دو سائے باتیں کرتے تھے
ہنستے کھیلے کودتے سائے
اور دونوں کے بیچ وہی بے معنی جھگڑا
دونوں نے اِک بات سنی
اور دروازوں کی اوٹ میں چھپ کر
گیلی پلکوں کے نیچے دب دب کر
اپنی جانیں دے دیں
ایک ادھورے سچ کا قیدی
دوسرا آدھے سچ کا باسی
دو سچے لوگوں میں جیسے
جھوٹی بحث چھڑی ہوتی ہے
دونوں کو معلوم نہیں تھا
آدھا اور ادھورا
دونوں،
الگ الگ جھوٹے ہوتے ہیں
مل جائیں، تو پھر بنتا ہے پورا سچ!
پھر ایک ادھورے سچ کی خاطر
ہنستے کھیلتے دو سایوں نے
اپنی عمر مکمل کر لی!
(عاطف توقیر)۔
“پھوپو اماں۔۔ میں آپ سے بہت ناراض ہوں ۔۔ آپ تو مجھ سے ملنے بھی نہیں آتی تھیں”۔۔
اس نے پھولے منہ کے ساتھ آملیٹ کا پلیٹ انکے ہاتھ سے لیا تھا۔۔
“پھوپو کی جان۔۔ یہاں جلابیب کو نہیں چھوڑ سکتی نا میں”۔۔
انہوں نے پیار سے اسکی پیشانی چومی۔۔ وہ انکے اکلوتے بھائی کی نشانی تھی۔۔ انھیں بہت عزیز بھی تھی مگر جلابیب سے بڑھ کر تو خیر انھیں کوئی عزیز نہیں تھا۔۔ شاید وشہ بھی نہیں۔۔
“جلابیب سر کی پینٹنگز تو واقعی بہت عمدہ تھیں پھوپو اماں۔۔ ایک الگ سا سحر ہے نا انکی پینٹنگز میں بہت گہرائی تھی۔۔ اور آپ جانتی ہیں پھوپو انہوں نے کہا کے آرٹ کا دل سے گہرا تعلق ہوتا ہے تو کیا انکا دل بہت اداس ہے پھوپو اماں۔۔ انکی شخصیت بہت گہری ہیں پھوپو اماں”۔۔
آملیٹ سے بھرپور انصاف کرتے اس نے دلچسپی سے انھیں ساری بات بتائی ۔۔وہ اپنی باتوں میں انکے چہرے کی اڑتی رنگت نہیں دیکھ سکی تھی۔۔
“انکی مسکراہٹ بہت پیاری ہے پھوپو اماں۔ ۔ مگر اس میں ایک کرب ہے۔۔ جیسے بہت سارے غم اپنے اندر چھپا کر مسکرا رہے ہوں”۔۔
اسکی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک تھی۔۔ انہوں نے دہل کر اسکی جانب دیکھا جو جوس کا گلاس لبوں سے لگائے انکی جانب ہی دیکھ رہی تھی۔۔ اسکی آنکھوں میں انہوں نے وہی چمک دیکھی تھی جو سالوں پہلے جلابیب کی آنکھوں میں نظر آیا تھا۔۔ ایک ملاقات میں وہ اتنا کیسے جان گئی تھی اسے۔۔
وہ کچن میں کھٹ پٹ کی آواز سن کر کچن میں ہی آ گیا تھا۔۔
خالہ بی کو کسی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر وہ کھنکھارتے ہوئے وہیں رک گیا تھا۔۔
“جلابیب۔۔ آؤ بیٹا ۔۔ یہ وشہ ہے میرے بھائی کی بیٹی ۔۔ چھٹیوں میں آئ ہے بیٹا۔۔ بتایا تھا نا میں نے تمہیں”۔۔
انہوں نے اسکا تعارف کروایا ۔۔
“السلام عليكم سر میں وشہ ہوں وشہ حسن ویسے تو کل ہی میں نے اپنا تعارف کروایا ہے۔۔ آپ کو یاد نہیں ہے نا اس لیے دوبارہ بتا دیا میں نے”۔۔
اس نے جوس کا گلاس ختم کرتے ہوئے کہا تھا۔۔ ہاتھ بڑھانے سے گریز کیا تھا۔۔
