آج کی صبح جہاں کسی کا سکون چھیننے کے لیے ابھری تھی وہاں ذولقرنین کو شائد اسکا سکون لوٹانے کے لیے نکلی تھی ۔ جس کی تلاش وہ شائد برسوں سے کر رہا تھا وہ سکون جو ماں کے جانے کے بعد سے اس پے شائد حرام ہو گیا تھا مگر اس ایک لڑکی کے چند کہی ہوئے جملوں نے اس کے دل پے چوٹ لگائی تھی ۔ سیٹھ عبدل کریم سے اس نے ندا کو مانگا تھا پیسوں کے بدلے ۔چچچچ !!!! لیکن ایک جیتے جاگتے انسان کا کاغذ کے ٹکڑوں سے کیا مقابلہ ؟مگر یہ بات ذولقرنین جمال کو کون سمجھائے ! ذولقرنین اپنی سوچوں میں گم کمرے کی بالکنی پے کھڑا صبح کے سورج کو دیکھ رہا تھا کہ مرزا نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔اس نے مڑ کر مرزا کو دیکھا ، “کہو مرزا کیوں آئے ہو ؟ ”
مرزا نے اسے دیکھا ، ” وہ ایک بری خبر ہے ! ”
ذولقرنین نے آنکھیں سکیڑیں ،” کیا خبر ؟ جلدی بکو ! ”
“وہ ضیاء صدیقی واپس آ گیا ہے ” ۔ مرزا نے نظریں نیچے جھکایں اور سوچا (اب خیر نہیں کسی کی بھی !)
ذولقرنین نے آگے بڑھ کے مرزا کو ایک مکا جڑا ۔ مرزا کا ہونٹ پھٹا ۔
“کب واپس آیا وہ افغانستان سے ہممم؟ تمہیں علم نہیں تھا مرزا کہ وہ واپس آ رہا ہے تو تم کوئی انتظام کر کے رکھتے اسے افغانستان میں ہی روکنے کا ؟” وہ هیزيانی کیفیت میں چلا رہا تھا اور جو چیز اس کے ہاتھ میں آ رہی تھی وہ زمین بوس ہو رہی تھی ۔ ۔
مرزا نے ایک ٹھنڈی سانس لی ۔ اور کمرے سے باہر آگیا ۔ ذولقرنین کے لیے فلحال اکیلا رہنا ہی مناسب تھا ۔
اندر ذولقرنین سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے سب سے بڑے حریف کو کیسے بھول گیا جس کا سارا کا سارا دھندھا ذولقرنین جمال کی وجہ سے ٹھپ ہوگیا تھا اور پولیس کا شکنجہ ضیاء کے گرد تنگ ہوتا چلا گیا تھا ۔ سو ضیاء کو اپنی جان بچانے کے لیے افغانستان کا رخ کرنا پڑا اور اب جب پانچ سال بعد وہ پھر سے پاکستان میں اپنے قدم جمانے کے قابل ہوگیا تو اب لوٹ چکا تھا وہ ۔ اور اب کی بار تو ذولقرنین جمال سے بھی حساب برابر کرنے آیا تھا ۔ اور ذولقرنین کو کیا معلوم تھا ایک اور شاک اسی کے انتظار میں تھا –
__________________________________
ندا ناشتہ بنا رہی تھی کہ بانو کچن میں داخل ہوئی ۔ ” ندا ! تجھے صاحب بلا رہے ہیں” ۔ ندا نے حیرانی سے اسے دیکھا ، “کیا مجھے؟ ”
“ہاں نہیں تو اور کون ندا ہے اس گھر میں تیرے علاوہ !” بانو نے بیزاری سے کہا ۔
ندا کشمکش میں مبتلا کچن سے نکلی اور ڈوپٹے سے ہاتھ صاف کرتی سیٹھ عبدل کریم کے کمرے میں داخل ہوتے ھوۓ پوچھا ، “میں اندر آ جاؤں صاحب !؟ ”
