ذولقرنین سے بات کر کے ضیاء نے فون رکھا ۔ وہ پینتالیس کے لگ بھگ اک مظبوط اعصاب کا مالک تھا ۔ اسکی سرمئی آنکھیں گہری سوچ میں غوطہ زن تھیں ۔ کچھ سوچ کر اسکے چہرے پے مسکراہٹ ابھری ۔ گاڑی کے مسلسل بجنے والے ہارن نے اسے اسکی سوچوں سے نکالا ۔ ڈرائیور سے مخاطب ہوا ۔ “کیا مسلہ ہوگیا ہے ! کیوں ہارن پے ہارن بجا رہے ہو ؟ ۔”
“سر وہ لڑکی سڑک کے درمیان چل رہی ہے ۔ ہٹ ہی نہی رہی !”، ڈرائیور بولا ۔ ضیاء نے ونڈ سکرین کے پار دیکھا تو واقعی اک لڑکی اپنی دھن میں ہی چلی جا رہی تھی ۔ اس سے پہلے ضیاء کچھ کہتا گاڑی اس لڑکی سے ٹکرا گئی ، ڈرائیور کے بروقت بریک سے وہ کچلے جانے سے بچ گئی ۔ ضیاء پھرتی سے گاڑی سے اترا اور اس لڑکی کو دیکھا جو ابھی بھی کچھ ہوش میں تھی ۔ “اوہ گاڈ ! تمہارا تو خون نکل رہا ہے ! کیا مصیبت ہے . اسے ہسپتال لے جانا پڑے گا !”، اور آگے بڑھ کر ندا کو اٹھایا ۔ وہ اب بلکل بیہوش ہو چکی تھی ۔ ڈرائیور بولا :”سر ! اسے ہسپتال لے کر گیے تو پولیس کیس نا بن جاۓ ! اسے گودام لے چلتے ہیں وہاں ڈاکٹر کو بلا لیں گے!”
ضیاء کو بھی مشورہ اچھا لگا سو ڈرائیورکو گودام کی طرف جانے کا کہ دیا ۔
__________________________________
بانو نوراں کے کواٹر میں آئ اور نوراں کو دیکھا ، نوراں نے بانو پے اک سرسری نگاہ ڈالی اور بولی : ” بانو ! ندا یہاں نہیں ہے ! ” ، بانو نے دکھ سے نوراں کی طرف دیکھا ،” پتا ہے ! نوراں خالہ تجھے صاحب بلا رہے ہیں !”
نوراں پریشان ہوئی :”کہیں ندا نے تو کوئی غلطی نہیں کی ! سب ٹھیک ہے نا بانو ؟”
بانو نے نفی میں سر ہلایا :”نہیں ! کچھ بھی ٹھیک نہیں خالہ ! تو آ صاحب بتاتے ہیں تجھے ! ”
نوراں پریشان سی اٹھی اور بانو کے ساتھ چل دی ۔
__________________________________
سیٹھ عبدل کریم نے جب سے ساری بات نوراں کو بتائی تھی اسکا رو رو کر برا حال تھا ۔ بانو اسے چپ کروا رہی تھی کہ صالحہ بیگم بولیں : ” بس نوراں بس ! یہ جھوٹے آنسوں مت بہاؤ ! سب پتا ہے ڈرامے ہیں ! سہی ہوگی محترمہ جہاں بھی ہوگی! ایویں میں ہلکان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ! “.
سیٹھ عبدل کریم نے غصے سے صالحہ بیگم کو گھورا ، اور نوراں سے بولے :” میں نے وعدہ کیا تھا ندا بیٹی سے کہ ہم تمہارا خیال رکھیں گے ! تم جاؤ نوراں پریشان نا ہو وہ جب ٹھیک جگہ پہنچ گئی تو اطلاع دے دے گی ! جاؤ بانو ! لے جاؤ نوراں کو ! ”
اور بانو نوراں کو کمرے سے باہر لے گئی ۔
صالحہ بیگم بولیں :”اپنے مسائل کیا کم ہیں کہ ان کی بھی فکریں ہم پال لیں؟ ابھی آج صبح ہی تو ندا کی وجہ سے زخم ملا آپ کو !”.
