ سوال پوچھیں، آخر نثری نظم ہے کیا؟میں نے گذشتہ کچھ برسوں میں چار یا پانچ نثری نظموں کے مجموعوں کے پیش لفظ لکھے ہیں۔ ان میں مجھے ایک بہن کی طرح عزیز شاہدہ کاظمی بھی ہیں جو اردو ڈرامہ اور PTV کے ماضی قریب کا ایک معتبر نام ہیں۔ کینیڈا میں مقیم عروج عروجؔ بھی ہیں اور ناروے میں مقیم سونیاؔ خان بھی ہیں۔ (پاکستان اور ہندوستان کے کچھ دیگر شعرا کی کتابوں کے فلیپ اس سے سوا ہیں ) ان سب میں ہمیشہ میں نے نثری نظم کے جواز میں وہ دلائل پیش کیے ہیں جو شاید معروضی ہیں۔ بہر حال کوشش کرتا ہوں کہ دیکھوں میں نے کیا لکھا ہے اور کیا ان کترنوں سے نثری نظم کا ناک نقشہ کسی بھی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔
کینیڈا میں مقیم عروج عروجؔ کی کتاب ’’اپنے سورج پر نظر رکھنا‘‘ میں یہ پیراگراف تھا: ’’کچھ ہیرے کئی بار کنکروں کے ڈھیر میں بھی پڑے ہوئے مل جاتے ہیں۔ کچھ دن پہلے مجھے ایک انگریزی اخبار کے ادبی صفحے پر ایک بلاگ میں ایسے ہی کچھ جواہر نظر آئے جو میں نے فوراً ہی اپنی نوٹ بک کی جھولی میں ڈال لیے۔ ٹی ایس ایلیٹ کے اس حلفیہ بیان کا اقتباس دینے کے بعد کہ ’’مجھے عروض کے ارکان اور اوزان Iambic Pentameter ٰٓ آج تک ازبر نہیں ہوئے، اس لیے ہی میں ان پر کاربند نہیں رہا ہوں۔۔۔ جہاں تہاں جی چاہا، اس سے کھل کھیلتا رہا ہوں۔‘‘ بلاگر blogger نے اس بحث کو شروع کیا کہ خارجی آہنگ اور داخلی آہنگ دو الگ الگ اشیاء کے نام ہیں اور عروض کی جکڑ بندیوں میں رہ کر جہاں ہم خارجی آہنگ کی مدد سے الیکزانڈر پوپؔ کی طرح یا اردو میں پاکستان کے ظفر اقبال کی طرح بے رس اشعار خلق کر سکتے ہیں اور(پوپؔ انہیں ’’ہیرائک+ کپلٹ‘‘ Heroic Couplet کہہ کر اپنا سابقہ یونانی اور رومائے قدیم کی شاعری سے منسلک کر سکتا ہے اور ظفر اقبال صاحب خود کو میر تقی میرؔ اور غالبؔ سے بہتر شاعر ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں )، وہاں عروض سے آزادی پا کر اور نثر لطیف لکھ کر داخلی آہنگ کی مدد سے ہم ایسی شاعری کی تخلیق بھی کر سکتے ہیں جو پوپؔ یا خود بین محترم ظفر اقبال کے لگے بندھے پابند اشعار سے بہتر ہو بلکہ اس میں خیال، جذبہ اور زبان اس مہارت سے بہم دگر پیوست ہوں کہ تخلیق واقعتاً ایکaesthetic whole نظر آئے۔
اردو میں نثری نظم کا چلن یورپ کی زبانوں یا بر صغیر کی دوسری بڑی زبان ہندی کے علاوہ کچھ دیگرصوبائی زبانوں کی نسبت کم از یم تینیا چار دہائیوں کے بعد شروع ہوا۔ اب تک اسے وہ ’’پدوی‘‘ نہیں بخشی گئی جسے سنسکرت کی ’’رس‘‘ تھیوری میں لحن داؤدییا نغمگی، غنایئتاور کیف آوری کا سنگم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں ذوق یا وجدان کی کمی ہے۔ میں بہت سی باتوں میں محترم شمس الرحمن فاروقی کے ارشادات سے اتفاق نہیں رکھتا لیکن ان کا یہ فرمان کہ ’’ہماری تنقید بہت سے خود ساختہ فریبوں میں مبتلا رہی ہے۔ ان میں سے ایک شعر کی نغمگی یا غنائیت بھی ہے۔۔۔‘‘ مجھے اس لیے پسند ہے کہ اس میں شعر کی نام نہاد نغمگی یا غنائیت کا ذکر ہے، اس لیے بھی ہے کہ ’خود ساختہ فریب‘ کے طور پر اسے مہر بند کر کے موصوف نے درجنوں ’ پیش لفظ نویس‘ یا ’فلیپ نگار‘ نقادان ِ شعر کا بھی فالنامہ درج کر دیا ہے۔
بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں آج سے بیس پچیس برس پہلے اردو کے ادبی جرائد نثری نظم کو شامل اشاعت کرنے کے قطعاً حامی نہیں تھے، اب آہستہ آہستہ نثری نظم پر مائل بہ کرم ہو رہے ہیں اور اس صنف کو یا تو اپنے جریدے کی ایک الگ فصل میں شامل کر رہے ہیں یا دیگر منظومات کے ساتھ ہی جگہ دے رہے ہیں۔ گویا دیگر اصناف ِ شعر کی طرح اب وہ اس صنف کے احیا میں بھی برابر کے شریک ہیں۔
٭٭٭