وہ ہر طرح کی تعلیمی سرگرمی سے تین ماہ پہلے ہی فارغ ہو چکا تھا… یہ عرصہ اس نے پارٹیاں کرنے اور چند دوستوں کی شادیاں اٹینڈ کرنے میں گزارا تھا… اس دوران وہ دو بار گھر ہو کر آ چکا تھا لیکن افق کو نہیں بتایا تھا یہاں چھپانا مقصد نہیں تھا عادت وجہ تھی’ ایگل گروپ کے سب ہی کارکنوں نے ساری بتیاں بجھا کر سگریٹ لائیٹر جلا کر مشترکہ حلف لیا تھا کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران کے اس عرصے کو ہر رنگ سے سجا دیں گے کوئی ٹینشن نہیں لیں گے… جو جی میں آئے گا کریں گے’ جو دردِ سر بنے گا اس کا سر پھوڑ دیں گے…
تو اس ایگل گروپ کے ہر رکن نے ہر وہ کام کیا جو ان کے جی میں آیا…….. ہاسٹل کے ہی ایک دوسرے گروپ کے ساتھ ان کی گرما گرمی ہو گئی’ انہوں نے ان کے کمروں میں ڈرگ اور شراب چھپا دی اور چھاپہ پڑوا دیا…
ان ہی دنوں جب وہ زخمی ہو کر بستر پر تھا اس نے افق کو ڈھونڈ نکالا…….
جیسے کالے سیاہ آسمان پر پہلی تاریخ کا چاند ساری توجہ کھینچ لیتا ہے… ایسے ہی افق کی آواز اورانداز نے اس کی توجہ کھینچ لی… اس نے “جی” کے نام سے نمبر محفوظ کر لیا… مختلف چیزوں کو دیکھتے دیکھتے ان چیزوں میں ایک بدنما یا عجیب ہی سہی رکھی ہوئی مل جائے تو چلتے چلتے قدم رک ہی جاتے ہیں… ذرا سا دیکھ لینے کے لیے کہ یہ ہے کیا… اسی طرح افق کو ذرا سا دیکھ لینے کے لیے افق رک گیا…
کسی لڑکی پر وہ اتنا وقت برباد نہیں کرتا تھا… جن لڑکیوں کو اس نے فون کالز کی……. اس کی دلکش آواز سنتے ہی دوسری بار انہوں نے خود کال کی مگر اس لکی نے فون ہی بند کر دیا… اسے وقتی حیرانی ہوئی…… پھر بات انا اور ذاتی ریکارڈ پر آ گئی کہ یہ کون لڑکی ہے جو دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں……. فون نہیں سنتی…… میسج کا جواب نہیں دیتی…… ہے کیا یہ لڑکی……. اتنا تو وہ اس کے انداز سے سمجھ ہی چکا تھا کہ اس بےچاری کے لیے “امان” پہلا تجربہ ہے… امان کا یہ ذاتی ریکارڈ افق جیسی لڑکی توڑ رہی تھی… بات وقت گزاری سے آواز کی پسندیدگی تک آئی…… ریکارڈ سے دل لگی تک جانے لگی…
دل لگی سے بات ذرا سنجیدہ ہو گئی… امان نے سوچا کہ بےچاری حد سے زیادہ شریف ہے… اور غلط کو غلط ہی سمجھ رہی ہے’ وہ غلط کو غلط سمجھنے والی اسے ٹھیک لگی… اتنی لمبی فہرست میں کوئی ٹھیک بھی ہونا چاہیے… وہ بےچین تو نہیں ہوا ہاں اتنا ضرور ہوا کہ جب اس نے سوچا کہ بھاڑ میں جائے تو سوچنے کے کچھ ہی دیر بعد وہ پھر اسے میسج لکھ رہا تھا اور انتظار بھی کر رہا تھا اسے لگا کہ اس کی ایک رگ اس خاموش لڑکی کے ساتھ پھڑک رہی ہے… اس نے ایک چھوٹا سا ڈرامہ کیا اور اس کا جواب
آ گیا… اسے اچھا لگا… خوشی ہوئی… اسے افق پسند آ گئی… اس نے افق کو باقی لڑکیوں سے الگ ہی رکھا… اس سے اپنی ذاتی باتیں شیئر کر لیتا کو وہ کسی اور سے نہیں کرتا تھا’ اسے کبھی باہر ملنے کے لیے مجبور نہیں کیا… وہ اسے اپنے دوستوں میں بیٹھ کر ڈسکس نہیں کرتا تھا…
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک آنکھ دبا کر اس کا کوئی دوست “کیسی ہے وہ” کہہ کر افق کے بارے میں پوچھے…
زمانہ جدید کے لوگوں میں زمانہ قدیم کی افق پر اس کا دل آ گیا… وہ اسے بے حد پسند تھی…
وہ اس سے شادی کا وعدہ کر چکا تھا… پہلی بار صرف اسی سے کوئی وعدہ کیا تھا وہ جانتا تھا… افق کے معاملے میں وہ گھاٹے میں نہیں رہے گا…
اس کے جیل جانے پر بہت سی لڑکیوں نے فون کر کے اپنی پریشانی ظاہر کی’ اپنی مدد پیش کی لیکن جیل سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد جو آواز اس نے افق کی سنی’ اس نے اسے حیران کر دیا… اسے اس پر پیار آیا وہ اسے اور اچھی لگنے لگی…
پاپا خود ہی لاہور ڈی ایچ اے آ گئے… اپنے دوست کی آمد کے بارے میں بتانے لگے’ وہ سنتا رہا…
“تمہارا دھیان کہیں اور ہے؟” انہوں نے برا مانا…
وہ سنبھل کر بیٹھا… “کب آ رہے ہیں انکل؟”
