ندا نوراں کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی کہ بانو بھاگتی ہوئی اندر آئی اور ندا کے گلے لگ گئی _ ندا نے بانو کے دونوں ہاتھ تھامے اور بولی :” بانو ! بہت یاد کیا تجھے میں نے ” ۔
بانو نے بھی سر ہلایا اور کہا :” ہاں ندا میں نے بھی ! کیسے اچانک طوفان آ گیا ہماری زندگیوں میں ! ” ۔ بانو نوراں سے بولی :”خالہ ! ہم دونوں باہر باغیچے میں جا رہیں ہیں ! سہی ! ”
نوراں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ دونوں ہاتھ تھامتی کواٹر سے نکلیں اور باغیچے کے ایک کونے میں لگے گلاب کے پودے کے پاس نیچے بیٹھیں ۔ بانو بولی :” ندا اتنا قیمتی جوڑا پہن رکھا ہے کہیں خراب نا ہوجائے ! ” ۔
ندا نے ایک سرد آہ بھری اور استہزیہ بولی :” کپڑوں کی کیا فکر کروں جب زندگی دوبھر ہو گیئ ہے ” ۔
بانو نے بات بدلی :” اچھا یہ بتا تو کیا کھائے گی میں وہ بناؤں گی تیرے لیۓ ! ”
ندا بولی :” رہنے دے جو بنا ہے وہی کھا لوں گی ویسے بھی بیگم صاحبہ کو پتا چلا کہ تو نے میرے لیۓ کچھ الگ بنایا ہے تو کہیں جان ہی نا نکال دیں میری ! ”
بانو نے نفی میں سر ہلایا اور کہا :” وہ تیری جان نکالنے کی غلطی کبھی نہیں کریں گی کیوں کہ پھر تیرا شوہر اسے زندہ نہیں چھوڑے گا ! ”
ندا نے ایک دم اپنی نظروں کا زاویہ موڑا :”ایسا کچھ نہیں ، چل بانو کوئی کام کاج کر بہت موٹی ہوگیی ہے تو ! ” ۔
بانو نے خفگی سے اسے دیکھا :” چل فضول نا بول ! ” ۔
اور دونوں کواٹر کی طرف چل دیں ۔
__________________________________
جیسے ہی ندا اور ذولقرنین نکلے تھے ،فاطمہ کچن میں گئی اور ضیاء کو میسج کیا اور ساری صورتحال بتائی اور یہ بھی کہ ندا سیٹھ کے گھر رہنے گیئ ہے کتنے دنوں کے لیۓ یہ نہیں معلوم ۔ ضیاء نے اسے ذولقرنین اور ندا پر نظر رکھنے کیلیے بھیجا تھا ۔
__________________________________
رات کے دو بج رہے تھے ۔ ندا ہنوز سوچوں میں غرق تھی ۔ ذولقرنین کا خیال آتے ہی ایک دم مسکرائی مگر پر اپنی مسکراہٹ کو سمیٹا ۔ اور دل میں خود سے بولی (ہرگز نہیں میں کیوں سوچوں انھیں اتنا برا کیا ہے میرے ساتھ ! ایسے تو معاف نہیں کروں گی ) ۔ ابھی وہ سوچ رہی تھی کہ دروازہ بجا . ۔ وہ اٹھ کے بیٹھ گیئ ۔ اور نوراں کو دیکھا جو کہ دواؤں کے زیر اثر تھی . ۔ ندا خاموشی سے اٹھی اور دروازے کے قریب جا کر پوچھا :”کون ہے ! ” ۔ مگر کوئی جواب نا ملا ۔ اس نے دروازہ کھولا . ۔ دل میں اک انجانا سا خوف بھی تھا ۔ باہر نکلی اور دونوں طرف دیکھا مگر کوئی زی روح نظر نا آئی ۔ وہ اندر جانے کے لیۓ مڑی کہ پیچھے سے کسی نے اس کے منہ پر کپڑا رکھا جس پر بیہوشی کو دوا لگی ہوئی تھی . ۔ ندا چلانا چاہتی تھی مگر اسکے سارے اعصاب سن ہوگیے ۔ اس بندے نے اسے کندھوں پر اٹھایا اور چل دیا ۔
__________________________________
ذولقرنین کا دل تو نہیں چاہا تھا ندا کو یوں چھوڑ کے آنے پر مگر اسے افغانستان جانا تھا کسی کام کے سلسلے میں ، بس اسی وجہ سے اسنے حامی بھری تھی ندا کو سیٹھ کے گھر چھوڑ کر جانے کی ۔
__________________________________
ندا نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ ایک کمرے میں موجود تھی ۔ اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوۓ تھے اور منہ پر بھی کپڑا بندھا ہوا تھا ۔ اسکے ذہن میں کل رات کا منظر گھوما ۔ اسکی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوئے ۔
