ذولقرنين کمرے سے باہر نکلا تو سامنے مرزا کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھ کر ٹھٹکا ۔ اور پھر مرزا کے قریب گیا ۔ “مرزا ! کون ہے یہ ؟ ” اور ساتھ ہی جانجتی نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا ۔ مرزا بولا :”باس ! یہ فاطمہ ہے ، میں نے اسے اس لڑکی کے لیۓ رکھا ہے جس کو آپ لے کر آئے ہیں ” ۔
ذولقرنین بولا :” ہمم ! سہی ! ، میری بات سنو مرزا ! ” ۔ اور مرزا کو اپنے ساتھ لے کر فاطمہ سے تھوڑے سے فاصلے پر کھڑا ہوا ۔ ” مرزا ! اس لڑکی پر نظر رکھنا سمجھے ! ” مرزا نے اثبات میں سر ہلایا ۔ تھوڑے توقف کے بعد ذولقرنین بولا :” نکاح خواں کا بندوبست کرو ” ۔
مرزا نے حیرانی سے ذولقرنین کو دیکھا :” تو کیا آپ باس اس سے نکاح ۔ ۔ ۔ ! ”
ذولقرنین نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا :” ہاں مرزا ہاں ! چلو اب دیر نا کرو ” ۔ مرزا باہر کی جانب چل دیا ۔
ذولقرنین نے اس دروازے کی طرف دیکھا جس کے پیچھے اس کا عشق قید تھا ۔ بہت ظالم ہے ذولقرنین جمال ! بھلا عشق کو کوئی قید کرتا ہے ؟ ۔
__________________________________
ندا اسی طرح بیٹھی رو رہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز پےسرعت سے سر اٹھایا ۔ اسکی توقع کے خلاف ایک لڑکی کھڑی تھی جس کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا ۔ ندا نے اس کے پیچھے دیکھا تو کوئی نا تھا وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ لڑکی بولی :” میرا نام فاطمہ ہے ! اور تمہارا ! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ابھی اسکی بات پوری نا ہوئی تھی کہ ندا نے اسے دھکا دیا اور باہر کی طرف بھاگی ۔ فاطمہ گرتے گرتے بچی ۔ ندا کمرے سے باہر نکلی اور داخلی دروازے کی طرف بھاگی مگر اسی لمحے دروازہ کھلا اور زولقرنین اندر کی جانب بڑھا ۔ ندا کے قدم وہیں رکے . فاطمہ اس کے پیچھے بھاگتی ہوئی باہر آئ ۔ پہلے تو ذولقرنین کو سمجھ نا آئ ۔ مگر جب آئ تو ندا کی طرف بڑھا اور غصے سے بولا :” کہاں بھاگ رہی تھی ! ” ۔ ندا نے بےبسی سے اسے دیکھا :” کہیں بھی نہی ! ” ۔
ذولقرنین نے اس کا ہاتھ تھاما اور کمرے کی طرف لے کر بڑھا ۔ فاطمہ بھی کمرے میں داخل ہوئی ۔ ذولقرنین نے ندا کا ہاتھ چھوڑا اور تنبیہی نظروں سے فاطمہ کو دیکھ کر بولا :” اگر یہ پھر بھاگی یہاں سے تو تمہارا لڑکی ہونے کا بھی لحاظ نہیں کروں گا سمجھیں ! ” ۔ اور ندا کی طرف مڑا :” کچھ دیر بعد نکاح ہے ہمارا ۔ یہ کپڑے پہن لینا اور انکار نا کرنا ، ورنہ سوچ لینا انجام اپنا ! ” ۔ ذولقرنین پھر رکا نہیں ! اور کمرے سے باہر چلا گیا ۔ ندا کی آنکھیں بھیگیں . فاطمہ نے آگے بڑھ کر اس کی کمر سہلائی اور شاپر اسکی طرف بڑھایا ۔ ندا نے بے دلی سے کپڑے نکآل کے دیکھے ۔ گرے کلر کا خوبصورت جوڑا تھا جس پر کہیں کہیں سفید موتی لٹک رہے تھے ۔ ندا نے اپنی زندگی میں اتنا خوبصورت جوڑا پہننا تو دور کی بات دیکھا تک نا تھا . ۔ مگر اس وقت وہ اپنی بےبسی کے ہاتھوں مجبور تھی ۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ ضرور خوش ہوتی ۔ فاطمہ کے کہنے پر کپڑے بدلنے لگی ۔