“وہ تو آتا جاتا رہتا ہے… اس بار خاندان کے ساتھ آ رہا ہے بہت سے لوگ اس کے انتظار میں ہیں اس بار…”
“ضرور ہوں گے…” وہ ابھی بھی متوجہ نہیں تھا…
“تم مجھ سے اپنی بات کر لو…. یا میری بات سن لو یا مجھے وقت دے دو لکھ کر کہ اس وقت بات کریں…” آواز سختی اور غصے سے تن گئی…
“مجھے کرنے دیں بات…” وہ جان چکا تھا کہ اس دوست کے بارے میں کیوں بتایا جا رہا ہے…
“ایک لڑکی ہے…….” یہیں سے مناسب لگا بات شروع کرنا…
وہ اسے دیکھ کر رہ گئے…… “آگے……؟”
اس سوال آگے نے اس کی جرأت کو پیچھے ہی کر دیا کیونکہ آگے پیچھے اور کچھ بتانے کے لیے تھا ہی نہیں…
“افق…….. وہ مجھے پسند ہے اور بس…” اور یہ سب انہیں جاننا نہیں تھا… انہیں جو جاننا تھا وہ’ وہ بتا کر شرمندہ ہی ہو گا…
“وہ میرے کالج سے نہیں ہے…”
“اس شہر سے تو ہے نا…..” ان کے انداز میں گہری تاڑ تھی…
“آپ چلیں گے میرے ساتھ…” اور تفصیل وہ اور کہا بتاتا…
“ضرور چلوں گا لیکن تم جانتے ہو کہ میں جانے میں پہل نہیں کرتا……. تم انہیں یہاں بلا لو……”
“وہ ایسے نہیں آ سکتے…….” بات پھر وہیں آ گئی تھی…
“پھر کیسے آ سکتے ہیں وہ…….؟”
اسے لگا کہ اس کا باپ ایک اچھا وکیل صفائی بھی ہے وکیل استغاثہ بھی اور جج بھی اعتراضات بھی وہی اٹھائیں گے اور فیصلہ تو کرنا ہی انہیں ہے…
وہ جھنجھلا گیا وہ جان گیا کہ پاپا کیا سمجھ رہے ہیں… انہیں لگ رہا ہو گا کہ وہ آگے پیچھے چلتی قیمتی کاروں میں ان کے فارم ہاؤس پر آئیں گے… لنچ ڈنر ساتھ ہو گا اور اسی دوران سب معلوم ہو جائے گا کہ کون کس کے ہم پلہ ہے…
“ہماری کلاس کے نہیں ہیں وہ…”
خاموشی کا ایک وقفہ آیا… پھر وہ ایسے ہنسے جیسے پہلے سے ہی جانتے تھے…
امان کی شکل پر آنے والے تاثرات دیکھنے لائق تھے… وہ گھی کو الٹی انگلی سے نکالتے تھے نہ ہی سیدھی سے… وہ پیندے میں سوراخ کر دیتے تھے… تپش کے ذرا پاس رکھ دیتے اور پگھلا کر نچوڑ لیتے تھے…
“تمہیں یاد ہو گا کہ تم ایک مسئلے میں کس بری طرح سے پھنس گئے تھے…….. وہی کار ایکسیڈنٹ والا مسئلہ…”
“یاد ہے…” حیران ہوا…
“جانتے ہی وہ گے کہ میں نے کیسے تمہیں اس مسئلے سے نکالا… کس کس سے رابطے کیے میں نے……. یہ سب تو میں نے اپنے بیٹے کے لیے کیا… وہ اپنے داماد کے لیے کیا کر سکتے ہیں… اگر تم کسی مسئلے میں پھنس جاؤ…….. تم سے کوئی قتل ہو جائے’ تم جیل چلے جاؤ یا کہیں اور دھر لیے جاؤ……. کسی دشمن کی پکڑ میں آ جاؤ تو کسی گورنر’ کرنل’ جرنل’ منسٹر کو فون کروا سکتے ہیں…….؟ چلو کسی چھوٹے سے ایس پی کو ایم پی اے کو…….؟ اگر تم دیوالیہ ہو جاؤ تو کسی بینک سے تمہیں چند کروڑ کا لون دلوا سکتے ہیں؟”
اس کے باپ نے تین فیکٹریاں رات سوتے میں سپنے دیکھتے دیکھتے ہی نہیں لگا لی تھیں… وہ فیکٹری میں کام کرنے والے چوکیداروں پر بھی نظر رکھتے تھے…
اس کا چہرہ اتر گیا لیکن اس نے اپنے باپ کی ہر بات کو درست مانا…
“مجھے وہ بہت اچھی لگتی ہے…” محبت کا لفظ اس نے استعمال نہیں کیا اور اسی کا سہارا لیا جس سہارے سے اسے ہر چیز مل جایا کرتی ہے…
“تمہیں کیا اچھا نہیں لگتا سن…….. چند سال پہلے تم ایک ہالی ووڈ کی ماڈل کے بارے میں بہت باتیں کرتے رہے ہو اور تم یہ دعا بھی کرتے رہے ہو کہ تم اسے ضرور حاصل کرو گے’ تم نے اپنے کمرے کی دیواروں کو اس کی تصویروں سے بھر دیا تھا…
“وہ بچپنا تھا…” اسے وہ ماڈل یاد آ گئی…
“تو یہ سب کیا ہے……؟”
“میں سنجیدہ ہوں…” اس نے پہلو بدلا…
“جیسے تم خلائی سفر پر جانے کے لیے سنجیدہ تھے…
“وہ مشکل تھا…” اپنے پاپا کی یادداشت پر وہ عش عش کر اٹھا…
“یہ بھی مشکل ہے سن……. بہت مشکل بلکہ نا ممکن…..”
“مجھے افق سے ہی شادی کرنی ہے پاپا……. آپ مان جائیں گے تو مجھے بہت اچھا لگے گا…” بہت آرام سے درخواست کی…
“فیصلہ کر چکے ہو؟” آرام سے ہی پوچھا گیا…
وہ خاموش ہی رہا…
“ٹھیک ہے کر لو…….. تعلیم تو مکمل کر ہی چکے ہو… شادی بھی کر لو… مجھے یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ پھر میرا تمہارا تعلق ختم ہو جائے گا…”
“پاپا پلیز…..”