جلابیب نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا۔۔ پنک ٹی شرٹ اور ٹرازر میں بالوں کی ایک پونی بنائے۔۔ آنکھوں پر گول گول نظر کا چشمہ لگائے وہ ایک بار پھر اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔
اسنے اسکے وجود سے نظریں چرائیں۔۔
“جی یاد ہے مجھے وشہ۔۔ اور خالہ بی نے بتایا تھا آپ کے بارے میں”۔۔
اسکے انداز میں شفقت تھی۔۔
“بیٹھو جلابیب بیٹا ۔۔ ناشتہ تیار ہے تمہارا بیٹا”۔۔
“جی مجھے دے دیں ناشتہ خالہ بی میں کمرے میں ہی کر لونگا”۔۔
اسنے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
“آپ کی مسکراہٹ بہت پیاری ہے جلابیب سر”۔۔
اسکی بات پر اسنے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔۔ یہ کیا کہ رہی تھی وہ۔۔ خالہ بی نے بھی حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔۔
“خالہ بی آپ ناشتہ کمرے میں دے دینگی پلیز “۔۔
اسکی بات کو نظرانداز کرتا اس نے اجازت طلب نظروں سے انکی جانب دیکھا۔۔
“ہاں بیٹا تم تم چلو میں بس لاتی ہوں”۔۔
انہوں نے وشہ کو آنکھیں دکھائی ۔۔
____
“آپ کی مسکراہٹ کتنی خوبصورت ہے رابیل” ۔۔
اپنی ہی کہی ہوئی آواز اسکے کانوں میں گونجی تھی۔۔
وہ عجب کشمکش میں گرفتار ہو گیا تھا۔۔ اسکے آنکھوں کی چمک وہ نظر انداز نہیں کر پا رہا تھا۔۔
“جلابیب بیٹا۔۔ میں معذرت چاہتی ہوں وشہ کی طرف سے یہ لڑکی کچھ بھی کہ جاتی ہے بیٹا”۔۔
وہ واقعی بہت شرمندہ نظر آ رہی تھیں۔۔
“نہیں خالہ بی آپ کیوں مجھے شرمندہ کر رہی ہیں اس طرح”۔۔
اسنے انکے ہاتھ تھامے تھے۔۔
“وہ بچی ہے۔۔ ایسے ہی کہ دیا ہوگا “۔۔
اس نے انسے زیادہ خود کو تسلی دی۔۔
“اسے میرا گمان ہی رہنے دینا میرے اللہ۔۔۔
انکے جانے کے بعد اسنے صوفے کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔ نظریں دیوار پر ٹنگی پینٹنگ پر ٹکی تھیں۔۔ چھم سے کسی کا سراپا اسکی نظروں کے سامنے آیا تھا۔۔ دو آنسوں اسکی آنکھوں سے نکل کر صوفے میں جذب ہوئے تھے۔۔ ایک بار پھر اسکے ضبط کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔۔
کچھ سوچ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
_____
“خالہ بی۔۔ ایک کپ چائے ملے گی”۔۔
وہ کہتا ہوا لاؤنچ میں داخل ہوا ۔۔
سامنے ہی وہ شوکنگ پنک کرتی اور وائٹ ٹراؤزر میں ڈوپٹے سے بےنیاز بالوں کی حسبِ معمول ہائی پونی بنائے وہ کوئی بک ہاتھ میں لئے دنیا مافیا سے بے خبر کتاب میں گم تھی۔۔
“میں چائے بنا سکتی ہوں”۔۔
اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔
“وشہ آپ نہیں رہنے دیں بیٹا ۔ خالہ بی کہاں ہیں؟”۔۔
وہ جتنا اس لڑکی سے گریزہ تھا وہ اتنا ہی اسکی زندگی میں انولو ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