دروازہ کھلا اور ایک شخص اندر آیا اور ندا کے چہرے سے پٹی ہٹائی ۔ ندا نے اس شخص کو دیکھا تو وہ ضیاء تھا . ۔ اسکی جان میں جان آئی ۔ بولی :” ضیاء بھائی ! شکر ہے کہ آپ آگیے ! دیکھیں پتا نہیں کون لوگ ہیں مجھے یہاں لے آیے ہیں ۔ میری مدد کریں پلیز ! ” ۔
اسکے خاموش ہونے پر ضیاء بولا :” ہممم! اور اگر میں کہوں کہ میرے کہنے پر یہاں لایا گیا ہے آپ کو تو !؟ ”
ندا کے چہرے کا رنگ بدلہ اور بے یقینی سے ضیاء کو دیکھا اور پر ملال لہجے میں بولی :” میں میں نے آپ کو بھائی مانا تھا اور آپ ! ”
ضیاء ہنسا :” اچھا ہے ! خیر مجھے تو اس بات سے مطلب ہے کہ ذولقرنین کی جان بستی ہے تم میں . ! اور اگر مجھے ذولقرنین کو خود کے سامنے ہرانا ہے تو تم ذریعہ ہو میری جیت کا اور ساتھ ہی موبائل میں ویڈیو چیٹ کھولی . ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
__________________________________
سیٹھ عبدل کریم بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے جب نوراں روتی ہوئی ان کے پاس آئی ۔
وہ نوراں کو دیکھ کر کھڑے ہوئے اور بولے :” کیا ھوگیا نوراں بہن ! ”
نوراں بولی :” صاحب وہ ندا ! ندا نجانے کہاں چلی گیئ ہے ! ”
سیٹھ عبدل کریم ایک دم حیران ہوئے :” ندا ! کیا ندا واپس آ گیئ ہے ! مجھے بتایا کیوں نہیں کسی نے ؟ ” اور ساتھ ہی صالحہ بیگم کو دیکھا جو کوفت سے نوراں کو دیکھ رہی تھیں ۔ سیٹھ عبدل کریم نے افسوس سے انکو دیکھا اور نوراں سے بولے :” آپ فکر نا کریں میں کچھ کرتا ہوں ” ۔ اور باہر کی طرف بڑھے ۔ فون نکالا اور ذولقرنین کو کال ملائی ۔ ” ہیلو ! ذولقرنین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
__________________________________
ذولقرنین نکلنے ہی والا تھا کہ اس کا موبائل بجا ۔ اس نے کال پک کی ۔ ” آج سیٹھ عبدل کریم نے ذولقرنین جمال کو خود کال کی ! کیا بات ہے ! ” اور ساتھ مسکرایا ۔ مگر اگلے ہی لمحے اسکی مسکراہٹ غائب ہوئی اور اس کے چہرے کا رنگ بدلہ . ۔ مرزا ایک قدم اس کے قریب ہوا ۔ ” باس ! کیا سب ٹھیک ہے ؟ ” ۔ ذولقرنین نے فون بند کیا اور گاڑی کے بونٹ پر ہاتھ مارا : ” ضیاء ! ۔ ۔ ۔ ۔ اب نہیں بچے گا تو ! ” ۔ اور ساتھ گاڑی کا دروازہ کھولا ۔ ابھی گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ اسکے موبائل پر ویڈیو کال آئی ۔ ذولقرنین نے کال اٹھائی تو ضیاء اسکو نظر آیا ۔ :” کیسے ہو چیمپئن ؟ اوہ معذرت بھول گیا ۔ چیمپئن تو تم پانچ سال پہلے تھے ، آج تو تم ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح ہو ذولقرنین جمال ! ” ۔ اورکیمرے کا رخ ندا کی جانب کیا جو اسے دیکھ کر بولی :” ذولقرنین پلیز ! مجھے بچا لیں ! پلیز !!!! ”
ذولقرنین بولا :” ضیاء ! ضیاء اگر میری بیوی کے ایک بال کو بھی تم نے چھوا نا تو تمہارا وہ حشر کروں گا کہ تم موت بھی مانگو گے تو نہیں ملے گی سمجھے ” ۔
ضیاء ہنسا :” بڑے بول مت بولو ذولقرنین جمال ! چلو ایک ڈیل کرتے ہیں ! تمہارے پاس چار گھنٹے ہیں ! ان چار گھنٹوں کے بعد اگر تم نے ہمیں ڈھونڈ لیا تو تم مجھے مار دینا اور اگر تم نا ڈھونڈ سکے ہمیں تو میں تمہاری بیوی کو مار دوں گا ! کیسا ؟ ہممم !” ۔
ذولقرنین کی رگیں تنیں :” بہت پچھتاؤ گے ضیاء صدیقی ! بہت زیادہ ! میں تمہیں ڈھونڈ نکالوں گا اور اگلی سانس بھی تم پر حرام کر دوں گا ”