خاموشی کا ایک اور وقفہ آیا…
“آغا سے مل لو…”
“میں ان سے مل چکا ہوں کئی بار…….” آغا کا تذکرہ اسے برا لگا…
“پھر ملو…”
“ماریہ مجھے پسند نہیں ہے…” اس کے اعصاب تن گئے…
“تم اسے ایک بار پروپوز کر چکے ہو…… واپسی پر تم کافی ڈسٹرب رہے تھے اس کے انکار پر…..” وہی کمال کی یادداشت…
“افق اس سے بھی زیادہ خوب صورت ہے…”
“صرف خوب صورتی پر ہی فدا ہو گئے ہو…… تو پھر ڈبل ڈیل کرو نا……. ڈبل فائدہ لو…… ماریہ خوب صورت بھی ہے’ آغا کی بیٹی بھی…” دے تالی والا انداز تھا…
“پاپا!” اس نے کچھ کہنا چاہا…
“سن…..” انہوں نے آنکھوں کو گہرا زاویہ دیا اور آواز میں تنفر اور تنبیہہ بھری… “اگر میں تمہیں کسی جھوٹے مقدمے میں جیل کروا دوں تو تم یا کوئی کیا کرے گا…… باہر آ جاؤ گے……. شادی کر لو گے پھر اس لڑکی سے…… تو سن…… اپنی پشت پر ایک ہاتھ ایسا ضرور رکھو’ جو وقت پڑنے پر تھپکی بھی دے اور ہاتھ بڑھا کر گڑھے سے بھی نکال لے……. یہ ہاتھ تمہیں خود بنانا ہے…”
اپنے باپ کے دلائل کے سامنے وہ ابھی بچہ تھا…
“تمہارے جیسے لڑکوں کی پسند’ محبت’ عشق سے میں خوب واقف ہوں’ چند دن پہاڑوں پر چڑھتے ہیں پھر سمندروں سے عشق کرنے لگتے ہیں پھر غاروں میں جا چھپتے ہیں’ چند دن جنگل جنگل……. پھر شہر شہر’ گاؤں گاؤں’ تم ایک جنس ہو اور کئی دوسری جنسوں میں حلول کرتے ہو’ جڑتے ہو ٹوٹتے ہو اور پھر واپس خود میں آ جاتے ہو…… تو میں تمہارا باپ ہوں… خود میں جھانک کر
دیکھو… تم چاہتے کیا ہو…….. کیا صرف وہ لڑکی’ ہر چیز’ ہر رتبے سے بالاتر صرف وہ لڑکی…….؟ وہ لڑکی تمہیں پسند ہے’ ہمیشہ رہے گی یہ جانتے بھی ہو کہ نہیں……” کندھے پر تھپکی دے کر وہ چلے گئے…
زبردستی کے وہ قائل نہیں تھے ہاں ترکیب عمل کے بہت بڑے مداح تھے… اگلے ہی ہفتے اسے ساتھ لے کر امریکا آ گئے کہ انہیں شرمندہ نہ کروائے اور آغا سے صرف مل لے پھر بے شک انکار کر دے…
آغا ان کے دوست تھے لیکن دولت نے ان میں چار پانچ پر زیادہ لگا دیے تھے اسی لیے ان کی پرواز سب میں اونچی تھی’ دوستی میں چھپے ہوئے گہرے عناد اور بغض کو غلام علی ہی نبھاتے تھے’ کسی اور طرح تو آغا کی دولت ہاتھ آتی نظر نہیں آ رہی تھی انہوں نے بہت بار کوشش کی کہ وہ ان کے پارٹنر بن جائیں’ کئی بار امریکا بڑے بڑے منصوبے لے کر گئے لیکن وہ سگار پیتے سنتے رہتے… اب سن کر آخر میں سر ہلا کر دیتے…
“ضرور کرو………. ضرور کرو…….. بیسٹ آف لک……”
ان کی اتنی بار کی بیسٹ آف لک کے باوجود غلام علی نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا……. کھوٹے سکے اور کھوٹے بیٹے کی طرح انہیں یقین تھا کہ یہ آغا بھی ضرور کام آئے گا… غلام علی کو یقین سا تھا کہ وہ رشتےداری پر آ ہی جائے گا…
ہوٹل سے یہ لوگ پہلے ان ہی کے پاس گئے…
ماریہ نے شوق شوق میں پاکستانی لباس پہنا تھا… سفید شیفون کی قمیض اور سفید ہی چوڑی دار پاجامہ…… دوپٹا ہلکا گولڈن تھا اور ستاروں جیسا جھلملا رہا تھا…
عدن نے ہاتھ آگے کیا تو اس نے تین انگلیوں سے اس کے ہاتھ کو چھو کر ہائے کا جواب دیا… دوپٹا جو اس سے سنبھالا نہیں جا رہا تھا… وہ کبھی کندھے سے ڈھلکتا تو کبھی گردن سے…… وہ اکٹھا کر لے گردن میں چن دیتی’ پھر بھی ذرا سا ہلتی تو وہ ڈھلک کر گرنے کو آ جاتا… تو وہ اسی مشغلے میں مشغول تھی…
عدن ٹھیک آٹھ سال بعد اسے دیکھ رہا تھا….. اور…… اسے ہی دیکھ رہا تھا… وقت کے ساتھ لوگ بدل جاتے ہیں لیکن کیا وہ وقت کے ساتھ ساتھ اور سے اور خوب صورت ہوتے جاتے ہیں… ایک بار خوب صورت پیدا ہونے والے پھر بس کیوں نہیں کرتے… مصری حسیناؤں کی فرعونیت سی ادا لیے وہ لاتعلق سی ایک طرف بیٹھی تھی…
عدن کی بہن شمائل نے اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی مگر وہ چند ایک بار ہونٹ کھول کر بند کیے بیٹھی رہی’ یہی کام عدن نے کیا تھا اور اس کا جواب بھی یہی ملا تھا…
ڈنر کے لیے انتظام لان میں کیا گیا تھا… اس کے پاپا اور ماریہ کے ڈیڈ پہلے سے ہی وہاں موجود تھے’ عدن کی ماما’ ماریہ کی ماما سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھیں…
ڈنر کے لیے وہ باہر جانے لگیں تو ماریہ جو ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی تھی’ اٹھی تو دوپٹا پھر پھسل کر ایرانی قالین پر ڈھیر ہو گیا… عدن ذرا سا جھکا اور دوپٹے کو پکڑ لیا…
وہ خود جھک کر اٹھانے والی نہیں تھی’ وہ بنا دوپٹے کے ہی نکل جانے کے ارادے سے تھی… اتنی نخرے اس نے کبھی انسانوں کے نہیں اٹھائے تھے’ کہاں ایک کپڑے کے اٹھاتی…
شیفون کے جھلمل کرتے دوپٹے کو اپنے ہاتھ میں لے کر عدن نے ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر جمایا….. اور دو انگلیوں سے اس کی ٹھوڑی کو چھوا…
“آسمان سے اتر کر سیدھی یہیں آ رہی ہو؟”
اس نے جیسے سنا ہی نہیں’ قدم بڑھاتی آگے چلنے لگی…… عدن بھی اس کے پیچھے ہی تھا….. چند قدم آگے چل کر اسے خود سے دو قدم پیچھے محسوس کر کے اس نے گردن موڑی…
“ابھی تک ویسے ہی ہو…”