“میں سچ میں اچھی بنا لیتی ہوں چائے جلابیب سر”۔۔
اسنے معصومیت سے کہا ۔۔
“چلیں لے آئیں” ۔۔
وہ مسکرایا تھا۔۔ اور وہ تو اسکی مسکراہٹ میں ہی کہیں گم ہو گئی تھی۔۔
“یہ لیں چائے”۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ چائے لے کر اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔
“میں بچی نہیں ہوں سر”۔۔
اس نے خفگی سے کہا۔۔
“بیٹھیں وشہ۔۔
جلابیب نے سامنے صوفے کی طرف اشارہ کیا ۔۔ وہ خوشی خوشی بیٹھ گئی تھی ۔
“کتاب پڑھ رہیں تھیں آپ”۔۔
اس نے سامنے رکھی کتاب کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔
“جی۔۔ ناول پڑھ رہی تھی۔۔
“قرآن بھی پڑھا کریں وشہ۔۔ جانتی ہیں اللہ پاک قرآن کے زریعہ ہی انسانوں سے مخاطب ہوتا ہے”۔۔
اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
“میں کبھی کبھی پڑھتی ہوں”۔۔
اسنے انگلیاں چٹخائیں۔ ۔
“قرآن تو روز پڑھنے والی چیز ہے وشہ۔۔ جانتی ہیں جب قرآن سے دوستی ہو جاتی ہے جب اللہ آپ سے بات کرنے لگتا ہے تو آپ دنیاوی خواہشات سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔۔ جو مزہ سارے آنسوں اللہ کے آگے بہانے میں ہے۔۔ جو مزہ اللہ سے بات کرنے میں ہے وہ مزہ وہ لذت دنیا کی کسی شے میں نہیں ہے”۔۔
وہ اپنے مخصوص انداز میں کہ رہا تھا اور وہ محسور سی صرف اسے بولتا سن رہی تھی۔۔
“اور ہاں خود کو ڈھانپ کر رکھا کریں۔۔ اللہ نے عورت کو بہت قیمتی بنایا ہے۔۔ اور قیمتی چیزیں ہر کسی کی پہنچ میں نہیں ہوتی”۔۔
اسکے انداز میں اسکے لئے صرف شفقت تھی۔۔
“کیا آپ شروع سے اللہ سے بات کرتے ہیں۔ ۔ آپ کو کس نے سکھایا اتنے پیار سے اللہ کا ذکر کرنا”۔۔۔
اس نے ستائش سے کہا تھا۔۔
“شروع سے تو نہیں۔۔ مجھے بھی کسی نے بہت پیارے انداز میں اللہ سے بات کرنا سکھا دیا ۔۔ اور اب سوچتا ہوں کے وہ تو شروع سے ہی بہت قریب تھا میں نے ہی دیر کر دی اس تک پہنچنے میں۔۔ آپ دیر نہیں کریں۔۔ جب تک چوٹ نہیں پہنچتی ہمیں اللہ یاد کہاں آتا ہے”۔۔
اسے لگا دور کہیں ایک پیاری سی لڑکی کھڑی مسکرائی ہو وہی حسین مسکراہٹ اسکی نظروں کے سامنے آئ تھی ۔۔
“کیا آپ کو بھی چوٹ پہنچی تھی”۔۔
اپنی معصومیت میں اسکی فکر کرتی وہ اسکے مزید اذیت کا باعث بنی تھی۔۔
“ہمممم بہت گہری”۔۔
اسنے بہت دھیمی آواز میں کہا تھا۔۔
“آپ چوٹ لگنے سے پہلے ہی اس سے قریب ہونا سیکھ جائیں وشہ”۔۔
اسکی آنکھوں میں جلتے دئے اسکی نظروں سے مخفی نہیں تھے۔۔ مگر وہ اسے کوئی جھوٹی آس کی ڈور نہیں پکڑوانا چاہتا تھا۔۔
“محبت اس معصوم لڑکی کے بس کا روگ نہیں ہے”۔۔
اسنے ایک نظر اس پر ڈالی تھی جو چہرہ ہتھیلوں پر گرائے اشتیاق سے اسکی جانب ہی دیکھ رہی تھی۔۔
