کرسٹیواؔ کے تصور بین المتونیتInter-textuality کو رِفاترےؔ کے تصور submerged matrix کے ساتھ رکھ کر دیکھیں تو کلاسیکی غزل کے طریق کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ بین المتونیت کی مثال اردو غزل سے سوا (یعنی سو فیصد حد تک)دنیا کے ادب میں کہیں اور ملنا مشکل ہے۔ ہر غزل اپنے طریق کار میں گذشتہ متون کو اسیcontext میں لا شعوری طور پر جذب کرتی ہے اور ایسے کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ’’کیا کہا گیا‘‘ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ’’کیسے کہا گیا‘‘۔ اس ’’کیسے‘‘ میں مضمون آفرینی کے علاوہ روز مرہ اور محاورے کا استعمال، صوتیاتی مد و جذر، غنائیت اور تغزل کے علاوہ وہ چابکدستی بھی شامل ہے، جس میں استعارے سے صرف نظر ’’شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا‘‘ کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔
میرے ایک مضمون کے جواب میں کراچی سے محمد علی صدیقی صاحب اور گوہاٹی (آسام) سے تارا چرن رستو گی صاحب (اب دونوں مرحوم) نے اپنے مضامین میں غزل کے دفاع میں تحریر کردہ اپنے مضامین میں وہی بات دہرائی جو دہلی میں انجمن ترقی اردو کے سربراہ اپنے تضحیک آمیز لہجے میں پہلے کہہ چکے تھے کہ مغربی تھیوریوں سے آراستہ پیراستہ یہ اردو کا ’’دوسرے سے بھی کم درجے کا شاعر‘‘ کیا غزل کو ایک عیسائی میم بنانے پر تلا ہوا ہے ؟ رستو گی صاحب کے ساتھ یہ جواب در جواب مضامین جب کراچی کے ایک رسالے سے جگہ بدل کر ’’انشا‘‘ کلکتہ کی زینت بننے لگے تو میں نے پھر ایک مضمون میں حوالہ جاتی لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے اس سانپ کے سر کو کچلنے کی سعی کی، جس نے تین چار صدیوں سے غزل کے زنگ آلود پارینہ خزانے کو اپنی تحویل میں لے رکھا تھا۔ میں نے لکھا،
’’ہم سب جانتے ہیں کہ مضمون کی بنیاد استعارہ ہے، لیکن اردو غزل کے طریق کار میں استعارہ صرف ایکParadigmatic base ہی نہیں، بلکہ یہ اس بنیاد پر Syntagmatic بھی ہے۔ مغرب میں شعری طریق کار کا چلن یہ ہے کہ وہ استعارے کو صرف Object نہ فرض کرتا ہوا، اس کے بجائے اس کیSubstitution فرض کر کے استعمال کرتا ہے، لیکن غزل میں یہ قائم مقام بدل Contiguityکا سلسلہ در سلسلہ بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک چارٹ بنا رہا ہوں۔
مضمون :::::::::: محبت کرنا
Paradigmaticاستعارہ :::::: محبت میں گرفتار ہونا (گرفتاری، مجبوری، آزادی کا فقدان وغیرہ)
Syntagmaticاستعارے :::: چمن، قفس، صیاد، طائر، دام، بال و پر، شکستگی، آشیاں، پر پرواز کا کاٹ دینا۔ برق تپاں، آتش زدگی، طوفان باد و باراں، آسمان، تیر کمان وغیرہ۔۔
Sub-sntagmaticاستعارے ::: قفس، روداد چمن، ہمدم، اور درجنوں دیگر ذیلی استعارے
اگر بری سفر کا استعارہ ہو گا، تو دشت، طوفان، تشنگی، کانٹے، پاؤں کے چھالے، کارواں، میر کارواں، محمل، گرد و غبار، ’’بو علی‘‘، قزاق، وغیرہsyntagmatic یاsub-syntagmatic ذیلی استعارے پیادوں کی طرح ہمراہ چلیں گے۔ اسی طرح اگر بحری سفر کا استعارہ ہو گا تو طوفان، کشتی، سفینہ، جہاز، لنگر، بادبان، نا خدا، تلاطم، کنارہ، ساحل اور درجنوں دیگر ذیلی استعارے ڈگمگاتے ہوئے ساتھ چلتے جائیں گے۔