عدن نے اپنا جاندار قہقہہ اس کی پشت پر چھوڑا… جب وہ انیس سال کا تھا تو تیسری بار امریکا ان کے پاس گیا تھا… پہلی بار وہ صرف چھ سال کا تھا دوسری بار صرف نو سال کا اور تیسری بار میں نئے نئے جوش نت نئے خیالات سے بھرا انیس سالہ عدن تھا… پاپا تو آتے جاتے رہتے تھے لیکن وہ صرف تین بار ہی گیا…
پاپا نے اس سے بار بار کہا تھا کہ وہ ماریہ سے دوستی کر
لے….. اس کے ساتھ گھومے پھرے….. اس کے دوستوں سے ملے….. لیکن ماریہ کا ذکر اتنی بار سننے کے باوجود وہ اس بات کے لیے بالکل بھی راضی نہیں تھا… وہ اپنی مرضی سے بولتا تھا’ دوست بناتا تھا اور لڑکی نام کی چیز کو اس نے اب تک صرف زچ ہی کیا تھا… ماریہ کے ساتھ بھی وہ یہی سب کرنے کا ارادہ رکھتا تھا… لیکن ہوا کچھ یوں کہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے اس نے گھٹنوں تک اسکرٹ’ لانگ شوز اور لمبے بالوں کی پونی ٹیل میں ایک حور اسپورٹس کار میں بیٹھتے دیکھ لی اور کھڑے کھڑے ہی اس نے فیصلہ کیا کہ وہ صرف اسی سے شادی کرے گا بلکہ ساتھ ہی لے کر جائے گا…
دو دن سے لوگ ان کے یہاں تھے لیکن ماریہ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی… اس کی مام نے بتایا تھا کہ وہ کسی ایجنسی کے ساتھ پیرس ماڈلنگ کے لیے گئی ہے…
ادھر ادھر گھومنے پھرنے کے لیے جانے کے بجائے وہ سارا دن ماریہ کا گھر میں ہی انتظار کرتا رہا… لنچ ہو گیا’ ڈنر ہو گیا’ رات گہری ہو گئی لیکن وہ نہیں آئی’ انتظار کرتے کرتے وہ کھڑکی کے پاس ہی کرسی پر اونگنے لگا…..
کار کے ٹائر چرچرانے کی آواز وہ جاگا جب تک گردن نکال کر دیکھا… اس کی پشت ہی نظر آئی’ چڑ کر عدن بیڈ پر جا سویا’ شادی کا ارادہ کر کے وہ اسے اپنی بیوی ہی سمجھ بیٹھا تھا اور اس کی بیوی اتنی دیر سے گھر آئی تھی’ رات دیر تک جاگنے کے باوجود وہ صبح جلدی اٹھا کہ وہ پھر نہ چلی جائے’ لیکن وہ دیر تک سوئی رہی… لنچ ٹائم پر ناشتہ کیا…
“ہائے…” وہ صوفے پر بیٹھی تھی… نامناسب سا لباس پہنا تھا شیشے کی میز پر ٹانگیں رکھیں تھیں اور ان ہی ٹانگوں کی سیدھ میں کاؤچ پر وہ آ کر بیٹھا تھا…
“او ہائے!” اس نے ہاتھ آگے کیا… “کیسے ہو……. کب آئے……؟”
“ایک ہفتے سے یہاں ہوں…” اس نے جیسے شکوہ کیا…
“گڈ…… دیکھ لیا امریکا؟” ہر پاکستانی کو امریکا میں ایسے سوالات سے ہی کیوں نوازا جاتا ہے…
“میں امریکا دیکھنے نہیں آیا…”
“تو…..؟” براؤن بریڈ کا پیس اس نے ادا سے کترا…
“اکیلے کیسے دیکھ لوں…….” اسے نئی ترکیب سوجھی…
“تمہارے مام ڈیڈ بھی تو آئے ہیں…” فریش جوس کا گھونٹ لیا…
“اگر تم پاکستان آؤ تو میں تمہیں خود سارا پاکستان گھماؤں…”
وہ ہنسی… جوس کا ایک گھونٹ لیا “پاکستان گھومنا کون چاہتا ہے…”
پاکستان سے تو عدن کو کوئی لگاؤ نہیں تھا… بےعزتی اسے اپنی آفر کے ایسے مذاق اڑائے جانے پر ہوئی…
گلاس میز پر رکھ کر وہ اٹھ کر چلی گئی’ عدن منہ دیکھتا رہ گیا……
اگلے تین دن وہ اس کا منہ دیکھنے کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ رات گئے آتی….. صبح سویرے ہی چلی جاتی… بہانے سے اس نے پوچھا تو مام نے بتایا کہ آج کل ریہرسلز چل رہی ہیں… پتا لے کر وہ اسٹوڈیو ہی آ گیا… کسی کمرشل کے لیے ریہرسل کی جا رہی تھی’ سو کے قریب لوگ تھے’ عدن نے دور سے ہی ہاتھ ہلایا……. اسے دیکھ کر وہ صرف مسکرائی اور اپنا کام کرتی رہی…… ایک بار بھی اس کی طرف نہ دیکھا…
عدن لنچ ٹائم کا انتظار کرنے لگا…… لنچ ٹائم آیا…… بیل ہوئی اور وہ ایک لڑکے کے ساتھ ایک طرف چلی گئی… وہ ایک طرف کرسی پر ہی بیٹھا رہ گیا… دوبارہ جب وہ نظر آئی تو لنچ بریک ختم ہو چکا تھا……. درمیان میں اس نے ایک بار اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور ادب کر باہر آ
گیا… اگلے دن اس سے ملاقات ہوئی تھی تو جیسے اسے یاد ہی نہیں تھا کہ وہ اسٹوڈیو آیا تھا…
“لنچ کے لیے چلیں ماریہ…..” اس سے پہلے کہ وہ پھر نکل جائے اس نے اسے دیکھتے ہی آفر کی…
اس نے صرف ہونٹ سکیڑے یعنی نہیں…
“ڈنر کے لیے؟” اس بار اس نے سر بھی نفی میں ہلا دیا…
“کیوں؟” غصہ دبا کر وہ بولا… عدن کو انکار کیا جا رہا تھا…
اس نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف اشارہ کر کے کہا…
“میں شوٹنگ پر جا رہی ہوں…… تم چاہو تو ساتھ آ جاؤ…”
وہ جانتا تھا ساتھ لے جا کر اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا…
“اپنے مہمان کے ساتھ تمہیں ایک وقت کا کھانا تو کھانا ہی چاہیے…”
“تم میرے مہمان نہیں ہو…” اس نے بات ہی ختم کر دی… ماریہ کے ہاتھوں پہلا تھپڑ عدن کے گال پر آ لگا…
“تمہارا مہمان نہیں ہوں دوست تو بن سکتا ہوں نا؟” تھپڑ کھا کر بھی عدن نے ہمت نہیں ہاری…
اس نے ردعمل میں ایک ابرو اچکائی اسے دیکھا اور اٹھ کر چلی گئی… چونکہ وہ اسے شادی کر کے اپنے ساتھ لے جانے کا پکا ارادہ کر ہی چکا تھا سو اسے انگریزی القابات سے نہیں نواز سکا’ خاموشی سے اس کی ادا کو پی گیا’ یعنی کہ وہ جانتی ہے کہ وہ کا قدر خوب صورت ہے’ اسی لیے ایسی ادائیں سیکھ لی ہیں…
چند دنوں بعد وہ اسے لان میں بیٹھی مل گئی…
“کیسا رہا شوٹ؟” اس کے پسندیدہ موضوع سے بات شروع کی…
“ونڈرفل!”