وہ شاید یہ بھول رہا تھا کے
“محبت کا روگ عمر دیکھ کر کب لگتا ہے”۔۔
“میں بھی اللہ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔۔ پر آپ نے ہی تو کہا کے جب تک چوٹ نہیں پہنچتی ہمیں اللہ یاد کہاں آتا ہے”۔۔
اسنے چشمے کے پیچھے اپنی آنکھیں گول کرتے ہوئے فکر مندی سے کہا تھا۔۔
“وہ آپ سے بہت قریب ہے وشہ۔۔ ہم ہی اسے اس تڑپ سے نہیں بلاتے۔۔ وہ تو پکارے جانے کا انتظار کرتا ہے۔۔ کے میرا بندا مجھے پکارے اور میں اسے سمیٹ لوں”۔۔
“پر میں تو بکھری ہی نہیں ہوں”۔۔
اسنے اپنی آنکھیں مزید گول کی تھیں۔۔
“اللہ آپ کو بکھرنے سے محفوظ رکھے”۔۔
اسکی آنکھوں میں گہرا کرب اتر آیا تھا۔۔ فوراً ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔ پیچھے وہ اسکی باتوں میں کھوئی بیٹھی رہ گئی تھی۔۔۔
___
وہ نماز کے لئے اٹھی تو اسکے سامنے ایک حسین منظر تھا۔۔ فرشتے بیڈ کے دوسرے کنارے پر انصر کے سینے پر بیٹھی اس سے کھیل رہی تھی۔۔ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اسکے چہرے پر پھیر رہی تھی۔۔ اسنے باغور انصر کی جانب دیکھا وہ مسکرا رہا تھا کبھی اسکے گال چومتا کبھی اسکے ننھے ہاتھوں کا بوسہ لیتا۔۔ اسکے ہر انداز سے سرشاری جھلک رہی تھی۔۔ رابیل کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ رینگ گئی۔۔ ان دونوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے وہ آرام سے بیڈ سے اٹھی اگلے ہی لمحے اسکی سسکی نکلی۔۔ اپنی خوشی میں وہ پیر پر لگا زخم تو بھول ہی گئی تھی۔۔
“رابیل کیا ہوا۔۔ آرام سے اترو نا”۔۔
وہ جو فرشتے کے ساتھ مگن سا کھیل رہا تھا اسکی آواز پر اسکی جانب متوجہ ہوا۔۔
“کیا ہوا زیادہ درد ہو رہا ہے؟ دکھاؤ مجھے۔۔
اسے پیر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھتے دیکھ وہ فرشتے کو بیڈ پر بیٹھا کر فوراً اسکی جانب آیا تھا۔۔ گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھتا اسکے پیر اپنے گھٹنوں پر رکھ کر فکر مندی سے زخم کا جائزہ لے رہا تھا۔۔
رابیل نے نام آنکھوں سے اسے دیکھا ایک روز قبل یہی شخص تھا جسے اپنے غصے میں اسکے چہرے پر درد کے آثار نظر نہیں آئے۔۔ اور آج خود اپنے ہی دئے زخم پر مرہم رکھ رہا تھا۔۔
“کیوں اٹھ رہی تھی بیڈ سے؟۔۔
اسکی سنجیدہ آواز پر وہ ہوش میں آئ۔۔
“نماز پڑھنی ہے مجھے”۔۔
اس نے انگلیاں مروڑتے ہوئے جواب دیا۔۔
“چلو میں کروا دوں وضو”۔۔
اسکی اگلی بات پر اسے سو واٹ کا کرنٹ لگا تھا۔۔ جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھ رہی تھی جیسے اسے اپنی سماعت پر شک ہو۔۔
“اب زندہ نگلو گی کیا مجھے۔۔ چلو”
اسکے انداز پر وہ بےاختیار مسکرا اٹھا تھا۔۔
