میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ بلینک ورس کو اردو میں متعارف کروانے والے دیو قد شعرا راشد، میرا جی، مجید امجد اور اختر الایمان کے علاوہ دوسرے کئی ترقی پسند شعرا کی کاوشوں کے باوجود بہت سے شعرا نے بھی اپنی نظموں میں غزل کی ذہنی عادت کو ترک کرنے کا مظاہرہ نہیں کیا اور غزل کے ہی پیش پا افتادہ مضامین، استعارات، تلمیحات اور لگے بندھے امیجز کو اپنی نظموں میں بھی استعمال کرتے رہے۔ ان میں خصوصی طور پر فیض احمد فیض یا ان کے زیر اثر دوسرے نصف درجن یا اس سے بھی زیادہ شاعر شامل تھے۔ مشاعروں میں حالت اس سے بھی زیادہ بد تر تھی۔ غزلیہ شاعری اور وہ بھی ترنم سے، لہرا لہرا کر پڑھنا (گانا)، کسی بھی شعر کے مصرع اولیٰ کو ایک ماہر گلوکار کی طرح تین بار اٹھاتے ہوئے مصرع ثانی پر تان کو دھم سے ’ لٹکا‘ یا ’جھمکا‘ دے کر ختم کرنا ان کا ٹریڈ مارک بن گیا۔ اس کی انتہا یہاں تک ہوتی دکھائی دی کہ شعرا یا شاعرات کسی پروفیشنل گلو کار سے اپنی غزل کو باقاعدگی سے ’’سنگیت بدھ‘‘ کروا کر، کئی بار گھر میں آئینے کے سامنے اس کی پریکٹس کر کے مشاعروں کے لیے خود کو تیار کرنے لگے۔
میں نے چنڈی گڑھ کے ریڈیو سٹیشن سے جو جالندھر کے پروگرام ہی براڈ کاسٹ کرتا تھا، کچھ اعداد و شمار اکٹھے کیے تو پتہ چلا کہ ریڈیو کے مشاعروں میں صرف غزلیں ہی پڑھی جاتی ہیں اور اگر کوئی شاعر اپنی نظم پڑھنے کے لیے پر تولتا ہوا نظر آئے تو اسے اشارے سے منع کر دیا جاتا ہے۔
’’غزل ہماری شاعری کی جان ہے، روح ہے، آبرو ہے، ناموس ہے۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ یہ الفاظ تو ہم بہت سن چکے ہیں (میں نے بار بار یہ محسوس کیا) لیکن اس جان، روح، آبرو، ناموس نے تو اردو شاعری کی لٹیا ڈبو دی۔ کچھ آوازیں ضرور اٹھیں، الطاف حسین حالی، جوش ملیح آبادی، کلیم الدین احمد، اختر الایمان، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ! میں نے ان بیس پچیس برسوں میں پندرہ سے بیس تک مضامین لکھے جو ان نیم ادبی رسائل میں شائع ہوئے جنہیں غزل گو شعرا کے علاوہ عوام الناس پڑھتے ہیں۔ ان میں بمبئی کا ماہنامہ ’’شاعر‘‘ بھی شامل تھا، جس کے محترم مدیر افتخار امام صدیقی مجھ سے متفق تھے کہ غزل کو اگر سر دست چھوڑا نہ بھی جا سکے تو ایک آوارہ گشتی کی سی عادات سے اسے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ان مضامین میں میرا لہجہ نرم بھی تھا اور درشت بھی۔ میں نے بار بار مثالیں پیش کر کے، گراف بنا کر، فلو چارٹ ترتیب دے کر یا ثابت کیا کہ صنف عصری آگہی سے مملو نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ موجودہ دور کی برق رفتار زندگی، اس کے گونا گوں تقاضوں اور بدلتی ہوئی قدروں کے اظہار کے لیے ناکافی ہے۔ اس کی تنگ دامانی مسلمہ ہے۔ یہی اعتراضات اوڈ اور سانیٹ پر بھی کیے گئے تھے اور آہستہ آہستہ شعرا خود ہی ان اصناف سے متنفر اور بد ظن ہو کر کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے صرف (اور صرف!) بلینک ورس شاعری کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ مجھ سے زیادہ کون اس حقیقت سے واقف ہو سکتا تھا کہ میں نے تین براعظموں کی درسگا ہوں میں پڑھا یا ہے کہ آج جامعات کے کورسوں میں اوڈ Odeیا سانیٹ ایکHistorical Curio تاریخی عجیب الخلقت شے کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں۔ جیسے بیسویں صدی کے پہلے ربع دور میں قریب قریب اور وسط تک پہنچتے پہنچتے ایک پوری پود پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ سانیٹ اور اوڈ کا زمانہ لد چکا، اب بلینک ورس کا دور دورہ ہے۔ بلینک ورس سے فری ورس (نثری نظم) تک پہنچتے پہنچتے کچھ برس انگریزی میں ضرور لگے ( ہندی میں بھی یہی چلن رہا) لیکن ایک بار یہ بات طے ہو گئی کہ شاعری ان جکڑ بندیوں میں نہیں پنپ سکتی جو ان اصناف کی بنیادی قدریں ہیں، تو ہو گئی۔
میں نے اپنے مضامین میں اس بات کو خود بھی سمجھا اوردوسروں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ غزل سخت جان ضرور ہے اور ہم لوگ طبعاً روایت پسند بھی ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ غزل کے طریق کار کو مضمون آفرینی کے سائینسی صوتی اور لسانی پیمانوں کے علاوہ بین المتونیاتInter-textuality کے زاویوں سے دیکھا جائے۔ مائیکل رِفاترے Michael Riffaterre نے اپنی تنقیدی نظریہ سازی میں شاعری میں خصوصاً اور ادب عالیہ کے علاوہ اساطیر میں عموماً submerged matrix کا ذکر بار بار کیا ہے، زیر آب پڑی چمکیلی چیزوں کی طرح (استعارہ مائیکل رِفاترے کا ہے ) انسانی ذہن اپنی تخلیقی کار کردگی کے وقت ان کے ہیولے سطح پر لے آتا ہے اور یہ مجموعی نسلی لا شعور کی وہ ’’جواہرات سے جڑی ہوئی پرت‘‘ ہے (استعارہ پھر ایک بار مائیکل رِفاترے سے ہے ) جسے ہم صوتی اور لسانی سطحوں پر اپنے پرکھوں سے بطور میراث لیتے ہیں او بغیر سوچے سمجھے ایسے استعمال کرتے ہیں کہ یہ تمیز کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ جواہرات سے جڑی ہوئی پرت صرف ایک ہیولے ہے یا در اصل ایکobject ہے۔