“فارغ ہو؟” وہ اپنی بات کی طرف آنے لگا…
اس نے کچھ دیر سوچا “تقریباً…”
“باہر چلیں……” اس کا جی چاہا کہ اجازت چھوڑے اسے اٹھا کر گاڑی میں بٹھائے اور نکل جائے…
“ٹھیک ہے چلو…….” وہ اٹھ کھڑی ہوئی… دونوں نے ایک ساتھ سینما میں مووی دیکھی اور کافی پینے کے لیے ایک اوپن ریسٹورنٹ میں آ گئے…
“تم ایسے ہی سب کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے ہو؟” بےحد رومانٹک ماحول میں سنجیدگی سے کی گئی یہ بات عدن کو اچھی نہیں لگی لیکن وہ اپنا موڈ خراب کرنا نہیں چاہتا تھا…
“سب کو نہیں’ صرف تمہیں…” عدن نے بہت پیار سے کہا…
اس نے سارس سی لمبی گردن کو ادا سے ہلکا سا خم دیا اور کرسی کی پشت سے لگ کر دائیں ہاتھ کو دائیں گال پر رکھ کر اسے دیکھا… وہ الفاظ سے ہی طنز کرنا نہیں جانتی
تھی…
“میں تمہیں کیسا لگتا ہوں……؟” وہ اصل بات کی طرف آنے لگا…
“جیسے تم ہو…….” کافی پیتے جواب دیا…
“کیسا ہوں میں……؟” اس کا دل لڑکیوں کی طرح دھڑک رہا تھا…
“دم کہاں ہے تمہاری…..؟” سر کو ذرا سا جُھکا کر پیچھے اس کی طرف دیکھنے کی اداکاری کی’ نئے نئے محبت کے غبارے سے بھرے عدن کے ایک اور چانٹا آ کر لگا…
“کیا مطلب……؟” یہ سوال اس نے اس لیے کیا کہ شاید وہ مطلب نہ ہو’ جو وہ سمجھ رہا ہے… اس نے کندھے اچکائے اور کافی کا مگ اٹھا کر منہ سے لگا لیا جیسے سنا ہی نہیں’ اس نے کچھ پوچھا ہی نہیں…
اتنے دنوں میں عدن بہت جوڑ توڑ کر چکا تھا… اگر وہ بےحد خوب صورت تھی تو وہ بھی کم نہیں تھا… اگر وہ مس یونیورس تھی تو وہ مسٹر پاکستان تو ضرور ہی تھا……. ایک پوائنٹ یہ ہوا……. دونوں کے والد آپس میں دوست ہیں’ دوسرا پوائنٹ……. دونوں اس رشتے پر خوش ہوں گے تیسرا پوائنٹ اور سب سے اہم پوائنٹ کہ وہ اسے پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرے گا امریکیوں کی طرح نہیں کہ چند دنوں میں چھوڑ جائے…
امریکا ایسے دھوکےباز معاشرے میں عدن جیسے ہیرے کو تو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا……. یہ پوائنٹ زبردست تھا…… بیٹھے بٹھائے اس نے اپنے اندر بےتحاشا خوبیاں کھوج
لیں…… اور اسے اپنی ذات اعلا و ارفع نظر آنے لگی دنیا کا ہر شخص ماریہ کے لیے بےکار اور ناکارہ نظر آنے لگا اور ماریہ اسے اپنی محبت کا دم بھرتی نظر آئی…
“تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو…” اس نے مسکرا کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا…
کافی کا مگ اس نے سامنے میز پر رکھا اور دونوں ہاتھ پیٹ کی طرف باندھ لیے… “رئیلی؟” اس کی ہمت بندھی اور اثبات میں سر ہلایا…
“اتنی اچھی کہ میں تم سےمحبت کرنے لگا ہوں…” اپنی طرف سے اس نے دھماکا کیا…
“گڈ!” وہ اسی انداز میں بیٹھی رہی…
“تم سے محبت کرتا ہوں ڈیر…” دوبارہ اس لیے کہا کہ اسے اچھی طرح بتا دے کہ یہ کوئی عام بات نہیں ہے… ایشیا کے مرد کی محبت بہت بڑی چیز ہے…
“مجھ سے تو ہر دوسرا لڑکا محبت کرتا ہے…”
“مجھ میں اور ان میں فرق ہے…” اب وہ دلائل پر اتر آیا…
“کیا فرق ہے؟” اب وہ دلائل لینا چاہتی تھی…
“میں سچی محبت کرتا ہوں…” اسے صرف یہی بات سمجھ میں آئی کہنے کے لیے…
“سچی محبت کسے کہتے ہیں؟”
“میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں…” اسے یہی جواب مناسب لگا…
“میں تم سے شادی کیوں کروں؟”
“کیونکہ میں تمہارے لیے پرفیکٹ ہوں…” گردن کو اٹھا کر فخر سے کہا…
وہ اتنی زور سے ہنسی کہ آس پاس کی میزوں پر بیٹھے لوگ گردنیں موڑ کر اسے دیکھنے لگے…