وہ اسکے سہارے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی باتھروم تک آئ تھی۔۔ اسکے وضو بنا لینے پر وہ پھر اسی طرح اسے لے گیا تھا۔۔
اسکے لئے جائے نماز بچھا کر اس سے تھوڑا آگے ایک اور جائے نماز بچھایا تھا۔۔ وہ خاموشی سے اسکی ساری کروائی دیکھ رہی تھی۔۔
وہ وضو بنا کر واپس آیا تو وہ اسے اسی پوزیشن میں کھڑے دیکھ غصے میں اسکے پاس آیا ۔۔
“ابھی پیروں پر زور نا پڑنے کی وجہ سے میں تمہیں ایسے لے کر گیا تھا۔۔ تو اب تم کب سے کھڑی کیوں ہو”۔۔
اسے یوں کھڑے دیکھ کر اسکا غصہ سوا نیزے پر پہنچ گیا تھا۔۔
“آپ کا انتظار کر رہی تھی۔۔ جب ساتھ ہی نماز پڑھنا ہے تو آپ کی امامت میں ہی پڑھ لونگی”۔۔
اسنے نرمی سے جواب دیا ۔۔ ساتھ ہی فرشتے کو برابر میں بیٹھائی جو گھٹنوں کے بل چلتی انکے قریب آ گئی تھی اور اب اسکے سہارے کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
اسکی بات پر انصر نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا۔۔ جو آسودگی سے مسکراتی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ وہی نرم سی مسکراہٹ۔۔ کچھ لمحے لگے تھے اسے سمبھالنے میں۔۔ اگلے ہی لمحے وہ خود بھی مسکراتا ہوا نماز کے لئے کھڑا ہو گیا تھا۔۔ اطمینان سے نماز ادا کر کے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔۔
جائے نماز رکھ کر اس نے فرشتے کی جانب دیکھا جو اب بھی دونوں ہاتھ دعا کے انداز میں چہرے پر رکھے زور زور سے ہل رہی تھی۔۔
انصر نے بھی اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔۔ اگلے ہی لمحے وہ دونوں ہی کھل کر ہنسے تھے۔۔
“چلو”۔۔
اس نے اسکی جانب ہاتھ بڑھایا تھا رابیل نے استفامیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا پھر ایک نظر اسکی چوڑی ہتھیلی پر ڈالی۔۔
کچھ جھجکتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دے دیا۔۔
“بالکونی میں چلیں۔۔ اس وقت موسم بہت حسین لگتا ہے”۔۔
اس نے بناء کچھ کہے قدم بالکونی کی جانب بڑھا دئے۔۔
اسے بالکونی میں چیئر پر بیٹھا کر وہ فرشتے کو گود میں لئے خود بھی وہیں آ گیا تھا۔۔
“مم ما فشے۔۔ فشے مم ما پاس”۔۔
اسے سامنے دیکھتے ہی وہ فرشتے نے دونوں ہاتھ اسکی جانب بڑھائے تھے۔۔ انصر کے مسکراتے لب سکڑے ۔۔
“آجاؤ آنی کی جان”۔۔
رابیل نے اٹھ کر اسے لینا چاہا۔۔ اس نے آگے بڑھ کر خود ہی فرشتے کو اسکی گود میں دے دیا تھا۔۔
“ہاہاہاہا فشے بس بیٹا۔۔
اسکے گود میں جاتے ہی فرشتے نے اپنا منہ اسکے چہرے سے لگایا۔۔ اسکے اس طرح کرنے سے اسکی ناک اسکے منہ میں جا رہی تھی۔۔ یہ اسکا پیار کرنے کا مخصوص انداز تھا جو خاص رابیل کے لئے ہی تھا۔۔