“بس صالحہ بیگم میں اور کچھ نہیں سننا چاہتا ! ۔ مجھے اکیلا چھوڑ دیں !”، سیٹھ عبدل کریم بیزاری سے بولے ۔ صالحہ بیگم تن فن کرتیں کمرے سے باہر چلی گیں ۔
__________________________________
ندا نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو کے بیٹھی ۔ سر میں اک ٹیس سی اٹھی ۔ تھوڑی دیر سر کو تھام کر بیٹھی رہی جو پٹی میں جکڑا ہوا تھا ۔ پھر ارد گرد نظر دوڑائی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک گودام میں موجود تھی ۔اسنے نظر گھما کر ادھر ادھر دیکھا تو ایک دروازہ نظر آیا وہ اسکی طرف بڑھی اور زور زور سے دروازہ پیٹا اور ساتھ بولی : ” کوئی ہے ؟ مجھے باہر نکالو یہاں سے ! کوئی مدد کرو میری! ” ایک دم سے لاک کھلنے کی آواز آئی ۔وہ دروازے سے دو قدم پیچھے ہٹی ۔ اندر داخل ہونے والے نے اسے ایک نظر دیکھا اور دروازہ اندر سے بند کر کے اسکی طرف مڑا ۔ ندا نے خوف سے اس شخص کو دیکھا جو لگ بھگ پینتیس سال کا دکھ رہا تھا ۔ ندا نے اس سے کہا :” دیکھو ! مجھ ۔۔۔ مجھے جانے دو ! ” ۔ وہ شخص ندا کی طرف بڑھا اور اسے بغور دیکھا ۔اس نے نیوی بلیو چادر سے خود کو سہی سے ڈھانپ رکھا تھا ، کچھ بکھری لٹیں چہرے کو چھو رہی تھیں ۔ اور سیاہ آنکھوں میں خوف کی اک بستی آباد تھی ۔ ضیاء اسکی طرف بڑھا تو ندا چند قدم پیچھے کو ہوئی ۔ “میرے ۔ ۔ میرے قریب آنے کی ضرورت نہیں ! دددوور رہو مجھ مجھ سے ! “.
ضیاء نے ہاتھ کے اشارے سے اسے ریلکس کرنے کی کوشش کی اور بولا : ” لڑکی میں کچھ نہیں کہوں گا تم کو ! تم اپنا نام بتاؤ ! اور جگہ بھی کہ تم کہاں رہتی ہو ؟ تمہیں وہاں پہنچا دیا جائے گا ! “.
ندا نے سکون کا سانس لیا اور بولی :”میں میں وہاں واپس نہیں جاؤں گی ! وووہ مجھے لے جائے گا اپنے ساتھ ! “.
ضیاء نے بیزاری سے اسے دیکھا اور بولا :”لڑکی میرے پاس ٹائم نہیں جلدی بولو کون لے جائے گا ؟ کہاں لے جائے گا ؟”.
ندا چند پل خاموش رہی اور پھر بولی :” ذولقرنین! ذولقرنین جمال! وہ لے جائے گا زبردستی مجھے ! ” . ضیاء ایک دم چونکا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
__________________________________
ضیاء کا انتظار کرتے ہوۓ اسے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا اور اب اسکا پارہ ہائی تھا ، “بس مرزا بہت ہوگیا ! چلو یہاں سے ! وہ کمینہ مجھے اپنا انتظار کروا کے اپنی اہمیت بتانا چاہتا ہے جو کہ دو کوڑی کی بھی نہیں ہے ! “.