“آج رات میرے ساتھ چلو گے… میرے فرینڈز نے ایک پارٹی دی ہے…” سارس سی لمبی گردن تن گئی… اتنی سی بات پر وہ یہ سمجھا کہ وہ اسے اب سب سے ملوانا چاہتی ہے…
“کیوں نہیں……” اس نے بہت جوش سے حامی بھری…
جس وقت وہ اس کے ساتھ پارٹی میں گیا اس کی آن بان شان کی ہوا نکل گئی… پارٹی اور وہاں موجود لوگ اتنے ہائی فائی اور ہائی فیشن ایبل تھے کہ ان سب میں وہ ٹاٹ کا پیوند ہی لگ رہا تھا… اس نے بھی برانڈڈ چیزیں ہی پہنی ہوئی تھیں… جینز…… سوٹ ہینڈ بینڈز……. جیل لگے کانوں سے اوپر کی طرف کھڑے بال چمکتا دمکتا منہ’ ہونٹوں پر بلائنڈ پنک لپ اسٹک’ یہاں آنے سے پہلے گھنٹہ تو اس نے باتھ روم میں ہی گزارا تھا اگلا ایک گھنٹہ ڈریسنگ روم میں…… پھر……. پھر یہ سب ہو گیا؟
وہ سب وہاں ہالی ووڈ کی فلموں کے ہیرو’ ہیروئن لگ رہے تھے… خود کو مسٹر پاکستان سمجھنے والا صرف “مسٹر” بھی نہیں لگ رہا تھا…
جس پہلے لڑکے سے ماریہ نے اسے ملوایا اس نے پیلے رنگ کے اسکن ٹائٹ پینٹ پہن رکھی تھی… سفید ململ کی طرز کے کپڑے کی شرٹ جو پیچھے گھٹنوں سے اوپر تھی اور آگے سے پیٹ تک……. اور جب وہ حرکت کرتا تو وہ ذرا سا پیٹ سے اوپر اٹھ جاتی…
ہیئر اسٹائل فنی تھا… شوز سرخ تھے… گلے میں رسیاں سی پہن رکھی تھیں… اس سب الٹے پلٹے میں وہ بےحد خوب صورت لگ رہا تھا… ہر لڑکی’ لڑکا اپنی جگہ ہر ایک الگ برانڈ بنا گھوم رہا تھا… سب کے اسٹائلز مختلف تھے… کچھ کے عجیب تھے… کچھ کے عجیب تر اور اس سب میں ایک ہی چیز مشترک تھی کہ وہ سب نیلی’ سبز’ بھوری آنکھوں والے ایک سے بڑھ کر ایک شان دار لگ رہے تھے…..
اس کے چہرے پر در آنے والے تاثرات کو ماریہ نے طنزیہ نظروں سے دیکھا’ جیسے پوچھا…
“کیا واقعی تم میرے لیے پرفیکٹ ہو؟”
اس نے بھی اس کی نظریں پڑھ لیں… “سیکھ جاؤں گا یہ سب بھی…”
کچھ دیر تو ماریہ اس کے ساتھ رہی… پھر غائب ہو گئی… وہ اکیلا ہی ادھر ادھر اٹھتا بیٹھتا رہا… پارٹی فائیو اسٹار ہوٹل کی چھت پر تھی… کچھ ہی دیر میں تمام روشنیاں گل کر دی گئیں… خوب ہوہا ہوئی… آسمان پر فائر ورکس سے پہلے پھول بنے… پھر دس سے الٹی گنتی لکھی جانے لگی…
“نائن……. ایٹ……. سیون…” سب یک زبان کان پھاڑنے لگے…
“سکس….. فائیو….. فور…”ہر نمبر الگ رنگ سے آسمان پر جگمگاتا اور پھر پھیل کر معدوم ہو جاتا…
“تھری…… ٹو…… ون…”
“اف! اتنا شور…” عدن نے کانوں میں انگلیاں دے لیں… “ون” کے ساتھ ہی ڈانس فلور کی لائٹس روشن ہوئیں… صرف وہ ڈانس فلور سے ذرا ہی دور تھا… اس کا فلور مختلف روشنیوں سے جل بجھ رہا تھا اور فلور کے عین اوپر لگا بڑا گلوب روشن ہو گیا… وہاں دس جوڑے کھڑے تھے… وہ مختلف پوزیشنوں میں پوز بنائے جامد کھڑے تھے… لڑکیوں نے گھٹنوں تک اونچی فراک پہن رکھی تھی… اونچی ٹیل اور ہیل بہت اونچی تھیں… فلور کی لائٹس روشن ہوتے ہی شور کچھ دیر کو تھما… میوزک بجنا شروع ہوا… میوزک کے بجتے ہی ایک ایک کر کے ہر جوڑے نے اپنا اپنا جامد پوز توڑا اور ناچنا شروع کر دیا…
“اوہ!” عدن کا منہ کھل گیا… چوڑے بڑے گول فلور پر اس کی نظر ماریہ پر پڑی… وہ جس لڑکے کے ساتھ تھی’ اس کی شخصیت کے سحر کے سامنے وہ خود مدھم پڑ گئی تھی…
دو گھنٹے تک اس فلور پر ڈانس ہوتا رہا… ہارنے والے ساتھ ساتھ نکلتے رہے… دس سے چھ اور چھ سے چار رہ گئے… تیسرے نمبر پر ماریہ بھی باہر آ گئی… اس کاسانس پھولا ہوا تھا اور وہ پسینے سے گیلی کو رہی تھی… دونوں نے اتنے کمال کا ڈانس کیا تھا کہ عدن حسد سے جل کر خاک ہو گیا… یہ امریکی ہر کام میں اتنے آگے کیوں ہوتے ہیں اور اتنے باکمال….