وہ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔۔
انصر نے بھی کچھ حیرت سے فرشتے کی جانب دیکھا۔۔
جو خود بھی ہنستی اب بھی وہی حرکت کر رہی تھی۔۔
“فشے بس میری جان۔۔
اسنے ایک نظر کھلکھلاتی ہوئی رابیل کو دیکھا۔۔ وہ اس طرح بہت کم ہی ہنستی تھی۔۔ ہاں عرش کی ہر بات پر وہ اسی طرح ہنستی تھی۔۔ عرش کے بعد تو اسکی یہ ہنسی کہیں کھو ہی گئی تھی۔۔ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا آج سے پہلے وہ کب اتنا کھل کر ہنسا تھا۔۔
“عرش۔۔ آپ تو اپنے ساتھ ہماری مسکراہٹیں بھی لے گئیں”۔
اسنے آنکھوں میں آئ نمی کو اندر دھکیلا۔۔ عرش اب اسکی زندگی میں نہیں تھی وہ حقیقت تسلیم کر رہا تھا مگر کچھ وقت درکار تھا۔۔
ابھی کچھ وقت ہے باقی سبھی نقش مٹ جانے میں۔۔
ابھی کچھ وقت ہے باقی سبھی یادیں بھلانے میں۔۔
ابھی کچھ وقت ہے باقی تجھ کو بھول جانے میں۔۔
ابھی کچھ وقت ہے باقی۔۔ ابھی کچھ وقت ہے باقی۔۔
(از قلم ۔۔ لائبہ ناصر )
اسنے گہری سانس لے کر رابیل کی جانب دیکھا پیچ کلر کے سادہ سے شلوار قمیض میں ہم رنگ ڈوپٹہ چہرے کے گرد لپیٹے وہ باقی دنوں کے مقابلے میں کافی فریش لگ رہی تھی۔۔ وہ اب دونوں ہاتھوں سے فرشتے کو اوپر اٹھائے اسکے ساتھ ہنس رہی تھی۔۔ ہوا کے جھوکے سے اسکے ڈوپٹہ میں سے کچھ لٹیں نکل کر اسکے گال کو چھو رہی تھیں۔۔
۔اُسے کہنا
کسی بھی خوبصورت شام میں
ملنے چلا آئے
مجھے اک نظم لکھنی ہے
سنہری دھوپ کے جیسا
ترا رنگ روپ اجلا سا
دھلے بارش سے دیکھو تو
حسیں پیارے نظارے ہیں
فلک کے استعارے ہیں
یہ تیری آنکھ جیسے ہیں
سو ان سب پر
مجھے اک نظم لکھنی۔۔
بہت پہلے کہیں پڑھی ایک غزل اسے یاد آئ تھی۔۔ بے اختیار اسکے لب ہلے۔۔ رابیل نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا جو آسمان کی طرف دیکھتا بہت دھیمی آواز میں شاید کوئی غزل پڑھ رہا تھا۔۔
“اسے کہنا۔۔
جھومتی چنچل ہواؤں سی
تری اِن شوخ زلفوں پر
مجھے کچھ شعر کہنے ہیں
نشیلی آنکھ میں تیری
شرابوں کی سی مستی ہے
تری ان نرم پلکوں پر
یہ جتنے بھی ستارے ہیں
مجھے ان سب کو چھونا ہے
ترے ان بند ہونٹوں میں
چھپی جو مسکراہٹ ہے
یہی تو شاعری ہے بس
مجھے اک نظم لکھنی ہے۔۔
وہ حیران سی اسے سن رہی تھی۔۔
اُسے کہنا
تری آنکھیں بہت کچھ بولتی ہیں
تری باتیں شہد سا گھولتی ہیں
یہ پھولوں پر گری شبنم
ترے گالوں کے جیسی ہے
چمکتی چاندنی جیسی
تری روشن جبیں پر بھ
مجھے اک نظم لکھنی ہے
گھنی شاخوں کے پتوں میں
چھپا وہ چاند پیارا سا
ترے چہرے کے جیسا ہے
ترے اس چاند چہرے پر
مجھے کچھ شعر کہنے ہیں
اُسے کہنا
مجھے اک نظم لکھنی ہے
کسی بھی خوبصورت
شام میں ملنے چلا آئے
مجھے اک نظم لکھنی ہے..!