انہوں نے عینک کے پیچھے سے اسے دیکھا اور سر سے اندر آنے کا اشارہ کیا ۔ وہ دروازہ بند کر کے آگے آئ تو صالحہ بیگم بھی کمرے میں موجود تھیں ۔ انکی نظروں میں ندا کو خوف کی جھلک دیکھنے کو ملی تھی ۔ سیٹھ عبدل کریم نے بغیر کسی تمہید کے اس سے بات شروع کی ۔” دیکھو ندا تم بھی مجھے اپنی اولاد کی طرح عزیز ہو تو آج اگر میں تمہیں کچھ کہوں تو کیا تم بات مانو گی ؟ ”
ندا نے ہاں میں سر ہلایا ۔ سیٹھ عبدل کریم نے بات مزید آگے برھائی ۔
” بیٹا کل جو ہوا وہ تم نے بھی دیکھا اور تمہارے ساتھ اس غنڈے نے بتمیزی بھی کی اور مجھے چوبیس گھنٹے کا وقت دیا پیسے دینے کے لیے ۔ میں راضی ہوگیا ! مگر کل اسنے پیسوں کے بدلے تمہیں مانگا ہے ندا بچے ! ”
ندا کے سر پر جیسے بم پھوڑ دیا گیا ہو اسنے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور بولی ، “میں تو آپ کو آپ کی اولاد کی طرح عزیز ہوں تو اگر آپ کی اپنی اولاد ہوتی تو تب بھی آپ یہ ہی کرتے! !” ، اسکی آنکھیں نم ہوئیں ۔ صالحہ بیگم بولیں ،” تم اپنے صاحب کے لیے اتنا نہیں کر سکتی کیا ؟ کل تو بڑے بڑے بول بول رہی تھی آج کیا ہوا ؟ ”
سیٹھ عبدل کریم نے صالحہ بیگم کو گھورا ۔ اور ندا کی طرف دیکھا ،” ٹھیک ہے بچے پھر ایک ہی حل ہے اس سب کا آپ بھاگ جاؤ یھاں سے بہت دور ! نوراں کی فکر نا کرو اسے ہم پر چھوڑ دو جب حالات ٹھیک ہو جایں تو واپس آجانا سہی ؟”، ندا کو یہ حل بہتر لگا سو اثبات میں سر ہلا گئی ۔ سیٹھ عبدل کریم نے اسے جانے کو کہا ۔ وہ اٹھی اور کمرے سے نکل گئی ۔صالحہ بیگم سیٹھ عبدل کریم کے پاس آکے بیٹھیں
۔ ۔ ۔ ۔ ” یہ یہ کیا کر رہے ہیں آپ کو پتا بھی ہے کیا ؟ ذولقرنین جمال آپ کو قتل کردے گا !” ۔
سیٹھ عبدل کریم نے صالحہ بیگم کو دیکھا اور بولے ، ” مجھے پرواہ نہیں ” ، اور پھر سے کام میں مشغول ہو گیے ۔ صالحہ بیگم اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گیں ۔
__________________________________
ندا سیٹھ عبدل کریم کے کمرے سے نکل کر کچن کی طرف آئی اور بانو کو سب کچھ بتایا بانو پہلے تو سخت پریشان ہوئی مگر پھر ندا کی ہمت بڑھانے کے لیے اسے کہا ” صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں تم چلی جاؤ یہاں سے ! ”
” مگر میں جاؤں گی کہاں ؟ بانو میرا خالہ اما کے علاوہ اور کوئی نہیں اس دنیا میں !” ندا پریشانی سے بولی ۔
“دیکھ ندا ! فلحال اس گھر سے نکل اور یہ میرا فون رکھ لے اس میں صاحب کا اور بیگم صاحبہ کا نمبر ہے ! فلحال تو جا اور جب کسی سہی جگہ پر پہنچ گئی تو صاحب کو کال کر کے بتا دینا جگہ کا نام ! چل اب دیر نا کر اور نکل یہاں سے ! ” ، بانو نے اسے سمجھایا ۔