تھوڑے سے وقفے کے بعد ریکس نے ڈانس فلور ہر مون واک کی اور مون واک کرتے وہ مائیکل جیکسن کا باپ لگ رہا
تھا… ایک طرف کھڑی ماریہ جوش سے “ہاؤ’ واؤ” کرتی
رہی… اگر عدن اس سے اتنا حسد نہ کر رہا ہوتا تو وہ بھی تالی مارتا اور “واؤ’ واؤ” ضرور کرتا’ اس کے ایسے شان دار بےعیب ڈانس پیش کرنے پر…
عدن کو اس کا جواب مل گیا تھا.. وہ اسی لیے اسے پارٹی میں لائی تھی… اب اگر مذاق میں ہی سہی’ وہ دونوں کا ڈانس مقابلہ کروا لیتی تو اب عدن کا ڈانس دیکھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے… بہت کھرے اور کمال انداز سے ماریہ نے اسے جواب دیا تھا… امریکن ہیرو کے سامنے تو وہ زیرو ہی تھا نا’ اپنے گروپ میں وہ بےشک کمال تھا…
چند مہینے وہ ماریہ کے عشق میں گھلتا رہا… کبھی طیش میں آ جاتا کہ ماریہ کو ضرور مزا چکھائے گا… یہ اس کی پہلی بھرپور بےعزتی تھی’ جو کسی نے کی تھی… خاص کر کسی لڑکی نے… وہ بھولا تو نہیں’ لیکن یاد کر کے تکلیف بھی ہوتی… جب پاپا پوچھتے…
“ماریہ کو فون کیا…… ہائے ہیلو کیا اس سے؟” تو وہ غصے میں آ جاتا…
پھر وہ کبھی امریکا نہیں گیا… پاپا ہی اسے لے کر جاتے
تھے… دو سال بعد جب وہ جانے لگے اور اسے بھی ساتھ لے جانا چاہا تو اس نے صاف انکار کر دیا… پھر اگلے چکروں میں انہیں بھی اندازہ ہو گیا کہ ماریہ نامی چیز ان کے ہاتھ آنے والی نہیں اور اب یہ ماریہ نامی چیز ان کے گھر آئی تھی مہمان بن کر…… ہمیشہ کی طرح کم گو تھی… اپنے آپ میں ہی تھی… لان میں ڈنر کے دوران اس کے ڈیڈ ہی اس کی پلیٹ بھرتے رہے… منہ اس کے کان کے پاس لے جا کر کچھ کہتے تو وہ مسکرانے لگتی… عدن کو محسوس ہوا کہ وہ کسی وجہ سے پریشان ہے… اس کے انداز سے دھماکہ خیزی غائب تھی… وہ جو اسے اپنے انسان اور ماریہ ہونے پر فخر تھا… آج وہ فخر اس کی ذات میں سے نہیں جھلک رہا تھا… اسے فخر تھا کہ اس کی مام ازبکستان کی ہیں اور وہ ازبک بیوٹی ہے…
“کتنی بار سرجری کروا چکی ہو؟” اس نے موقع ملتے ہی اس کے کان میں سرگوشی کی…
اس نے سوالیہ انداز لیے دیکھا…
“اب تو شاہکار بن چکی ہو…”
ایک دم مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیلی اور یہ پہلی مسکراہٹ تھی’ جس میں طنز اور تمسخر نہیں تھا…
“فلرٹ کر رہے ہو؟” آنکھیں ترچھی کیں…
“آٹھ سال پہلے ایسا صدمہ ملا تھا کہ اس قابل بھی نہ
رہا…” ماریہ کی آنکھوں میں سوچ سی در آئی… جیسے وہ یاد کرنا چاہ رہی تھی کہ اس نے کیا کیا تھا…
“تو وہ صدمہ تھا؟”
“صدمے سے بڑھ کر….” اسے دیکھتے ہی سب کچھ عدن کی زبان سے نکلتا ہی چلا گیا… اس نے خود کو نہیں روکا…
ماضی کا ہی سہی ریکارڈ تو خراب نہیں ہونے دینا چاہیے… ایک بار وہ اس میں مبتلا ہوا تھا… ایک بار تو ماریہ کو بھی اس میں مبتلا ہونا چاہیے تھا…
“اوکے…… میں جاننا چاہوں گی’ کیا تھا وہ؟”
“بتانے کے لیے تو مجھے ساری عمر چاہیے….. ہے تمہارے پاس اتنا وقت؟ ساتھ ساتھ بتاتا جاؤں گا…”
وہ اتنی زور سے ہنسی کہ گردن موڑ کر اس کی مام اور ڈیڈ نے اسے دیکھا اور یہی کام عدن کے ماما’ پاپا نے کیا… غلام علی کی آنکھیں چمکنے لگیں… منظر بےحد حسین لگا انہیں اور اس منظر سے بنتا پس منظر بھی…
“کمال ہو جائے گا…” دل میں سوچا… “کمال ہی ہو جائے
گا…”
ڈنر کے بعد ان کے اصرار کے باوجود وہ ان کے گھر نہیں
رکے… اگلے دن عدن ہوٹل چلا گیا… ماریہ کو لے کر مختلف جگہیں گھمائیں اور وہ ساتھ ساتھ رہی… ہنس بھی دیتی تھی… بول بھی لیتی تھی… چند دن وہ اسے ایسے ہی لیے گھومتا رہا… دو بار اس کے مام ڈیڈ پھر ان کے گھر آ گئے… عدن سے بھی لمبی لمبی باتیں کیں… ادھر ادھر کے کئی سوال پوچھے…
“اب آگے کیا کرو گے؟” انداز ایسا تھا کہ کتنے پانی میں ہو میاں؟”
“اپنا اسپتال بناؤں گا… اسی کے لیے پلاننگ کر رہا ہوں…”
“سرجن نہیں بننا؟”
“اس کے بارے میں چند سال بعد سوچوں گا…”
“یعنی ابھی پیسے بنانا چاہتے ہو… اپنے باپ پر گئے ہو…” عدن کو برا تو لگا… لیکن ان کے مقام (دولت کے مقام) کو دیکھ کر خاموش ہی رہا…
“شادی کے لیے کیا پلاننگ کی ہے؟”
“کوئی نہ کوئی تو مجھے پسند کر ہی لے گا…” بہت بھونڈے انداز سے انکساری دکھائی گئی…
“تمہاری بھی کوئی پسند ہو گی؟” سگار کو منہ میں لیا اور تیز نظروں سے اسے دیکھا…
“جو تھی’ اسے بتا دیا تھا…” آنکھوں کا زاویہ ذرا دور بیٹھی ماریہ کی طرف موڑا… وہ دونوں اردو میں بات کر رہے تھے اور ماریہ اردو بہت کم سمجھتی تھی…
انہوں نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا اور کمال انداز سے نظریں واپس موڑیں کہ وہ جان نہ سکے کہ وہ اس کی نظر کے تعاقب میں گئے ہیں…
“کالج کے زمانے میں تمہارے باپ کے بہت معاشقے چلے
تھے…” اتنا کہہ کر وہ جناتی قہقہہ لگا کر ہنسے…”
“اپنے بارے میں بتاؤ! کیا کیا’ کیا کالج میں؟” اتنا کہتے انداز سرگوشی جیسا ہو گیا… جیسے دو دوست آپس میں بیٹھ کر رازداری کی باتیں کرتے ہیں…