“آپ کو دیکھ کر نہیں لگتا آپ اتنی اچھی غزل اتنے اچھے انداز میں پڑھ سکتے ہیں”۔۔
وہ فرشتے کو ٹھیک سے گود میں لیتی مسکرائی تھی۔۔
“یہ غزل مجھے عرش نے سنائی تھی۔۔ لفظ با لفظ یاد ہے مجھے”۔۔
اسکا رخ اب بھی آسمان کی جانب تھا۔۔ البتہ دونوں آنکھیں بند تھیں۔۔
“تمہاری آنکھیں عرش جیسی ہیں مگر مگر میری عرش کی آنکھوں میں کبھی کرب نہیں ہوتا تھا۔۔ انکی آنکھوں میں صرف محبت ہوتی تھی رابیل میرے لئے محبت”۔۔
“تمہاری مسکراہٹ بھی عرش سے الگ ہے۔۔ بہت الگ ہے”۔۔
رابیل نے دیکھا اسکی بند آنکھوں سے آنسوں اسکے گال پر گرے تھے۔۔
“تم بلکل عرش جیسی ہو۔۔ پھر مجھے مجھے تم عرش جیسی کیوں نہیں لگتی۔۔ مجھے عرش کیوں یاد آتی ہیں”۔۔
وہ چیئر سے اتر کر اسکے سامنے آ بیٹھا تھا۔۔ اب کی بار اس نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ اسکی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر ایک لمحے کے لئے تو وہ کانپ ہی گئی تھی۔۔
“کیوں کے میں آپ کی عرش نہیں ہوں انصر۔۔ میں رابیل ہوں۔۔ میں آپ کو کبھی عرش جیسی نہیں لگ سکتی۔۔ آپ مجھ میں عرش کو نہیں ڈھونڈیں انصر۔۔ میرے وجود میں عرش کو تلاش کرتے کرتے آپ رابیل کا وجود بھی ختم کر دینگے”۔۔
اسنے دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھام کر کہا۔۔ وہ خود بھی رو رہی تھی۔۔
“تم بہت اچھی ہو رابیل۔ ۔ مگر تم عرش نہیں ہو اور ستم تو یہ ہے تم بلکل عرش جیسی ہو”۔۔
رابیل نے کرب سے آنکھیں بند کی تھیں۔۔
وہ نرمی سے اسکا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتے کمرے سے ہی نکل گیا تھا۔۔
وہ اسکا دکھ سمجھ سکتی تھی۔۔ مگر وہ اسکا دکھ سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔۔
“جلابیب میں بتا رہا ہوں آئندہ تو نے مجھ معصوم کو راستے سے یوں کڈنیپ کیا نا تو میں پولیس میں کمپلین کر دونگا”۔۔
اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔۔
“چل نا یارا۔۔ اتنی سی بات پر کیوں لڑکیوں کی طرح منہ پھلا رہا ہے”۔۔
کہنے کے ساتھ ہی اسنے اسکے کندھے پر دھموکا جڑا۔۔
“اتنی سی بات۔۔
وہ تقریباً چیخ اٹھا ۔۔
“باہر لنچ کے لالے دے کر تو مجھے گھر لے آیا ہے اور یہ اتنی سی بات ہے”۔۔
اشعر نے اپنا کندھا سہلایا۔۔
“اللہ پوچھے گا تجھ سے جلابیب۔۔ میں معصوم ڈاکٹر تجھے مل گیا ہوں نا اس لئے تو مجھے اتنا ستاتا ہے۔۔ کبھی یہ توفیق تو ہوئی نہیں کے خود آ کر کہ دے۔۔ چل اشعر آج تیری ٹریٹ ہے یارا جتنی چاہے بریانی کھا۔۔ چاہے سے ساتھ میں برگر بھی آرڈر کر۔۔ کولڈ ڈرنک تو ضرور پی۔۔ کبھی کہا تو نے ایسا ۔۔ کہا کبھی بتا مجھے۔۔ وہ تو۔۔
خالہ بی کے ساتھ ٹیبل سجاتے وجود کو دیکھ کر اسکی تیزی سے چلتی زبان کو بریک لگا ۔۔
“جلابیب۔۔ میرے بھائی یہ میری گناہ گار آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں۔۔ یہ ہیری پوٹر کی کچھ لگتی ہمارے گھر میں کیا کر رہی ہے بھائی۔۔ شاید گناہوں کی وجہ سے مجھے ٹھیک نظر نہیں آ رہا”۔۔
اسنے باقاعدہ اپنی آنکھیں مل کر دیکھا۔۔
“ہاہاہا تیری یہ گناہگار آنکھیں بلکل ٹھیک دیکھ رہی ہیں میرے یار۔۔ اور وہ ہیری پوٹر کی کچھ لگتی بہت خونخوار نظروں سے تجھے دیکھ رہی ہے”۔۔
جلابیب نے ہنستے ہوئے سامنے کھڑی وشہ کی جانب اشارہ کیا۔۔
اشعر نے بھی اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔۔
بلیو جینس پر ریڈ کرتی پہنے شانوں پر بامشکل چھوٹا سا اسکارف پھیلائے۔۔ بالوں کی حسبِ معمول ہائی پونی بنائے۔۔۔ آنکھوں پر اپنا گول گول چشمہ لگائے جو اب سرک کر اسکی پتلی ناک پر آ گیا تھا۔۔ وہ واقعی خونخوار نظروں سے ہی اسکی جانب دیکھ رہی تھی .