__________________________________ مرزا نے ذولقرنین کو آ کر خبر دی کے نکاح خواں آ چکا ہے ۔ ذولقرنین کمرے سے باہر آیا اور ندا کے کمرے کی طرف بڑھا ۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ندا سامنے کھڑی آنسوں بہا رہی تھی اور فاطمہ سے کہ رہی تھی :” مجھے نہیں کرنا یہ نکاح فاطمہ ! کچھ کرو ! نکالو یہاں سے مجھے ! ” ۔ ندا کی نظر اس پر پڑی ۔ جو آف وائٹ شلوار قمیض میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔
ذولقرنین نے آگے بڑھ کر اسکی کہنی کو بیدردی سے دبوچا : ” میں نے کہا تھا نا کہ مجھے انکار پسند نہیں ! چلو !” ۔ اور اسے اپنے ساتھ کھینچتا ہوا باہر لے گیا ۔ ڈرائنگ روم میں نکاح خواں بیٹھا تھا ۔ ذولقرنین ندا کو اپنے ساتھ لے کر وہاں آیا اور سوفے پر بٹھایا ۔ ندا نے التجایا نگاہوں سے ذولقرنین کو دیکھا جسے وہ بہت آرام سے نظر انداز کر گیا ۔ نکاح خواں کے بولے جانے والے الفاظ ندا کے لیۓ کسی امتحان سے کم نا تھے ۔ تیسری دفعہ پوچھنے پر ندا نے کپکپاتی ہوئی آواز میں قبول ہے کہا ۔ اور پپرز پر سائن کیے ۔ ذولقرنین نے بھی سائن کیے ۔ دعا مانگنے کے بعد فاطمہ ندا کو وہاں سے لے آئی ۔ مزید ندا خود پر قابو نا رکھ سکی اور رونے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ” یہ کیا ہوگیا ہے ! کیوں اتنی مشکل ہوگئی ہے زندگی میری !”۔ وہ یوں ہی رو رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور ذولقرنین اندر آیا ۔
اور اسکے سامنے دوزانو بیٹھا :” چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد ذولقرنین نے اس کے دونوں ہاتھ تھامے اور بولا :” تم میرا عشق ہو ! ذولقرنین جمال کا عشق ! ” ، اور ایک ہاتھ سے اس کی گردن میں موجود تتلی کو چھوا ۔ ندا نے اسکا ہاتھ جھٹکا :” مگر ذولقرنین جمال صرف اور صرف میری نفرت ہے ” ، اور اپنا ہاتھ چھڑوایا ۔
” مجھے واپس جانا ہے ! ” ۔ اور ساتھ کھڑی ہوئی ۔ ذولقرنین بھی ساتھ کھڑا ہوا اور اسے دیکھ کر بولا :” اچھی لگ رہی ہو مسز ذولقرنین ! ” ۔ ندا نے گھور کر ذولقرنین کو دیکھا تو وہ ایک دم ہنس پڑا ، ندا نے آج پہلی دفعہ اسے ہنستے دیکھا تھا اور یہ بھی نوٹ کیا تھا کہ اسکی آنکھیں بھی اسکی ہنسی کا ساتھ دے رہی تھیں ۔ ندا نے دل میں سوچا (ہونہ جلاد بھی ہنستے ہیں کیا ! ۔ ) ۔ ذولقرنین نے اسکی سوچ کو فل سٹاپ لگایا ۔ ” جا سکتی ہو تم ! ” ۔ اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر اسکے کان میں سرگوشی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاگ آرہی ہے ، سانس جا رہی ہے
جان کھا رہی ہے ، بات نا رہی ہے
میں کوئی شاعر نہیں ،فنکار نہیں
مشہوری پے بھی نا رکھتا یقین
ہوں چھوٹا سا اک آدمی ، گزارش یہی
مجھ کو بھول نا جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا مقصد نہیں ، نا حسرت کوئی !