“ٹھیک ہے !” ندا نے حامی بھری اور بانو کے ہاتھ سے اسکا فون لے کر کواٹر کی جانب چل دی . ۔ اندر داخل ہوئی اور پھر سوچا ،(خالہ اما کو کیا کہوں گی میں ؟ انھیں تو کل کے بارے میں بھی کچھ نہیں پتا ! خیر صاحب خود ہی بتا دیں گے )اسنے نوراں کو دیکھا جو دوا کے زیر اثر سو رہی تھی ۔ ایک ٹھنڈی آہ بھرتے اسنے نوراں کے ماتھے پے بوسا دیااورتین جوڑے کپڑوں کے ایک چادر میں باندھے اور کواٹر سے باہر نکلی ۔ مین گیٹ سے نکلتے ہوے اسنے سیٹھ عبدل کریم کے محل کو ایک آخری نظر سے دیکھا اور سڑک کے کنارے چلنا شروع ہوگیی ۔
__________________________________
ذولقرنین مرزا کے ساتھ اپنے گھر سے نکلا اور سیٹھ عبدل کریم کے بنگلے پہنچا ۔ دھڑلے سے لاؤنج میں داخل ہوا اور صوفے پے بیٹھے سیٹھ عبدل کریم کے قریب آیا ۔ اس اچانک افتاد پے پہلے تو سیٹھ عبدل کریم گھبراۓ مگر پھر سنمبھلے ۔ ” یہ کیا طریقہ ہے کسی کے گھر میں آنے کا ذولقرنین!” ، انہوں نے تھوڑا اونچی آواز میں سوال کیا ۔
ذولقرنین ایک دم بولا :” چلاؤ مت سیٹھ عبدل کریم ! میں اپنی امانت لینے آیا ہوں کہاں ہے ؟ ” ، ساتھ ادھر ادھر نظر دوڑائی ۔ مگر نظر پلٹ کر واپس آگیی ۔
صالحہ بیگم شور کی آواز سن کر کمرے سے باہر آئیں ۔ ذولقرنین کو وہاں دیکھ کر ان کے ہاتھ پیر پھول گیے ۔
سیٹھ عبدل کریم نے جواب دیا : ” نہیں ہے وہ یہاں پر بهگا دیا ہے اسے یہاں سے ! ”
سیٹھ عبدل کریم کا یہ جملہ ذولقرنین پر بجلی بن کے گرا اسنے ایک جھٹکے سے سیٹھ عبدل کریم کا گریبان پکڑا اور اپنے مقابل کیا ۔ اسکی آنکھوں کی سرخی سیٹھ عبدل کریم کا دل ہولا رہی تھی ۔ ذولقرنین زہر خند لہجے میں بولا :” میری چیز کو تم نے غائب کر کے اچھا نہیں کیا سیٹھ عبدل کریم ! سزا تو ملے گی” .
اور ایک جھٹکے سے سیٹھ عبدل کریم کو دور کیا . ۔ وہ لڑکھڑایے مگر پھر سیدھے کھڑے ہوے ۔ ذولقرنین نے اپنی پستول نکالی اور سیٹھ عبدل کریم کے بازو کو نشانہ بنایا ۔ اس سے پہلے کہ وہ فائر کرتا صالحہ بیگم چلاتی ہوئی اسکے قدموں میں بیٹھیں ۔” ایسے نا کرو ! تمہیں خدا کا واسطہ ! مت کرو ! ہم نے اسے بھگایا ضرور ہے مگر ہمیں نہیں پتا کے وہ کہاں گئی ہے ! تم چھوڑ دو ہمیں پلیز! !!!! ”
ذولقرنین بولا: “بھگانے کی سزا تو ملے گی ” ، اور فائر کیا ۔
گولی سیٹھ عبدل کریم کے بازو کو چیرتی ہوئی دوسری طرف سے نکلی ۔ اور ایک دل خراش چیخ لاؤنج کی دیواروں سے ٹکرائی ۔ صالحہ بیگم نے مڑ کر سیٹھ عبدل کریم کو دیکھا جو اپنا بازو تھامے زمین پے بیٹھتے چلے جا رہے تھے ۔ خون دیکھ کر صالحہ بیگم کی ایک سسکی گونجی ۔ مگر پرواہ کسے تھی . ۔
ذولقرنین بولا :” میں دوبارہ آؤں گا ، اور مجھے پتا لگنا چاہئے کہ وہ کہاں ہے ! سمجھے ! ” ، اور وہاں سے چل دیا ۔ صالحہ بیگم سیٹھ عبدل کریم کی طرف بھاگیں اور بانو کو آواز دی : “بانو ! ڈاکڑ کو کال کر جلدی ! ” –