ترقی پسند تحریک کے وقت پہلے تو ان استعاروں سے اجتناب برتا گیا اور شعرا پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ان سے دور ہیں۔ جگر مراد آبادی جیسے تغزل اور ترنم کے شاعر نے بھی یہ مصرع کہنے پر خود کر راضی کر لیا، ع: شاعر نہیں ہے وہ جو غزلخواں ہے آج کل۔ لیکن جب فیض نے اپنی نظموں اور غزلوں میں یہی استعارے ایک نئے سیاق میں، یعنی اشتراکیت کے حوالے سے برتنے شروع کئے تو جیسے غزل گو شعرا سے بھی یہ پابندی اٹھ گئی۔ مجروحؔ کا یہ مصرع اس بات کا بعینہ ثبوت ہے۔ ع اٹھ اے شکستہ بال، نشیمن قریب ہے۔ فیض ہوں یا ساحر لدھیانوی یا کوئی اور، محبوبہ کے ذکر کے بغیر ان کی ترقی پسند تحریک کے زمانے کی معروف العام نظمیں بھی انہیں ادھوری دکھائی دیتی تھیں، ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘۔۔۔ یا تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم دار کی خشک ٹہنی پر وارے گئے‘‘، یا ساحر کی ’’تاج محل‘‘ یا ’’پرچھائیاں ‘‘ اور ان سے کمتر شعرا کی سینکڑوں نظمیں غزل کی گھسی پٹی امیجری کو اپنائے بغیر نہیں لکھی گئیں۔
بلراج کومل صاحب یکتائے روزگار شاعر ہیں۔ ان سے جتنی بار دہلی میں بات چیت ہوئی یا جب وہ ایک بار چنڈی گڑھ تشریف لائے (جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ) انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا کہ تین یا اس سے بھی زیادہ صدیوں تک یہ استعارات جو عجمی غزل سے مستعار لیے گئے تھے، اردو غزل پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ ان دوران میں ان استعارات کا substitution کی سطح پر، یاOne to one equation کے تناظر میں تصویری پہلو عنقا ہو گیا۔ یعنی محفل یا مشاعرے میں بّری یا بحری سفر (دشت، قافلہ، قافلہ سالار، محمل، ناقہ، گرد پس کاروان، قزاق، رہبر، گم کردہ منزل، یا کشتی، طوفان، ناخدا، ساحل، منجدھار، لنگر، بادبان وغیرہ) پر مبنیsyntagmatic & sub-syntagmatic استعارات کو سن کر سامعین کے ذہن میں کوئی تصویر اجاگر نہیں ہوتی۔ یہ حالت یہاں تک دگر گوں ہو گئی کہ غزل گو شعراء ان ذیلی استعاروں کے فاضل پرزوں spare parts کو اپنے ذہن کے کارخانوں کے شیلفوں پر رکھے ہوئے با آسانی اٹھا کر کسی بھی شعر میں جڑ دیتے۔ آج تک اردو میں جو لاکھوں کروڑوں غزلیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے نناوے فیصد اشعار اسی قماش و قبیل کے ہیں اور اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔
کومل صاحب کے علاوہ جن احباب نے میرے ان خیالات سے اتفاق کیا ان میں گیا (بہار) کے کلام حیدری بھی تھے، اور سری نگر کے پروفیسر حامدی کاشمیری تھے جو ابھی شعبہ اردو کے سر براہ تھے اور اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہیں ہوئے تھے۔ اُن سے دو تین خطوط کے تبادلے میں ہی یہ صورتحال زیادہ واضح ہو گئی۔ اب یہ خطوط تو میرے سامنے نہیں ہیں، لیکن اس امر کے باوجود کہ وہ خود غزل کہتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ سب یورپی زبانوں میں ہر نیا دور اپنے استعارے اپنے ساتھ لاتا رہا ہے لیکن بوجوہ اردو میں یہ نہیں ہوا اور ہم لکیر کے فقیر کی طرح چلتے ہوئے دائروں میں گھومتے رہے ہیں، یہاں تک فیض احمد فیض اور ان کے پیروکار ان استعاروں کے سوکھے چھلکوں سے بائیں بازو کی سیاست کا نیا رس نچوڑنے کا جتن کرتے رہے ہیں۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ہر استعارے کے تصویری پہلو کو صرف عصری زندگی کے تناظر میں ہی رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وجوہ کیا تھیں ان میں ایک بار پھر جانا مناسب نہیں ہے، لیکن صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ہم نے اردو غزلیہ شاعری میں ہمیشہ خود کو دوسرے نمبر کا شہری سمجھنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اگر غالب جیسا زمانہ ساز شاعر بھی اپنے فارسی دواوین کو اردو دیوان پر فوقیت دے سکتا ہے (اور یہ انیسویں صدی کے نصف آخر کی بات ہے ) تو دیگر شعرا کا ذکر ہی کیا؟