ضیاء بولا: “دیکھتے ہیں ذولقرنین جمال دیکھتے ہیں ! ” ، اور کال کاٹ دی ۔
ذولقرنین گاڑی سے نکلا اور موبائل زمین پر پھینکا ۔ مرزا نے اس کو دیکھا اور بولا :” باس ! ہم ضیاء کو ڈھونڈ لیں گے ۔ آپ بے فکر رہیں ! ” ۔
ذولقرنین نے کوئی جواب نا دیا اور اندر کی جانب بڑھا ۔ کچن سے باتوں کی آواز پر اس طرف قدم بڑھائے ۔ فاطمہ کسی سے فون پر بات کر رہی تھی . ۔ ” ارے نہیں مجھ پر کسی کو شک نہیں ۔ ہاں جیسے ہی ذولقرنین یہاں سے نکلے گا میں بھی بھاگ جاؤں گی ۔ فکر نا کرو ” ۔ ذولقرنین غصے سے آگے بڑھا اور فاطمہ کے ہاتھ سے موبائل چھین کر دیوار پر دے مارا اور اسکا چہرہ بے دردی سے جکڑا :” کہاں ہے ضیاء ! ہممم ! بولو ؟ ” ۔
فاطمہ بولی :” وہ مجھے نہیں پتا ! ” ۔ ذولقرنین نے دباؤ بڑھایا ۔ فاطمہ درد سے چلائی ، پھر بولی :” مجھے نہیں پتا واقعی میں مگر مگر ایک بندے کو جانتی ہوں جس کو ضیاء کے ٹھکانے کا معلوم ہوگا ! ” ۔ ذولقرنین نے اسے چھوڑا :” کون ہے بتاؤ ! جلدی ” ۔
فاطمہ بولی :” وہ جنید ! جسے ندا کو اغوا کرنے کا کام دیا تھا ضیاء نے ! ”
“کہاں ملے گا یہ شخص ؟” ، اب کی بار مرزا بولا ۔
فاطمہ نے انکو ایک گودام کا اڈریس دیا ۔ ذولقرنین فورا باہر کی طرف بڑھا ۔ مرزا بھی اسکے پیچھے بھاگا ۔
__________________________________
” ارے جنید ! بہت بےغیرت ہے تو ! سارا اچھا مال تو رکھ لیتا ہے اور ہمیں ____”
ابھی اس بندے کی بات پوری نا ہوئی تھی کہ ذولقرنین اندر آیا اور اونچا سا بولا :
” یہاں پر جنید کون ہے ؟”
جنید دو قدم آگے بڑھا ، ذولقرنین نے اسکی طرف قدم بڑھائے اور اس پر مکوں کی برسات کردی ۔ جنید زخمی سا درد میں تڑپ رہا تھا جب ذولقرنین نے اپنی پستول نکالی اور جنید کے ماتھے پر رکھی :”کہاں چھوڑ کر آیے تھے تم اس لڑکی کو ؟”
، جنید نے ٹوٹے ہوئے لفظ ادا کیے :” وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
__________________________________
ندا خوف سے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی . ۔ اسے لگ رہا تھا کہ اسکی موت اس سے چند قدم کی دوری پر ہے ۔ اسے احساس ہوا تھا کہ ذولقرنین جیسا بھی تھا کم ازکم وہ کبھی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا . ۔ شدت سے آج اسے اس جلاد کی طلب ہوئی تھی ۔ وہ ابھی انہی سوچوں میں تھی کہ دروازہ کھلا ، بلکہ جیسے توڑ کر کھولا گیا ۔ اسنے آنکھیں کھولیں تو ذولقرنین اسکی طرف آ رہا تھا ۔ ندا اسے دیکھ کر بولی :” زول ۔ ۔ ذولقرنین ! آ آپ آگیے !” ۔ ذولقرنین نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پاؤں کھولے اور اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا :” ندا ! تم ٹھیک ہو ؟ کچھ ہوا تو نہیں تمہیں ! ” ۔ ندا نے نفی میں سر ہلایا ۔ ضیاء کی آواز پر دونوں پلٹے ۔
” ارے بہت خوب ذولقرنین جمال ! تم نے ڈھونڈ نکالا اپنی بیوی کو ! “، اور ساتھ ہی پستول نکالی اور بولا :” پر اب میں نے ڈیل میں کچھ تبدیلی کردی ہے ذولقرنین جمال ! بیوی کو تو تم نے ڈھونڈ لیا مگر اب زندہ تم نہیں بچو گے ! ” ۔
ذولقرنین نے ندا کو اپنے پیچھے کیا اور اپنی پستول نکالی :” مگر میں تو پرانی والی ہی ڈیل پر عمل کروں گا ضیاء صدیقی ! ” ،دونوں نے ایک ساتھ ہی اپنی اپنی پستول کا رخ ایک دوسرے کی طرف کیا . ۔ ندا نے زور سے ذولقرنین کی شرٹ تھامی اور آنکھیں موندیں ۔ تین فائر کی آواز آئی ۔
__________________________________