“میری پیاری خالہ بی۔۔ آپ نے کھانا بنایا ہے نا”۔۔
اس نے فوراً خالہ بی کے سامنے جانے میں ہی عافیت جانی۔۔
“بلکل بیٹا بیٹھو تم میں نکال ہی رہی تھی”۔۔
انہوں نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔۔
“ہاں خالہ بی جلدی کھانا نکال دیں۔۔ ورنہ یہ محترمہ مجھے زندہ ہی چبا جائینگی”۔۔
معصومیت سے کہتے اس نے کرسی سمنبھالی تھی۔۔ جلابیب بھی اسکے انداز پر مسکرا اٹھا تھا۔۔ وہ واقعی اسکا یار تھا۔۔
“ویسے خالہ بی یہ بولنے کی آٹومیٹک مشین ہمارے گھر پر آئ کیسے”۔۔
اس نے کھانے سے بھرپور انصاف کرتے سرسری انداز میں کہا تھا۔۔
“میں وشہ حسن ہوں۔۔ پھوپو۔۔
“ہاں ہاں جانتا ہوں۔۔ آپ کا نام بہت چھوٹا ہے۔۔ ویسے تو آپ کو کچھ بنانا نہیں آتا لیکن چائے اور بیوقوف اچھا بنا لیتی ہیں”۔۔
اسے کچھ کہنے کا موقع دئے بغیر اسنے اسی کے انداز میں ایک ہی سانس میں اسکی پوری بات دوہرائی۔۔
خالہ بی بھی ہنس پڑی تھیں۔۔
“میں یہ پوچھ رہا ہوں۔۔ آپ یہاں کیسے آئیں” ۔۔
اس نے مزید دو کباب اپنی پلیٹ میں ڈالے۔۔
“جی ہاں وہی بتا رہی تھی میں کے میں پھوپو اماں کے بھائی کی بیٹی ہوں ۔۔ اور میں آپ کے گھر نہیں آئی اپنی پھوپو اماں اور جلابیب سر کے گھر آئ ہوں”۔۔
اس نے چبا چبا کر کہا۔۔
“وشہ نا بچے۔۔ بڑوں سے اس طرح بات کرتے ہیں؟ اشعر بیٹا یہ میری بچی ہے۔۔ میرے بھائی کی بیٹی ہے”۔۔
خالہ بی نے اسے ڈپٹنے کے ساتھ ہی اشعر سے اسکا تعارف کروایا۔۔
“انہیں نہیں ڈانٹیں خالہ بی۔۔ یہ بھی تو میری بہنوں کی طرح ہیں”۔۔
اسنے مسکراتے ہوئے وشہ کی جانب دیکھا جو اب کچھ شرمندہ سی نظر آ رہی تھی۔۔
“آپ میری باتوں کو دل پر نہیں لیجیے گا وشہ۔۔ ایکچولی ہماری عرش بھی کچھ کچھ آپ جیسی تھی۔۔ میری چھوٹی بہن ۔۔ وہ بھی بلکل آپ کی طرح ہی میری باتوں پر چڑ جایا کرتی تھی”۔۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرایا۔۔
“تھی۔۔
وشہ نے سوالیہ نظروں سے خالہ بی کی جانب دیکھا۔۔
“انکی ڈیتھ ہو گئی ہے”۔۔
جواب جلابیب کی جانب سے آیا تھا۔۔
” آئ ایم رئیلی سوری اشعر بھائی”۔۔
وہ بھی افسردہ ہو گئی تھی۔۔
“اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے وشہ۔۔
اس نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرے۔۔ وہ بھی مسکرا دی تھی۔۔