ایک خواہش دبی ، تم سن لو ابھی
کچھ مانگا نا تم سے کبھی
گزارش وہی ، مجھ کو بھول نا جانا !
اور پیچھے کو ہوا ، ندا دم سادھے کھڑی تھی اور زور سے آنکھیں میچ رکھی تھیں ۔ ذولقرنین نے اسکا ہاتھ تھاما اور اور اپنا لمس چھوڑا ۔ ندا نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور اپنا ہاتھ کھینچا اور پھر دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے چھپا لیۓ ۔ ذولقرنین اس کی اس حرکت کو دیکھ کر بہت زور سے ہنسا ، پھر بولا :” چلو آؤ میں چھوڑ آؤں تمہیں ! ” ۔ اور باہر کی جانب چل دیا ۔ ندا نے بھی شکر ادا کیا ۔ اور اسکے پیچھے چل پڑی۔ __________________________________
ذولقرنین نے گاڑی سیٹھ عبدل کریم کے گھر کے سامنے روکی ۔ ندا گاڑی سے اتری اور بھاگ کر اندر کی طرف بڑھی مبادا ذولقرنین جمال پھر سے واپس نا لے جائے۔ ہال میں داخل ہوئی تو صالحہ بیگم کی اس پر نظر پڑی ۔ انہوں نے سر تا پر اسے دیکھا جو گرے فراک میں بہت پیاری لگ رہی تھی اور دوپٹہ سہی سے سر پے لے رکھا تھا ۔ وہ اسکی طرف بڑھیں اور اسے تھپڑ مارا ۔ ندا نے بے یقینی سے انھیں دیکھا ۔ اور بولیں :” کیا گل کھلا کر آرہی ہو تم یہاں ! ” ۔ اندر آتا ذولقرنین سب کچھ دیکھ چکا تھا ۔ آگے بڑھ کر اسنے ندا کو اپنے پیچھے کیا اور صالحہ بیگلم کو قہر آلود نظروں سے دیکھا :”میری بیوی کو طرف کسی نے غلط نگاہ بھی اٹھائی تو وہ زندہ نہیں بچے گا ۔ تھپڑ مارنے والے کا انجام خود سوچ لیں مسز عبدل کریم ! اور ہاں میں ندا کو یہاں پر چھوڑکر جا رہا ہوں دو دنوں کے لیۓ ، اور اگر اس دوران ندا کے ساتھ کچھ بھی غلط ہوا تو کوئی بھی زندہ نہی رہے گا ! سمجھیں ؟” ۔ اور ندا کی طرف مڑا :” جاؤ تم اپنی خالہ سے مل آؤ ! ” ۔ ندا اثبات میں سر ہلاتی وہاں سے نکل آئ ۔
__________________________________
ندا کواٹر کی طرف بڑھی اور خالہ اما سے گلے لگ کر رونے لگی ۔ نوراں بھی اپنے آنسوؤں نا روک سکی ۔ جب دونوں کا دل ہلکا ہوا تو نوراں بولی :” کہاں تھی تو ندا بچے ! میں بہت پریشان ہوگیی تھی ! ” ، ندا نے کچھ خاموشی کے بعد سب کچھ بتا دیا ۔ نوراں نے کرب سے آنکھیں میچیں ۔ ندا نے اسکی گود میں سر رکھ کر آنکھیں موندھ لیں . ۔ نوراں اس کے بالوں میں نرمی سے انگلیاں پھیرنے لگی ۔
__________________________________
ضیاء کو خبر مل چکی تھی کہ ذولقرنین اس لڑکی سے نکاح کر چکا ہے ۔ تب سے اس کے ذہن نے اور تیزی سے کام شروع کر دیا تھا ۔ اسنے ایک کال ملائی ۔ ہاں جنید ! میں تمہیں ایک اڈریس بھیجتا ہوں وہاں سے کسی کو اٹھوانا ہے !
__________________________________