__________________________________
گاڑی میں بیٹھ کر ذولقرنین مرزا کو بولا :” مرزا ! ڈھونڈو اسے ! مجھے وہ ہر قیمت پے چاہیے ! ” اور آنکھیں موند کے سیٹ کے ساتھ سر ٹکا دیا ۔
مرزا نے اثبات میں سر ہلایا اور گاڑی سٹارٹ کرنے ہی والا تھا کہ مرزا کا فون بجا اس نے ذولقرنین کی طرف دیکھا ۔ ” باس ! ضیاء صدیقی کی کال ہے ! ”
ذولقرنین نے ایک جھٹکے سے اپنی آنکھیں کھولیں اور مرزا سے موبائل لیا ۔
” ہاں ضیاء صدیقی! تو تم آخر پانچ سال بعد واپس آ گیے ! ” ذولقرنین نے تنزیہ کہا ۔ دوسری طرف ایک قہقہ بلند ہوا اور ضیاء کی آواز ابھری ،” واہ ذولقرنین جمال واہ ! تم آج بھی ویسے ہی طنز کرتے ہو جیسے پانچ سال پہلے کرتے تھے ! ”
ذولقرنین بولا : “میں بدلہ نہیں ! خیر کام کی بات کرو ! ”
ضیاء نے کہا :”مگر میں بدل گیا ہوں ذولقرنین جمال ! اور نئے سرے سے ابھرا ہوں! ”
اسکے لہجے میں انتقام کی خوشبو ذولقرنین جمال کو واضح طور پر محسوس ہوئی تھی ۔ ذولقرنین بولا : “کام کی بات کرو ضیاء ! ”
” ہممم سہی ! تو سنو میں تم سے ملنا چاہتا ہوں ذولقرنین جمال! اور وہ بھی آج ! ایک دفعہ بیٹھ کر آمنے سامنے بات ہو جائے پھر ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے !
کیسا ؟ ” ، ضیاء نے اسے مشورہ دیا ۔
ذولقرنین کچھ سوچتے ہوئے بولا :”ٹھیک ہے کہاں ملنا ہے ؟”
ضیاء نے اسے اڈریس بتایا اور کال کاٹ دی ۔ ذولقرنین نے مرزا کو مطلوبہ جگہہ پر جانے کو کہا ۔
__________________________________
ندا کو ایک گھنٹہ ہو چکا تھا چلتے ہوئے اور اب اسکی ٹانگیں مزید ساتھ دینے سے انکاری تھیں ۔ اوپر سے جگہ بھی ایسی تھی سنسان سڑک اور ارد گرد پھیلے درخت ۔ اسے وحشت سی ہوئی ۔ وہ تھوڑا رکی اور پھر چلنے لگی ۔ خالی سڑک کو دیکھ کر وہ سڑک کے درمیان چلنا شروع ہوگیی ۔ اپنے گیان میں وہ چلتی جا رہی تھی کہ کہیں دور سے اسے ہارن کی آواز آئ ۔ اسنے مڑ کر دیکھا تو ایک گاڑی بہت تیزی سے اس کے قریب آ رہی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ سائیڈ پے ہوتی گاڑی اس سے ٹکرا گئی ۔ وہ نیچے گری ۔ ڈرائیور کے بروقت بریک لگانے سے گاڑی رک گیئ سو وہ کچلے جانے سے بچ گئی ۔ اسے اپنے چہرے پے گرم سیال بہتا ہوا محسوس ہوا ۔ بیہوش ہونے سے پہلے اسکی دھندھلی نظروں نے کسی مرد کو دیکھا تھا جو اس سے کچھ پوچھ رہا تھا ۔ مگر پھر سب آوازیں بند ہوگئیں! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
__________________________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...