مرزا بولا :” ٹھیک ہے باس ! چلیں ! “،
وہ اٹھے ہی تھے کہ اسے ضیاء آتا دکھائی دیا ۔ ذولقرنین رک گیا ۔ ضیاء نے قریب آ کے اس سے ہاتھ ملایا ۔ ” ذولقرنین جمال ! کیسے ہو ؟ آفٹر آل پانچ سال بعد ملے ہیں ! “،
ذولقرنین استھزیہ ہنسا :”بلکل ! میرا وقت پہلے بھی بہت ضائع ہو چکا ہے تو کام کی بات کرو ضیاء ! ” ،
ضیاء بولا : ” ہاں کیوں نہیں ! کرتے ہیں بیٹھو !”، ذولقرنین اسکے مقابل بیٹھ گیا ۔
__________________________________
ضیاء سے مل کر ذولقرنین نے کچھ کام نمٹائے ۔ اور گھر واپس آیا ۔ “مرزا ! ندا کا کچھ پتا چلا ! ” ، ذولقرنین نے مرزا سے سوال کیا ۔
مرزا نے تھوک نگلی : ” نہیں ! نہیں باس ! مگر جلد پتا لگ جائے گا آپ بےفکر رہیں !”
ذولقرنین نے مرزا کا گریبان پکڑا :” جلد معلوم ہوجائے تو بہتر ہے سب کے لیے !”، اور جھٹکے سے مرزا کو چھوڑا ۔ کمرے میں خود کو بند کیا اور بیڈ کے ساتھ نیچے بیٹھ گیا ۔ اپنی آنکھیں موندیں تو وہی آنسوں سے لبریز سیاہ آنکھیں سامنے آئیں ۔ ذولقرنین نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولا :”تم جہاں کہیں بھی ہو میں تمہیں ڈھونڈ نکالوں گا ! تم میری ہو صرف اور صرف میری ! ذولقرنین جمال کی !” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بےخیالی میں بھی تیرا ہی خیال آے !
کیوں بچھڑنا ہے ضروری ؟ یہ سوال آے
تیری نزدیکیوں کی خوشی بے حساب تھی
حصے میں فاصلے بھی ترے بے مثال آے
میں جو تم سے دور ہوں کیوں دور میں رہوں !
تیرا غرور ہوں ، آ تو فاصلہ مٹا ،
تو خواب سا ملا ، کیوں خواب توڑ دوں ؟
بےخیالی میں بھی تیرا ہی خیال آے !
کیوں جدائی دے گیا تو؟ یہ سوال آے
تھوڑا سا میں خفا ہوگیا اپنے آپ سے.….
تھوڑا سا تجھ پے بھی بےوجہ ہی ملال آے
ہے یہ تڑپن ،ہے یہ الجھن، کیسے جی لوں بنا تیرے !
میری اب سب سے ہے ان بن! بنتے کیوں یہ خدا میرے؟
یہ جو لوگ باگ ہیں ،جنگل کی آگ ہے !کیوں آگ میں جلوں ؟
یہ ناکام پیار میں ،خوش ہے یہ ہار میں ،ان جیسا کیوں بنوں!
راتیں دیں گیں پتا ، نیندوں میں تیری ہی بات ہے !
بھولوں کیسے تجھے؟ تو تو خیالوں میں بھی ساتھ ہے!
بےخیالی میں بھی تیرا ہی خیال آے !
کیوں بچھڑنا ہے ضروری ؟یہ سوال آے
تیری نزدیکیوں کی خوشی بے حساب تھی
حصے میں فاصلے بھی ترے بے مثال آے
نظر کے آگے ہر اک منظر ریت کی طرح بکھر رہا ہے.
درد تمہارا بدن میں میرے زہر کی طرح اتر رہا ہے!
آزمانے ! آزمالے روٹھتا نہیں !
فاصلوں سے حوصلہ یہ ٹوٹتا نہیں !
نا ہے وہ بیوفا اور نا میں ہوں بیوفا
وہ میری عادتوں کی طرح چھوٹتا نہیں!…….
__________________________________