عدن کو اندازہ ہو گیا کہ اس انسان نے امریکا میں اسٹورز کی چین کیسے بنا لی… نظر کی نظر پر تھی ان کی…
“چلو! جوانی میں سب چلتا ہے… کیا خیال ہے؟” بہت عقل والے انسان تھے… سیدھی طرح بات بھی نہیں کر رہے تھے اور خود سارے اشارے اکٹھے کر رہے تھے…
اس نے ناچار سر ہلا دیا… ماریہ سے متعلق اشاروں میں بھی ابھی کوئی بات نہیں کی تھی اور خود سارے اشارے اکٹھے کر رہے تھے…
“تمہاری ایک بات مجھے پسند ہے… تم میں تحمل بہت ہے… میری اور غلام علی کی بہت بار لڑائی ہوئی… لڑائی بھی
کیا….. صرف میں ہی لڑا… لیکن غلام علی نے جی جان سے دوستی نبھائی…” پھر جناتی قہقہہ بلند ہوا… “وہی تحمل مجھے تم میں نظر آ رہا ہے…”
نہ جانے یہ تعریف کا کون سا انداز تھا… عدن خوش نہیں ہو سکا…
اس رات وہ واپس گئے تو غلام علی نے عدن کو بڑھ کر سینے سے لگا لیا…
“ڈیر سن…..مبارک ہو…”
وہ سمجھا ہی نہیں…
“تم نے کیا جادو کیا ہے آغا پر؟ وہ خود کہہ گیا ہے تمہارے اور ماریہ کے لیے… مجھے امید تو تھی’ لیکن اس طرح کی بہت سی امیدیں وہ دلائے رکھتا ہے… بہت بار میں نے اسے اپنا پارٹنر بننے کے لیے کہا… لیکن بنا نہیں… اس بار…… مجھے تو یقین نہیں آ رہا کہ…….. کہہ رہا تھا امریکا میں ہی اسپتال بن جائے گا…”
جو کچھ ہو رہا تھا’ وہ عدن کے سامنے ہی تھا… لیکن اس اچانک خبر پر وہ بوکھلا گیا… وہ جانتا تھا کہ ماریہ کبھی نہیں مانے گی… اب وہ کیسے مان گئی’ کس وجہ سے؟
“ہو سکتا ہے انہوں نے ماریہ سے نہ پوچھا ہو…”
“ایسا ہو ہی نہیں سکتا… آغا کچے کام کرتا ہی نہیں ہے…
عدن بہت سی کیفیات کا ایک دم شکار ہوا… پہلی کیفیت حیرانی کی تھی… خود پر حیرانی… اسے معلوم ہوا کہ وہ تو ماریہ کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا اور اتنے سال وہ ماریہ کو ہی دوسری لڑکیوں میں ڈھونڈتا رہا ہے… وہی اس کی پہلی پسند اور محبت تھی… تھوڑی بگڑی ہوئی تھی… لیکن ٹھیک ہو جائے گی… اس کے عورتوں کے لیے مقرر کیے گئے معیار سے ذرا آگے پیچھے تھی… لیکن اتنا تو چل ہی جاتا ہے اور پھر اس سے زیادہ نادر موقع کہاں ملے گا ماریہ کو اپنے آگے پیچھے گھمانے کا’ اس سے بدلہ لینے کا’ اسے اپنی محبت میں مبتلا کرنے کا’ شوہر بن کر اسے ہرانے کا…
دوسری کیفیت میں اسے افق یاد آئی… آج کل وہ اس سے بات نہیں کر رہا تھا… ایک آدھ میسج بھیج دیتا تھا… افق سے متعلق کیفیت بہت عجیب تھی… اسے اب احساس ہو رہا تھا کہ افق دراصل ماریہ کا ہی نعم البدل تھی… ماریہ جتنی ہی حسین’ لیکن افق صرف حسین تھی… ماریہ سب کچھ تھی… ماریہ تو اتنا کچھ تھی کہ وہ اس کے سامنے خود کو بونا سمجھتا تھا… ماریہ ہی اس کی ٹکر کی لڑکی تھی… ایک ایسی لڑکی’ جاے دھکا دے کر یہ نہ کہا جا سکے کہ “جاؤ! مجھے تم سے بات نہیں کرنی…” جس کا فون نہ اٹھایا جائے… ایک ایسی لڑکی نہیں جو روتی ہے’ رلاتی ہے…
کھڑے کھڑے عدن’ ماریہ اور افق کو اوپر نیچے کر رہا تھا… اس نے سوچا کہ زندگی کا مزہ ایک ایسی ہی لڑکی کے ساتھ ہے’ جو غلطی بھی کرے… ناراض بھی خود ہی ہو جائے اور کان پکڑ کر “سوری” بھی کہلوائے… ایسے نہیں کہ وہ خود ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافی مانگے…
عدن بہت ذہین تھا… ایسے ہی نہیں وہ دو دن میں ایک کتاب ہضم کر کے ٹاپ کر جاتا تھا… تبدیلی کو پسند کرتا تھا… خاص کر کسی کو جواب دہ نہیں تھا… اس نے بہت سی لڑکیوں سے دوستی کی تھی اور سب ہی اچھی تھیں… لیکن افق ان سب میں اچھی تھی اور اچھے لوگ اچھی زندگی کے ضامن نہیں ہوتے… وہ اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ برے لوگ انہیں روند کر ان کی لاشوں پر اپنے محل بنا لیتے ہیں… تو ایسے روندے جانے والوں کے ساتھ کون زندگی گزارے…
غلام علی غلام نے ٹھیک کہا تھا کہ وہ اس کا باپ ہے… وہ اپنا باپ خود نہیں ہے… وہ اپنے خون کو جانتے تھے… جس محبت’ محبت کی رٹ اس نے لگائی تھی… ایسی رٹ تو وہ آئندہ زندگی میں بھی بہت بار لگائے گا… محبت تو اسے بہت بار ہو گی… ہر محبت کو وہ حاصل کرنا چاہے گا اور ہر محبت کو بھول بھی جائے گا… یہ محبتیں ساحل پر قدموں کے نشانات سے بھی کم وقتی اور کمتر ہوتی ہیں… بظاہر پاؤں ریت میں بری طرح سے دھنس کر پورا مکمل نشان بناتے ہیں… اور…….. اور سمندر کی ایک معمولی لہر اس معمولی نشان کو اس کی اوقات دکھا جاتی ہے…
وہ ماریہ کو ڈنر کے لیے لے گیا اور جس وقت وہ ماریہ کو انگوٹھی پہنا رہا تھا… ٹھیک اسی وقت افق روتی ہوئی گھر سے باہر لپکی..
“بھابھی جی!” دھاڑ سے ان کا دروازہ کھول کر وہ چلّائی… وہ سب رات کا کھانا کھا رہے تھے…
“بھابھی جی….! اماں……” ننگے پاؤں بنا دوپٹے کے وہ کھڑی تھی… وہ سب فوراً اٹھے… اس کے ساتھ لپکے… اماں کچن میں چولہے کے پاس بےہوش پڑی تھیں… افق زاروقطار رو رہی تھی…
……… ……………… ………
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...